مومن کا اپنے رب کی ملاقات پر خوش ہونا

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : مَنْ أَحَبُّ لِقَاءَ اللهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ، فَقُلْتُ: يَانَبِيَ اللهِ! أَكَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ؟ فَكُلُّنَا نَكْرَهُ الْمَوْتُ، فَقَالَ: لَيْسَ كَذٰلِكَ وَلٰكِنَ الْمُؤْمِنَ إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللهِ وَرِضْوَانِهِ وَجَئْتِهِ، أَحَبُّ لِقَاءَ اللَّهِ فَأَحَبَّ اللَّهُ لقَاءَهُ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللهِ وَسَخَطِهِ، كَرِهَ لِقَاءَ اللهِ، فَكَرِهَ اللهُ لِقَاءَهُ. (أخرجه مسلم)
(صحیح مسلم کتاب الذكر والدعاء التوبة الأستغفار ، باب من حب لقاء الله لقاءه ومن كره القاء الله….)
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو اللہ تعالی سے ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کو پسند فرماتا ہے اور جو اللہ تعالی سے ملاقات کو نا پسند کرتا ہے تو اللہ تعالٰی بھی اس سے ملاقات کو نا پسند کرتا ہے، میں نے کہا یا نبی اللہ ناپسند سے مراد کا موت کی ناپسندیدگی ہے؟ تو ہم میں سے ہر کوئی موت کو نا پسند کرتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے، لیکن جب مرنے والا مومن ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت ، اس کی رضا مندی اور جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالی سے ملنے کی تمنا کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند فرماتا ہے اور جب مرنے والا کافر ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالی کے عذاب اور اس کی ناراضگی کے بارے میں اطلاع دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالی سے ملنے کو نا پسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: إِذَا وُضِعَتِ الجَنازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صالحة قالت : قَدَّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ ذٰلِكَ قَالَتْ: لأهْلِهَا : يَاوَيْلَهَا اَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيءٍ إِلَّا الْإِنْسَانُ وَلَو سَمِعَ الإِنسَانُ لَصَعِقَ (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری: کتاب الجنائز، باب قول الميت وهو على الجنازة قدموني)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چار پائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو ۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے ہائے ہر بادی ! مجھے کہاں لئے جارہے ہو۔ اس کی آواز انسان کے سوا اللہ تعالی کی ہر مخلوق سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے ۔
تشریح:
جب مومن و کافر کی موت ہوتی ہے تو ان میں ہر ایک کی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے۔ مومن اپنے رب سے ملاقات کے لئے بے چین ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ کتنی جلدی اس کی اپنے رب سے ملاقات ہو جائے کیونکہ اسے جنتی نعمتوں سے متعلق بشارت مل چکی ہوتی ہے اس لئے جب اسے تجہیز و تعین کے بعد اٹھایا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو مجھے جلدی لے چلو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل کی امید رکھتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس کافر کی جب موت ہوتی ہے تو وہ پریشان ہوتا ہے اور چاہتا کہ اس کی ملاقات رب سے نہ ہو کیونکہ اسے عذاب سے متعلق خرمل چکی ہوتی ہے اور تجہیز و تعین کے بعد جب اسے اٹھایا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ کیونکہ اسے پتا چل جاتا ہے کہ عذاب کے فرشتے اس کے انتظار میں ہیں، قبر میں سانپ اور بچھو ہمارے منتظر ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ایمان کی حالت میں اس دنیا سے رخصت کرے اور اپنے عذاب سے بچائے۔
فوائد:
٭ مومن اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔
٭ کافر اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔
٭٭٭٭