محمد بحیثیت تلاوت کرنے والے

نبی ﷺ کے جلیل القدر اعمال میں تلاوت قرآن بھی ہے۔ آپ ﷺ ارشاد باری تعالی: ﴿وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ۚ﴾ ’’ اور یہ کہ میں قرآن پڑھوں۔‘‘ (النمل 92:27) اور ﴿اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ﴾ ’’(اے نبی!) اس کتاب کی تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے۔‘‘ (العنکبوت 46:29) کی تعمیل میں بکثرت تلاوت کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی قراءت قرآن اس کی آیات کی تلاوت کرنے، اس کی ہدایات پر عمل کرنے، اس کی تعلیمات کی پیروی کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے کے لیے ہوتی تھی، جیسا کہ رب العالمین نے فرمایا ہے:

﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۱﴾

’’بے شک اللہ نے مومنوں پر احسان کیا، جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، وہ انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور  یقینًا وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (آل عمران 64:3)

اور آپ ﷺ پر پہلی وحی یہ نازل ہوئی :﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ۝۱﴾  ’’اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔‘‘ (العلق 1:96)

آپ ﷺقرآن مجید کی تلاوت نہایت خشوع و خضوع اور تدبر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر، پوری توجہ اور انہماک سے کرتے۔ دوران تلاوت دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر دل و جان سے اس عظیم کتاب کے ساتھ جڑ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۝۱ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۝۲ نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًاۙ۝۳ اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ۝﴾

’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات میں قیام کیجئیے مگر تھوڑا سا۔ (یعنی) رات کا نصف حصہ، یا اس سے تھوڑا سا کم کیجیے۔ اس پر کچھ زیادہ کیجیے اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔‘‘ (المزمل73: 1۔4)

آپ ﷺ نے رب العالمین کے اس حکم کی تعمیل کی۔

آپ ﷺ کر کھڑے، بیٹھے اور لیٹے قرآن کی تلاوت کرتے۔ فرائض و نوافل میں تلاوت قرآن کرتے۔ اکیلے پڑھتے۔ لوگوں کو پڑھ کر سناتے۔ اس کے ساتھ نصیحت کرتے۔ اسے بیان کرتے۔ اس کی تفسیر فرماتے۔ اس سے مسائل اخذ کرتے کیونکہ آپ ﷺ کا سب سے بڑا مرجع قرآن ہی تھا۔ آپﷺ کے دروس ، مواعظ ، خطبات، فتاوٰی، فیصلے اور قصص و واقعات سب قرآن ہی سے ماخوذ ہوتے۔ آپ ﷺ نہایت خوبصورت آواز میں قرآن کی تلاوت کرتے اور فرماتے: ((لیسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ))

’’جو شخص خوبصورت آواز سے قرآن کی تلاوت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري التوحيد، حديث: 7527)

سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ سے سنا، آپ نماز عشاء میں ﴿ وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِۙ۝﴾ پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔ (صحيح البخاري، التوحيد، حديث: 7546)

حدیث نبوی میں قرآن مجید خوبصورت آواز میں اور ترنم کے ساتھ پڑھنے کی ترغیب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم قرآن مجید سن کر لذت محسوس کرتے تھے۔ آپﷺ نے رات کے وقت سید نا ابو موسی اشعری ہی اللہ کو قرآن پڑھتے سنا۔ ان کی آواز نہایت پرسوز ، شیریں اور خوبصورت تھی۔ آپﷺ خاموشی سے ان کی تلاوت سنتے رہے۔ صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ((يَا أَبَا مُوسَى لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِّنْ مَّزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ))

’’اے ابو موسیٰ! بلا شبہ تجھے سیدنا داؤد علیہ السلام جیسی خوش الحانی اور خوبصورت آواز دی گئی ہے۔“ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حديث: 5048)

سید نا عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرمﷺ کی  تلاوت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺکے ساتھ قیام کیا۔ آپ نے قیام میں سورہ بقرہ کی تلاوت فرمائی۔ آپ جس کسی آیت رحمت سے گزرتے تو وہاں رکھتے اور دعا کرتے اور جس کسی آیت عذاب سے گزرتے تو وہاں رکتے اور تعوذ کرتے ، یعنی اللہ کی پناہ پکڑتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث: 873)

آپ ﷺ تلاوت قرآن سے لطف اٹھاتے۔ دلی لگاؤ سے تلاوت کرتے اور غور و تدبر کے ساتھ تلاوت کرنے کا حکم دیتے۔ آپﷺ فرماتے:

’’قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن (حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں) کا سفارشی بن کر آئے گا۔ دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں : البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی دو ڈاریں ہوں۔ وہ اپنی صحبت والوں (پڑھنے اور عمل کرنے والوں) کی طرف سے دفاع کریں گی۔ سورۂ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے چھوڑنا باعث حسرت ہے اور باطل پرست (جادوگر ) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث (804)

دیکھیں، رسول اکرم ﷺنے کس طرح خوبصورت انداز میں قرآن کی برکت بیان کی ہے اور دنیا و آخرت میں قرآن پڑھنے والے کے خوبصورت انجام کا تذکرہ کیا ہے۔

ام المؤمنین سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺکسی سورت کی تلاوت کرتے اور اسے اس ترتیل کے ساتھ پڑھتے کہ وہ لمبی سے لمبی ہوتی چلی جاتی۔ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 733)

یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی قراءت ترتیل، گہرائی اور تدبر پر مبنی ہوتی۔ آپ نا پسندیدیدگی کے ساتھ اور جلدی جلدی نہیں پڑھتے تھے۔

سیده ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی قراءت میں ہر آیت پر ٹھہرتے تھے۔﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝﴾ پڑھ کر ٹھہر جاتے۔  ﴿الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ﴾ کے بعد ٹھہر جاتے اور اس آیت کو (بلا الف ) ((مَلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ۝)) پڑھتے۔ (جامع الترمذي، أبواب القراءات، حديث: 2927)

نبی ﷺ کا ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا اس عظیم کتاب کے معانی میں تدبر اور غور وفکر کرنے کا طریقہ ہے۔ نبیﷺ کے قرآن مجید کے ساتھ عظیم تعلق، محبت اور شوق تلاوت کی بنا پر آپ ہر روز قرآن کا ایک مخصوص حصہ تلاوت کرتے تھے۔ ایک روز آپ ﷺثقیف کے وفد سے ملاقات کے لیے دیر سے پہنچے تو انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آج آپ پہلے سے زیادہ تاخیر سے ہمارے پاس آئے۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرا قرآن کا وظیفہ پڑھنے سے رہ گیا تھا تو میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو پورا کیے بغیر مسجد سے نکلوں۔‘‘ (سنن ابن ماجه إقامة الصلاة، حديث: 1345 إسناده ضعیف)

آپ ﷺ کا قرآن کے ساتھ تعلق نہایت خشوع و خضوع پر مبنی تھا۔ آپﷺ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے نہایت فرماں برداری، چاہت، ڈر، خوف و امید، محبت و تکریم اور تعظیم و تقدیس کے ساتھ اس کی تلاوت کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنی عظیم کتاب کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ۖۗ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِكْرِ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ هُدَی اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ۝﴾

’’اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی (یعنی) ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے، بار بار دہرائی جانے والی۔ اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل اللہ کی یاد کی طرف نرم (ہو کر مائل ) ہو جاتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے۔ وہ اس کے ذریعے سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘‘ (الزمر23:39)

قرآن مجید آپ ﷺکا غم خوار، ہم نشین، رفیق و یار، دل کی بہار، روح کا قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔ آپ ﷺ دن رات ، سفر و حضر میں اس کی تلاوت کرتے۔ آپ سواری پر بھی تلاوت کرتے ، جیسا کہ سیدنا عبدالله بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا۔ آپ اس وقت سوره فتح بڑی خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4281)

اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کو ضمانت دی تھی کہ وہ قرآن مجید یاد کرنے اور لوگوں کے سامنے بیان کرنے میں آپ کی مدد کرے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ۝ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ۝ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗۚ۝ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗؕ۝﴾

’’(اے نبی!) آپ اس (قرآن) کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔  یقینًا اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کا اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔ پھر جب ہم اسے پڑھ چکیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر  یقینًا اس کی وضاحت کرنا ہمارے ذے ہے۔‘‘ (القيامة 16:75-19)

 جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو نبی اکرمﷺ قرآن مجید پر خوب توجہ دیتے۔ اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام رمضان المبارک میں ہر رات   نبی ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ سے قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حديث: 3220)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ ت عالی عنہاسے نبی ﷺ کی قراءت کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ خاموشی سے پڑھتے تھے یا بلند آواز سے؟ انھوں نے کہا: آپ ہر طرح کر لیتے تھے۔ کبھی خاموشی سے پڑھتے اور بھی بلند آواز ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1437)

چنانچہ آپ ﷺ تلاوت میں بھی آسانی کرنے والے تھے۔ کبھی آپ ﷺ آواز بلند تلاوت کرتے اور کبھی حالات کے پیش نظر آہستہ تلاوت کرتے۔

آپ  ﷺ مسلمانوں کو بھی تلاوت قرآن اور اس میں غور و فکر کرنے کا حکم دیتے اور اس سے روگرانی کرنے سے منع کرتے تھے۔ آپ ﷺ  نے فرمایا :

((تَعَاهَدُ والقُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِّنَ الْإِبْلِ فِي عُقْلِهَا))

’’قرآن مجید ہمیشہ پڑھتے رہو اور اس کا دور کرتے رہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ قرآن اونٹ کے اپنی ری تڑوا کر بھاگ جانے سے زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5033)

آپ ﷺ نے بار بار قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا شوق دلایا اور بتایا کہ ہر حرف کے بدلے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی کا اجر دس گنا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھتا ہے تو اسے اس کے عوض ایک نیکی ملے گی اور نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الف ایک حرف ہے (کیونکہ یہ ایک کلمہ ہے ) لیکن الف ایک حرف ہے، لام دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے۔ (جامع الترمذي، فضائل القرآن، حديث: 2910)

اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ))

’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے ؟ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔‘‘ (صحيح البخاري، فضائل القرآن، ، حدیث:5027)

یہ قرآن مجید پڑھنے پڑھانے والوں کی عزت افزائی کے لیے عظیم ترین گواہی ہے جو ہادی کا ئنات اور پیکر صداقت نے دی ہے۔

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ))

’’اللہ تعالی اس کتاب (قرآن) کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو اونچا کرتا ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعے سے نیچے گراتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: (817)

چنانچہ عزت و ذلت کا دار و مدار قرآن مجید ہے۔ اگر قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کی پیروی کی جائے تو عزت و رفعت ہے اور اگر اس سے منہ موڑا جائے اور اسے پس پشت ڈال دیا جائے تو ذلت و رسوائی مقدر بنتی ہے۔

آپ ﷺ قرآن مجید سے گہرا تعلق رکھنے والوں کی نہایت عزت و توقیر کرتے اور انھیں اپنے قرب کا شرف عطا فرماتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

((وإِنَّ لِلهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ هُمْ ؟ قَالَ: «هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ، أَهْلُ

اللهِ وَخَاصَّتُهُ))

’’بلاشبہ لوگوں میں سے اہل اللہ بھی موجود ہیں۔ کسی نے کہا: اہل اللہ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قرآن والے اللہ تعالی کا اہل اور اس کے بندگان خاص ہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجه، المقدمة، حديث: 215)

آپﷺ قرآن والوں کو ہمیشہ مقدم رکھتے اور فرماتے : ((يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ))

’’قوم کی امامت وہ کرائے جو اللہ کی کتاب کا زیادہ اچھا قاری ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حديث: 673)

جب آپ ﷺ کے سامنے شہدائے احد کو لایا گیا تو آپﷺ نے پوچھا: ’’ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے؟‘‘  اور جسے قرآن زیادہ یاد ہوتا، اسے قبلے کی جانب پہلے قبر میں رکھتے۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ شہدائے احد میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے تھے، پھر فرماتے: ان میں سے کسی کو قرآن زیادہ یاد ہے؟ جب ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو اسے لحد میں آگے کرتے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حديث: 1347)

آپ ﷺنے خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ اہل قرآن کو اپنی جنتوں میں عزت و تکریم سے نوازے گا اور ان کی قدرو منزلت خوب بڑھائے گا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا۔ اور اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھ، جیسے تو دنیا میں پڑھا کرتا تھا۔ جہاں تو آخری آیت ختم کرے گا، وہیں تیرا مقام ہو گا۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1464)

آپ ﷺ نے اہل قرآن کے شرف و فضل اور بلند مرتبے کا ذکر فرمایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے تھوڑے سے لوگوں کا ایک سریہ بھیجا تو ہر ایک سے قرآن سنا کہ اسے کتنا یاد ہے۔ جب ایک کم عمر نو جوان کی باری آئی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے فلاں تجھے کیا یاد ہے؟‘‘ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورۂ بقرہ یاد ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں سورہ بقرہ یاد ہے؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ، تم ان سب کے امیر ہو۔‘‘ (جامع الترمذي، فضائل القرآن، حديث: 2876)

آپ ﷺ نے خبر دی کہ قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر عمل میں مقابلہ کروں۔ اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ قرآن ہی وہ عظیم کتاب ہے جس کے پڑھنے والے پر رشک کیا جا سکتا ہے، چنانچہ آپ خلاق اور نے فرمایا:

((لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ))

’’رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالی نے قرآن دیا اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے مال دیا اور وہ اسے دن رات خرچ کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث: 7529)

نبیﷺ نے اللہ تعالی کی پسند کے مطابق بہترین تلاوت کرنے کی بھر پور کوشش کی ترغیب دی، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَّهُ أَجْرَانِ))

’’قرآن مجید کا ماہر قرآن لکھنے والے انتہائی معزز اور اللہ تعالی کے فرماں بردار فرشتوں کے ساتھ ہوگا، اور جو انسان قرآن مجید پڑھتا ہے اور ہکلاتا ہے اور پڑھنا اس کے لیے مشقت کا باعث ہے، اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:798)

آپ ﷺ نے ہمیں اللہ تعالی کے فرمان کے ساتھ خوشخبری دی ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۝۱۰۲﴾

’’کہہ دیجیے: اس (قرآن ) کو روح القدس (جبریل) نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے، تاکہ اللہ تعالی ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہو۔‘‘ (النحل102:16)

اور اللہ تعالی نے اپنے کریم نبی ﷺ پر اس عظیم کتاب کے نزول کے احسان عظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

﴿اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْهِمْ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠۝﴾

’’ کیا انھیں (یہ نشانی) کافی نہیں کہ بے شک ہم نے آپ پر (یہ) کتاب نازل کی جو ان پر پڑھی جاتی ہے۔ بلا شبہ اس میں ان لوگوں کے لیے  یقینًا بڑی رحمت اور نصیحت ہے جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘ (العنکبوت 51:29)

آپﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، وہ  فرماتی ہیں: بلاشبہ اللہ کے نبیﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرين، حدیث: 746)

گویا آپﷺ کی شخصیت قرآن کی عملی تصویر تھی۔ آپ نے قرآن کے احکام پر عمل کیا اور اس کے منع کیے ہوئے امور سے باز رہے۔ قرآن میں مذکور آداب اپنائے اور اس کے بیان کیے ہوئے اخلاق سے خود کو آراستہ کیا۔

قرآن مجید میں جس اچھی خوبی کا بھی ذکر ہوا ہے، وہ آپ ﷺ کے آداب و اخلاق کا حصہ تھی۔ آپ کی زندگی پر قرآن کا راج تھا۔ آپ کے تمام امور لمحات اور حرکات و سکنات قرآن کے تابع تھے۔ آپ ﷺنے قرآن کے حلال کو حلال قرار دیا اور اس کے حرام کو حرام سمجھا۔ اس کی محکم آیات پر عمل کیا۔ متشابہات پر ایمان لائے۔ اس کے وعدہ وعید کی تصدیق کی۔ اس کے ذکر عذاب پر روئے اور اس کی خوشخبریوں پر خوش ہوئے۔ اس کے قرب سے مانوس اور اس کی تلاوت سے خوش ہوئے، چنانچہ قرآن مجید آپ کے دل کی بہار، آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کا قرار تھا۔ آپﷺ قرآن کے ساتھ بولتے۔ قرآن کے ساتھ فیصلہ کرتے۔ قرآن کے ساتھ نصیحت کرتے۔

قرآن کے ساتھ بیان کرتے ، اور قرآن کے ساتھ فتوی دیتے کیونکہ قرآن اللہ تعالی کا کلام اور غلطیوں سے پاک ایسا معجزہ ہے جس کے بارے میں رب العزت نے فرمایا:

﴿لَّا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ ؕ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝﴾

’’باطل اس کے پاس پھٹک بھی نہیں سکتا، اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے ہے۔ یہ کمال حکمت والے، خوب تعریف کیے ہوئے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔‘‘ (حمٓ السجدة 42:41)

آپ ﷺکے سینے میں قرآن کے سوا کوئی کتاب نہ تھی۔ نہ آپ کے پاس کوئی مکتبہ تھا، نہ کتا ہیں، نہ تالیفات اور نہ رسائل و مجلدات۔ آپ کے پاس صرف یہی مقدس و مبارک کتاب قرآن مجید تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے قرآن کے تمام حقوق ادا کیے۔ آپ ﷺدن رات اس کی ویسے تلاوت کرتے جیسے اللہ تعالی کو پسند تھی۔ اس پرصحیح معنوں میں غور و تدبر کرتے جس سے رب تعالیٰ کو راضی کرنا مقصود ہوتا۔ آپ اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کو اس کی تعلیم دیتے۔ اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے۔ خود بھی اس سے شفا حاصل کرتے اور لوگوں کو بھی اس سے شفا پہنچاتے۔ آپ ﷺ نے اسے حاکم تسلیم کیا اور امت کے لیے بھی حاکم قرار دیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ﴾

’’اور (اے نبی !) آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے۔‘‘ (المائدة 49:5)

نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ کے پاس اکیلا قرآن مجید ہی تھا جس کے ساتھ انھوں نے لوگوں کے دل و دماغ، کان، آنکھیں اور شہر فتح کیے۔ انھوں نے قرآن کے ساتھ قیصر و کسری کے تحت ہلا دیے اور روم و فارس کے خزانے فتح کر لیے۔ انھوں نے اس قرآن کے ساتھ انسانیت کے لیے سب سے بڑی تہذیب کی بنیاد رکھی۔ قرآن کے ساتھ پوری دنیا میں عدل عام کیا اور اس کے ساتھ ہی انسانیت کو بت پرستی اور جاہلیت کی تاریکی سے نکالا۔ امت کے لیے آپ ﷺ کی سب سے عظیم وصیت قرآن مجید پر عمل کرنے کی تھی۔ سیدنا طلحہ بن مصرِّف سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا: کیا نبی ﷺ  نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: پھر لوگوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا؟ لوگوں کو تو وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خود آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ انھوں نے کہا: آپ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حديث: 5022)

آپ ﷺنے اللہ تعالی کی کتاب کو تھامنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا کیونکہ یہ نجات اور امن کا سفینہ ہے۔ آپ ﷺ  نے فرمایا:

((أَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ، أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ، فِيهِ الهُدًى وَّالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ))

’’اور میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے، لہٰذا  اللہ کی کتاب کو لے لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ‘‘ (صحيح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:2408)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا۝۱۷۴

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍ ۙ وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ۝﴾

’’اے لوگو ! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس ایک دلیل آگئی ہے، اور ہم نے تمھاری طرف ایک واضح نور نازل کیا ہے۔ پھر جو لوگ اللہ پر ایمان لے آئے اور اس (کے دین) کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو وہ ضرور انھیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا، اور انھیں اپنی طرف (پہنچنے کے لیے) سیدھا راستہ دکھائے گا۔‘‘ (النساء 174:4)

آپ ﷺ نے یہ بھی بتایا کہ جب اس امت میں فتنے رونما ہوں گے تو ان سے نکلنے کا واحد حل بھی اللہ تعالی کی کتاب اور اس پر عمل ہو گا۔ سیدنا حذیفہ ﷺ کی حدیث میں ہے کہ جب نبی اکرمﷺ نے انھیں امت میں رونما ہونے والے فتنوں کے بارے میں بتایا تو انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اگر میں وہ دور پالوں تو کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’ اے حذیفہ! اللہ کی کتاب سیکھو اور جو اس میں ہے، اس کی اتباع کرتے رہو۔‘‘ آپ نے یہ تین بار فرمایا۔ (سنن أبي داود، أول كتاب الفتن، حديث: 4246)

اے ایمان والو! تم پر لازم ہے کہ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرو۔ اسے یاد کرو۔ اس پر تدبر کرو۔ اس پر عمل کرو۔ اس کے ساتھ شفا طلب کرو۔ اسے اپنا فیصل مانو۔ اس کے حقوق ادا کرو تا کہ تم اس کے خزانوں اور جواہرات سے مستفید ہو سکو۔ اور وہ اللہ تعالی کے حکم سے تم پر خیر و برکت، امن و سلامتی، توفیق و کامیابی اور سعادت و خوش بختی کے دروازے کھول سکے۔ سفر و حضر میں قرآن کو اپنا ساتھی اور غم خوار بنا ئیں۔ نمازوں میں اس کی تلاوت کریں۔ اسے تہجد میں پڑھیں۔ اس کی آیات پرسوز آواز میں پڑھیں۔ اس کے عجائبات پر رکیں۔ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔ اس کے منع کیے ہوئے امور سے باز رہیں۔  یقینًا اللہ تعالی اس کے ذریعے سے تمھیں ہر بیماری سے بچائے گا اور ہر بلا سے تمھاری حفاظت کرے گا۔

یاد رکھیں کہ اس کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں اور اس مبارک کلام کے ذریعے سے تم اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہو۔ کلام اللہ کی قراءت اور اس پر عمل سب سے افضل عبادت ہے۔

اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جو کماحقہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اس پر غور و فکر کرتے ہیں اور اس پر صحیح معنوں میں عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالی پیشی کے دن اسے ہمارا سفارشی بنائے۔ یہ ہمارے حق میں گواہی دے نہ کہ ہمارے خلاف۔ اللہ تعالی اس کی برکت سے ہمارا حساب آسان کرے۔ نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دے۔ ہمارے گناہ بخش دے۔ ہمارے عیبوں کی اصلاح کرے۔ ہمارے دل روشن کر دے اور اپنا ذکر ، شکر اور اچھی عبادت کرنے پر ہم سب کی مدد فرمائے۔ اللہ تعالی درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے اس ہستی پر جسے اللہ تعالی نے قرآن دے کر مبعوث فرمایا اور ہمیں اپنی خوشنودی والی جنتوں میں آپ ﷺ کا پڑوس عطا کرنے کا وعدہ فرمایا

………….