محمد ﷺ یتیم کے روپ میں
رسول اکرمﷺ ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر ہی میں تھے کہ تکلیفوں، آلام و مصائب اور یتیمی کا سفر شروع ہو گیا۔ تصور کریں کہ دنیا میں آنے سے پہلے باپ کے سایہ شفقت سے محرومی آپ ﷺکے لیے کتنا بڑا امتحان تھا۔ آپ کا کام نے اپنے والد سے ’’اے میرے بیٹے‘‘ کی آواز سنی نہ زندگی بھر ’’ اسے ابا جان!“ کا کلمہ بول پائے۔ آپ ﷺکو ایک وفعہ بھی باپ کی گو وہ مسکراہٹ یا پیار نصیب نہ ہوا۔ یتیمی کی یہ صورت بہت زیادہ تلخ سخت اور تکلیف دہ ہے۔
آپ ﷺکے والد محترم کے ننھیال کا تعلق بنو نجار سے تھا۔ وہ مدینہ طیبہ میں اپنے ماموؤں سے ملنے گئے تو وہاں بیمار ہو گئے اور وہیں وفات پائی۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا لطف و کرم دیکھیں کہ جو بنو نجار آپ کے والد کے ننھیال تھے، وہی بعد میں رسول اکرمﷺ کے انصار ہے۔
نبی ﷺپیدا ہوئے تو یتیم تھے۔ والدہ ماجدہ نے عربوں کے رواج کے مطابق رضاعت کے لیے آپ کو حلیمہ سعدیہ کے حوالے کر دیا۔ اس زمانے میں عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ ولادت کے بعد بچوں کو رضاعت کے لیے دیہاتی عورتوں کے سپرد کر دیتے تھے تاکہ صحت مند ماحول میں پرورش پانے سے ان کے جسم مضبوط ہوں اور دیہات کی فصیح و بلیغ زبان سیکھیں، نیز شہروں کے وہائی امراض سے محفوظ رہیں۔
آپ ﷺ ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر حلیمہ سعدیہ کے ساتھ قبیلہ بنو سعد کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ شیر خوار بچہ یتیمی کے عالم میں اجنبی کی حیثیت سے محو سفر ہے۔ ایک کمزور بوڑھی اونٹنی آپ کی سواری ہے لیکن یہ بچہ جہاں پڑاؤ کرتا اور ٹھہرتا ہے، وہاں خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔ سکون و اطمینان اس بچے کے ہمرکاب ہے۔ آپﷺ مدت رضاعت وہیں بنو سعد میں گزارتے ہیں۔ آپ ﷺوہاں جاتے ہی خیر و برکت کی کثرت ہو جاتی ہے اور موسلا دھار بارشیں خوب برستی ہیں جس سے بنو سعد کا یہ گھرانا، جہاں آپ مقیم ہیں، خوشحال ہو جاتا ہے۔
جب آپﷺ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی وفا شعار والدہ سیدہ آمنہ بنت وہب نے مدینہ طیبہ میں موجود آپﷺ کے والد کی قبر کی زیارت کا ارادہ کیا۔ انھوں نے اپنے یتیم لخت جگر محمدﷺ اور آپ کی آیا ام ایمن رضی اللہ تعالی علیہا کو بھی ساتھ لے لیا۔ تین افراد پر مشتمل اس چھوٹے سے قافلے نے تین سو میل کا یہ صحرائی سفر پیدل طے کیا۔ ان کے پاس نہ کوئی سواری تھی کہ جس پر سوار ہوتے، نہ من پسند کھانا تھا اور نہ وافر خوراک تھی۔ تپتے صحرا میں دشوار گزار پہاڑیوں اور گرم چٹانوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے مکہ سے مدینہ کا سفر طے ہوتا ہے۔ کاش! میں جان پاتا کہ چھ سال کی عمر میں سر پر یتیمی کا بوجھ اٹھائے والدہ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے آپ ﷺ کا زاد راہ کیا تھا ؟! دوران سفر میں آپ کیسا کھانا کھاتے تھے ؟! آپ نے کس قسم کے کپڑے زیب تن کر رکھے تھے اور پاؤں میں کیسے جوتے پہنے ہوئے تھے ؟! تکلیف دہ یتیمی کے علاوہ فقر و فاقہ اور بھوک پیاس آپ کے قدموں کو مزید بوجھل کر رہے ہوں گے۔ چشم تصور سے دیکھیں: آپ کسی برتن میں کھاتے ہوں گے؟ کسی پیالے میں نوش کرتے ہوں گے اور کیسے بستر پر سوتے ہوں گے؟
بالآخر آپ اپنے والد کی قبر پر پہنچے جنھیں آپ نے زندگی میں ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کی شفقت اور پیار کا ایک لمحہ بھی آپ کو میسر نہ آیا تھا۔ ابھی بوجھل قدموں کے ساتھ پلٹے ہی تھے اور مکہ کی طرف زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ بیمار ہو گئیں۔ بیماری کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ ان پر نزع کا عالم طاری ہو گیا۔ ان کے لخت جگر محمدﷺ ان کے سامنے کھڑے ہیں اور خود سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوتی اپنی ماں کو دیکھ رہے ہیں۔ روح جسم سے نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ موت کی مصیبت اور معصوم لخت جگر کی یوں تنہائی کی تاب نہ لاتے ہوئے ماں کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر جاتی ہے۔ صحرا کی وحشت اس صدمے کی شدت اور تلخی کو اور بڑھا دیتی ہے۔ ام ایمن آپ ﷺ کی والدہ کی تدفین کے لیے صحرا میں قبر کھودنے کی کوشش کرتی ہیں اور آپ بھی اپنے معصوم و نرم ہاتھوں سے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ میرے باپ آپ پر قربان! آپ کی روح بھی گویا ماں کی روح کے ساتھ محو پرواز ہے۔
کائنات میں بھلا اس سے بڑھ کر غمناک تکلیف دہ، دل کو پاش پاش کر دینے والا اور آنسوؤں کے بندھن توڑ دینے والا منظر کیا ہو سکتا ہے کہ ایک چھ سال کا معصوم اپنی ماں کے جسد پر مٹی ڈال رہا ہے اور ان کی قبر پر ریت اکٹھی کر کے ان کے جسم کو چھپا رہا ہے۔ صحرا کی وحشت اس پر مستزاد تھی اور سر پر باپ کا سایہ بھی نہ تھا۔ کیا زندگی میں اس سے بڑا غم بھی کوئی ہے کہ آپ ابھی پچپن کی نازک عمر میں ہوں اور صحرا میں اپنی والدہ کو دفن کر کے ماں باپ کے بغیر اکیلے ہی بو جھل قدموں سے گھر لوٹیں اور آپ کو سمجھ نہ آرہی ہو کہ جاؤں تو کدھر جاؤں ؟ اور کس کے پاس جاؤں ؟! یہ تصور ہی دل دہلا دیتا ہے ؟؟
دَفَنْتُ فُؤَادِي فِي رُبَي الْبَيْدِ وَالِهَا فَلِلّٰهِ مِنْ خِطْبٍ بَدَا وَ دَهَانِي
فَيا لَيْتَ قَلْبِي قَبْرَهَا بَيْنَ أَضْلُعِي لَأَحْمِلَهَا طُوْلَ الْمَدٰى بِكِيَانِي
’’ میں نے بیابان کے ٹیلوں پر اپنے دل کو والہانہ انداز میں دفن کر دیا۔ اللہ کی قسم! کس قدر خوفناک آنتوں نے سر اٹھایا اور انھوں نے مجھے دہشت زدہ کر دیا۔ کاش! میرے سینے میں موجود دل ان آفتوں کی قبر بن جائے اور میں زندگی بھر انھیں اپنے وجود میں اٹھائے پھروں۔‘‘
آپﷺ تھکے ماندے، شکستہ دل اور غم و الم سے نڈھال اپنی آیا ام ایمن کے ساتھ مکہ کا سفر جاری رکھتے ہیں اور بالآخر یتیمی کا غم لیے بو جھل قدموں سے مکہ پہنچ جاتے ہیں۔ آپ مکہ کی گلیوں سے گزرتے ہیں۔ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں سے لاڈ پیار کرتے ہیں، انھیں سینے سے لگاتے ہیں۔ مائیں پیار محبت سے اپنے بچوں کو گلے لگاتی ہیں لیکن آپ سے کوئی لاڈ پیار کرنے والا ہے نہ سینے سے لگانے والا۔
میں قربان جاؤں! اب آپ کے کھانے پینے اور لباس کی فکر کون کرے گا؟ آپ کو بستر بچھا کر کون دے گا؟ آپ کی صحت اور راحت و آرام کا خیال کون رکھے گا؟ نہ باپ ہے جو آپ سے لاڈ پیار کرے، نہ ماں ہے جو آپ سے ہنسی مذاق کرے، نہ بھائی ہے جو ساتھ کھیلے، نہ بہن ہے جو آپ کے ناز نخرے اٹھائے اور غم خواری کرے اور نہ اہل خانہ ہیں جو تسلی دیں ؟!
یتیمی کے دکھ درد، جدائی کے غم، فقر و فاقہ کی اذیت اور حالات کی شدت کے باوجود محمد ﷺ اعلیٰ صفات کے حامل اور عمدہ خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ کی جوانی بے داغ، پاک دامنی اور زہد و ورع کا نمونہ تھی۔ آپ پیکر شرم و حیا، مرقع آدابِ جمال، لطف و کرم کے اعلٰی مرتبے پر فائز اور انتہائی رحیم و شفیق تھے۔
پھر آپﷺ اپنے دادا عبد المطلب کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ آپ کو سینے سے لگاتے ہیں۔ اپنے تمام بچوں سے بڑھ کر آپ سے پیار کرتے ہیں۔ آپ پر لطف و کرم اور شفقت کے پھول نچھاور کرتے ہیں مگر تھوڑا عرصہ بعد ہی عبد المطلب بھی فوت ہو جاتے ہیں اور آپ ﷺکی کفالت کی ذمہ داری آپ کے چا ابوطالب اٹھا لیتے ہیں۔
آپﷺ نے بچپن ہی سے اپنی عظمت کے انمٹ نقوش چھوڑے اور اپنی شان کا سکہ جمایا۔ آپ عیش و آرام فحش گوئی اور اسراف کے قریب بھی نہیں گئے کیونکہ ان امور سے حوصلے پست اور ارادے متزلزل ہوتے ہیں۔ نابغہ روزگار اور عظیم لوگ ہمیشہ مشکل دنوں، تاریک راہوں اور حالات کی سنگینیوں میں قائدانہ راہ تلاش کرتے ہیں۔ الجھنیں، دباؤ اور کٹھن حالات انسان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتے ہیں اور ان سے کھوٹے کھرے کی پہچان ہوتی ہے۔ آپﷺ نے نہایت جوانمردی، عزیمت اور ثابت قدمی سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور آپ کی عظمت کھل کر سامنے آئی حتی کہ آپ کی قوم نے آپ کو صادق و امین کا لقب دیا۔ یہ لقب انھوں نے خیرات یا رواداری میں دیا نہ آپ نے احسان و طرفداری سے حاصل کیا بلکہ آپ کی پاکیزہ سیرت، شاندار ریکارڈ، عالی مرتبت بزرگی، عمدہ کردار کے علاوہ اعلیٰ اصولوں اور بلند اخلاق کے ساتھ محنت اور لگن کی وجہ سے آپ کو یہ لقب دیا گیا۔
جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ ﷺ کے اعلی اخلاق اور امانت و صداقت کا چرچا سنا تو آپ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے شادی کی پیشکش آپ ﷺمال و عہدے کی وجہ سے نہیں کی کیونکہ وہ خود بہت بڑی تاجرہ تھیں۔ رسول اکرم ﷺتو خالی ہاتھ تھے۔ آپ کے پاس مال تھا نہ عہدہ، کیونکہ آپ بادشاہ تھے نہ وزیر و امیر۔ انھوں نے آپ ﷺ کو شادی کی پیشکش اس عظیم تاج کی وجہ سے کی جو آپ کے سر پر سجا ہوا تھا اور وہ تھا صدق و امانت کا تاج۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ کے سینے پر مردانگی اور جوانمردی کا تمغہ سجا ہوا تھا جو پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ آپ کے یہ اوصاف ہی اس شادی کا باعث ہے۔ سیدہ خدیجہ نے صرف آپ کی وفا شعاری، صداقت اور عفت و پاک دامنی دیکھ کر ہی آپ سے شادی کی۔ انھوں نے آپ کی عظمت کی گواہی اس وقت بھی دی جب آپ پر پہلی وحی آئی اور آپ کو اپنی جان خطرے میں محسوس ہوئی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا:
((كَلَّا، وَاللهِ! مَا يَحْزُنُكَ اللهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ))
’’ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں۔ بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں آنے والی مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الوحي، حديث:3)
محمدﷺ نے کئی بار یتیمی کا دکھ جھیلا اور اس کی تکلیف وقتی محسوس کی۔ یہ دکھ پہلی بار اس دن جھیلا جب آپ ماں کے بطنِ اطہر میں تھے کہ والد اس دنیا سے چلے گئے، اور یہ نہایت تکلیف دہ اور سخت یتیمی ہے۔ پھر جس دن آپ کی والدہ آپ کی آنکھوں کے سامنے وفات پاگئیں جبکہ آپ کی عمر صرف چھ سال تھی، اس دن بھی آپ نے یتیمی کا ذائقہ چکھا۔ پھر آپﷺ نے یہ غم وحزن اس دن بھی برداشت کیا جس دن آپ کے دادا عبد المطلب یہ دنیا چھوڑ گئے جو آپ کا سہارا اور لاڈ پیار کرنے والے تھے۔ پھر اس دن بھی آپ نے یتیمی کی تکلیف محسوس کی جس روز آپ کا دفاع کرنے والے غم خوار چچا ابو طالب اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ یہ تکلیف اس دن مزید بڑھ گئی جس دن نہایت راست باز محبت کرنے والی اور نہایت سمجھدار بیوی سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالی عنہا اس دنیا سے رخصت ہو گئیں جو غم کی ہر گھڑی میں مضبوط سہارا اور تسلی دینے والی تھیں۔ اول و آخر یتیمی کے یہ سارے دکھ اور مصائب و آلام آپ ﷺنے اس لیے اٹھائے تاکہ اللہ تعالی آپ کو پورے جہان کی قیادت کے لیے تیار کرے، انسانوں سے میل جول اور برتاؤ کی تربیت کرے، مخلوق کی رہبری کا گر سکھائے، خاتم الانبیاء کے رتبے پر فائز کرے، قدوۃ الاولیاء کے اعزاز سے نوازے، امام المرسلین کے مقام عالی شان سے سرفراز فرمائے اور آپ کے ذریعے سے تمام لوگوں پر حجت قائم کرے۔ یقین اللہ تعالیٰ نے روز اول ہی سے نبی اکرم ﷺ کی دیکھ بھال کی اور آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی لوگوں کے سپردنہیں کیا بلکہ آپ کی دستگیری فرمائی۔ آپ کو پناہ دی اور ہدایت دے کر لوگوں سے بے نیاز کر دیا۔ آپ کو لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کیونکہ اللہ کا آپ کو کسی چیز سے محروم کرنا نواز نے کے لیے تھا اور شخت میں مبتلا کرنا آسانی عطا کرنے کے لیے لیے تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی﴾
’’کیا اس نے آپ کو یتیم نہ پایا، پھر ٹھکانا دیا۔‘‘ (الضحی (7:93)
اس آیت میں ٹھکانا دینے سے مراد صرف رہائش اور کنبہ قبیلہ نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے آپﷺ کی ہر طرح سے حفاظت و نگہداشت مراد ہے۔ نیز فرمایا: ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدٰى﴾
’’اور آپ کو نا واقف راہ پایا، پھر ہدایت بخشی۔‘‘ (الضحی 7:93)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکونور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ بھٹکنے سے محفوظ رکھا۔ صراط مستقیم
کی طرف آپ کی راہنمائی کی۔ ایمان و قرآن سکھایا جس سے آپ پہلے واقف نہ تھے۔
﴿وَ وَجَدَكَ عَآىِٕلًا فَاَغْنٰیؕ۸﴾ ’’ اور آپ کو تنگ دست پایا، پھر مالدار کر دیا۔‘‘ (الضحی (93)
یعنی اللہ تعالی نے آپ ﷺکو ہر وہ چیز عطا کی جو غنا کے مفہوم میں آتی ہے۔ فقر کے بعد آپ کو ایسا غنی کیا کہ آپ علم کسی کے محتاج نہ رہے۔ آپ کو اپنی رضا، سکون، اطمینان اور قناعت کی دولت سے مالا مال کیا اور لوگوں کی ہر طرح کی محتاجی سے بے نیاز کر دیا۔ آپ کو رزق اور اخلاق میں ایسا ہے نیاز کیا کہ آپﷺ کا غنا لوگوں سے نیکی، صلہ رحمی، جود وسخا اور رحمت و درگزر کی صورت میں سامنے آیا۔ آپ کا یتیمی کی حالت میں پیدا ہونا بھی اللہ تعالی کے حسنِ تدبیر کا معاملہ تھا تاکہ آپﷺ اپنے رب پر مکمل بھروسا کرنے والے بنیں اور اپنا ہر کام اپنے معبود اور خالق کے سپرد کریں۔ اللہ کی دوستی پر اس قدر راضی اور خوش ہوں کہ کسی دوسرے کی دوستی کی تمنا نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ پر جب بھی کوئی مشکل یا تکلیف آتی تو آپ یہ نہیں کہتے تھے: ’’ہائے میری ماں! ہائے
میری ماں! ہائے میرے ابا جان!‘‘ بلکہ آپﷺ فرماتے: ((يا ربي يا ربي)) ’’اے میرے رب! اے میرے پروردگار!‘‘ اور انتہائی گریہ وزاری سے اللہ کی طرف رجوع فرماتے اور اپنا ہر کام اللہ ذوالجلال کے سپرد کرتے۔
آپﷺباپ، شیخ، معلم، استاد اور مربی کی راہنمائی کے بغیر پروان چڑھے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کی تعلیم و تربیت کا ذمہ خود لیا چنانچہ اللہ کے سوا کوئی آپ کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا کیونکہ آپ روز اول ہی سے ربانی انتخاب تھے۔
اگر اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے فرمایا:﴿ وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ ۚ۬ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْۘ﴾ ’’اور میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت ڈال دی اور تاکہ میری آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کی‘‘(طہٰ 39:20 )
تو اس نے اپنے نبی، حبیب، خلیل اور سید ولد آدمﷺ کے بارے میں فرمایا:﴿ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا﴾ ’’بلاشبہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔‘‘ (الطور 48:52)
آپﷺ اس لیے یتیم پیدا ہوئے کہ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کر سکیں اور گزران زندگی کے لیے محنت و مشقت کریں۔ آپ کے پاس عام بچوں کی طرح لہو ولعب کے لیے وقت نہیں تھا۔ آپ نے اپنا وقت محنت و مشقت اور تعمیری کاموں میں صرف کیا تاکہ رسالت کی ذمہ داری اٹھانا آپ کے لیے آسان ہو اور نبوت کی راہ میں آنے والی مشقتوں کو برداشت کرنے کی قوت پیدا ہو۔
نبی ﷺاس لیے یتیم پیدا ہوئے کہ آپ کی اٹھان مضبوط ہو، ہمت قوی ہو اور آپ صبر کرنے پر قادر ہوں، مشکلات برداشت کرنے کی تربیت ہو، مصائب و تکالیف پر صبر و تحمل کرنا آسان ہو، دل مضبوط ہو، زندگی کے طوفانوں اور آفات و آلام کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہیں کیونکہ رسالت ایک عظیم امانت اور نہایت کٹھن مہم ہے۔ اس راہ میں سرکشوں، باغیوں، سنگدلوں، جھٹلانے والوں اور فاسق و فاجر لوگوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے اس عظیم انسان اور کریم نبیﷺ میں سختیوں اور آفات کے مقابلے کی ہمت ہونی چاہیے۔ انھیں سخت جان اور ایسی چیزوں کو خاطر میں نہ لانے والا ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ رحمانی تربیت اور ربائی ٹرینگ کا حصہ تھا کہ رسول کسی بھی دوسرے انسان سے زیادہ مضبوط اور دلیر و بہادر ہو۔
آپ ﷺ کی یتیمی کے اسرار و رموز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس سے ممکنہ جھوٹے الزامات اور بے بنیاد دعووں کا قلع قمع کرنا مقصود تھا۔ وہ الزامات یہ ہو سکتے تھے کہ نبوت کے اعلان سے آپ ﷺ کا مقصد خاندان اور قبیلے کی شہرت اور اپنے رشتہ داروں کے لیے غلبہ چاہنا ہے۔ لیکن آپ کو تو یتیم پیدا کر کے قبیلے اور خاندان کی مدد اور نصرت کے بغیر پروان چڑھایا گیا۔ بلکہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ آپ کی قوم اور قبیلے ہی نے سب سے پہلے آپ کی مخالفت کی اور بھر پور دشمنی کی۔ میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان!
آپﷺ یتیم پیدا ہوئے اور آپ نے بھوک پیاس برداشت کی تاکہ بھوکوں کے لیے اسوہ نہیں۔ محرومی کی زندگی گزاری تاکہ محروم لوگوں کے لیے نمونہ ہوں۔ آپ پر کٹھن اور مشکل حالات گزرے تاکہ مشکلات میں گھرے لوگوں کے لیے مثال بنیں۔ فقر نے آپ کو ستایا تاکہ آپ فقیروں کے لیے مشعل راہ بنیں۔ آپ ﷺیتیمی کی زندگی گزاری تاکہ یتیمی کا درد محسوس کر کے آپ یتیموں، مصیبت زدوں، فقیروں اور محروم و مجبور لوگوں پر رحم کریں۔ آپ نے انھی کی طرح مصائب و تکالیف برداشت کیں، لہذا آپ کو ان کے احساسات اور مشکلات کا پوری طرح ادر اک تھا۔
نبیﷺ کے یتیمی میں پرورش پانے اور ماں باپ کی شفقت و محبت سے محرومی کے باوجود اللہ تعالی نے آپ کا دل شفقت و محبت اور احساسات سے بھر دیا اور رحمت و احسان کو آپ کا امتیازی وصف بنا دیا، چنانچہ آپﷺ کی رحمت و شفقت اور احسان کا فیضان آپ کی امت پر عام ہے۔
آپﷺنے جس ماحول میں پرورش پائی، اس میں خرافات، جہالت، برے اخلاق، بے حیائی، منکرات، بتوں کی عبادت، شراب نوشی، قتل و غارت، بچیوں کو زندہ درگور کرنے اور قابل نفرت جاہلی قبائلی تعصب کے مظاہر عام تھے مگر اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو بچپن ہی سے ان برائیوں سے محفوظ رکھا۔ آپ گمراہی و ضلالت میں فرق ان قبائل کے بچوں کے نقش قدم پر نہ چلے۔ اللہ تعالی نے آپ کو بچپن ہی سے گمراہی اور بچوں کی فضولیات اور لہو و لعب سے بچا کر رکھا۔
پھر اللہ تعالی کی نگرانی اور حفاظت بچپن، لڑکپن اور جوانی عمر کے ہر مرحلے میں آپ کے شامل حال رہی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس تمام عرصے میں آپ سے کوئی لغزش، غلطی اور شک و شبہ والی بات منقول نہیں ہے۔ آپ کا دامن بالکل صاف رہا اور شرف وعزت کی چادر آپ کے کندھوں پر تھی۔ آپ کی جوانی جد و جہد، مردانگی، وقار، خودداری و حوصلہ مندی اور بہادری سے بھر پور تھی۔
آپﷺ اعلی و عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔ سادگی اور تمام اچھی صفات اور خوبیاں آپ میں جمع تھیں۔ آپﷺ کی جوانی ہر قسم کے عیب سے پاک تھی۔ آپ کا ظاہر و باطن نہایت اُجلا اور شفاف تھا۔ آپ اخلاق و کردار میں نہایت پارسا تھے۔ بولتے تو پھول جھڑتے، گفتگو کرتے تو سچائی کے موتی رولتے۔ آپ کے اعلیٰ اخلاق کا اثر آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اور قیامت تک آنے والے آپ کے تمام پیروکاروں پر بھی ہے۔
جب سچے والدین اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تو جس کی تربیت اس کا رب کرے اور اس کا معبود اس کا خیال رکھے، اس کی تعلیم و تربیت کے کیا کہنے؟! بعض علماء کا قول ہے: بچے کا باپ زندہ ہو تو اسے کوئی ڈر نہیں ہوتا، پھر جس بچے کی تربیت کی ذمہ داری اس کے رب نے لی ہو، اسے کیا ڈر ہو سکتا ہے ؟؟
آپ ﷺکا بچپن بھی قابل فخر تھا اور آپ کی جوانی بھی قابل رشک تھی۔ دلیر و بہادر ایسے کہ دنیا کے بہادر آپ کی پیروی کریں۔ اللہ کی خاص توفیق آپ کے شامل حال رہی۔ خیر و برکت آپ کی رفیق رہی۔ حفاظت الہی نے آپ کو گھیرے رکھا۔ آپ رہبانی نگہداشت کے سائے میں رہے۔ اللہ نے آپ کو ہر لغزش اور غلطی سے محفوظ رکھا کیونکہ آپ کو کائنات کی اصلاح اور انسانیت کی سعادت و ہدایت کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔
بلاشبہ آپﷺ مرد تھے مگر نبی تھے، انسان تھے لیکن رسول تھے، بشر تھے لیکن معصوم تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو جذباتیت، لا پروائی اور جلد بازی سے محفوظ رکھا اور آپ کو بچپن ہی سے وقار حلم و بردباری اور سکینت کے لباس سے مزین کیا۔ مکہ کے نوجوان کھیل کود اور لہو واجب میں اپنا وقت گزارتے جبکہ آپﷺ محنت اور لگن سے اپنا کام کرتے اور غور و خوض کرتے۔ دن بھر بکریاں چراتے اور کائنات پر فکر و تدبر کرتے۔ لمحہ لمحہ اللہ کی تخلیق اور کاریگری پر سوچ بچار میں گزارتے۔ آپ جوانمردی کی نمایاں خصوصیت کے حامل اور نہایت ذمہ دار تھے۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو ہر قبیح حرکت اور برائی سے محفوظ و مامون رکھا۔
سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کام سے پوچھا گیا: کیا آپ نے کبھی جنوں کی عبادت کی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ انھوں نے کہا: کیا آپ نے کبھی شراب پی؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں روز اول سے یہ سمجھتا تھا کہ لوگوں کا طرز زندگی کا فرانہ ہے، حالانکہ مجھے کتاب اور ایمان کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ (رواہ ابو نعیم و ابن عساکر) نبی اکرم ﷺکی زبان محفوظ تھی۔ آپ کے ساتھ جو شیطان تھا، وہ آپ کا تابع تھا۔ آپ کو اپنے غصے پر کنٹرول تھا۔ آپ نے کبھی شراب پیا، نہ کسی منکر کام میں دلچسپی لی۔ کسی کو دھوکا دیا، نہ کسی بت کی عبادت کی اور نہ کسی پر قلم کیا کیونکہ آپ اللہ کی حفاظت و نگرانی اور امان و معیت میں پروان چڑھے۔ اللہ تعالی نے آپ کی پوری پوری نگہبانی کی اور جاہلیت کی تمام قباحتوں سے آپ کو محفوظ رکھا حتی کہ آپ قوم کے سب سے بڑے باوقار، امانت دار، صادق، اچھے اخلاق کے مالک، نیک دل، پاک باز اور پارسا بن کر سامنے آئے۔ یہ تمام صفات اعلان نبوت سے پہلے آپ میں موجود تھیں۔ جب اللہ تعالی نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور دین حنیف کی تعلیم دی تو اس کے بعد آپ میں کسی قدر کمال آیا یہ بیان سے باہر ہے ؟ یقیناً رسول اکرم ﷺ جاہلیت کی تاریکیوں میں نور اور بت پرستی کی اندھیری رات میں بدر منیر بن کر چمکے۔
آپ ﷺ طاہر ومظہر اور میمون و مبارک جوان ہوئے تاکہ شبہات میں گھرے اور شہوات کی دلدل میں پھنسے ہر نو جو ان کے لیے آپ عظیم نمونہ ہوں۔ وہ آپ کے اخلاق حمیدہ اور اوصاف جمیلہ کے ذریعے سے ان فتنوں اور تاریکیوں سے نکل سکے، خواہ وہ فتنے کتنے بڑے ہی کیوں نہ ہوں۔
کوئی شخص فاضل لوگوں میں رہ کر فاضل بن جائے، معزز اور اچھے لوگوں میں رو کر معزز اور اچھا بن جائے یا علماء میں رہ کر علم حاصل کرلے تو کوئی تعجب و حیرت کی بات نہیں لیکن یہ بات ضرور حیرت انگیز ہے کہ شرک و کفر اور خرافات و جہالت سے بھرے اور بت پرستی میں لتھڑے معاشرے میں کوئی شخص پاکباز و پارسارہ کر پروان چڑھے اور وہ معاشرے میں پائی جانے والی تمام برائیوں سے خود کو بچا کے رکھے۔ وہ لوگوں کو بت پرستی، حرمتوں کی پامالی، بے حیائی اور منکرات کا ارتکاب کرتے دیکھتا ہو مگر اس تعفن زدہ ماحول میں وہ ان سے یکسر مختلف اور نہایت پارسائی، پرہیزگاری اور شرافت کی زندگی گزارے تو یہ یقیناً ربانی تربیت کا اثر ہے جیسا کہ ایک روایت میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے: ((أَدّْبَنِيْ رَبِّيْ فَأَحْسَنَ تَأْدِيْبِيْ))
’’میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور میری نہایت عمدہ تربیت کی۔‘‘ (ضعیف الجامع، حدیث: 249)
اس روایت کی سند اگر چہ کمزور ہے مگر معنی بہت خوبصورت ہیں۔ آپ سے بھی کوئی خلاف مروت کام غلطی، جھوٹ اور خیانت منقول نہیں بلکہ آپ کی ساری زندگی پاکیزہ، صاف ستھری، شفاف اور وفا سے مرقوم ہے۔ آپ داناؤں کے سرتاج اور علماء کے سرخیل ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے بچپن ہی سے آپ کو بار رسالت اور نبوت کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار کیا۔
آپ ﷺنے نہ تو جوانی میں عیش و آرام کی زندگی گزاری، نہ آپ ناز ونعمت میں پلے اور نہ اسراف اور فضول خرچی میں ملوث ہوئے بلکہ محنت و مشقت کرتے ہوئے جوان ہوئے۔ بڑی مشکلات، پریشانیاں اور سختیاں برداشت کیں۔ آپ ابھی تیرہ سال کے بھی نہیں تھے کہ اپنے چچا کے ساتھ تجارت کی غرض سے شام گئے اور سب نے آپ کی امانت، صداقت اور تجارت میں مہارت کی گواہی دی۔
بارہ سال کی عمر میں آپ ﷺنے چند قیراط اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں چرائیں۔ سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((مَا بَعَثَ اللهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ، وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: ’’نَعَمْ، كُنتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ‘‘))
’’اللہ تعالی نے کوئی بھی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ ‘‘صحابہ کرام نے عرض کیا: آپﷺ نے بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ہاں، میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الإجارة، حديث (2262)
آپﷺ کے بکریاں چرانے میں بھی ربانی تربیت کی حکمت کار فرما تھی کہ آپ بکریوں کی نگہبانی سے امت کی نگہبانی کا فن سیکھیں کیونکہ بکریوں کو بہت اچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ سختی برداشت نہیں کرتیں اور انھیں چرانے کے لیے نہایت مناسب جگہ کا انتخاب بھی کرنا پڑتا ہے، نیز انھیں چرانے والے کی شخصیت کا پروقار اور حوصلہ مند ہونا بھی ضروری ہے جیسا کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:
((السَّكِيْنَةُ وَالْوَقَارُ فِيْ أَهْلِ الْغَنَمِ))
’’سکون اور وقار بکریوں والوں میں ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حديث: 4388)
آپ ﷺکے اجرت پر بکریاں چرانے میں ہر انسان کے لیے سبق ہے کہ وہ کام کاج کرے اور اپنے ہاتھ سے حلال روزی کمانے کی کوشش کرے۔ لوگوں سے مانگ تانگ کر کھانے کو وتیرہ نہ بنائے بلکہ ہر جائز اور باعزت کام کے ذریعے سے لوگوں سے بے نیاز ہو جائے۔ اور یہی خود داری اور جوانمردی ہے جو انسان کو اس کی عزت نفس مجروح ہونے سے بچاتی ہے۔
جو انسان بچپن سے لے کر وفات تک آپ ﷺ کی سیرت پڑھتا ہے اور آپ کو اپنا اسوہ اور امام و پیشوا بناتا ہے، وہ سعادت و کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور فوز و فلاح اس کا مقدر ٹھہرتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے نبی کریم نے میں فضل و شرف، خیر و نیکی اور طہارت و بزرگی کی تمام اعلیٰ صفات جمع کر دی ہیں اور آپ کو سراپا فوز و فلاح بتایا ہے۔ اب کوئی انسان رسول مکرم محمد بن عبد اللہﷺ کی اقتدا و پیروی کے بغیر کسی پاکیزہ اور اطمینان و امن والے تمدن و تہذیب کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔ اس دُرِّ یتیم نے کائنات کے اندھیروں کو روشنیوں میں اور ویرانیوں کو رونقوں میں بدلا۔