محمدﷺ بحیثیت معلم
انبیاء علیہم السلام کی وراثت اور رسولوں کا ترکہ علم ہے۔ اس کے ساتھ رب تعالی کی عبادت ہوتی ہے اور انصاف قائم ہوتا ہے۔ یہ علم جبریل امین نبی مکرم ﷺ پر لے کر نازل ہوئے۔ اس علم کے ذریعے سے اسلام کے احکام کی پہچان ہوتی ہے اور حلال و حرام کے درمیان تمیز کی جاتی ہے۔
علم پر ایمان کا محل کھڑا ہوتا ہے اور احسان کا قلعہ بلند ہوتا ہے۔ عبادات و معاملات کی وضاحت و تشریح اسی علم سے ہوتی ہے۔ اس علم سے جنت کی راہ ملتی ہے اور سنت کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ علم بیماریوں کی دواء، شکوک و شبہات سے شفا، خواہشات و شہوات میں رکاوٹ، دلوں کی اصلاح اور غیبی امور کو خوب جاننے والے رب کی رضا کا باعث ہے۔
اس کے ساتھ حجت قائم اور صراط مستقیم کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ علم کی عظمت اور اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ نبی مکرم ﷺپر آسمان سے پہلی وحی ﴿ اقرا﴾ پڑھیے کی صورت میں نازل ہوئی۔ یہ علم و معرفت کی فضیلت کی سب سے عظیم دلیل ہے۔ اللہ تعالی نے آپﷺ کو یہ دعا کرنے کا حکم دیا: ﴿رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا﴾ ’’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ (طہٰ 114:20)
اللہ تعالی نے آپ کو علم کے علاوہ کسی اور چیز کی مزید طلب کا حکم نہیں دیا کیونکہ علم رب تعالی کی رضا مندی کا راستہ، توفیق ملنے کا دروازہ اور کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپﷺ پر خاص احسان فرمایا کہ آپ کو علم اور معرفت ایمانی کی ایسی باتیں سکھائیں جو آپ نہیں جانتے تھے۔
رب تعالی نے آپ ﷺ سے فرمایا: ﴿فَاعْلَمْ اَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا الله﴾ ’’(اے نبی!) آپ جان لیجیے کہ بلا شبہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ ‘‘ (محمد 19:47) چنانچہ قول و عمل سے پہلے علم سیکھنے کی بات کی۔ آپ ﷺنفع بخش علم اور عمل صالح کے مزید حصول میں علماء کے لیے اسوہ اور طلبہ کے لیے نمونہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
((مَثَلُ مَا بَعَثَنِیَ اللهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا))
’’ اللہ تعالی نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال کثرت سے برسنے والی اس بارش کی طرح ہے جو زمین کو سیراب کرتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:79)
اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کو معلم بنا کر بھیجا۔ آپ نے لوگوں کو پسندیدہ اخلاق، عالی شان کاموں، عمدہ صفات اور اعلٰی خوابیوں کا درس دیا۔ آپﷺ کی سب سے بڑی ذمہ داری لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن﴾
’’بے شک یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا، جب اس نے ان میں ایک رسول بھی میں سے بھیجا۔ وہ انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (آل عمران 3: 164)
اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنَّتًَا، وَلَا مُتَعَنَّتًا، وَلٰكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُّيَسِّرًا)) ’’بلاشبہ اللہ تعالی نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث (1478)
نبی اکرمﷺ نے ہمیں سکھایا کہ علم ایمان، یقین، احسان، معرفت، اطاعت اور پختگی کا نام ہے، یعنی رسول میں کام کے لائے ہوئے دین پر ایمان ہو۔ منقول اور معقول پر یقین ہو۔ ایسا احسان ہو جس کے ساتھ عمل نہایت اچھے انداز میں کیا جائے اور لغزش سے بچا جائے۔ معرفت ایسی ہو جو شکر پر آمادہ کرے اور اللہ کے دائمی ذکر پر ابھارے۔ اطاعت ایسی ہو جو حکم الہی کی تعمیل کا درس دے۔ آدمی منع کردہ کاموں سے باز آجائے اور تقدیر پر راضی رہے۔ پختگی ایسی ہو جس کے ساتھ عبادت کی صیح ادائیگی ہو اور مزید کی طلب پیدا ہو۔
آپ ﷺنے لوگوں کو علم حاصل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کرنے کی ترغیب دی۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ نے فرمایا: ((فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰى مِنْ سَامِعٍ))
’’جو موجود ہے وہ غیر حاضر کو میرا پیغام پہنچا دے کیونکہ بہت سے لوگ جنھیں یہ پیغام پہنچے گا، وہ ملنے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے۔‘‘ (صحيح البخاري، الحج، حديث:1741)
اور آپﷺ نے فرمایا:
((نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتّٰى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ، فَرُبَّ حَامِلٍ فِقْهٍ إِلٰى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلٍ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيْهٍ))
’’اللہ تعالی اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی، پھر اس کو یاد کیا یہاں تک کہ کسی دوسرے شخص تک پہنچادی کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کے پاس پہنچا دیتے ہیں اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے۔‘‘ (سنن أبي داود، العلم، حديث (3660)
اور آپ ﷺنے فرمایا:
’’میری طرف سے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث:3461)
آپ ﷺ نےعلم اور علماء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ((مَنْ يُّرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُّفَقُهْهُ فِي الدِّينِ)) ’’اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري العلم، حدیث: 71)
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا، ایک عبادت گزار تھا اور دوسرا صاحب علم تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’عالم کو عابد پر اس قدر برتری حاصل ہے جتنی مجھے تمھارے کم حیثیت فرد پر حاصل ہے۔‘‘
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، آسمانوں اور زمینوں کے باشندے حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں لوگوں کو خیر اور نیکی سکھانے والے کے لیے دعا کرتی ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، العلم، حديث: 2685)
آپﷺ نے مزید فرمایا: ((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ))
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حديث: 5027)
اور اللہ تعالی نے علماء کا درجہ بہت بلند کیا ہے، چنانچہ فرمایا:
﴿ یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۱۱﴾
’’تم میں سے جو ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے، اللہ ان کے درجات بلند کرے گا، اور اللہ اس سے خوب باخبر ہے جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘ (المجادلة 11:58)
اللہ تعالی نے انھیں ممتاز کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠﴾
’’کہ دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘ (الزمر 9:39)
اور اللہ تعالی نے علماء کی خشیت کا خصوصی تذکرہ کیا ہے، فرمایا:
﴿ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ﴾
’’ بس اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی ڈرتے ہیں۔‘‘ (فاطر 28:35)
اور اللہ تعالی نے انھیں اپنی الوہیت پر گواہ بنایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ﴾
’’اللہ نے گواہی دی ہے کہ بے شک اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی (گواہی دی ہے )۔‘‘ (آل عمران 18:3)
علماء کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب کا محافظ قرار دیا، چنانچہ فرمایا:
﴿ بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ؕ﴾
’’بلکہ یہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں، ان لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم دیا گیا۔‘‘ (العنکبوت 49:29)
الغرض علماء ہی انبیاء کے وارث، اولیاء کے سردار، قرآن کے حامل اور مخلوق پر گواہ ہیں۔ انھی کی بدولت شہروں کی اصلاح اور ملکوں کی آباد کاری ہے۔
علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ سکھائے ہوئے کتے کا شکار حلال ہے جبکہ جاہل کتے کا شکار حرام اور باعثِ وبال ہے۔ سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سوال کیا:
ہم لوگ ان کتوں کے ساتھ شکار کرتے ہیں، ان کے بارے میں بتا ئیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ((إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللهِ عَلَيْهَا، فَكُلِّ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ))
’’جب تم اپنے سکھائے ہوئے کتے چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لو تو جو شکار وہ تمھارے لیے روکیں، اسے کھا لو‘‘ (صحيح البخاري، الذبائح والصيد، حديث:5483)
یہ سب علم کا شرف ہے۔ علم اگر جانوروں اور پرندوں کے پاس بھی ہو تو انھیں دوسرے جانوروں پر فضیلت اور برتری حاصل ہوگی۔ ہدہد نے علم کی بات سیدنا سلیمان علیہ السلام کو بتائی تو اللہ تعالی نے اس کا نام قرآن مجید میں درج کر دیا۔ اس نے دلیل کے ساتھ سبا کی ملکہ بلقیس کا رد کیا۔ ابلیس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا۔ سلیمان علیہ السلام خط لے کر گیا اور علم کی بدولت جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا۔
نبی ﷺ نے ا نے اپنے صحابہ کو عربی کے علاوہ دیگر زیا ر زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی۔ جلیل القدر صحابی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ ان میں سرفہرست تھے۔ وہ کہتے ہیں: رسول اکرم ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کتاب کے کچھ کلمات سیکھوں۔ وہ کہتے ہیں: ابھی آدھا مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے آپ کے لیے وہ سیکھ لیے۔ پھر جب میں نے وہ سیکھ لیے تو اس کے بعد آپ جب یہود کو خط لکھتے تو وہ میں ہی تحریر کرتا اور جب وہ آپ کو خط لکھتے تو میں ان کی تحریر پڑھ کر آپ کو ترجمہ بتاتا ۔ (جامع الترمذي، أبواب الاستئذان و الآداب، حديث، 2715)
آپﷺ نے علم کی مجلس میں حاضر ہونے اور علماء کی بات توجہ سے سننے کی دعوت دی ہے۔ سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺمسجد میں تھے تو تین آدمی آئے۔ ان میں سے دو تو رسول اللہ ﷺ کے پاس مسجد میں آگئے اور ایک واپس چلا گیا۔ ان دونوں میں سے ایک نے حلقے میں کچھ خالی جگہ دیکھی تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا تمام لوگوں کے پیچھے جا بیٹھا۔ جب رسول اللہ ﷺوعظ سے فارغ ہو گئے تو فرمایا:
’’میں تمھیں ان تینوں آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کے قریب جگہ تلاش کی تو اللہ نے اسے جگہ عطا کر دی۔ دوسرا انسان اللہ سے شرما گیا تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی۔ رہا تیسرا تو اس نے اللہ تعالی سے منہ پھیرا تو اللہ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلاة، حديث: 474)
آپ ﷺنے طلبہ کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
((مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ))
’’جو حصول علم کے راستے پر چلتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب العلم، حديث: 2646)
آپ ﷺنے خوشخبری دی کہ انسان کی وفات کے بعد باقی رہنے والے اعمال میں سے ایک عمل نفع بخش علم بھی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُّنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَّدْعُولَهُ))
’’جب کوئی انسان فوت ہوتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین اعمال کے: صدقہ جاریه، نفع بخش علم یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ ‘‘ (صحيح مسلم، الوصية، حدیث 1631)
جب ایک عالم کا یہ اجر ہے تو جس نے شروع سے لے کر آخر تک پوری امت کو تعلیم دی اور اسے جنت کی راہ دکھا کر جہنم سے بچایا، اس کا اجر کتنا زیادہ ہوگا؟! اور وہ ہیں اولاد آدم کے سردار محمد سول اللہﷺ جن کا اجر پوری امت سے عظیم اور شان پوری امت سے اعلیٰ ہے۔ آپ کو پوری امت سے زیادہ شرح صدر حاصل تھا اور جن کا ذکر تمام انسانوں سے اونچا اور بلند ہے۔
آپ ﷺ تعلیم دینے میں نہایت رحم دل اور نرم تھے۔ اپنی نرم مزاجی سے لوگوں کے دل موہ لیتے اور اپنی عمدہ گفتگو سے اپنا گرویدہ کر لیتے، جیسا کہ رب العالمین نے آپﷺ کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪﴾
’’پھر (اے نبی !) آپ اللہ کی رحمت کے باعث ان کے لیے نرم ہو گئے۔ اگر آپ بد خلق، سخت دل ہوتے تو یقیناً وہ سب آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔‘‘ (آل عمران 3: 159)
ایک دیہاتی آپ کے پاس آتا ہے اور یوں دعا کرتا ہے: اے اللہ مجھ پر اورمحمدﷺ پر رحم فرما اور ہمارے علاوہ کسی دوسرے پر رحم نہ کرنا۔ آپ ﷺنہایت نرمی سے اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((لَقَدْ حَجَّرْتَ وَاسِعًا))
’’تو نے نہایت وسیع چیز کو محدود کر دیا ہے۔ ‘‘(صحيح البخاري، الأدب، حديث (6010)
یعنی تو نے اللہ کی اس رحمت کو محدود کر دیا جو ہر چیز پر وسیع ہے۔
ایک دیہاتی اٹھتا ہے اور مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کر دیتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اسے ڈانٹنے اور روکنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ آپﷺ انھیں منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((لا تُزْرِمُوهُ، دَعُوهُ )) ’’اس کا پیشاب درمیان میں نہ روکو، اسے چھوڑ دو۔‘‘
پھر آپ نے پانی کا ڈول منگوا کر اس دیہاتی کے پیشاب پر بہا دیا اور اسے بڑی نرمی، پیار اور حسن اخلاق سے سمجھایا:
((إِنَّ هٰذِهِ المَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِّنْ هٰذَا الْبَوْلِ، وَلَا الْقَذَرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ))
’’بلا شبہ ان مسجدوں میں پیشاب وغیرہ کرنا اور گندگی ڈالنا درست نہیں۔ یہ تو صرف اللہ عزوجل کے ذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے ہیں۔ ‘‘(صحيح مسلم، الطهارة، حديث:285)
سیدنا معاویہ بن حکم سَلمی رضی اللہ تعالی عنہ سب سے عظیم معلم ﷺکی نرمی اور رحمت و شفقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
میں رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی۔ میں نے کہا: ((يَرحَمُكَ الله)) ’’اللہ تجھ پر رحم کرے۔‘‘ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: مجھے میری ماں گم پائے تم سب کو کیا ہو گیا ہے کہ مجھے گھور رہے ہو؟ پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔ جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں تو مجھے عجیب لگا لیکن میں خاموش رہا۔ جب رسول اللہ ﷺنماز سے فارغ ہوئے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ؟ میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ صرف اتنا فر مایا
((إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيءٌ مِّن كَلامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ))
’’یہ نماز ہے، اس میں لوگوں کی کسی قسم کی گفتگو درست نہیں۔ اس میں تو بس تسبیح و تعبیر اور قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الـ اضع الصلاة، حديث (537)
آپ ﷺتعلیم دیتے وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتے نہ سختی سے کام لیتے بلکہ نہایت شفقت، نرمی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے۔ کلام کرتے اور تعلیم دیتے ہوئے مسکراتے۔ غصے سے گھورتے نہیں تھے جیسا کہ بعض لوگ وعظ کرتے یا پڑھاتے ہوئے کرتے ہیں کیونکہ آپ لازوال نعمت، دائمی خیر و برکت اور سراپا رحمت تھے۔
آپﷺ نے اپنے صحابہ کو عملی تعلیم دی، بات کرنے سے پہلے عمل کر کے دکھایا کیونکہ عملی مشق سے سمجھانا آسان ہوتا ہے اور دل و دماغ پر اس کا نقش دیر پا ہوتا ہے، جیسے لوگوں کے سامنے وضو کرنا تاکہ وہ سیکھ سکیں۔
آپﷺ نماز پڑھتے اور فرماتے: ((صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أَصَلِّي))
’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔“ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6008)
اپنی سیرت کے ساتھ لوگوں کو تعلیم دیتے اور فرماتے: ((مَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))
’’جس نے میری سنت سے منہ موڑا، وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5063)
حج کے دوران میں لوگوں کو عملی تعلیم دیتے اور فرماتے: ((لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ)
’’تم اپنے حج کے طریقے (مجھ سے) سیکھ لو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1297 )
آپ کا لب ولہجہ، سیرت و کردار اور قول و فعل ہر چیز نمونہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ۲۱﴾
’’بلا شبہ یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ ‘‘(الأحزاب 21:33)
آپﷺ یہ دعا کثرت سے کیا کرتے تھے:
((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ))
’’اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث :2722)
آپﷺ کا قول و فعل، سیرت و کردار، اٹھنا بیٹھنا، نماز، روزه، صدقہ، حج، کھانا پینا الغرض پوری زندگی امت کے لیے تعلیم ہے۔
آپ ﷺنے اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی خوشبو دار سیرت، بلند اخلاق ان محمدہ اوصاف کا ایسا عملی نمونہ پیش کیا جس کے حسن پر علقمند متفق ہیں۔ متقی لوگوں نے اسے پسند کیا اور اولیاء اللہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔
آپﷺ لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دیتے جبکہ خود سب سے بڑھ کر متقی تھے۔ لوگوں کو کسی چیز سے منع کرتے تو خود اس سے کوسوں دور ہوتے۔ وعظ ونصیحت کرتے تو آنسو آپ کے مبارک رخساروں پر گر رہے ہوتے۔ دوسروں کو اچھے اخلاق کی نصیحت کرتے تو خود سب سے بڑھ کر حسن اخلاق کا نمونہ پیش کرتے۔ صحابہ کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف بلاتے تو خود ان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے۔ لوگوں کو خرچ کرنے اور سخاوت کی ترغیب دیتے تو خود سب سے بڑھ کر سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کرتے۔ لوگوں کو اہل و عیال کے ساتھ حسن معاشرت کا درس دیا تو خود اپنے اہل وعیال کے لیے سب سے بڑھ کر اچھے، رحم دل، نرمی کرنے والے اور مہربان تھے۔
آپﷺ نے اپنے صحابہ کو آہستہ آہستہ بتدریج تعلیم دی۔ ایک ہی دفعہ سارا علم نہیں بتایا بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے سکھایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُكْثٍ ﴾
’’اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کر کے (نازل) کیا، تاکہ آپ اسے لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سنائیں۔‘‘ (نبی اسرائیل108:17)
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿ وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ۛۚ كَذٰلِكَ ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۳۲﴾
’’اور کافروں نے کہا: اس پر یہ قرآن ایک ہی بار اکٹھا کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ اسی طرح ہم نے نازل کیا ہے۔ تاکہ ہم اس سے آپ کا دل مضبوط کریں اور ہم نے اسے خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ سنایا ہے۔‘‘ (الفرقان 32:25)
سو آپ ﷺتعلیم و تعلم میں یہی منہج اختیار کرتے تھے۔ سب سے پہلے اہم اور بڑے مسائل سے آغاز کرتے۔ لوگوں کو ایک ایک مسئلہ سمجھاتے تاکہ وہ ان کے دل و دماغ میں پختہ ہو کیونکہ مقصود سمجھ بوجھ حاصل کرنا اور غور و تدبر کرتا ہے اور پھر اس کے بعد دعوت، عمل اور زندگی میں اس عظیم دین کا نفاذ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمﷺ مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک لوگوں کو لا إله إلا الله کی دعوت اور تعلیم دیتے رہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان سے فرمایا:
’’تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ ان کے پاس پہنچ کر انھیں دعوت دو کہ وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله کی شہادت دیں۔ اگر وہ اس میں تمھاری اطاعت کریں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس سلسلے میں تمھاری بات تسلیم کر لیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر زکاة فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کر کے ان کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی۔ اور اگر وہ اس میں تمھاری اطاعت کریں تو ان کے عمدہ مال لینے سے بچنا۔ اور مظلوم کی بددعا سے بھی بچنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حديث:1496)
اسی تعلیم نبوی کا نتیجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم امت میں سب سے زیادہ پاکیزہ دل، سب سے بڑے عالم اور سب سے کم تکلف و تشدد کرنے والے تھے کیونکہ ان کے براہ راست استاد، پیشوا اور نمونہ اولاد آدم کے سردار نبی ﷺ تھے۔
رسول اکرمﷺ تعلیم کے سلسلے میں دنیا کے ہر معلم سے ممتاز اور نمایاں ہیں کیونکہ آپ رب تعالی کے نبی اور رسول ہیں۔ آپ ہر خطا سے پاک تھے۔ ہر چیز جبریل علیہ السلام کے واسطے سے اپنے رب سے نقل فرمائی۔ آپ کا دین بالکل سیدھا، حکمت پر مبنی، رہنمائی کرنے والا اور مستحکم ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰیۚ۲ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ۳ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ۴ عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰیۙ﴾
’’تمھارا ساتھی بہکا نہیں اور نہ وہ بھٹکا ہے۔ اور وہ (اپنی) خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ اسے مضبوط قوتوں والے جبریل نے سکھایا۔‘‘ (النجم 2:53-5)
آپﷺ حق بات کرتے اور صرف سچ بولتے۔ تکلف، بناوٹ، بے جا فصاحت و بلاغت اور باچھیں کھول کھول کر بات کرنے سے منع فرماتے۔ نہایت آسان، عام فہم اور واضح گفتگو فرماتے جسے تمام لوگ سمجھ لیتے۔
اللہ رب العالمین نے آپ پر خصوصی احسان فرمایا کہ آپ کی گفتگو نہایت با برکت ہوتی۔ جب بات کرتے تو نہایت مختصر اور جامع ہوتی۔ آپ ﷺکا فرمان ہے: ((أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ))
’’مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حديث: 523)
لوگوں کی گفتگو جس قدر بھی فصاحت و بلاغت پر مبنی ہو، آپ ﷺ کا کلام ان کے درمیان معجزانہ حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے: رسول اکرم ﷺتم لوگوں کی طرح لگا تار ایک کے بعد دوسری بات نہیں کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2493)
آپ ﷺایک کلمہ ارشاد فرماتے تو اللہ تعالی اس کے ساتھ دلوں اور روحوں کو زندگی عطا فرما دیتا۔ آپﷺ کے مبارک کلام کے ایک کلمےپر پوری پوری کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔ آپ کے کلام کے اعجاز کے لیے یہ ارشاد نبوی ملاحظہ کریں:
((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنَّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى))
’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘ (صحیح البخاري. بدء الوحي. حدیث: 1)
یہ حدیث ایسا مکمل ضابطہ ہے جس کے با ے بارے میں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ علم کے ہر باب کی ابتدا اسی حدیث سے ہونی چاہیے۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:
((اتَّقِ اللهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ))
’’ تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرو۔ برائی کے فوراً بعد اچھائی کرو، وہ اس کو مٹادے گی، اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب البر والصلة حديث: 1987 )
تمھیں رب کی قسم مجھے بتائیں کہ اس حدیث نے خیر کی کوئی چیز چھوڑی ہے جس کی راہنمائی نہ کی ہو اور کوئی شرایسا چھوڑا ہے جس سے ڈرایا نہ ہو؟
بلا شبہ اس حدیث نے خالق اور مخلوق کے حق کو ایک ساتھ واضح کر دیا۔ مومن کو اطاعت میں جس مقام پر فائر ہونا چاہیے، اس کی وضاحت کر دی اور نافرمانی سے بچنے کا انداز بھی بتا دیا۔
اسی طرح آپ ﷺکی وہ حدیث جو آپ نے سیدنا عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب انھوں نے پوچھا تھا: نجات کیا ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا:
((أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَلْيَسَعَكَ بَيْتُكَ، وَابْكِ عَلٰى خَطِيْئَتِكَ))
’’اپنی زبان روک کر رکھو، تمھارا گھر تمھیں کافی ہو اور اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد. حديث (2406)
کیا آپ نے اس سے واضح، دو ٹوک، نفع بخش، مبارک اور روشن حدیث دیکھی ہے؟!
سیدنا نواس بن سمعان انصاری ﷺنے آپ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((الْبِرُّحُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَّطْلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ))
’’نیکی حسن اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھلے اور تم یہ ناپسند کرو کہ لوگوں کو اس کا پتا چلے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حديث: 2553)
اور آپ ﷺنے فرمایا: ((الدين النصيحة))
’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 35)
ایک مقام پر آپ ﷺنے فرمایا: ((الْحَلَالُ بَيْنٌ، وَالْحَرَامَ بَيْنٌ))
’’حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث (52)
ایک موقع پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ((دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلٰى مَا لَا يَرِيبُكَ))
’’جو چیز تمھیں شک میں ڈالے، اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو شک میں نہ ڈالے۔“ (جامع الترمذي أبواب صفة القيامة، حديث: 2518)
سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺسے پوچھا: اللہ کے رسول!مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے اس کے بارے میں کسی سے کچھ نہ پوچھنا پڑے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ، ثُمَّ اسْتَقِمْ))
’’کہہ دو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ۔ ‘‘(صحیح مسلم، الإيمان، حديث: 38)
ان کے علاوہ بھی کئی احادیث ہیں جو نہایت مختصر، جامع اور عظیم و کثیر معانی رکھتی ہیں۔
آپ ﷺکو حاضر جوابی میں امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ آپ بلاتر در واضح اور دوٹوک الفاظ میں بات کرتے اور بغیر کسی شک کے فتوی دیتے۔ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا: کل ہم دشمن سے ٹکرائیں گے اور ہمارے پاس کوئی چھری وغیرہ بھی نہیں ہے اگر کوئی جانور ذبح کرنا پڑا تو ؟ آپ ﷺنے فرمایا:
’’جو آلہ بھی خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، بشرطیکہ دانت اور ناخن سے خون نہ بچایا گیا ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الذبائح والصيد، حديث (5543)
آپﷺ کے پاس ایک دیہاتی آتا ہے اور آپ کی اونٹنی کی لگام پکڑ کر کہتا ہے: اللہ کے رسول! مجھے ایسی چیز بتائیں جو مجھے جنت کے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
((تَعْبُدُ اللهَ لا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، دَعِ النَّاقَةَ))
’’ تم اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکاۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔ اب اونٹنی کو چھوڑ دو۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 13)
سید نا ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل افضل ہے؟
آپﷺ نے فرمایا:
’’اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا‘‘ میں نے پھر پوچھا: کون سی گردن آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جو اس کے مالکوں کی نظر میں زیادہ نفیس اور زیادہ قیمتی ہو۔‘‘ میں نے پوچھا: اگر میں یہ کام نہ کر سکوں تو ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’کسی کاریگر کی مدد کرو یا کسی اناڑی کا کام خود کر دو۔‘‘ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ غور فرمائیں، اگر میں ایسے کسی کام کی طاقت نہ رکھتا ہوں تو؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں سے اپنا شر روک لو۔ یہ تمھاری طرف سے خود تمھارے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 84)
لوگوں کی تعلیم و تربیت کرنے، انھیں فتوی دینے اور بات سمجھانے میں آپ ﷺکو رب تعالی کی خصوصی تائید اور برکت حاصل تھی۔ آپ ضرورت محسوس کرتے تو سائل کو اس کے سوال سے زیادہ جواب دیتے اور بات پوری طرح کھول کر اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنا بچہ اٹھا کر او پر کیا اور پوچھا: اللہ کے رسول! کیا اس کا حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں اور تیرے لیے اجر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1336)
وہ عورت اس بات سے ناواقف تھی کہ اس بچے کو حج کا ثواب ملے گا تو لازم بات ہے کہ اسے اس بات کا بھی علم نہیں ہو گا کہ اگر وہ بچے کو حج کرائے گی تو اسے بھی ثواب ملے گا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! محرم (احرام میں داخل شخص) کیسے کپڑے پہنے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’محرم قمیص، شلوار، اوور کوٹ اور موزے نہ پہنے۔ ہاں، اگر اسے جوتے نہ ملیں تو پھر ٹخنوں سے نیچے تک موزے پہن سکتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، اللباس، حديث، 5794)
یہاں سائل نے پوچھا کہ محرم کون سا لباس پہن سکتا ہے؟ اس کے جواب میں نبی اکرم ﷺنے احترام کے ممنوعات بھی ساتھ ہی بتا دیے کیونکہ وہ محدود تھے اور حاجی بعض اوقات اس سے ناواقف ہوتا ہے۔
ایک آدمی رسول اکرم ﷺکے پاس آیا اور اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور تھوڑا بہت پانی ساتھ رکھتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کریں تو پینے کے لیے پانی نہیں بچتا۔ کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا:
((هُوَ الطُّهُورُ مَاؤُهُ، اَلْحِلَّ مَيْتَتُهُ))
’’اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار (مچھلی وغیرہ) حلال ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الطهارة، حديث (69)
یہاں سائل نے سمندر کے پانی سے وضو کا مسئلہ پوچھا لیکن آپ ﷺنے اس کے علاوہ ضروری امور کی وضاحت بھی کر دی۔
یہ آپ ﷺکا معجزہ تھا کہ آپ لوگوں کو ان سوالوں کے جوابات بھی دے دیتے جن کے متعلق احتمال ہوتا تھا کہ سائل یہ پوچھے گا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((ويأتي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا مَنْ خَلَقَ كَذَا، حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ، فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ وَلْيَنْتَهِ))
’’شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ فلاں کو کس نے پیدا گیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے: تمھارے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ لہذا جب وہ یہاں تک پہنچ جائے تو آدمی کو چاہیے کہ اللہ سے پناہ مانگے اور اس سے رک جائے۔“ (صحيح البخاري، بدء الخلق، حديث: 3276)
آپﷺ سب لوگوں سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے، درست رائے دینے والے، بہتر جواب دینے والے اور سائل کی مصلحت کو سب سے زیادہ جاننے اور اس کا خیال رکھنے والے تھے۔
تعلیم و تربیت میں آپ ﷺکا طریقہ یہ تھا کہ آپ عمر اور ذہنی صلاحیت کا فرق ملحوظ رکھتے۔ ہر ایک کے مناسب حال تعلیم دیتے اور راہنمائی و خیر خواہی کرتے۔
انوار نبوت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر معرفت کے دروازے کھول دیے۔ آپ ہر سائل کے مناسب حال نہایت خوبصورت انداز میں بالکل واضح اور عام فہم جواب دیتے، اس کی مصلحت اور دنیاوی و اخروی فوائد کا لحاظ رکھتے۔ گویا آپ نے سائل کی پوری زندگی کا مطالعہ کر لیا ہو اور اس کی اندرونی کیفیات و جذبات سے پوری طرح آگاہ ہوں۔
ایک بوڑھا اور عمر رسیدہ شخص آپ سے سوال کرتا ہے کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو میں ہمیشہ کرتا رہوں۔ آپﷺ اس کے مناسب حال نہایت آسان اور مختصر عمل بتاتے ہیں جو وہ بآسانی کر سکتا ہے۔ اگر آپ ﷺ کی جگہ کوئی دوسرا معلم ہوتا تو ہو سکتا ہے وہ اسے زیادہ اطاعت کے کام کرنے اور آخری عمر میں کثرت سے عبادت کرنے کا حکم دیتا اور اس کی کمزوری اور بڑھاپے کو نظر انداز کر دیتا جبکہ نبی مکرم اور رسول رحمتﷺ نے اس سے فرمایا: ((لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِّنْ ذِكْرِ اللهِ))
’’تیری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث، 3375)
اس کلمے کی خوبصورتی اور حسن پر غور کریں کہ آپ نے کس عمدہ اور پر اثر انداز میں سائل کو اس جلیل القدر عمل کی ترغیب دلائی ہے۔
ایک غصے والے شخص نے آپ سے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺنے تین بار فرمایا: ((لَاتَغضَب))
’’غصہ نہ کیا کرو۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6116)
یہ وہ دوا اور مرہم ہے جو صرف نبوی شفا خانے سے ملتی ہے۔
آپ ﷺ نے سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو پہاڑ پر چڑھتے دیکھا تو ان سے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ وہ یہ کلمہ ہے: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ‘‘ (صحيح البخاري، القدر، حديث :6610)
یہ کلمہ پہاڑ پر چڑھنے اور بوجھ اٹھانے سے مناسبت رکھتا ہے کیونکہ اس میں بندہ اپنی قوت و طاقت کی نفی کرتا ہے اور اللہ کی مدد ونصرت مانگتا ہے۔ اس فرمان نبوی میں مقام کے تقاضے کے مطابق کتنا خوبصورت انتخاب ہے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن بھیجا تو نصیحت کی کہ تم ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ (صحيح البخاري، الزكاة، حديث (1496)
آپﷺ کا مقصد یہ تھا کہ تم سامعین کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر بات کرنا۔
اور سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دعا سکھائی کہ تم کہا کرو: ((اللّٰهُمَّ اهْدِنِي وَسَدِّدْنِي))
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے اور سیدھا رکھ۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2725)
یہ دعا سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حسب حال تھی کیونکہ وہ لمبا عرصہ زندہ رہے۔ انھوں نے اختلاف اور فتنوں کا زمانہ دیکھا جس میں اللہ تعالی سے ہدایت و راہنمائی طلب کرنے کی اشد ضرورت تھی کیونکہ تب مختلف آراء اور خواہشات کی کثرت تھی۔
سید نا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے۔ ایک نوجوان نے آکر کہا: اللہ کے رسول! کیا میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتا ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ اتنے میں ایک بوڑھا آدمی آیا اور اس نے بھی یہی سوال کیا کہ میں روزے کی حالت میں! بیوی کا بوسہ لے سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ یہ جواب سن کر ہم نے (ازراہ تعجب ) ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم نے ایک دوسرے کی طرف کیوں دیکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ بوڑھا آدمی خود پر قابو رکھ سکتا ہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 8739، ضعیف)
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے رسول کی طرف وحی کی اور اپنے نبی پر فہم و فراست اور معرفت کے دروازے کھولے اور ایسی فقاہت اور سوجھ بوجھ عطا کی جسے لفظوں میں سمونا مشکل ہے۔
آپﷺ کی خوبصورت اور عمدہ تعلیم و تربیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ہر سائل اور ہم نشین کو پوری توجہ اہمیت اور محبت دیتے یہاں تک کہ ہر شخص یہ سمجھتا کہ میں بہت خاص ہوں۔
سید نا ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ اپنے ہر ہم نشین پر اس طرح تو جہ دیتے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو خود سے زیادہ اہم اور معزز خیال نہ کرتا تھا۔‘‘ (دلائل النبوة للبيهي 206/1)
آپ ﷺکی مجلس میں بیٹھنے والا ہر شخص یہی سمجھتا کہ اسے رسول اکرم ﷺ کے ہاں خاص مقام حاصل ہے۔ سید نا اور رفاعہ عدوی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نبیﷺ کے پاس اس وقت پہنچا جب آپ خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایک پردیسی آدمی ہے، اپنے دین کے بارے میں پوچھنے آیا ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ اس کا دین کیا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺمیری طرف متوجہ ہوئے اور اپنا خطبہ چھوڑ دیا، یہاں تک کہ میرے پاس پہنچ گئے۔ ایک کرسی لائی گئی۔ میرے خیال میں اس کے پائے لوہے کے تھے۔ رسول اللہ ﷺاس پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ سکھایا تھا، اس میں سے مجھے سکھانے لگے، پھر اپنے خطبے کے لیے بڑھے اور اس کا آخری حصہ مکمل فرمایا۔ (صحيح مسلم، الجمعة، حدیث: 876)
یہ کس قدر خوبصورت عزت افزائی اور اہمیت تھی اور لوگوں کو ان کا دین سکھانے کا کیا عظیم جذبہ تھا، خاص طور پر ان لوگوں کو دین سکھانے کا جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے اور ان کے پاس علم یا دین کی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔ آپ ﷺسائل کے سوال کے جواب میں تاخیر نہیں کی بلکہ فوراً منبر سے اترے، حالانکہ آپ لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے۔ آپ نے اس آنے والے سائل کو اپنے ساتھ مانوس کرنے اور دین سکھانے کے لیے پوری توجہ اور چاہت سے اس کی بات سنی۔
آپﷺ نے نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت خوبصورت الفاظ کا چناؤ کیا تاکہ ان کا دل نہ ٹوٹے اور ان کی حیا متاثر نہ ہو۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ مروی ہے، وہ کہتے ہیں:
ایک خاتون رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کی احادیث تو مرد حضرات ہی سنتے ہیں، آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر فرما دیں جس میں ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ تعالی نے آپ کو دی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم فلاں فلاں دن اور فلاں فلاں مقام پر جمع ہو جاؤ۔ وہ عورتیں وہاں جمع ہو ئیں تو رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور انھیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ تعالی نے آپ کو سکھائی تھیں۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا: ’’تم میں سے جو عورت اپنی زندگی میں اپنے تین بچے آگے بھیج دے گی تو وہ اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔ ان میں سے ایک خاتون نے کہا: اللہ کے رسول! دو بچوں کا بھی یہی حکم ہے؟ اس نے اس بات کو دو مرتبہ دہرایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’دو بھی، دو بھی، دو بھی یعنی ان کا بھی یہی درجہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، حديث (7310)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں شہادت دیتا ہوں کہ آپﷺ نے نماز عید خطبے سے پہلے پڑھی، پھر آپ نے خطبہ دیا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ آپ نے عورتوں کو اپنی بات نہیں سنائی تو آپ ان کے پاس آئے اور ان کو یاد رہائی اور نصیحت فرمائی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا اور بلال رضی اللہ تعالی عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے۔ کوئی عورت (اس کپڑے میں) انگوٹی پھینکتی تھی، کوئی حلقے دار زیور (چھلے، بالیاں، کڑے، کنگن ) اور کوئی دوسری چیز میں ڈالتی تھی۔ (صحیح مسلم، العیدین، حدیث: 884)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں: اسماء بنت شکل انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے غسل حیض کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’ایک عورت پانی اور بیری کے پتے لے کر اچھی طرح پاکیزگی حاصل کرے، پھر سر پر پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح ملے یہاں تک کہ وہ بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانی ڈالے، پھر کستوری لگا کپڑے یا روئی کا ٹکڑا لے کر اس سے پاکیزگی حاصل کرے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: اس سے پاکیزگی کیسے حاصل کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! اس سے پاکیزگی حاصل کرو۔ ‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: (جیسے وہ اس بات کو چھپا رہی ہوں) خون کے نشان پر لگا کر۔ اور اس نے آپ سے غسلِ جنابت کے بارے میں پوچھا تو آپﷺنے فرمایا: ’’غسل کرنے والی پانی لے کر اس سے خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر سر پر پانی ڈال کر اسے ملے حتی کہ سر کے بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، پھر اپنے آپ پر پانی ڈالے۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: انصار کی عورتیں بہت خوب ہیں۔ انھیں دین کو اچھی طرح سمجھنے سے شرم نہیں روکتی۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث (332)
آپﷺ کس قدر لطف و کرم کرنے والے معلم و مربی اور کتنے جلیل القدر رسول تھے! آپ نے ہر حق والے کو اس کا حق دیا تو دل آپ کی محبت پر اکٹھے ہو گئے، روحیں آپ کی سیرت پر فدا ہو گئیں اور لوگ آپ کی تعلیمات کی طرف کھنچے چلے آئے۔
یہ بھی آپ ﷺ کی خوبصورت تعلیم اور عمدہ تربیت و تفہیم کا نتیجہ تھا کہ آپ نے بچوں کو مخاطب کرتے وقت ان کی ضروریات اور مصلحتوں کا خیال رکھا۔ بدلے میں انھوں نے بھی نہایت محبت اور شوق سے آپ سے تعلق جوڑا اور آپ نے خوب رحمت و شفقت سے انھیں اپنا گرویدہ کر لیا۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا، پھر ان سے فرمایا:
((يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: اِحْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ، اِحْفَظِ اللهُ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللهُ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰى أَنْ يَّنْفَعُوْكَ بِشَيْءٍ لَّمْ يَنْفَعُوْكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ، وَإِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰى أَنْ يَّضُرُّوْكَ بِشَيْءٍ لَّمْ يَضُرُّوْكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ))
’’اے لڑکے میں تجھے چند باتیں سکھاتا ہوں۔ اللہ کو یاد رکھ یعنی اس کے اوامر و نواہی کی پابندی کر وہ تیری حفاظت فرمائے گا۔ اللہ کا دھیان رکھے، یعنی اس کے حقوق کا خیال رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ جب تو مانگے تو صرف اس سے مانگ اور جب تو مدد طلب کرے تو اللہ سے مدد طلب کر۔ اور خوب اچھی طرح جان لے کہ اگر پوری امت اس بات پر متفق ہو جائے کہ کسی چیز سے مجھے نفع پہنچائے تو وہ تجھے صرف اسی چیز سے نفع پہنچا سکیں گے جو اللہ تیرے لیے لکھ چکا ہے اور اگر وہ اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ وہ تجھے کسی چیز سے نقصان پہنچا ئیں تو وہ تجھے صرف اسی چیز سے نقصان پہنچا سکیں گے جو اللہ تیرے خلاف لکھ چکا ہے۔ قلمیں اٹھائی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب صفة القيامة، حديث: 2516)
دیکھیں رسول اکرمﷺ نے کس قدر نرمی اور شفقت سے نصیحت کی اور ایسی راہنمائی کی جو رہتی دنیا تک ایک قاعدہ اور قانون بن گئی ؟!
آپ ﷺ کا اپنے خادم سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ لطف و کرم اور تعلیم و تربیت کا انداز دیکھیں کہ کسی طرح ان کی صلاحیت کو اجاگر کیا کہ وہ اسلام کی عظیم شخصیت بن گئے۔
آپﷺ بچوں کی دل جوئی اور انھیں مانوس کرنے کے لیے ان کے ساتھ مزاح بھی فرماتے تھے۔ سید نا محمود بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: مجھے یاد ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ایک مرتبہ اول سے پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 77)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور اس پر باب قائم کیا ہے کہ چھوٹے بچے کا سماع کب صحیح ہے؟ آپ ﷺ کے نزدیک اس کلی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بچے کو خیر و برکت حاصل ہو اور وہ خوش اور مانوس ہو۔
سید نا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں بچپن میں رسول اللہ ﷺ اللہ کے ہاں زیر پرورش تھا۔ کھاتے وقت برتن میں میرا ہاتھ چاروں طرف گھوما کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ’’يَا غُلَامُ سَمِّ اللهَ وَكُلْ بِيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ))
’’بیٹے! کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو۔ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ۔ ‘‘(صحیح البخاري الأطعمة، حديث (5376)
یہ فرمانِ نبوی کھانے کے آداب کے حوالے سے ایک بنیادی قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ آپ نے نہایت بلاغت اور اختصار کے ساتھ کھانے کے آداب بتا دیے اور پھر یہ سب کچھ کمال شفقت و محبت اور لطف و کرم سے بنایا جسے اس بچے نے زندگی بھر یاد رکھا اور آگے بیان کیا۔
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک لونڈی کو تھپڑ مار دیا۔ پھر اس کے بارے میں مسئلہ پوچنھے کے لیے رسول اکرم ﷺکے پاس گیا۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کو نہایت سنگین جرم قرار دیا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ میں اسے آپ کے پاس لایا تو آپﷺ نے اس سے پوچھا: ”اللہ کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا: آسمان میں۔ آپ نے پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَعتِقهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ)) ’’اسے آزاد کر دو۔ بلاشبہ یہ تو مومنہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حدیث: 537)
دیکھیں، آپ نے کس طرح اسے دین کی اصل اور بنیاد، یعنی توحید سکھائی، اس کا ایمان قبول کیا اور اسے آزاد کرانے میں کردار ادا کیا۔ آپ پر اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو، آپ کس قدر رحم دل، صلہ رحمی کرنے والے اور نیک و پارسا تھے!
آپ ﷺنے مباحثے، سوال و جواب اور موازنے کے ذریعے سے بھی علم پھیلایا، سائل کی توجہ اپنی طرف مبذول کی اور سامع کو متنبہ کیا۔ عقلی موازنہ اور خوبصورت مکالمہ کیا۔ سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:
ایک انصاری نوجوان نبیٔ کریمﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے زنا کی اجازت دیں۔ لوگ اس پر پل پڑے۔ انھوں نے اسے ڈانٹا اور کہا: خاموش ہو جا، خاموش ہو جا۔ لیکن آپ ﷺنے اس نوجوان سے فرمایا: ’’قریب ہو جا‘‘، چنانچہ وہ آپ ﷺ کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا تو اپنی ماں کے لیے اس چیز کو پسند کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: اللہ کی قسم ہرگز نہیں، اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اسی طرح لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو اپنی بیٹی کے لیے اس چیز کو پسند کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم اللہ تعالی مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’لوگ بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو زنا کو اپنی بہن کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالی مجھے آپ ﷺپر فدا کرے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’لوگ بھی اپنی بہنوں کے لیے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔ ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تو اس کو اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرے گا ؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالی مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو پھر لوگ بھی اسے اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ کیا تو اس برائی کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم اللہ تعالی مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’تو پھر لوگ بھی اپنی خالاؤں کے لیے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ آپ ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ اس پر رکھا اور اس کے حق میں یہ دعا فرمائی: ((اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَ نبَهُ، وَ طَهِّرَ قَلْبَهُ، وَحَصِّن فَرْجَهُ))
’’اے میرے اللہ! اس کے گناہ بخش دے۔ اس کا دل پاک کر دے اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ کر دے۔‘‘ اس کے بعد وہ نو جوان کسی چیز کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ (مسند احمد، حدیث 22211)
سید نا ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’اور تمھارے بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے میں صدقہ ہے۔‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو کیا اس میں بھی اسے اجر ملتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ((أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ، أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ فَكَذٰلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ)) ’’بتاؤ، اگر وہ یہ خواہش حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اسے اس پر گناہ ہوتا ؟ اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1006)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘ صحابہ نے کہا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی ساز و سامان۔ آپ نے فرمایا: ’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہوگی، اس پر بہتان لگایا ہوگا، اس کا مال کھایا ہوگا، اس کا خون بہایا ہوگا اور اس کو مارا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا۔ اور اگر اس پر جو ذمہ ہے، اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈالے جائیں گے، پھر اس شخص کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، البر و الصلة، حدیث (2581)
سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا:
’’ایک دن ہم رسول اللہ سلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔ نہ تو اس پر سفرکا کوئی نشان دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے ا کوئی اسے پہچانتا تھا۔ وہ آ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا۔ اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنے ہاتھ آپﷺ کی رانوں پر رکھ دیے اور کہا: اےمحمد (ﷺ) مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گوری دو کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں۔ نماز کا اہتمام کرو۔ زکاۃ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ طے کرنے کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو۔‘‘ اس نے کہا: آپﷺ نے سچ فرمایا۔ سید نا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور خود ہی آپ کی تصدیق کرتا ہے۔ پھر اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔‘‘ اس نے کہا: آپﷺ نے درست فرمایا۔ پھر اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نے کہا: مجھے اس کی علامات بتا دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’علامات یہ ہیں کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں والوں، نگلے بدن والوں، محتاجوں، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: پھروہ سائل چلا گیا۔ میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا: ’’اے عمر!تمھیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟‘‘
میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جبریل تھے۔تمھارے پاس آئے تھے، جنھیں تمھارا دین سکھا رہے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث:8)
اور سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کو اس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے ؟‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، مگر میں کہتے ہوئے شرما گیا۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہی بتا دیں کہ وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 61)
سننے والوں کو قائل کرنے، دلائی اور معلومات میں رسوخ اور پختگی پیدا کرنے کا نبوی طریقہ ملاحظہ کریں کہ آپﷺ نے دلیل و حجت کے اثبات کے لیے کس قدر مؤثر انداز اختیار کیا تاکہ سننے والوں کے ذہن میں یقین و گہرائی پیدا ہو اور انھیں شک و شبہ نہ رہے۔
آپ ﷺنے مثالوں کے ذریعے سے معانی و مفاہیم سمجھانے کا طریقہ بھی اختیار کیا اور جن چیزوں کا لوگ مشاہدہ کرتے ہیں، انھیں چھوتے ہیں اور وہ ان کی زندگی کا حصہ ہیں، ان کی مثالیں دے کر سمجھایا تاکہ دو بآسانی سمجھ سکیں اور مقصود پوری طرح واضح ہو جائے۔ قرآن مجید کا طریقہ تعلیم بھی یہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا ؕ﴾
’’یقینا اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی سی بھی مثال بیان کرے، مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر (حقیر یا عظیم) ہو۔‘‘ (البقرة 26:2)
نبی اکرمﷺ نے بھی تعلیم و تدریس میں اسی منہج کو اختیار کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اس مومن کی مثال جو قرآن مجید پڑھتا ہے، سنگترے کی طرح ہے جس کی خوشبو عمدہ اور ذائقہ بھی اچھا ہے۔ اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن ذائقہ میٹھا ہے۔ اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، گل ہونہ (ریحان) کی طرح ہے جس کی خوشبو دار ہا لیکن ذائقہ انتہائی کڑوا ہے۔ اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا، اس کی مثال اندرائن (تھے ) جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأطعمة، حديث: 5427)
اور آپ ﷺنے فرمایا:
’’تم کیا سجھتے ہو اگر تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو، کیا اس کے جسم کا کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟‘‘ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کی: اس کا کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ تعالی ان کے ذریعے سے گناہوں کو صاف کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث :667)
ایک مقام پر آپ ﷺنے فرمایا:
’’نیک ہم ہم نشیں اور برے ہم نشیں کی مثال ملک بردار اور بھٹی دھو نکھنے والے کی طرح ہے۔ مشک بردار یا تو تمھیں ہدیے میں مشک دے دے گا یا تم اس سے خرید لو گے، ورنہ کم از کم تمھیں اس سے اچھی خوشبو آئے گی اور بھٹی دھونکنے والا چنگاریوں سے تمھارے کپڑے جلائے گا یا تمھیں اس سے بدبو آئے گی۔‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة، حديث: 2628)
ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ عزوجل نے جس ہدایت اور علم کے ساتھ مجھے بھیجا ہے، اس کی مثال اس بادل کی طرح ہے جو کسی زمین پر برسا۔ اس زمین کا ایک قطعہ اچھا تھا۔ اس نے اس پانی کو قبول کیا اور اس نے چارہ اور بہت سا سبزہ اگایا۔ اور اس زمین کا ایک قطعہ سخت تھا، اس نے پانی روک کر محفوظ کر لیا۔ اس سے اللہ تعالی نے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے اس میں سے خود پیا، جانوروں کو پلایا اور اس سے اگنے والی گھاس پھوس میں اپنے جانوروں کو چرایا۔ وہ بارش اس زمین کے ایک اور قطعے پر بھی برسی۔ وہ چٹیل میدان تھا۔ نہ وہ پانی کو روکتا تھا، نہ گھاس اگاتا تھا (اس پر پانی جمع رہتا، نہ اندر جذب ہوتا۔) یہ (پہلی) اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین میں تفقہ (گہرا فہم ) حاصل کیا۔ اللہ تعالی نے جو کچھ مجھے دے کر بھیجا، اس سے اس شخص کو فائدہ پہنچایا۔ اس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور (یہ دوسری) اس شخص کی مثال ہے جس نے اس کی طرف سر اٹھا کر توجہ نہ کی اور نہ اس ہدایت کو قبول کیا جس کے ساتھ اللہ تعالی نے مجھے بھیجا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2282)
رسول اکرم ﷺکا انداز بیان نہایت دلکش اور مسحور کن ہے جو دلوں میں اتر جانے والا اور معجزانہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو دیگر انبیاء کی طرح یہ امتیاز دیا کہ آپ کو سابقہ امتوں کے غیبی امور سے آگاہ کر دیا تاکہ آپ لوگوں کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ دل کو چھو جانے والے انداز میں صحیح تعلیم دیں جسے لوگ کھلے دل سے قبول کریں۔ ان کے سر اس کے سامنے جھک جائیں اور ان کے ایمان میں ان واقعات کے ساتھ اضافہ ہو جیسا کہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾
’’ (اے نبی !) آپ یہود سے یہ قصہ بیان کر دیں، تاکہ وہ غور وفکر کریں۔‘‘ (الأعراف 7: 176)
آپ ﷺاپنی گفتگو میں نہایت خوبصورت اور دل نشین انداز میں واقعات بیان کرتے جس سے سابقہ قوموں کے واقعات سننے والا وعظ ونصیحت حاصل کرتا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ كُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَ ۚ وَ جَآءَكَ فِیْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَ مَوْعِظَةٌ وَّ ذِكْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۱۲۰﴾
’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے آپ کو ہر وہ (خبر ) سناتے ہیں جس سے ہم آپ کا دل مضبوط رکھتے ہیں اور اس سورت میں آپ کے پاس حق آگیا اور مومنوں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی بھی۔‘‘ (ھود 11: 120)
مثال کے طور پر آپ ﷺ کا یہ فرمان دیکھیں، آپ نے فرمایا:
’’ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گیا جو دوسری بستی میں رہتا تھا۔ اللہ تعالی نے اس کے راستے پر ایک فرشتہ اس کی نگرانی (یا انتظار) کے لیے مقرر فرما دیا۔ جب وہ شخص فرشتے کے سامنے آیا تو فرشتے نے پوچھا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے ایک بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے۔ اس نے پوچھا: کیا تمھارا اس پر کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، بس مجھے اس کے ساتھ صرف اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے۔ فرشتے نے کہا: تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمھارے پاس بھیجا جانے والا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمھارے ساتھ اس طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر تم نے اس بھائی سے محبت کی ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة حديث: 2567)
اور آپ ﷺنے فرمایا:
((عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا حَتّٰى مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا سَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا، وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ))
’’ایک عورت کو اس بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس کو اس نے باندھ رکھا تھا حتی کہ وہ مرگئی تو وہ اس وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی۔ نہ تو وہ اسے کھلاتی تھی اور نہ پلاتی تھی جبکہ اس نے اسے باندھ رکھا تھا اور نہ اسے چھوڑتی تھی تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے۔‘‘ (صحيح البخاري، أحاديث الأنبياء حديث: 3482)
آپﷺ نے سکھانے اور سمجھانے کے لیے الفاظ کے ساتھ حرکات و اشارات بھی استعمال کیے تاکہ بات سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو جیسے آپﷺ نے فرمایا:
((أنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هٰكَذَا، وَأَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطٰى))
’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا اس طرح ہوں گے۔ اور آپ نے شہادت والی اور درمیانی انگلی کو باہم ملا کر اشارے سے بتایا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6005)
اور آپﷺ کا فرمان ہے:
((الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.))
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے اس عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل فرمائیں۔ (صحیح البخاري الأدب، حديث: 6026)
سید نا سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے ایسا کام بتائیں جس کو میں مضبوطی سے پکڑ لوں۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((وقُلْ رَّبِّي اللهُ ثُمَّ اسْتَقِم)) ’’ کہو: میرا رب اللہ ہے، پھر اس پر ڈٹ جاؤ‘‘
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!میرے بارے میں جن باتوں کا آپ کو اندیشہ ہے، ان میں زیادہ خطر ناک اور خوفناک کیا ہے؟ آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا: ’’اس کا‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حدیث 2410)
ام المومنین سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺگھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور فرمایا: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَيْلٌ لِّلْعَرَبِ مِنْ شَرِّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَّدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هٰذِهِ … وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الْإِبهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا … قَالَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَنْهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، قَالَ: ((نَعَمْ، إِذَا كَثُرَ الْخَبْثُ))
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عرب کی تباہی اس آفت کی وجہ سے ہونے والی ہے جو بالکل قریب آ گئی ہے۔ آج یا جوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔ آپ میکالم نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے سوراخ بنا کر اس کی مقدار بتائی۔ سیدہ زینب بنت جحش یہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی میں بلاک ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جب برائی بہت زیادہ پھیل جائے گی۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3346)
آپﷺ نے کسی واقعے پر مسکرا کر اور خاموشی اختیار کر کے بھی تعلیم دی جیسا کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، غزوہ ذات سلاسل میں مجھے ایک ٹھنڈی رات احتلام ہوگیا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا توہلاک ہو جاؤں گا، لٰہذا میں نے تمیم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ انھوں نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ذکر کیا تو آپﷺ نے پوچھا: ’’اے عمرو! کیا تو نے جُنبی ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جماعت کرائی تھی ؟ ‘‘میں نے بتایا کہ کس وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا﴾
’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بہت ہی مہربان ہے۔‘‘ اس پر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث (334)
آپﷺ ضرورت کے وقت غصے میں بھی آجاتے تھے۔ یزید بن مولی مُنبعِث سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے گم شدہ بکری کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے پکڑ لوکیونکہ یا تو وہ تمھارے لیے ہے یا تمھارے بھائی تک پانچ جائے گی یا پھر بھیڑیے کے سپرد ہوگی۔‘‘ اور آپ ﷺسے گم شدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غضبناک ہوئے حتی کہ آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ اس کے پاس اس کا جوتا اور پانی کا مشکیزہ ہے، وہ پانی پیتا رہے گا اور درختوں سے چرتا رہے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اسے مل جائے گا۔‘‘ (صحيح البخاري، الطلاق، حدیث: 5292)
سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ گھر سے ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم مجلس میں تقدیر کے بارے میں بحث مباحثہ کر رہے تھے۔ اس پر آپ سخت ناراض ہوئے حتی کہ غصے سے آپ کا رخ انور اس قدر سرخ ہو گیا گویا کہ آپ کے دونوں رخساروں پر (سرخ) انار چھوڑ دیا گیا ہے، پھر آپﷺ نے فرمایا:
((أَبِهٰذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهٰذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِيْنَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الْأَمْرِ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ (عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ) أَلَّا تَنَازَعُوا فِيهِ))
’’کیا تمھیں یہی حکم دیا گیا ہے یا میں تمھارے لیے یہی پیام لایا ہوں کہ تم تقدیر جیسے نازک مسئلے پر گفتگو کرو؟ تم سے پہلے لوگ بس اسی وقت تباہ و برباد ہوئے جب انھوں نے اس مسئلے میں جھگڑا اور اختلاف کیا۔ میں تم پر لازم کرتا ہوں، تمھیں تاکید کرتا ہوں کہ اس مسئلے میں جھگڑا اور اختلاف نہ کرو۔‘‘
(جامع الترمذي، أبواب القدر، حديث: 2133)
اس موقع پر آپﷺ کا غصہ شریعت اور تعلیمی مصلحت کی خاطر تھا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کی خوشی غصہ مسکراہٹ، رونا، خاموشی اور کلام بھی قابل عمل سنت بنایا جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آپﷺ نے اپنی خاموشی سے بھی تعلیم دی۔ آپ نے کسی کو اس کی حالت پر برقرار رکھا تو دو کام بھی سنت بن گیا۔ اہل علم کے ہاں اسے تقریری سنت کہا جاتا ہے۔
آپﷺ نے جس کام کے بارے میں سنا یا اسے دیکھا اور اس پر خاموش رہے، روکا نہیں تو وہ بھی آپ کی سنت کے زمرے میں آئے گا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کو یہ مقام دیا جو کائنات میں آپ کے سواکسی کو حاصل نہیں۔ سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین بھائی چارہ کرا دیا۔ ایک دن سید نا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے ملنے گئے تو انھوں نے سیدہ ام در داء رضی اللہ تعالی عنہ کو انتہائی پراگندہ حالت میں دیکھا تو ان سے دریافت کیا: ’’تمھارا کیا حال ہے؟‘‘ وہ بولیں کہ تمھارے بھائی سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں۔ اتنے میں سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ بھی آگئے، انھوں نے سیدنا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے کھانا تیار کیا، پھر سیدنا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: تم کھاؤ، میں تو روزے سے ہوں۔ سیدنا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: جب تک تم نہیں کھاؤ گے، میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ بالآخر سید نا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نے کھانا کھایا۔ جب رات ہوئی تو سید نا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ نماز کے لیے اٹھے تو سید نا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا: سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اٹھنے لگے تو سیدنا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ابھی سوئے رہو۔ جب آخر شب ہوئی تو سیدنا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: بے شک تم پر تمہارے رب کا بھی حق ہے، نیز تمھاری جان اور تمھاری اہلیہ کا بھی تم پر حق ہے، لہٰذا تمھیں سب کے حقوق اور کرنے چاہئیں۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ سب معاملہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا:۔((صَدَقَ سَلْمَانُ)) ’’سلمان نے سچ کہا ہے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حدیث: 1968)
آپﷺ کا انداز تعلیم یہ بھی تھا کہ آپ ایک ہی بات کو دہراتے تاکہ بیان سنے والا سجھ کر یاد کر سکے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب کوئی اہم بات ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے تاکہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اور جب کسی قوم کے پاس تشریف لاتے تو انھیں تین مرتبہ سلام کہتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حديث: 95)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو گئی، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو گئی، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو گئی۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون شخص ہے؟ فرمایا: ((مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَهُ الْكِبَرُ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا، ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ))
’’جس کے ہوتے ہوئے اس کے ماں باپ، ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھا پے نے آلیا، پھر وہ ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة حديث: 2551)
آپ ﷺکبھی تاکید کے لیے قسم کھاتے اور کبھی مخاطب کے دل میں بات بٹھانے کے لیے ایک سے زیادہ بار قسم کھاتے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتّٰى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتّٰى تَحَابُّوا، أَفَلَا أَدُلُّكُمْ عَلٰى أَمْرٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ))
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ۔ اور تم مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمھیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام عام کرو۔‘‘ (سنن ابی داود، الأدب، حديث: 5193)
سیدنا ابو شریح رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ))
’’واللہ وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کی گئی: اللہ کے رسول کون؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6016)
آپﷺ صادق و مصدوق ہیں۔ آپ نے قسم صرف اس لیے کھائی کہ سنے والے کے دل میں کوئی شک وشبہ نہ ر ہے اور وہ صادق و امینﷺ کی فرمائی ہوئی بات پر پوری طرح یقین کرلے۔
کبھی آپﷺ اس شخص کا ہاتھ، کندھا یا کان پکڑ لیتے ہے تعلیم دے رہے ہوتے تاکہ وہ چوکنا ہو جائے اور غور سے بات ہے۔ یہ آپ کے تعلیم دینے اور سمجھانے کا خوبصورت انداز تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: مجھے رسول اللہ ﷺ نے تشہد سکھا یا، اس وقت میرا ہاتھ آپ ﷺ کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھا۔ یہ تشہد آپ نے اس انداز سے سکھایا جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث: 6265)
عظیم معلمﷺ کی کمال شفقت دیکھیں، کسی طرح ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ اپنی پاکیز و ہتھیلیوں کے درمیان لیا ؟ اور پھر واقعی ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے دل پر اس کا نہایت گہرا اور خوبصورت اثر پڑا کہ ان کے لیے حفظ کرنا اور سیکھنا آسان ہو گیا۔
سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے میرے دونوں کندھوں سے پکڑا اور فرمایا: (( كُن فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ))
’’دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی اجنبی یا راہ چلتا مسافر ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6416)
سالہا سال گزر گئے مگر سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سول اکرم ﷺکا کندھا پکڑنے والا منظر نہیں بھولے اور آپ کی وصیت اور تعلیم زندگی بھر ان کے دل میں رہی۔
سید نا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں کہ جب وہ رات کے وقت نبی اکرمﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے آپ کی بائیں جانب کھڑے ہوئے تو ان کے بقول آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کر لیا۔ (صحيح البخاري، صلاة المسافرين، حديث:763)
اس محبت بھرے اور مبارک کس سے معلم اعظم ﷺ اپنے شاگرد کی پوری توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں اور وہ ہمہ تن گوش ہو کر پورے انہماک سے آپ کی مفید نصیحت اور سبق سنتا ہے جو اس کے دل و دماغ میں اتر جاتا اور دو زندگی بھر اس پر نہ صرف عمل کرتا ہے بلکہ لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہے۔
آپ ﷺنے تعلیم و تدریس میں جامعیت اور اختصار کا اسلوب اختیار کیا اور پھر اس کے بعد اس کی تفصیل بیان کی تاکہ مخاطب کے لیے سمجھنا، اس کی جزئیات کو یاد رکھنا اور ذہن نشین کرنا آسان ہوں۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ ﷺنے فرمایا:
’’مستریح یا مستراح منه‘‘ ہے، یعنی اسے آرام مل گیا یا اس سے آرام مل گیا۔ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! مستریح اور مستراح منہ کا کیا مطلب ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’مومن شخص دنیا کی مشقتوں اور اذیتوں سے اللہ عز وجل کی رحمت میں آرام پاتا ہے اور فاجر بندے سے لوگ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث (6512)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((تنكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَا لِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِيْنِهَا، فَاطْفُرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ))
’’عورت سے چار وجوہات کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال، حسب و نسب، خوبصورتی اور دین کی وجہ سے۔ تم دین والی کے ساتھ کامیاب ہو جاؤ۔ تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔“ (صحیح مسلم، الرضاع، حديث: 1466)
آپ ﷺنے تعلیم و تربیت میں کچھ چیزوں سے منع فرمایا جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
٭ جھگڑا: آپ ﷺ نے فضول بحث میانے اور بلا وجہ اختلاف سے منع فرمایا جس کی بنیاد محض ہٹ دھرمی، فخر و غرور اور دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہو، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ﴾
’’انھوں نے آپ سے یہ مثال محض جھگڑے کے لیے بیان کی، بلکہ یہ لوگ نرے جھگڑالو ہیں۔ ‘‘ (الزخرف 58:43)
جہاں تک اچھے انداز سے با مقصد بحث مباحثہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ آپ کا منہج اور رب تعالی کا حکم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ؕ﴾
’’ اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجیے۔‘‘ (النحل 125:16)
سید نا ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
’’ہدایت پانے کے بعد وہی لوگ گمراہ ہوتے ہیں جو جھگڑوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے یہ آیت پڑھی: ﴿ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ﴾ (الزخرف : 43: 58)
’’انہوں نے تمھارے لیے یہ (مثال) صرف جھگڑنے کے لیے بیان کی ہے بلکہ وہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسير القرآن، حديث (3253)
٭ آپﷺ نے علم چھپانے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰی مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ ۙ اُولٰٓىِٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ۱۵۹﴾
’’بے شک جو لوگ ہمارے نازل کیے ہوئے واضح دلائل اور ہدایت کی باتیں چھپاتے ہیں، اس کے بعد کہ ہم نے لوگوں کے لیے ان کو کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔‘‘ (البقرة 159:2)
اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ الْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ))
’’ جس شخص سے ایسے علم کی کوئی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا تھا اور اس نے اسے چھپایا، قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‘‘ (جامع الترمذي، العلم، حدیث: 2849)
٭ آپ ﷺنے ریا کاری اور شہرت کے حصول کے لیے علم حاصل کرنے سے منع کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ((مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا لَغَيْرِ اللهِ، أَوْ أَرَادَ بِهِ غَيْرَ اللهِ، فَلْيَتَبَوْا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ))
’’جس نے غیر اللہ کے لیے علم سیکھا یا وہ اس علم کے ذریعے سے اللہ کی رضا کے سوا کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب العلم، حديث: 2655)
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’علم اس لیے حاصل نہ کرو کہ علماء کے مقابلے میں فخر کا اظہار کرو، نہ اس لیے کہ کم عقل لوگوں سے بحث کرو، نہ اس لیے کہ مجلس میں ممتاز مقام حاصل کرو۔ جس نے ایسا کیا، اس کے لیے آگ ہے، آگ ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجه، العلم، حديث (254)
آپ ﷺنے قیل و قال (یہ ہو گیا، وہ ہو گیا ) اور ایسے مسائل کے بارے میں سوال کرنے سے منع فرمایا جو ابھی تک پیش ہی نہیں آئے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ قیل و قال اور کثرت سوال سے منع کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حديث (6473)
٭ آپ ﷺنے جاہلوں سے سوال کرنے سے منع کیا، چنانچہ فرمایا:
((إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلٰكِنْ يُقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا))
’’اللہ تعالی علم کو لوگوں سے چھیلتے ہوئے نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھا لے گا حتی کہ جب وہ لوگوں میں کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ دین کے معاملات میں بھی جاؤوں کو اپنے سربراہ بنا لیں گے۔ ان سے (دین کے بارے میں سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر توے دیں گے۔ اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، العلم، حدیث (2673)
آپ ﷺ نے اہل علم سے سوال کرنے کا حکم دیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ۴۳﴾
’’لہٰذا تم اہل ذکر (اہل کتاب) سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔‘‘ (النحل 43:16)
سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نکلے تو ہم میں سے ایک شخص کو پتھر لگ گیا اور اس کے سر میں زخم ہو گیا، پھر اسے احتلام بھی ہو گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: کیا میرے لیے کوئی اجازت ہے کہ میں تیمم کرلوں؟ انھوں نے کہا کہ ہم تمھارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتے جبکہ تمھیں پانی پر قدرت حاصل ہے، چنانچہ اس نے غسل کر لیا اور مر گیا۔ جب ہم نبی ﷺکی خدمت میں پہنچے اور آپ کو اس کی خبر دی گئی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’انھوں نے اس کو قتل کر ڈالا۔ اللہ انھیں ہلاک کرے ؟‘‘ انھوں نے پوچھ کیوں نہ لیا جب انھیں علم نہ تھا۔ بے شک عاجز (جاہل) کی شفا سوال کر لینے میں ہے۔ اس شخص کے لیے یہی کافی تھا کہ تمیم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھے رہتا۔ پھر اس پر مسح کرتا اور باقی سارا جسم دھو لیتا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث: 336)
٭آپ ﷺنے بغیر علم کے فتوی دینے سے منع کیا ہے، چنانچہ فرمایا:
’’جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی، وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنالے۔ جس سے اس کے مسلمان بھائی نے مشورہ طلب کیا، لیکن اس نے عقل اور راست روی کے بغیر اس کو مشورہ دے دیا تو اس نے اس سے خیانت کی اور جسے تحقیق کے بغیر فتوی دیا گیا، اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا۔‘‘ (مسند أحمد، حديث: 6266، ضعيف)
یہ بہت بڑا معجزہ اور عظیم نشانی ہے کہ کائنات کے سب سے عظیم استاد نبی اکرم ﷺنے کوئی کتاب پڑھے اور سطر لکھے بغیر قیامت تک آنے والی امت کو تعلیم دی۔ آپ نے ایک خط کا جواب تک نہ لکھا مگر آپ کے علم نے سینوں کو بھر دیا۔ آپ کے اقوال نے اوراق کو مزین کیا۔ آپ کی علمی میراث کی منبر ومحراب پر نشر و اشاعت ہو رہی ہے۔ ہزاروں کتا بیں آپ کے اقوال زریں سے بھری پڑی ہیں اور انھیں لکھنے میں سیاہی کے انبار ختم ہو گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ﴾
’’اور اس (اللہ تعالی) نے آپ کو وہ سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے۔‘‘ (النساء 113:4)
تمام علماء، دانشور، ادباء، خطباء، فقہاء اور اولیاء جنھوں نے دنیا کوعلم و حکمت، رشد و ہدایت اور آگاہی سے بھر دیا، وہ سب آپ کے علم سے فیض یافتہ تھے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:
فَكُلُّهُمْ مِّنْ رَّسُولِ اللهِ مُلْتَمِسٌ
غَرْفًا مِّنَ الْبَحْرِ أَوْ رَشْفًا مِّنَ الدِّيَمِ
’’وہ سب کے سب رسول اللہ ﷺ اللہ سے ان کے بحرز خار سے چلو بھر پانی یا موسلا دھار بارش کی معمولی سی مقدار کے درخواست گزار ہیں۔‘‘
یقینًا آپﷺ نے اپنی امت کو رہنے سہنے، سعادت کی زندگی گزارنے اور باہم معاملات طے کرنے کا ڈھنگ سکھایا، جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّهُ لَمْ يَكُن نَّبِي قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدلُّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرٍ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ))
’’مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا مگر اس پر لازم تھا کہ اپنی امت کو خیر اور بھلائی کی ہر وہ بات بتائے جو اسے معلوم ہو اور جو بری بات اسے معلوم ہو، اس سے ڈرائے۔‘‘ (صحيح مسلم، الإمارة، حديث: 1844)
آپ ﷺنے اپنے قول و فعل سے لوگوں کو طہارت اور نماز سکھائی۔ حج کے مناسک اور احکام سکھائے۔ لباس کے آداب بتائے اور اس میں جائز و ناجائز کی نشاندہی فرمائی۔ کپڑے اور جوتے پہنے اور اتارنے کی دعائیں اور طریقہ کار سکھایا۔
آپﷺ نے گفتگو کرنے کے آداب بتلائے، اچھی بری بات کی تمیز سکھائی اور یہ واضح کیا کہ کون کیا بات پسندیدہ اور کون سی حرام ہے۔
نبی ﷺنے امراء اور حاکموں کو آداب حکومت اور رعایا کے درمیان عدل و انصاف کا طریقہ بتایا۔ قاضیوں اور ججوں کو فیصلے کرنے کا طریقہ کار سمجھایا اور جھگڑے نبٹانے کا انداز بتایا، نیز ظلم اور نا انصافی سے ڈرایا۔
بیسیوں صحیح احادیث میں وراثت کے احکام و مسائل پوری تفصیل اور باریک بینی سے بتائے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے دعوت کا صحیح منہج اور ہدایت کا راستہ واضح کیا۔ انھیں نرمی اور حکمت ملحوظ رکھنے اور سختی وغلو اور شدت پسندی سے دور رہنے کی تعلیم دی۔ فقہاء کو فتوٰی، استدلال اور دین میں سوجھ بوجھ حاصل کرنے کا علم سکھایا۔ تاجروں کو تجارت کرنے اور حلال و حرام کے سارے ضابطے بتائے۔ خرید و فروخت کی اقسام اور لینے دینے کے شرعی طریقے بھی بتائے۔ زمین داروں کو زراعت کی فضیلت اور اس کی جائز و ناجائز صورتوں سے آگاہ کیا۔
آپ ﷺکی اس حیثیت پر کئی کتا ہیں لکھی جاچکی ہیں اور ان میں کئی طرح سے عنوان قائم کیے گئے ہیں۔ ہم نے تنبیہ کے لیے صرف اشارہ کیا ہے کیونکہ آپ ﷺنے امت کو جو تعلیمات دی ہیں، وہ ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ ہمیں یہی کافی ہے کہ ہم ساحل پر کھڑے ہوں اور سوال کریں: کیا دنیا میں کوئی ایسا معلم ہے جس کے شاگر د صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جیسے صاحب علم، معزز متقی اور پاکیزہ ہوں ؟ آپ ﷺ کا ہر صحابی اور پیروکار قیامت تک اس معلم نبیﷺ کے بے مثال ہونے کی مستقل دلیل ہے۔
چشم تصور سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی بعثت نبوی سے پہلے اور بعد کی حالت دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ کریں کہ وہ کسی طرح خرافات، جہالت اور شرک کی تاریکیوں سے نکل کر علم کے نور، بصیرت کی روشنی اور توحید کی فضا میں آگئے؟ یہ بھی آپ ﷺ کی تعلیم کا معجزہ ہے کہ یہ علم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دل و دماغ میں اس طرح رائخ اور پختہ ہوا کہ وہ مرتے دم تک اس پر کار بند رہے۔ نسل در نسل ان کے پیروکار اسے سیکھتے چلے آ رہے ہیں اور قیامت تک یہ علم منتقل ہوتا رہے گا۔ لمحہ بھر کے لیے ملنے والا جو شخص لمحہ بھر کے لیے آپﷺ سے ملا۔ آپ پر ایمان لایا۔ اس پر زندگی بھر اس ملاقات کا اثر رہا اور موت تک ان خوبصورت لمحات کو نہیں بھولا اور یہ سب آپ کی نبوت کی صداقت دعوت کی برکت، اخلاص و اخلاق کے جلال اور فضائل کے کمال کی بدولت تھا۔
اے اللہ! تو اس ہستی پر رحمت و سلامتی کا نزول فرما جس کے ساتھ تو نے دلوں کو زندگی دی، راستوں کو روشن کیا، بند آنکھوں کو بینائی دی، بہرے کانوں کو قوت سماعت عطا کی، گمراہی سے ہدایت بخشی، جہالت سے علم عطا کیا۔ جس نبی کے طفیل ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور اور غم سے نکال کر سرور بخشا۔ اب میرے لیے یہی مناسب ہے کہ قلم رکھ کر کہہ دوں:
((أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ عَلَيْهِ صَلَاةُ اللهِ وَسَلَامُ اللهِ))