محمدﷺ بحیثیت زاہد

نبی ﷺ کی روح نے اس فانی دنیا سے آخرت کی دائمی منزل کی جانب پرواز کی تو آپ کے قلب اطہر میں دنیا کے لیے کوئی جگہ یا اہمیت نہ تھی۔ دنیا تھوڑی ہو یا زیادہ، آئے یا جائے، آپ اس کی بالکل فکر نہ کرتے تھے۔ میراث نبوت اور تاج رسالت کی برکت سے اللہ تعالی نے آپ کو دنیا سے بے نیاز کر دیا تھا۔ آپ کے پاس حکمت کے جو بے شمار خزانے تھے، ان کی بنا پر آپ کی شان بہت بلند تھی۔ دنیا سے آپ کی بے رغبتی اور زہد اس شخص کے زید کی طرح تھا جو اس کی بے ثباتی، زوال اور فنا سے واقف ہو اور اس بات کی معرفت رکھتا ہو کہ اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کے لیے آخرت کی جو دائمی نعمتیں، اجر عظیم اور دنیا جہان سے قیمتی اور افضل انعام تیار کیے ہیں، وہ لازوال ہیں۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے:

((مَالِيْ وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا))

’’میرا دنیا سے کیا لینا دینا؟ میں تو دنیا میں بس ایک مسافر سوار کی طرح ہوں جو چند لمحے کسی درخت کے سائے میں رکتا ہے، پھر چل پڑتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2377)

 آپ ﷺکے رب نے آپ سے وعدہ کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰیؕ۝۴﴾

’’اور  یقینًا آپ کے لیے آخرت، دنیا سے بہت بہتر ہے۔ ‘‘ (الضحی 4:93)

یعنی اللہ تعالی نے آخرت میں آپ ﷺ کے لیے جو اجر تیار کر رکھا ہے، وہ اس سے کہیں عظیم اور قیمتی ہے جو اس نے آپ کے لیے دنیا میں تیار کیا ہے۔ رب العالمین کی طرف سے اپنے کریم نبیﷺ کے لیے یہ کتنا عظیم وعدہ ہے اور آپﷺ کے نزدیک دنیا کی کیا قیمت ہو سکتی ہے ؟! اور اس وعدے کے بعد آپ دنیا سے کیسے بے رغبت نہ ہوں ؟!

آپ دنیا کی زیب وزینت اور ساز و سامان سے بھلا کیسے بے نیاز نہ ہوں جبکہ اللہ تعالی نے آپ پر یہ آیت نازل کی ہے:

﴿ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۝﴾ ’’(اے نبی !)  یقینًا ہم نے آپ کو کوثر عطا کی۔‘‘ (الکوثر1:108)

 کوثر سے مراد خیر کثیر ہو یا نعتوں والے باغات میں نہر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مقصد یہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالی کے ہاں آخرت میں محفوظ و مامون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے دنیا کو قابل التفات نہیں سمجھا کیونکہ آپ کی پاکیزہ اور معزز روح پوری صداقت سے اس کی طالب تھی جو اللہ تعالی کے ہاں ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے موت کی بے ہوشیوں میں تین بار فرمایا: ((في الرفيق الأعلى))

’’میں رفیق اعلیٰ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4436)

غور کریں کہ سارے مسلمانوں کے امام ، سارے مومنوں کے قائد اور سب لوگوں سے افضل ہونے کے باوجود آپ ﷺ مٹی کے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں جس کی چھت بھی زیادہ بلند نہیں۔ پرانی چٹائی پر سوتے ہیں، کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند کھجوریں تلاش کرتے ہیں۔ کبھی پہنے کو صرف ازار بند اور ایک چادر ہوتی ہے۔ آپﷺ نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا۔ کبھی آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم آپ کو کھانا بھیج دیتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالی نے آپ کی روح کی اصلاح، دین کی حفاظت اور دنیا کی آلائشوں سے بچانے کے لیے آپ کے دل کو دنیا کے دھو کے اور ختم ہونے والے ساز و سامان سے بے نیاز کر دیا ہے۔ آپ ﷺفرماتے تھے:

((إِنَّ أَصْدَقَ كَلِمَةٍ قَالَهَا شَاعِرٌ كَلِمَةُ لَبِيدٍ: أَلَا كُلَّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللهَ بَاطِلٌ))

’’بلاشبہ سب سے کچھی بات جو کوئی شاعر کہہ سکتا تھا، وہ لبید شاعر نے کہی ہے: آگاہ رہوا اللہ کے سوا ہر چیز کو زوال ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث (3841)

پیغمبر کا ئنات اور اللہ تعالی کے رسولﷺ ہی قناعت میں سب سے عظیم اسوہ ہیں۔ آخرت کی طرف رجوع ترک دنیا اور اس کی طرف عدم التفات، اس پر اترانے سے اجتناب یا اسے جمع کرنے پر حریص نہ ہونے میں آپ ہی نمونہ ہیں۔ آپ نے کوئی محل بنایا نہ مال جمع کیا۔ نہ کوئی کھیتی چھوڑی نہ باغ۔

 آپ ﷺ کا قول فعل اور حال، سب آپ کے زہد کے گواہ ہیں اور آخرت کی تیاری اور عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : « قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ))

’’یقینًا وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اسے ضرورت کے مطابق رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو دیا اس پر اسے قناعت بھی دی۔‘‘ (صحيح مسلم، الزكاة، حديث: 1054)

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو دنیا میں زہد کے بدلے وحی کریم اور قرآن عظیم عطا فرمایا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ۝۸۷

لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ ﴾

’’اور (اے نبی ) یقین بے شک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات اور قرآن عظیم دیا ہے۔ اور ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو جو مال و متاع دیا ہے، اس کی طرف آپ اپنی نظریں ہرگز نہ اٹھا ئیں اور نہ ان (کی حالت) پر غم کھا ئیں۔‘‘ (الحجر 15: 87،88)

مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے آپ کو سورہ فاتحہ دی ہے جو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات ہیں اور قرآن مجید عطا کیا ہے جس میں معرفت کے سارے خزانے اور ہر طرح کی عنایات و برکات ہیں تو آپ دنیا کی فانی رونقوں کو خاطر میں نہ لائیں اور نہ اس کی زائل ہونے والی پرفتن رعنائیوں کو دیکھیں۔ جو آپ کے پاس ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ قیمتی اور عظیم ہے جو دوسروں کے پاس ہے، لہٰذا اللہ تعالی کی عطا اور عنایت پر خوش اور پرسکون رہیں۔

دنیا کے زاہدوں کا حال یہ ہے کہ کوئی مال سے بے نیاز ہے، کوئی عہدے اور منصب سے بے نیاز ہے اور کوئی جاہ و مرتبہ اور تعریف سے بے نیاز ہے، الغرض لوگوں کی بے نیازی کسی ایک چیز میں ہے جبکہ پیغمبرﷺ ان تمام چیزوں سے بے نیاز تھے۔ آپ کا قول و فعل اور حال اس بات پر گواہ ہے کہ آپ کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:

((لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادٍ مِّنْ ذَهَبٍ، أَحَبَّ أَنَّ لَهُ وَادِيًا آخَرَ، وَلَنْ يَّمْلَأَ فَاهُ إِلَّا التَّرَابُ، وَاللهُ يَتُوبُ عَلٰی مَنْ تَابَ))

’’اگر ابن آدم کے پاس سونے کی بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس ایک اور وادی بھی ہو، اس کا منہ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھرتی۔ اور اللہ تعالی اس کی طرف توجہ فرماتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف توجہ کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1048)

آپﷺ مال میں دلچسپی نہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے:

((تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدَّرْهَمِ، وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ))

’’درہم و دینار کا بندہ اور (قیمتی) چادر کا غلام ہلاک ہو گیا۔‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حدیث: 6435)

آپ لوگوں میں مال تقسیم کرتے اور اس میں سے ایک درہم بھی پاس نہ رکھتے۔ اونٹ، گائیں اور بکریاں اپنے صحابہ، پیروکاروں اور جن کی تالیف قلبی مقصود ہوتی، ان میں تقسیم کر دیتے اور ایک اونٹنی ، گائے اور بکری بھی اپنے گھر نہ لے جاتے۔ جب سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ بحرین سے مال لائے اور انصار کو ان کی آمد کا پتہ چلا تو وہ اکٹھے ہو گئے۔ آپ ﷺنے انھیں دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا:

’’میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کچھ لے کر آئے ہیں؟‘‘ انصار رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں خوشخبری ہو، اور اس چیز کے لیے تم پر امید ر ہو جس سے تمھیں خوشی ہوگی۔ لیکن اللہ کی قسم! میں تمھارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا۔ مجھے اگر خوف ہے تو اس بات کا کہ کچھ دنیا کے دروازے تم پر اس طرح کھول دیے جائیں گے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دیے گئے تھے، تو ایسا نہ ہو کہ تم بھی ان کی طرح ایک دوسرے سے جلنے لگو اور یہ جلنا تم کو بھی اسی طرح تباہ کر دے جیسا کہ پہلے لوگوں کو کیا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجزية والموادعة، حديث (3158)

آپ ﷺمحلات ، گھروں، گھنے باغات اور لہلہاتے باغیچوں سے بھی بے نیاز تھے۔ آپ مٹی کے ایک کمرے میں رہے۔ مٹی کے ایک کمرے میں وفات پائی اور مٹی ہی کے ایک کمرے میں آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کے بستر کا حال بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: رسول اکرم ﷺ کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری تھی۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6456)

ایک دن سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ ایک چٹائی پر لیتے ہیں۔ آپ کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کچھ نہ تھا۔ آپ کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ کے پاؤں کے قریب کیکر کی چھال کا چھوٹا سا گٹھا پڑا تھا اور آپ کے سر کے قریب کچھ کچے چمڑے لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے تو رو پڑا۔ آپ نے پوچھا: تمھیں کیا چیز رلا رہی ہے؟ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ کسریٰ اور قیصر دونوں کفر کے باوجود اس ناز و نعمت میں ہیں جس میں ہیں اور آپ تو اللہ کے رسول ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھیں پسند نہیں کہ ان کے لیے صرف دنیا ہو اور تمھارے لیے آخرت ہو؟‘‘ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 1479)

آپﷺ منصب اور عہدے سے بھی بے نیاز تھے۔ آپ نے کوئی وزارت کی نہ امارت اور نہ بادشاہت طلب کی بلکہ اللہ کا بندہ اور رسول بننا پسند کیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جبریل  علیہ السلام نبی کریمﷺ کے پاس تشریف فرما تھے۔ انھوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اچانک اوپر سے ایک فرشتہ نیچے اتر رہا تھا۔ جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ سے کہا: یہ فرشتہ جب سے پیدا ہوا، جب سے اب تک یہ کبھی زمین پر نہیں آیا۔ جب وہ آیا تو اس نے کہا: اے محمد ! آپ کے رب نے مجھے اس پیغام کے ساتھ آپ کی طرف بھیجا ہے کہ وہ آپ کو بادشاہ بنائے یا بندہ رسول ؟ جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ سے کہا: اے محمد! آپ اپنے رب کے لیے تواضع اختیار کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ رسول بنا چاہتا ہوں۔ (مسند احمد، حدیث: 7160)

آپ ﷺ جاہ و جلال سے بھی بے نیاز تھے۔ آپ نے اپنے ارد گرد نوکر چاکر رکھے نہ خدام۔ آپ کا کوئی سکیورٹی پروٹوکول تھا نہ جشن کا اہتمام اور نہ مصنوعی ٹھاٹ بات کی آپ کو پروا تھی۔ آپ دنیا کے ان فریبیوں سے بے نیاز ہو کر نہایت سادہ اور آسان زندگی گزارتے۔ آپﷺ فقیروں کی طرح کھاتے مسکینوں کی طرح بیٹھتے اور اپنے رب سے دعا کرتے ہوئے کہتے: ((اللّٰهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ)) ’’ اے اللہ  زندگی صرف آخرت کی زندگی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الجهاد والسير، حديث (2961)

آپﷺ اپنی مدح سرائی اور تعریف سننے سے بھی بے نیاز تھے۔ آپ ﷺ کو چکنی چپڑی باتیں ہرگز متاثر نہ کرتی تھیں بلکہ آپ مدح سرائی میں غلو کرنے اور حد سے بڑھنے سے منع کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے:

((لَا تُطْرُوْنِيْ، كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوْا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ))

’’میری شان اس طرح نہ بڑھاؤ جیسے عیسائیوں نے عیسی ابن مریم  علیہما السلام کی بڑھائی۔ میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، لہذا تم کہو: اللہ کے بندے اور اس کے رسول‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3445)

ان امام معصومﷺ سے بڑھ کر عظیم زہد کس کا ہو سکتا ہے جنھوں نے زہد کی تمام صورتوں کو جمع کیا ؟! آپﷺ کے بعد آنے والے تمام زاہدوں نے تو آپ کے زہد کا ایک قطرہ اور آپ کے اخلاق سے ایک ذرہ ہی پایا ہے کیونکہ آپ ﷺکا زہد تو عصمت الہی کے خلاف میں تھا اور ربانی نبوت سے جاری ہوا۔ آپ تو یقین کامل رکھتے تھے کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر اور پانی کے ایک قطرے کے برابر بھی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنی یہ (شہادت والی) انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کتنا پانی باہر آتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة وصفة نعيمها، حديث: 2858)

 ’’یقینًا آپ نے ربانیت والی زندگی گزاری۔ آپ کی زندگی رہبانیت یا فرعونیت والی نہ تھی۔ اور ربانیت والی زندگی یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق جو بآسانی میسر ہو، اسے استعمال کرنا اور فضول چیزوں کو چھوڑ دینا۔ آپ ﷺدعا کرتے تھے: ((اللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا))

’’اے اللہ! آل محمد کو ضرورت کے مطابق رزق عطا فرما۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حديث (6460)

قوتا سے مراد یہ ہے کہ جس سے قوت ملتی رہے اور زندگی کی رمق باقی رہے۔ اس سے زیادہ کی نہ تو آپ طلب کرتے اور نہ طمع رکھتے تھے۔ آپ کے پاس غلہ جمع کرنے کا کوئی نفلہ دان تھا نہ پھل جمع کرنے کا کوئی سٹور بلکہ حسب ضرورت جو کچھ ہوتا، لوگوں کو اس میں شریک کر لیتے۔ آپ نے کپڑوں کے لیے کوئی الماری بھی نہیں بنائی جس میں انواع و اقسام کے کپڑے ہوں بلکہ بغیر تکلف کے جو میسر ہوتا، وہ پہن لیتے۔

جہاں تک رہبانیت کا تعلق ہے تو وہ دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور پاکیزہ چیزوں کو خود پر  حرام کرنے کا نام ہے۔

اور فرعونیت ، شہوات اور فتنوں میں مبتلا کرنے والی دنیاوی چیزوں میں منہمک ہونے کا نام ہے۔

زہد کی ایک بیکار اور بے بنیاد صورت دنیا سے کنارہ کشی ہے جسے رسول اکرم  ﷺنے رد کیا ہے اور وہ ہے بے وقوف درویشوں کا زہد  جو زہد کے نام پر مال ضائع کرتے ہیں۔ وہ دراصل دنیا کے لالچی ہوتے ہیں اور اس کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور جب عاجز آجاتے ہیں تو زاہد بن بیٹھتے ہیں۔

جہاں تک ہمارے رسولﷺ کا تعلق ہے تو دنیا آپ کی طالب بن کر آئی اور ماری ماری آپ کے پیچھے پھرتی رہی۔ آپ نے ضرورت کے مطابق اس سے لیا اور فضول (زائد) کو نظر انداز کر کے فضائل کے حصول میں مشغول رہے۔ اسراف کے بجائے میانہ روی پر اکتفا کیا۔ کثرت رزق کے بجائے بقدر ضرورت رزق پسند کیا اور خزانے جمع کرنے پر طلب عزت کو ترجیح دی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

((وَزُهْدُكَ وَالدُّنْيَا إِلَيْكَ فَقِيرَةٌ

وجُودُكَ وَالْمَعْرُوفُ فِي النَّاسِ يُنكَرُ

وَجَاءَتْ لَكَ الدُّنْيَا تَمِيلُ وَتَصْطَفِي

وَأَنْتَ مِنَ الدُّنْيَا أَجَلُ وَأَكْبَرُ

’’اور آپ ﷺ دنیا سے بے نیاز ہیں جبکہ دنیا آپ کی محتاج ہے اور آپ اس وقت بھی سخاوت کرتے ہیں جب نیکی لوگوں میں معدوم ہو۔ اور دنیا امڈ امڈ کر آپ کے پاس آتی ہے جبکہ آپ دنیا کی طلب سے بہت بلند اور بڑے ہیں۔‘‘

آپ ﷺقناعت اور  بقدر ضرورت کو کافی سمجھنے کی وصیت کرتے اور فرماتے: ((اِرْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ))

’’اللہ نے آپ کی قسمت میں جو لکھا ہے، اس پر راضی رہیں تو سب لوگوں سے بڑھ کر غنی ہو جائیں گے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث (2305)

آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ أَصْبَحَ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا))

’’تم میں سے جس نے بھی اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث : 2346)

آپ ﷺنے مال ضائع کرنے سے منع کیا، اس کی حفاظت کا حکم دیا اور اسے خرچ کرنے میں میانہ روی اور اعتدال کا حکم دیا۔ زہد کے باوجود اگر اچھا اور پاکیزہ کھانا میسر ہوتا تو آپ ﷺ  اسے تناول فرماتے اور حکم دیتے : ((أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَ إِنَّ اللَهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ: ﴿يٰأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّيْتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا﴾

’’اے لوگو! بلا شبہ اللہ تعالی پاک ہے اور پاک مال کے سوا کوئی مال قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالی نے مومنوں کو بھی اس بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: اے پیغمبرانِ کرام! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1015)

آپ ﷺخوشبو اور کستوری پسند کرتے۔ خوبصورت لباس پہنتے اور فرماتے:

((إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ))

’’بلا شبہ اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث (91)

جو کچھ موجود ہوتا ، آپ ﷺ اسے ٹھکرانے سے گریز کرتے اور جو نہ ہوتا، اس کے لیے تکلف نہ کرتے۔ آپ کا زہد اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا۔ بلاشبہ دنیا آپ کو پیش کی گئی، اگر آپ اس میں سے خزانے اکٹھے کرنا چاہتے تو ا کر سکتے تھے۔

یہاں میں دنیا والوں کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہوں گا: نبی ﷺکے سوا مجھے کوئی عظیم شخص، سردار یا قائد دکھائیں جس کے پاس اونٹوں، گائیوں اور بکریوں سے بھری وادیاں اور ہر طرف سے خزانے آئیں اور وہ لوگوں میں سب کچھ تقسیم کر کے اس رات جو کی روٹی کھا کر چٹائی کے تکیے پر ٹیک لگا کر سو جائے ؟!

نبیﷺ کی طرف دیکھیں کہ آپ انتہائی محبت و شفقت اور پیار سے اپنا ہاتھ سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہما کے کندھے پر رکھتے ہیں اور ایک نہایت مؤثر اور الہامی جملے میں زہد کی ساری تفصیلات بیان کر دیتے ہیں : ((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ))

’’دنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی ہو یا راہ چلتا مسافر ‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حدیث: 6416)

اور اجنبی وہ ہوتا ہے جس کا رہائش، اہل و عیال اور مال سے کوئی واسطہ نہ ہو بلکہ وہ کوچ کرنے کا منتظر ہو کہ کب چلا جائے۔ یہی حال ایک سچے مومن کا ہونا چاہیے جسے آپ ﷺ نے ایک مختصر کلمے ’’غریب‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

گویا آپﷺ فرما رہے ہیں کہ اگرتم غریب (اجنبی) بن کر دنیا میں نہیں ہوسکتے تو ’’عابر سبیل‘‘ (راہ چلتا مسافر) بن کر رہو اور یہ غریب سے کم درجہ ہے۔ مسافر بھی اپنے پاس لاٹھی یا منزل تک پہنچنے کے لیے کچھ زاد راہ اور سفر خرچ رکھ لیتا ہے۔ اور یہی سچے اہل ایمان کا حال ہے جو دنیا کو صرف آخرت تک جانے کا راستہ بناتے ہیں اور نعمتوں والی جنتوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ سجھتے ہیں۔ وہ اپنے امام، نبی اور رہبر و رہنما محمد بن عبداللہﷺ  کی پیروی میں یہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ دنیا گزرگاہ ہے، جائے قرار نہیں۔

آپﷺ کے زہد کی دلیل یہ بھی ہے کہ آپ نے کوئی درہم و دینار، سونا چاندی، خزانہ اور محل بطور وراثت نہیں چھوڑا بلکہ وہ چیز بطور وراثت چھوڑی جو اس سے بہت اعلیٰ ، افضل اور عظیم الشان ہے۔ آپ ﷺنے ہمیشہ رہنے والی رسالت اور نور اسلام بطور وراثت چھوڑا۔ جہاں تک دنیا کے مال و متاع کا تعلق ہے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ نے اس کے بارے میں فرمایا: ((لَا نُورَتُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ))

’’ہماری وراثت نہیں ہوتی۔ ہم جو چھوڑیں، وہ صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حديث: 3094)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم وفات پاگئے اور میرے طاقچے میں کسی جگر رکھنے والے (ذی روح) کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جو کے سوا کچھ نہ تھا۔ (صحیح البخاري، الرقاق حديث (6451)

سیدنا عمرو بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نہ درہم چھوڑے تھے نہ دینار، نہ کوئی غلام نہ باندی، سوائے اس کے کہ آپ کا ایک سفید خچر تھا جس پر آپ میں سوار ہوا کرتے تھے، اور آپ کے ہتھیار اور کچھ وہ زمین تھی جو آپ ﷺنے اپنی زندگی میں مجاہدوں اور مسافروں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ (صحیح البخاري المغازي، حديث : 4461)

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس حقیقت پر ضرور غور کریں گے کہ نبی ﷺ  کی وفات کے بعد اللہ تعالی نے آپ کے پیروکاروں پر دنیا کے دروازے کھول دیے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک سو سے زیادہ اسلامی ریاستیں وجود میں آچکی ہیں۔ چودہ صدیوں سے مسلمان مال و دولت کے خزانے پا رہے ہیں۔ سونا چاندی استعمال کر رہے ہیں۔ گھروں اور محلات کے مالک ہیں۔ باغات اور نہروں سے فائدے اٹھا رہے ہیں اور اس سب بادشاہت، بزرگی، عزت اور شرف کا کریڈٹ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اس امت کے امام و پیشوا اور معلم محمد مصطفیﷺ کو جاتا ہے جو ان سب سے بڑھ کر زاہد، سب سے کم مال و متاع رکھنے والے، سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔ آپ ﷺ پر ہمیشہ اللہ تعالی کی رحمتوں اور سلامتی کا نزول ہو۔

……………