محمدﷺ بحیثیت آسانیاں بانٹنے والے

سہولت و آسانی کے امام، بشیر و نذیر اور سراجِ منیر محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ آپ نے ساری زندگی نہایت آسان اور سادہ گزاری اور آسانیاں دے کر مبعوث کیے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنُيَسِّر﷩كَ لِلْيُسْرٰى﴾

’’اور ہم آپ کو آسان راستے کی توفیق دیں گے۔ ‘‘ (الأعلى87: 8)

آپ ﷺنہایت ہی آسان شریعت لے کر آئے جیسا کہ ارشاد نبویﷺ ہے:

((بعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ))

’’مجھے یکسوئی والا آسان دین دے کر بھیجا گیا۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 22291)

ایک موقع پر فرمایا:

((إِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْنِيْ مُعَنِّتًا، وَلَا مُتَعَنِّتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِيْ مُعَلِّمًا مُّيَسِّرًا))

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا نہیں بنایا بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسمانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 1478)

 آپ ﷺ کی تمام زندگی ہی آسانی سے عبارت ہے۔ آپ جہاں گئے، جہاں ٹھہرے اور جہاں نقل مکانی کی، آسانی ہر جگہ آپ کے ساتھ رہی۔ اگر دو اقوال، افعال اور احوال میں سے ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ہمیشہ آسان قول، فعل اور حال کا انتخاب کیا۔ آپ کا کلام، خطبہ، وعظ ونصیحت، عبادت، کھانا، پینا، سونا، جاگنا اور دیگر تمام امور آسانی اور فضل و رحمت پر مبنی ہیں۔

اللہ تعالی نے سید ولد آدمﷺ کی بعثت کے ساتھ انسانیت پر آسانی کا ارادہ فرمایا تو آپ کی رسالت کو تمام جہانوں کے لیے فتح مبین بنایا۔ عبادت گزاروں پر لطف و کرم فرمایا اور تمام لوگوں پر آسانی کے لیے آپ کو مبعوث کیا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کو آسانی کی توفیق دی ،تنگی سے بچایا، خوشخبری دے کر بھیجا اور دنیا و آخرت میں آپ کو امام بنایا۔

آپﷺ نے روح و بدن کے حقوق میں توازن قائم رکھتے ہوئے امت کے لیے آسانی کی۔ آپ نے فرمایا:

((إِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ

عَلَيْكَ حَقًّا))

’’بلاشبہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے۔ تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے۔ تیرے ملاقاتی کا مجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6134)

آپ ﷺکی عطا کی ہوئی آسانی، زندگی اور انسانی مزاج کے موافق ہے، جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا، وَاغْدُوْا وَرُوحُوا، وَشَيْءٌ مِّنَ الدُّلْجَةِ، وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوا))

’’ٹھیک ٹھیک عمل کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔ صبح و شام اور اسی طرح رات کو ذرا سا چل لیا کرو۔ اور در میانی چال چلا کرو، تم منزل مقصود کو  پہنج جاؤ گے۔ ‘‘(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6463)

یعنی تمام امور میں نرمی اور آسانی کی راہ اختیار کرو کیونکہ اس سے انسان سلامتی سے منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے۔

اور اس میں امت کے لیے سراسر آسانی اور ہر معاملے میں نرمی اور سہولت کا پہلو تلاش کرنے کی دعوت ہے تاکہ انسان پوری سرگرمی سے عمل کرے۔ طبیعت پر بوجھ بھی نہ ہو اور پورے شرح صدر سے وہ کام انجام دے۔ آپ ﷺسے مروی ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا: کون سا عمل اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَدْوَمُهُ وَ إِنْ قَلَّ)) جس پر ہمیشگی ہو، خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘ (مسند أحمد حدیث 25431)

کیونکہ مقصود اعمال پر دوام اور ہمیشگی ہے، خواہ تھوڑا ہی ہو، لہٰذا مسلسل کیا ہوا تھوڑا عمل، اس زیادہ سے بہتر ہے جو کبھی کیا اور کبھی چھوڑ دیا۔

نبی اکرم ﷺ نے اپنی طاقت سے بڑھ کر مشقت اٹھانے اور خود کو آزمائش میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے اورآسانی میں آپ کا منہج اور دستور یہ ہے کہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے، ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ أَمَةً وَّسَطًا﴾

’’اور (جیسے تمھیں ہدایت دی) اسی طرح ہم نے تمھیں درمیانی امت بنایا۔‘‘ (البقرة 143:2)

نیکی ہمیشہ دو برائیوں، یعنی افراط و تفریط اور غلو و بے قدری کے درمیان ہوتی ہے۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: ایک شخص رسول اللہ سلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی اس نے اسلام کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دن اور رات میں نماز پنجگانہ ادا کرنا۔‘‘ اس نے عرض کیا: کیا اس کے علاوہ اور بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، اگر نفل پڑھو تو الگ بات ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘  اس نے عرض کیا: کیا ان کے علاوہ بھی مجھ پر روزے فرض ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’نہیں، الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔‘‘ رسول اللہ ﷺنے زکاۃ کا ذکر کیا تو اس نے کہا: کیا مجھ پر زکاۃ کے علاوہ اور بھی فرض ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، اگر نفلی صدقہ کرو تو اور بات ہے۔‘‘ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا واپس گیا: اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ یا کم نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا تو فلاح پائے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الشهادات، حديث: 2678)

یقیناً آپ ﷺلوگوں سے تکلیف، مشقت اور پریشانی دور کرنے کے لیے آئے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾

’’اور اس نے دین میں تمھارے لیے کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ (الحج 78:22)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾

’’اللہ کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ (البقرة 2: 286)

نیز آپ ﷺکا فرمان ہے:

((إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَّلَنْ يُّشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا))

’’بلا شبہ دین آسمان ہے۔ اور جو شخص دین میں سختی کرے گا، دین اس پر غالب آئے گا، لہٰذا اپنے دین میں پختگی اختیار کرو اور میانہ روی اپنا ‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث (39)

آپﷺ ہمیشہ آسانی کی دعوت دیتے اور آسانی کرنے والوں کو خوشخبری دیتے۔ آپ نے فرمایا:

((مَنْ يَّسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ))

’’جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے، اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2699)

آپﷺ نے آسانی کے سارے دروازے کھولے اور ان میں سے ایک توبہ کا دروازہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿  وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ ﴾

’’اور وہ ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیز یں حرام ٹھہراتا ہے۔ (الأعراف7: 157)

 آپ سے پہلے کئی لوگوں کو تو بہ کے لیے خود کو قتل کرنا پڑتا اور بعض لوگ اپنے آپ پر اس معاملے میں بہت سختی کرتے اور کہتے کہ آدمی کی غلطی اس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے اور توبہ کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو قتل کرے۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا:

﴿ فَتُوْبُوْۤا اِلٰی بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ ؕ فَتَابَ عَلَیْكُمْ ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۵۴﴾

’’لہٰذا اب تم اپنے پیدا کرنے والے کے حضور توبہ کرو اور تم اپنے آپ کو قتل کرو۔ یہ تمھارے لیے تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہت بہتر ہے۔ پھر اللہ نے تم پر توجہ کی، بے شک وہی بہت زیادہ تو بہ قبول کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (البقرة 54:2)

چنانچہ آپ ﷺکی رسالت بنی نوع انسان کو نجات دینے، انسانیت پر رحم کرنے اور جہان والوں کو خوشخبری اپنے کے لیے آئی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ﴾

’’ آپ کہہ دیجیے: (اللہ فرماتا ہے: اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘ (الزمر 53:39)

آپﷺ نے تو بہ کرنے والوں کے لیے تو بہ کی راہیں آسان اور قریب کر دیں، خواہ گناہ کتنے ہی بڑے اور خطا ئیں کتنی ہی زیادہ ہوں۔ کبھی وضو کو گناہوں کا کفارہ اور طہارت کا ذریعہ بتایا۔ کبھی فرض و نفل نماز کو تو بہ کی راہ قرار دیا۔ کبھی استغفار و دعا کو توبہ کا ذریعہ ٹھہرایا اور اس کے بارے میں بے شمار آیات و احادیث ہیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نبیﷺ کے پاس تھا۔ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو چکی ہے، آپ ﷺمجھ پر جاری فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق مزید پوچھ کچھ نہیں کی، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو اس شخص نے نبیﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبیﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے، آپ کتاب اللہ کے مطابق اسے مجھ پر جاری کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟‘‘ اس نے کہا: ہاں پڑھی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالی نے تیرا گناہ معاف کر دیا ہے، یا فرمایا: تیری حد معاف کر دی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحدود، حديث: 6823)

سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ اسلام قبول کرنے کے لیے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سامنے بیٹھ گئے تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’اپنا دایاں ہاتھ آگے کرو تاکہ میں تمھاری بیعت لوں۔ ‘‘ انھوں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور پھر پیچھے کر لیا۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’عمروا تمھیں کیا ہوا؟‘‘  عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا شرط ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: مجھے بخش دیا جائے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟))

’’کیا آپ کو علم نہیں کہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت پہلے تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث (121)

یہ کیا ہی خوبصورت اور آسان کلمہ ہے: ((الْإِسْلَامُ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ)) ’’اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ ایک ہی آن اور لمحے میں اللہ سے تو بہ اور مغفرت کے نتیجے میں سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کا گناہوں کا سیاہ دفتر ختم ہو جاتا ہے۔

آپ ﷺ نے طہارت کے معاملے میں بھی ہمارے لیے نہایت آسانی فرمائی اور باری تعالی کے اس فرمان کی طرف راہنمائی کی:

﴿ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا۝۴۳﴾

’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت سے (فارغ ہو کر ) آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیم کر لو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بے شک اللہ بہت معاف کرنے والاء بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘ (النساء 43:4)

آپ طہارت کے ہر معاملے میں سہولت اور آسانی پائیں گے۔ مثال کے طور پر جس کو حدث اصغر لاحق ہو، اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ معروف طریقے سے وضو کرے اور پھر جب تک وضو ٹوٹ نہیں جاتا، اسی ایک وضو سے مسلسل کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے۔ جنابت کی حالت میں غسل کرنا اور پورے جسم پر پانی بہانا ضروری ہے اور اگر پانی دستیاب نہ ہو تو پاک مٹی سے تمیم ہی کافی ہے۔

آپﷺ کی دی ہوئی آسانیوں میں سے موزوں اور جرابوں پر مسح کی اجازت بھی ہے کہ مقیم ایک دن رات اور مسافر تین دن رات تک صبح کر سکتا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے رحمت اور آسانی ہے کیونکہ ہر بار وضو کرتے وقت موزوں اور جرابوں کو اتارنا باعث مشقت ہے۔

اسی طرح اگر پانی کے استعمال سے بیماری یا نقصان کا اندیشہ ہو یا جسم پر کوئی زخم ہو یا سخت سردی سے جان کو خطرہ لاحق ہو تو بھی پاک مٹی سے تیمم کی آسانی موجود ہے اور یہ سب اللہ کی رحمت، سہولت اور لطف و کرم ہے۔

آپ ﷺکا فرمان ہے:

’’ میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاک بنا دی گئی ہے۔ میری امت کے جس شخص کو جہاں نماز کا وقت ہو جائے، اسے چاہیے کہ نماز پڑھ لے۔“ (صحيح البخاري، التيمم، حديث: 335)

یہ نبی اکرم ﷜ﷺکی دی ہوئی سہولیات میں سے ہے، چنانچہ جہاں بھی پاکیزہ مٹی مل جائے، جس قدر استعمال ممکن ہو، اس کے ساتھ تیمم جائز ہے اور اس کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ کوئی اور شرعی رکاوٹ نہ ہو۔

نماز کے حوالے سے نبیﷺ کی آسانی کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ پچاس نمازوں کی فرضیت کے بعد انھیں پانچ کر دیا گیا اور پھر انھیں بھی پانچ مختلف اوقات میں ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺکے ذریعے سے ہم پر لطف و کرم اور رحم فرمایا کہ عملی طور پر نمازیں پانچ کر دیں اور اجر و ثواب پچاس نمازوں کا رکھا۔ مریض کو رخصت دی کہ وہ بیٹھ کر، ٹیک لگا کر یا پہلو کے بل لیٹ کر یا جیسے بھی لیٹنا ممکن ہو، نماز ادا کر سکتا ہے۔

رسول اکرم ﷺنفل نماز کبھی کھڑے ہو کر پڑھتے اور کبھی بیٹھ کر ادا کرتے۔ کبھی لمبا قیام کرتے اور کبھی مختصر۔ رات کے نوافل میں کبھی بآواز بلند قراءت کرتے اور کبھی سِرِّی اور آہستہ۔ وتر، یعنی تہجد کبھی رات کے ابتدائی حصے میں پڑھتے کبھی آدھی رات کو اور کبھی رات کے آخری حصے میں ادا فرماتے۔ آپﷺ امام کو بھی نماز پڑھانے سے منع فرماتے تاکہ مقتدیوں کو مشقت نہ ہو۔ سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دفعہ اپنی قوم کو لمبی نماز پڑھائی تو آپﷺ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کر دیا اور غصے سے فرمایا: ((يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنتَ))

’’اے معاذا کیا تم فتنے اور آزمائش میں ڈالتے ہو؟‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حديث705)

سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:

ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم! میں نماز فجر میں فلاں شخص کی وجہ سے شرکت نہیں کرتا کیونکہ وہ ہمیں لمبی نماز پڑھاتا ہے۔ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی کسی وعظ ونصیحت میں اس دن سے زیاد و غضب ناک نہیں دیکھا۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ مِنْكُمْ مُّنَفِّرِيْنَ، فَأَيُّكُمْ مَّا صَلّٰى بِالنَّاسِ فَلْيُوجِزْ، فَإِنَّ فِيْهِمُ الْكَبِيْرَ والضَّعِيْفَ وَذَا الْحَاجَةِ))

’’اے لوگو! تم میں سے کچھ لوگ دوسروں کو متنفر کرتے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو بھی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ اختصار سے کام لے کیونکہ مقتدیوں میں بوڑھے، کمزور اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں‘‘ (صحيح البخاري، الأحكام، حديث: 7158)

ایک روایت میں ہے:

نبی ﷺ ایک دفعہ (مسجد میں) داخل ہوئے تو دیکھا کہ دوستونوں کے درمیان ایک رسی لٹک رہی ہے۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: ’’یہ رسی کیسی ہے ؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: یہ رسی سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے لٹکا رکھی ہے کیونکہ جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں۔نبی ﷺ نے فرمایا:

’’نہیں، اسے کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص خوش مزاجی کے ساتھ نماز پڑھے۔ جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‘‘ (صحیح البخاري، التهجد، حديث: 1150)

امت پر آپﷺ کی آسانی اور سہولت کی ایک صورت یہ ہے کہ جب آپ سفر کرتے تو چار رکعت والی فرض نمازوں کو کم کر کے دو دو رکعت پڑھتے۔ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ اکٹھا پڑھ لیتے۔ وتر کے سوا باقی سنتیں اور نوافل چھوڑ دیتے۔ جب آپ مہ ‎ﷺلوگوں کو نماز پڑھاتے تو ان کی سہولت کا خیال رکھتے ہوئے نہایت مختصر اور ہلکی نماز پڑھاتے۔

لوگوں کی آسانی اور سہولت کے لیے آپ ﷺ نے جمعے کا خطبہ مختصر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ((إِنَّ طُوْلَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِّنْ فِقْهِهِ))

’لمبی نماز اور مختصر خطبہ بندے کے فقیہ ہونے کی نشانی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث369)

یعنی یہ اس کی دینی سوجھ بوجھ کی علامت ہے۔ یہ آسانی آپ نے نماز جیسے عظیم عمل میں بھی ملحوظ رکھی جسے آپﷺ نے اپنی اور قیامت تک آنے والے ہر مسلمان مرد و عورت کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ اور حقیقت یہی ہے کہ نماز آنکھوں کی ٹھنڈک اسی وقت ہو گی جب اس کی ادائیگی میں آسانی اور سہولت ہو، کوئی مشقت اور پریشانی نہ ہو۔

آپ ﷺنے نماز کو اپنے لیے راحت قرار دیا اور یہ راحت اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب یہ سہل اور آسان ہو، اس کی ادائیگی میں تکلیف نہ ہو، اور در حقیقت نماز اسی طرح ہے۔

سید نا محجن بن ادر ع رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ))

’’بلاشبہ تمھارا بهہرین دین وہ ہے جس میں زیادہ آسانی ہو۔‘‘ آپﷺ نے تین بار فرمایا۔ (مسند احمد: 32/5،

حدیث:20364)

اور آپ ﷺ نے فرمایا:

’’میانہ روی اختیار کرو، درمیانی چال چلو، اعتدال سے کام لو۔ بلا شبہ جو اس دین میں سختی کرتا ہے، دین اس پر غالب آجاتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 22963)

آسانی آپﷺ کا راستہ، سخاوت آپ کا مقصد اور سہولت آپ کا منہج وطریقہ ہے۔

فرض روزوں میں آپﷺ کا آسانی دینا واضح ہے کہ اللہ تعالی نے آپ اور آپ کی امت پر پورے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے اور اس میں بھی استطاعت کی شرط لگائی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ﴾

’’اور جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمھارے لیے تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ (البقرة 185:2)

شریعت مطہرہ کا مقصود ملاحظہ کریں کہ اس نے کسی طرح امت کی آسانی اور سہولت کو ملحوظ رکھا۔

آپ ﷺنے سفر میں روزہ چھوڑا اور افطار کا حکم دیا تو آپ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے افطار سے انکار کر دیا ہے اور ابھی تک روزے کی حالت میں ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺنے فرمایا:

((أولٰئِكَ الْعُصَاةُ، أُولٰئِكَ الْعُصَاةُ))

’’یہ نافرمان ہیں۔ یہ نا فرمان ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصيام، حدیث: 1114)

آپ ﷺایک سفر میں تھے تو ایک جگہ رش دیکھا جہاں ایک آدمی پر سایہ کیا گیا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’اسے کیا ہے ؟‘‘ انھوں نے کہا: یہ روزہ دار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ))

’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث 1946)

آپﷺ کی سہولیات میں سے یہ بات بھی ہے کہ آپ نے مریض، مسافر، حیض والی، دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو رمضان میں روزہ افطار کرنے اور بعد میں اس کی قضا ادا کرنے کی اجازت دی۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کو میرے متعلق بتایا گیا کہ میں کہتا ہوں: اللہ کی قسم! میں جب تک زندہ رہوں گا، دن کو روزہ رکھوں گا اور رات کو قیام کروں گا۔ رسول اللہ اللہ نے مجھ سے فرمایا:

 ’’تو نے ایسا کہا ہے کہ اللہ کی قسم میں زندگی بھر دن کو روزے سے رہوں گا اور رات قیام میں گزاروں گا ؟‘‘

میں نے عرض کیا: میں نے ایسا ہی کہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” تو اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ روزہ رکھو اور افطار بھی کرو۔ رات کو نماز پڑھو اور نیند بھی لو۔ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ چونکہ ہر نیکی کا دس گنا اجر ملتا ہے، اس لیے یہ عمل سال بھر کے روزوں کی طرح ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3418)

آپ ﷺنفلی روزوں میں بھی آسانی کرنے والے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺروزے رکھتے حتی کہ ہم کہتے: آپ روزے ترک نہیں کریں گے، پھر آپ روزے چھوڑ دیتے حتی کہ ہم کہتے: آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے سوا کبھی کسی مہینے نے کے پورے روزے رکھے ہوں، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی (اور ) مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھے ہوں جتنے شعبان میں رکھتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1156)

 نفلی روزے میں آسانی کی ایک صورت ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:

ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’عائشہ! کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے پاس کوئی چیز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو پھر میں روزے سے ہوں۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس ہدیہ بھیجا گیا یا ہمارے پاس ملاقاتی (جو ہدیہ لائے) آگئے ام المؤمنین کہتی ہیں: جب رسول اللہﷺ واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمیں ہدیہ دیا گیا ہے یا ہمارے پاس مہمان آئے اور میں نے آپ کے لیے کچھ محفوظ کر کے رکھا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”وہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: وہ حَیس، یعنی کھجور، گھی اور پنیر سے بنا ہوا کھانا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے لائیے۔‘‘ میں اسے لے آئی اور آپﷺ نے کھا لیا، پھر آپ ﷺنے فرمایا: ’’میں نے روزے کی حالت میں صبح کی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث (1154)

رسول اکرمﷺ کا رویہ ملاحظہ کریں کہ جب کھانا میسر نہیں آیا تو روزہ رکھ لیا اور جب کھانا مل گیا تو روزہ افطار کر لیا۔ اسی طرح آپﷺ اپنے سفر میں بھی کرتے تھے۔ بلا شبہ آپ نے اپنے سفر میں اس رخصت اور آسانی کو اختیار کیا جو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں نازل کی ہے۔ آپ ﷺفرماتے تھے:

((إِنَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتٰى رُخَصُهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ تُؤْتَى مَعْصِيَتُهُ))

’’بلا شبہ اللہ تعالی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے جیسے وہ یہ نا پسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔ ‘‘(مسند احمد، حدیث: 5866)

آپﷺ نے زکاۃ کے باب میں بھی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ آپﷺ نے زکاۃ صرف اس شخص پر واجب کی ہے جس کا مال ایک خاص مقدار کو پہنچ جائے اور پھر مال اور صاحب مال کی تطہیر و پاکیزگی کے لیے نہایت تھوڑی، یعنی اڑھائی فیصد رقم دینے کا حکم دیا ہے۔

اسی طرح چوپایوں کی زکاۃ ہے۔ آپ نے سال بھر باہر چرنے والے اور گھر کا چارہ کھا کر چلنے والے چوپایوں میں فرق کیا ہے۔ گندم اور پھلوں کی زکاة میں آسانی پیدا کی ہے۔ چشموں، کنوؤں اور بارش سے سیراب ہونے والی زمین کی زکاۃ میں فرق کیا ہے۔ اس کے علاوہ زکاۃ کے دیگر احکام آسانی سہولت اور وضاحت سے بھرے پڑے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فقیر کے حقوق کا بھی خیال رکھا ہے اور صاحب مال کو بھی نقصان نہیں پہنچایا۔

آپﷺ حج میں بھی آسانیاں کرنے والے تھے۔ جب اللہ تعالی نے حج فرض کیا تو فرمایا:

((مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا))

’’جو اس کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔‘‘ (آل عمران 97:3)

جب رسول اکرم ﷺ نے حج کیا تو مسلمانوں پر آسانی کی حتی کہ حج میں آپ کا یہ جملہ مشہور ہو گیا: اِفْعَلْ وَلَا حَرَجَ ’’ایسا کر لو، کوئی حرج نہیں۔ ‘‘ بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ یوم نحر کے روز ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا: میں نے تو یہ سمجھا تھا کہ فلاں کام، فلاں سے پہلے ہے، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو اس نے کہا: میں سمجھا تھا کہ فلاں کام، فلاں سے پہلے کرنا ہے۔ میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر کے بال مونڈ لیے۔ میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی اور اس طرح کے سوالات کیے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے جس طرح بھی آگے پیچھے کیا ہے، کوئی حرج نہیں۔ اس دن آپ سے جو بھی سوال کیا گیا، آپﷺ نے یہی جواب دیا: ’’تم کرو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ یہ جملہ ’’تم کرو، کوئی حرج نہیں‘‘ نہایت آسانی اور سہولت پر دلالت کرتا ہے اور حاجیوں کے ساتھ انتہائی نرمی اور رحمت کی دلیل ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جسے اس کے دو بیٹے پکڑ کر چلا رہے تھے۔ آپﷺ نے پو چھا: ’’ اسے کیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: اس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’بلاشبہ اللہ تعالی اس کے خود کو عذاب دینے سے بے نیاز ہے۔ اور اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔‘‘ (صحیح البخاري، جزاء الصيد، حدیث: 1865)

یوں آپ ﷺنے لوگوں کے لیے آسانی اور سہولت پیدا کی۔

حجتہ الوداع میں خثعم قبیلے کی ایک عورت نے آپ سے سوال کیا اور کہا: اللہ کے رسول! بندوں پر اللہ کے فريضہ حج کو میرے باپ نے اس حال میں پایا ہے کہ وہ نہایت بوڑھے ہیں۔ وہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے۔ اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو فريضہ حج ادا ہو جائے گا؟ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (صحیح البخاري، جزاء الصيد، حديث: 1854)

استطاعت نہ رکھنے والے کی طرف سے حج ادا کرنے کی اجازت شریعت کی آسانیوں میں سے ہے۔

آپﷺ کی عطا کی ہوئی سہولیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے بشرطیکہ استطاعت ہو۔ استطاعت نہ ہو تو وہ بھی نہیں۔ اس سے بڑا فضل و احسان اور اس سے بڑھ کر آسانی کیا ہو سکتی ہے؟!

آپﷺ تلاوت قرآن میں بھی آسانی پیدا کرنے والے تھے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کی طرف وحی کی: ﴿فَاقْرَءُوْ امَا تَيَسَّرَ مِنْهُ﴾  ’’پھر قرآن میں سے جتنا آسان ہو تم پڑھو۔‘‘ (المزمل 20:73)

آپ نے قراءت کی حد مقرر نہیں کی۔ امت کی آسانی کے لیے لوگوں کی قدرت و طاقت پر منحصر ہے، وہ جتنا چاہیں، قرآن پڑھیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ طٰهٰۚ۝۱

مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤیۙ۝﴾

’’طٰہٰ۔ ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑیں۔‘‘ (طہٰ20: 1،2)

سوقرآن مجید مشقت یا مشکل اور تنگی کی راہ نہیں بلکہ یہ آسانی، فراخی، نرمی اور رحمت کے لیے نازل ہوا ہے۔ جب نبی اکرمﷺ کو سید نا عبد اللہ بن عمرو  رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہر رات قرآن مجید ختم کرتے ہیں تو آپ نے انھیں حکم دیا: ”تم ہر مہینے میں قرآن پڑھا کرو۔‘‘ انھوں نے کہا: میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر  بیس راتوں میں ایک قرآن مکمل کر لو۔‘‘ انھوں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’پھر تم سات دنوں میں قرآن مکمل کر لیا کرو، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حديث: 5054)

یہ قیامت تک کے لیے آپ کی طرف سے ہر امتی کے لیے وسعت اور سہولت ہے، یعنی ہر روز ایک پارہ پڑھنے کی ترغیب دلائی۔ ہر قسم کی تعریف اس پاک ذات کے لیے ہے جس نے اپنی رحمت سے نبی مجتبیٰ اور رسول مصطفی محمد بن عبد اللہ ﷺکی وساطت سے شریعت کو نہایت سہل اور آسان بنایا۔

کھانے پینے میں بھی آپﷺ کا طرز عمل نہایت سادہ اور آسان تھا۔ جو دستیاب نہ ہوتا، اس کے لیے تکلف نہ کرتے اور جو موجود ہوتا، اسے رد نہ کرتے۔ جو پیش کیا جاتا، کھا لیتے۔ کبھی کسی مخصوص کھانے کی ڈیمانڈ نہ کرتے۔ جو آسانی سے میسر ہوتا، اسی پر خوش ہو جاتے۔ آپ ﷺ نے جو کی روٹی کھائی، عام ہی کھجور یں بھی تناول فرمائیں۔ دودھ، ستو، جو بھی آسانی سے میسر ہوتا، کھا پی لیتے۔ شہد اور گوشت وغیرہ جو بھی حلال اور پاکیزہ چیز پیش کی جاتی، خوشی سے کھاتے۔ آپ وہی کھاتے پیتے جو آپ کے ساتھی کھاتے پیتے تھے۔ آپ ﷺ کا کوئی خاص کھانا یا مشروب نہ تھا۔ آپﷺ معاشرے کے تمام لوگوں جیسا کھانا کھاتے تھے، بشرطیکہ حرام نہ ہو۔ کھانے میں آپ نے کا طریقہ نہایت آسان اور سہل تھا۔ آپ ﷺفقراء و مساکین کو نظر انداز کر کے صرف اپنے پیٹ کی فکر کرنے والے عیاشی اور اسراف پسند مالدار لوگوں کی طرح نہیں کھاتے تھے۔ سنت سے منہ پھیرنے والے جعلی زاہدوں کی طرح بھی نہیں جنھوں نے رہبانیت (ترک دنیا) ایجاد کر لی، جس کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نہیں اتاری، چنانچہ انھوں نے کھانے اور نیند کو ترک کر کے اپنے جسموں کو کئی بیماریوں میں مبتلا کر لیا۔

آپ ﷺلباس کے حوالے سے بھی آسانی پسند تھے۔ آپ ﷺ کو سستا، مہنگا جو میسر آجاتا، زیب تن فرما لیتے۔ آپ سونے اور ریشم وغیرہ حرام چیزوں سے کوسوں دور رہتے۔ آپ نے اونی اور سوتی کپڑا پہنا۔ چادر تہبند، قمیص، سادہ اور دھاری دار چادر، شلوار، ٹوپی اور عمامہ وغیرہ ہر طرح کا لباس استعمال کیا۔ موزے، جوتے اور جرابیں بھی پہنیں۔ ان تمام چیزوں میں سے جو آسانی سے مل جاتا، آپ پہن لیتے۔

کبھی آپ ﷺنے سفید کپڑے پہنے، کبھی سبز اور کبھی دھاری دار سیاہ۔ آپﷺ معاشرے کے رواج کے مطابق لباس استعمال کرتے، بشرطیکہ حرام نہ ہوتا۔ آپ زندگی کے ہر معاملے میں آسانی اور سہولت پسند کرنے والے تھے۔ آپ کسی مخصوص برانڈ کا لباس پہنتے، نہ خاص ڈیزائن کے کپڑے استعمال کرتے۔ آپ کھانے، پینے، لباس اور چلنے وغیرہ میں بالکل ایسا نہ کرتے جیسے خود کو عبادت گزار  سمجھنے والے بعض شدت پسند لوگ عام لوگوں سے بہت کر خاص شکل وصورت اور وضع قطع اختیار کر لیتے ہیں۔

آپ ﷺاپنے کلام، خطبات اور دروس وغیرہ میں بھی آسانی اور سادگی اختیار کرنے والے تھے۔ آپﷺ بات کرتے وقت بالکل تکلف نہ کرتے بلکہ آپ نے اس سے منع فرمایا جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ((هَلَكَ الْمُتَنَطَّعُوْنَ، قَالَهَا ثَلَاثًا))  ’’تکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے۔‘‘ آپﷺ نے تین بار یہ بات کہی۔ (صحیح مسلم، العلم، حدیث:2670)

تکلف کا مطلب یہ ہے کہ تو ازن، سہولت اور آسانی کی راہ چھوڑ دی جائے۔ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ہم سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس تھے تو انھوں نے فرمایا: ہمیں تکلف کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري. الاعتصام بالكتاب والسنة حديث:7293)

اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺسے فرمایا:

﴿ قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ۝﴾

’’(اے نبی !) کہہ دیجیے: میں تم سے اس (تبلیغِ دین) پر کوئی اجر میں مانگتا، اور میں تکلف (بناوٹی کام) کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ (ص 86:38)

آپ ﷺنے خطبات میں بھی تکلف ممنوع قرار دیا اور فرمایا:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُوْلُوْا بِقَوْلِكُمْ، فَإِنَّمَا تَشْقِيْقُ الكَلامِ مِنَ الشَّيْطَانِ، إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِخْرٌ))

’’اے لو گو! سیدھے طریقے سے بات کرو۔ فصاحت و بلاغت کا بے جا تکلف شیطان کی طرف سے ہے اور بلا شبہ کئی بیان جادو اثر ہوتے ہیں۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 5687)

آپ ﷺنے دوران گفتگوتڑتڑ بولنے سے منع کیا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ، الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ، تَخَلُّلَ الْبَاقِرَةِ بِلِسَانِهَا))

’’بلا شبہ اللہ تعالی تڑ تڑ بولنے والے ایسے لوگوں کو سخت نا پسند کرتا ہے جو اپنی زبان کو ایسے پھیرتے ہیں جیسے گائے (گھاس کھانے کے لیے) چپڑ چپڑ کرتی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 5005)

آپﷺ نے تکبر اور بڑا بننے کے لیے تکلف سے بلاغت کا اظہار کرنے سے منع فرمایا اور باچھیں کھول کھول کر فخر و غرور سے بات کرنے اور بہت زیادہ پیچیدہ گفتگو کرنے سے بھی روکا ہے۔ آپﷺ نے نہایت واضح اور آسان فہم انداز میں بات کرنے کا حکم دیا۔ آپ کی گفتگو نہایت واضح ہوتی۔ جب سلام کرتے تو تین بار کرتے۔ دعا کرتے تو تین بار کرتے اور جب گفتگو فرماتے تو نہایت مختصر فرماتے۔ آپﷺ فرماتے:

(( أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ))

’’مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 523)

سیدنا ابن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا:

’’نبیٔ اکرمﷺ نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کر دیے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔‘‘ (صحيح البخاري، العلم، حديث (68)

آپﷺ عام طور پر بہت زیادہ لیے خطبے اور وعظ نہیں فرماتے تھے۔ کبھی کبھارہی لمبا وعظ فرماتے۔ مزید بر آں آپﷺ سب لوگوں سے عمدہ، خوبصورت اور واضح گفتگو کرتے تھے اور آپ صحابۂ کرام ر ضی اللہ تعالی عنہم کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ آپ کی بات سننے کے لیے صحابہ ہر وقت بے تاب رہتے۔ وہ آپ کی زبان سے نکلنے والے موتی اور جواہرات چننے کے حد درجہ خواہش مند ہوتے مگر اس سب کے باوجود آپ نہایت جامع اور مختصر بات کرتے اور سامعین پر آسانی فرماتے۔ دوسرے کسی شخص کو اس طرز عمل کی کہیں زیادہ ضرورت ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔

آپﷺ اپنے معاملات، لین دین اور خرید و فروخت میں بھی آسانی کرنے والے تھے۔ آپ نے اسی طرز عمل کو اختیار کرنے کی دعوت دی اور فرمایا:

((رَحِمَ اللهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَى، وَإِذَا اقْتَضَى))

’’اللہ تعالی اس آدمی پر رحم کرے جو خرید و فروخت اور لین دین کا تقاضا کرتے وقت نری اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، البيوع، حديث: 2076)

آپﷺ کی آسانی اور فیاضی کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالی عنہ سے اونٹ خریدا اور ان کے بیٹے سیدنا عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کو تحفہ دے دیا۔ سیدنا جابر بلال  رضی اللہ تعالی عنہ سے اونٹ خریدا، پھر اونٹ اور قیمت دونوں انھیں عطا کر دیے۔

آپﷺ کی امت کو آسانی اور سہولت دینے کی ایک مثال حق مہر اور شادی کے معاملے میں آسانی دینا ہے۔ سیدنا عقبہ بن عامر  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ((اَلْخًيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ)) ’’سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے زیادہ آسان ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، النكاح، حديث: 2117)

نبی اکرم ﷺنے ایک آدمی سے کہا: ’’کیا میں تمھاری شادی فلاں عورت سے کر دوں؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے عورت سے پوچھا: ’’کیا تم راضی ہو کہ تمھاری شادی فلاں مرد سے کر دوں ؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺنے ان کی شادی کر دی اور ان کا حق مہر مقرر نہ فرمایا۔ اس مرد نے اس سے خلوت اختیار کی اور کوئی حق مہر نہ دیا۔ یہ شخص ان لوگوں میں سے تھا جو حدیبیہ میں شریک ہو چکے تھے اور شرکائے حدیبیہ کو خیبر میں حصہ ملا تھا۔ جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اس نے کہا: بلا شبہ رسول اکرمﷺ ہ نے میری شادی فلاں عورت سے کی تو میں نے اسے کوئی حق مہر نہ دیا۔ اب میں تمھیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اپنا خیبر والا حصہ اس کے نام کرتا ہوں، چنانچہ اس عورت نے وہ حصہ لیا اور اسے ایک لاکھ میں فروخت کر دیا۔ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2117)

 یہ آپﷺ کی شریعت کے مقاصد میں سے ہے کہ آپ نے اپنی امت پر آسانی کی تاکہ شادیاں آسانی اور سہولت سے انجام پائیں اور معاشرے میں بے راہ روی اور بے حیائی کو فروغ نہ مل سکے۔

سیرت کے طویل مطالعے کے بعد میں اپنا ایک ذاتی تجربہ ذکر کرتا ہوں کہ میں نے آپ ﷺکی سیرت میں زندگی کی الجھنوں، غموں اور پریشانیوں سے نکلنے کی راہ پائی ہے۔ میری روح کو صرف اس سے تسکین ملی ہے۔ یہ صرف آپ کی سہل اور آسان سیرت ہی ہے جس کے سائے میں ہر انسان سکون اور امن وسلامتی کی زندگی گزار سکتا ہے کیونکہ آپ کی سیرت ہی فطرت کے مناسب اور عقل کے موافق ہے۔ اس میں روح و بدن دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ آپﷺ کی سیرت کائنات کے قانون اور انسانی طبیعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ میں نے بے شمار عبادت گزاروں، عالموں، زاہدوں، دانشوروں، مشاہیر اور شاعروں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا۔ ہر ایک کی زندگی میں کوئی نہ کوئی قابل مؤاخذہ چیز پائی۔ کسی کی زندگی میں افراط و تفریط اور کسی کی زندگی میں غلو اور جفا کو پایا۔ صرف نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہی روادار اور معتدل سیرت ہے جس میں مجھے زندگی ملی اور میں نے اس سے یقین و رضا، امن، اُنس، خوشی اور سعادت کی دولت پائی۔ میں اس کے ایک ایک پہلو پر غور کرتا ہوں اور لمحہ بہ لمحہ رک کر اس کی شان و شوکت اور قوت تاثیر سے متاثر ہو کر یہ کلمہ دہرانے لگتا ہوں: (أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ) ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ بلا شبہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

یہ آپﷺ کی زندگی کی آسانی سہولت اور شریعت کی رواداری ہے کہ ہر انسان اپنی خاص زندگی کے لیے بھی آپ کی سیرت میں راہنمائی اور نفع پاتا ہے، خواہ وہ شخص عالم ہو یا عام آدمی، بادشاہ ہو یا وزیر، مالدار ہو یا فقیر، بوڑھا ہو یا جوان، مرد ہو یا عورت۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے زندگی کا ہر رنگ دیکھا ہے اور آپ ﷺتمام حالات سے گزرے ہیں۔ آپ نے یتیمی کا دور گزارا، بکریاں چرائیں، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، پھر شادیاں کیں، باپ بنے، قیادت کی، جنگ و امن کے دور سے گزرے، مالداری اور فقر سے واسطہ پڑا، نیز صحت و بیماری اور تنگی و آسانی میں مبتلا ہوئے تاکہ ہر انسان کے لیے اسوہ اور نمونہ بنیں۔ اس پہلو میں آپ ﷺ کی آسانی کے فیض، منہج کی سہولت اور شریعت کی رواداری کا جس قدر ذکر میں نے کیا ہے، وہ دریا کا ایک قطرہ ہے جس سے آپ کے صحابہ اور پیروکار فیض یاب ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔

……………….