محمدﷺ بحیثیت صبر کرنے والے
اللہ عز وجل نے صبر کو جمیل کہا ہے، چنانچہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی زبانی فرمایا:
﴿فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ؕ﴾ ’’لہٰذا صبر ہی بہتر ہے۔‘‘ (یوسف 18:12)
یہ صبر کی سب سے خوبصورت اور عالی شان تعریف ہے۔ صبر کڑوا ہے مگر جمیل ہے، نہایت کٹھن ہے مگر جمیل ہے، سخت اور تکلیف وہ ہے مگر جمیل ہے۔ وہ اپنے پکے ہوئے پھل اور اعلیٰ و عمدہ نتائج کی وجہ سے جمیل ہے۔ صبر ہی سے بزرگی ملتی ہے اور مقام حمد وستائش نصیب ہوتا ہے۔ ہر اعلیٰ اخلاق کا سبب اور معاون صبر ہے۔ رحمت، عدل، علم، کرم، شجاعت اور زہد جیسے اوصاف حمیدہ سب صبر ہی کے مرہون منت ہیں۔ صبر کے بغیر کسی اعلیٰ وصف کا تصور ممکن نہیں جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
يَا صَبْرُ إِنَّكَ فِي الخُطُوبِ جَمِيلٌ
فَوْقَ المَعَالِي دَائِمًا إِكلِيلُ
اَلله أَعْطَاكَ الْجَمَالَ تَكَرُّمًا
وَأَتٰي بِهِ الْمُصْطَفٰي جِبْرِيْلُ
’’اے صبر! بے شک تو حوادثات زمانہ میں بھلا لگتا ہے۔ تاج ہمیشہ قابل فخر کارناموں والوں ہی کے سر سجتا ہے۔ اللہ نے از راہِ لطف و کرم آپ کو حسن و جمال عطا فرمایا اور اسے مصطفیﷺ کے لیے جبریل علیہ السلام لے کر آئے۔‘‘
سیدنا آدم علیہ السلام نے اپنے پہلے وطن، یعنی جنت سے نکالے جانے پر صبر کیا۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے بیٹے کے غرق ہونے پر صبر کیا۔ سیدنا ابراہیم عیہ السلام نے بیٹے کو ذبح کرنے کے مقام پر صبر کیا۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی جدائی پر صبر کیا۔ سیدنا موسی علیہ السلام نے سرکشوں کی ایذا رسانی پر صبر کیا۔ سیدنا داود علیہ السلام نے ندامت کی کڑواہٹ پر صبر کیا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے دنیا کے فتنے اور آزمائش پر صبر کیا۔ سیدنا عیسی علیہ السلام نے فقر کی تکلیف پر صبر کیا۔ جہاں اور تک محمد ﷺکا تعلق ہے تو آپ کو ان تمام امور سے واسطہ پڑا اور آپ نے ان پر صبر کیا۔ بعض لوگ تکلیفوں اور سختیوں پر صبر کرتے ہیں یا دشمن سے ٹکراؤ کے وقت صبر سے کام لیتے ہیں یا پیاروں کے کھو جانے پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں یا بیماری کی شدت پر صبر کرتے ہیں یا وسائل کی کی پر صبر کا سہارا لیتے ہیں یا بر وقت مراد پوری نہ ہونے پر صبر کرتے ہیں یا لمبے عرصے تک خواہش پوری نہ ہونے پر صبر سے کام لیتے ہیں یا دشمنوں اور مخالفین کی کثرت اور ان کی ایذا رسانیوں اور سازشوں پر صبر کرتے ہیں یا اپنوں کے چھوڑ جانے اور کوئی مددگار نہ ہونے پر صبر کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں یا وطن اور پیاروں کی دوری پر صبر کرتے ہیں یا واجبات کی ادائیگی میں اور صدق وصورت کی خاطر صبر سے کام لیتے ہیں یا ان کا صبر خواہشات نفس اور شہوت کو ترک کرنے کی شکل میں ہوتا ہے۔ صبر کی یہ تمام صورتیں اور افراد قابل تعریف ہیں۔ مختلف لوگوں میں مختلف نوعیت کا صبر ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک عظیم انسان میں صبر کی یہ سب صورتیں اکٹھی اور جمع ہیں تو وہ محمد کریم ﷺہیں۔ بلاشبہ یہ تمام سانحات، درد و الم، مصائب و شدائد، تکلیفیں اور پریشانیاں آپ کی پر آئیں اور آپ نے ہر موقع پر صبر کیا۔ مشکلات میں صبر آپ ﷺ کی زرہ، سانحات میں مضبوط قلعہ، سفروں میں سواری اور مصائب میں لباس تھا۔ کیا تاریخ میں کوئی ایسا شخص ملتا ہے کہ جب کسی نے اس شخص کی مدد کی تو وہ مارا گیا، جس نے اس سے محبت کا اظہار کیا، اسے اذیتیں دی گئیں اور جب وہ دنیا کی کسی چیز کے ساتھ خوش ہوا تو وہ اس سے دور کر دی گئی اور اس کے باوجود اس نے صبر کیا ہو ؟! آپ ﷺ کے ساتھی بھی شہید ہوئے، انھیں اذیتیں بھی دی گئیں اور آپ کو مکہ بھی چھوڑنا پڑا، لیکن آپ نے کفار کی اذیت ناک باتوں، خفیہ سازشوں، انتہائی غربت، تکلیف دہ مرض اور رلا دینے والی جدائی پر صبر کیا۔
آپﷺ نے اپنے حامیوں اور غم خواروں کو کھویا تو آپ نے اس پر بھی صبر کیا۔ آپ ﷺکے دشمنوں اور مخالفین نے آپ پر غصہ نکالا تو بھی آپ نے صبر کیا۔ وسائل کی قلت پر صبر کیا۔ دشمن کی تکلیف دہ اور دل کو چیر دینے والی گالیاں سن کر صبر کیا۔ آپ کا چہرہ مبارک رخمی ہوا تو بھی آپ نے صبر کیا اور آپ کی پاکیزہ عزت پر کیچڑ اچھالا گیا تو بھی آپ نے صبر سے کام لیا۔ آپ ﷺ نے زندگی میں تمام بلند مقامات اور مرتبے صبر سے حاصل کیے اور تمام کلیدی عہدوں پر صبر کے ساتھ ہی فائز ہوئے۔ آپ نے خشوع و خضوع والی نماز صبر سے ادا کی۔ آپ کی غور و فکر پر مبنی مبارک تلاوت کا حسن صبر کے ساتھ تھا۔ آپ نے لوگوں کو تعلیم اور دعوت صبر کے ساتھ دی۔ جنگوں میں دشمن پر صبر کے ساتھ غالب آئے اور ان کی شان و شوکت کو ختم کیا۔ سفر اور نقل و حرکت کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کو میر کے ساتھ برداشت کیا۔
آپ ﷺنے صبر کے ساتھ نماز پڑھی تو سب سے افضل نمازی بن گئے۔ صبر کے ساتھ روزہ رکھا تو سب سے نفلی روزے دار بن گئے۔ صبر کے ساتھ عبادت کی تو عبادت گزاروں کے لیے اسوہ بن گئے اور صبر کے ساتھ جہاد کیا توامام المجاہدین بن گئے۔
آپﷺ صبر کے ہر میدان میں اپنے صحابہ سے آگے آگے رہے۔ اگر وہ بھوکے رہے تو آپ نے ان سے بہلے بھوک برداشت کی۔ قربانی دینے کا وقت آیا تو آپ نے سب سے پہلے قربانی دی اور خرچ کرنے کا موقع آیا تو آپ نے سب سے پہلے خرچ کیا۔
آپ ﷺ پر فقر کے وہ دن بھی آئے کہ آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ تھا مگر آپ نے صبر کیا۔ بھوک نے بے حال کیا حتی کہ سانسیں بحال رکھنے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا مگر آپﷺ نے صبر کیا۔ بخار ہوا تو دو آدمیوں کے برابر مگر آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ سب دشمنوں نے مل کر آپ اور آپ کے صحابہ پر حملہ کیا اور صورت حال یہ ہو گئی کہ کلیجے مونہوں کو آگئے مگر آپ نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ وطن کی جدائی اور بچپن اور جوانی کی ساری یادوں کے فراق پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کے لیے اہل وعیال، کنبہ قبیلہ اور گھر بار سب کچھ چھوڑ دیا۔
آپﷺ کیا ہم نے اولاد کی وفات پر صبر کیا۔ آپ کے بیٹوں نے آپ کے ہاتھوں میں جان دی۔ ہر بار آپ کی آنکھوں کے سامنے بیٹے کی روح پرواز کر گئی۔
منہج، وطن، شہرت، اخلاق، رسالت اور بیوی کے حوالے سے آپ کو اذیتیں دی گئیں مگر آپ ﷺنے لوگوں کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا۔
آپﷺ نے مالداروں کی سرکشی، وڈیروں کی نخوت، بدوؤں کی سختی، جاہلوں کے تکبر اور بد مزاج لوگوں کی بے ادبی پر صبر کیا۔
آپ ﷺنے یہود کی خیانتوں، منافقوں کی دھوکا بازیوں، مشرکوں کی ہرزہ سرائیوں اور لوگوں کے دعوت قبول کرنے میں تاخیر پر صبر کیا۔
آپ ﷺنے فتح و نصرت کے حصول، دنیاوی خوشحالی، بادشاہوں اور وڈیروں کے قبول اسلام اور لوگوں کے فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
آپ ﷺ نے خزانوں کو لوگوں کے برتن بھرتے دیکھا اور اس طرح صبر کیا کہ اُن میں سے ایک درہم بھی نہ لیا۔ آپ ﷺنے لوگوں کو فرمان نبوی کے مطابق سونے چاندی کے خزانے تقسیم کرتے دیکھا مگر آپ نے اس طرح صبر سے کام لیا کہ خود ایک ذرہ بھی اُن میں سے نہ لیا۔
آپ ﷺنے صبر کے ساتھ مٹی کے گھر میں رہنے، جو کی روٹی کھانے، اون کا لباس پہنے اور چٹائی کے بستر پر سونے کا معمول برقرار رکھا۔
یقینًا آپ ﷺ نے صبر کو انسان کا سب سے عظیم خزانہ اور زندگی کی مشکلات اور زمانے کی سختیاں برداشت کرنے کے لیے سب سے بڑی طاقت قرار دیا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ((مَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللهُ، وَمَنْ يَّسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللهُ، وَمَنْ يَّتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِي أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَّأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ))
’’جو شخص سوال کرنے سے بچے گا، اللہ تعالی اسے فقر و فاقہ سے بچائے گا۔ اور جو شخص (دنیا کے مال سے ) بے نیاز رہے گا، اللہ اسے غنی کر دے گا اور جو شخص صبر کرے گا، اللہ اسے صابر بنا دے گا۔ اور کسی شخص کو میرے بہتر کوئی وسیع تر نعمت نہیں دی گئی۔“ (صحيح البخاري، الزكاة، حديث: 1469)
سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے عامل مقرر نہیں کرتے جیسا کہ فلاں آدمی کو عامل بنایا ہے؟ اس پر آپ ﷺنے فرمایا:
’’میرے بعد تمھیں ترجیح (اثرہ) کا سامنا کرنا پڑے گا، لہذا صبر کرنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔‘‘ (صحيح البخاري، مناقب الأنصار، حديث (3792) ’’اثرہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ لوگ ان پر دوسروں کو ترجیح دیں گے اور ان کے حقوق میں کوتاہی کریں گے۔
آپ ﷺنے انصار کو بتایا کہ جب لوگ مال، اولاد اور عہدوں میں دوسروں کو ان پر مقدم کریں تو انھیں چاہیے کہ صبر سے کام لیں۔ یہ سب سے عظیم خزانہ اور بہت زیادہ عزت کا باعث ہے، لہذا اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا ہے۔
دنیا میں آنکھیں کھولنے سے پہلے آپ ﷺکے والد وفات پاگئے۔ والدہ بچپن میں فوت ہو گئیں۔ ابھی سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ دادا بھی داغ مفارقت دے گئے۔ مشکل حالات میں چچا بھی ساتھ چھوڑ کر چل دیے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی حالت غم میں الوداع کہہ گئیں۔ پدری محبت زوروں پر تھی کہ بیٹے کی روح پرواز کر گئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ انس و الفت کے دن تھے کہ اُن پر تہمت لگی۔ افرادی قوت کی اشد ضرورت تھی کہ سید نا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہو گئے۔ مدینہ طیبہ سے مانوس ہوئے تو منافقوں نے فضا خراب کر دی۔ بدر کی فتح کی خوشیاں ابھی پوری طرح سمیٹی بھی نہیں تھیں کہ اُحُد میں صدمے سے دوچار ہوئے۔ چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا کہ تیروں سے زخمی کر دیا گیا۔ دانت موتیوں کی طرح چمک رہے تھے کہ معرکے میں انھیں توڑ دیا گیا۔ مخالفین نے آپﷺ کو جھٹلا یا گالیاں دیں، برا بھلا کہا اور اذیتیں دیں تو اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ﴾ ’’لہذا جو کچھ وہ کہتے ہیں، آپ اس پر صبر کیجیے۔‘‘ (طٰہٰ 130:20)
انھوں نے آپ سے جنگ کی، آپ کو نیچا دکھانے کی کوشش کی، آپ کو شہر سے نکالا، جلا وطن کیا اور آپ سے لڑائی کی تو اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا: ﴿وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ﴾
’’اور (اے نبی !) آپ صبر کریں، اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔‘‘ (النحل 127:16)
انھوں نے آپ کو چھوڑا، آپ سے بے رخی برتی، آپ کا راستہ روکا اور اس میں رکاوٹیں ڈالیں تو یہ ارشاد الٰہی اترا: ﴿فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا﴾
’’تو (اے نبی !) آپ صبر جمیل سے کام لیجیے۔‘‘ (المعارج 5:70)
آپ ﷺنے لمبے عرصے تک مدد کا انتظار کیا، دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی، آفات اور مصائب پے در پے آئے تو یہ آیت نازل ہوئی:
﴿فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ﴾ ’’لہذا آپ میر کیے، باشہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘ (الروم 60:30)
قوم نے آپﷺ کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا، آپ کی دعوت کو ٹھکرایا اور آپ کو برے خطابات اور القابات دیئے تو اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ﴾
’’لہذا (اے نبی !) آپ صبر کریں جس طرح عزم و ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔‘‘ (الأحقاف 35:46)
آپ کا صبر، صبر جمیل تھا۔ ایسا صبر جس میں اللہ کی نصرت کا پختہ یقین تھا۔ آپ اللہ کے وعدے پر مطمئن، اپنے مولا کی طرف جھکنے والے اور رب تعالی سے ثواب کی امید رکھنے والے تھے۔ آپ ﷺکا صبر ایسے شخص کا صبر تھا جو یہ جانتا ہو کہ اللہ کی نصرت ہر حال میں آئے گی۔ نتیجہ اس کے حق میں ہوگا اور اس کے ساتھ اللہ تعالی ہے جو اسے کافی ہے۔
آپ گستاخی پر صبر کرتے، نہایت بد زبانی کو بھی برداشت کرتے اور کسی غیر مہذب رد عمل کا اظہار نہ کرتے۔ اذیت دینے والے سے انتقام نہ لیتے تاکہ آخرت میں پورا پورا اجر ملے، آپ کا یہ صبر اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو، آپ کا والی و معبود خوشی خوشی آپ سے ملاقات کرے اور اگلا پچھلا سارا ثواب عطا کرے، جو حقیقی عزت کی جگہ صاحب قدرت بادشاہ کے ہاں مقدر ہے۔
آپﷺ اس کے حق دار قرار پائے کہ آپ کو قرب الہی نصیب ہوا، رفعت و بلندی، وسیلہ و فضیلت اور تمام اعزازات جلیلہ آپ کا مقدر بنے کیونکہ آپ نے صبر کیا۔ مقام محمود، حوض کوثر اور حمد کا جھنڈا آپ کے حصے میں اسی صبر کی بدولت آیا۔ شرف شفاعت، قرب الہی اور بلند مقام و مرتبہ صبر ہی کا پھل ہے۔ میں آپ کے صبر کا کون سا واقعہ چھوڑوں اور کون سا واقعہ نوک قلم پر لاؤں؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر میں وہ تمام تفصیلات درج کروں تو قلمیں ٹوٹ جائیں اور اوراق ختم ہو جائیں۔
یقینا آپ ﷺ نے تب بھی مشرکین کی اذیتوں پر صبر کیا جب انھوں نے تمام قبائلی روایات اور مروت کے اصولوں کا لحاظ نہ کیا اور تمام اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر کے آپ کو اذیت دی۔ سید نا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
’’ایک بار رسول اللہ ﷺبیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی وہاں بیٹھے تھے، جبکہ ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح ہوئی تھی۔ ابو جہل نے کہا: تم میں سے کون اٹھ کر بنی فلاں کے محلے سے اونٹنی کی بچے والی جھلی اٹھا لائے گا اور جب محمد سجدے میں جائیں تو اسے ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے گا؟ قوم کا سب سے بد بخت شخص (عقبہ بن ابی معیط ) اٹھا اور اس کو لے آیا۔ جب نبیﷺ سجدے میں گئے تو اس نے وزنی جھلی آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی، پھر وہ آپس میں خوب ہنستے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ میں کھڑا دیکھ رہا تھا، کاش! مجھے کچھ بھی تحفظ حاصل ہوتا تو میں اس جھلی کو رسول اللہ ﷺ کی پشت سے اٹھا کر پھینک دیتا۔ نبیﷺ سجدے میں تھے۔ اپنا سر مبارک نہیں اٹھا رہے تھے حتی کہ ایک شخص نے جا کر سیدہ فاطمہ ﷺ کو خبر دی۔ وہ آئیں، حالانکہ وہ اس وقت کم سن بچی تھیں، انھوں نے وہ جھلی اٹھا کر آپ سے دور پھینکی۔ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث: 1794)
ایک دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ قبیح اور انتہائی برا ہے۔ رسول اکرم ﷺحطیم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے تو عقبہ بن ابی معیط آیا۔ اس نے رسول اکرمﷺ کو کندھے سے پکڑا اور آپ کا کپڑا گردن میں ڈال کر زور سے کھینچا اور بری طرح آپ کا گلا دبایا۔ یہ دیکھ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور اس بدبخت کے کندھے سے پکڑ کر اسے پیچھے کیا اور رسول اکرم کا دفاع کرتے ہوئے اس سے کہا: کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے: ’’میرا رب اللہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، حديث (3678)
انھوں نے نبیﷺ کو اس حد تک اذیت دی کہ آپ کا چہرہ مبارک زخمی کر دیا اور آپ کا پاک خون تک بہایا۔ سید نا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
’’جب نبی ﷺ کا خود توڑ دیا گیا اور آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا، نیز سامنے والے دونوں دانت متاثر ہوئے تو سیدنا علی چال ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے زخم دھورہی تھیں۔ جب انھوں نے دیکھا کہ زخم دھونے سے خون زیادہ بہتا ہے تو انھوں نے ایک چٹائی پکڑی اور اسے جلا کر اس کی راکھ سے زخم بھر دیا، اس سے خون رک گیا۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث (2903)
اس معرکے میں آپ ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی کیا گیا۔ آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور آپ کے رباعی دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ دشمن سے مقابلے کی وجہ سے شدید تھکن، بھوک اور سختی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے باوجود آپ نے صبر سے کام لیا اور اللہ سے ثواب کی امید رکھی۔
تکلیف، اذیت اور سازشیں اس قدر زیادہ تھیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم یہ کہنے پر مجبور ہو گئے: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد کیوں نہیں مانگتے ؟! ہمارے لیے اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے ؟! ان کی یہ شکایت سن کر آپ ﷺنے فرمایا:
’’تم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کی بھی آزمائش ہوئی۔ کسی شخص کو پکڑ لیا جاتا۔ زمین میں اس کے لیے گڑھا کھود کر اس میں اسے بٹھا دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور لوہے کی کنکھیوں سے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو الگ الگ کر دیا جاتا لیکن یہ آزمائشیں اسے اپنے دین سے برگشتہ نہ کرتی تھیں۔ اللہ کی قسم! یہ (اسلام کا) کام ضرور مکمل ہو گا حتی کہ صنعاء سے حضر موت کا سفر کرنے والا شخص اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا اور نہ بھیڑیے کے سوا بکریوں کو کسی سے خطرہ ہوگا لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔‘‘ (صحيح البخاري، الإكراه، حديث: 6943)
اللہ اکبر! کیا ہمت و حوصلہ اور صبر و استقامت ہے نبی کریمﷺ کا ؟ اللہ کے وعدوں پر اس قدر پختہ یقین کہ اللہ پر قسم ڈال دی کہ وہ اس امر کو ضرور پورا کرے گا اور آپ کی بھر پور مدد کرے گا۔ پھر عملا ایسا ہی ہوا اور آپ کا یہ فرمان کس قدر خوبصورت ہے: ((وَلٰكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ …)) ’’اور لیکن تم جلدی مچاتے ہو۔‘‘ یعنی تم اسباب کے بغیر مقاصد کا حصول چاہتے ہو، بلا قیمت عظمت کے طلب گار ہو، بغیر قربانیوں کے بلندی چاہتے ہو اور تم یہ بات بھول گئے ہو کہ ان سب دروازوں کی چابی صبر ہے۔
آپ ﷺنے مشرکوں کی تین سال تک آپﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے قطع تعلقی اور شعب ابی طالب میں محصوری پر صبر کیا۔ تمام مشرکین نے آپ کی بیعت نہ کرنے، تمام مسلمانوں سمیت آپ کے ساتھ رشتہ داری قائم نہ کرنے، آپ سے بات چیت نہ کرنے اور آپ کے ساتھ نہ اٹھنے بیٹھنے پر ایکا کیا اور یہ طے کیا کہ جب تک مسلمان نبی اکرمﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑ دیتے، ان سے مقاطعہ رہے گا۔ کفار قریش نے اس ضمن میں ایک تحریر لکھی اور کعبہ کے اندر لگا دی۔ نبی اکرمﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور رہے اور بھوک کی وجہ سے درختوں کے پتے کھانے تک نوبت آئی مگر آپ ﷺنے نہ تو ان کی کوئی بات تسلیم کی نہ ان سے صلح کی اور نہ اپنی رسالت اور اصولوں سے انحراف کیا بلکہ ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ آپ نے صبر و استقامت کا دامن تھا سے رکھا اور ان کے سامنے مضبوط چٹان بن کر پوری قوت و طاقت سے اپنی رسالت کا اعلان کرتے رہے۔ محصور ہونے سے پہلے، درمیان اور بعد میں آپ بار بار یہ دعوت دیتے رہے:
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوْا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ تُفْلِحُوْا))
’’اے لوگو ا لا الہ الا اللہ کہہ دو، فلاح پا جاؤ گے۔‘‘
آپﷺ پوری عزیمت، اصرار اور نظر و جلال کے ساتھ دعوت دیتے رہے۔ اس میں آپ نے مداہنت اور کمزوری دکھائی نہ آپ کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی آئی۔ بہت سے مواقع پر آپ ﷺ کا محاصرہ کیا گیا مگر آپ کے عزم و ہمت میں مزید اضافہ ہوا۔
آپﷺ کا اپنے گھر میں محاصرہ کیا گیا اور مشرکوں نے آپ کو قابو کرنے کی کوشش کی۔ اُس روز سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے بستر پر لیٹ گئے جبکہ پچاس قریشی جوان تلواریں بے نیام کر کے آپ ﷺ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ شعب ابی طالب میں آپ کا محاصرہ کیا گیا، مدینہ طیبہ میں غزوہ احزاب کے موقع پر آپ کا محاصرہ کیا گیا مگر ان تمام محاصروں میں آپ صبر و استقلال کی دیوار بن کر کھڑے رہے اور آپ کا اپنے رب پر توکل، اعتماد اور حسن ظن پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔
ایک محاصرہ تو ان سے بھی زیادہ خوفناک اور ہولناک تھا اور وہ تھا آپ کی دعوت کا محاصرہ تاکہ وہ لوگوں تک نہ پہنچ پائے۔ مشرکوں نے آپ کی دعوت کو روکنے کی سرتوڑ کوشش کی اور آپ کی رسالت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ قرآن مجید نے ان کے مختلف حربوں کا ذکر کیا اور فرمایا:
﴿وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ أَوْ يَقْتَلُوْكَ أَوْ يُخْرِجُوْكَ وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ﴾
’’اور (اے نبی! یاد کیجیے ) جب وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، آپ کے بارے میں خفیہ تدبیر کر رہے تھے تاکہ وہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو (مکہ سے) نکال دیں۔ اور وہ خفیہ تدبیر کر رہے تھے تو اللہ بھی خفیہ تدبیر کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘ (الأنفال 30:8)
کفار قریش، جن میں آپ کا چچا ابولہب بھی تھا، بازاروں میں کھڑے ہو کر لوگوں کو آپ کی دعوت سے بدظن کرتے اور ان سے کہتے کہ یہ مجنون ہے۔ کبھی کہتے جادو گر ہے اور کبھی کا ہن و شاعر ہونے کا الزام لگاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تمام عیوب سے بچا کر رکھا۔
فکری، علمی اور دعوتی محاصرہ دل و روح پر سب سے زیادہ شاق اور مشکل گزرتا ہے مگر اس کے باوجود آپ کا نے صبر کیا، تسلسل کے ساتھ دعوت کو جاری رکھا اور اس میں ذرہ بھر ستی کا مظاہرہ نہ کیا۔ آپ نے کمزوروں،مسکینوں اور غلاموں کے پاس جا کر انھیں تعلیم اور دعوت دی اور پیغام رسالت کی نشر و اشاعت جاری رکھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو کامیاب کر دیا۔
آپ ﷺکے دشمنوں نے آپ کو دیواروں کے اندر قید کرنے کی کوشش کی تو آپ کی محبت ہر دل میں اتر گئی۔
انھوں نے آپ کی آواز کو دبانا چاہا تو آپ کی شہرت آسمانوں تک پہنچ گئی۔
مشرکوں، منافقوں، یہودیوں اور دشمنانِ رسالت نے آپ ﷺکو ہر برا لقب دیا اور ہر گالی بکی، اس لیے آپ کے رب نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَقَدِ اسْتَهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وْنَ﴾
’’اور (اے نبی !) یقیناً آپ سے پہلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا تھا، پھر ان میں سے جن لوگوں نے مذاق کیا تھا، انھیں اس عذاب نے آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔‘‘ (الأنعام 10:6)
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَإِذَا رَاكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ ۚ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كَافِرُوْنَ﴾
’’اور جب کافر آپ کو دیکھتے ہیں تو وہ آپ کو مذاق ہی کا نشانہ بناتے ہیں۔ (کہتے ہیں:) کیا یہی وہ شخص ہے جو تمھارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟ جبکہ وہ خود رحٰمن کے ذکرہی سے منکر ہیں۔‘‘ (الانبیاء 36:21)
جب آپ ﷺ کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل اور حجت نہ رہی تو وہ کمینگی پر اتر آئے اور آپ کے مقام و مرتبہ کو گرانے اور عزت و بزرگی کو داغدار کرنے کے لیے گھٹیا پرو پیگنڈہ کرنے لگے۔ انھوں نے آپ کی شخصیت کو داغدار کرنے کے لیے آپ کو مختلف قسم کے القاب دیے اور گالیاں بکیں مگر آپﷺ کے صبر و استقلال کے سامنے سب پرو پیگنڈہ خاک میں مل گیا۔
انھوں نے آپ ﷺ پر بہتان تراشی کی کہ آپ مجنون ہیں اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے محفوظ رکھا۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَقَالُوا يَايُّهَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُوْنَ﴾
’’اور انھوں نے کہا: اے وہ شخص جس پر یہ ذکر (قرآن ) نازل کیا گیا ہے۔ یقیناً تُو تو دیوانہ ہے۔‘‘ (الحجر 6:15)
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونِ﴾
’’اور (اے اہل مکہ) تمھارا ساتھی (محمد ) دیوانہ نہیں۔‘ (التكوير 22:81)
ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنَ﴾
’’ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔ (اے نبی!) آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں۔‘‘ (القلم68: 1،2)
جو نبی محکم آیات، واضح معجزات اور روشن دلائل لائے، وہ مجنون ہو سکتا ہے؟!
جو پاکیزہ ملت قطعی دلائل، عظیم سنتیں اور عمدہ اخلاق پیش کرے، وہ مجنون ہو سکتا ہے ؟!
جس کی ایک لغزش اور کوتاہی پیش کرنے سے تاریخ عاجز ہو اور اس کا ایک جھوٹ بھی کوئی ثابت نہ کر سکتا ہو، وہ مجنون ہو سکتا ہے ؟!
بلکہ مجنون تو وہ ہے جس نے ان کو جھٹلایا، ان کی نافرمانی کی اور جو حق دے کر انھیں بھیجا گیا، اس کو رد کر دیا۔ انھوں نے آپ ﷺپر تہمت لگائی کہ آپ کا ہن ہیں جو مستقبل کی خبر میں بتاتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ولا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾
’’اور نہ (یہ ) کسی کا ہن کا قول ہے، تم کم ہی نصیحت پکڑتے ہو۔‘‘ (الحاقة 42:69)
آپ ﷺکہانت سے کوسوں دور ہیں کیونکہ کہانت تو جھوٹوں، گناہ گاروں اور شعبدہ بازوں کا کام اور لہو ولعب میں پڑے کذابوں اور دجالوں کا مشغلہ ہے۔ آپ ﷺتو نور ربانی، وحی آسمانی اور میراث نبوت کے امین ہیں۔ انھوں نے آپ ﷺ پر بہتان باندھا کہ آپ شاعر ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کے اس اتہام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍؕ۳۶﴾
’’کیا بھلا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر چھوڑ دیں؟‘‘ (الصّٰفّٰت 36:37)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (أَمْ يَقُولُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَ بَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُوْنِ﴾
’’کیا وہ (کافر) کہتے ہیں: (یہ نبی) شاعر ہے اور ہم اس کے بارے میں موت کے حادثے کا انتظار کر رہے ہیں؟‘‘ (الطور 30:52)
ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ﴾
’’بلکہ انھوں نے کہا: یہ پرا گندہ خواب ہیں، بلکہ اس نے جھوٹ گھڑ لیا ہے، بلکہ وہ شاعر ہے۔‘‘ (الأنبياء 5:21)
میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان! آپ ہرگز شاعر نہ تھے کیونکہ شاعر تو خیالات کی دنیا میں بھٹکتا اور تصورات میں گم رہتا ہے اور اکثر شعراء گمراہی کے سراب میں زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ۲۲۴
اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَۙ۲۲۵
وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَۙ۲۲۶﴾
’’اور شاعروں کی پیروی گمراہ (لوگ) ہی کرتے ہیں۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ بلاشبہ وہ (خیال کی ) ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اور بلا شبہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔‘‘ (الشعراء 224:26-226)
اس کے برعکس آپ ﷺتو حق لائے، رسولوں کی تصدیق کی، روشن دلائل لائے اور انبیاء علیہ السلام کی تائید و توثیق کی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ﴾
’’اور ہم نے اس (رسول) کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ (یہ) اس کے لائق ہی تھے۔ یہ (کلام الٰہی) تو سراسر نصیحت اور واضح قرآن ہے۔ ‘‘ (یس69:36)
انھوں نے بہتان لگایا کہ آپ جادوگر ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو اس سے محفوظ رکھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ؔؕ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ﴾
’’کیا لوگوں کے لیے تعجب( کی بات) ہے کہ ہم نے ان میں سے ایک آدمی کی طرف وحی بھیجی کہ آپ لوگوں کو ڈرائیں اور ان لوگوں کو خوشخبری دیں جو ایمان لائے کہ بے شک ان کے لیے ان کے رب کے ہاں سچا مرتبہ ہے۔ کافروں نے کہا: بے شک یہ تو یقیناً کھلا جادوگر ہے۔‘‘ (یونس 2:10)
حالانکہ آپ جادو سے کہیں دور تھے بلکہ جو کچھ آپ لائے، اس میں جادو کا توڑ اور رد ہے کیونکہ جادوگر حقائق مسخ کرتا ہے اور لوگوں کے دل و دماغ سے کھیلتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ۵۲﴾
’’اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو بھی رسول آیا، انھوں نے بس یہی کہا: یہ جادوگر ہے یا دیوانہ‘‘ (الذّريٰت 52:51)
انھوں نے آپﷺ پر بہتان تراشی کی کہ آپ بے اولاد ہیں اور آپ کی نسل آگے نہیں چل سکتی جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب کعب بن اشرف مکہ پہنچا تو مشرکین مکہ اس کے پاس آئے اور کیا:
’’ہم حاجیوں کو پانی پلانے والے اور بیت اللہ کے چوکیدار ہیں جبکہ تم یثرب کے سردار ہو۔ تم بتاؤ کہ ہم بہتر ہیں یا یہ جس کی نسل ختم ہونے والی ہے اور جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے؟ اس نے کہا: تم اس سے بہتر ہو۔“
اس پر رسول اکرمﷺ کی طرف اس آیت کی وحی آئی:
﴿اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠۳﴾
’’بے شک آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا (لا ولد ) ہے۔‘‘ (الکوثر 3:108، و صحیح ابن حبان، حدیث (6572)
’’جس کی نسل ختم ہونے والی ہے‘‘ سے وہ رسول اکرم ﷺکو مراد لے رہے تھے۔ یہ نہایت گھٹیا اور بے ہودہ بات ہے جو ان بڑے جھوٹے اور گناہوں کے رسیا مشرکین نے رسول اکرمﷺ کی تنقیص کے لیے کہی۔ انھوں نے آپ کی نرینہ اولاد نہ ہونے کے معاملے کو بھی ہدف تنقید بنایا تو اللہ تعالی نے انھیں منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا:
﴿اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠۳﴾
یعنی اے نبی! بلاشبہ آپ کے دشمن ہی کی نسل ختم ہونے والی ہے۔ وہ زمین میں برکت سے خالی اور بے فیض ہوگا اور زمین میں اس کے کوئی اچھے اثرات ہوں گے نہ اچھی شہرت اور تعریف ہوگی۔ جہاں تک آپ کا تعلق ہے تو آپ نہایت مبارک ہیں۔ آپ کے اثرات قیامت تک باقی رہیں گے۔ آپ کا ذکر خیر دونوں جہانوں میں گونجتا رہے گا اور آپ کی سیرت ہمیشہ پڑھائی جاتی رہے گی۔
انھوں نے آپﷺ کی عزت کو بھی داغدار کرنے کی بے ہودہ کوشش کی کہ آپ کی پاکباز اور بے قصور زوجہ سیدہ صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ تعالی عنہا پر جو کہ آپ کو تمام امہات المومنین میں سب سے زیادہ پیاری تھیں، بہتان لگایا۔ اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر سے ان کی براءت نازل فرما کر انھیں بے گناہ قرار دیا اور اس کے لیے قرآن نازل کیا جو قیامت تک پڑھا جاتا رہے گا۔
انھوں نے آپ ﷺپر بہتان لگایا کہ آپ مکہ کے فقراء و مساکین میں سے ایک عیسائی غلام سے تو رات و انجیل پڑھتے ہیں۔ یہ غلام لوہار کا کام کرتا تھا اور تلواریں بناتا تھا۔ نبی اکرمﷺ اس کو دعوت دینے کے لیے گئے تو کفار قریش نے یہ مشہور کر دیا کہ محمد اسﷺ اس کے پاس قرآن سیکھنے جاتے ہیں، حالانکہ وہ عجمی تھا اور آپﷺ عربی تھے اور قرآن بھی عربی زبان میں تھا۔ قرآن مجید نے نہایت مؤثر انداز سے اس شبہ کا رد کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ ؕ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ﴾
’’اور بلاشبہ یقیناً ہمیں بخوبی علم ہے کہ بے شک وہ کہتے ہیں: یقیناً اس (نبی) کو ایک آدمی سکھاتا ہے۔ اس شخص کی زبان عجمی ہے جس کی طرف یہ غلط نسبت کرتے ہیں، جبکہ یہ (قرآن تو ) واضح عربی زبان ہے‘‘ (النحل 103:16)
انھوں نے آپ ﷺپر بہتان لگایا کہ معاذ اللہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ آپ کیسے جھوٹ بول سکتے تھے جبکہ آپ سب سے سچے انسان تھے؟ آپ کیسے جھوٹ بول سکتے تھے جبکہ اللہ تعالی نے واضح آیات اور دائمی معجزات کے ساتھ آپ کی مدد کی؟ بلکہ آپ ﷺتو روئے زمین کے سب سے سچے انسان ہیں۔ انھوں نے آپﷺ پر جھوٹ کا بہتان لگایا، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ آپ سب لوگوں سے زیادہ سچے ہیں۔ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ (قبل از اسلام) جب ہر قل نے مجھ سے محمدﷺ کے بارے میں پوچھا: کیا دعوائے نبوت سے پہلے تم نے انھیں جھوٹ بولتے پایا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: یقیناً میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولتے ہوں اور اللہ پر جھوٹ بولیں (صحیح البخاري، بدء الوحي، حديث7) کیونکہ اللہ پر جھوٹ بولنا لوگوں پر جھوٹ بولنے سے زیادہ سنگین اور مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺکے دشمنوں نے آپ کو جھٹلایا تو اللہ تعالی نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤی اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ﴾
’’اور (اے نبی!) بے شک آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے گئے، تو انھوں نے جھٹلائے جانے اور تکلیف دیے جانے پر صبر کیا حتی کہ ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی، اور اللہ کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور یقیناً آپ کے پاس ان رسولوں کی کچھ خبر میں آچکی ہیں۔ (الأنعام 34:6)
انھوں نے آپ ﷺ پر بہتان باندھا کہ آپ رات کو صحیفے لکھتے ہیں اور دن کو پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَقَالُوا أَسَاطِيْرُ الأَولِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تَمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيْلًا﴾
’’اور انھوں نے کہا: یہ اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے اپنے لیے لکھوائے ہیں، اور وہ صبح و شام اس پر پڑھے جاتے ہیں۔ ‘‘ (الفرقان 5:25)
آپ رات کو وہ صحیفے کیسے لکھ سکتے تھے جبکہ آپ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے؟! اللہ سبحانہ وتعالی نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ﴾
’’ اور آپ اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لکھتے تھے۔ (اگر ایسا ہوتا ) تب تو باطل پرست یقیناً شک کر سکتے تھے۔ بلکہ یہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا، اور ظالم لوگ ہی ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ (العنکبوت29: 48،49)
بلکہ آپﷺ معصوم اور امی نبی ہیں جن کی تائید اللہ کی وحی کے ساتھ کی گئی ہے۔ انھوں نے آپ ﷺپر بہتان باندھا کہ آپ ایسی باتیں خودہی بنا لیتے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ؕ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۠﴾
’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے ؟ (اے نبی !) کہہ دیجیے: اگر میں نے اسے خود گھڑا ہے تو میرا جرم مجھ ہی پر ہے، اور میں اس سے بری ہوں جو تم جرم کرتے ہو۔ ‘‘(ھود 35:11)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ﴾
’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اسے خود گھڑ لیا ہے، (نہیں) بلکہ وہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے، تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ (السجدة 3:32)
یقینًا انھوں نے رسول اکرمﷺ کی شخصیت کو داغدار کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے نہایت بے ہودہ الزام لگائے۔ کبھی بہتان تراشی، کبھی منافقین کی طرف سے خفیہ سازشیں، کبھی بد تمیزی اور کبھی ہنگامہ آرائی۔ قرآن مجید ان کے ایک ایک الزام اور شبہےکا جواب دیتا رہا، ان کے ٹھٹھا مذاق کا رد کرتا رہا، ان کی ہر بے ہودگی کو غلط قرار دیتا رہا اور آپ ﷺ ان سارے اتہامات و الزامات، گالم گلوچ اور سازشوں سے اس طرح بری کیے گئے کہ آپ قیامت تک سب لوگوں سے زیادہ سچے، نیک اور پاکیزہ انسان قرار پائے۔
آپ ﷺنے بھوک، فقر اور زندگی کی مشقتوں پر صبر کیا۔ آپ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے بھوک، فقر اور محتاجی کی ہر مشقت برداشت کی۔ جب وہ بھوکے ہوئے تو سب سے پہلے آپﷺ نے بھوک برداشت کی۔ جب وہ تھکاوٹ میں مبتلاء ہوئے تو سب سے پہلے آپ ﷺتھکے۔ جب انھوں نے قربانی دی تو سب سے پہلے آپ نے قربانی دی۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’مجھے اللہ کے راستے میں اس قدر ڈرایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیا اور مجھے اللہ کی راہ میں اتنا ستایا گیا اور اس قدر تکلیف دی گئی ہے کہ کسی اور کو اس قدر اذیت نہیں پہنچائی گئی۔ مجھ پرتیس دن رات اس حال میں گزرے کہ میرے اور بلال کے لیے کھانے کی کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے، سوائے اس کے جو بلال نے اپنی بغل میں چھپا رکھا ہوتا۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة القيامة، حديث:2472)
ہمارے رسول اللہ ﷺ بعض اوقات کھانا طلب کرتے تو بھوک مٹانے کے لیے گھر میں کچھ دستیاب نہ ہوتا اور کمر سیدھی رکھنے کے لیے مٹھی بھر کھجور میں بھی نہ ملتیں۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، انھوں نے فتوحات کے نتیجے میں لوگوں کو ملنے والی آسانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:
((لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللهُ يَظَلُّ الْيَوْمَ يَلْتَوِي، مَا يَجِدُ دَقَلًا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ ))
’’میں نے رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ دن بھر بھوکے رہتے اور بھوک سے آپ کی کمر دوہری ہو جاتی اور آپ کو پیٹ بھرنے کے لیے ایک کھجور بھی نہیں ملتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، حدیث: 2978)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنیں، وہ نبی اکرم ﷺکے بھوک پر صبر کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ایک دن یا ایک رات رسول اللہﷺ باہر تشریف لے آئے۔ اچانک آپ نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو دیکھا تو آپ نے فرمایا: ’’اس وقت تم دونوں کو اپنے اپنے گھروں سے کیا چیز نکال لائی ہے؟‘‘ ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! بھوک (باہر نکال لائی ہے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: ((وَأَنَا، وَالَّذِي نفْسِي بِيَدِهِ! لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا)) ’’میں بھی اس حال میں ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے بھی وہی چیز باہر نکال لائی ہے جو تمھیں نکال لائی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم الأشربة حديث: 2038)
تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ کے محبوب و مقرب کو دیکھیں کہ انھوں نے فقر و فاقہ اور زندگی کی مشکلات اور سختیوں پر کسی طرح صبر کیا اور قربانیاں دیں۔ ادھر مال و دولت اور ناز و نعمت میں ملنے والے مالداروں اور دولتمندوں کا کیا حال ہے؟! وہ اللہ کی نعمتوں پر کسی قدر کم شکر ادا کرتے ہیں اور سختیوں پر ان کا صبر کرنا تھوڑا ہے ؟!
دشمنوں نے آپ ﷺکو ہر طرف سے گھیرا اور تناؤ اور دباؤ نے آپ کو بری طرح تھکا دیا لیکن ان تمام آزمائشوں اور بحرانوں میں آپ کا پر امن سہارا اور مضبوط قلعہ صبر جمیل تھا۔ آپ کو دن رات مشکلات کا سامنا رہا اور قدم قدم پر قربانی دینی پڑی مگر آپ حصول ثواب کی خاطر صبر و استقامت کی تصویر بنے رہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
’’ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے۔ اچانک ایک سخت چنان نمودار ہوئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: خندق میں ایک سخت چنان نکل آئی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’میں خود اندر اتر کر اسے دور کرتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو (بھوک کی وجہ سے) آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے اور ہم بھی تین دن سے بھوکے پیاسے تھے۔‘‘ (صحيح البخاري، المغازي، حديث (4101)
آپ ﷺمیں ایثار، صبر، سخاوت اور تواضع جیسے تمام اعلیٰ اوصاف ایک ساتھ موجود تھے۔ اور یہ نبوی اوصاف اور ربانی عطیات ہیں جو اپنے کمال اور جمال کے ساتھ صرف آپ کی ذات عالی میں موجود تھے۔ یہ قابل تعریف خوبیاں، عمدہ اوصاف اور آپ کے ہاتھوں کھانے میں برکت کے معجزے کا اظہار آپ کی نبوت و رسالت کی صداقت اور حقانیت کی علامات ہیں۔
جب مدینہ طیبہ میں منافقوں نے آپ ﷺاور آپ کی دعوت کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں اور مکر و فریب کیے تاکہ آپ کی شخصیت کو داغدار کیا جا سکے تو آپ سالﷺ نے اس پر بھی صبر کیا۔
منافقوں کی ایذا رسانیوں پر آپﷺ کے صبر کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
سید نا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺاپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جن میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی این سلول بھی موجود تھا۔ آپ نے مجلس والوں کو سلام کیا اور انھیں اسلام کی دعوت دی تو عبد اللہ بن ابی نے نبی اکرم ﷺکے ساتھ بدتمیزی کی۔ اس پر وہاں مسلمانوں اور منافقوں میں جھگڑا ہو گیا۔ رسول اکرمﷺ گدھے سے اترے اور لوگوں کو چپ کرا کے معاملہ رفع دفع کرایا۔ پھر آپ نےان سے درگزر کیا اور انھیں معاف کر کے صبر کیا۔ نفاق اور مکر و فریب میں ان کا سرغنہ عبداللہ بن ابی تھا۔ اس کا یہ قول اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر فرمایا:
﴿ لَىِٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ؕ ﴾
’’یقینا اگر ہم لوٹ کر مدینے گئے تو زیادہ عزت والا ذلیل تر کو ضرور وہاں سے نکال دے گا۔‘‘ (المنافقون 8:63)
اس بد بخت کا مقصد یہ تھا کہوہ عزت والا ہے اور نعوذ باللہ اللہ کے رسول ایسے نہیں ہیں۔
احد میں ایک تہائی لشکر کو یہی شخص بہکا کر واپس لے گیا تھا اور واقعہ افک میں اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰی كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾
’’ان میں سے ہر شخص کے لیے اتنا ہی گناہ ہے جو اس نے کمایا۔ اور ان میں سے وہ شخص جس نے اس (گناہ) کا بڑا بوجھ اٹھایا، اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ (النور 11:24)
اسی بد بخت نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر کیچڑ اچھالا اور نبی اکرم ﷺ کی عزت کو داغدار کرنے کی کوشش کی مگر اس سب کے باوجود آپ ﷺ نے صبر کیا اور اس کے مکر و فریب اور اذیتوں کو برداشت کیا۔
غزوہ تبوک میں بھی منافقوں نے نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا مذاق اڑایا اور بے ہودہ تبصرے کرتے ہوئے کہنے لگے: ہم نے اپنے ان قاریوں سے زیادہ پیٹو، جھوٹے اور دشمن سے لڑائی کے وقت بزدل نہیں دیکھے۔ ان کی مراد رسول اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم تھے۔ اللہ تعالی نے ان کی یہ خفیہ باتیں ظاہر کر دیں اور ان کا پردہ چاک کرتے ہوئے ان کے بارے میں قرآن نازل کیا:
﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ﴾
’’اور البتہ اگر آپ ان سے پوچھیں تو وہ ضرور کہیں گے کہ ہم تو صرف شغل کے طور پر باتیں اور دل لگی کرتے تھے۔ کہہ دیجیے: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے؟ (اب) بہانے مت بناؤ، یقیناً تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا ہے۔‘‘ (التوبة9: 65،66)
قرآن مجید نے ان کی خباثتوں، مکر و فریب اور خفیہ سازشوں کی کئی صورتیں اور مواقع ذکر کیے ہیں ہر موقع پر رسول اکرم ﷺکا عظیم صبر کھل کر سامنے آیا اور آپ نے ہمیشہ عظیم مقاصد اور بڑے اہداف کو سامنے رکھا اور وہ تھے: لوگوں کو متحد رکھنا، فتنے کو دبانا، اچھی شہرت قائم رکھنا اور دیگر امتوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا۔
کاش! ہم اپنے دوستوں کے ساتھ ہی وہ طرزِ عمل اختیار کر سکیں جو رسول اکرم ﷺ اپنے دشمن منافقین کے ساتھ کرتے تھے۔ بلا شبہ آپ نے ان سے انتقام نہیں لیا بلکہ درگزر کیا۔ ان کی اذیتوں پر صبر کیا۔ ان کے لیے استغفار کیا۔ ان کے عذر قبول کیے۔ ان کے اندرونی معاملات اللہ کے سپرد کیے اور انھیں نہایت احسن انداز سے دعوت دی۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے کچھ منافقوں، بالخصوص ان کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے منع کر دیا اور بڑے صبر و تحمل سے جواب دیا:
((لَا، يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ))
’’ایسا مت کرو، ورنہ لوگ باتیں بناتے پھریں گے کہ محمد ﷺ اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، المناقب، حديث: 3518)
منافقین آپ کے ساتھ ظاہری طور پر نماز میں بھی شامل ہوتے، آپ ﷺ کے ساتھ کھاتے پیتے اور آپ کی مجالس میں بھی بيٹھتے مگر آپ انھیں اس سے منع نہ کرتے اور اپنے رب کے اس حکم کی تعمیل کرتے:
﴿ وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ﴾
’’اور (اے نبی !) آپ صبر کریں، اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے، اور ان (کفار) پرغم نہ کھائیں اور نہ آپ اس پر تنگی میں مبتلا ہوں جو وہ مکر (سازشیں) کرتے ہیں۔‘‘ (النحل 127:16)
یہ آپﷺ کا صبر و استقامت اور وسعت ظرفی تھی کہ آپ مدینہ طیبہ میں اہلِ ایمان، بیہود اور منافقین سب کے ساتھ صبر وتحمل، امن و سلامتی اور الفت و مودت سے رہے۔ آپ اس کام کے آپ ﷺکا فرمان ہے
((الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَ يَصْبِرُ عَلٰى أَذَا هُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الَّذِي لَا يُخَالِطُهُمْ وَلَايَصْبِرُ عَلٰى أَذَاهُمْ))
’’جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کرتا ہے، وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو ان کے ساتھ میل جول نہیں رکھتا اور نہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفتن، حديث: 4032)
آپ ﷺنے بیماریوں اور تکلیفوں پر صبر کیا۔ آپ کا جسم درد سے ٹوٹ رہا ہوتا اور آپ بخار کی حرارت سے تپ رہے ہوتے تو بھی صبر وتحمل سے اسے برداشت کرتے اور اس کی آگ کو یقین کے پانی سے ٹھنڈا کرتے تاکہ اللہ تعالی اعلی علیین میں آپ کے درجات بلند کرے اور آپ کا ذکر لوگوں میں ہمیشہ باقی رکھے۔ سیدہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ سخت بیمار تھے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک کو چھوا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! بلا شبہ آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار آتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: یہ اس لیے ہے کہ آپ کو دو گنا اجر ملے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، ایسا ہی ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُّصِيْبُهُ أَذًى مِّنْ مَّرَضٍ فَمَا سِوَاهُ إِلَّا حَطَّ اللهُ لَهُ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا))
’’کسی بھی مسلمان کو مرض وغیرہ کی اذیت پہنچے تو اللہ تعالی اس کے گناہ اس طرح گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المرضى، حديث: 5660)
تمام بیماریوں میں سے بخار سب سے زیادہ اذیت ناک ہے اور عام طور پر یہ رات ہی کو چڑھتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اکرمﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو نبی ﷺ نے انھیں بتایا: ’’طاعون (اللہ کا) عذاب تھا۔ وہ اسے جس پر چاہتا بھیج دیتا، پھر اللہ تعالی نے اس کو اہل ایمان کے لیے باعث رحمت بنا دیا۔ اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، وہ اس کو ضرور پہنچ کر رہے گا تو اس کو شہید کا سا ثواب ملے گا۔‘‘ (صحيح البخاري، الطب، حديث (5734)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ قَالَ: إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِي بِحَبِيْبَتَيْهِ فَصَبَرَ عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الْجَنَّةَ)) يُرِيدُ عَيْنَيْهِ۔
’’اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’جب میں اپنے بندے کو دو محبوب چیزوں سے آزماؤں اور وہ صبر کرے تو میں ان دونوں کے عوض اسے جنت دوں گا۔ دو محبوب چیزوں سے مراد دو آنکھیں ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري المرضىٰ، حدیث: 5653)
آپ ﷺاللہ تعالی کی اطاعت و عبادت پر بھی صبر و استقلال سے کام لیا۔ آپ کا صبر صرف ابتداء و آزمائش اور مصائب و مشکلات تک محدود نہیں تھا بلکہ صبر کی ایک دوسری صورت بھی آپ کی زندگی کا نمایاں پہلو تھی اور وہ ہے اللہ کی مرضی کے مطابق بہترین طریقے سے عبادات کی ادائیگی۔ اس صبر کی بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَا ؕ﴾
’’اور اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم دیجیے اور (خود بھی) اس پر قائم رہیے۔‘‘ (طٰہٰ 132:20)
اللہ پاک نے صبر کو نماز کے ساتھ ملایا ہے کیونکہ یہ رباط (سرحدوں پر پہرہ) ہے جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے بتایا ہے۔ گرمی ہو یا سردی، نیند ہو یا بیداری، دن ہو یا رات، سفر ہو یا حضر اور صحت ہو یا بیماری، تمام حالات میں نماز کی ادائیگی ضروری اور لازم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ والصَّلٰوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِيْنَ﴾
’’اور تم صبر اور نماز کے ذریعے سے (اللہ کی) مدد طلب کرو، اور بے شک وہ بہت بھاری ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر (بھاری نہیں )۔‘‘ (البقرة 45:2)
اللہ سبحانہ و تعالٰی نے عبادات کی تکمیل اور اطاعت کے کاموں کی ادائیگی صبر سے کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ ؕ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠﴾
’’(وہی) رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے۔ سو آپ اس کی عبادت کریں اور ہمیشہ اس کی عبادت پر قائم رہیں۔ کیا آپ اس کا کوئی ہم نام جانتے ہیں؟‘‘( مریم 65:19)
تمام عبادات اور دین کے تمام شعائر صبر کا تقاضا کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺنے کامل ترین صورت میں روزوں کی ادائیگی پر صبر کیا۔ حج کی ادائیگی اور اس کی راہ میں آنے والی سفری مشکلات پر صبر کیا اور نہایت عمدگی سے سعی، طواف، وقوف عرفہ، جمرات کو کنکریاں مارنے اور قربانی وغیرہ کے فرائض و ارکان ادا کیے۔ آپﷺ نے دعوت و تبلیغ کی راہ میں آنے والی مشکلات پر بھی صبر کیا۔ جب اللہ تعالی نے یہ فرمان نازل کیا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ۱
قُمْ فَاَنْذِرْ۪ۙ۲ وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ۪ۙ۳ وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْ۪ۙ۴ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ۪ۙ۵ وَ لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۪ۙ۶ وَ لِرَبِّكَ فَاصْبِرْؕ﴾
’’اے لحاف میں لپٹنے والے اٹھے اور ڈرائیے۔ اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کیجیے۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھیے۔ اور نا پا کی چھوڑ دیجیے۔ اور زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کیجیے۔ اور اپنے رب کے لیے صبر کیجیے۔‘‘ (المدثر 74: 1۔7)
ان آیات کے نزول کے بعد آپ اس کی دعوت وتبلیغ اور نشر و اشاعت میں ایسے لگے کہ پھر زندگی بھر راحت کوتاہی اور سستی کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیا بلکہ نہایت صبر و استقامت، جہد مسلسل، ہمت و حوصلہ، قربانی اور شادکامی سے اسے جاری رکھا اور اپنے رب کے حکم عبادت و صبر کا عملی نمونہ پیش کیا:
عبادت میں آپ کی راتیں ﴿ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۲﴾ کی آئینہ دار تھیں اور دن ﴿ قُمْ فَاَنْذِرْ۪ۙ۲﴾ کی عملی تصویر تھے، چنانچہ ’’سورہ مدثر‘‘ ڈرادے، تبلیغ، دعوت کی نشر و اشاعت اور رسالت کی تعلیم دینے کے لیے اور سورہ مزمل قیام اللیل، تہجد اور تنہائی میں رب ارض و سماء سے گریہ وزاری کے ساتھ زاد راہ حاصل کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے تھی اور آپﷺ کے دن رات تہجد، جہاد علم سکھنے سکھانے، عبادت اور دعوت و تبلیغ میں گزرتے تھے۔ بلاشبہ لوگوں کو جس عبادت، علم اور اطاعت کی توفیق ملتی ہے، وہ اس پر صبر کرتے ہیں۔ کئی لوگ روزوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور صبر و استقامت کے ساتھ روزے رکھنے کی وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ جہاد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ بعض بکثرت نوافل کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض دعوت و تبلیغ اور سیکھنے سکھانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ کچھ مال خرچ کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ کچھ عدل و انصاف اور لوگوں کے درمیان اصلاح کاکام بڑی استقامت سے کرتے ہیں وغیرہ۔ یہ اللہ رب العزت کی انسانوں پر عنایات اور نوازشیں ہیں۔
مگر ہمارے رسول ﷺان تمام امور میں سب سے آگے ہیں۔ آپﷺ کی ہر طرح کی عبادت و اطاعت میں اول درجے پر ہیں۔ نماز، روزه، حج، جهاد، تعلیم، عدل و انصاف، حفاظت و حمایت، حکومت اور تربیت کے میدان میں سرفہرست ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ہر فضیلت اور اعلی خوبی میں آپ کو سب سے مقدم اور آگے رکھا؟
میں کہتا ہوں: خیر اور بھلائی اور سخاوت و فیاضی کے ہر باب میں ہمارے رسولﷺ ہی بہترین اسوہ اور احسن نمونہ ہیں، اس لیے اللہ تعالی نے آپ ﷺ کا تعارف کراتے ہوئے اس عظیم مرتبے اور مقدس مقام کا خاص طور پر ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمایا:
﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ﴾
’’ بلا شبہ یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ (الأحزاب 21:33)
کون ہے جس نے رسول اکرمﷺ سے طویل نماز پڑھی ہو؟ آپﷺ نے ایک ہی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ بقرہ، آل عمران اور نساء کی تلاوت فرمائی۔
پوری تاریخ انسانی میں کون ہے جس نے آپ سے لمبا روزہ رکھا ہوا؟ یہ آپﷺ ہی تھے جو کئی دن اور راتیں بغیر سحری و افطاری کے روزہ رکھتے تھے جبکہ آپﷺ نے اپنے صحابہ کو اس سے منع کر دیا تھا۔
کون ہے جس نے نماز کسوف کے نفلوں میں دن کے وقت آپ سے لمبا قیام کیا ہو؟ آپ ﷺ نے سورۂ بقرہ پڑھنے کے برابر قیام کیا۔ اس قدر طویل رکوع کیا۔ پھر اس قدر طویل وقت رکوع کے بعد کھڑے رہے اور پھر اتنا ہی لمبا سجدہ کیا یہاں تک کہ سورج گرہن ختم ہو گیا۔
کون ہے جس نے دنیا میں آپ سے لمبی دعا کی ہو؟ آپﷺ نے عرفہ کے دن نماز ظہر سے مغرب تک بغیر توقف کیے مسلسل دعا کی۔
کون ہے جس نے آپﷺ سے زیادہ مشکل اور عظیم سفر پر صبر کیا ہوا؟ آپﷺ نے دار کفر سے دارالایمان کی طرف ہجرت کا سفر کیا۔ یہ سفر نہایت کٹھن، پر خطر، بھوک، پیاس اور تھکاوٹ پر مشتمل تھا۔ ہجرت کا عظیم سفر وہی تھا جو آپﷺ نے اپنے جاں نثار ساتھی سیدنا صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مل کر کیا۔ کون ہے جس نے اتنی ذمہ داریوں اور فرائض کو صبر و استقامت سے نبھایا ہو؟
آپ ﷺنے لوگوں کی تعلیم و تربیت اور تزکیے پر صبر کیا۔ آپ کا واسطہ تند مزاج، جاہل، سرکش اور ضدی لوگوں سے بھی پڑا مگر آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔
آپﷺ نے نہایت صبر و استقامت سے جنوں، انسانوں، شہریوں، دیہاتیوں، مرد و خواتین اور چھوٹوں، بڑوں سب کو پیغام رسالت پہنچایا۔
آپﷺ نے صبر کے ساتھ امن و جنگ، خوشی ولی، سفر و حضر اور راحت اور تھکاوٹ ہر حال میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا اہتمام کیا اور کسی پر ظلم و زیادتی کی نہ سرکشی۔
رسول اکرم ﷺ ہی قیامت تک صبر کرنے والوں کے لیے عمدہ نمونہ اور بہترین مثال ہیں۔ آپ ﷺ کی امت کے جس فرد پر جو بھی مصیبت آئے، اسے بھوک اور فقر و فاقہ سے گزرنا پڑے یا وہ خوف میں مبتلا ہو تو صبر سے کام لے کہ اس سے پہلے ان مراحل سے رسول اکرمﷺ بھی گزر چکے ہیں اور اس راہ میں آپ اس کے لیے اسوہ ہیں۔ اللہ تعالی کا منشا تھا کہ آپ کی کہ ان کٹھن مراحل اور مشکل حالات سے گزریں تاکہ امت کے لیے آپ نمونہ بن سکیں، آپ کے قول و فعل میں مطابقت اور صداقت پیدا ہو، آپ کو وافر اجر ملے، آپ کی کوشش کی قدر افزائی ہو اور آپ کا عمل بارگاہ الہی میں قبول ہو۔
ہمارے رسول ﷺنے ہمیں تعلیم دی کہ صبر تمھارا وہ لشکر ہے جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہ ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور ایسا چشمہ ہے جو بھی خشک نہیں ہوتا۔ صبر ہر کھو جانے والی چیز کا عوض، ہر جانے والے کے غم میں تسلی اور ہر مصیبت میں آسرا ہے۔ یہ صبر کرنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور رب العالمین کے اجر کے امیدواروں کے لیے خوشخبری ہے۔
اگر ہم نبی اکرمﷺ کو زندگی میں پہنچنے والے مصائب اور ان پر آپ کے صبر و قتل کا تفصیلی تذکرہ کریں تو سلسلہ کلام بہت لمبا ہو جائے گا لیکن ہم اپنا سلسلہ کلام اس بات پر موقوف کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے صبر کے میدان میں بھی رسول اکرمﷺ کو اسوۂ ونمونہ قرار دیا ہے اور آپ کو اعلیٰ مثال بنا کر پیش کیا ہے۔
……………