محمدﷺ بحیثیت حج کرنے والے

نبی اکرم ﷺنے دس ہجری میں صرف ایک حج کیا۔ اس حج میں انصار و مہاجرین اور شہری و دیہاتی مسلمان کثیر تعداد میں شامل ہوئے جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ میں ہزار تھی۔ نبی اکرم ﷺمدینہ طیبہ سے نماز ظہر کے بعد نکلے۔ ظہر کی نماز چار رکعت ادا فرمائی اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں دو رکعت ادا کی۔ ذوالحلیفہ کے میقات سے احرام باندھا۔ آپ ﷺ نے تمام کپڑے اتار کر غسل کیا اور احرام کی دو سفید صاف ستھری چادر میں پہنیں۔ احرام کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان دنیا کی پسندیدہ اور لذیذ چیزوں سے کنارہ کش ہو جائے اور حج کی عبادتوں میں دل سے مصروف ہو جائے۔

پھر آپ ﷺسوار ہوئے۔ جب آپ کی سواری بیداء مقام پر کھڑی ہوئی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدہ تسبیح اور تکبیر کہی اور حج وعمرہ کا تلبیہ پکارا۔ حاجی دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے۔ سفید احرام کی چادر میں پہن کر اللہ تعالی کے پاس جانے والے کفن پوش کی ہیئت اختیار کرتا ہے۔ اپنی شکل و صورت اس کمزور و مسکین کی طرح بناتا ہے جو اپنے رب ذوالجلال کی بخشش کا امیدوار ہو۔ اس سے حشر کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے جب اللہ تعالی تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا اور ہر ایک کو اپنی فکر لاحق ہو گی۔

احرام پہنے کا مقصد مسلمانوں کے درمیان مساوات اور وحدت امت کا درس دینا ہے کہ امیر و غریب اور شاہ و گدا یہاں سب برابر ہیں۔ ان کا لباس ایک، رب ایک نبی ایک اور کتاب ایک ہے۔ سب کے لباس کے سفید رنگ سے ان کے دلوں کی سفیدی اور کینہ، بغض اور حسد سے شفافیت کی اچھی فال بھی ہے۔

آپﷺ کا احرام اور سیدنا بلال بن رباح، سلمان فارسی، صہیب رومی، عمار بن یاسر اور باقی تمام صحاب کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے کا احرام بالکل ایک جیسا تھا۔ لباس، اس کی قیمت اور پہچان بالکل ایک جیسی تھی۔

یہ ہے دین اسلام، دین عدل و مساوات تا کہ ہر مسلمان یہ جان لے کہ اس کا عہدہ و منصب، خواہ کتنا ہی اونچا ہو،  اسے دوسرے پر فخر کرنے کا حق حاصل نہیں۔ عبادت میں صرف تقوی و پرہیز گاری اور اخلاص کا اعتبار ہوگا۔ رنگ ونسل اور مال و متاع کا فضیلت و برتری میں کوئی عمل دخل نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ؕ﴾

’’بلاشبہ اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘

(الحجرات 13:49)

آپﷺ نے تلبیہ پکارا اور یہ تلبیہ رب العالمین کی مطلق اور خالص توحید پر مشتمل ہے جو مشرکوں کے تلبیہ کے بر عکس ہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

((البَيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنَّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ))

’’میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تمام حمد تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں۔ بادشاہت تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حديث: 1549)

آپ ﷺ بآواز بلند تلبیہ پکارتے تھے کیونکہ یہ توحید کا اعلان ہے۔ اس کا مقصد جذبات کو ابھارنا اور روحوں کو تحریک دینا تھا۔ آپ ﷺ اپنے صحابہ سے فرماتے تھے:

((أَتَانِي جبْرِيلُ، فَأَمَرَنِي أَنْ أٰمُرَ أَصْحَابِي أَنْ يَّرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالْإِهْلَالِ وَالتَّلْبِيَّةِ))

’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ کو حکم دوں کہ وہ لا إله إلا الله اور تلبیہ بآواز بلند کریں۔ (سنن أبي داود، المناسك، حديث: 1814)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے ساتھ آئے جبکہ ہم خوب بلند آواز سے تلبیہ پکار رہے تھے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1248)

تلبیہ کے اس عظیم جملے  ((لَبَّيكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ)) میں اللہ تعالی کی اطاعت اور بار بار فرماں برداری اور وفا شعاری کا اظہار ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ بندہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی اطاعت پر قائم ہے اور اپنے خالق و مولا کی خالص توحید کا اقراری ہے۔ اسی طرح تلبیہ میں محبت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ حبیب اپنے محبوب کی آواز پر لبیک کہتا ہے اور بڑے شوق و جذبہ سے اس کی دعوت قبول کرتا ہے۔ ان امور کے علاوہ تلبیہ میں اللہ جل شانہ کی توحید الوہیت و عبودیت کا تذکرہ بھی ہے۔

((لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيكَ)) میں مشرکوں کی جھوٹی باتوں اور کذب و افتراء کا رد ہے اور ان کی ذلت کا اعلان ہے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود بنا لیے تھے۔ نبی اکرم ﷺ  نے اس جملے سے اپنے رب کو شریک اور ساجھی سے پاک قرار دیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ پاک رب اکیلا ہی عبادت کا حق دار ہے اور الوہیت میں بھی یکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود ہے نہ پروردگار۔

اور تلبیہ میں آپ ﷺ کے ان الفاظ ((إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنَّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ)) پر غور کریں۔ حمد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ہے اور اس کی توفیق ملنا بھی بندے پر اللہ تعالی کا احسان ہے۔ جو نعمت بھی اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے، وہ اس کی طرف سے ہے، اس کے لیے ہے اور اسی کی طرف لوٹتی ہے۔ دنیا و آخرت کی اول و آخر بادشاہت ساری اس اکیلے رب کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔

اور جب آپ مکہ آکر مسجد الحرام میں داخل ہو کر حجر اسود کے سامنے کھڑے ہوئے تو اس کا استلام کیا۔ اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ حجر اسود کو ہاتھ لگانا اور بوسہ دینا بطور عبادت و تعظیم ہے۔ اس سے اللہ تعالی کی محبت اور نبی اکرمﷺ کی اتباع مقصود ہے۔ یہ برکت یا شفا حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب رکھا اور پیدل ہی بیت اللہ کا طواف کیا اور سات چکر لگائے۔ اس میں دعا کی۔ تکبیرات کا اہتمام کیا۔ حجر اسود کو بوسہ دیا۔ روئے بھی۔ اور طواف کے بعد نماز پڑھی۔

طواف کے اسرار و رموز میں یہ بات بھی ہے کہ بندہ اپنے مالک کی ضیافت، رحمت اور بخشش کے حصول کے لیے اس کے گھر کا چکر لگاتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ ہر دم اس کا محتاج ہے۔ ظاہر ہے کہ مسکین و کمزور آدمی جب معزز بادشاہ کے محل کا طواف کرے تو اس کی حاجت و ضرورت پوری ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ بار بار چکر لگانا اس کی شدید مسکینی پر دلالت کرتا ہے۔ اس جگہ رحمن کی رحمت، مکان کی پاکیزگی و طہارت، وقت کی برکت اور سب سے افضل انسان میں کام کا طواف سب امور جمع ہو گئے۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آپ ﷺ کی دعا یہ  تھی: ﴿ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۝﴾

’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی اچھائی عطا فرما اور آخرت میں بھی خیر اور بھلائی سے نواز اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حديث: 1892)

اور جب آپﷺ نے سات چکر پورے کر لیے تو آپ مقام ابراہیم کے پاس آئے اور اس ارشاد باری تعالی کی تلاوت کی :

﴿ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّی﴾

’’اور (حکم دیا کہ ) تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔‘‘ (البقرة 125:2)

اور ایسا  آپ ﷺ نے اپنے باپ ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام کی اقتدا اور ان کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے کیا۔ پھر آپ نے اس جگہ دو رکعت نماز پڑھی اور ان میں براءت اور اخلاص پر مبنی دو سورتیں پڑھیں۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون پڑھی جس میں شرک اور اہل شرک سے اظہار براءت ہے اور دوسری رکعت میں سورہ بعد اخلاص پڑھی جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اثبات ہے۔

پھر آپﷺ سعی والی جگہ پہنچے اور صفا سے سعی شروع کی، جیسا کہ سیدنا جابرﷺ سے مروی ہے: آپﷺ باب صفا سے صفا پہاڑی کی جانب لگے۔ جب آپ کو ہِ صفا کے قریب پہنچ تو یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ ۚ ﴾

’’صفا اور مروہ اللہ کے شعائر (مقرر کردہ علامتوں) میں سے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ’’میں بھی سعی کا وہیں سے آغاز کر رہا ہوں جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے آغاز فرمایا۔‘‘ اور آپﷺ نے صفا سے سعی کا آغاز فرمایا۔ اس پر چڑھے حتی کہ آپ نے بیت اللہ کو دیکھ لیا، پھر آپ قبلہ رخ ہوئے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کبریائی بیان فرمائی اور کہا: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكَ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعَدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ)) ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ ساری بادشاہت اس کی ہے اور ساری تعریف اسی کے لیے ہے۔ اکیلے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ خوب پورا کیا۔ اپنے بندے کی نصرت فرمائی۔ تنہا اس نے ساری فوجوں کو شکست دی۔‘‘

ان کلمات کے مابین نبیﷺ نے دعا فرمائی۔ آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشاد فرمائے تھے۔ پھر آپ مروہ کی طرف اترے حتی کہ جب آپ کے قدم مبارک وادی کی اترائی میں پڑے تو آپ نے سعی فرمائی (تیز قدم چلے)۔ جب وہ (آپ کے قدم مبارک مردہ کی) چڑھائی چڑھنے لگے تو آپ (پھر معمول کی رفتار سے) چلنے لگے حتی کہ آپ مروہ پر پہنچ گئے۔ آپ نے مروہ پر اسی طرح کیا جس طرح صفا پر کیا تھا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)

آپﷺ صفا و مروہ کی سعی کے دوران میں اس نشان لگی جگہ آکر رمل کرتے تھے جس میں سیدنا اسماعیل علیہ السلام  کی والدہ سیدہ ہاجرہ نے رمل کیا تھا۔ ان کی اقتدا میں حج اور عمرہ کرنے والے قیامت تک سعی کرتے رہیں گے۔

آپ ﷺ کی سعی میں سیدہ ہاجرہ ﷺ کے قصے کی یاد دہانی ہے جب وہ صبر کے ساتھ پانی تلاش کر رہی تھیں۔ ان کا اللہ تعالی پر مکمل اعتماد تھا اور وہ نہایت سنجیدگی اور صبر سے ایسا کر رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے دین کے شعائر قائم کرنے، باری تعالٰی کے حکم کی تعمیل کرنے اور ہاجرہ ﷺ کے جذبے کو زندہ کرنے کے لیے ان کی طرح سعی کی اور ان کی طرح دوڑے۔

ہمارا دین اسباب اختیار کرنے اور اللہ تعال پر توکل کرنے کا حکم دیتا ہے، جیسا کہ آپﷺ نے اونٹنی کے مالک سے فرمایا تھا: ((اعْقِلُهَا وَ تَوَكَّل)) ’’اس کا گھٹنا باندھو اور توکل کرو۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة القيامة، حديث:2517)

 چنانچہ آپﷺ نے سات چکر مکمل کیے اور آنے اور جانے کو الگ الگ چکر شمار کیا۔

آپ ﷺ کی صفا و مروہ کی سعی میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور بلا تردد اس کا حکم ماننے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ عبودیت کے ذریعے بلندی کے زینے بڑی ہمت اور تندہی سے طے کرنے چاہئیں اور دینی و دنیاوی عظمت کے حصول کے لیے بھر پور محنت کرنی چاہیے۔ رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جتنی محنت، کوشش اور تگ و دو ہو سکے، ضرور کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَۚۙ۝﴾

’’اور سبقت لے جانے والے تو سبقت لے جانے والے ہی ہیں۔‘‘ (الواقعة 10:56)

پھر اس کے بعد سب سے افضل دن یوم عرفہ آیا تو آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ عرفہ میں عظیم وقوف کیا۔ ظاہر و باطن میں اللہ تعالی کی عبودیت کا اعلان کیا اور لوگوں کو ایک عظیم خطبہ دیا۔ لوگوں نے آج تک ایسا خطہ نہیں سنا تھا۔ تھا۔ یہ ایسا عظیم اور جامع مانع خطبہ ہے جس میں انسان کو قیامت تک پیش آنے والے بجھی و عالمی مسائل کا احاطہ کیا گیا۔ آپ نے توحید اور اللہ تعالی پر ایمان کے متعلق گفتگو فرمائی اور بتایا کہ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انسانوں کے حقوق کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ مساوات کا درس دیا اور بتایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیات نہیں۔ اگر فضیلت ہے تو تقوے کی بنیاد پر ہے۔ عدالت کے سامنے سبھی لوگ برابر ہیں۔

اور آپ ﷺ نے لوگوں کے اموال کے متعلق بھی گفتگو فرمائی۔ سود حرام قرار دیا۔ عورت کے حقوق اور اس کے دفاع کا درس دیا۔ اللہ تعالی کی کتاب کو تھامنے کا درس دیا۔ خون اور عزتوں کی حفاظت کے اصول اور ضابطے مقرر کیے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’بلا شبہ تمھارے مال اور تمھارے خون ایک دوسرے کے لیے اسی طرح حرمت والے ہیں، جس طرح تمھارے اس حرمت والے مہینے میں تمھارے اس (حرمت والے) شہر میں ، تمھارے اس دن کی حرمت ہے۔ خبردار! جاہلیت کی ہر چیز میرے دونوں قدموں کے نیچے (روندی ہوئی) ہے۔ اور (اسی طرح) جاہلیت کے خون بھی (جو ایک دوسرے کے ذمے چلے آرہے ہیں) معاف ہیں۔ اور میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا، تو اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اور وہ ہے اللہ کی کتاب (قرآن مجید )۔ تم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا ، (بتاؤ ) کیا کہو گے؟ انھوں نے جواب دیا: ہم گواہی دیں گے کہ بلاشبہ آپ نے (کماحقہ دین) پہنچا دیا، اللہ تعالی کی طرف سے سونپی گئی ) امانت ادا کر دی اور آپ نے امت کی ہر طرح سے خیر خواہی کی۔ اس پر آپﷺ نے اپنی شہادت والی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ آپ اسے آسمان کی طرف بلند کرتے تھے اور (پھر) اس کا رخ لوگوں کی طرف کرتے تھے (اور فرماتے تھے ): ’’اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ اے اللہ! تو گواہ رہنا۔‘‘ آپﷺ نے تین مرتبہ ایسا کیا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)

پھر آپ ﷺ نے اپنے رب سے دعا کی۔ اپنی مسکینی اور عجز و انکسار کا اظہار کیا۔ نہایت گریہ وزاری، خشیت اور کامل توجہ کے ساتھ ایسی پر تاثیر دعا کی کہ دل لرز گئے، روحوں پر خوف طاری ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ عرفہ کے دن کے لیے ہمارے رب نے بے شمار قیمتی انعامات رکھتے ہیں۔ اس میں ایسے عظیم ہدیے ہیں جن کی یاد دہانی پیارے حبیبﷺ نے اپنی امت کو کرائی۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

عرفہ کے دن جہنم سے آزادی ہے۔ اس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:

))مَا مِنْ يَّوْمِ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُّعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِّنَ النَّارِ، مِنْ يَّوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُوْ، ثُمَّ يُبَاهِيْ بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُوْلُ: مَا أَرَادُ هَؤُلَاءِ؟))

’’کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو۔ بلاشبہ وہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1348)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((اشْهَدُوا مَلَائِكَتِي أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ)) ’’میرے فرشتو! گواہ ہو جاؤ، میں نے انھیں بخش دیا ہے۔‘‘ (صحیح الترغیب ، حدیث : 1154)

٭ آپ ﷺ نے عرفہ کے دن کے سب سے افضل ذکر کی خبر دی، فرمایا:

((الخَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))

’’بہترین دعا، عرفے کے دن کی دعا ہے۔ اور بہترین بات جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہی ہے، وہ یہ ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی فرمانروائی ہے۔ وہی حمد وثنا کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3585)

٭ اس عظیم دن میں حاجیوں کے سوا دیگر مسلمانوں کے لیے عظیم ربانی محلہ عرفے کے دن کا روزہ ہے، جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((صِيَامُ يَوْمٍ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ))

’’اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1962)

حجاج کرام نبی ﷺ  کی اقتدا میں عرفے کے دن کا روزہ نہیں رکھیں گے کیونکہ آپ ﷺ نے عرفے کے دن روزہ نہیں رکھا تا کہ اعمال حج اچھی طرح ادا کر سکیں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ لوگوں میں عرفے کے روزے کے بارے میں اختلاف ہوا کہ نبی اکرمﷺ نے روزہ رکھا ہوا ہے یا نہیں؟ تو سیدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہا  دودھ کا ایک پیالہ آپ ﷺ کو اس وقت بھجوایا جب آپ اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺنے وہ پی لیا، چنانچہ اس سے واضح ہو گیا کہ حاجی کے لیے عرفے کے دن سنت یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے تاکہ چاق چوبند ہو کر اعمال حج بجالائے۔

پھر وہاں سے آپ نہایت سکون اور وقار سے مزدلفہ تشریف لے گئے۔ آپ لوگوں کو بھی یہ نصیحت فرما رہے تھے:

 ((أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينة)) ’’اے لوگو! سکون و اطمینان سے چلو۔‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: (1971)

یہ اس بات کی تاکید تھی کہ یہ دین اسلام نرمی، سکینت ، وقار، عظمت اور ٹھہراؤ کا درس دیتا ہے۔ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی تربیت دی جاتی ہے۔ دھکم پیل کر کے دوسرے سے آگے بڑھنا اس دین کا درس نہیں۔ مزدلفہ میں آپﷺ نے مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ جمع کیں اور نماز قصر ادا کی۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ اسی طرح چلتے رہے حتی کہ مزدلفہ تشریف لے آئے۔ وہاں آپ نے ایک اذان اور دو اقامتوں سے مغرب اور عشاء کی نماز میں ادا فرما ئیں۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نفل نہیں پڑھے۔ پھر آپ محو استراحت ہوئے حتی کہ فجر طلوع ہوگئی۔ جب صبح کھلی تو آپ نے اذان اور اقامت سے فجر کی نماز ادا فرمائی، پھر اونٹنی پر سوار ہوئے حتی کہ مشعر الحرام آگئے۔ آپ ﷺنے قبلہ کی طرف رخ فرمایا اور اللہ تعالی سے دعا کی۔ اس کی کبریائی بیان کی اور بغیر شریک اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے اور اس کی وحدانیت کا ذکر فرمایا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)

آپﷺ نے مزدلفہ میں آرام کیا کیونکہ آپ کے سامنے اگلے دن کے بہت سے اعمال حج تھے، یعنی رمی کرتا، حلق کرانا، قربانی کرنا اور طواف کرنا۔ پھرآپ ﷺ نے حکم دیا کہ آپ کے لیے کنکریاں اکٹھی کی جائیں تو آپ کے لیے انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکنے کے قابل سات کنکریاں اکٹھی کی گئیں۔ آپ ﷺ انھیں اپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ کر فرمانے لگے : ’’اس طرح کی کنکریاں مارو‘‘، پھر فرمایا

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ فَإِنَّهَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُ فِي الدِّينِ))

’’لوگو! دین میں غلو (حد سے بڑھنے) سے پر ہیز کرو۔ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے تباہ کیا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجه المناسك، حديث: 3029)

چنانچہ آپﷺ نے ہر کام میں غلو، یعنی حد سے تجاوز کرنے کی مذمت کی کیونکہ دین کی بنیاد آسانی، اعتدال اور میانہ روی پر ہے جس میں افراط و تفریط کی گنجائش نہیں۔

جب  آپ ﷺ منیٰ پہنچے تو سب سے پہلے جمرات کو کنکریاں ماریں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے که نبی اکرمﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ فضل رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ نبی اکرمﷺ  رمی جمرات تک مسلسل تلبیہ پکارتے رہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث 1685)

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس پہنچے تو انھوں نے کعبے کو اپنی بائیں جانب اور منی کو اپنی دائیں طرف رکھا، پھر اسے سات کنکریاں ماریں اور فرمایا کہ اس طرح اس شخصیت نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث، 1748)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے متعلق ہے کہ وہ قریب والے جمرے کو سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے بعد اللہ اکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھتے اور نرم زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور دیر تک ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے۔ اس طرح دیر تک وہاں کھڑے رہتے۔ پھر درمیان والے جمرے کو کنکریاں مارتے۔ اس کے بعد بائیں جانب نرم و ہموار زمین پر چلے جاتے اور قبلہ رو ہو جاتے۔ پھر دیر تک ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے اور یوں دیر تک وہاں کھڑے رہتے۔ پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ پھر واپس آجاتے اور فرماتے کہ میں نے نبیﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (صحيح البخاري، الحج، حدیث : 1751)

جمرات کو کنکریاں مارنے کا مقصد مردود شیطان، اس کی سازشوں اور وسوسوں سے اظہار براءت کرنا اور اس کے پیروکاروں سے لا تعلقی کا اعلان کرتا ہے۔ ہر کنکری پھینکتے وقت تکبیر کہنا اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم اللہ تعالی کی قدرت اور توفیق کے بغیر شیطان کا مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ پانے کی طاقت نہیں رکھتے، چنانچہ ہر حج کرنے اور جمرات کو کنکریاں مارنے والے پر فرض ہے کہ وہ اپنے عمل، اخلاق اور زندگی کے صحیح طرز عمل سے شیطان کو کنکریاں مارے اور نبی کریم ﷺکی پیروی کر کے شیطان اور اس کے حواریوں سے جنگ کرے۔

پھر آپﷺ نے سر کے بال منڈائے اور بال منڈانے والوں کے لیے تین بار دعا کی جبکہ بال چھوٹے کرانے والوں کے لیے ایک مرتبہ اس امید کے ساتھ کہ ان کے گناہ اور غلطیاں ان کے بالوں کے ساتھ گر جائیں۔ آپ ﷺنے اپنے بال مبارک اپنے صحابہ میں تقسیم کر دیے اور انھوں نے یہ پاکیزہ بال آپس میں بانٹ لیے۔ یہ تبرک نبوت کی برکت کی وجہ سے صرف آپﷺ کے ساتھ خاص ہے۔

دوران حج میں لوگ آپ ﷺ سے سوال کرتے تو آپ سب کو جواب دیتے۔ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مردی ہے کہ وہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ دسویں ذوالحجہ کو خطبہ دے رہے تھے۔ آپ کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میرا گمان تو یہ تھا کہ فلاں کام، فلاں کام سے پہلے ہے۔ پھر ایک دوسرا اٹھ کر کہنے لگا: میرا خیال بھی یہ تھا کہ فلاں کام ، فلاں کام سے پہلے ہے۔ میں نے قربانی سے پہلے سرمنڈ والیا ہے اور رمی کرنے سے پہلے قربانی ذبح کر دی ہے اور اس قسم کے اور افعال بھی ہیں جن میں تقدیم و تاخیر ہوئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کرو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ آپﷺ نے ان سب کاموں کے متعلق یہی فرمایا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ الغرض اس دن آپ ﷺ سے جو بھی سوال کیا گیا، اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’کرو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1737)

اللہ ! اللہ ! یہ دین کسی قدر آسان اور لطف و کرم والا ہے۔ اس کے لانے والے نبی مجتبیٰ اور رسول مصطفیﷺ کس شان والے ہیں ! آپ کی سنت کس قدر آسان ، سیرت کسی قدر خوبصورت اور آپ امت پر کتنے مہربان ہیں! سید نا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا:

’’سب سے پہلے ہم جس کام سے اس دن کا آغاز کرتے ہیں وہ نماز پڑھتا ہے، پھر واپس جا کر قربانی کرنا۔ جس نے ایسا کیا، اس نے ہماری سنت کو پالیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی تیار کر لیا ہے، قربانی نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاري العيدين، حديث: 960)

اور  آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللهِ يَوْمُ النَّحْرِ، ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ))

’’بلاشبہ اللہ تبارک و تعالی کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم اخر (دس ذو الحجہ) کا دن ہے۔ اس کے بعد یوم القر (11 ذوالحجہ) ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حديث: 1765)

یوم القر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حجاج کرام طواف افاضہ ادا کرنے اور قربانی کرنے کے بعد منیٰ ہی میں قرار پکڑتے ہیں۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا:

((يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَ شُرْبٍ)) ’’یوم عرفہ (نویں ذو الحجہ)، یوم نحر (دسویں ذو الحجہ، قربانی کا دن) اور ایام تشریق (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذو الحجہ) ہم اہل اسلام کے عید کے ایام ہیں۔ یہ کھانے اور پینے کے دن ہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حديث: 2419)

آپ ﷺنے لوگوں کو احکام حج سیکھنے کی دعوت اور ترغیب دی۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کو دیکھا، آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر سوار ہو کر کنکریاں مار رہے تھے اور آپﷺ فرما رہے تھے:

((لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ))

’’تمھیں چاہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید اس حج کے بعد میں دوبارہ حج نہ کر سکوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1297)

  آپ ﷺ نے اپنے باپ اسماعیل  علیہ السلام کے فدیے اور توحید پرستوں کے امام اور رب کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی اقتدا میں اور باری تعالیٰ کے اس حکم :

﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱۶۲﴾

’’کہہ دیجیے: بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، (سب کچھ) اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘ (الأنعام 162:6) کی تعمیل میں سو اونٹ نحر کیے۔ مذکورہ بالا آیت میں نمک کا مطلب اللہ عز وجل کا قرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرنا ہے۔ اور اس قربانی میں اپنی ذات، اہل و عیال اور فقراء و مساکین کے لیے سہولت اور وسعت اللہ عزوجل کی نعمت کا اعتراف اور اس پر اظہار تشکر ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ ’’اور اپنے رب کی نعمت کا ذکر کرتے رہیں۔‘‘ (الضحی 11:93)

اللہ تعالی نے جانوروں کی تخلیق کا جو مقصد بتایا، نبی اکرم ﷺ  نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ اللہ تعالی نے ان کی تخلیق انسانوں کے کھانے اور فائدہ اٹھانے کے لیے کی ہے۔ ان چوپایوں کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۳۶

لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ ؕ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ۝﴾

’’سو تم ان کا کچھ گوشت کھاؤ اور قناعت پسند اور مانگنے والے (محتاج) کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے چو پائے تمھارے تابع کر دیے تا کہ تم شکر کرو۔ اللہ تک ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت ہرگز نہیں پہنچتا اور نہ ان کا خون، لیکن اس تک تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح اس نے ان (چوپایوں) کو تمھارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی، اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔‘‘ (الحج 22: 36،37)

صرف اللہ تعالی کے لیے ذبح کرنا جائز ہے اور اس میں ان مشرکوں کی مخالفت ہے جو بتوں اور مورتیوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا :

((لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ))

’’جس نے غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے ذبح کیا، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم الأضاحي، حديث: 1978)

چنانچہ آپﷺ کا ذبح کرنا تقریب الہی ، رب تعالیٰ کی رضا کے حصول، اس کی نعمتوں کی شکر گزاری، دین کے شعائر کے اظہار اور مشرکوں کی مخالفت میں تھا۔ تاریخ میں آپ سال سے زیادہ عزت والا کوئی نہیں گزرا۔ آپﷺ نے ہَدی کے سو اونٹ ذبح کیے جن میں سے تریسٹھ آپ ﷺنے اپنے ہاتھ سے ذبح کیے۔ اس میں شاید اشارہ تھا کہ آپ کی عمر مبارک تریسٹھ سال ہے۔ باقی ماندہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ذبح کیے۔

ایک نہایت لطیف نکتہ جسے امام ابو داود  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بیان کیا ہے اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب المنتقی میں ذکر کیا ہے کہ اس موقع پر نبیﷺ کے ہاتھ سے نحر ہونے کے لیے اونٹ ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر آپ کے قریب ہو رہے تھے۔ سبحان اللہ ! پاک ہے وہ ذات جس نے حیوانات کے دلوں میں بھی نبی کریم اور رسول عظیمﷺ کی محبت ڈال دی۔ نحر کرنے کے بعدآپ ﷺ نے ان کا گوشت لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ انھوں نے کھایا اور گھر بھی لے گئے۔ آپ ﷺجود و کرم میں سب سے فائق تھے۔ رب تعالی کا تزکیہ ہی آپ کے لیے کافی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خَلْقٍ عَظِيمٍ﴾

’’اور  یقینًا آپ خُلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم 4:68)

حج کے ایام حاجیوں کے لیے عید اور کھانے پینے کے دن ہیں۔ آپ ﷺ سے بسند صحیح مروی ہے:

’’یوم عرفہ (نویں ذوالحجہ) یوم نحر (دسویں ذوالحجہ، قربانی کا دن) اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے عید کے ایام ہیں۔ یہ کھانے اور پینے کے دن ہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2419)

مقصد یہ ہے کہ حاجی ان ایام میں روزہ نہ رکھیں تاکہ وہ عبادت کے لیے فارغ ہوں۔ حج کے مناسک تندہی سے ادا کر سکیں اور کمزوری نہ ہو کیونکہ یہ محنت اور مشقت کے دن ہیں۔ سبحان اللہ! یہ دین کتنا آسان ہے اور عظمت والا ہے! آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ حج سب سے بڑی بین الاقوامی اور تہذیبی کا نفرنس ہے جس میں مختلف رنگ و نسل اور زبان کے لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔

آپﷺ کے حج کے عظیم مناظر اور کریمانہ کارناموں میں یوم النحر کا خطبہ بھی ہے جسے علماء نے نقل کیا ہے، خطباء نے یاد کیا ہے اور بڑے بڑے دانشوروں پر اس نے سکتہ طاری کر دیا ہے۔ یہ ایسا عظیم خطبہ ہے کہ لوگوں نے ایسا عظیم خطبہ بھی نہیں سنا۔ یہ مال و جان اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ایک بین الاقوامی دستاویز ہے اور انسانیت کے لیے پیغام اور نصیحت ہے۔ آپ ﷺ نے ولولوں کو تحریک دی اور مجمع کے جذبات کو گرمایا۔ تمام لوگوں نے اسے خشوع و خضوع سے بغور سنا اور دل و دماغ میں جگہ دی۔ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ  نے سامعین کو مخاطب کر کے فرمایا:

’گیہ کون سا مہینہ ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم سمجھے کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ ذو الحجہ نہیں؟‘‘ ہم نے کہا: ذو الحجہ ہی ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھرآپ ﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ بالآخر آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ بلدہ، یعنی مکہ مکرمہ نہیں ؟‘‘ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون سا دن ہے؟‘‘ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ ﷺخاموش ہو گئے۔ ہم نے سوچا شاید آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے لیکن آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟‘‘ ہم نے عرض کی: کیوں نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت تمھارے اس شہر میں اور تمھارے اس مہینے میں ہے۔ تم عنقریب اپنے رب سے ملاقات کرو گے تو وہ تمھارے اعمال کے متعلق تم سے سوال کرے گا۔ خبر دار!  میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ خبردار! میرا یہ پیغام حاضر شخص، غائب کو پہنچا دے۔ ممکن ہے جنھیں یہ پیغام پہنچایا جائے ، وہ سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، الأضاحي، حديث: 5550)

چنانچہ یہ نہایت جامع و مانع، مؤثر اور فصاحت و بلاغت سے بھر پور مسحور کن خطبہ ایک عالمی دستاویز اور شرعی دلیل کے بغیر اور ناحق خون نہ بہانے کے حوالے سے سب لوگوں پر ایک حجت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی اس کے اہم نکات میں سے ہے۔ مال و جان، روح و جسم اور انسان کی سلامتی و تحفظ اور اس کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے یہی آپ کی شریعت مبارکہ اور پاکیزہ سیرت ہے۔ مذکورہ بالا خطبےکے نکات کی روشنی میں اگر آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے مال ، خون، جان اور عزت کے حوالے سے انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ لوگ جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠۝﴾

’’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بے شک ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گم راہ ہیں۔‘‘ (الفرقان 44:25)

رمی، حلق اور نحر کے بعد آپ ﷺ مکہ تشریف لے گئے اور بیت اللہ کا طواف کیا جسے طواف افاضہ کہتے ہیں۔ زمزم کا پانی پیا، پھر منٰی واپس آگئے اور ایام تشریق منٰی میں گزارے۔ ان دنوں میں آپ نے روزہ نہیں رکھا بلکہ بغیر روزے کے رہے اور آپﷺ نے فرمایا: ’’تشریق کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام ،حدیث: 1141)

بعض روایات میں آیا ہے کہ ان ایام میں   آپ ﷺ روزانہ منٰی میں خطبہ دیتے اور زوال کے بعد جمرات کو کنکریاں مارتے رہے اور ہر جمرے کو روزانہ سات کنکریاں مارتے۔ اور آپ ﷺ  نے واپسی میں جلدی نہیں کی کیونکہ آپ متقین کے سردار ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ۝﴾

’’اور گنتی کے چند دنوں میں تم اللہ کو یاد کرو، پھر جس نے دو دنوں (منٰی سے مکے کی طرف واپسی ) میں جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جس نے (ایک دن کی) تاخیر کی تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں (بشرطیکہ ) وہ تقوی اختیار کرے۔ اور تم اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک تمھیں اس کے حضور اکٹھا کیا جائے گا۔‘‘

( البقرة203:2)

پھرآپ ﷺ نے وہاں سے کوچ کیا اور رب تعالی کی عبادت اور نیکیوں سے بھر پور خوبصورت وقت گزار نے کے بعد بیت اللہ کا طواف وداع کیا اور خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:

((مَنْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُتْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ))

’’جو شخص محض اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرے، پھر کسی گناہ کا مرتکب ہو، نہ بخش کام کرے اور نہ فسق و فجور میں مبتلا ہو تو وہ گناہوں سے ایسے پاک واپس ہو گا جیسے اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو۔‘‘ (صحیح البخاري الحج، حدیث : 1521)

جب عرفہ کے روز نبی اکرم ﷺ  پر یہ عظیم محکم آیت:

﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ﴾

’’ آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اورتم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘ (المائدة 3:5)

نازل ہوئی تو مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺکی وفات کا وقت قریب ہے اور گویا آپﷺ انھیں الوداع کہہ رہے ہیں۔ اس حج کا نام حجتہ الوداع پڑ گیا کہ آپ نے مومن مردوں اور عورتوں کو الوداع کیا اور ان سے نہایت مؤثر پر سوز اور رلا دینے والی بات فرمائی: ’’لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ عَامِي هَذَا‘‘

’’ہو سکتا اس سال کے بعد میں حج نہ کر سکوں ۔‘‘ (سنن النسائي، مناسك الحج، حديث: 3062)

 یہ سن کر سب لوگ رو پڑے۔ دل بیٹھ گئے اور روحیں کانپ اٹھیں۔ پھر آپ ﷺنے ایک شاندار اور لطیف بات فرمائی: ’’اے لوگو! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ یہ سن کر ہر اونچی نیچی جگہ سے، ہر ٹیلے اور وادی سے آوازیں بلند ہو ئیں اور لوگ پکار پکار کر کہہ رہے تھے: ’’ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے (دین) اچھی طرح پہنچا دیا حق ادا کر دیا اور خیر خواہی کی۔  آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور کبھی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے اور کبھی اوپر پھر فرمایا: ’’اللہ تو گواہ ہو جا۔ اللہ تو گواہ ہو جا۔ اللہ تو گواہ ہو جا۔‘‘ یہ سن کر زمان و مکان اور لوگ لرز اٹھے۔ تاریخ گواہی دینے کے لیے رک گئی۔ یہ کلمہ ہر طرف، ہر شہر اور بستی میں گونجنے لگا اور سمندروں اور صحراؤں کو عبور کر کے نبیﷺ کی صداقت کا اعلان کرنے لگا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ۝﴾

’’ پھر جب تم اپنے حج کے ارکان پورے کر لو تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کو یاد کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (اللہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ پھر کچھ لوگ تو وہ ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ (البقرۃ 200:2)

آپ ﷺ حج سے واپس آئے تو دین مکمل ہو چکا تھا۔ اللہ تعالی کی نعمت تمام ہو چکی تھی۔ شریعت قائم ہو گئی۔ اسلام غالب آ گیا۔ ایمان دلوں میں راسخ ہو گیا۔ ہر طرف توحید کا چرچا ہوا۔ باطل نے پسپائی اختیار کر لی۔ شرک کا سر پھوٹ گیا۔ بت پرستی کا زور ٹوٹ گیا۔ عدل کا بول بالا ہوا۔ امن و امان عام ہوا۔ اسلام پھیل گیا۔ جاہلیت کے شعار مٹ گئے۔ بت پرستی معدوم ہو گئی اور قبائلی تعصب جاتا رہا۔ اور اس کے بعد توحید کے دستے کلمہ حق پھیلانےکے لیے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب ہر سمت روانہ ہوئے اور اسلام، سلامتی، عدل، مساوات، جنت کی کامیابی اور جہنم سے آزادی کا ضامن کلمہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ عام ہو گیا۔ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ ۙ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۝﴾

’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تا کہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگر چہ مشرک نا پسند ہی کریں۔‘‘ (الصف 9:61)

میں اللہ الحي  القیوم، ذو الجلال والاکرام سے سوال کرتا ہوں کہ وہ آپ ﷺکو ہماری طرف سے بہترین جزا دے جو وہ کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے دیتا ہے۔ اور ہماری طرف سے آپ کو پاکیزہ و طاہر درود و سلام پہنچائے جو قیامت تک ہمیشہ آپ کو پہنچتا رہے۔