محمدﷺ بحیثیت پر امید شخصیت

نبی ﷺ دعوت کے آغاز اور بعثت کی ابتدا ہی سے اپنے خالق پر مکمل اعتماد و یقین اور اپنے مولا کے بارے میں نہایت اچھا گمان رکھتے تھے۔ آپ کو اپنا کل نہایت روشن نظر آ رہا تھا اور آپ اچھے مستقبل کے لیے پر امید تھے۔ آپ کی زندگی نیک شگون کے ساتھ بھری ہوئی تھی اور آپ کی روح امید بہار سے سرشار تھی۔ آپ کے رب نے آپ کو بشارت دی کہ ہم نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ کو ہمیشہ پر امید رکھیں گے، چنانچہ فرمایا:

﴿اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾

’’(اے نبی!) کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا ؟‘‘ (الم نشرح1:94)

اللہ تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا تو آپ نہایت وسیع الظرف ہو گئے۔ آپ کا سینہ نور سے چمک اٹھا اور دنیا کے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گیا۔ اور سب سے خوبصورت شگون تو آپ کے اسم گرامی ’’محمد‘‘ میں ہے کیونکہ تمام تعریفیں اللہ نے اس نام میں جمع کر دی ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

وَشَقَّ لَهُ مِن اسْمِهِ لِيُجِلَّه

فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُودٌ، وَهٰذَا مُحَمَّدُ

نَبِيٌّ أَتَانَا بَعْدَ يَأْسٍ وَفَتْرَةٍ

 مِّنَ الرُّسُلِ، وَالْأَوْثَانُ فِي الْأَرْضِ تُعْبَدُ

’’اللہ نے آپ ﷺکو جلالت شان عطا کرنے کے لیے آپ کا نام اپنے نام سے مشتق کیا۔ پس عرش والا محمود ہے اور یہ محمد ہیں۔ نبی مکرم ﷺمایوسی اور رسولوں کے وقفے کے بعد ہمارے پاس تشریف لائے اور اس وقت صورت حال یہ تھی کہ زمین میں بتوں کی پرستش کی جاتی تھی۔‘‘

آپ ﷺ نہایت صاف دل اور ہمیشہ پر امید رہنے والے تھے۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی، مایوسی اور دل شکستگی سے کوسوں دور ہمیشہ آگے بڑھنے کا حوصلہ و عزم رکھتے۔ جب پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ اگر حکم ہو تو آپ کو اذیت دینے والوں کو مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں تو آپ ﷺ نے بڑے وثوق اور امید سے فرمایا:

((بَلْ أَرْجُو أَنْ يُّخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَّعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا))

’’بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ (صحيح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3231)

اللہ کے فضل و کرم، اس کی رحمت اور نبی اکرمﷺ کے نیک شگون اور اپنے مولا کے بارے میں اچھے گمان کی برکت سے ایسے ہی ہوا۔

ابتدائے رسالت اور آغاز سفر ہی سے آپﷺ نہایت پر عزم اور عالی ہمت تھے۔ آپ نے ہمیشہ امید کے دیپ جلائے اور کائنات میں پھیلی مایوی کو ختم کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو عظیم نصرت فتح مبین اور شاندار مستقبل کی نوید سنائی۔ شدید ترین حالات اور پے در پے مصائب میں اپنی امید کی ٹھنڈک سے ان کے دلوں کو تسکین پہنچائی اور یہ بشارت سنائی کہ دنیا عنقریب ان کے تابع ہو جائے گی۔ انجام کار پرہیز گار ہی کامیاب ہوں گے اور کامیابی اس عظیم دین ہی کو ملے گی۔ الحمد للہ عملاً ایسا ہی ہوا۔

آپ ﷺکو مکہ میں اذیت دی گئی، گھیرا تنگ کیا گیا اور آپ کے ماننے والوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں مگر آپ نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا۔ آپ اپنے رب پر مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ رہے تھے:

’’اللہ کی قسم! اللہ تعالی ایک دن ضرور اس دین کو کمال تک پہنچائے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے اکیلا حضر موت تک جائے گا اور اسے راستے میں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا سوائے بھیڑیے کے، اس سے اسے اپنی بکریوں کے بارے میں ڈر ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث: 3852)

آپ ﷺپر امید تھے کہ آپ کا دین ضرور پھیلے گا اور اللہ کی رحمت سے وہ پھیلا۔ آپ پر امید تھے کہ لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوں گے تو الحمد للہ وہ ایسے ہی گروہ در گروہ دین میں داخل ہوئے۔ آپ نے بڑی شان و شوکت اور محبت سے وفود عرب کا استقبال کیا اور اللہ تعالی کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا:

﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ۝وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ۝ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠۝﴾

’’(اے نبی! جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے اور آپ لوگوں کو دیکھیں کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہے ہیں تو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے بخشش مانگیے۔ بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت زیادہ تو بہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ (النصر 1:110-3)

آپ ﷺ پر امید تھے کہ اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن رات کا نظام جاری ہے اور اللہ کے فضل سے عملاًایسا ہی ہوا۔ اللہ کی قسم! اس فقیر اور آپ کی رسالت کے خادم نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھا۔ میں مشرق میں چین کے صوبہ لانژو گیا اور پھر کرۂ ارض کے مغرب میں فرانس کے شہروں نیس اور کین پہنچا تو میں نے وہاں بھی لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا۔ کئی خطباء، ائمہ اور علماء سے میری ملاقات ہوئی جو آپ ﷺ کی دعوت کے طالب اور آپ کی رسالت کی دعوت دینے والے تھے۔

نبیﷺ نہایت کٹھن اور مشکل حالات میں بھی پرامید رہے۔ جب آپﷺ غار ثور میں چھپے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ تھے تو مشرکین غار کے دہانے پر پہنچ گئے۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں جن سے موت، کینہ اور زہر قاتل ٹپک رہا تھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کو قتل کرنے کے لیے تلاش کرتے کرتے وہاں آپہنچے تھے مگر رسول اکرمﷺ اللہ کی امان، نگرانی اور حفاظت میں تھے۔ اللہ تعالی نے آپ پر سکینت اور وقار نازل فرمایا۔ آپ کے دل کو یقین اور توکل سے مالا مال کیا اور تمام امور اللہ کے سپرد کرنے کی توفیق بخشی۔ آپ ﷺ گویا اللہ کے اُنس و رضا کی جنت میں تھے کہ آپ کو کوئی بے چینی و بے قراری، خوف ،غم اور حزن و ملال نہیں تھا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اس صورت حال کا یوں نقشہ کھینچا ہے:

﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰی ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۴۰﴾

’’اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو تحقیق اللہ نے اس کی اس وقت مدد کی تھی جب کافروں نے اس کو مکہ سے نکال دیا تھا۔ وہ دو میں دوسرا تھا، جبکہ وہ دونوں غار میں تھے۔ جب وہ (نبی) اپنے ساتھی (ابوبکر) سے کہہ رہا تھا: غم نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے اس پر اپنی سکوات نازل کی اور ایسے لشکروں سے اس کی مدد کی جنھیں تم نے نہیں دیکھا، اور اس نے کافروں کی بات پست کر دی، اور بات تو اللہ ہی کی سب سے بلند ہے۔ اور اللہ نہایت غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (التوبة 40:10)

سید نا ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ ان کٹھن حالات کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا جبکہ میں غار میں تھا: اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو وہ ضرور ہمیں بھی دیکھ لے گا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ! بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا))

’’اے ابوبکر! تیرا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے‘‘ (صحیح البخاري، کتاب أصحاب النبي، حديث، 3653)

آپ ﷺ کا ایک جملہ تیرا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے دسیوں تالیفات، سیکڑوں کتابوں اور اچھے شگون سے کیے جانے والے تمام مکالمات پر بھاری ہے۔ اللہ تعالی پر اعتماد و یقین اور توکل ہی آپ کی کل متاع تھی جبکہ آپ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے:

﴿وَلَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا﴾ ’’غم نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ امید کے حوالے سے اس سے زیادہ موثر، شیریں، لطیف، روشن اور حوصلہ افزا کلمہ کوئی ہو سکتا ہے ؟ اس سے زیادہ تیز رفتار پیغام کوئی ہو سکتا ہے جو اتنی جلدی اطمینان وسکون اور اللہ پر اعتماد کو اس درجہ تک پہنچا دے؟ یقیناً ﴿وَلَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا﴾   جیسی تاثیر کسی دوسرے جملے میں نہیں۔

آپﷺ دشمن سے برسر پیکار ہو کر بھی پر امید رہے۔ قریش مکہ نے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان سے لیس ایک مضبوط لشکر آپ سے جنگ کرنے کے لیے تیار کیا۔ ان کے پاس اونٹ اور گھوڑے بھی وافر تھے۔ میدانِ بدر میں رسول اکرم ﷺ نے فوراً اللہ کی طرف رجوع کیا اور اپنے رب سے دعا و مناجات کرنے لگے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالی عنہ آگے بڑھے اور آپ کی چادر اٹھا کر آپ کے کندھوں پر رکھی اور پیچھے سے آپ کو اپنی بانہوں میں لے کر عرض کیا: اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا ہے۔ وہ آپ سے کیا ہوا وعدہ جلد ہی ضرور پورا کرے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ۝﴾

 ’’(یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، تو اس نے تمھاری فریاد قبول کر لی اور کہا کہ۔ بے شک میں ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا۔ (الأنفال 9:8 و صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث: 1763)

آپ ﷺنے اپنے رب سے گریہ و زاری جاری رکھی۔ صبح فجر کی روشنی پھیلتی شروع ہوئی تو آپ اپنے خوبصورت اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور اللہ پر پورے اعتماد و یقین سے پر امید انداز میں فرمایا:

’’اللہ کی برکت کے ساتھ چلو اور خوش ہو جاؤ۔ بلاشبہ اللہ تعالی نے دو میں سے ایک گروہ کا مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ اللہ کی قسم! گویا میں اب بھی وہ جگہ میں دیکھ رہا ہوں جہاں کافر مردار ہو کر گریں گے۔‘‘ (سبل الهدى والرشاد: 26/4)

اللہ تعالٰی نے اس معرکے کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿ وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَی الطَّآىِٕفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ۝۷

لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَۚ۝﴾

’’اور جب اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کر رہا تھا کہ یقیناً وہ تمھارے لیے ہے، اور تم چاہتے تھے کہ جو غیر مسلح (تجارتی قافلہ ) ہے وہی تمھارے ہاتھ لگے، اور اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اپنے احکام کے ساتھ حق کو ثابت کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ وہ حق کو حق کر دکھائے اور باطل کو باطل کر دکھائے اگر چہ مجرم لوگ اسے نا پسند ہی کریں۔‘‘ (الأطفال8: 7،8)

بلا شبہ اس آیت کریمہ نے پوری جنگ کا خلاصہ اور معر کے کا نتیجہ ذکر کر دیا اور صحابہ کو ایک بہترین خوشخبری دی جس سے ان کے دل اطمینان اور اللہ پر اعتماد سے سرشار ہو گئے۔ مزید یہ بشارت دی کہ اللہ تعالی آسمان سے بارش برسائے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ۝﴾

’’اور (اللہ ) آسمان سے تم پر بارش برسا رہا تھا تاکہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کر دے اور تم سے شیطانی وسوسے دور کرے اور تاکہ تمھارے دلوں کو مضبوط کر دے اور تاکہ اس کی وجہ سے تمھیں ثابت قدم رکھے‘‘ (الأنفال 11:8)

سو بارش برسی۔ مسلمانوں نے پانی پیا، وضو اور غسل کیا اور اللہ تعالی نے ان کے دل مضبوط کیے اور انھیں ثابت قدمی عطا کی۔ آپ ﷺنے یہ معرکہ اس فاتح کی طرح لڑا جسے جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی اس کا نتیجے معلوم ہو، پھر معرکہ شروع ہوا تو آپ کی نصرت کے لیے فرشتے نازل ہوئے اور الحمدللہ یوم فرقان کے روز فتح مکمل ہوئی۔ یہ اسلام کی پہلی بڑی کامیابی تھی، پھر کامیابیوں اور فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے دین کو عزت دی، اپنا کلمہ بلند کیا اور اپنی نعمت تمام کر دی۔

آپ ﷺنے کبھی نا امیدی کا اظہار نہیں کیا، اور آپ ﷺ ناامی اور مایوس بھی کیسے ہو سکتے تھے آپ ﷺ پرفرمان باری نازل ہو چکا تھا

﴿ وَ لَا تَایْـَٔسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ؕ اِنَّهٗ لَا یَایْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۝﴾

’’اور اللہ  کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘(یوسف87:12)

آپ ﷺ مایوسی اور نامیدی سے کوسوں دور تھے اورآپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو بھی آپ نے ہمیشہ اللہ کے ساتھ حسنِ ظن، اچھی امید او توکل کا درس دیا۔

آپ ﷺ کے نیک شگون اور پر امیدی کا ایک واقعہ خندق کی کھدائی کا ہے جو ہر  وقت میرے دل و دماغ میں گھومتا رہتا ہے اورمیرے خیالات کا محور رہتا ہے۔ نبیٔ رحمت ﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے ساتھ مل کر خندق کھو رہے ہیں۔ بھوک پیاس اور تھکاوٹ نے ان کی کمر دوہری کر رکھی ہے۔ ادھر کفارِ قریش، یہود  اور دیگر قبائل ِ عرب کا بڑی کثیر تعداد میں لشکر ان کے سروں پر آ  پہنچا تھا۔ حالات اس قدر گھمبیر اور پریشان کن تھےکہ قرآن نے ان کی شدت کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی ہے:

﴿ اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا۝۱۰

هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا۝﴾

’’جب دشمن تم پر تمھارے اوپر کی طرف سے اور تمھارے نیچے کی طرف سے چڑھ آئے، اور جب آنکھیں خوف و ہراس کی وجہ سے پھر گئیں۔ اور کلیجے منہ کو آنے لگے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ وہاں مومن آزمائے گئےاور شدت سے ہالا مارے گئے۔‘‘ (الاحزاب33: 10،11)

بلاشبہ یہ ننگے پاؤں، بھوکے پیاسے، تھکے ماندۃ فقراء کمزور لوگ  جو اپنے پرانے ہتھیاورں سے خندق کھو رہے تھے، ان کے کپڑوں پر مٹی  گر رہی تھی اور ان کے سروں پر غبار پڑ رہا تھا۔ اور وہ یوں خندق کھود رہے تھے جیسے ان کی قبریں ہوں۔ دائیں بائیں موت کا سائے منڈلا رہے تھے اور وہ جس مشکل اور پریشانی سے گزر رہے تھے، اس کو  اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ اس قدر کرت اور مصائب سے گزر رہے تھے کہ بھوک کی شدت میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ان کےلیے زندگی کی نوید تھا۔ ان کٹھن حالات میں نبیٔ اکرم ﷺ انہیں پتھروں اور چٹانوں کے درمیان امیددلاتے اور بشارت سناتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے خندق کھودری تو بھوک کی شدت سے انہوں نے اپنے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: ہمیں سلمان کے پاس لے چلو۔ وہاں گئے تو ایک چٹان نے انہیں مشکل میں ڈال رکھا تھا۔ نبیٔ اکرمﷺ نے فرمایا: پیچھے ہٹو، اسے میں دیکھتا ہوں۔ آپ ﷺ ن ے بسم اللہ  پڑھ کر اس پر ضرب لگائی تو اس کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ اکبر! رب کعبہ کی قسم! روم کے محلات مل گئے۔ پھر آپﷺ نے دوسری ضرب لگائی تو ایک اور ٹکڑا الگ ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اکبر! رب کعبہ کی قسم! فارس کے محلات مل       گئے۔ یہ سن کر منافقوں نے کہا: ہمیں جان کے لالے پڑے ہیں اور آپ ہمیں فارس د روم کے محلات کی نویدیں سناتے ہیں۔ (المعجم الكبير للطبر اني 372/11)

مخلوق الٰہی کے سرتاجﷺ کی طرف سے یہ امید اور بشارت گو یا میٹھا اور شیریں پانی تھا جو شدت کی پیاس میں بر سا، اور ساتھ ہی آپﷺ فرما رہے تھے:

’’بلا شبہ اللہ تعالی نے میرے لیے زمین سمیٹ دی۔ میں نے اس کے مشارق و مغارب، یعنی تمام سمتیں دیکھیں اور بلاشبہ میری امت کی بادشاہت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی۔ اور مجھے سونے چاندی کے خزانے دیے گئے۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن وأشراط الساعة، حديث 2889)

 ثرٰی (مٹی) سے اوج ثریا کی نوید سنانے اور ہاتھوں سے کھودی جانے والی ادنی سی حندق کو دو عظیم سلطنتوں کی فتح کا پیش خیمہ قرار دینے پر ان کے خزانوں کے حصول کا تصور اور اس کی تصدیق آپ ﷺکے سچے اور کامل یقین رکھنے والے اصحاب ہی کر سکتے تھے۔ انھوں نے اس بشارت کے بعد رضا، سکونت، خوشی اور اطمینان محسوس کیا۔ ان کے چہرے مسرت سے کھلکھلا اٹھے، ان کے دل فرحت و سرور سے اس امید اور خوشخبری پر بار بار یہ کلمہ اپنی زبان سے دہرانے لگے جسے قرآن نے بیان کیا ہے:

﴿وهٰذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولَهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولَهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا﴾

’’یہی ہے وہ جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا۔ اور اس (چیز) نے ان کے ایمان اور فرماں برداری کو اور زیادہ کر دیا۔‘‘ (الأحزاب 22:33)

اور جہاں تک منافقوں کا تعلق ہے تو وہ اللہ کے بارے میں شکوک وشبہات، بدگمانی اور بدظنی رکھتے ہوئے دھوکا قرار دے رہے تھے۔ اللہ تعالی نے ان کا قول یوں نقل کیا ہے:

﴿مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولَهُ إِلَّا غُرُوْرًا﴾

’’اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے نہیں وعدہ کیا مگر دھو کے فریب کا۔‘‘ (الأحزاب 12:33)

وہ استہزا اور ٹھٹھے مذاق کے طور پر کہتے: ہم دشمن کے خوف سے قضائے حاجت کے لیے تو جا نہیں سکتے اور آپ ہمیں فارس و روم کے محلات کی خوشخبریاں سناتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اس معاملے کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا مگر رسول اکرمﷺ نے ان چٹانوں پر نبوی چوٹ لگائی اور بشارت دی اور پھر ایسے ہی ہوا جیسے آپ نے خبر دی تھی۔ آپ کی امید بر آئی اور چند سال بعد آپ کی نبوت کی صداقت سامنے آگئی۔ اسلامی لشکر فارس و روم کی سرزمین میں لا الہ الا للہ کا پرچم لہراتے ہوئے داخل ہوئے اوراللہ کی کبریائی کا جھنڈا وہاں جا گاڑا، نیز قیصر و کسرٰی کے ایوانوں میں صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم اللہ کے حضور سربسجود ہوئے۔

ایک ہی میدان اور ایک جیسی صورت حال میں کچھ لوگ پُرامید ہیں اور کچھ دوسرے مایوس اور بدگمان ہیں۔

اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا:

﴿وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِهِمْ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ۝﴾

’’اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان (منافقین) میں سے بعض ایسے ہیں جو (طنز) کہتے ہیں: تم میں سے کس کو اس (سورت) نے ایمان میں زیادہ کیا ہے؟ پھر جو لوگ ایمان لائے ہیں، اس (سورت) نے ان کو ایمان میں زیادہ کیا ہے اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے، اس (سورت) نے ان کی (پہلی) پلیدی پر مزید پلیدی کا اضافہ کر دیا اور وہ مرتے دم تک کافر ہی رہے۔‘‘ (التوبة 124:9، 125)

آیات، ان کا نزول، معرکہ، مکان و زمان سب ایک ہیں لیکن لوگ مختلف ہیں۔ کچھ لوگ اللہ پر اعتماد، بھروسا اور ایمان رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں امید، نیک شگون اور بشارت سے مالا مال کر دیتا ہے اور کچھ سرنگوں فتنہ باز ہیں جو اللہ کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں، اس کے دین کا انکار کرتے اور اس کے رسول کو جھٹلاتے ہیں تو اللہ تعالی انھیں دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں آگ میں ڈالے جانے کی سزا دیتا ہے۔

اگر سید نا موسی علیہ السلام پتھر پر ضرب لگائیں تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑیں اور ہمارے رسول وﷺ  پتھر پر کدال ماریں تو آسمان آپ کے لیے بارش برسانے لگے، زمین آپ کا استقبال کرے اور آپ کا دین پوری دنیا میں پھیل جائے۔ آپ ﷺ نے خندق کھودتے ہوئے یقینی فتح و نصرت کی بشارت دی، پھر آپ کا دین شرق و غرب میں پہنچ گیا۔ جب رات کے اندھیرے گہرے ہو جائیں تو فجر طلوع ہوتی ہے اور جب آسمانوں پر بادل چھا جائیں تو بارش برستی ہے کیونکہ آسانی تنگی کے ساتھ ہے۔

آپﷺ منبر پر جلوہ افروز ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم آپ کے سامنے ہیں۔ اس دوران میں آپﷺ کے نواسے، سیدہ فاطمہ کے لخت جگر سید نا حسن بن علی  رضی اللہ تعالی عنہ آجاتے ہیں۔ آپﷺ انھیں منبر پر اپنے ساتھ بٹھاتے ہیں جبکہ وہ ابھی چھوٹے بچے ہیں، پھر آپ لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:

((إِنَّ ابْنِي هٰذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللهَ أَنْ يُّصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ))

’’بلاشبہ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔‘‘ (صحيح البخاري، الصلح، حدیث: 2704)

یوں لگتا ہے کہ رسول اکرمﷺ کے سامنے کائنات کی کتاب کھول کر رکھ دی گئی ہے اور آپ اس کا مطالعہ کر رہے ہیں اور اس بچے کے بارے میں پر امید ہیں کہ یہ مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرے گا، اسے بہنے نہیں دے گا اور فتنے کو ختم کر کے امت مسلمہ کے دو گروہوں کی باہمی جنگ بند کرے گا۔ اور الحمد للہ اس کریم فرزند حسن بن علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے عملاً ایسا ہی کیا کہ جب وہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان  رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے تو فتنہ تھم گیا، شر جڑ سے ختم ہو گیا اور اُمت کا معاملہ بالکل اسی طرح ہو گیا جیسے رسول کریمﷺ نے امید لگائی تھی۔

آپﷺ کے خواب بھی امید اور بشارت پرمبنی تھے جیسا کہ سیدہ ام حرام بنت ملحان  رضی اللہ تعالی عنہا جو نبی اکرمﷺ کی محرم تھیں، بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی اکرم ﷺمیرے ہاں سو گئے۔ پھر جب آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: آپ کسی وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو بحر اخضر (بحیرہ روم) پر یوں سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘ سیدہ ام حرام  رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا: آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی، پھر دوبارہ سو گئے تو پہلے کی طرح کیا اور سیدہ ام حرام  رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی پہلے کی طرح عرض کیا جس کا جواب آپ نے پہلے جیسا دیا۔ سیدہ ام حرام  رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا: آپ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔

آپ نے فرمایا: ’’تو اُن میں پہلے لوگوں میں سے ہوگی۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد و السير، حديث: 2799)

 اللہ، اللہ! آپ ﷺکے خواب بھی حسنِ فال، امید اور بشارت پر مبنی تھے جنھیں اللہ تعالی حقیقت کا جامہ پہنا دیتا اور جیسے آپ بتاتے، ویسے ہی ہو جاتا۔ سو ایک دن آیا کہ یہ لشکر روانہ ہوا تو اس کے ساتھ جلیل القدر صحابی سیدنا عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ سیدہ ام حرام بنت ملحان  رضی اللہ تعالی عنہا بھی تھیں اور ہزاروں نیکو کار اہل ایمان جزیرہ قبرص کی طرف سمندر (بحیرہ روم) عبور کر رہے تھے۔ وہ امن و سلامتی اور ایمان پر مبنی کلمه ’’اَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ‘‘ کی سر بلندی کا عزم رکھتے تھے۔ سو اس نعمت کے اتمام، دین کی تکمیل اور نبوی بشارت کے برحق ہونے پر تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔

آپﷺ نیک شگون کی وجہ سے ان ناموں کو پسند کرتے جن میں خوشخبری، بھلائی اور امید کے معانی پائے جاتے ہوں اور وہ زندگی، بڑھوتری اور برکت کا مفہوم رکھتے ہوں۔ آپ برے ناموں یا برے معانی والے ناموں سے منع کرتے جن سے بدشگونی، جنگ، شر، خوف، غم اور مصیبت وغیرہ کا مفہوم نکالا جاسکتا ہو۔ ابو وہب جشمی  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلى اللهِ عَبْدُ اللهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ، وَهَمَّامٌ، وَّ أَقْبَحْهَا، حَرْبٌ، وَمُرَّةُ))

’’اللہ کو سب سے محبوب نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں اور سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں۔ اور سب سے برے نام حرب (جنگ) اور مرہ (کڑوا) ہیں۔ ‘‘ (السلسلة الصحيحة: 34/3)

آپﷺ نے ناموں سے امید، سچائی، اچھی قسمت، نیک فال، خوبصورت اور مبارک نتائج اخذ کیے۔ مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل بھی ہے کہ اللہ کو سب سے پیارے نام وہ ہیں جو عبد سے شروع ہوں، جیسے عبداللہ اور عبد الرحمن اور سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں کیونکہ آپﷺ کا دین سلامتی، عدل، امن اور ایمان والا ہے اور حرب اس کے برعکس ہے۔ اور مرہ میٹھے اور طیب کی ضد ہے جو دین اسلام میں نا مناسب ہے کیونکہ اسلام اول و آخر مٹھاس ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے اس عورت کا نام بھی بدل دیا جسے عاصیہ (گناہ گار ) کہا جاتا تھا اور اس کا نام جمیلہ رکھا کیونکہ آپ ﷺ خوبصورت دین اور منہج لے کر آئے۔

رسول اکرمﷺ نے ایک آدمی سے پوچھا: ”تمھارا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: حزن (سخت )۔ آپ ﷺنے فرمایا:

’’بلکہ تم سہل (نرم) ہو۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث (6193)

اس کی وجہ یہ کہ آپﷺ کی شریعت سہل اور آسان ہے۔

حدیبیہ کے دن جب قریش مکہ نے نمائندے بھیجے اور سب سے آخر میںسہیل بن عمرو کو بھیجا تو رسول اکرمﷺ نے نیک فال لیتے ہوئے اپنے صحابہ  رضی اللہ تعالی عنہم سے فرمایا:

’’اب یقیناً تمھارا معالمہ آسان ہو گیا ہے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الشروط، حديث (2732)

جب آپ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس کا نام یثرب تھا۔ آپ نے بدل کر طیبہ رکھ دیا کیونکہ یثرب کے معنی رونا پیٹنا اور سرزنش ہے لیکن طیبہ عمدہ، خوبصورت اور اچھا نام ہے جو خیر و برکت اور ہر اعتبار سے عمدگی اور اچھائی پر دلالت کرتا ہے۔ سید نا سمرہ بن جندب  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

اور تم اپنے لڑکے کا نام یسار (آسانی)، رباح (منافع)، صحیح (کامیاب ہونے والا) اور افلح (زیادہ فلاح یاب ) نہ رکھنا، کیونکہ تم پوچھو گے: فلاں (مثلاً: افلح) یہاں ہے؟ وہ نہیں ہوگا تو جواب دینے والا کہے گا: یہاں کوئی افلح (زیادہ فلاح پانے والا ) نہیں۔‘‘

سید نا سمرہ بن جندبﷺ نے کہا: بس یہ چار ہی نام ہیں۔ میری ذمہ داری پر اور کوئی نام نہ بڑھانا۔ (صحیح مسلم، الآداب، حديث (2137)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی کا نام یسار وغیرہ رکھیں اور آپ کسی سے پوچھیں: گھر میں یسار ہے؟ اور آگے سے جواب دیا جائے نہیں ہے، تو اس سے بدشگونی کی جاسکتی ہے کہ یسار (آسانی) گھر میں نہیں، بلکہ تنگی ہے۔ اسی طرح آپ کہیں: رباح ہے؟ اور جواب ملے نہیں تو مطلب کہ نفع نہیں بلکہ خسارہ ہے اور اس طرح کے دیگر ناموں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ اچھی قسمت اور خوبصورت فال کے کسی قدر حریص تھے۔ آپ ﷺ نے مایوسی، گھبراہٹ، بدشگونی اور نحوست کے تمام دروازے بند کر دیے۔ آپ ناموں سے کوئی نہ کوئی معنوی اچھائی اور خوبصورتی نکال لیتے تاکہ زندگی میں خوشخبری پھیلائیں۔ سیدنا انس  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسولﷺ رات کے وقت خیبر پہنچے اور آپ کی عادت تھی کہ جب کسی قوم کے پاس رات کے وقت پہنچے تو صبح ہونے تک ان پر حملہ نہیں کرتے تھے، چنانچہ جب صبح ہوئی تو یہودی کلہاڑے اور ٹوکریاں لے کر باہر کھیتوں کی طرف نکلے۔ جب انھوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے: اللہ کی قسم یہ تو محمد اور ان کا شکر ہے۔ اللہ کی قسم! یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’خیبر تباہ ہو گیا۔‘‘ (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4197)

دیکھیے! آپ ﷺ نے کس طرح ان کے شہر کے نام سے خرابی کا مفہوم اخذ کیا، پھر جب توڑ پھوڑ کے آلات وغیرہ دیکھے تو اس سے یہ نیک فال لی کہ ان کی توڑ پھوڑ ہو گی اور خبر دی کہ یہود تباہ و برباد ہو جائیں گے، ان کی قوت پاش پاش ہو جائے گی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گی۔

صلح حدیبیہ میں بظاہر لگتا تھا کہ رسول اکرمﷺ نے بہت سے معاملات میں پسپائی اختیار کی ہے، چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ”کیوں نہیں ؟‘‘ عرض کی: کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں جائیں گے؟ فرمایا: ”کیوں نہیں‘‘ عرض کی: پھر ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر صلح کیوں کریں؟ اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس کے حکم سے صلح کر رہا ہوں۔ اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ پر فتح کی خوشخبری کے ساتھ قرآن اترا۔ آپ ﷺنے سید نا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کو بلوایا اور انھیں جو نازل ہوا تھا وہ پڑھوایا:

﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ۝۱

لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ۝

وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا۝﴾

’’(اے نبی !) بلاشبہ ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی، تاکہ اللہ آپ کے لیے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی معاف کر دے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کرے اور آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت دے اور (تاکہ) اللہ آپ کی بڑی زبر دست مدد کرے۔ ‘‘ (الفتح 48: 1۔3)

انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس پر سیدنا عمر اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ۝۱

لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ۝۲

وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا۝۳

 کا دل خوش ہو گیا اور اُنھوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (صحیح مسلم، الجهاد و السير، حدیث 1785) یہاں آپ کام کی امید اور نیک فال کی وحی کے ساتھ تصدیق کر دی گئی اور جب اللہ تعالی نے اس سورت میں آپ کے لیے فتح اور مغفرت کی بشارت دی اور اپنی نعمت تمام کرنے، کامل ہدایت اور کھلی مدد کی نوید سنائی تو آپﷺ نے سیدنا عمر ریا کو فتح کی خوشخبری دی اور یہ سب ایک سطر میں بتا دیا۔ مشرکین کی طرف سے لگائی گئی صلح کی تمام شرائط اگر چہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ تھیں مگر رسول اکرمﷺ اپنی پر امید شخصیت اور اللہ پر بھروسے کے بل بوتے پر مایوس نہیں تھے۔ آپ نے مثبت نتائج پر نظر رکھی۔ آپ کو یقین تھا کہ بہت جلد آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوں گے۔ توحید کا علم بلند ہوگا اور شرک کو شکست فاش ہو گی۔ حق سر بلند ہو گا اور باطل بھاگے گا۔ اس یقین کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس وحی کا نور، نبوت کی عصمت اور اللہ تعالی کی عمرانی تھی۔ آپ ﷺکا ہر اقدام  ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کا عملی نمونہ تھا۔ آپ کا ہر منصوبہ کامیابی پر مبنی تھا۔ آپ کی ہر بات سے بشارت پھولتی تھی اور آپ کے ہر عمل کا نتیجہ فتح ونصرت تھا۔ آپ ﷺ کے قول ((لَنْ يُّضَيِّعَنِي اللهُ أَبَدًا))

 ’’اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا‘‘  میں اللہ تعالی کی ذات پر ایسے کامل اعتماد اور پختہ یقین کا اظہار ہے جس کا نتیجہ واضح مدد اور قریبی فتح کی صورت میں ظاہر ہوا۔

بلا شبہ آپ ﷺ کا قول ((لَنْ يُّضَيِّعَنِيَ اللهُ أَبَدًا)) ربانی ہدایت اور نبوی امید کی روشن دلیل ہے۔ اگر ہر مومن زندگی میں اس کی پیروی کرے اور ہر معاملے میں اسے دستور حیات بنالے تو وہ یقیناً کامیاب و کامران ہو جائے۔ ہر بحران میں اس کلمے کو دہرائیں اور جب فقر و فاقہ، بیماری اور مشکلات و مصائب کا سامنا ہو تو اپنے رب پر پورا یقین رکھیں اور پورے یقین و ایمان سے کہیں: ((لَنْ يُّضَيِّعَنِيَ اللهُ أَبَدًا))، یقیناً اللہ کی مدد آپ کے شامل حال ہو گی اور آپ کا انجام نہایت اچھا ہوگا۔

آپﷺ نے ہر مومن مرد و عورت کو اچھی فال لینے اور اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی ترغیب دی اور ہمیں خوشخبری سنائی کہ حالات جیسے بھی ہوں، خیر اور بھلائی ہمارے لیے ہے۔ تنگی ہو یا آسانی، شدت ہو یا فروانی، صحت ہو یا بیماری، فقیری ہو یا مالداری، کوئی بھی حالت خیر اور بھلائی سے خالی نہیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

’’مسلمان پر جو بھی مصیبت آتی ہے، اللہ ضرور اسے اس کے لیے کفارہ بنا دیتا ہے حتی کہ اسے جو بھی کاٹنا چبھتا ہے، وہ اس کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، المرضى، حدیث: 5640)

اس سے بڑی امید کیا ہو سکتی ہے اور اس سے اچھا شگون کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کے خسارے، منافع، غم اور خوشیاں سبھی آپ کے حق میں بہتر ہوں ؟ اللہ تعالی کے اس آسان، معتدل اور سہل دین پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ ﷺنے خبر دی کہ اچھی امید رکھنے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر و ثواب ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ((تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيْكَ لَكَ صَدَقَةٌ))

’’آپ کا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی آپ کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب البر والصلة حدیث:1956)

مسکراہٹ جس کی خرید و فروخت نہیں ہوتی، جو محض دانتوں اور ہونٹوں کا ایسا حسین امتزاج ہے جس سے امید اور خوشی ظاہر ہوتی ہے، اس پر بھی بندے کو اجر ملتا ہے کیونکہ مسکراہٹ سے بندہ اپنے بھائی کو یہ احساس دلا رہا ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ لوگ اچھی حالت میں ہیں۔ آنے والا کل اس سے خوبصورت اور بہتر ہے۔

رسول اکرمﷺ نے مومن کے نیک شگون کو اللہ کے حکم سے اس کی مرادیں پوری ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالی سے اچھی امید رکھی تو اللہ تعالی نے اس کو عزت بخشی اور اس کی مراد پوری کر دی۔

نبی اکرم ﷺایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے جو موت و حیات کی کشمکش میں تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم کیا محسوس کرتے ہو؟ ‘‘اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گنا ہوں سے ڈرتا ہوں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’ایسے موقع پر یہ دونوں چیزیں کسی بندے کے دل میں جمع نہیں ہو تیں مگر یہ کہ اللہ اسے وہ چیز دیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے، اور جس سے وہ ڈرتا ہے، اس سے اسے امن عطا کرتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 983)

امید سے مراد اللہ تعالی کی مغفرت، رحمت اور رضا کی خواہش ہے اور یہ ایسی آرزو ہے جو اللہ کی خوشنودی اور اس کی جنتوں کی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔ یقیناً ہمارے نبی کریمﷺ نے ہمارے لیے امید، خوش قسمتی اور آرزو کو اول تا آخر ایک ہی جملے میں سمو دیا ہے۔ آپ ﷺ اللہ عزوجل سے بیان کرتے ہیں: ((وَ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ))

’’میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان رکھتا ہے، میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري التوحيد، حديث: 7405)

کیا کوئی کلام اس عظیم اور جلیل القدر فرمانِ نبوی کی جگہ لے سکتا ہے یا اس کی شرح کر سکتا ہے جو براہ راست لوگوں کے دلوں تک پہنچ سکے ؟!

اگر آپ اللہ سے بھلائی کی امید رکھتے ہیں اور آپکو یقین ہے کہ وہ سب سے بڑاسخی، جو دوکرم والا اور ارحم الراحمین ہے تو پھر آپ کو اس کے خوبصورت اور عمدہ نتائج کی بشارت ہو۔ اور اگر کوئی شخص اس کے برعکس اللہ کے ساتھ بدگمانی رکھتا ہے یا شر کی امید رکھتا ہے تو اس کے برے گمان کی وجہ سے یہ ناپسندیدہ صورت حال اسے ضرور پیش آئے گی، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ لظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ؕ عَلَیْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ۚ وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ لَعَنَهُمْ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۝﴾

’’جو اللہ کے متعلق برے گمان کرتے ہیں، بری گردش انھی پر ہے۔ اور اللہ ان سے ناراض ہوا، اور اس نے ان پر لعنت کی، اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھا ہے، اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔‘‘ (الفتح 6:48)

بیشتر جدید سائنسی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مثبت سوچ رکھنے والے پر امید انسان کی عمر اوسط ساڑھے سات سال زیادہ ہوتی ہے اور زندگی میں پر امید رہنے والے اللہ کے حکم سے لمبی عمر پاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر چیز اللہ کی قضا و قدر سے ہے لیکن جس نے لمبی عمر مقرر کی ہے، اس نے پر امیدی بھی مقرر کی ہے، چنانچہ پرامیدی اور اچھا گمان ایجابی (مثبت) قوت کا باعث ہے جس پر تمام سائنسدان متفق ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس کی خبر دی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((لَا يَزَالُ قَلْبُ الكَبِيرِ شَابًّا فِي اثْنَيْنِ فِي حُبِّ الدُّنْيَا وَطُولِ الْأَمَلِ))

“”بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے: (ان میں سے ) ایک دنیا کی محبت اور دوسری لمبی امید ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حدیث: 6420)

عصری سائنسی علوم نے اس فرمان نبوی ﷺ کی تائید کی ہے۔ بیسویں صدی کی معاصر مغربی ثقافت میں بے شمار ایسی تحقیقات ہوئیں جو سیکڑوں مجلات پر محیط ہیں۔ ان سب کا نتیجہ: كَمَا تَتَوَقُّعُ يَكُونُ ’’ آپ جو توقع اور امید رکھیں، اس کے مطابق ہوگا۔‘‘ یہ بات وحی نے آج سے چودہ سو سال پہلے بڑے عمدہ اور خوبصورت الفاظ میں بتا دی ہے اور وہ ہے: ((وَ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ)) ’’میں بندے سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔‘‘ لہٰذا اپنے دل کے رابطے اور نیت کے زاویے کو ہمیشہ نیک شگون اور امید کے ساتھ قائم رکھیں اور رب العالمین کی آسانیوں پر خوش رہیں۔

ہمارے رسولﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم پر امید رہیں اور زندگی میں ہمیشہ خوبصورت چیز اور اچھائی کی توقع رکھیں۔ برے وقت کا انتظار نہ کریں کیونکہ قرآن کا منبع اور اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ جس نے اللہ تعالی سے  اچھائی کی توقع رکھی اور اس کے ساتھ اچھا گمان رکھا تو وہ اسے نوازے گا اور اسے سعادت مند بنا کر اس کی تمنائیں پوری کرے گا۔ اس کے برعکس جس نے اللہ کے ساتھ بدگمانی رکھی اور مصائب و مشکلات کا انتظار کیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ ہوگا۔

آپﷺ بدشگونی سے منع کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ ﷺبخار میں مبتلا ایک دیہاتی کی تیمارداری کے لیے گئے تو اس سے فرمایا: ((لَا بَأْسَ طُهُورٌ إِنْ شَاءَ اللهُ))

’’ڈریں مت، یہ ان شاء اللہ پاکیزگی کا باعث ہے۔‘‘

دیہاتی نے کہا: پاکیزگی کا باعث؟ بلکہ یہ تو بخار ہے جو ایک بوڑھے پر جوش مار رہا ہے، جو اسے قبر دکھا کر ہی چھوڑے گا۔ یہ سن کر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((فَنَعَمْ إِذَن)) ’’پھر ایسے ہی ہوگا۔‘‘ (صحيح البخاري، المناقب، حديث (3616)

مطلب یہ ہے کہ تم نے اچھے گمان کو ٹھکرا دیا ہے تو پھر برا گمان قبول کرو۔ بہت جلد تیرے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ آپﷺ نے مایوسی اور بری امید سے منع کیا اور فرمایا:

’’کوئی بیماری از خود متعدی ہے نہ بدشگونی درست ہے، ہاں مجھے فال پسند ہے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: فال کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھی بات۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2224)

معنی یہ ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے بعد اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بیماری از خود متعدی نہیں ہوتی کیونکہ جو متعدی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے تو وہ شکوک و شبہات اور وہم و بدشگونی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس کی نقل و حرکت پرندے کی نقل و حرکت کے ساتھ جڑی ہو، وہ یقیناً اس کے عقیدے کو بھی بگاڑ دے گی جیسا کہ جاہلیت میں عربوں کا طریقہ کار تھا کہ وہ اپنے سفر اور دیگر امور کو پرندے کے اڑنے کی سمت کے ساتھ وابستہ کر دیتے۔ پرندے کے دیکھنے والے کی دائیں طرف سے بائیں جانب اڑنے سے بدشگونی لیتے اور اسے سامح اور بارح کا نام دیتے۔

آپﷺ نے ان سب امور سے منع کر دیا اور اللہ پر توکل اور بھر دسا کر کے اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے بتایا کہ ہر چیز اللہ کے حکم سے ہوتی ہے اور لوح محفوظ میں درج ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’میری امت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو کسی سے دم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث:6472)

آپ ﷺنحوست اور بدشگونی سے منع کرتے تھے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے سنا:

’’پرندوں کے ساتھ بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں، بہترین چیز فال ہے۔‘‘  انھوں نے پوچھا: فال کیا ہے؟

آپﷺ نے فرمایا:

’’اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنتا ہے (اور اس سے اچھی امید وابستہ کرتا ہے )۔‘‘ (صحیح البخاري، الطب، حدیث:5754)

آپ ﷺاچھی بات سامنے آنے سے نیک شگون لیتے، جیسے کسی اچھی بات سے یہ فال لیتے کہ اچھا ہوگا۔ آپ تمام امور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے کہ اللہ کا فیصلہ حتمی ہے اور اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دیتے۔ ایسے افعال سے منع کرتے جو اللہ کی تقدیر کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں اور بدظنی و بحران کا باعث بنیں اور جن سے اللہ کے حکم اور فیصلے پر عدم رضا کی بو آتی ہو، جیسے آپﷺ نے فرمایا:

((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لّطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوْبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ))

’’جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کیا اور جاہلیت کی سی باتیں کیں، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حديث (1297)

حتی کہ موت کی تمنا بھی جائز نہیں، حالانکہ وہ ہر صورت آئے گی۔ آپﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا:

’’اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اگر اس کے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے۔‘‘ (صحیح البخاري، المرضى، حديث: 562)

آپﷺ نے دعا میں بھی زیادہ بہتر چیز مانگنے کا حکم دیا۔ اللہ سے بھی زیادہ خوبصورت چیز اختیار کرنے کی امید رکھی اور زندگی وموت میں سے جو زیادہ مناسب ہے، وہ مانگا۔ سید نا خبیب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے:

اگر رسول اکرمﷺ نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعا کرتا۔ (صحیح البخاري، المرضٰى حديث:582)

ہمارے رسول ﷺ خوبصورت زندگی کی طرف بلاتے، کیونکہ اللہ کی راہ میں گزرنے والی زندگی خیر و برکات ترقی، نیکیوں میں اضافے اور بلندی درجات کا باعث ہے۔ اس لیے باری تعالی نے فرمایا ہے:

﴿وَلَا تَقْتُلُوْا انْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا﴾

’’اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (النساء 29:4)

قتل کے محض ذکر پر بھی اللہ تعالی کو رحم آیا، یہ امید اور سعادت والی اچھی زندگی کی طلب کی انتہا ہے۔ اور آپ نے ہر اس کام سے منع کر دیا جس میں اکتاہٹ، ناراضی اور بحران و مایوسی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

 ’’جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کی، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی طرح خود کو گراتا رہے گا۔ جس نے زہر پی کر خودکشی کی، اس کے ہاتھ میں زہر ہوگا اور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زہر پی کر خود کشی کرتا رہے گا اور جس نے تیز دھار آلے سے خود کشی کی، وہ آلہ اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس آلے سے اپنا پیٹ پھاڑتا رہے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الطب، حديث: 5778)

یقینًا ہمارے نبی ﷺنے ہمیں دعا میں بھی امید، اعتماد اور بلند ہمتی کا درس دیا۔ کثرت سے دعا کرنے اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنے کا حکم دیا۔ یہ سبق دیا کہ جس چیز کی رغبت ہو، وہ نہایت اعلیٰ اور قیمتی مانگیں کیونکہ اللہ جل شانہ عاجز نہیں۔ وہ سب معز زین سے بڑھ کر عزت والا اور ارحم الراحمین ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’بس جب تم اللہ تعالی سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ یہ افضل اور اعلیٰ جنت ہے۔ ‘‘

راوی کہتا ہے کہ میرے خیال کے مطابق آپﷺ نے فرمایا: ’’اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں بہتی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2790)

آپ ﷺکی اکثر دعائیں اور اپنے رب سے مناجات، امید اور حسن ظن پر مبنی ہوتی تھیں، چنانچہ آپﷺ بکثرت یہ دعا کیا کرتے تھے:

((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدِّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ))

’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی ہے، بے بسی اور کاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث:2893)

آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں مایوسی، سستی، بزدلی اور بخل نہیں تھا۔ صرف غلبہ، فتوحات، امید و آرزو، اللہ پر اعتماد، اچھا انجام ،عظیم انعامات، روشن مستقبل، مطلوبہ امید، بلند اور مبارک مقصد آپ کی زندگی کا خاصہ تھے۔ اللہ کی قسم! آپ ﷺ کیا عظیم انسان تھے ؟؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ اپنے صحابہ کے لیے دعا مانگتے تو وہ بھی نہایت اعتماد اور اللہ کے ساتھ حسن ظن کے ساتھ ہوتی۔ ایک دیہاتی رسول اکرمﷺ کے پاس آیا جو سیکڑوں میل صحرائی سفر طے کر کے اپنے اہل و عیال کے پاس جانا چاہتا تھا۔ اس کے پاس زاد راہ نہ تھا۔ اسے بے آب و گیاہ صحرا میں کھو جانے کا خطرہ تھا۔ وہ معلم خیرﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی ساری صورت حال آپ کو بتائی اور عرض کیا: میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں، لہٰذا مجھے زاد راہ عطا فرمائیں۔ لگتا ہے کہ اس نے مالی تعاون کی درخواست کی کہ گندم، جو یا کھجوریں وغیرہ عطا کر دیں مگر رسول معظم ﷺ نے اس سے اعلی، ارفع اور قیمتی زاد راہ اسے عطا کیا اور فرمایا:

((زَوَّدَكَ اللهُ التَّقوٰى)) ’’الله تعالی تجھے تقویٰ کا زاد راہ عطا کرے۔‘‘

جسے اللہ تعالی تقوی کی دولت سے نوازے، اسے کوئی خوف نہیں رہتا۔ دیہاتی کو یہ نہایت اچھا لگا اور وہ لطف اندوز ہوا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اضافہ فرمائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ((وَ غَفَرَ ذَنْبَكَ))

’’ اور اللہ تیرے  گناہ بخش دے۔ ‘‘اللہ تعالی جس کے گناہ بخش دے، اسے کس کا ڈر اور وہ کیسےغمگین ہوگا؟ اعرابی یہ سن کر خوش ہوا اور اسے شرح صدر حاصل ہو گیا۔ اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اور زیادہ کریں۔ آپ نے فرمایا: «وَ يَسَّرَ لَكَ الْخَيْرَ حَيْثُمَا كُنْتَ))

’’اور تم جہاں بھی ہو، اللہ تمھارے لیے خیر اور بھلائی کی راہیں آسان کرے۔ ‘‘(جامع الترمذي، الدعوات حديث:3444)

جسے ہر جگہ اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ خیر اور بھلائی عطا کر دے، وہ بھوک، پیاس، تھکاوٹ اور سفر کا شکوہ نہیں کرے گا۔ انسانی زندگی کی آخری غرض وغایت اور مقصود اللہ کا تقوی، گناہوں کی بخشش اور معاملات کی آسانی ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے وفات سے تین روز پہلے رسول اکرمﷺ سے ستا:

((لَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ))

’’تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة وصفة نعيمها وأهلها، حديث: 2877)

یہاں ایک نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ  وفات تک نہایت پر امید رہے اور آخری دم تک اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھا۔

آپﷺ مرض الموت میں بھی نہایت پرامید تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے مرض وفات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے حتی کہ جب سوموار کا دن آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نماز میں صف بستہ تھے تو رسول اللہﷺ نے حجرے کا پردہ اٹھایا اور ہماری طرف دیکھا۔ اس وقت آپ کھڑے ہوئے تھے، ایسا لگتا تھا کہ آپ کا رخِ انور مصحف کا ایک ورق ہے، پھر آپ ﷺنے ہنستے ہوئے تبسم فرمایا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حديث: (419)

آپﷺ اپنے رب کے وعدوں پر پختہ یقین، امت کی اصلاح کی خوشی اور ایک امام پر اکٹھے ہونے اور ان کی باہمی الفت و محبت کی وجہ سے مسکرائے۔ مشکلیں کتنی بھی زیادہ رہیں مگر امید اور اچھا گمان ہمیشہ آپ کا رفیق و ہمنوارہا۔

بلا شبہ آپ ﷺ کا گمان دنیا کے کسی بھی دوسرے شخص سے یکسر مختلف رہا کیونکہ آپ کے نیک شگون اور اچھے گمان کا انحصار وحی مقدس پر تھا جس کی بدولت آپ اپنے مستقبل کے بارے میں پوری طرح پرامید تھے۔ اس کے برعکس دوسرا کوئی شخص محض تخمینہ لگا سکتا ہے اور گمان ہی کر سکتا ہے اور اسے انجام کا یقین نہیں ہو سکتا۔

آپ کا گمان و شگون اس لیے بھی دوسروں سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ ایک ایسی بزرگ عامل شخصیت کا گمان ہے جن میں تو کل اور عمل دونوں ایک ساتھ جمع ہیں۔ آپﷺ تو کل محض میٹھی خواہشات یا جذبات نہیں تھے جن کا آپ ورد کرتے ہوں بلکہ آپﷺ کو اللہ کی مدد و نصرت پر مکمل بھروسا اور اعتماد تھا۔ آپ غار میں چھپے ہیں اور ان پر خطر حالات میں مدینہ طیبہ جانے اور پھر اسلامی ریاست بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ جس روز آپ نے فارس و روم پر غالب آنے کی نوید سنائی اور ان دونوں کے سونے چاندی کے خزانوں کا مسلمانوں کو مالک قرار دیا۔

اس وقت آپ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے سہولت پسندوں اور روشن مستقبل کی امید رکھنے والوں کے برعکس خندق کھود رہے تھے اور پوری سنجیدگی سے محنت کر رہے تھے، چنانچہ مومن اللہ کے ساتھ حسن ظن میں رسول کریم ﷺ کی پیروی کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اچھی، احسن اور خوبصورت چیز کی توقع رکھتا ہے اور اللہ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے۔ زندگی کا کھلے دل سے استقبال کرنے، پرامید رہنے اور اچھا گمان کرنے میں آپﷺ ہی ہمارے لیے نمونہ اور مثال ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ۝﴾

’’ بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (الأحزاب 21:33)

………………..