محمدﷺ بحیثیت ذکر کرنے والے

نبی ﷺ  کی پاکیزہ خوبیوں اور خوشبودار سیرت کا ہر پہلو اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہے آپ کے اقوال و افعال ذکر الہی کے نشان ہیں۔ جس نے رسول اللہ ﷺ  کو دیکھا، اسے اللہ تعالی ضرور یاد آیا کیونکہ آپ اللہ کے رسول، حبیب اور خلیل ہیں۔

آپ ﷺقیامت تک تمام ذکر کرنے والوں سے افضل، رب تعالی کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے اور اپنے مولا کو سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیں۔ آپ کا ذکر معرفت ، محبت اور اطاعت و انابت کا آئینہ دار تھا۔ آپ ہی نے ذکر کی تعلیم دی۔ آپ ہی پر ذکر نازل ہوا۔ آپ ہی نے اس پر سب سے پہلے عمل کیا اور اس کی تبلیغ کی۔ ذکر باری تعالی میں آپ کو بلند مقام اور اونچی شان حاصل ہے۔

  آپ ﷺ نے ذکر الہی کے طریقے سکھائے۔ امت کو اللہ کا ذکر کرنے کے گر بتائے کہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کیسے اس کی تسبیح، تحمید ، عبیر اور تہلیل کریں اور کیسے اس سے دعا کریں۔ قیامت تک ذکر کرنے والے ہر شخص کے امام و رہبر اور ہادی آپ  ﷺ ہی ہیں۔

آپﷺ نے دل و جان سے رب کا ذکر کیا اور یہ سب سے پاکیز و دل تھا جس سے باری تعالیٰ کی تقدیس کے چشمے پھوٹے۔ اور یہ سب سے صاف و شفاف روح تھی جس سے مبارک تسبیحات ادا ہو ئیں۔ آپ نے اپنی زبان سے اپنے مولا کا ذکر کیا۔ رب العزت کی تسبیح کرنے والی یہ سب سے زیادہ پاکیزہ اور سچی زبان تھی۔

میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں یہاں کیا کہوں؟ کس قلم سے لکھوں؟ کس ہاتھ سے تحریر کروں؟ اور کسی سوچ اور فکر سے الفاظ رقم کروں ؟! جب میں نے کتاب وسنت کے نصوص کا مطالعہ کیا اور دن رات اور سفر و حضر میں آپ ﷺ کی دعاؤں اور اذکار کا جائزہ لیا تو ان کی عظمت سے دم بخود رہ گیا اور الفاظ کا رہا ٹوٹنے لگا۔

آپ ﷺہی نے اپنی امت کو اللہ کے ذکر کا طریقہ سکھایا۔ اسم اعظم (لفظ اللہ ) کی محبت ان کے دلوں میں ڈالی تو یہ منہ سے ادا ہونے والا سب سے پاکیز ہ لفظ ، زبانوں پر جاری ہونے والا سب سے مقدس کلمہ اور دلوں کے تار ہلانے والی سب سے عظیم عبارت بن گئی۔

آپ ﷺکی نماز، روزے، صدقہ، حج ، حلاوت، خاموشی، بولنا، ظاہر و باطن، اشاره و لفظ، اٹهنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، خطبہ و وعظ ، امر و نہی اور زندگی کا ہر امر اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مبنی تھا۔   آپ ﷺ نے جو لفظ بولے، جو جملہ ارشاد فرمایا اور جوحرف زبان سے ادا کیا، وہ صرف اپنے مولا کی پاکی ، اپنے خالق کی تسبیح اور اپنے انعام کرنے والے کی حمد، بڑائی اور تعظیم کے لیے تھا یا اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت، یا دعوت توحید اور دین کی راہنمائی تھا یا پھر آپ نے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور جہنم کی آگ سے خبر دار کیا یا جنت کی ترغیب دی۔

یوں آپ ﷺ کی ہر بات اللہ کا ذکر اور ہر قول اپنے مولا کی تسبیح بن گیا۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 373)

آپﷺ کھڑے، بیٹے اور لیٹے ہر وقت اور ہر جگہ ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

ذَكَرَ الْإِلٰهَ فَصَدَّقَتْهُ دُمُوعُهُ

وَقِيَامُهُ وَسُجُودُهُ وَرُكُوعُهُ

أَنْفَاسُهُ ذِكْرٌ وَّ هَمْسُ أَنِينِهِ

تَهْتَزُ مِنْ خَوْفِ الْعِظِيْمِ ضُلُوعُهُ

’’آپ ﷺ نے الٰہ العالمین کا ذکر کیا تو اس کی تصدیق آپ کے آنسوؤں، قیام اور رکوع و سجود نے کی۔ آپ ﷺ کی سانسیں اور آہستگی سے کراہنا بھی ذکر سے عبارت تھا اور اس ذات عظیم کے خوف سے آپ کی پسلیاں کا نپتی تھیں۔“

آپ ﷺکے ذکر کرنے کی کئی صورتیں تھیں جن کی وضاحت ہم آئندہ صفحات میں کرتے ہیں:

آپ ﷺ کی تسبیح

اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہر اس وصف سے پاک قرار دینا جو اس کی اونچی شان کے لائق نہیں ، تسبیح کہلاتا ہے۔ یوں سبحان اللہ کے معنی ہوئے: میں اللہ تعالی کو پاک اور بری قرار دیتا ہوں ہر شریک، ساتھی، بیوی، اولاد یا کسی بھی ایسے وصف سے جو اس کی مقدس ذات کے شایان شان نہیں۔ آپ ﷺ  نے مختلف الفاظ سے اپنے رب کی تسبیح کی ہے، جیسے: سُبْحَانَ اللهِ، سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، ((سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اور سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ۔))

 ان کے علاوہ بھی تسبیح کے کئی الفاظ مروی ہیں۔

جہاں تک تسبیح کے اجر کا تعلق ہے، آپﷺ نے ہمیں اس کی خوشخبری دی ہے اور بہت سی احادیث میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جو شخص اس اجر و ثواب کا مطالعہ کرتا ہے، اس کی قوت اور ہمت مزید بڑھ جاتی ہے اور وہ کثرت سے تسبیح کرتا ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی للہ تعالی عنہ سے مروی ہے: ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا:

’’کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ ہر روز ایک ہزار نیکیاں کمائے ؟‘‘ آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے پوچھا: ہم میں سے کوئی شخص ایک ہزار نیکیاں کس طرح کما سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”وہ سو بار سبحان اللہ کہے۔ اس کے لیے ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کے ایک ہزار گناہ مٹا دیے جائیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2698)

ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ دن میں سو مرتبہ کہا، اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6405)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ کہا، اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگا دیا جائے گا ‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3464)

اور آپ ﷺ  نے فرمایا :

((كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ، حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ، سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ))

’’دو کلمے زبان پر ہلکے، ترازو میں وزنی اور رحمن کو بہت پیارے ہیں، وہ ہیں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ العَظِيم‘‘ (صحيح البخاري، الأيمان والنذور، حديث: 6682)

سیدہ جویریہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد صبح سویرے ان کے ہاں سے باہر تشریف لے گئے۔ اس وقت وہ اپنی نماز پڑھنے والی جگہ موجود تھیں۔ پھر دن چڑھنے کے بعد  آپ ﷺ ان کے پاس واپس تشریف لائے تو وہ اسی طرح وہاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم اب تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی ہو جس پر میں تمھیں چھوڑ کر گیا تھا؟ ‘‘ انھوں نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی کریم نے فرمایا: ’’تمھارے (ہاں سے جانے کے) بعد میں نے چار کلے تین بار کہے ہیں، اگر ان کو ان کے ساتھ تولا جائے تو جو تم نے آج کے دن اب تک کہا ہے تو یہ ان سے وزن میں بڑھ جائیں:

((سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ))

’’ پاکیزگی ہے اللہ کی اور اس کی تعریف کے ساتھ جتنی اس کی مخلوق کی گنتی ہے اور جتنی اس کو پسند ہے اور جتنا اس کے عرش کا وزن ہے اور جتنی اس کے کلمات کی سیاہی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث (2726)

سبحان اللہ، باقی چاروں کلمات سے پہلے اور مقدم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آرائش سے پہلے صفائی ضروری ہے اور مدح سے پہلے نقائص سے پاک قرار دینا ضروری ہے، اس لیے سبحان اللہ کو مقدم کیا گیا ہے اور اس کے بعد حمد کے کلمات لائے گئے ہیں تا کہ نئی اور اثبات دونوں ایک ساتھ آجائیں۔ اللہ تعالی سے ہر نقص کی نفی ہو اور ہر کمال اس کے لیے ثابت کیا جائے۔ اس لیے تسبیح و تحمید کو سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہ کے الفاظ میں ایک ساتھ ذکر کیا گیا اور کبھی سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ کہا گیا ہے۔

کتاب وسنت میں سب سے زیادہ بیان ہونے والا کلمہ تسبیح ہے جو ماضی ، مضارع ، امر اور مصدر کے صیغوں کے ساتھ آیا ہے۔ ذکر کی جتنی اقسام تسبیح کے صیغے سے آئی ہیں، کسی دوسرے لفظ سے اتنی نہیں ہیں بلکہ آپﷺ نے خبر دی ہے کہ پوری کا ئنات اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ ؕ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۝﴾

’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو (مخلوق) ان میں ہے، اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ بے شک وہ ہمیشہ سے نہایت حوصلے والا، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘ (بنی اسرآئیل 44:17)

سو پوری کائنات اپنے بنانے والے اور خالق کی تسبیح کرتی ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: سب سے افضل کلام کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’جو اللہ نے اپنے فرشتوں یا اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے، وہ ہے: ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2731)

آپﷺ نے ہمیں خبر دی کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۝﴾

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ کی تسبیح کرتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، اور (فضا میں) پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی۔ ہر ایک نے  یقینًا اپنی نماز (عبادت) اور اپنی تسبیح جان لی ہے۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘ (النور 41:24)

کائنات کی ہر مخلوق کی ایک تسبیح ہے جو اس کے ساتھ خاص ہے جسے صرف اللہ جل شانہ جانتا ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تمھیں سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہ کی تاکید کرتا ہوں کیونکہ یہ تمام مخلوق کی نماز ہے اور  انھی کلمات کی برکت سے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔

﴿وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۝﴾

’’اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو، لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے، بے شک وہ ہمیشہ سے نہایت حوصلے والا، بے حد بخشنے والا ہے۔‘‘ (بنیٓ اسر آئیل 44:17، وصحيح الترغيب، حدیث: 1543)

 فرشتوں کا سب سے عظیم عمل بھی یہی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتَرُوْنَ﴾

’’وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں، سست نہیں پڑتے۔‘‘ (الأنبياء 20:21)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ تَرَی الْمَلٰٓىِٕكَةَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۚ﴾

’’اور آپ فرشتوں کو عرش کے ارد گرد حلقہ بنائے دیکھیں گے، جبکہ وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کر رہے ہوں گے۔‘‘ (الزمر 75:39)

چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی تسبیح کو ان کے سب سے عظیم اور بڑے عمل اور اطاعت کے طور پر ذکر فرمایا۔ اور انھوں نے بھی اپنے سب سے عظیم عمل کا وسیلہ اختیار کیا اور سب سے اعلیٰ اطاعت کو اللہ تعالی کے حضور پیش کیا تو تسبیح کا ذکر کیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ﴾

’’اور (یاد کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا : بے شک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انھوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا ؟ جبکہ ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔‘‘ (البقرة 30:2)

  آپ ﷺ نے ہمیں بتایا کہ رب العالمین نے بے شمار مقامات پر اپنی تسبیح و تقدیس کی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

﴿سُبْحَنَ اللهِ وَتَعْالٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾

’’اللہ پاک ہے اور ان سے بہت بلند و برتر ہے جنھیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘ (القصص (68:28)

جہاں اللہ تعالی کے ساتھی یا شریک کا ذکر ہو یا اللہ تعالی کی طرف بیوی یا اولاد کی نسبت کی گئی ہو یا کسی ایسے وصف کا ذکر ہو جو اس کے شایان شان نہیں تو اس وقت اللہ تعالی کی تنزیہ اور تسبیح کی جائے گی۔ گویا  تسبیح کرنے والا کہتا ہے کہ اے میرے رب ! میں تجھے ان سب چیزوں سے بلند اور پاک قرار دیتا ہوں اور تیری تمام صفات کمال و جمال اور جلال کا اثبات کرتا ہوں۔

تسبیح کے مقامات

رسول اللہ ﷺجب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے ، پھر یہ دعا پڑھتے :

((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ))

’’اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے۔ ہم تیری حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ تیرا نام با برکت اور تیری ذات بلند و بالا ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة ، حديث:775)

آپ کہ جب کوئی ایسی آیت تلاوت کرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو آپ تسبیح کرتے ، جیسے  سَبِّحْ، سَبَّحَ يا یُسَبِّحُ وغیرہ کے الفاظ والی آیات۔ اور آپ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّي العَظِیمِ اور سجدوں میں سُبْحَانَ رَبِّي الأعلٰى اور نمازوں کے بعد تینتیس مرتبہ سُبْحَانَ الله کہتے۔

آپﷺ رکوع و سجود میں یہ دعا بھی پڑھتے : ((سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ))

’’نہایت پاک ہے، مقدس ہے فرشتوں اور روح (جبریل ) کا رب ‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:487)

غور کریں اس دعا میں کس طرح آپ ﷺ نے تنزیہ، تسبیح اور مدح کو ایک ساتھ جمع کیا ہے تا کہ تسبیح کامل ہو، چنانچہ اللہ تعالی کی پاکی اور تقدیس بیان کی اور ہر طرح کی تقدیس سے اسے متصف قرار دیا جس کا مطلب طہارت، عظمت، ربوبیت اور قدرت و تدبیر کی انتہا ہے۔

ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا فرمان ہے:

((سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَكُوْتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ))

’’پاک ہے عظیم الشان غلبے اور بڑی بادشاہت اور بے انتہا بڑائی اور عظمت والا رب‘‘ (سنن النسائي التطبيق، حدیث:1049)

چنانچہ جو چیز اللہ تعالی کے شایانِ شان نہیں، اس سے اسے پاک قرار دیا اور اس کے لیے غلبہ، قوت اور بادشاہت کو ثابت کیا کہ وہی بادشاہت، عزت، کبریائی، بزرگی اور عظمت کے لائق ہے۔

آپ ﷺمجلس کے اختتام پر بھی تسبیح کی ترغیب دیتے اور فرماتے:

’’جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں بہت زیادہ لغو اور بیہودہ باتیں کر بیٹھے اور وہ اپنی اس مجلس سے اٹھ کر جانے سے پہلے پڑھ لے : ((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ‘‘

’’ پاک ہے تو اے اللہ ! اور سب تعریف تیرے لیے ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ تو اس کی اس مجلس میں ہونے والی لغزشیں معاف کر دی جاتی ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث:3433)

جب سینے میں گھٹن محسوس ہو غم کے سائے منڈلا رہے ہوں اور کرب و مصیبت ڈیرے ڈال لے تو اس موقع پر اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ  کو  تسبیح کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ۝۹۷

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ۝﴾

’’اور بلا شبہ  یقینًا ہم جانتے ہیں کہ بے شک جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔ بس آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘ (الحجر 97:15، 98)

ایک مقام پر فرمایا:

﴿فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِۚ۝وَ مِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَ اَدْبَارَ السُّجُوْدِ۝﴾

’’پس (اے نبی!) جو وہ کہتے ہیں، آپ اس پر صبر کریں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے۔ اور رات کے کچھ حصے میں پھر آپ اس کی تسبیح کریں، اور سجود (نمازوں) کے بعد بھی۔‘‘ (قٓ 50: 39، 40)

چنانچہ غم و پریشانی اور دکھ درد ختم کرنے کی سب سے نفع بخش اور مؤثر دو تسبیح ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی یونس  علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَۙ۝ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَۚ۝﴾

’’ پھر اگر (یہ بات نہ ہوتی کہ بے شک وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا، تو وہ لوگوں کے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے کے دن (روز قیامت) تک اس (مچھلی) کے پیٹ میں رہتا۔‘‘ (الصّٰٓفّٰت37: 143، 144)

 تسبیح کی برکت سے اللہ تعالی نے انھیں نجات دی اور بچایا اور تسبیح کرنے کی وجہ ہی سے وہ ان سے راضی ہوا۔

وہ آسانیوں میں اللہ تعالی کی تسبیح  کرنے والے تھے تو مشکلات میں اللہ تعالی نے ان کی حفاظت کی۔ اور جب ان پر مشکل پڑی اور انھوں نے اپنے رب کی تسبیح کی تو اس نے ان کو نجات دی اور انھیں ہلاک ہونے سے بچالیا۔

سیدنا جابر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم کوئی چڑھائی چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب بلندی سے نیچے اترتے تو سبحان اللہ کہتے۔ (صحیح البخاري الجهاد والسير، حديث (2993)

جب آپ ﷺ رفعت و بلندی کی طرف جاتے تو اللہ تعالی کے علو و بلندی کا تذکرہ کرتے جو اللہ تعالی کی بزرگی اور عظمت شان کے مناسب حال ہے تا کہ بلندی کی طرف جانے والا تواضع کا اظہار کرے۔ اور جب آپ بلندی سے اترتے اور پستی اور نشیب کا تصور ذہن میں آتا تو اللہ تعالیٰ کو اس سے پاک قرار دیتے اور اس کے لیے رفعت و بزرگی کا اثبات کرتے۔

جب آپ ﷺ کی شان کے برعکس کسی چیز کا ذکر ہوتو اللہ تعالی نے جب بھی اپنے  نبی ﷺ کو تسبیح  کرنے کا حکم دیا جیسا کہ مشرکوں نے جب یہ مطالبہ کیا کہ نبی کسی فرشتے کو ہونا چاہیے جو اللہ تعالی کے پاس سے آئے نہ کہ کسی بشر کو، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُل سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾

’’کہیے: میرا رب پاک ہے۔ میں تو بس ایک بشر رسول ہوں۔‘‘ (بنی اسرآئیل 93:17)

آپ ﷺتعجب اور خوشی کے موقع پر بھی سبحان اللہ کہتے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ اکبر کہتے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں بیان کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ جب بادلوں کی کڑک سنتے تو فرماتے: ((سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ))

’’پاک ہے وہ ذات جس کی حمد کے ساتھ رعد اس کی تسبیح کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے ڈر سے (تسبیح کرتے ہیں۔)‘‘ (صحيح الأدب المفرد، حديث: 556)

اور جب آپ ﷺ کوئی بہت بڑی نشانی دیکھتے تو بھی سبحان اللہ کہتے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((سُبْحَانَ اللهِ، مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ؟ وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ، أَيُقِظُوْا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ، فَرُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ))

’’سبحان اللہ! آج کی رات کسی قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرے والیوں کو جگاؤ کیونکہ بہت سی عورتیں جو دنیا میں (باریک) کپڑے پہنے والی ہیں، وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔‘‘ (صحيح البخاري، العلم، حديث:115)

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر تسبیح کا ذکر ہے، مثلاً : اسراء و معراج کے معجزے کے وقت تسبیح کا ذکر ہے کیونکہ وہ عقلوں کو حیرت میں ڈال دینے والا معجزہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا﴾

’’پاک ہے وہ (اللہ ) جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔‘‘

(بني إسرآئيل 1:17)

جہاں اللہ تعالی سے ان اوصاف کی نفی کی گئی ہے جو اس کے شایانِ شان نہیں، وہاں بھی تسبیح ہے، جیسے فرمایا:

﴿سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ﴾

’’آپ کا رب عزت کا مالک، ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (مشرک) بیان کرتے ہیں۔‘‘ (الصّٰفّٰت 130:37)

 آپ ﷺ جب کا ئنات پر غور و فکر کرتے اور رب ذوالجلال کی انوکھی تخلیق اور جلال و قدرت دیکھتے تو اللہ تعالی کی تسبیح کے لیے درج ذیل آیات پڑھتے : ﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝﴾

’’(وہ کہتے ہیں 🙂 اے ہمارے رب ! تو نے یہ سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ تو پاک ہے۔ بس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ (آل عمران 191:3)

جب آپ کسی چو پائے پر سوار ہوتے تو بھی اللہ کی تسبیح کرتے اور پڑھتے :

﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ۝﴾

’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس (سواری) کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے، حالانکہ ہم اسے قابو میں نہ رکھ سکتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1342)

جب آپﷺ وتر سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے تین مرتبہ فرماتے:

((سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ))

’’پاک ہے اللہ جو بادشاہ ہے، پاکیزگی والا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1430)

 آپ صبح و شام بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ۝﴾

’’لہٰذا تم اللہ کی  تسبیح (پاکی بیان ) کرو جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو۔‘‘ (الروم 17:30)

بظاہر یہ لگتا ہے کہ دن کے آغاز اور رات کی ابتدا کے وقت تسبیح کا مقصد باری تعالی کے جلال کی عظمت اور عمدہ کاریگری کا اعتراف کرنا ہے کہ وہ اندھیرے ختم کر کے روشنی لاتا ہے اور پھر روشنی ختم کر کے اندھیرے لاتا ہے اور یہ ایسا یا حیران کن اور عجیب منظر ہے جو خالق کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ آپ ﷺ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ آپ نے صبح و شام سو سو مرتبہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہ پڑھنے اور سونے سے پہلے تینتیس مرتبہ سُبحان الله پڑھنے کی راہنمائی کی ہے۔ سوتے وقت کے دیگر اذکار اس کے علاوہ ہیں۔

جب تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوتو وہ تمھارے گناہ مٹا دیتا ہے اور تمھیں عیوب سے پاک کر دیتا ہے کیونکہ تم اس کی تسبیح کے ذریعے سے اسے نقائص سے پاک قرار دیتے ہو۔ ہر قسم کے عیوب کی اس سے نفی کرتے ہو۔ عمل کی جزاء اس کے مناسب ہوتی ہے۔ جیسا کہ تم اس کی تسبیح کرتے ہو، وہ تمھاری ذات کو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے۔ اٹل جنت، ہمیشہ کے گھر بہشت میں بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح ترک نہیں کریں گے، حالانکہ وہاں انسان اعمال کا مکلف نہ ہو گا۔ اور ذکر کرنے والوں کا اس کے سوا کوئی شرف نہ ہو تو بھی یہ ایک شرف ہی کافی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ﴾ ’’اس (جنت ) میں ان کی پکار ہو گی : اے اللہ! تو پاک ہے۔‘‘ (یونس 10:10)

آپ ﷺ کا حمد کرنا

اَلْحَمْدُ لِله کے معنی ہیں: میں اللہ تعالی کی عنایات پر اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس کے احسانات و انعامات پر اس کا شکر بجا لاتا ہوں۔ آپﷺ نے ہمیں محمد کے کئی کلمات سکھاتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ، الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الْحَمْدُ لِلهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُّبَارَكًا فِيْهِ، يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَ عَظِيْمِ سُلْطَانِكَ اور اَلْحَمْدُ لِلهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ، اَلْحَمْدُ لِلهِ مِلْءَ مَا خَلَقَ، الْحَمْدُ لِلهِ عَدَدَ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ عَدَدَ مَا أَحْصَى كِتَابُهُ وَالْحَمْدُ لِلهِ عَدَدَ كُلِّ شَيْءٍ، وَالْحَمْدُ لِلهِ مِلْءَ كُلِّ شَيْءٍ))

 ان کے علاوہ حمد کے کئی ایک الفاظ نبیٔ اکرم ﷺ سے منقول ہیں۔

 آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کے بے شمار فضائل اور اجر و ثواب بتایا ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ((الْحَمْدُ لِلهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ)) ’’الحمد للہ میزان کو بھر دیتا ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الطهارة، حدیث: 223)

ایک اور روایت میں آپﷺ نے فرمایا: ((أَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلهِ))

’’سب سے بہترین دعا الحمد اللہ ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3383)

نبیﷺ نے اللہ کی رضا کو بندے کی حمد وثنا کے ساتھ جوڑا ہے، آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ لَيَرْضٰى عَنِ الْعَبْدِ أَنْ يَّأْكُل الأَكلَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا، أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا))

’’اللہ تعالی اس بات پر اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے کہ وہ کھانا کھائے اور اس پر اللہ کی حمد کرے یا پینے کی کوئی چیز (پانی، دودھ وغیرہ) ہے اور اس پر اللہ کی حمد کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2734)

حمد کا راز یہ ہے کہ وہ دو میں سے ایک کام پر ہوتی ہے

حمد یا تو اللہ تعالیٰ کے جلال، اسماء وصفات، عظمت اور علوشان کے ذکر پر ہوگی یا اس کی لازوال نعمتوں اور جلیل القدر آیات کے ذکر پر، چنانچہ وہ اپنے احسانات کی بنا پر بھی قابل تعریف ہے اور اپنی عظمت و بلندی کی وجہ سے بھی لائق حمد ہے۔

قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان ہوئی ہے۔ وحی کے نازل کرنے پر جو جہان والوں کے لیے رحمت ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کی تعریف کی گئی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے سورۂ فاتحہ کے آغاز میں فرمایا:

﴿اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعُلَمِينَ﴾

’’سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘ (الفاتحة 2:1)

آسمانوں اور زمین کی بغیر کسی سابقہ نمونے کے تخلیق پر اس کی حمد و تعریف کی گئی ہے، چنانچہ فرمایا:

﴿اَلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾

’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ (فاطر 1:35)

قرآن مجید کی برکت پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی گئی ہے، چنانچہ فرمایا:

﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ۝﴾

’’ساری حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔“ (الكهف1:18)

اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی گئی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے کشتیاں مسخر کر دیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی نوح  علیہ السلام سے فرمایا:

﴿ فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَی الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۝﴾

’’ پھر جب تو اور تیرے ساتھی اطمینان سے کشتی پر سوار ہو جائیں تو کہہ: تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی۔‘‘ (المؤمنون 28:23)

اللہ تعالی نے اپنے نبی داؤد علیہ السلام کی حمد کا ذکر کیا کہ انھوں نے اس علم اور فضیلت پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی جو اس نے انھیں دیگر لوگوں سے بڑھ کر عطا کی ، ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝﴾

’’ اور بلاشبہ  یقینًا ہم نے داؤد  علیہ السلام ان کو (خاص) علم دیا تھا۔ اور ان دونوں نے کہا: تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔‘‘ (النمل 15:27)

نبیﷺ کے حمد کے مقامات

رسول اکرمﷺ نے ہمارے لیے مسنون ٹھہرایا ہے کہ کھانے پینے سے فارغ ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد کی جائے کیونکہ یہ نعمت ہے جس پر اللہ عز وجل کا شکر کیا جانا ضروری ہے۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب کھانے سے فارغ ہوتے یا جب اپنا دستر خوان اٹھاتے تو یہ دعا پڑھتے :

((اَلْحَمْدُ لِلهِ حَمْدًا كَثِيرًْا طَيِّبًا مُّبَارَكًا فِيْهِ ، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنَى عَنْهُ رَبَّنَا ))

’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، بہت زیادہ، پاکیزہ، برکت والی۔ نہ یہ کھانا کفایت کیا گیا (کہ مزید کی ضرورت نہ رہے ) اور نہ اسے وداع کیا گیا ہے (کہ آخری کھانا سمجھا جائے۔) اور اے ہمارے رب !  نہ ہمیں اس سے بے نیازی ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، حديث: 5458)

نیند سے بیدار ہو کر بھی اللہ تعالی کی حمد کرنا مسنون ہے کیونکہ سونے والے شخص کی طرف روح کا دوبارہ لوٹنا اللہ تعالی کی ان جلیل القدر نعمتوں میں سے ہے جن پر انعام کرنے والے کی تعریف ضروری ہے۔ اور نئے سرے سے زندگی ملنا اللہ تعالی کا احسان اور انعام ہے جس پر شکر کرنا لازم ہے۔

سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہﷺ  جب بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے : ((بِاسْمِكَ اَللّٰهُمَّ أَمُوتُ وَأَحْيَا))

’’اے اللہ! میں تیرے نام کے ساتھ سوتا اور بیدار ہوتا ہوں۔‘‘

 اور جس وقت بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُور)) ’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت دینے کے بعد زندہ کیا اور اس کی طرف اٹھ کر جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6314)

جب رات کو کوئی شخص اچانک نیند سے بیدار ہو تو اسے بھی اپنے رب کی حمد کرنی چاہیے۔ سیدنا عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  ﷺ نے فرمایا:

جو شخص رات کو اٹھے اور کہے: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَ سُبْحَانَ اللهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلا بالله))

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے۔ اور تمام تعریفات اس کی ہیں اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ نیکی کرنے کی اور برائی سے بچنے کی طاقت اللہ تعالی ہی کی توفیق سے ہے۔‘‘ پھر یہ دعا پڑھے: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي))

’’اے اللہ! مجھے معاف فرما دے۔‘‘ یا کوئی اور دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی نماز بھی قبول ہوتی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1154)

آپﷺ لباس زیب تن کرتے وقت بھی عطا کرنے والے کی حمد کرتے کیونکہ اسی جل شانہ نے اعضاء چھپانے اور خوبصورتی کے لیے یہ لباس مہیا کیا اور آسانی سے نوازا۔ سیدنا معاذ بن انس  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

’’جس نے کپڑا پہنا اور کہا: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي كَسَانِي هٰذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِّنْي))

وَلَا قُوَّةٍ))

’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور میری طاقت وقوت کے بغیر مجھے یہ عنایت فرمایا،‘‘

 تو اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حديث 4023)

  آپ ﷺ دیگر اذکار کے ساتھ ہر نماز کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے کیونکہ اطاعت کے کاموں کی توفیق ملنا بہت بڑا انعام الہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جس نے ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سُبحَانَ الله تینتیس دفعہ الْحَمْدُ لِلهِ اور تینتیس بار اللهُ أَكْبَرُ کہا، یہ ننانوے ہو گئے اور سو پورا کرنے کے لیے لَا إِلٰهَ إلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ کہا، اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاة، حدیث: 597)

آپ ﷺ چھینک آنے پر بھی اپنے رب کی حمد کرتے تھے کیونکہ اطباء کے بقول چھینک عافیت کی علامت ہے، اور اس نعمت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کا حکم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ الحَمْدُ لِله)) ’’جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ کہے: اَلْحَمْدُ لِلهِ‘‘ (صحيح البخاري الأدب، حديث: 6224)

کسی بیماری، آزمائش اور تکلیف میں مبتلا شخص کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا آپ ﷺ نے مسنون قرار دیا تاکہ مومن اس بات پر اللہ تعالی کا شکر کرے کہ اس نے اسے اس آزمائش سے محفوظ رکھا۔ آزمائش میں مبتلا شخص اس کی یہ دعا نہ سنے تو بہتر ہے۔ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص نے کسی مبتلائے مصیبت کو دیکھا اور کہا: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ وَفَضْلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مُمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلا))

 ’’شکر اس اللہ کا جس نے مجھے اس دکھ سے عافیت بخشی جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر نمایاں فضیلت بخشی‘‘ تو اسے وہ دکھ نہیں پہنچے گا۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حدیث: 3432)

جب بندہ اللہ تعالی کی کوئی نعمت یاد کرے یا دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے رب کی حمد کرے۔ یہ کامیاب ہونے والے بندوں کا طریقہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَی الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ۝﴾

’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسمعیل اور اسحٰق عطا فرمائے۔ بے شک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے۔‘‘ (ابراهیم 39:14)

ایک مقام پر فرمایا: ﴿ وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠۝﴾

’’ اور کہہ دیجیے: تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جلد ہی تمھیں اپنی نشانیاں دکھائے گا، تو تم انھیں پہچان لو گے۔ اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو آپ کا رب اس سے ہرگز غافل نہیں۔ ‘‘(النمل 93:27)

اور فرمایا:

﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ؕ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝﴾

’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ ضرور ہی کہیں گے: اللہ نے۔ آپ کہہ دیجیے: سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔‘‘ (لقمن 25:31)

اور ایک مقام پر اللہ جل شانہ نے فرمایا:

﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ۝﴾

’’تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بتایا، پھر جن لوگوں نے کفر کیا، وہ اپنے رب کے ساتھ (اوروں کو ) برابر ٹھہراتے ہیں۔‘‘ (الأنعام1:6)

آپ ﷺ عید کے موقع پر بھی بکثرت اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے اور فرماتے:

((اَللهُ اَكْبَرُ كَبِيْرًا وَّالْحَمْدُ لِلهِ كَثِيْرًا وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا))

’’اللہ سب سے بڑا ہے بہت بڑا۔ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بہت زیادہ۔ اور میں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہوں۔‘‘

دیکھیں کسی طرح آپ ﷺنے انعام کرنے والے پاک رب کی بے شمار نعمتوں پر بکثرت حمد کی۔

اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ اور عالی شان صفات پر غور و فکر اور تدبر کے وقت بھی حمد کا ذکر آیا ہے کیونکہ حمد کا یہ سب سے عظیم مقام ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝﴾

’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں۔ وہ جو چاہے (اپنی) خلوق میں زیادہ کرتا ہے۔ بلاشبہ اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ (فاطر 1:35)

اور ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ هُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝﴾

’’وہ زندہ ہے۔ اس کے سوا کوئی برحق معبود نہیں، لہٰذا  تم اس کے لیے بندگی کو خالص کرتے ہوئے اس کو پکارو۔ سب تعریفیں اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہیں۔‘‘ (المؤمن 65:40)

آپ ﷺ اپنے خطبے کا آغاز اللہ تعالی کی تعریف سے کرتے۔ سُبْحَانَ اللهِ، اللهُ أَكْبَرُ، یا  لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ سے نہیں کرتے تھے کیونکہ علم اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا اللہ تعالی کا احسان ہے۔

لہٰذا اس طرح کی دینی مجلسوں اور فضیلت والی جگہوں پر اللہ تعالی کی کماحقہ حمد وثنا کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حمد کا ایک عظیم موقع اور منظر وہ ہوگا جب لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالی ہمیں اس کا حقدار بنائے۔ اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ جب اس کے اولیاء جنت میں داخل ہوں گے تو اطاعت کی توفیق ملنے، نعتیں پانے ، گناہوں کی معافی ، عزت و شرف والے گھر میں داخل ہونے کی خوشی ملنے اور غم و پریشانی ختم ہونے پر اس کی حمد کریں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ ۚ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا ۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ﴾

’’اور ان کے دلوں میں جو کینہ ہوگا وہ ہم نکال پھینکیں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں ہے: سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی تو ہم ہدایت نہ پاتے۔‘‘ (الأعراف 43:7)

نیز فرمایا: ﴿ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ﴾

’’اور وہ کہیں گے: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔‘‘ (فاطر 34:35)

مسند احمد اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے بتایا کہ جنت میں ایک گھر کا نام ”بیت الحمد‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کے لیے بنایا ہے جو مصائب پر بھی اس کی حمد کرتے ہیں۔

اللہ تعالی کی حمد اور شکر کرنا بندے کے لیے باعث عزت ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عنایات ، احکام تخلیق و تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ اللہ تعالی کی تعریف نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والا سب لوگوں سے زیادہ مطمئن اور خوشحال ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو حقیر مت سمجھیں ورنہ وہ ان سے محروم کر دے گا۔ سرتا پا اپنے جسم پر غور کریں۔ آپ کے جسم کا ذرہ ذرہ رب تعالی کے احسانات کی گواہی دے گا، اس لیے اپنی صلاحیتیں بھلائی کے کاموں میں صرف کریں اور عطا کرنے والے رب کا شکر بجالائیں اور بار بار کہیں: الحمد للہ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو ساری قو تیں عطا کرنے والا، بحرانوں سے نکالنے والا، مصائب و مشکلات دور کرنے والا اور قدر دان ہے۔ وہ پیدا کرنے اور استحکام بخشنے میں کمال حکمت والا ہے۔ ہر لمحہ، ہر آن ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

وَفِيْ كُلِّ حَالٍ يَّحْمَدُ اللهَ رَبَّهُ

عَلٰى شِدَّةٍ مِّنْ دَهْرِهِ وَلِيَانِ

يُرَتِّلُ أحْلَى الْحَمْدِ فِي كُلِّ سَاعَةٍ

بِأَيِّ زَمَانٍ أَوْ بِأَيِّ مَكَانِ

’’آپ ﷺ زمانے کی سختی اور نرمی دونوں حالتوں میں اپنے رب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں محو رہے۔ آپ ﷺ  ہر جگہ، ہر وقت اور ہر آن حمد وثنا کے شیریں کلمات اپنی زبان مبارک سے ادا فرماتے رہے۔‘‘

آپﷺ  کا لا الہ الا اللہ کا ورد کرتا

لا الہ الا اللہ اذکار کا تاج ، سب سے افضل کلمہ، اجر و ثواب میں سب سے بڑھ کر اور مطلق طور پر تمام اذکارتاعلی ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو جو رسالت دے کر بھیجا، اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ توحید کا پیغام، یعنی ! الہ الا اللہ عام ہو۔

اس کلے کا راز یہ ہے کہ یہ تمام انبیاء  علیہم السلام کی دعوت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس میں نفی و اثبات دونوں ہیں۔ لا الہ میں نفی ہے اور الا اللہ میں اثبات ہے۔

یہ کلمہ ہر وقت آپ ﷺ کی زبان پر جاری رہتا اور آپ ﷺ اپنے قول، فعل، خطبات اور دروس میں اس کی دعوت دیتے۔ یہ پہلا کلمہ ہے جو آپ نے مشرکین مکہ کے سامنے پیش کیا کہ لا الہ الا اللہ کہہ دو،  فلاح پا جاؤ گے۔ آپ ﷺ نے اس کلمے اور ہمیشہ رہنے والے پاکیزہ ذکر کو سعادت اور فوز وفلاح کا باعث قرار دیا ہے۔

علماء نے اس کلمے کی کچھ ایسی خصوصیات ذکر کی ہیں جو اس کے علاوہ دیگر کلموں، دعاؤں اور اذکار میں نہیں پائی جاتیں، مثلاً وہ کہتے ہیں: یہ کلمہ تقوی، کلمہ توحید، نجات دینے والا، خاتمہ، طیبہ، باقی، کلمه اخلاص، کلمہ ایمان، رسولوں کی دعوت، جنت کی چابی ، شرک سے براءت اور نفاق سے خلاصی دینے والا ہے۔

آپ ﷺ کی احادیث میں اس کلمے کے ساتھ ذکر کرنے کے کئی الفاظ آئے ہیں، جیسے: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا الله اور لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))

آپﷺ نے لا إله إلا الله کے ذکر کے وہ عظیم فضائل بتائے جو کسی دوسرے ذکر میں نہیں ہیں، چند فضائل مندرجہ ذیل ہیں:

سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ)) ’’سب سے افضل اور بہتر ذکر لَا إِلٰهَ إِلَّا الله ہے۔ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات حدیث: 3383)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص دن بھر یہ دعا سو مرتبہ پڑھے گا: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير)) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے۔ اور ہر قسم کی تعریف بھی اس کے لیے ہے۔ اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘  اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب دیا جائے گا۔ اس کے نامہ اعمال میں سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹادی جائیں گی۔ مزید یہ کہ وہ شخص سارا دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا، نیز کوئی شخص اس سے بہتر عمل نہیں لے کر آئے گا، البتہ وہ شخص جو اس سے زیادہ عمل کرے (اسے زیادہ ثواب ملے گا)۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حديث: 3293)

سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعا لی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے کچھ کلمات سکھائے جنھیں میں بطور ذکر کہا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ کہا کرو: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ)) ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2696)

یہ کلمہ قیامت کے دن نبی اکرمﷺ کی شفاعت کا حق دار بھی بنائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، خَالِصًا مِّنْ قَلْبِهِ))

’’قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت پانے والا وہ ہے جس نے خلوص دل سے لا الہ الا اللہ کہا۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حديث:99)

آپ ﷺ نے بتایا کہ اس کلمے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور خطائیں مٹ جاتی ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَّ بِمُحَمَّدٍ رَّسُولًا وَ بِالْإِسلام دِينًا. ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمدﷺ  اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمد ﷺکے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔ ‘‘تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 386)

نبیﷺ نے بتایا کہ لا الہ الا اللہ عقیدہ ،عمل، اخلاق، دعوت، معیار اور افضل ایمان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ایمان کے ستر سے اوپر (یا ساٹھ سے اوپر ) شعبے (اجزاء) ہیں۔ سب سے افضل جز ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی تکلیف (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹاتا ہے، اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث:35)

آپ ﷺ نے بتایا کہ یہ کلمہ تجدید ایمان کا باعث ہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ایمان کی تجدید کرو‘‘

 صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم کیسے اپنے ایمان کی تجدید کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کثرت سے لا الہ الا اللہ پڑھا کرو۔‘‘ (مسند احمد، حديث: 8710، وإسناده ضعيف)

نبیﷺ نے خوشخبری دی کہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کے چہرے پر آگ حرام ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ((مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ))

’’جس کی آخری بات لاالہ الا اللہ ہو، وہ جنت میں داخل ہوا۔‘‘ (سنن أبی داود، الجنائز، حدیث: 3116)

اور آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ))

’’ یقینًا اللہ تعالی نے اس شخص پر آگ حرام کر دی ہے جو لاالہ الاَّ اللہ کہہ دے، بشرطیکہ اس سے اللہ تعالی کی رضا مندی ہی مقصود ہو۔ ‘‘ (صحیح البخاري، الصلاة، حديث: 425)

سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے (اس کا کوئی شریک نہیں) اور  یقینًا محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے، اس کی بندی کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا، اور اس کی طرف سے (عطا کی گئی) روح ہیں۔ اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے۔ اس شخص کو اللہ تعالی جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے گا، جنت میں داخل کر دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث:28)

٭ لا الہ الا اللہ کا ورد کرنے کے نبوی مقامات

نبیﷺ قبول  اسلام کرنے والے کولا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے اور زبان سے ادا کرنے کی تلقین کرتے۔ جب آپﷺ نے سید نا علی  رضی اللہ تعالی عنہ کو یہود کی طرف بھیجا تو انھیں حکم دیا: ”انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اسلام میں ان پر اللہ تعالی کے کیا حقوق ہوں گے۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے سے کسی ایک آدمی کو ہدایت عطا کر دے، تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 2406)

وضو کرنے کے بعد : سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ  سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اپنا وضو پورا کرے (یا خوب اچھی طرح وضو کرے) پھر یہ کہے:

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں کہ وہ جس سے چاہے، داخل ہو جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة: حديث:234)

رات کے وقت اچانک آنکھ کھلنے یا جاگنے پر : سیدنا عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ

نے فرمایا:

’’جو شخص رات کو اٹھے اور کہے: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اَلْحَمْدُ لِلهِ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللَهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله)) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت ہی کی ہے۔ اور تمام تعریفات اس کی ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ نیکی کرنے کی اور برائی سے بچنے کی طاقت اللہ تعالی ہی کی توفیق سے ہے۔‘‘  پھر یہ دعا پڑھے: ((اَللّٰهُمَّ اغفِرلِي)) ’’اے اللہ! مجھے معاف فرما دے۔‘‘ یا کوئی اور دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی نماز بھی قبول ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التهجد، حديث: 1154)

صبح و شام کے اذکار میں :  آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص صبح یا شام کے وقت درج ذیل دعا پڑھ لے تو اللہ تعالی اس کا چوتھائی حصہ آگ سے آزاد فرما دے گا۔ اور جو شخص اسے دو بار پڑھے، اللہ تعالی اس کا آدھا حصہ آگ سے آزاد کر دے گا۔ اور جو شخص اسے تین بار پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کا تین چوتھائی حصہ آگ سے آزاد کر دے گا۔ اور جو شخص چار بار پڑھے، تو اللہ تعالی اسے (کامل طور پر) آگ سے آزاد فرما دے گا۔ (دعا کے کلمات یہ ہیں:) ((اَللّٰهُمَّ! إِنِّي أَصْبَحْتُ أُشْهِدُكَ وَأُشْهِدُ حَمَلَةَ عَرْشِكَ وَمَلَائِكَتَكَ، وَ جَمِيعَ خَلْقِكَ أَنَّكَ أَنْتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ))

’’اے اللہ میں نے صبح کی ہے اور تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیرا عرش اٹھانے والے اور دیگر فرشتوں اور تیری ساری مخلوق کو گواہ بناتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد (ﷺ) تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، أول كتاب الأدب، حديث: 5069)

نماز میں تشہد کے وقت: سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ تشہد اس طرح سکھاتے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھاتے، چنانچہ آپﷺ فرماتے:

((التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ))

’’بقا و بادشاہت، عظمت و اختیار اور کثرت ِخیر، ساری دعائیں اور ساری پاکیزہ چیزیں اللہ تعالی ہی کے لیے ہیں۔ آپ پر سلام ہو اے نبی! اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺکے رسول ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:403)

نماز سے سلام پھیرنے کے بعد : آپ ﷺہر نماز کے بعد پڑھتے تھے:

((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر بات پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حديث: 844)

 جنگ، حج یا عمرے سے لوٹتے وقت : نبیﷺ سے مروی ہے کہ جب آپ جہاد یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو زمین کی ہر اونچی جگہ پر چڑھتے وقت تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، پھر یہ دعا پڑھتے :

((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))

’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی حکومت و بادشاہت ہے۔ وہی تعریف کے لائق ہے۔ اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، ابواب العمرة، حديث : 1797)

کرب و مصیبت کے وقت نبی ﷺ دکھ تکلیف کے وقت یوں فرماتے:

((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ))

’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو صاحب عظمت اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا مالک ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الدعوات، حديث (6346)

اور آپ ﷺنے فرمایا:

’’ذوالنون کی دعا جو انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی، یہ تھی: ﴿ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ۝﴾

’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے۔ بلاشبہ میں ظلم کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘ (الأنبياء 87:21)

 واقعہ یہ ہے کہ کسی مسلمان آدمی نے جب بھی یہ دعا پڑھ کر کوئی چیز مانگی، اللہ تعالی نے وہ چیز اسے ضرور دی۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3505)

قریب المرگ شخص کے پاس : نبی اکرم ﷺ نے قریب المرگ شخص کو اس کلمے کی تلقین کا حکم دیا اور فرمایا: ((لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَهُ))

’’اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 916)

لا الہ الا اللہ کو اپنی زندگی کا مقصد اور سب سے بڑا مسئلہ سمجھیں۔ اس پر ایمان لائیں۔ اس کا ورد کریں۔ اسے اپنا عقیدہ بنائیں۔ اس کے تقاضے پورے کریں اور اس کی نشر و اشاعت کریں۔ یہ سب سے سچا کلمہ، خوبصورت عبارت ، قوی الفاظ عظیم دلیل اور اعلی پیغام ہے۔ اس کی دعوت دیں اور اسے زاد راہ بنائیں۔ بلاشبہ یہ گنا ہوں کے پہاڑ جلا دیتا ہے۔ تاریکیوں سے روشنی میں لاتا ہے۔ پریشانیوں سے نجات دے کر خوشیاں دیتا ہے۔ کفر سے ایمان میں لاتا ہے اور آگ سے نکال کر جنتوں کا حق دار بنا دیتا ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

رُوحُهُ تَهْتِفُ بِالتَّهْلِيلِ حُبًّا

مُفْرِدًا بِالْمَدْحِ وَالتَّقْدِيسِ رَبَّا

إِنَّ أَغْلٰى ثَرْوَةٍ يَمْلِكُهَا

 كَلِمَةُ التَّوْحِيدِ كَمْ تَعْمُرُ قَلْبًا

’’آپ ﷺکی روح محبت آمیز تہلیل و تحمید کا نعرہ بلند کرتی۔ آپ رب کی مدح و تقدیس میں یکتا وممتاز تھے۔ سب سے مہنگی دولت جس کے آپ مالک تھے، وہ کلمہ توحید ہے جس نے کتنے ہی دل آباد کیے۔“

٭آپ ﷺکا اللہ اکبر کا ورد کرنا:

رسول اکرمﷺ اپنے رب کی عظمت، جلال، کبریائی ، شہنشاہی ، کمال غلبے اور عزت و بلندی کو یاد کرتے تو آپ کے دل سے بے ساختہ  ’’اللہ اکبر‘‘ کی سچی اور مضبوط صدا بلند ہوتی جو آپ کی پاکیزہ سانسوں کے ساتھ رواں رہتی۔ اللہ تعالی ساری کائنات اور اس میں موجود ہر چیز سے بڑا ہے۔ اپنی سلطنت و بادشاہت اور غلبے میں سب سے بڑا ہے اور اپنی ذات اقدس، اسمائے حسنی اور صفات علیا میں سب سے عظیم ہے۔

رسول اکرمﷺ نے  ’’اللہ اکبر‘‘ کے مقاصد میں یہ بات بھی بتائی کہ ہم اپنی کمزوری میں اس کی قوت، اپنے فقر میں اس کے غناء ، اپنے انکسار میں اس کی عزت اور اپنے گناہوں میں اس کی رحمت کا سہارا لیں۔ وہی پاک رب سب سے بڑا ہے جو ہمارے احوال کی اصلاح کرتا ہے۔ ہماری لغزشوں سے درگزر کرتا ہے اور ہماری خطائیں معاف کر دیتا ہے۔

رسول اکرم ﷺپر قرآن کی صورت میں نازل ہونے والی وحی میں اللہ تعالی کے عظیم نام ((اَلْعَلِیُّ)) کے ساتھ ((اَلْکَبِیْرُ)) آیا ہے اور اس میں ایک عظیم راز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ۝﴾

’’ یہ اس لیے کہ بے شک اللہ تعالی ہی حق ہے اور بلاشبہ جسے وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہی باطل ہے۔ اور بلاشبہ اللہ ہی بلند تر ، بہت بڑا ہے۔‘‘ (الحج 62:22)

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗ اِذَا دُعِیَ اللّٰهُ وَحْدَهٗ كَفَرْتُمْ ۚ وَ اِنْ یُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْا ؕ فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِیِّ الْكَبِیْرِ۝﴾

’’(فرمایا جائے گا:) تمھیں یہ عذاب اس وجہ سے ہے کہ بلاشبہ جب اس اکیلے اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم (اس کی توحید کا) انکار کرتے تھے۔ اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جاتا تو تم (اس شرک کو ) مان لیتے تھے۔ اب حکم تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو نہایت برتر اور بہت بڑا ہے۔‘‘ (المؤمن 12:40)

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے غلو میں بہت بڑا اور عظمت شان میں بلند تر ہے۔ اس کے غلبے میں یہ بات شامل ہے کہ مطلق غلق اور عظمت جس کی کوئی انتہا نہ ہو، وہ صرف اس کے لیے ہے۔ اسی طرح کمال عزت اور انتہا کا غلبہ اور اعجاز صرف اسے حاصل ہے۔ وہ فیصلہ کرتا ہے تو کوئی اس کے فیصلے پر نقد کر سکتا ہے نہ اسے رد کر سکتا ہے۔ تمام پیشانیاں اس کے سامنے جھکی ہوئی اور تمام گردنیں اس کے تابع فرمان ہیں۔ ہر بڑا اس کی کبریائی کے سامنے حقیر ہے۔

اللہ اکبر کا ایک راز یہ ہے کہ یہ کلمہ شیطان پر بہت بھاری اور اس کی کمر توڑنے والا ہے۔ وہ جب بھی اللہ اکبر کی صدا سنتا ہے تو ذلیل و رسوا ہو کر بھاگتا اور چھپتا ہے کیونکہ عظمت و کبریائی والے اللہ جل شانہ کا ذکر اس کے دشمن کی کمر توڑ دیتا ہے۔

اللہ تعالی نے اپنی عظمت کا ڈنکا بجایا اور اپنے نبیﷺ اور ان کے پیروکاروں کو قیامت تک کے لیے اس کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ۪ۙ۝﴾  ’’اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کیجیے۔‘‘ (المدثرہ 3:74)

ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَ كَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا۠۝﴾

’’اور اس کی بڑائی بیان کر، خوب بڑائی بیان کرنا۔‘‘ (بنیٓ اسر آئیل 111:17)

یعنی تم مسلسل اور کثرت سے اس کی کبریائی بیان کرو کیونکہ پاک رب کی کبریائی سے دشمن کو شکست ہو گی۔ مخالف مغلوب ہو گا۔ پریشانیاں دور ہوں گی اور مشکلات ختم ہوں گی کیونکہ تم نے کبیر و متعال رب کی پناولی ہے اور اللہ اکبر کا ورد کیا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالی تمھاری پریشانیوں، غموں اور مصائب سے بہت بڑا ہے، لہٰذا  اس کی پناہ پکڑو۔ اس پر بھروسا کرو۔ اپنے معاملات اس کے سپرد کرو اور ہمیشہ بار بار اللہ اکبر کا ورد کرو تا کہ وہ کبیر و متعال رب تمھیں کافی ہو جائے۔ اس کی عطا بہت بڑی، اس کا خیر بہت زیادہ اور اس کی جانب سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ ہر زمان و مکان اور حال میں اہم مقامات اور عام اجتماعات میں اللہ کی کبریائی بیان کرنا مسنون ہے، مثلاً

عیدین، فتوحات، غلبے اور دشمن سے لڑائی کے وقت ، تا کہ اس ذات کی عظمت کا اظہار ہو جس نے عزت بخشی۔ وحی نازل کی۔ اپنے نبی ﷺ کی مد دکی۔ دشنوں پر غلبہ دیا۔ نعت کا اتمام کیا اور شریعت مکمل کی۔ اسی طرح ہر ہولناک امر اور خوشی کی خبرپر بھی اللہ کی کبریائی بیان کرنا مسنون ہےتا کہ للہ تعالی کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا ہو اور اس کے دشمنوں نے اس کی طرف جو کچھ منسوب کیا ہے، اس سے اظہار لاتعلقی ہو۔

٭ نبی ﷺ کی تکبیرات کے مقامات

نبی ﷺنماز کا آغاز تکبیرے کرتے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر جس کے سامنے تم حاضر ہو، وہ سب سے بڑا ہے۔ اور جس کی تم نماز پڑھ رہے ہو، وہ دنیا جہان اور اس میں موجود ہر چیز سے بڑا ہے، لہٰذا  تم اسے چھوڑ کر دوسری چیزوں میں مشغول نہ ہو۔

آپﷺ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور غلبے سے آگاہ کرنے کے لیے اذان اور اقامت میں تکبیر کو لازم قرار دیا تا کہ وہ اس کے گھر اور عبادت کی طرف آئیں۔ آپ نے رکوع و سجود میں جاتے اور اٹھتے ہوئے بھی تکبیرات کو مسنون ٹھہرایا تا کہ نمازی جس کے لیے نماز پڑھ رہا ہے، اس کی عظمت و کبریائی یاد رکھے۔

نبیﷺ ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں میں کثرت سے نیک عمل کرنے کی ترغیب دلاتے ، اور ان میں تکبیرات بھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذو الحجہ کے دس دنوں میں حاجی جمع ہوتے ہیں۔ اسلام کے شعائر اور نشانات کا اظہار ہوتا ہے۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ کبیر و متعال ذات کی شان و شوکت اور غلبے کا بھی اظہار ہو۔ اس مناسبت سے آپ ﷺ نے ان ایام میں اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنا مستحسن قرار دیا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب بھی تلبیہ پکارنے والا تلبیہ پکارتا ہے اور اللہ کی کبریائی بیان کرنے والا بڑائی بیان کرتا ہے تو اسے ضرور خوشخبری ملتی ہے۔‘‘ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! جنت کی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني، حديث: 7779)

اور آپ ﷺنے فرمایا:

’’اللہ تعالی کے نزدیک ذوالحجہ کے دس دنوں سے زیادہ عظمت والا کوئی دن ہے نہ ان میں کیے ہوئے عمل سے زیادہ کوئی عمل اسے محبوب ہے، لہٰذا  ان میں بہت زیادہ تہلیل، تکبیر اور تحمید بیان کیا کرو۔ ‘‘ (مسند احمد، حدیث:6154)

جمرات کو رمی کرتے وقت، منٰی سے عرفات جاتے وقت اور طواف وغیرہ مشاعرِ حج میں تکبیرات کہنا مسنون ہے کیونکہ ان مواقع پر حاجیوں کا رش اور اجتماع ہوتا ہے اور یہ اس کے مناسب حال ذکر ہے۔

آپ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے ایام میں بھی بکثرت تکبیرات کہتے تھے۔ عید اسلام اور مسلمانوں کے جلال و جمال کا مظہر ہے، اس لیے اللہ پاک کی عظمت اور لوگوں کو ہدایت عطا کرنے کے پیش نظر ان مواقع پر تکبیرات کہنا موزوں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْؕ﴾ ’’اور تا کہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی۔‘‘ (البقرة 185:2)

نبیﷺ عید کے دن اللہ کی کبریائی بیان کرتے اور کہتے : ((الله أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، وَلِلهِ الْحَمْدُ)) اسی طرح بعض روایات میں ((اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَّأَصِيلًا)) کے الفاظ مروی ہیں۔

سید نا عبد الله بن عمرو  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عید کی نماز میں بارہ تکبیرات کہیں۔ پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ اور آپ ﷺعید سے پہلے اور بعد میں کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (مسند احمد، حديث: 6688)

آپ ﷺ چو پائے پر سوار ہوتے وقت اور آغاز سفر میں بھی تکبیر کہتے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آپ سواری پر بیٹھ گئے تو کہا: الْحَمْدُ لِلهِ. پھر کہا: ((سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَلَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلٰى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ)) ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے تابع کیا اور ہم از خود اس کو اپنا تابع نہ بنا سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔‘‘ پھر کہا: ((الْحَمْدُ لِلهِ)) تین بار۔ پھر کہا: ((الله أكبر)) تین بار پھر کہا: ((سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ))

’’اے اللہ ! تو پاک ہے۔ بلاشبہ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے۔ تو مجھے معاف فرما دے۔  یقینًا تیرے سوا اور کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکے۔‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، حديث (2602)

اس موقع پر اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بعض اوقات سواری پر سوار ہو کر انسان میں تکبر کے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں، اس لیے بندے کو حکم دیا کہ وہ سب سے عظیم ، بڑی اور اعلیٰ ذات کو یاد رکھے اور وہ ہے اللہ جل شانہ کی ذات جس کے سامنے بندے کو مسکین ، متواضع اور عاجز بن کر رہنے کا حکم ہے۔

آپ ﷺجب کسی اونچی جگہ پر چڑھتے تو اپنے رب کی کبریائی بیان کرتے اور صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ انسان جب کسی پہاڑ یا ٹیلے پر چڑھتا ہے تو اس میں بلندی کی وجہ سے عجیب اور خود پسندی کا احساس پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے ان لمحات میں آپ نے اپنے رب کی بڑائی اور کبریائی بیان کرنے کا حکم دیا کیونکہ حقیقی عظمت، عزت، جلال اور کمال تو صرف اللہ تعالی کے لیے ہے۔ نبیﷺ مسافر کو نصیحت کرتے تو اسے فرماتے: ((عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ، وَالتَّكْبِيرِ عَلٰى كُلِّ شَرَفٍ))

’’تو اللہ کے خوف اور ڈر کی پابندی کر اور ہر بلندی پر اللہ اکبر کہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حدیث:3445)

آپﷺ جب جانور ذبح کرتے تو بھی تکبیر بلند کرتے۔ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے دو خوبصورت سفید رنگ کے، بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی اور ذبح کرتے وقت   (بِسم اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ)  پڑھا۔ (صحيح مسلم، الأضاحي، حديث: 1965)

اس موقع پر تکبیر کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے خالص عبودیت کا اظہار ہے کیونکہ مشرک غیر اللہ کے لیے ذبح کرتے تھے جبکہ  نبی ﷺ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر﴾ ’’سو آپ اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں‘‘ (الکوثر 2:108) کی تعمیل میں صرف اللہ کے لیے ذبح کرتے۔

آپ ﷺکی مجلس میں جب بھی کوئی خوشخبری آتی اور خوشی کی بات ہوتی تو اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی گویا یہ خوشی کا استعارہ تھا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

’’میں امید کرتا ہوں کہ تم لوگ اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو گے۔“ یہ سن کر ہم نے نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’تم جنت کا تیسرا حصہ ہو گے۔“ ہم نے پھر اللہ اکبر پکارا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ”تم اہل جنت کا آدھا حصہ ہو گئے۔‘‘ ہم نے پھر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ (صحيح البخاري، التفسير، حديث: 4741)

چنانچہ فرحت و بشارت اور خوشخبری کے مواقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون امر ہے۔

آپ پر نماز استقاء میں بھی اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرتے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ کی نماز استسقاء میں عید کی طرح سات اور پانچ تکبیرات کہتے تھے۔ (فتح الباري (2 /580)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ استقاء میں عید کی طرح تکبیرات ہیں۔ (ابن عبد البر )

نماز جنازہ میں بھی چار تکبیرات سنت نبوی ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ موت میں ایک پیغام ہے کہ انسان فنا ہونے والا ہے اور بقا صرف اللہ ذو الجلال کے لیے ہے۔ اس مناسبت سے اللہ تعالی کی کبریائی بیان کی۔

رسول اکرمﷺ نے ہمیں کثرت سے اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کی ترغیب دی کیونکہ تکبیر زمین و آسمان کے درمیانی خلا کو بھرنے والی ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

((التَّسْبِيحُ نِصْفُ الْمِيزَانِ، وَالْحَمْدُ لِلهِ يَمْلَؤُهُ، وَالتَّكْبِيرُ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ))

 ’’ تسبیح میزان عمل کا نصف ہے اور الحمد للہ اسے بھر دیتا ہے اور اللہ اکبر (اپنی روشنی اور نور سے ) آسمان اور زمین کی فضا کو بھر دیتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات عن رسول ال، حديث: 3519)

تکبیر سے آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ((اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ الله بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا))

’’اللہ سب سے بڑا ہے بہت بڑا۔ اور تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے بہت زیادہ اور تسبیح اللہ ہی کے لیے ہے، صبح و شام ‘‘  رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’فلاں فلاں کلمہ کہنے والا کون ہے؟‘‘ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول ! میں ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ”مجھے ان کلمات پر بہت حیرت ہوئی، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔‘‘

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ’’میں نے جب آپ سے یہ بات سنی، اس کے بعد سے یہ کلمات کبھی نہیں چھوڑے۔‘‘ (صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 601)

جب بھی صبح کی کرنیں پھوٹیں، باغات منور و روشن ہوں، بادل چھائیں اور موسلا دھار بارش برسے تو اللہ تعالی کی کبریائی بلند ہوتی رہے۔ اللہ اکبر کی صداؤں سے قیصر و کسری کا غرور ٹوٹا اور تخت پاش پاش ہو گئے اور بڑے بڑے سرکشوں کی ناک خاک آلود ہوئی۔

اللهُ أَكْبَرُ كُلُّ هُمٍّ يَنْجَلِي

 عن قَلْبِ كُلِّ مُكَبِّرٍ وَمُهَلِّلِ

هِيَ تَاجُ هَامَاتِ الْكَلَامِ وَإِنَّهَا

لَأَجَلُّ لَفْظٍ فِي الْكِتَابِ الْمُنْزَلِ

’’الله اکبر، ہر مكبِّر (اللہ اکبر کہنے والے) اور ہر مُہَلِّل (لا الہ الا اللہ پڑھنے والے) کے دل سے ہر غم دور کر دیتا ہے۔ یہ (تکبیر) کلام کے سروں کا تاج ہے اور یہ نازل شدہ کتاب میں بڑا جلیل القدر لفظ ہے۔‘‘

نبی اکرم ﷺ کا سبحان اللہ، الحمد للہ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کے ساتھ ذکر اللہ تعالی نے ان چار کلمات کو نہایت خوبصورت فضائل اور جلیل القدر خوبیوں سے نواز کر خصوصی مقام دیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے یہ کلمات پڑھنے کی دعوت دی۔ ان کے پڑھنے والے کے لیے عظیم اجر و ثواب اور ان کلمات کی دیگر فضیلتیں بیان کیں۔ جو شخص ان چار کلمات پر غور و فکر کرے، اسے پتہ چل جاتا ہے کہ دین کے مقاصد، ملت کے اہداف اور شریعت کے پیغامات ان چار کلمات میں آگئے ہیں۔

سبحان اللہ میں اللہ تعالی کی تنزیہ اور پاکی کا بیان ہے۔ اس میں رسول اکرمﷺ اور آپ کی شریعت کی بھی تنزیہ و پاکیزگی ہے۔ الحمد للہ میں اللہ تعالی کے کمال ، شکر اور ثنا کا اثبات ہے جس کے اسماء پاکیزہ ہیں۔ لا الہ الا اللہ میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا اعتراف ہے اور اس کی عبوریت کی دعوت ہے۔ اللہ اکبر میں صرف اللہ تعالی کے لیے عظمت و عزت اور کبریائی کا اثبات ہے۔

چنانچہ یہ چار کلمات اپنے باب میں مکمل ، اپنے مضمون میں اکمل اور اپنی شان میں عظیم ہیں۔ ذیل میں ان کے چند خصائص اور فضائل ذکر کیے جاتے ہیں :

٭ اللہ کے چار محبوب کلمات

نبیٔ اکرمﷺ نے ہمیں خبر دی کہ یہ چار کلمات اللہ تعالی کو سب کلاموں سے محبوب ہیں۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چار کلمات ہیں: ((سُبحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكبر)) ’’تم (ذکر کرتے ہوئے) ان میں سے جس کلمے کو پہلے کہو، کوئی حرج نہیں۔‘‘

(صحیح مسلم، الآداب، حدیث: 2137)

جب یہ کلمات اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہیں تو ہمیں چاہیے کہ زندگی کی سانسیں ان سے معطر کریں۔

نبی ﷺ  کو روئے زمین کی ہر چیز سے محبوب چار کلمات

نبیﷺ نے بتایا کہ یہ چار کلمات مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں جن پر سورج طلوع ہوتا ہے، یعنی ساری دنیا، اس کے خزانوں، اس میں موجود سونے، چاندی اور ہر زیب و زینت سے پیارے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :

’’یہ بات کہ میں ((سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ)) کہوں، مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث (2695)

 گناہوں کا کفارہ بننے والے چار کلمات

ان چار کلمات کے عظیم اجر و ثواب میں یہ بھی ہے کہ یہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا:

’’زمین پر جو آدمی یہ کلمات ادا کرتا ہے:

((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ اللهُ أَكْبَرُ، سُبْحَانَ اللهِ الْحَمْدُ لِلهِ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ))

اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اگر چہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘ (مسند احمد، حدیث:6973)

اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کے پتے سوکھ چکے تھے۔ آپ نے اس پر اپنی لاٹھی ماری تو پتے جھڑ گئے (بکھر گئے۔) اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’(چار كلمات ) ((اَلحَمْدُ لِلهِ وَسُبْحَانَ اللهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ)) بندے سے گناہ اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات عن رسول اللهﷺ، حديث: 3533)

جنت کی شجر کاری والے چار کلمات

یہ چار کلمات خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام  کا سب سے خوبصورت تحفہ ہیں۔ درود و سلام ہوں ان پر نبی اکرم پر اور تمام انبیاء  علیہ السلام پر۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اسراء کی رات میری ملاقات سیدنا ابراہیم علیہ السلام  سے ہوئی تو انھوں نے فرمایا : اے محمد ! میری طرف سے اپنی امت کو سلام کہنا اور انھیں بنانا کہ بلاشبہ جنت کی مٹی پاکیزہ اور پانی میٹھا ہے اور وہ چٹیل میدان ہے اور اس میں شجر کاری سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث:3462)

آپ کی جنت آپ کی منتظر ہے، لہٰذا  اپنی طاقت کے مطابق اس میں شجر کاری کریں تا کہ کل ان کے پھل چُن سکیں اور ان کے سائے سے فائدہ اٹھا سکیں۔

٭چار کلمات مالی صدقے کے برابر ہیں

رسول اکرم ﷺنے ہمیں خوشخبری دی کہ یہ چار کلمات زبان سے ادا کرنے والے کو مالی صدقے کا ثواب ملتا ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کے کچھ ساتھیوں نے آپ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ! زیادہ مال رکھنے والے اجر و ثواب لے گئے۔ وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں۔ ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور اپنے ضرورت سے زائد مال سے صدقہ کرتے ہیں (جو ہم نہیں کر سکتے۔) آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا اللہ تعالی نے تمھارے لیے ایسی چیز نہیں بنائی جس سے تم صدقہ کر سکو ؟ بے شک ہر دفعہ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے۔ ہر دفعہ اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ ہر دفعہ الحمد للہ کہنا صدقہ ہے۔ ہر دفعہ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حديث: 1006)

جب تمھارے پاس مال خرچ کرنے کی طاقت نہ ہو تو اپنے نفس پر لازم کریں اور ان پاکیزہ و مبارک کلمات کے ساتھ صدقہ کریں۔

٭قرآن مجید کی قراءت سے کفایت کرنے والے چار کلمات

جو شخص قرآن مجید حفظ نہ کر سکتا ہو، وہ ان چار کلمات کا ورد کرے تو اس کی حفظ قرآن کی کی پوری ہو جائے گی، جیسا کہ سید نا ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں قرآن مجید یاد نہیں کر سکتا، مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجیے جو مجھے قرآن مجید کی جگہ کفایت کر سکے۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ کلمات پڑھ لیا کرو: ((سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِي العَظِیم)) ’’اللہ پاک ہے۔ اس کی تعریف ہے۔ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے اور برائیوں سے بچنا اور نیکی کی توفیق ملنا اللہ تعالی کے سواکسی سے ممکن نہیں۔ وہ بلند و برتر عظمت والا ہے۔‘‘ (سنن النسائي الافتتاح، حدیث:925)

سو یہ کلمات اس مبارک وحی کا حصہ ہیں جو ہمارے نبی ﷺ  پر نازل ہوئی۔

٭ یہ چار کلمات کہنے والا تمام بندوں سے افضل اور بلند درجے والا ہے

ان چار کلمات کی ایک فضیلت آپ ﷺ نے یہ بتائی ہے کہ جو شخص انھیں اپنی زندگی کا وظیفہ بنالے اور بار بار ان کا ورد کرے، وہ اللہ تعالی کے افضل اور سب سے بلند درجات والے بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’اس مومن سے اللہ تعالی کے ہاں کوئی افضل نہیں جسے اسلام میں عمر ملے اور وہ اسے سبحان الله، الله اکبر اور لا اله الا الله کے ورد میں لگائے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 1401)

٭ان چار کلمات کا ورد کرنے والے کا ذکر رحمن کے عرش کے پاس ہوتا ہے

نبی ﷺ نے بتایا کہ جو شخص ان چار کلمات کا وظیفہ کرتا ہے، اس کا ذکر اللہ رحمن و رحیم کے عظیم عرش کے پاس موجود معزز فرشتوں میں ہوتا ہے۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب لوگ تسبیح (سُبحان الله) تحمید (الْحَمْدُ لله ) تکبیر (الله أكبر) اور تہلیل (لَا إِلٰهَ إِلَّا الله) کی صورت میں اللہ تعالی کے جلال کا ذکر کرتے ہیں، تو یہ اذکار عرش کے ارد گرد عاجزی کرتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح ان کی آواز ہوتی ہے اور یہ اپنے  (ذکر کرنے والے) صاحب کا تذکرہ کرتے ہیں۔ تو اب کیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ تمھارا کوئی ایسا عمل ہو جو (عرش کے پاس) تمھاری یاد دلاتا رہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 18362)

جب آپ عزت و شرف اور عظمت و بلندی چاہتے ہیں تو ان چار کلمات کا بکثرت ذکر کریں تا کہ آپ کا تذکرہ شہنشاہ عالم کے ہاں ہو۔

٭چار کلمات جو اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے لیے چن لیے ہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے چار کلمات کا انتخاب فرمایا اور ان لوگوں کے لیے انھیں پسند کیا جنھیں اپنے رسولﷺ کی اتباع کی توفیق دی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالی نے کلام میں سے یہ چار کلمات پسند کیے ہیں: سُبْحَانَ اللهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ اور الله أكبر، چنانچہ جس نے سُبْحَانَ الله کہا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے میں نیکیاں لکھ دیتا ہے یا میں برائیاں مٹا دیتا ہے۔ جس نے کہ اللہ اکبر کہا، اس کے لیے بھی اتنا ہی ثواب ہوگا۔ جس نے لَا إِلٰهَ إِلَّا الله کہا، اس کو بھی اتنا ہی ثواب ہو گا۔ اور جس نے اپنی طرف سے اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ کہا، اس کے لیے تيسں نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی تيس برائیاں مٹادی جائیں گی۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 11372)

٭آگ سے بچانے والے چار کلمات

آپﷺ نے ان چار کلمات کی فضیلت بتاتے ہوئے فرمایا کہ جو ان کو پڑھتا ہے، وہ آگ اور رب رحمن کے غضب سے بچ جاتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’اپنے دفاع کا سامان لازم پہنو۔‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا کوئی دشمن آ گیا ہے؟  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، لیکن آگ سے ڈھال بننے والے کلمات سبحان اللہ، الحمد لله لا اله الا الله اوراللہ اکبر کا ورد لازم پکڑو۔ یہ قیامت والے دن انسان کے آگے پیچھے آئیں گے اور اس کا دفاع کریں گے، اور یہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔‘‘ (السنن الكبرى للنسائي، حدیث: 10684)

باقیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کے ہاں ذخیرہ ہوں گے اور ان کا اجر قیامت تک ہو گا اور ان کا ثواب ختم نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَالْبٰقِيٰتُ الصَّلِحْتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ أَمَلًا﴾

’’اور آپ کے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب میں بہتر ہیں اور امید لگانے کے اعتبار سے (بھی) بہتر ہیں۔‘‘ (الكهف 46:18)

٭رحمن کی میزان میں چار بھاری کلمات

ان کلمات کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ میزانِ عظیم میں بہت بھاری ہیں۔ اس میزان میں جو اللہ مالک الملک کی ہے۔ سیدنا ابو سلمٰی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺسے سنا، آپﷺ نے فرمایا:

’’واہ واہ، اور ہاتھ سے پانچ کا اشارہ کیا، یہ میزان میں کسی قدر بھاری ہیں: سبحان الله* الحمدلله، لا اله الا

الله اور الله اکبر‘‘ (مجمع الزوائد للهيثمي: 91/10)

لہٰذا اپنے رب کی میزان کو اس کی تسبیح، حمدہ تہلیل اور تکبیر کے ساتھ بھریں۔

٭چار کلمات کے قیمتی انعامات اور عظیم اجر کا بیان

ان مبارک اور پاکیزہ کلمات کو چند منٹوں میں دہرانے سے عظیم انعامات اور بہت زیادہ اجر و ثواب ملتا ہے۔ سیده ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ایک دن رسول اللہﷺ میرے پاس سے گزرے، میں نے کہا: اللہ کے رسول ! میں عمر رسیدہ ہوگئی ہوں اور کمزوری ہو گئی ہے۔ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ بیٹھ کر ہی کر لیا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’سو (100) بار سبحان اللہ کہو۔ یہ عمل تمھارے لیے اولاد اسماعیل میں سے سو گردنیں آزاد کرنے کے برابر ہوگا۔ سو  (100) دفعہ الحمد للہ کہوں۔ یہ عمل تمھارے لیے اللہ تعالی کے راستے میں سوالگام والے اور زین والے گھوڑے دینے کے برابر ہوگا۔ سو (100) بار اللہ اکبر کہو۔ یہ عمل تیرے لیے ان سو (100) اونٹوں کے برابر ہو گا جن کو قلادے ڈال کر حج کے زمانے میں مکہ مکرمہ کی طرف بھیج دیا جائے اور وہ اللہ تعالی کی طرف سے قبول بھی کر لیے جائیں۔ اور سو (100) بار لا إِلهَ إِلَّا الله کہو، یہ عمل آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو ثواب سے بھر دے گا۔ اس دن کسی آدمی کا ایسا عظیم عمل اوپر کی طرف نہیں اٹھایا جائے گا، الا یہ کہ وہ اسی طرح کا عمل کرے، جیسے تو نے کیا ہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث 26911)

 کوئی ہے جو اس کی طرف جلدی کرے اور یہ عظیم ثواب حاصل کرے؟!

٭آپ ﷺکا لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد کرنا

توکل کرنے والوں اور اپنے معاملات اللہ تعالی کے سپرد کرنے والوں میں سب سے عظیم پیغمبرﷺ ہیں۔  یقینًا آپ نے ایک مضبوط رکن کا سہارا لیا ہے اور وہ ہے حمید و مجید رب۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی قوت و طاقت کا سہارا لے کر اپنی قوت و طاقت میں اضافہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نصرت و تائید فرمائی اور انجام اچھا کیا۔

آپﷺ کثرت سے لاحول ولا قوة الا باللہ پڑھتے تھے کیونکہ یہ تسلیم و رضا اور اپنے معاملات کلی طور پر اللہ تعالی کے سپرد کرنے کا کلمہ ہے۔ یہ ایسی عظیم عبارت ہے جو انسان کو اللہ تعالی کی توحید، یقین، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی رغبت اور اس کی ذات پر اعتماد سے لبریز کر دیتی ہے۔

لا حول ولا قوة الا باللہ کے معنی یہ ہیں کہ عظمتوں والے رب کے بغیر نہ کوئی ارادہ ہے نہ قدرت و طاقت، نہ نصرت و تائید، نہ آسانی و مدد اور نہ طاقت و آسرا۔ ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ ہر جگہ اللہ تعالی کا حکم چلتا ہے۔ اور وہ اکیلا ہی تدبیرو تصرف کرنے والا ہے۔ ہم تو اس کے حقیر، بے حیثیت، مسکین اور مطبع بندے ہیں جو اس کی قوت، قدرت اور غلبے کے ماتحت ہیں۔ ہم صرف اس سے مدد مانگتے ہیں۔ آپ کل ہم نے کئی مواقع پر اس کلمے کا ورد مسنون ٹھہرایا ہے، مثلاً:

مؤذن جب حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کہے

جو شخص اذان سنے، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ مذکورہ کلمات سن کر لا حول ولا قوة الا باللہ پڑھے کیونکہ اذان اللہ تعالی کے گھر کی طرف جانے، دعوت قبول کرنے اور حاضری دینے کی ندا ہے۔ اس مناسبت سے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد اور نصرت طلب کی گئی کہ اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر نیکی کرنے کی طاقت ہے نہ گناہ سے بچنے کی ہمت۔

٭نظر بد اور حسد سے بچنے کے لیے

مومن کے لیے یہ مسنون ہے کہ جب وہ اپنے یا کسی دوسرے کے پاس کوئی نعمت، گھر یا کھیتی وغیرہ دیکھے تو کے: مَا شَاءَ اللهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے:

﴿ وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ۚ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ۝﴾

’’(مومن شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: ) اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو تو نے کیوں نہ کہا: ماشاء الله، لا قوة الا بالله (جو اللہ نے چاہا، کوئی قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے )؟ اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتا ہے۔‘‘ (الكهف 39:18)

٭ گھر سے نکلتے وقت

گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھنے والا ہدایت پر قائم رہے گا اور شیطان مردود سے بھی محفوظ رہے گا۔ سیدنا انس مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

’’جب کوئی آدمی اپنے گھر سے نکلے اور کہے: ((بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا باللهِ))

’’اللہ کے نام کے ساتھ۔ میں نے اللہ پر توکل کیا۔ اللہ کی توفیق کے بغیر نیکی کی طاقت ہے نہ گناہ سے بچنے کا یارا‘‘  تو اس سے کہا جاتا ہے: مجھے ہدایت دے دی گئی، کفایت کر دی گئی اور مجھے بچا لیا گیا، اور شیطان اس سے الگ ہو جاتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 5095)

رات کے وقت نیند سے بیدار ہونے پر

نبی ﷺنے رات کے وقت نیند سے بیدار ہونے پر یہ کلمہ پڑھنے کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ یہ جاگنے والے کو ہمت و قوت عطا کرتا ہے اور ایسا اللہ تعالی کی استعانت و مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کا وقت راحت اور سستی کا وقت ہوتا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں مروی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے۔

یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے

کنروہ چیز ہے جو نہایت عمدہ نفیس اور قیمتی ہو اور اسے چھپا کر محفوظ کیا گیا ہو۔ سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں ؟‘‘  میں نے عرض کی: کیوں نہیں، ضرور بتائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ))‘‘ (صحيح مسلم، الذكر والدعاء، حديث (2704)

اور اگر اس کے ساتھ چار کلمات بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’زمین پر جو آدمی یہ کلمات ادا کرتا ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا الله، اللهُ أَكْبَرُ، سُبْحَانَ اللهِ، أَلْحَمْدُ لِلهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله ، تو اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اگر چہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 6479)

اور یہ جنت کا ایک دروازہ ہے۔ سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تجھے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے سے آگاہ نہ کروں؟‘‘ میں نے کہا: ضرور۔ آپﷺ نے فرمایا:  ((لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله))  (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3518)

مشقت کرنے والوں کی مدد کے لیے یہ کلمہ نہایت قومی اثر رکھتا ہے۔ اسے خوف، پریشانی اور مشکلات کے وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور اس کے لشکری جب دشمنوں سے ٹکراتے یا کوئی قلعہ فتح کرتے تو بکثرت لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله پڑھتے اور پھر انھیں غنیمت اور سلامتی نصیب ہوتی اور غلبہ پاتے۔ (ابن أبي الدنيا في الفرج بعد الشدة)

ایک اثر میں مروی ہے کہ جب فرشتوں کو عرش اٹھانے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہم تیرا عرش کیسے اٹھا ئیں جبکہ اس پر تیری عظمت اور تیرا جلال ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: تم کہو: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ. جب انھوں نے یہ کہا تو اسے اٹھا لیا۔

اس کلمے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کلمہ کہنے والے کی تصدیق کرتا ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا :

((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ، قَالَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِي، وَكَانَ يَقُولُ: مَنْ قَالَهَا فِي مَرْضِهِ ثُمَّ مَاتَ لَمْ تَطْعَمَهُ النَّارُ))

’’جب بندہ کہتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ کی توفیق کے بغیر کسی گناہ سے بچنے اور کوئی نیکی کرنے کی طاقت وقوت نہیں تو اللہ فرماتا ہے: میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میری توفیق کے بغیر کسی گناہ سے بچنے اور کوئی نیکی کرنے کی طاقت وقوت نہیں۔‘‘ اور آپﷺ فرماتے تھے: ’’جو شخص اپنی بیماری میں یہ کلمات کہے گا، پھر مر جائے تو اسے آگ نہیں کھائے گی۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث (3430)

سو آپ ﷺ نے لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله کو سختیوں اور مشکلات میں تیاری اور مصائب میں ذخیرہ قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مدد و نصرت اور قوت اس رب سے مانگی جاتی ہے جو اکیلا ہی کا ئنات کا مالک ہے، لہٰذا  زندگی کی مشکلات اور بحرانوں میں ہم سب کی خوب تیاری ہونی چاہیے۔

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ وہ کلمہ ہے جس کے ساتھ بندہ اپنے واحد و قہار رب کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے۔ اس عزیز و غفار پر اعتماد اور بھر دے کا اظہار کرتا ہے۔ اس ذات پر توکل کرتا ہے جو آنکھوں اور کانوں کا مالک ہے۔ آپ اسے زبان سے ادا کرنے سے پہلے دل سے ادا کریں۔ یہ آپ کو اس فانی، چھوٹے، بے حیثیت اور ختم ہو جانے والے جہان سے ایک نہایت غلبہ و نصرت ، عزت وقوت اور رزق و تائید والے جہان میں اللہ کی بادشاہی میں لے جائے گا۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله سے مشکلات کے تالے کھلتے ہیں، احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ دل کو سکون ملتا ہے اور رب ذوالجلال راضی ہوتا ہے۔

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کا ورد کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق ، دل و جان سے بولنا اللہ تعالی کی عنایت اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنا اللہ تعالی کی عطا ہے، لہٰذا  اس کا ورد کریں اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو عظیم رحمت اور بے شمار نوازشیں کی ہیں، ان پر خوش ہو جائیں۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

لَا حَوْلَ إِلَّا حَوْلَهُ سُبْحَانَهُ

وَهُوَ الْقَوِيُّ إِلَيْهِ يَرْكُنُ أَحْمَدُ

هَزَمَ الْخُصُومَ بِهَا وَدَكَّ قِلَاعَهُمْ

وَبِهَا يَرُدُّ الْعَادِيَاتِ وَيَصْمَدُ

’’طاقت صرف اللہ سبحانہ کی طاقت ہے۔ وہی قوی ہے۔ احمد علی کا میلان اس کی طرف ہے۔ اس نے اللہ کی قوت کے ساتھ اپنے مخالف و مد مقابل کو شکست دی اور ان کے قلعوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ اپنے ساتھ سرکشی کا مظاہرہ کرنے والوں کو کچل دیتا ہے اور خود جما رہتا ہے۔“

نبی ﷺ  کا استعاذہ

اللہ تعالی سے استعادہ کا مطلب سے ال اس التجا کرنا اور اس کی حفاظت اور پناہ میں آنا، نیز اس کی مدد طلب  کرنا اور ہر اس چیز سے نجات چاہتا جس سے پناہ مانگنے والا اپنے دین اور دنیا کے حوالے سے ڈرتا ہے۔

استعاذہ کا سب سے عظیم کلمہ اور جلیل القدر عبارت أعوذ بالله ہے۔ اس میں جن وانس کے شیاطین اور خوف میں ڈالنے والی ہر چیز سے اللہ تعالی کی مدد و نصرت اور حفاظت کی درخواست ہے اور اس ذات سے پناہ مانگی گئی ہے جو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((وَإِنْ سَأَلْنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَ نِي لَأُعِيذَنَّهُ))

’’ا گر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ کا طالب ہو تو ضرور اس کو پناہ دیتا ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث (6502)

اور کائنات کے رہبر و رہنماء، اللہ کے نبی و رسول محمد بن عبد اللہﷺ ہر وقت اپنے تمام امور و معاملات میں اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے۔ اس کے حضور التجا کرتے اور اس کی حفاظت ما نگتے۔ آپﷺ نے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنے کو بہت مقدس عمل اور عظیم معاملہ قرار دیا، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ((مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللهِ فَأَعِيْذُوْهُ))

’’جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے، اسے پناہ دے دو۔‘‘ (سنن أبي داود، الزكاة، حدیث: 1672)

نبی ﷺ کے پناہ طلب کرنے کے مقامات

٭ قرآن کی تلاوت سے پہلے: نبی ﷺ  اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں قرآن مجید کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۝﴾

’’پھر جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگیں۔‘‘ (النحل 98:16)

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت اللہ تعالی کی سب سے جلیل القدر نعمت ہے اور انسان کا دشمن شیطان مردود اسے اس کی تلاوت سے غافل کرنے ، اس میں غور وفکر سے باز رکھنے اور اس نعمت سے مستفید ہونے سے روکنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں سب سے بڑی ہدایت ہے اور شیطان گمراہوں کا سردار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ قرآن پڑھنے والے کو نور قرآن سے ہدایت نہ پانے دے۔ اور آپ ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص شیطانی وسوسہ محسوس کرے، اسے چاہیے کہ شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ﴾ ’’شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (البقرة 268:2)

نبیﷺ نے سیدنا عقبہ بن عامررضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ سورہ فلق اور سورہ ناس کے ساتھ اللہ تعالی کی پناہ طلب

کرے۔ (مسند أحمد، حدیث: 17370)

آپﷺ نے سیدنا عبداللہ بن حبیب رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ صبح و شام تین تین دفعہ سورہ فلق اور سورہ ناس کے ذریعے سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے۔ (مسند أحمد، حدیث: 22664)

غصے کے وقت

جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اس کی بصیرت ختم ہو جاتی ہے، کان بہرے ہو جاتے ہیں، عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور شیطان اس کے دل میں غضب کی آگ بھڑکاتا ہے کیونکہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے۔ نبی ﷺ نے اس حالت میں اللہ تعالی سے التجا کرنے اور اس کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔

استعاذہ ٹھنڈے پانی کی طرح ہے جو غصے کی اس آگ کو بجھا دیتا ہے تو روح ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جاتی ہے۔ سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی ﷺ  کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں دو آدمی ایک دوسرے سے گالی گلوچ کرنے لگے۔ پھر ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا اور رگیں پھول گئیں تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’میں ایک ایسی دعا جانتا ہوں، اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا قصہ جاتا رہے۔یہ شخص أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ پڑھ لے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا۔‘‘ لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ تو شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کر۔ اس نے کہا: کیا میں دیوانہ ہوں (کہ شیطان سے پناہ مانگوں؟)۔ (صحيح البخاري، بدء الخلق، حديث (3282)

نماز پڑھتے ہوئے: آپ ﷺ نماز میں بھی شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے کیونکہ آپ اپنی روح کو اللہ تعالی کی نگرانی میں محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ اور شیطان اپنی دشمنی کی وجہ سے دل کو رب تعالی کے حضور سجدے سے پھیرنا چاہتا ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رات کو جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ، پھر سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ ’’اے اللہ پاک ہے تو ہر عیب اور ہر نقص سے۔ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے تیری شان۔ اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پڑھتے ، پھر الله  أَكْبَرُ كَبِيْرًا ’’اللہ بہت بڑا ہے‘‘ کہتے، پھر پڑھتے : أَعُوْذُ بِاللهِ السَّمِيْعِ العَلِيْمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ’’میں الله سمیع و علیم کی شیطان مردود سے پناہ چاہتا ہوں، اس کے وسوسوں سے ، اس کے کبر و نخوت سے اور اس کے اشعار اور جادو ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الصلاة، حديث (242)

٭نماز میں وسوسہ آنے پر استعاذہ کی ترغیب نبوی: نماز اہلِ توحید کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور عبودیت کے محراب میں مومن کی اپنے رب سے مناجات ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ بندے اور اس کے رب کے درمیان مناجات اور محبت کی اس رسی کو کاٹ دے۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول ! شیطان میرے اور میری نماز اور قراءت کے درمیان حائل ہو گیا ہے، وہ اسے میرے ذہن میں گڈمڈ کر دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایک شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے، جب تم اس کو محسوس کرو تو اس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو اور اپنی بائیں جانب تین بار تھتکار دو۔‘‘ کہتے ہیں: میں نے نہیں کیا تو اللہ تعالی نے اسے مجھ سے دور کر دیا۔  (صحیح مسلم، السلام، حدیث:2203)

بیت الخلا جاتے وقت

بیت الخلا شیطان کا گھر اور ابلیس کا مسکن ہے۔ نبی اکرم  ﷺ نے اس میں داخل ہونے سے پہلے اس کے شر اور مکر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔

سید نا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ  جب بیت الخلا جاتے تو فرماتے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ))

’’اے اللہ میں ناپاک چیزوں اور ناپاکیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، الوضوء، حديث (142)

گدھے کے رینکنے اور کتوں کے بھونکنے کے وقت

آپ نے کتوں کی نجاست کی وجہ سے ان کے بھونکنے کے وقت اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا مسنون ٹھہرایا ہے۔ اسی طرح گدھوں کی آواز کی قباحت اور غیر مانوسیت کی وجہ سے اسے سن کر استعاذ و پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالی سے اس کا فضل طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے۔ اور جب گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3303)

رات کو بیدار ہونے اور گھبراہٹ طاری ہونے کے وقت

جب مؤمن کی آنکھ نیند سے ٹھنڈی ہوتی ہے اور اس کے جسم وروح کو سکون ملتا ہے تو شیطان کو تکلیف ہوتی ہے۔ وہ اسے پریشان کرنے اور اس کے آرام میں خلل ڈالنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے، اس لیے اس کے شرسے بچنے کے لیے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا مسنون ٹھہرایا گیا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اچھا خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہے جبکہ برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا  اگر تم میں سے کوئی پریشان کن خواب دیکھے جس سے وہ ڈر محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی بائیں جانب تھوک دے اور اس کی برائی سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، اس طرح وہ اس کو نقصان نہیں دے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3292)

شیطان کے وسوسے ڈالنے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کے وقت

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے: فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ فلاں کا خالق کون ہے؟ حتی کہ وہ کہتا ہے کہ تمھارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ چنانچہ جب وہ یہاں تک پہنچ جائے تو بندے کو چاہیے کہ اللہ تعالی کی پناہ مانگے اور مزید سوچنے سے رک جائے۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حديث:3276)

آپ ﷺ کے فرمان  ’’اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کی پناہ مانگے اور باز آ جائے‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ اس طرح کی سوچ چھوڑ دے اور شیطان کے اس طرح کے وسوسوں کو جھٹک دے کیونکہ شیطان کا مقصد مومن کا عقیدہ خراب کرنا اور اس کے دل میں رب تعالی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ ایسے موقع پر اسے حکم ہے کہ اپنے رب کی پناہ میں آ جائے تا کہ وہ اس سے شیطان کا مکروفریب اور دھو کا دور کر دے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ۝﴾

’’اور آپ کہیں : اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (المؤمنون 97:23)

اور جو سچے دل سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے ، خالص اس کی عبادت کرے اور اس کی صحیح توحید اپنائے تو اللہ تعالی اس کی حفاظت فرماتا ہے اور اسے شیطان سے بچا لیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ﴾

 ’’بے شک ان لوگوں پر اس کا کوئی زور نہیں (چلتا) جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘

(النحل99:16)

دم کرتے وقت

آپ جسے دم کرتے ، اسے اللہ تعالی کی پناہ میں دیتے ، جیسا کہ سیدنا حسن و حسین  رضی اللہ تعالی عنہما کو اللہ تعالی کی پناہ میں دیتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :

تمھارے دادا سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی انھی کلمات سے سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحاق علیہما السلام کو دم کرتے تھے:

((أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَّامَّةِ(( “”میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعے سے ہر شیطان، زہر یلے جانور اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر کے شر سے پناہ مانگنا ہوں ۔‘‘ (صحيح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث (3371)

آپ ﷺ نے ان تین چیزوں سے اس لیے پناہ مانگی کہ یہ شر اور اذیت کی بنیاد ہیں اور ان سے صرف اللہ تعالی ہی بچا سکتا ہے۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے درد کی شکایت کی جو انھیں اسلام قبول کرنے کے وقت سے ہوتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: ’’جسم میں جس جگہ درد ہوتا ہے، تم وہاں اپنا ہاتھ رکھو اور تین بار بسم اللہ پڑھو اور سات بار یہ کہو: ((أَعُوْذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَ أَحَاذِرُ)) ’’میں اس چیز کے شرسے جو میں (اپنے جسم میں) پاتا ہوں اور جس کا مجھے ڈر ہے، اللہ تعالی اور اس کی قدرت کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث (2202)

سب سے عظیم قلعہ جس کے ساتھ مسلمان ہر شر و بلا سے محفوظ و مامون ہوتا ہے، وہ سورہ فلق اور سورہ ناس کے ذریعے سے اللہ تعالی کی پناہ لینا ہے۔ آپﷺ نے اپنے قول و فعل سے اس کی تعلیم دی۔ آپ جب بیمار ہوتے تو ان سورتوں کے ساتھ اپنے آپ کو دم کرتے۔ رات کو سوتے وقت تین تین بار انھیں پڑھتے ۔ نمازوں کے بعد اور صبح و شام ان کی قراءت کرتے کیونکہ ان سورتوں میں ہر شر اور نقصان سے حفاظت اور بچاؤ کا سب سے عظیم نسخہ ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺجب بیمار ہوئے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرتے۔ پھر جب آپ کی تکلیف زیادہ ہو گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں کو برکت کی امید سے آپ کے جسد اطہر پر پھیرتی تھی۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حديث: 5016)

کسی نئی جگہ پڑاؤ کرتے ہوئے

رحمےن کی حمایت کے بغیر کسی جگہ بھی امان نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

’’جو شخص کسی (بھی) منزل پر اترا اور اس نے یہ کلمات کہے: ((أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرمًا خَلَق))

 میں اللہ تعالی (سے اس) کے مکمل ترین کلمات کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس چیز کے شرسے جو اس نے پیدا کی، تو اس شخص کو اس منزل سے چلے جانے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی ۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2708)

صبح و شام اور سوتے وقت

نبی ﷺ نے امت کے لیے صبح و شام اور سوتے وقت اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا مسنون ٹھہرایا ہے تا کہ وہ دن رات اور صبح و شام اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں گزاریں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جب صبح و شام کے وظیفے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ  نے فرمایا : ’’یہ کہ لیا کرو:

((اَللّٰهُمَّ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ))

’’اے اللہ ! غائب و حاضر، موجود اور غیر موجود کے جاننے والے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ہر چیز کے مالک میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں شیطان کے شر اور اس کی دعوت شرک سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ”یہ دعا صبح و شام اور جب اپنی خواب گاہ میں سونے لگو، پڑھ لیا کرو۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3392)

دل و جان اور یقین سے پڑھنے والے کے لیے یہ دعا ایک مضبوط قلعہ ہے۔

جماع کے وقت

آپﷺ اپنی امت کی خیر خواہی کے اس قدر حریص تھے کہ آپ نے شوہر کو حکم دیا کہ جب وہ بیوی سے مباشرت کا ارادہ کرے تو بھی شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے، تاکہ ان کی اولاد میں برکت ہو اور وہ ابلیس کی چالوں سے محفوظ رہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو کہے: ((بِسْمِ اللهِ اللّٰهُمَّ جَنَّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنْبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا)) ’’اللہ کے نام سے ، اے اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عنایت فرمائے۔‘‘ پھر ان دونوں کو اگر کوئی اولا د نصیب ہو تو شیطان اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ (صحيح البخاري، الوضوء، حديث:141)

غم و پریشانی لاحق ہونے پر

جب ہم مشکلات اور دکھوں کی فہرست دیکھتے ہیں تو ہر قسم کی سختیوں، بحرانوں، دکھوں، پریشانیوں، پراگندہ حالات اور دلی گھٹن کے علاج کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں پاتے جو آپ ﷺ نے درج ذیل حدیث میں بطور استعاذہ بتایا ہے۔ آپ ﷺدعا فرماتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ))

’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اور کاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤ سے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2893)

چنانچہ آپﷺ نے حال اور مستقبل کے تفکرات و خدشات اور ماضی کی حسرتوں پر پیش آنے والے غم سے پناہ مانگی۔ اور ایسی بے بسی جو ہمت توڑ دے اور انسان لاچار ہو جائے، ایسی سستی جو بدن کو لاغر کر دے اور انسان مایوں و بے چین ہو جائے، ایسا بخل جو انسان کو معروف کاموں سے روک دے اور ایسی بزدلی جو دل میں خوف بٹھا دے اور اس کے باعث روح بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے ، ان سب امور سے بھی پناہ مانگی ہے۔ قرضے کے بوجھ سے بھی پناہ مانگی کیونکہ اس کے باعث رات  غموں میں اور دن ذلت میں گزرتا ہے۔ اور لوگوں کے دباؤ سے پناہ مانگی کیونکہ اس سے انسان ٹوٹ جاتا ہے اور مقہور و مظلوم بن کر جیتا ہے۔

اب جس نے ان آٹھ چیزوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگی اور ان سے نجات پا گیا تو وہ نہایت سعادت مندہ پرامید، اچھی اور عزت و کرامت کی زندگی گزارے گا۔ بس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے رسول ﷺکو جوامع الکلم عطا کیے اور آپ کو ایسا حسن بیان دیا جو دلوں میں اتر نے والا ہے۔

گمراہی کے خوف کے وقت

رسول اللهﷺ گمراہی اور اللہ تعالیٰ کے طریقے سے ہٹ جانے سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے تھے۔ آپ دعا کرتے: اَللّٰهمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِعِزَّتِكَ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِيْ

’’اے اللہ میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں …. تیرے سوا کوئی معبود نہیں کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا دے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2717)

جب ہدایت یافتہ لوگوں کے امام ﷺیہ دعا کر رہے ہیں تو ہمیں اس کی کس قدر اشد ضرورت ہو گی ؟!

آپﷺ تین چیزوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے تھے۔ یہ تمام آزمائشوں اور سختیوں کی اصل اور اساس ہیں، چنانچہ  آپ ﷺ نے فرمایا: ((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ، وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ))

’’اے اللہ میں کفر، فقر اور عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (سنن النسائي، السهو، حديث: 1348)

گھر سے نکلتے وقت

نبیﷺ گھر سے نکلتے وقت بھی اللہ تعالی کی پناہ مانگتے تھے کیونکہ انسان کو راستے میں کئی طرح کے بحرانوں، آزمائشوں اور فتنوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی میرے گھر سے نکلتے تو اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھاتے اور یہ دعا پڑھتے :

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أَضَلَّ أَوْ أَزِل أَوْ أَزَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَو أَظْلَمَ أَوْ أَجْهَلَ أَوْيُجْهَلَ عَلَيَّ))

’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں گمراہ ہو جاؤں یا گمراہ کر دیا جاؤں، یا پھسل جاؤں یا پھیلا دیا جاؤں، یا ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے، یا کوئی جہالت کا کام کروں یا کوئی مجھ سے جہالت کا برتاؤ کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، أول كتاب الأدب، حديث: 5094)

اپنی گمراہی اور دوسروں کی گمراہی کے شر سے پناہ مانگنے میں حکمت یہ ہے کہ انسان سے نہ غلطی سرزد ہو اور نہ وہ کسی دوسرے کی غلطی کا نشانہ بنے۔

اعضائے جسم کے شرے

جب اعضاء اللہ تعالی کی حفاظت میں نہ ہوں تو وہ بھٹک جاتے ہیں اور انحراف و تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ ﷺ ان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي وَمِنْ شَرْ بَصَرِي وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّ))

’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کان کی برائی سے، اپنی آنکھ کی برائی سے، اپنی زبان کی برائی سے، اپنے دل کی برائی سے اور اپنے مادہ منویہ کی برائی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث 1551)

 زندگی بھر ساتھ رہنے والے امور کے شرسے

نبی ﷺ  نے ایسے امور سے بھی پناہ مانگی ہے جو زندگی بھر انسان کے ساتھ ہوتے ہیں۔  آپ ﷺ یوں دعا کرتے: ((اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَّا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَّفْسٍ لَّا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَّا يُسْتَجَابُ لَهَا))

’’اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو کوئی فائدہ نہ دے اور ایسے دل سے بھی جو (تیرے آگے) جھک کر مطمئن نہ ہوتا ہو اور ایسے نفس سے بھی جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے بھی جسے شرف قبولیت نصیب نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث (2722)

جو علم نفع بخش نہ ہو، وہ انسان کو گمراہ کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی سے نہ ڈرنے والا دل آدمی کو ہلاک کر دیتا ہے۔ سیر نہ ہونے والا نفس انسان کو لالچی بنا دیتا ہے۔ اور جو دعاسنی نہ جائے، اس سے مراد گناہوں کی وجہ سے قبولیت کا رتبہ نہ پانے والی دعا ہے۔

ظلم سے پناہ

قلم سے کھیتی اور نسل تباہ ہو جاتی ہے اور دنیا میں فساد پھیل جاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس سے پناہ مانگی ہے۔

آپ یوں دعا کرتے :

((اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَ الْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ﷢))

’’اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں محتاجی سے، قلت سے اور ذلت سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں (کسی پر) ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث (1544)

برے اخلاق سے

میں نہیں جانتا کہ اچھے اخلاق سے زیادہ عزت والا کوئی تاج ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ خوبصورت کوئی تمغہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے رسولﷺ میں ہر اچھا وصف موجود تھا۔ اللہ تعالی نے اخلاق کے باب میں آپ کو اسوہ حسنہ قرار دیا اور آپ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ ’’اور  یقینًا آپ خُلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم 4:68)

نبی ﷺ نے اپنی امت کو برے اخلاق سے پناہ مانگنے کی ترغیب دی کیونکہ وہ سب سے بری صفت اور قبیح عادت ہے۔ آپ ﷺ دعا کرتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْوَاءِ))

’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث (3591)

اور آپﷺ یہ بھی دعا کرتے : ((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ))

’’اے اللہ! جو میں نے کیا، اس کے شر سے اور جو میں نے نہیں کیا، اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2716)

دنیا کے احوال دگرگوں ہونے سے

دنیا کے حالات ایک جیسے نہیں رہ سکتے۔ ان میں نرمی گرمی اور شدت و سختی آتی رہتی ہے۔   آپ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ))

’’اے اللہ ! میں تیری نعمت کے زوال سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور تیری عافیت کے پھر جانے، تیری اچانک پکڑ اور تیرے ہر طرح کے غصے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الرقاق، حدیث: 2739)

 آپ ﷺ نے اپنے رب سے عافیت و برکت کے دوام اور پیشگی کی دعا کی، حالات کے دگرگوں ہونے سے اس کی پناہ مانگی اور ان چار امور سے اللہ تعالی کی پناہ مانگی جو دنیا و آخرت میں ناپسندیدہ ہیں اور ان سے بچے رہنا امن و عافیت اور برکت کی اصل ہے۔ آپﷺ سے مروی ہے کہ آپ مصیبت کی سختی، بد قسمتی اور تباہی تک پہنچ جائے، قضا و قدر کی برائی اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگتے تھے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6347)

 مالداری اور فقر کی آزمائش سے

مالداری اور فقر خیر اور بھلائی کا باعث بھی ہو سکتے ہیں اور شر اور تباہی بھی پھیلا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ دعا فرماتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنٰی، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ))

’’اے اللہ! میں دوزخ کے عذاب، دوزخ کی آزمائش ، قبر کی آزمائش اور عذاب قبر، نیز فتنہ مالداری کے شر اور فتنہ فقر کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6375)

موسمی صورت حال کی تبدیلی سے

نبی ﷺ  نے موسمی صورت حال اور ماحولیات کے تغیر و تبدل سے اللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے، چنانچہ جب ہوا چلتی تو آپ دعا کرتے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيْهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيْهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ

’’اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی خیر اور بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور جو کچھ اس میں ہے، اس کی اور جو کچھ اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے، اس کی خیر کا طلبگار ہوں۔ اور اس کے شرسے اور جو کچھ اس میں ہے، اس کے شر سے اور جو کچھ اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے، اس کے شرسے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة الاستسقاء، حديث: 899)

اور جب آپ ﷺ آسمان پر بادل دیکھتے تو دعا کرتے :

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا)) ’’اے اللہ! میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘

اور اگر بارش ہونے لگتی تو کہتے : ((اَللّٰهُمَّ صَيِّبًا هَنِيْئًا))

’’اے اللہ اسے خوب برسنے والی نفع بخش اور مبارک بنا۔‘‘ (سنن ابی داود، أول كتاب الأدب، حديث: 5099)

 اور آپ ﷺجب کوئی بادل دیکھتے تو یوں دعا کرتے : ((اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِهِ))

’’یا اللہ ! ہم اس چیز کے شرسے تیری پناہ میں آتے ہیں جو کچھ دے کر یہ (بادل) بھیجا گیا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الدعاء، حدیث: 3889)

یہاں ہر قسم کے ظاہری حالات سے احتیاط ملحوظ رکھی گئی اور اللہ تعالی کے حضور التجا کی گئی کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لیے اس میں کیا چھپا ہے، خیر ہے یا شر ؟

برے ہمسائے سے

آپ ﷺ نے برے ہمسائے سے بھی اللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے کیونکہ ہمسایہ انسان کے اسرار و رموز سے واقف ہوتا ہے اور بندے کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اگر وہ اذیت دینے پر اتر آئے تو دوسروں کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا:

((تَعَوَّذُوْا بِاللهِ مِنْ جَارِ السُّوْءِ فِي دَارِ الْمُقَامِ، فَإِنَّ جَارَ الْبَادِيَةِ يَتَحَوَّلُ عَنْكَ))

’’ مستقل رہائش گاہ میں برے پڑوسی سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو کیونکہ عارضی پڑوسی تو جلد یا بدیر تم سے دور ہو جائے گا۔‘‘ (سنن النسائي، الاستعاذة، حديث: 5504)

فتنوں سے

فتنے کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ حالات و واقعات کے مطابق ان کی کیفیت بدلتی رہتی ہے اور کبھی ذہین و فطین علماء کو بھی ان کا ادر اک نہیں ہوتا ، اس لیے رسول اکرمﷺ نے ہمیں حکم دیتے ہوئے فرمایا:

((تَعَوَّذُوْا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ))

’’ظاہر و باطن تمام فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة وصفة نعيمها، حديث (2867)

اگر کوئی شخص یہ یقین رکھتا ہو کہ وہ صحیح راستے پر ہے تو اسے بھی اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنی چاہیے کیونکہ وہ معاملات و امور کے انجام کو نہیں جانتا۔

جن فتنوں سے پناہ طلب کرنے کی توجہ دلائی گئی ہے، ان میں دنیا کا فتنہ بھی ہے۔ یہ پوری آب و تاب اور زینت کے ساتھ رونما ہوتا ہے اور دلوں کو اپنے قریب میں پھنسا لیتا ہے۔ آپ ﷺ دعا کرتے تھے:

((أَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا))

’’اے اللہ میں دنیا کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2822)

 ایک روایت کے مطابق آپ یوں دعا کرتے:

’’اے اللہ ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور فتنہ دجال سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔‘‘

 آپ سے کسی نے عرض کیا : آپ قرض سے بہت پناہ مانگتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’انسان جب قرض دار ہو جاتا ہے تو بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے، تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حديث:832)

زندگی کی مشکلات دل کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے دور کر دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک سفر ہے کیونکہ اس میں انسان اہل و عیال اور وطن سے دور ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر عبادت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو جاتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے استعاذہ مسنون ٹھہرایا ہے، چنانچہ آپ ﷺ دعا فرماتے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَّعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ))

’’اے اللہ میں سفر کی تھکن، منظر کی غمگینی اور مال اور اہل وعیال میں بری واپسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حديث (1342)

اسی طرح اولاد، بیویوں، خادموں اور مال و دولت میں بھی فتنے اور شر کا احتمال موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ۚ﴾

’’اے ایمان والو! بے شک تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، لہٰذا  تم ان سے محتاط رہو۔‘‘ (التغابن 14:64)

یہی وجہ ہے کہ  آپ ﷺ نے بیوی اور خادم کے شر سے پناہ مانگی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت سے شادی کرے یا کوئی خادم خریدے تو اسے چاہیے کہ یہ دعا کرے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَ مِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ))

’’اے اللہ میں، تجھ سے اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور اس خیر کا جس پر تو نے اس کو پیدا کیا۔ اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس شر سے جس پر تو نے اس کو پیدا کیا ہے۔‘‘

جب کوئی اونٹ خریدے تو اس کے کوہان کی چوٹی پکڑے اور اسی طرح دعا کرے۔ (سنن أبي داود، النكاح، حديث:2160)

اللہ تعالی کے غضب اور اس کے عذاب سے

آپ ﷺکا مطمحِ نظر اور مطلوب و مقصود یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔  آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل تھی، اس لیے آپ اپنے خالق سے محبت کرتے اور اس کے غضب، ناراضی اور پکڑ سے ڈرتے تھے۔ اور اسی وجہ سے اس کی پناہ طلب کرتے تھے۔ آپ دعا کرتے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ))

’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں۔ اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں۔ میں تیری ثنا پوری طرح بیان نہیں کر سکتا۔ تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود بیان کی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 486)

یہ کتنی فصیح و بلیغ اور جامع دعا ہے۔ بس تقدیر کا خالق اکیلا اللہ تعالی ہی ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی سے راضی ہو گا اور کسی سے ناراض، ہر فیصلہ اسی کا ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں۔ جو اس کے غضب سے بھاگنا چاہیے، اسے بھی اس کی پناہ چاہیے اور جو اس کی رضا کا طالب ہو، اسے بھی اس کے دروازے پر جانا پڑے گا۔ ہر چیز اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اس کے ذمے، اس کی طرف اور اس کے ہاتھ میں ہے جسے رسول اللہ کل کار نے اس مختصر جملے میں سمودیا ہے : (وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ) یقینًا یہ جملہ نبوت و رسالت کے نور سے ماخوذ ہے۔

 آپ ﷺ نے ذکر کرنے والوں کی تعریف کی اور ذکر کے حوالے سے رب العالمین کے دس پیغامات بتائے ہیں:

پہلا پیغام

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے جمع ہوں، آپﷺ نے ان کے بارے میں چار انعامات کی خوشخبری دی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جو قوم بھی اللہ عز و جل کو یاد کرنے کے لیے بیٹھتی ہے، ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں۔ رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔ ان پر اطمینان قلب نازل ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی ان کا ذکر ان میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2700)

دوسرا پیغام

انسان کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے ہے۔ اسے بیداری، نیند اور سفر و حضر ہر حال میں دن رات اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ﴾

’’وہ لوگ جو کھڑے، بیٹے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘ (آل عمران 191:3)

تیسرا پیغام

اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بے رخی گزران زندگی تنگ کر دیتی ہے۔ سینے میں گھٹن پیدا ہوتی ہے اور انسان کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

﴿ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی۝۱۲۴﴾

’’اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بلاشبہ اس کے لیے گزران تنگ ہو گی اور روز قیامت اسے ہم اندھا کر کے اٹھائیں گے۔‘‘ (طٰهٰ124:20)

جو شخص سکون، اطمینان اور راحت چاہتا ہے، اسے اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکری سے زندگی خوبصورت ہوتی ہے اور امن و سکون اور سعادت نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ۝﴾

’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ آگاہ رہوا اللہ کے ذکری سے ول اطمینان پاتے ہیں۔‘‘ (الرعد 28:13)

آپ جو چاہیں ذکر کریں، آپ کے ذکر کے مطابق آپ کو جزا ملے گی۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت آئے تو میں اس کی جانب ایک گز نزدیک ہوتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک گز مجھ سے قریب ہو تو میں دو گز اس سے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث : 7405)

پانچواں پیغام

قرآنِ مجید میں سوائے ذکر کے کسی اطاعت کے کام کی کثرت کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ۝۴۱

وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا۝۴۲

هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىِٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ؕ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا۝۴۳

تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ ۚۖ وَ اَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا۝﴾

’’اے ایمان والو !تم اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ اور تم صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔ وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (رحمت کی دعا کرتے ہیں) تاکہ وہ تمھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے۔ اور اللہ مومنوں پر ہمیشہ سے بہت رحم کرنے والا ہے۔ جس دن وہ اس (اللہ ) سے ملیں گے تو ان کی دعا ہوگی : ’’سلام‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عزت والا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (الأحزاب 41:33-44)

یہ تمام قیمتی انعامات، عظیم عطیات اور ربانی عنایات اللہ تعالی کا ذکر کرنے والے حضرات و خواتین کے لیے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۝﴾

’’ اور اللہ تعالی کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان (سب) کے لیے اللہ تعالی نے بڑی مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (الأحزاب 35:33)

چھٹا پیغام

آپ ﷺنے ہمیں بتایا کہ ذکر کرنے والے ہی بندوں میں سے سبقت کرنے والے ہیں، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:

’’مُفَرِّدُون بازی لے گئے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! مفردون سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ’’کثرت سے اللہ تعالی کو یاد کرنے والے مرد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والی عورتیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حديث:2676)

ساتواں پیغام

جس نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا ، اللہ جل شانہ اسے یاد کرے گا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠۝﴾

’’بس تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا، اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔‘‘ (البقرة 152:2)

 یہ کتنی خوبصورت خوشخبری ہے کہ ہم کمزور، مسکین، گناہ گار اور خطا کار بندے اسے یاد کریں تو وہ بے پردار قوتوں کا مالک، ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے اور رکھنے والا ، جلالت و عزت والا ہمیں یاد کرے۔

آٹھواں پیغام

ذکر کرنے والا زندہ آدمی کی طرح اور اس سے غافل مردے کی طرح ہے، رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

((مَثَلُ الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيْتِ))

’’اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور وہ جو ذکر نہیں کرتا، زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الدعوات، حديث: 6407)

نواں پیغام

آپﷺ نے ہمیں بتایا کہ سب سے عالی شان عمل اور افضل اطاعت اللہ تعالی کا ذکر ہے،  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں تمھارے سب سے بہتر عمل کی خبر نہ دوں جو تمھارے مالک کے ہاں بہت پھلنے پھولنے والا اور تمھارے درجات بہت بلند کرنے والا ہے، تمھارے لیے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے اور تمھارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تمھاری دشمن سے مڈ بھیٹر ہو، تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری گردنیں ماریں؟‘‘ سب حاضرین نے کہا: ضرور بتائیے۔ آپﷺ نے فرمایا:  ’’اللہ تعالیٰ کا ذکر۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث (3377)

اور سب سے بلند ذکر وہ ہے جس میں دل، زبان کی موافقت کرے، جیسا کہ اللہ تعالی کے عرش کا سایہ پانے والے سات افراد والی حدیث میں ہے۔ ’’ان میں ایک شخص وہ ہے جو خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حديث:660)

دسواں پیغام

آپ ﷺ کے تحائف میں یہ بات بھی ہے کہ آپ نے ہمیں بتایا کہ جس عمل پر ہمیشگی کر سکتے ہیں اور دن رات کے فرق کے بغیر بآسانی اسے انجام دے سکتے ہیں، وہ اللہ تعالی کا ذکر ہے۔ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ کے احکام مجھ پر بہت ہیں۔ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیری زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘ (جامع الترمذي

الدعوات، حدیث: 3375)

 آپ ﷺ کی ساری زندگی اللہ اکیلے کے ذکر میں گزری۔ آپ نے ہر زمان و مکان میں اللہ احکم الحاکمین کا ذکر کیا۔ ذکر صرف یہ نہیں کہ نمازوں کے بعد تسبیحات پڑھ لی جائیں یا صبح وشام وغیرہ کے یومیہ اذکار پر اکتفا کیا جائے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ عظیم اعمال اور جلیل القدر طاعات میں سے ہیں لیکن ان پر اکتفا نہ کیا جائے اور انھیں کافی نہ سمجھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اذکار اللہ تعالیٰ کے ذکر کی صرف ایک قسم اور صورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے مسلمان کی زندگی اس کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے ہے، اس لیے اس کی نماز، روزہ، نیکی کا حکم دیتا، برائی سے روکنا، وعظ ونصیحت، گفتگو، ایک دوسرے سے برتاؤ اور خرید و فروخت سب اللہ تعالی کا ذکر ہیں کیونکہ مقصود یہ ہے کہ ساری زندگی اللہ جل شانہ کے لیے ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝﴾

’’کہہ دیجیے: بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، (سب کچھ ) اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘ (الأنعام 162:6)

………………..