محمد ﷺنبی کائنات
نبی کریمﷺ کی آمد سے پہلے لوگ غفلت کی نیند سو رہے تھے۔ ہر طرف جہالت کی تاریکی چھا چکی تھی۔ نبوت و رسالت کے ذریعے آسمان وزمین کا قائم رابطہ ایک عرصے سے منقطع تھا۔ اللہ تعالی نے اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنا چاہا تو اس کے لیے محمد رسول ﷺ کا انتخاب فرمایا۔ آپ کو میزان عدل بنا کر بھیجا۔ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب آپ کو دی اور آپ کو کفر و ایمان کے درمیان ایک حد فاصل بنایا اور بتوں کو پاش پاش کر دیا۔
بلاشبہ ہر قوم کے لیے کچھ اصول اور ضابطے ہوتے ہیں جن پر وہ عمل پیرا ہوتی ہے اور انحراف بھی کرتی ہے، ان کی پاسداری بھی کرتی ہے اور لغزش کا شکار بھی ہوتی ہے لیکن ہمارے رسول ﷺہر قسم کی لغزش، غلطی اور انحراف سے محفوظ و مامون تھے۔ آپ کا دل بھی گمراہی اور خواہشات کی پیروی سے پاک تھا، اس لیے آپ کبھی راہ راست سے ہٹے نہ گمراہ ہوئے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: اِنْ ﴿هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ﴾
’’وہ وحی ہی تو ہے جو (اس کی طرف) بھیجی جاتی ہے۔‘‘ (النجم4:53)
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے دل کو ثابت رکھا تو وہ بھی ٹیڑھا نہ ہوا۔ آپ کے کلام کو سیدھا رکھا تو آپ سے کبھی جہالت کی بات نہ نکلی۔ آپ کی آنکھوں کی حفاظت کی تو انھوں نے بھی خیانت نہیں کی۔ آپ کی زبان کی حفاظت کی تو وہ کبھی پھسلی نہیں۔ آپ کے دین کی حفاظت کی تو آپ کبھی بھٹکے نہیں۔ آپ کی دستگیری کی تو آپ کی زندگی ضائع نہ ہونے پائی، لہٰذا آپ ہر حوالے سے ہدایت یافتہ محفوظ و مامون اور مبارک ہیں۔ آپ کام کا ارشاد ہے: ((إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللهِ أَنَا ))
’’بلاشبہ میں تم سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث: 20)
پاک ہے وہ ذات جس نے آپ ﷺ کو نبوت کے لیے چنا اور ساری دنیا کو چھوڑ کر آپ کا انتخاب کیا۔ آپ کی رہبری اور دستگیری کی۔ آپ کی نگرانی فرما کر ہر بات کی ذمہ داری لی اور آپ کو ہر آزمائش سے باعزت طریقے سے گزارا۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺکو تاریکیوں کے لیے سورج اور پیاسوں کے لیے موسلا دھار بارش بنا کر مبعوث فرمایا۔
اللہ تعالی نے آپ کی دعوت کے ذریعے ہم پر بے شمار احسانات کیے۔ آپ کا ہماری طرف مبعوث ہونا سب سے بڑا احسان ہے۔ آپ کی رسالت کے ساتھ اللہ تعالی نے (پہلے انبیاء کی ) سنتوں کو زندہ کیا اور آپ کی سنت کے اتباع کو کامیابی کی سب سے بڑی راہ قرار دیا۔
آپ کی خبر عظیم، بہت بڑا واقعہ، حیرت انگیز پیغام اور عظیم الشان امر ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ۱ عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِۙ۲ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ مُخْتَلِفُوْنَؕ۳﴾
’’وہ آپس میں کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں؟ اس عظیم خبر کے بارے میں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔‘‘ (النبا 1:78-3)
آپ کی بعثت ہی حقیقت میں سب سے انوکھی اور بڑی خبر ہے جو دنیا میں ہر سو تیزی سے پھیلی۔ ہر سوار اور ہر پیدل اسے لے کر چلا اور ہر قصہ گو اور راوی نے اسے بیان کیا۔ زمانہ اس پر حیران و ششدر رہ گیا۔ تاریخ کا دھارا آپ کے لیے گھوم کر واپس آگیا اور وقت کی گھڑیاں تھم گئیں۔ آپﷺ کی بعثت کے قصے کو اندھیرے چھپا سکے، نہ ہوا ئیں اس کے نشانات مٹا سکیں اور نہ بادل ہی اسے اوجھل کر سکے۔ آپ کی بعثت کی داستان تو برو بحر عبور کر چکی، کائنات پر بارش کی طرح نازل ہو چکی اور پوری کائنات پر سورج کی طرح آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے۔ مختصر یہ کہ وہ نور ہے اور نور کب چھپا رہتا ہے؟!
﴿ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَی اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ﴾
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بچھا دیں اور اللہ انکار کرتا ہے مگر یہ کہ اپنا نور پورا کرے، خواہ کافروں کو برا ہی لگے۔ (التوبة 32:9)
آپ ﷺکو اس لیے مبعوث کیا گیا کہ صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی جائے، اس کی وحدانیت کا چرچا ہو اور زمین میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا بلند ہو۔
آپ اس لیے مبعوث ہوئے کہ اللہ تعالی کے حق کا ڈنکا بجے اور باطل کو پاش پاش کر دیا جائے۔ آپ کو روشن دلیل، شاندار ملت اور رواداری والی شریعت دے کر مبعوث کیا گیا۔ آپ عدل و احسان، قریبی عزیزوں پر خرچ کرنے، خیر و سلامتی، نیکی، محبت، اصلاح اور امن و امان کا پیغام لے کر تشریف لائے۔
آپﷺ کو طہارت، نماز، زکاۃ، روزہ، حج، جہاد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ مبعوث کیا گیا۔
اعلیٰ اقدار، مکارم اخلاق، فطری خوبیاں اور فضائل و مناقب آپ کا امتیازی وصف ہیں۔
آپ ﷺشرک و بت پرستی مثانے، جہالت و تاریکی دور کرنے اور باطل کو نیست و نابود کرنے کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے شرف و فضل کی آبیاری کی اور بری عادات و خصائل کا خاتمہ کیا۔ ہر خیر اور بھلائی کی ترغیب دی اور ہر شر اور برائی سے باز رہنے کا حکم دیا۔
آپﷺ چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔ یہ عمر کے عروج و کمال کا دور ہے۔ تب غار حراء میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور وحی کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ شدید کیفیت سے دوچار ہوتے، چہرے کا رنگ بدل جاتا اور آپ پینے سے شرابور ہو جاتے۔ پہلی مرتبہ جب فرشتہ وحی لے کر آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا: پڑھیے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے کہا: ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘ فرشتے نے آپ کو بھینچا یہاں تک کہ آپ کو خاصی تکلیف ہوئی۔ اس نے پھر کہا: پڑھیے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘ فرشتے نے دوسری مرتبہ پھر آپ کو بھینچا تو آپ کو خاصی تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے کہا: پڑھیے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘ فرشتے نے تیسری مرتبہ پکڑ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ آپ کی قوت برداشت جواب دینے لگی، پھر اس نے کہا:
﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚخَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ﴾
’’اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، وہ ذات جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ (العلق 196: 5)
پھر رسول اکرم ﷺسیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا پاس آئے تو آپ کانپ رہے تھے۔ آپ نے جو کچھ دیکھا تھا وہ سیدہ خدیجہ کو بتایا تو انھوں نے آپ کو تسلی دی اور کہا: خوش ہو جائیں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالی آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ بلا شبہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ سچی بات کرتے ہیں۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ فقیروں اور محتاجوں کو کما کر دیتے ہیں۔ مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
پھر سید ہ خدیجہ رسول اللہ ﷺکو ساتھ لے کر اپنے چا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں۔ ورقہ دور جہالت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عبرانی زبان بھی لکھنا جانتے تھے، چنانچہ عبرانی میں حسب توفیق الہی انجیل لکھتے تھے۔
اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ ان سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: بھائی جان اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے پو چھا بھتیجے کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ ﷺنے جو کچھ دیکھا تھا، بیان فرما دیا۔ اس پر ورقہ نے آپ سےکہا: یہ تو وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ) ہے جسے اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا۔ کاش! میں آپ کے زمانہ نبوت میں توانا ہوتا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا، تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟‘‘ ورقہ نے کہا: ہاں، جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ اور اگر مجھے آپ کا زمانہ نصیب ہوا تو میں آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہو گئے۔ (صحيح البخاري، بدء الوحي، حديث (3)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت کے ساتھ جہانوں کو عزت بخشی۔ آپ کی رسالت کے ساتھ زمین کو روشن کیا اور زمین و آسمان کا رابطہ قائم ہو گیا۔ فانی دنیا کو باقی رہنے والی آخرت سے جوڑا اور کمزور و طاقتور کو برابر کر دیا۔ انسانیت کو نئی زندگی ملی اور دنیا میں لا إله إلا اللہ کا اعلان ہوا۔ حریت و آزادی کا دور شروع ہوا۔ صنم پرستی چھوڑ کر مالک ارض و سماء کی عبادت کی جانے لگی۔ بتوں کو سجدے ہونے کے بجائے ایک معبود کو سجدے ہونے لگے۔ جاہلیت کے قلم کے بجائے اسلام کے عدل کا سورج طلوع ہوا۔ دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعت کا شعور بیدار ہوا۔ جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے اور علم کا نور ہر سو پھیل گیا۔ اللہ تعالی نے غار حرا میں اقرا کی وحی سے علم و شعور کا دروازہ کھولا اور پھر ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ۱
قُمْ فَاَنْذِرْ﴾ (المدثر1،2:74) نازل فرما کر اس علم کی نشر واشاعت کا حکم صادر فرمایا۔ یوں تبلیغ آپ کی بنیادی ذمہ داری ٹھہری۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان! پھر آپ 23 سال آرام سے بیٹھے نہ اس ذمہ داری میں کوئی کوتاہی برتی۔ اس کے لیے ہر مشقت برداشت کی، مال و جان کی قربانی دی اور اس راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو جہاد کے ذریعے سے دور کیا۔
آپﷺ نے اپنے پروردگار کے لیے اپنی روح، وقت، دل، خون اور آنسو سب کچھ پیش کر دیا اور اپنی امت کو وہ کچھ دیا جو کوئی انسان روئے زمین پر کسی کو نہ دے سکا۔
اور آپ پر یہ وحی اتری: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۲﴾
’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات میں قیام کیجیے مگر تھوڑا سا‘‘ (المزمل1،2:73)
یہ روحانی طور پر آپ ﷺ کی تیاری تھی، آپ کے لیے آیندہ زندگی میں پیش آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کی راہ ہموار کی جارہی تھی، چنانچہ آپ کو یا ایھا المزمل اور یا ایھا المدثر کے ساتھ بیک وقت عبادت اور دعوت کے لیے تیار کیا جا رہا تھا کہ تحصیل علم کے لیے رات کو قیام کریں اور پھر اس کی ترسیل تبلیغ کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ رات کو اٹھ کر اللہ سے مدد مانگیں اور دن کے وقت اس کا پرچار کریں۔
نبیﷺ کا دین
آپ ﷺکا دین اسلام ہے جو دین فطرت، دین وسط، دین حق اور دین فوز و فلاح ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾
’’اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘ (آل عمران 85:3)
یہ ایسا دین ہے جو امت سے جہالت کے طوق اور بوجھ اتارنے کے لیے آیا، جو نہایت سہیل، آسان، عام فہم اور شامل و کامل ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ﴾
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘ (المائدۃ3:5)
یہ ایسا عظیم دین ہے جو لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت اور بندگی کی طرف لاتا ہے۔ یہ دنیا کی تنگی سے نکال کر آخرت کی آسانی کی طرف، شرک کے اندھیروں سے توحید کے نور کی جانب اور کفر کی بدبختی سے ایمان کی سعادت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔
یہ دین ہر زمان و مکان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اس دین کا شارع وہ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور وہ انسان کی پوشیدہ اور اس کی علانیہ باتوں کے ساتھ ساتھ اس کی سرگوشیوں کو بھی جانتا ہے۔ یہ بہترین دین ہے جو اپنے ساتھ نفع بخش علم اور نیک اعمال لایا ہے۔
یقیناً اللہ تعالی نے اپنے رسول محمدﷺ کو ان پڑھوں (امیوں) میں اس طرح بھیجا کہ دنیا کا کوئی انسان آپ کا استاد نہیں۔ آپ نے لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کیں، ان کا تزکیہ کیا اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دی۔ آپ کی آمد سے پہلے یہ لوگ بھٹکے ہوئے اور گمراہ تھے۔ یہ دین آیا تو اس نے جھوٹے قول و کردار اور جھوٹی گواہی کو حرام قرار دیا۔ ظلم و تشدد کا ہر طرح سے خاتمہ کیا۔ ناپ تول میں کمی سے منع کر دیا۔ دوسروں پر زیادتی، سرکشی، ایذا رسانی حتی کہ خود اپنی ذات کو نقصان پہنچانے سے بھی روک دیا۔ ایمان کے ذریعے سے دل کی حفاظت کی۔ جسمانی پرورش کے لیے صحت کے اصول متعین کیے۔ اموال کے ضائع ہونے کا سد باب کیا۔ عزت، خون اورعقل کی پامالی اور ضیاع کی روک تھام کی۔
بلا شبہ آپﷺ کی بعثت کا ئنات کی اصلاح، نجات، سلامتی اور عدالت قائم کرنے کے لیے ہوئی۔ رسول اکرم ﷺ اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرتے اور فرماتے: ((أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»))
’’میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حديث: 2278)
اور آپﷺ نے فرمایا: «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ الْغَيْثِ))
’’اللہ تعالی نے جو ہدایت و علم دے کر مجھے بھیجا ہے، اس کی مثال تیز بارش کی سی ہے جو زمین پر برسے‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حديث: 79)
چنانچہ آپ صالح و مصلح ہیں۔ آپ کتاب و سنت نور و ہدایت، نفع بخش علم اور نیک عمل لے کر آئے۔
ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِىْ إِلٰى صِرَاطٍ مُسْتَقِيْمٍ﴾
’’اور بلا شبہ آپ سیدھے راستے ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (الشوری 52:42)
آپ دین و دنیا کی بہتری اور بھلائی، روح و جسم کی بیہود علماء کو تعلیم دینے، فقہاء کو سمجھانے، خطباء کی راہنمائی کرنے اور حکماء کی رہبری کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپ نے لوگوں کی درست سمت راہنمائی کی۔ آپﷺ امام معصوم اور نبی مرسل ہیں۔ آپ ہر بادشاہ و ماتحت، اقلام و آزاد، امیر وغریب، سیاه و سفید اور عربی و عجمی کو خوشخبری دینے اور ڈرانے والے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَلَمِينَ﴾
’’اور (اے نبی !) ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے ہی بھیجا ہے۔‘‘ (الأنبياء 107:21)
آپ ﷺنے اپنی رسالت و دعوت کی وضاحت حدیث جبریل میں فرمائی۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:
’’ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتی کہ وہ آکر نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنے ہاتھ آپﷺ کی رانوں پر رکھ دیے اور کہا : اے محمد (ﷺ)! مجھے اسلام کے بارے میں بتائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ (طے کرنے) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔(سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: ہمیں تعجب ہوا کا آپ سے پوچھتا ہے اور (خود ہی) آپ کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ’’جس سے اس (قیامت) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نے کہا: پھر مجھے اس کی علامات بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’( علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، نگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: پھر وہ سائل چلا گیا، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ ﷺنے مجھ سے کہا: ’’اے عمر !تمھیں معلوم ہے کہ پو چھنے والا کون تھا؟“ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: وہ جبرائیل علیہ السلام تھے تمھارے پاس آئے تھے تمھیں تمھارا دین سکھا رہے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 8)
بلاشبہ یہ عظیم حدیث آپ ﷺ کی زبانی آپ کے نبوی تشخص کی آئینہ دار ہے اور اس میں آپﷺ اسلام کے اعتدال پسند، آسمان اور رواداری پر مبنی دین ہونے کا پیغام پیش کرتے ہیں اور اپنی دعوت کی ترجمانی کرتے ہیں کہ وہ دعوت رحمت ہے جو حکمت اور اچھی نصیحت پر مبنی ہے۔ اس حدیث کو پیغام اسلام کا خلاصہ کا نام دینا چاہیے۔
رسول اکرم ﷺ اللہ کی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِّنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُوْرًا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِّنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وأُعْطِيْتُ الشَّفَاعَةَ))
’’مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں دی گئیں: مجھے ایک مہینے کی مسافت سے رعب عطا کر کے میری مدد فرمائی گئی۔ پوری روئے زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا، چنانچہ میری امت کے کسی فرد کو جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، اسی جگہ نماز پڑھ لینی چاہیے۔ مال نیمت میرے لیے حلال کر دیا گیا۔ اور مجھ سے پہلے ہر نبی کو مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کے لیے مبعوث کیا گیا اور مجھے شفاعت کبری کا حق دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلاة، حديث (430)
اس لیے ہمارے رسول تمام جہانوں کے سردار، خاتم النبیین اور جن و انس کے پیغمبر ہیں۔ آپ دونوں گروہ جن و انس کے عام اور فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے والے ہیں۔ آپ نے دونوں قبلوں کی جانب نماز پڑھی۔ آپ اپنی نبوت کے ہر اقدام میں معصوم اور رسالت کے ہر پیغام میں مؤید و منصور ہیں۔ عدالت کا معاملہ ہو تو آپ عدل و صدق کا پیکر اور شاہد ایسے کہ آپ کی گواہی پوری امت کے متعلق تسلیم ہو۔ بشیر ایسے کہ آپ کی کے بشارت کا چرچا عام اور نذیر ایسے کہ آپ کا ڈراوا ہر سو عام ہے۔ سراج منیر ایسے کہ اس کی کرنیں ہر سمت کو روشن کر رہی ہیں۔ کریم ایسے کہ آپ کی شہرت پورے عالم میں پھیل چکی۔ آپ ﷺ سے ہدایت نہ لینے والا دھتکارا ہوا اور آپ کو پیشوا نہ رکھنے والا محروم ہے اور جو آپ کو امام نہ مانے، دو ذلیل و رسوا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ولَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا)
’’بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (الأحزاب 21:33)
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
’’میری اور جس دعوت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور اس سے کہا: اے قوم! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں واضح طور پر تمھیں ڈرانے والا ہوں، لہذا تم بچاؤ کی کوئی صورت اختیار کرو۔ اس قوم کے ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں وہاں سے نکل بھاگے اور محفوظ جگہ پر چلے گئے، اس لیے نجات پاگئے۔ ان میں سے دوسرے گروہ نے اسے جھٹلایا اور اپنی جگہ ہی موجود رہے تو لشکر نے صبح ہوتے ہیں ان پر حملہ کر دیا اور ان کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ ہے مثال اس شخص کی جس نے میری اطاعت کی اور جو میں اللہ کی طرف سے لایا ہوں، اس کی پیروی کی۔ اور اس شخص کی مثال بھی ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق لے کر میں آیا ہوں، اسے جھوٹ قرار دیا۔‘‘ (صحيح البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، حديث (7283)
لہٰذا آپﷺ کی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ آپ کی سنت کو لازم پکڑیں۔ آپ کے طرز زندگی کو اپنا ئیں اور آپ کے دین کی پیروی کریں۔ دنیا و آخرت کی کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی۔ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ یقین پختہ ہوگا اور رب العالمین کی رضا حاصل ہوگی۔
نبی ﷺکی نبوت کے دلائل
یہ ضروری ہے کہ آپ شہادتین کا اقرار پورے علم و یقین سے کریں۔ اسے پورے اخلاص، صدق و محبت اور فرمانبرداری سے قبول کریں لیکن اگر آپ کو نبی ﷺکی نبوت و رسالت کے دلائل ہی معلوم نہیں تو آپ یہ درجہ کیسے حاصل کر سکیں گے؟
ذیل میں اس کے بعض دلائل و براہین ذکر کرتا ہوں جو زیادہ فصاحت و بلاغت اور فلسفہ و منطق پر مبنی نہیں ہیں۔ میں سادہ الفاظ میں آپ کی ذہنی سطح کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ آپ نظر وفکر سے کام لے کر میرے دعوے کو سننے کے بعد اس کا جائزہ ضرور لیں اور دلائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
آپ جانتے ہیں کہ آپﷺ کی نبوت کو چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران میں لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں لوگ آئے جن میں علماء، دانشور، خلفاء، پادشاه، امراء، وزراء، شعراء، انجینئرز، اطباء اور دیگر عبقری شخصیات بھی تھیں۔ وہ سب گواہی دیتے تھے کہ محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ اتنی صدیوں میں انھیں اس قدر پختہ ایمان پر کسی چیز نے آمادہ کیا ؟ کیا وہ سب دھوکے میں مبتلا رہے ؟! دلائل ان پر خالی رہے اور مسئلے کی حقیقت ان پر نہ کھلی؟ یا معاملہ ان سے پوشیدہ رہا اور وہ حقیقت کو جانے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے ؟! یہ ناممکن اور محال ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اتنے لمبے عرصے میں لکھی جانے والی ہزاروں کتا بیں گمراہی اور جھوٹ پر متفق ہوگئی ہوں۔ پھر ہر براعظم میں بسنے والے لاکھوں عرب، ایرانی، بربر، ترک، کرد، ہندوستانی، افریقی اور دنیا کی مختلف تہذیبوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ گواہی دیتے آرہے ہیں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ زبان و جنس، رنگ ونسل، زمانوں اور شہروں کے مختلف ہونے کے باوجود ان سب لوگوں کا آپ کام پر ایمان لانا یقیناً ان دلائل و براہین کی بنیاد پر تھا جو ان تک پہنچے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے نبی و رسول ہیں۔
1۔ قرآن عظیم
سب سے افضل کتاب اور عظیم ترین دستاویز قرآن مجید ہے۔ یہ سب سے خوبصورت اور روشن واقعات، افضل کلام اور عالی شان پند و نصائح پر مشتمل ہے۔ یہ ایسا زبردست حق ہے کہ باطل اس کے آگے پیچھے پھٹک بھی نہیں سکتا۔ یہ حکیم و حمید پروردگار کا نازل کیا ہوا ہے۔ یہ ایسی عظیم کتاب ہے جس کی آیتیں مفصل و محکم ہیں۔ اس کی تلاوت، اس میں تدبر، اس سے شفا حاصل کرنا، اس کو فیصلہ کن ماننا اور اس پر عمل کرنا نہایت مبارک ہے۔ اس کے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں۔ قرآن مجید ایسا سفارشی ہے کہ اس کی شفاعت کی قبولیت یقینی ہے۔ یہ سچا گواہ ہے۔ فائدہ مند ہم نشین ہے۔ امانت دار ساتھی ہے۔ یہ متاثر کن معجزہ ہے۔ اس میں مٹھاس اور شیرینی ہے۔ یہ ہمیشہ غالب اور بلند رہتا ہے، کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ یہ جادو، شاعری، کہانت اور کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ اول آخر اللہ کی طرف سے ہے جسے روح الامین (جبریل) نے رب العالمین کی طرف سے واضح عربی زبان میں رسول اکرم ﷺکے دل پر اتارا تاکہ آپ رسولوں میں شامل ہو جائیں۔ یہ وہ کتاب ہے جو فصاحت و بلاغت میں تمام کتابوں سے بڑھ کر اور دلائل و بیان میں سب پر فائق ہے۔ یہ ہدایت، رحمت، نصیحت، نور، برهان، رشد و ہدایت، تعلیم اور سینوں کے امراض کے لیے شفا ہے۔
یہ ہر قسم کی تحریف و تبدیلی اور کی و زیادتی سے محفوظ ہے۔ یہ ایسا دائی معجزہ ہے کہ جو اس کی پیروی کرے، اسے ہر قسم کی گمراہی سے بچاتا ہے۔ جو اس پر عمل کرے، اس کے لیے نجات ہے، جو اسے رہنما بنائے، اس کے لیے سعادت ہے اور جو اپنی زندگی میں اس کو ہادی و حاکم بنائے، اس کے لیے دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی ہے۔
رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے: ((اقْرَؤُوا القُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيْعًا لِّأَصْحَابِهِ))
’’قرآن مجید پڑھو، بلاشبہ قیامت کے دن یہ اپنے ساتھیوں کی شفاعت کرے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة
المسافرين، حديث: 804)
اور آپﷺ نے فرمایا: ((خَيْرُكُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ))
’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘ (صحيح البخاري، فضائل القرآن، حدیث (5027)
مزید فرمایا: ((إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ))
’’بلاشبہ اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے سے کئی لوگوں کو باند کرتا ہے اور دوسرے کئی لوگوں کو اس کے ذریعے سے پست کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرين، حدیث: 817)
’’یہی وہ کتاب ہے جس نے بڑے بڑے شعراء اور خطباء کو لاجواب کر دیا۔ بڑے بڑے فصاحت و بلاغت والے اس کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اس نے بڑے بڑے علماء، دانشوروں اور عربی دانوں کو حیرت زدہ کر دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾
’’بے شک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور مومنوں کو بشارت دیتا ہے۔‘‘ (بنی اسراءیل 9:17)
جیسا کہ ایک شاعر نے بھی کہا ہے:
آياته كُلَّمَا طَالَ الْمَدٰى جُدَدٌ
زَيَّنَهُنَّ جَلَالُ الْعِتْقِ وَالْقِدَمِ
يَكَادُ فِي لفظةٍ مِّنْهُ مُشَرَّفَةٍ
يُوصِيك بِالْحَقِّ وَالتَّقْوَى وَ بِالرَّحِمِ
’’زمانہ جتنا بھی بیت جائے، اس کی آیات نئی صورت میں جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ قرآن کے شرف و قدامت کے جاہ و جلال نے اس کی آیات کو زینت بخشی ہے۔ عین ممکن ہے کہ عزت و شرف والا اس کا ایک لفظ ہی مجھے حق و صداقت، تقوی وطہارت اور صلہ رحمی کی تلقین کر دے۔‘‘
نبی اکرمﷺ نے قدرت کے عجائبات اور مخلوقات کے بارے میں معجزانہ معلومات فراہم کیں جیسا کہ آپ کو وحی کے ذریعے سے سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں کی گردش، ہواؤں کے چلنے، نباتات، جنت، جہنم، جادو اور جن و انس کے جہانوں کے متعلق معلومات بہم پہنچائی گئیں۔
پھر آپ ﷺنے انسانی تخلیق کی وہ ساری تفصیلات بھی بیان کیں جو اللہ تعالی نے بذریعہ وحی آپ کو بتا ئیں۔ ایسی معجزانہ کتاب کی قراءت ہمارے سامنے کی جو انسان کی ذاتی زندگی، خاندان، جنگ و سلامتی، اقتصاد و مالیات بین الاقوامی معاہدوں، قبائلی و عائلی قوانین، انسانی حقوق و فرائض، حلال و حرام کے مسائل اور حیوانات تک کے حقوق کا ذکر کرتی ہے۔ ان تمام افکار و آراء، حدود و قیود اور قوانین وضوابط کو بیان کرتی ہے جن سے اہل علم آج تک مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کے ہر موضوع پر ہزاروں کتا ہیں لکھی گئیں، فقہاء نے اس صافی چشمے سے استفادہ کر کے کتا بیں تصنیف کیں۔ مفسرین نے اس کے خزانوں کو کھولنے کے لیے لاکھوں صفحات قلمبند کیے۔ قاضی، مفتی اور حکمران اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس معصوم نبی سے مل سکتا تھا جس کی طرف اللہ تعالی نے وحی کی ہو۔ اس نبی معظمﷺ نے اس سے پہلے انسانی علوم یا کسی بھی خصوصی علم کا نہ کبھی درس لیا، نہ اس کے بارے میں پڑھا حتی کہ ایک صفحہ اور ایک سطر تک نہ پڑھی نہ لکھی!
بلاشبہ قرآن مجید لاجواب کر دینے والا معجزہ ہے جس نے اپنے الفاظ و معانی اور بیان کے ساتھ بڑے بڑے فصیح و بلیغ عربوں کا ناطقہ بند کر دیا، ان کو مات دی اور چیلنج کیا مگر وہ اس جیسا کلام پیش نہ کر سکے۔ دس سورتیں تو کجا، وہ اس جیسی ایک سورت بھی نہ بنا سکے۔ اللہ تعالی نے پوری انسانیت کو یہ چیلنج دیا اور آج ساڑھے چودہ سو سال گزرنے کے باوجود کوئی فلسفی، عالم، شاعر، خطیب اور صیح و بلیغ ادیب اسے قبول کرنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ اگر مسیلمہ کذاب جیسے کسی بد بخت نے اس کی جرأت کی بھی تو وہ اپنے بے ڈھنگے اور پھسپھسے کلمات کے باعث نہ صرف پوری دنیا کے سامنے مذاق بنا بلکہ بری طرح ذلیل و رسوا ہوا اور قرآن مجید آج بھی بلکہ قیامت تک اپنے عاجز کر دینے والے چیلنج کے ساتھ سر بلند ہے۔
2۔ حدیث نبوی
حدیث وہ وحی، حکمت اور معجزہ ہے جو حدیث کی کتب صحاح سفن، مسانید اور معاجم میں نقل ہوتی ہم تک پہنچی ہے۔ ان احادیث کو ہزاروں حفاظ، ثقات اور معتبر ائمہ نے روایت کیا ہے۔ احادیث کے بارے میں ڈاکٹریٹ اور ماسٹر لیول کے ہزاروں مقالے دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں لکھے گئے۔ ان سب میں رسول اکرمﷺ سے منقول فرامین کے متن، اسناد، اسباب ضعف، استنباطات، فقہی مسائل اور بلاغت و بیان کو زیر بحث لایا گیا۔ ایک ایک حدیث کی شرح میں پوری پوری کتا میں لکھی گئیں، جیسے حافظ ابن ناصر دمشقی نے حدیث ’’کلمتان خفیفتان‘‘ پر اور حافظ عراقی نے حدیث ’’سید الاستغفار‘‘ پر پوری ایک جلد مرتب کی۔ کئی محدثین نے چار کلمات کے متعلق پوری پوری کتاب لکھی اور ان کے علاوہ کئی احادیث کی شروحات لکھی گئیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس قدر فصیح و بلیغ، معجز نما، نیز خطا، لغزش، اضطراب اور تناقض سے پاک کلام اللہ کے بھیجے ہوئے معصوم نبی کے سوا کسی کا ہو؟ آپ نبی اکرمﷺ کے کلام کا علماء، خطباء، ادباء اور شعراء کے کلاموں سے موازنہ کر کے دیکھ لیں، آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔
عصر حاضر کے ایک ادیب کا کہنا ہے کہ جب آپ کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں داخل ہوں اور دیواروں پر لکھنے مختلف فصیح و بلیغ ادباء وعلماء کے اقوال زریں دیکھیں اور پھر آپ کوئی حدیث نبوی پڑھیں تو آپ کے دل میں فوراً یہ تاثر آئے گا کہ یہ بات کسی نبی کے سوا کوئی دوسرا نہیں کہہ سکتا۔ اس کی اپنی ہی چاشنی، ذوق اور تاثیر ہے اور یہ آپ ﷺ کے معجزات اور دلائل نبوت میں سے ہے۔
3۔ نبیﷺ کی عمدہ خصوصیات، جلیل القدر صفات اور خوبصورت اخلاقیات
بلاشبہ اللہ عزوجل نے آپ ﷺکو فطری طور پر اس طرح مکارم اخلاق، خوبصورت خصائل و صفات اور عمدہ خوبیوں کا مالک بنایا کہ آپ کے دشمن بھی آپ کے اخلاق میں کوئی جھوٹ، لغزش اور عیب تلاش نہ کر سکے۔ انھوں نے آپ ﷺمیں عیب تلاش کرنے اور آپ کی زندگی کو داغدار ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر دشمنی، حسد اور بغض و عداوت کے باوجود ہمیشہ اپنے حربوں میں ناکام رہے۔
دیکھیں، کوئی انسان تریسٹھ سال ایک معاشرے میں رہے اور لوگوں کی اکثریت اس کی دشمن اور حاسد ہو اور وہ ہر وقت اس انسان کے عیبوں کی ٹوہ میں رہتے ہوں کہ اس کا کوئی گناہ مل جائے جس سے اس کی عزت داغدار ہو یا کم از کم اس کی شان میں کمی ہی ہو جائے مگر انھیں کوئی گناہ اور عیب نہ ملے تو اس انسان کی شان کسی قدر بلند ہوگی ؟!
رسول اکرم ﷺمیں جمال و کمال اور جاہ و جلال کی صفات پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھیں۔ آپ نے پیدائش سے وفات تک کبھی جھوٹ بولا نہ دھوکا دیا، خیانت کی نہ گناہ اور غداری کے مرتکب ہوئے۔ آپ حسد، کینه، وعدہ خلافی، تکبر، غرور، سرکشی، بغاوت، ظلم اور گناہ جیسے مذموم اوصاف سے کوسوں دور تھے بلکہ اللہ تعالی نے آپ کو ہر برے اخلاق سے دور اور ہر قبیح وصف سے محفوظ رکھا۔ آپ صادق و مصدوق، طاہر و مطهر، طیب و مطیب، ہر لغزش سے معصوم، ہر بے ہودگی سے پاک اور ہر بدنما داغ سے بری ہیں۔
اللہ تعالی کی نبی ﷺکی مدد و نصرت اور فتح مبین کے ساتھ تائید نبی ﷺ نے اپنے رب کی طرف بلانا شروع کیا تو آپ اکیلے تھے، پھر بزرگوں میں سے سیدنا ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ خواتین میں سے آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، بچوں میں سے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور آزاد کردہ غلاموں میں سے سیدنا زید بن حارثہرضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے۔ بعد ازاں دین پھیلنا شروع ہوا اور آپ کے انصار و اعوان اور حمایتی بڑھنے لگے۔ آغاز میں پورا جزیرہ نمائے عرب آپ کا دشمن تھا۔ اس دشمنی میں قریش، عرب قبائل، یہود اور منافقین سب متحد تھے۔ انھوں نے آپ پر کئی دفعہ لشکر کشی کی، حملے کیے، سازشیں کیں، مکر و فریب کے جال بنے مگر اللہ تعالی کی نصرت و تائید سے یہ سب شکست سے دوچار اور ذلیل و رسوا ہوئے اور آپﷺ فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ پھر آپﷺ نے جزیرہ نمائے عرب ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کا دین مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں کرہ ارض کے اطراف و اکناف تک پھیلا اور تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے پیروکاروں کی تعداد اربوں میں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی فریبی، گناہ گار، دجال، مغرور یا جھوٹے کی دعوت، جھوٹ اور دجل چودہ سو سال چھپا رہے اور اس کا پول نہ کھلے؟
مسیلمہ کذاب کا پول چند سال میں کھل گیا اور تاریخ میں تقریبا تیس جھوٹے نبوت کے دعویداروں کا ذکر ملتا۔ جن کا پردہ فاش ہوا۔ جب بھی کوئی افترا پرداز، مجرم، دجال یا شر پسند کذاب اٹھا، اللہ تعالی نے اس کا راز فاش کر دیا اور جہان والوں کے سامنے اسے ذلیل و رسوا کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ جہاں تک ہمارے نبیﷺ کا تعلق ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کا مقام و مرتبہ بڑھایا۔ آپ کی شان بلند کی۔ آپ کا سینہ مبارک کھولا اور آپ کو صداقت میں تمام کا ئنات کے لیے ضرب المثل بنا دیا۔
نبیﷺ کی رضائے الہی کے حصول کے لیے خالص دعوت
آپ ﷺنے روز اول ہی سے باری تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی اور یہ اعلان کیا کہ میرا مقصد جاہ و مال اور بادشاہت کا حصول ہرگز نہیں بلکہ میرا مقصد صرف لوگوں کی ہدایت ہے اور آپ اپنے اس کلمے اور سچائی پر تاحیات قائم رہے یہاں تک کہ اپنے رب سے جائے۔ آپ نے نہ تو درہم و دینار کا ترکہ چھوڑا، نہ محلات بنائے اور نہ خزانے جمع کیے۔ آپﷺ فوت ہوئے تو آپ کی زرہ یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی اور آپﷺ نے فرمایا: ((لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ))
’’ہماری وراثت نہیں ہوتی۔ ہم جو چھوڑ جائیں، وہ صدقہ ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الخمس، حدیث: 3092) اور یہ بات اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہی کہہ سکتا ہے جو اللہ کی وحی کے مطابق چلتا ہو اور اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا اور آخرت کا حصول ہو۔ اس کے برعکس جو شخص بادشاہت، جاہ و منصب، شہرت یا مال کے حصول کے لیے کوشاں ہو، اس کا معاملہ تمام لوگوں پر عیاں ہو جاتا ہے اور چند ہی دنوں میں اس کے مقاصد کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ یقیناً آپﷺ نے اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانے کے لیے بہت زیادہ مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور بڑے مصائب و آلام سے گزرے۔ آپ کے پیش نظر کوئی مادی اور دنیاوی فائدہ ہرگز نہ تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿قُلْ مَا اسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ﴾
’’(اے نبی !) کہہ دیجیے: میں تم سے اس (تبلیغِ دین) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، اور میں تکلف (بناوٹی کام) کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ (ص 86:38)
آپ ﷺاپنی وفات تک صبر و تحمل سے ساری مشکلات برداشت کرتے رہے۔ دعوت کا کام بغیر سستی و کوتاہی اور تردد کے جاری رکھا بلکہ پوری ہمت و جرات سے اللہ کا نازل کیا ہوا پیغام پہنچایا اور یہ آپ کی صداقت اور اللہ کے نبی و رسول ہونے کی دلیل ہے کیونکہ مادی مقاصد کے لیے کام کرنے والوں کا صبر ایک حد پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر انھیں دنیاوی مقاصد حاصل نہ ہوں تو ان کا صبر جواب دے جاتا ہے، دوست پڑ جاتے ہیں اور اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔
صحیح احادیث میں سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا قبل از اسلام بازنطینی رومی سلطنت کے حکمران ہر قتل کے ساتھ مکالمہ یہ منقول ہے کہ ہر قل نے ان سے نبی ﷺکے بارے میں پوچھا: کیا ان کے آباء واجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: اگر اس کے آباء واجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ وہ شخص یہ سب کچھ اپنے آباء و اجداد کی سلطنت کے حصول کے لیے کر رہا ہے۔ (صحيح البخاري، التفسير، حديث: 4153)
ہر قل نے اس بات سے استدلال کیا کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ نے کسی سلطنت یا آباء و اجداد کی حکومت واپس لینے کے لیے کوشش نہیں کی اور نہ آپ مال جمع کرنے کے لیے آئے۔ آپ ان دونوں ہاتوں سے بری تھے کیونکہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ استدلال میں کے پیروکاروں کا نہیں بلکہ دشمنوں کا ہے، یعنی رومی بادشاہ ہر قتل اور قبول اسلام سے پہلے ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔
6۔ ہزاروں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی آپ ﷺ کے لیے گواہی
ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو صحابیت کا شرف حاصل ہوا جو سفر و حضر، دن رات، آنے جانے، جنگ و امن، خوشی نمی، بھوک پیاس اور صحت و بیماری میں آپ نام کے ساتھ رہے۔ انھوں نے آپ کے اقوال و افعال اور معاملات و اخلاق کا گہرا مطالعہ کیاس حوالے سے آپ کو نہایت کھرے اور راستباز پایا کیونکہ ہر اچھے اخلاق اور اعلیٰ اوصاف میں آپ ﷺسرفہرست اور سب سے آگے تھے۔ سچائی، امانت، عجز و انکسار، زہد، عدل و انصاف، کرم، شجاعت و بہادری اور سخاوت و وفا شعاری جیسی تمام اعلیٰ صفات نہ صرف آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں بلکہ کوئی دوسرا شخص ان اعلی صفات و عادات اور خصوصیات میں آپ ان کے قریب بھی نہ جا سکا۔ آپ ﷺ فضائل و مناقب کے باب میں سب سے آگے ہیں۔
بے شمار صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم ، بچپن ہی سے آپ اللہ کے رفیق کار اور آپ سے پوری طرح واقف تھے۔ وہ نہایت ذہین وفطین اور بیدار مغز لوگ تھے، جیسے سیدنا ابوبکر و عمر، عثمان و علی، طلحہ و زبیر، سعد بن ابی وقاص، خالد بن ولید اور عمرو بن عاص وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم ۔ اس پر مستزاد یہ کہ آس پاس کے جتنے قبائل مسلمان ہوئے، وہ سب آپﷺ کی صداقت کے متفقہ گواہ تھے۔ وہ آپ کے معجزات کا مشاہدہ کرتے اور آپ کی احادیث سنتے تو ان کا ایمان اس قدر بڑھ جاتا کہ وہ آپ کے دین کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر دیتے اور اللہ کی راہ میں شہادت پانا اپنے لیے سب سے بڑی سعادت سمجھتے۔
یہ اعزاز تاریخ میں ہمارے نبی ﷺکے علاوہ کسی لیڈر کو حاصل نہیں کہ آپﷺ کے صدیوں بعد آنے والے پیروکار جنھوں نے آپ کو دیکھا تک نہیں، وہ بھی آپ سے ویسی ہی عظیم محبت، مضبوط ایمان اور قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس جذبہ ایثار کی مثال دوسری قوموں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان نیکو کار ہستیوں کو اس گہری محبت پر صرف نبی صادق ﷺکے اس پیغام نے آمادہ کیا جو آپ نے ان کے دل و دماغ میں پختہ کر دیا تھا۔
7۔نبیﷺ کے ہاتھوں انسانی تاریخ کی بہترین تہذیب کا قیام
نبی اکرمﷺ عربوں کی طرف مبعوث ہوئے جو بادیہ نشین اور ان پڑھ تھے۔ وہ کسی تہذیب و تمدن کے مالک تھے نہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے بلکہ اونٹوں، گالیوں اور بکریوں کے چرواہے تھے۔ آپﷺ نے اپنی رسالت کے ساتھ ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی اور زندگی کے ہر شعبے کے متعلق ہدایات جاری فرمائیں۔ اللہ تعالی نے اس وقت تک آپ کو فوت نہیں کیا جب تک آپ پر یہ آیت نازل نہیں کی: ﴿اَلْيَوْمَ اكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتْ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًا﴾
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘ (المائدة 3:5)
آپ خود آگے بڑھ کر اسلامی عبادات کا مطالعہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ تمام عبادات فروع و اصول میں اس قدر کامل ہیں کہ ان میں کوئی نقص یا کمی ہے نہ کسی اضافے کی گنجائش ہے، یہاں تک کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ)
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کیا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأقضية، حديث:1718)
سود کی مثال لے لیں۔ نبی اکرم ﷺنے سود کے بارے میں بڑی تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔ عصر حاضر کے اقتصادی ماہرین رسول اکرم ﷺکے فرمودات سے بہت زیادہ رہنمائی لیتے ہیں جبکہ اسلام کا معاشی نظام کتاب و سنت پر قائم ہے۔ اسی طرح حدود، امن، جنگ اور عورتوں کے احکام ہیں۔ مذکورہ تمام امور کو اس طرح تفصیل سے واضح کیا گیا ہے کہ مشرق و مغرب کے علماء کلی طور پر باقی ہر چیز سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ متعدد اسلامی ریاستوں میں چودہ سو سال سے آپ ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلے ہوتے آ رہے ہیں اور یہ صرف میراث نبوت کی برکت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے سوا کسی انسان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔
8۔ نبیﷺ کی دعوت واضح اور زندگی کھلی کتاب ہے
آپ ﷺکی دعوت میں کوئی ابہام ہے نہ آپ کی شخصیت میں کوئی الجھاؤ بلکہ آپ کی سیرت و دعوت سامعین و ناظرین کے لیے کھلی کتاب ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں آپ ﷺ کی بعض دلی الجھنوں اور پوشیدہ باتوں کے بارے میں بھی بتا دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلٰى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيْثًا﴾
’’اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے ایک بات چھپا کر کہی۔‘‘ (التحریم 3:66)
اور ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْـًٔا قَلِیْلًاۗۙ﴾
’’اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بلا شبہ یقیناً قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا سا جھجک جاتے۔‘‘ (بني إسراءیل 74:17)
اور آپ کے رب نے علانیہ آپ کو تنبیہ فرمائی: ﴿عَبَسَ وَتَوَلّٰى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمٰى﴾
’’اس نے ماتھے پر شکن ڈالے اور منہ پھیر لیا۔ اس لیے کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا۔‘‘ (عبس 1،2:80)
اور اللہ تعالی نے فرمایا:﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ﴾
’’(اے نبی!) اللہ نے آپ کو معاف کر دیا، آپ نے ان (منافقین) کو رخصت کیوں دی؟‘‘ (التوبة 43:9)
اور ایک مقام پر فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾
’’اے نبی! آپ کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ؟‘‘ (التحریم1:66)
اللہ تعالی نے یہ سب کچھ کھلے عام لوگوں کو بتا دیا۔ ہمارے رسول میں کم ایسے دلائل لائے جو سورج کی طرح واضح ہیں۔ آپ نے جھوٹ گھڑنے والوں، جعل سازوں، دجالوں اور جادوگروں کی طرح نہیں کیا جو فکر ونظر کا دھوکا دے کر اپنی دجالی حرکات، طلسمات اور نظر بندیوں کے ذریعے سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں۔
9۔نبی کریمﷺ نے سابقہ تمام انبیا ﷺ کی تصدیق کی
آپﷺ نے دعوت توحید میں سابقہ تمام انبیاء ﷺ کی تصدیق کی۔ توحید وعبودیت کے حوالے سے سب کی دعوت یکساں اور متفقہ ہے۔ اس میں ذرہ بھر اختلاف نہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أَمَةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾
’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ ‘‘(النحل36:16)
یہ مطابقت و موافقت اتفاقی نہیں بلکہ خالص اللہ کی تقدیر اور فیصلے سے ہے اور یہ آپ ﷺ کی نبوت کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولِ الَّا نُوْحِيْ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾
’’اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا، اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں، لہذا تم میری ہی عبادت کرو۔ ‘‘ (الأنبياء 25:21)
آپﷺ نے فرمایا:
((اَلْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لَعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتّٰى، وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ))
’’تمام انبیاء پدری بھائی ہیں۔ ان کی مائیں، یعنی شریعتیں مختلف ہیں مگر دین سب کا ایک ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث (3443)
10۔ آپ ﷺکا دین کامل اور شریعت محکم ہے
جو شریعت نبی اکرم ﷺلائے، وہ اس قدر محکم اور دو ٹوک ہے کہ انسانی عقل اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ عبادات ہی پر غور کر لیں، مثلاً: نماز میں کتنے اسرار و رموز اور حکمتیں بھی ہیں۔ ادعیہ و اذکار، قیام، رکوع، سجود اور تشہد وغیرہ کی ایسی ترتیب اور نظام ہے کہ غور و فکر کرنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ پھر نوافل، فرائض، نماز جمعہ نماز خوف، عیدین، کسوف و خسوف، استقاء اور جنازے وغیرہ کے مختلف اذکار اور ادائیگی کے طریقہ کار کا تنوع حیران کر دینے والا ہے۔ پھر ان تمام دعاؤں، اذکار اور کیفیات کا کامل ترین شکل میں ثقہ اور معتبر افراد کے ذریعے سے نقل در نقل ہم تک پہنچنا کسی معجزے سے کم نہیں۔
روزے کے احکام اور روزہ توڑنے اور خراب کرنے والے امور پر غور کر لیں۔ حج کے ارکان، احرام، طواف، سعی، وقوف، رمی، منی میں رات گزارنے، نحر، بال منڈوانے اور کٹوانے کو دیکھیں۔ ہر ایک عمل کی مکمل تفصیل ذکر کر دی گئی ہے۔ زکاۃ کا نصاب اور اموال زکاة، مثلاً: اونٹ، گائے، بکریاں، غلہ، معدنیات وغیرہ تمام چیزوں کی پوری تفصیل آپ کو ملے گی۔ اس کے علاوہ اسلام کے جتنے احکام اور حدود و شرائع ہیں، سب کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ کیا اللہ کے نبی کے سوا کوئی اور ایسا کر سکتا ہے؟
11۔ دعوت نبوی کی قیامت تک عالمی پذیرائی
آپ ﷺکی نبوت و رسالت کو قبول عام حاصل ہونا بھی اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ ہر دور اور علاقے میں آپﷺ کی دعوت اور پیغام کو سنا اور قبول کیا گیا۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ بعثت سے لے کر اب تک آپ کے پیروکاروں کی تعداد ایک کھرب سے زیادہ ہے اور تاریخ میں یہ اعزاز صرف محمد ﷺہی کو حاصل ہے۔ آپ خود سے یہ سوال ضرور کریں کہ آخر وہ کیا سبب ہے جس کی بنا پر عرب و عجم، روم و فارس، ترکوں، کردوں، بر بروں، افریقیوں اور ہندوستانیوں بلکہ روئے زمین کے تمام قبائل اور معاشروں نے آپ سیاہ کی رسالت کو قبول کیا حتی کہ آپ کا نام ہر سو، ہر محفل میں اور ہر منبر ومحراب سے گونج رہا ہے۔
12۔ نبی کریمﷺ کی شریعت کے مقاصد
آپ ﷺکی نبوت کی صداقت کی ایک دلیل یہ ہے کہ آپ کو ایسی شریعت دے کر بھیجا گیا جسے لوگ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے مگر اس کا ہر حکم انسان کے دین و دنیا کی اصلاح کے لیے ہے اور اس کی عقل، صحت، مال اور عزت کی حفاظت کرتا ہے۔ آپﷺ کی زندگی کی بعض نہایت لطیف مثالیں درج ذیل ہیں:
آپ ﷺنے وضو کا طریقہ سکھایا اور اس کے محاسن و فضائل کے متعلق آگاہ کیا۔ آپ نے مسواک کرنے کا حکم دیا جس کے عظیم فوائد اور منہ کی بیماریوں اور جراثیم میں اس کی افادیت کو موجودہ سائنس نے بھی ثابت کیا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((لَوْلا أَنْ أَشُقَّ عَلٰى أُمَّتِي – أَوْ عَلَى النَّاسِ – لَأَمَرْتُهُمْ بِالسَّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ()
’’اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کے لیے مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘ (صحيح البخاري، الجمعة، حديث (887)
آپ ﷺنے روزوں کا حکم دیا اور اس میں بیماریوں سے بچاؤ کے جو راز مضمر ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ((الصِّيَامُ جَنَّةٌ))
’’روزہ ڈھال ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصوم، حديث: 1894)
ماہرین طب نے صحت کے لیے روزوں کے بے شمار فوائد ذکر کیے ہیں۔
آپ ﷺنے زکاۃ کو فرض قرار دیا۔ یہ چونکہ مال اور نفس کو پاک کرتی ہے، اس لیے اسے زکاۃ کہا جاتا ہے جو تزکیہ اور تعمیر سے ماخوذ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں فقیر اور مسکین کا بھلا ہے۔
نبیﷺ نے یتیموں کی کفالت اور ان کے ساتھ رحمت و شفقت کا درس دیا۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ دین، جان و مال اور عقل ونسل کی حفاظت کے لیے ضروری قوانین مقرر فرمائے۔ دین کو وحی الہی کے ساتھ محفوظ بنایا اور شرک، تحریف و تبذیل اور بدعت کو حرام ٹھہرایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ﴾
’’پھر (اے نبی!) آپ ثابت قدم رہیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (ھود112:11)
آپﷺ نے انسانی جان کی حفاظت و تقدس کا درس دیا اور اس کا ناحق قتل حرام ٹھہرایا، نیز اسے تمام حقوق دیے۔ جو چیزیں اس کے لیے مفید تھیں، انھیں حلال ٹھہرایا اور نقصان دہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا۔ انسانی عقل کی حفاظت اس طرح کی کہ ہر نقصان دہ اور موذی چیز حرام کر دی، جیسے شراب، زہر اور جادو وغیرہ۔ نسل کی حفاظت کے لیے ہر غیر شرعی تعلق حرام ٹھہرایا اور انسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے شرعی نکاح کا طریقہ کار وضع کیا۔ مال کی حفاظت کا حکم دیا، اسے جائز طریقے سے کمانا، ضروری قرار دیا اور اسے بگاڑنے والی ہر چیز، جیسے سود، دھوکا دہی اور رشوت وغیرہ کے معاملات حرام ٹھہرائے۔
یہ تمام احکام اپنے اسرار و رموز کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ﷺکے نبی ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی دنیاوی لیڈر نے اس کا دسواں حصہ تعلیمات بھی دی ہیں یا ان تعلیمات اور ہدایات کو پہلے کوئی جانتا تھا یا کسی سابقہ کتاب میں موجود تھیں یا کسی دوسرے شخص نے کسی مناسبت سے ان کا ذکر کیا ہے؟ یقیناً نہیں، یہ سب تعلیمات اور اصلاحات نبی امیﷺ لے کر آئے اور ایسی شریعت لائے جو دین و دنیا سے مکمل مناسبت رکھتی ہے۔
13۔ نبی کریم ﷺکی زندگی اپنے معاصرین سے یکسر مختلف تھی
یہ بات بھی آپ ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی اس دور کے دیگر تمام لوگوں سے یکسر مختلف تھی۔ آپ ﷺ کی بعثت ہی سے آپ کا ایک خاص طرز زندگی، رہن سہن، برتاؤ اور تمام نظام حیات تھا، جیسے وہ امور جنہیں آپ نے فطرت قرار دیا، یعنی ناخن کاٹنا، ڈاڑھی بڑھانا، مونچھیں تراشنا، عسل، مسواک، نظافت و پاکیزگی، خوشبو اور وضو وغیرہ۔ آپ ان کا خوب اہتمام کرتے بلکہ آپ ﷺ نے بیٹھنے، کلام کرنے، کھانے پینے، سونے، لباس پہنے، سفر، شادی بیاہ، خرید و فروخت اور زندگی کے تمام آداب سکھائے۔ آپ ﷺسے پہلے عرب و حجم میں کوئی ایسا نظام نہیں لا سکا تھا جیسا آپ لائے۔ کیا عقل تسلیم کرتی ہے کہ ایک انسان صحرائے عرب سے اٹھے جہاں نہ تو کوئی تہذیب و ثقافت ہو نہ تعلیم کے لیے مدرسہ، کالج اور یو نیورسٹی مگر وہ اس قدر منظم، کامل اور خوبصورت زندگی کا ایسا عملی نمونہ پیش کرے جس میں کوئی اختلاف اور تعارض نہ ہو ؟ یہ کام صرف ایک معصوم نبی ہی کر سکتا ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہو۔
14۔ نبوت محمدی پر ملحدین کے اعتراضات و شبہات کا جواب
بلاشبہ رسول اکرمﷺ کی رسالت پر ملحدین کے اعتراضات نہایت مضحکہ خیز، کمزور، غیر معقول، بے بنیاد اور بالکل کھو کھلے ہیں، مثلاً وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے بذات خود قرآن مجید تالیف کیا اور اس عظیم کتاب کے آپ خود ہی مصنف ہیں۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا یہ بات عقل میں آسکتی ہے کہ ایک ایسا شخص جو پڑھنا لکھنا بالکل نہ جانتا ہو، وہ اس طرح کا عظیم قرآن خود لکھ لے ؟!
کیا تم نے تاریخ میں کسی ایسے مؤلف کو دیکھا یا سنا ہے جس نے کوئی تعظیم و ضخیم کتاب تالیف کی ہو اور وہ اسے زبانی یاد بھی ہو؟ قرآن مجید 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔ اس کے چھ سو سے زیادہ صفحات ہیں، چھ ہزار سے زیادہ آیات ہیں جو رسول اکرم ﷺ کو مکمل یاد تھیں۔ آپ ان کے معانی جانتے تھے۔ ناسخ و منسوخ کے علاوہ اس کتاب میں آنے والے اسرار، مقاصد، احکام، ودقیق نکات اور لطیف اشارے، سب آپ کے علم میں تھے اور آپ نے اپنے صحابہ کو سکھائے۔ صحابہ کرام خان نے اپنے بعد والوں کو سکھائے حتی کہ قرآن کی ایک ایک سورت، ایک ایک آیت، ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف بغیر کسی تبدیلی کے متواتر قراءات کے ساتھ ہم تک پہنچا کہ اس میں ایک نقطے اور حرکت کا رد و بدل بھی نہیں کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے محفوظ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُوْنَ﴾
’’بے شک ہم ہی نے یہ ذکر (قرآن) نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کے ضرور محافظ ہیں۔‘‘ (الحجر 9:15)
کیا یہ واضح معجزہ اور کھلی نشانی نہیں کہ نبی اکرمﷺ اپنے رب کی کتاب حرف بحرف، آیت بایت پوری تفسیر اور مکمل وضاحت کے ساتھ اپنے سینے میں محفوظ رکھتے ہیں اور اس عظیم کتاب کی کامل معرفت بھی آپ کو ازبر ہے؟! پھر آپ اس کتاب کو فرائض و نوافل اور تجد میں اس طرح پڑھتے ہیں کہ کبھی ایک ہی رکعت میں سورہ بقرہ، سورۂ نساء اور پھر سورہ آل عمران زبانی پڑھتے ہیں اور آپ کو اس قدر یاد ہے کہ الفاظ و کلمات میں کوئی مشابہ بھی نہیں لگتا اور نہ کسی جگہ شک گزرتا ہے؟!
15۔شریعت نبوی کے وہ اسرار و رموز جو کسی انسان کے وہم و گمان میں نہیں آسکتے
رسول اکرم ﷺکے سوا آپ کسی بھی عظیم لیڈر، عالم، فقیہ، کاتب، ادیب یا شاعر وغیرہ کی سوانح حیات جانا چاہیں اور اس کی شخصیت کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیں تو باآسانی اس کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ نبی اکرم سم کی سیرت و سنت کا جتنی بھی گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کر لیں اور قرآن وحدیث کے اسرار ورموز میں جس قدر چاہیں غور و فکر کرئیں، آپ اس کا ہر پہلو جان سکتے ہیں نہ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ آپ ساری عمران اسرار و رموز کو واضح کرنے پر لگا دیں تو بھی ہر روز ایک نیا نکتہ آپ پر عیاں ہوگا جسے آپ پہلے نہیں جانتے ہوں گے، خواہ آپ کو عمر نوح مل جائے۔ اور یہ آپﷺ کی شخصیت اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کا خاص راز ہے۔
16۔ سائنسی معجزات بھی آپﷺ کے لائے ہوئے دین کے مؤید ہیں
کیمیا، حیاتیات، طبیعیات، ارضیات، طب اور خلائی سائنس وغیرہ کے بڑے بڑے ماہر سائنسدانوں نے آج تک جتنے بھی دقیق انکشافات کیے ہیں، وہ سب نبی اکرم سم کی لائی ہوئی شریعت کی تائید کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺجو دین لائے ہیں، یہ انسان کے بس کی بات نہیں۔ جزیرہ نمائے عرب کی کسی بستی میں رہنے والے امی شخص سے اتنا بڑا کارنامہ صادر ہونا تبھی ممکن ہے جب وہ نبی ہو۔ صحراؤں اور ریگستانوں میں رہنے والا شخص اتنے شاندار علوم اور انکشافات، جو ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوں، صرف اسی صورت میں پیش کر سکتا ہے جب وہ نبی و رسول ہو۔ نبی اکرم تا کلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا، ماہرین طب و سائنس آج ان نظریات و امور کو نہ صرف مان رہے ہیں بلکہ اپنی تحقیقات ابھی نظریات کی روشنی میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ نبی اکرمﷺ ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کے مراحل مقدس دمی، یعنی کتاب وسنت کے ذریعے سےبڑی بار یکی اور تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان آپ پر نازل ہوا:
﴿ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ﴾
’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ ٹھکانے (رحم مادر ) میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے اس تعلقے کو جما ہوا خون بنایا۔ پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو لوتھڑے میں ڈھالا۔ پھر ہم نے اس کو تھڑے کی ہڈیاں بنائیں۔ پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔پھر ہم نے اسے ایک اور ہی صورت میں بنا دیا۔ سو بڑا بابرکت ہے اللہ جو سب سے حسین بنانے والاہے۔‘‘ (المؤمنون12،14:23)
اور آپﷺ نے فرمایا:
’’جب نطفے پر (تیسرے مرحلے کی ) بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالی اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے۔ وہ اس کی صورت بناتا ہے۔ اس کے کان، آنکھیں، کھال، گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے۔ پھر کہتا ہے: اے میرے رب ! یہ مرد ہوگا کہ عورت ؟ پھر تمھارا رب جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، وہ فیصلہ کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے‘‘ (صحيح مسلم، القدر، حدیث (2645)
اور آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مُثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِّثْلَ ذٰلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللهُ مَلَكًا وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: أَكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ))
’’بلاشبہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنے ہی وقت تک مجھے ہوئے خون کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل، اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ بھی لکھ دے کہ بد بخت ہوگا یا نیک بخت۔ اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حديث: 3208)
کوئی بھی عقل مند، عادل اور انصاف پسند شخص جو ان احادیث سے آگاہ ہو، وہ نبیﷺ کی عظمت و نبوت کا اقرار کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ آپﷺ نے جنین کے بارے میں جو تفصیلات بتائی ہیں، امراض نسواں کے ماہرین و اطباء بھی اس پر حیران و پریشان ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کی تکوین و تخلیق کے مراحل کا آپ ﷺ نے بچشم خود مشاہدہ کیا ہو یا یہ سارے مراحل ٹیلی ویژن سکرین پر آپ کے سامنے مکمل ہوئے ہوں، حتی کہ آپ نے ماں کے پیٹ میں جنین کی بڑھوتری سے بچے کی پیدائش تک کی حرکات وصفات بڑی وضاحت و باریکی سے بتادی ہیں۔ آپ ﷺنے ان معلومات کے ساتھ پورے عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی سائنس اور طب ان معلومات کی صحت و صداقت کی گواہی دیتی ہے۔ یوں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پاک ہے وہ خالق اور مصور! ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد علی ام اس کے بندے اور رسول ہیں۔
17۔نبیﷺ کی رسالت ہر شعبہ زندگی کے ماہرین کی پوری راہنمائی کرتی ہے۔
ہر شخص اپنے علم وفن اور سیرت کے خصوصی مطالعے سے نبی اکرم ﷺ کی رسالت میں ایسے دلائل و براہین اور معجزات پاتا ہے جن کی بنا پر وہ آپ ﷺ کی صداقت کی گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے ان گنت بار ایسے بے شمار لوگوں کے بارے میں پڑھا، ستا، دیکھا یا اُن سے ملاقات کی جنھوں نے رسول اکرم ﷺ پر ایمان لانے کے اسباب بیان کیے۔ بعض نے جب قرآن پڑھا تو اس کے علمی اعجاز سے متاثر ہو کر ایمان لائے۔ بعض رسول اکرم ﷺکی سیرت کا مطالعہ کر کے آپ کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ کسی نے ایسی حدیث نبوی پڑھی جس میں آپ ﷺنے غیبی امور کی اطلاع دی تو وہ مسلمان ہو گیا۔ کوئی قرآن کی کسی ایسی آیت سے متاثر ہو کر ایمان لایا جس میں کائنات کے اسرار بیان ہوئے۔ کوئی نبی اکرمﷺ کی زندگی کے معجزات سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا۔ کسی نے آپ کی فتوحات اور غلبے کو دیکھ کر ایمان قبول کیا۔ گویا آپ علم کی سیرت، سنت، آپ کے رب کی کتاب اور شریعت ہر چیز معجزانہ ہے۔
مختلف علوم و فنون اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود مذکورہ تمام ماہرین کا آپ ﷺ کی آفاقی تعلیمات اور زندگی کے تمام شعبوں میں کامل راہنمائی سے متاثر ہو کر آپ پر ایمان لانا اور آپ کی پیروی کرنا اس بات کی واضح اور سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
18۔ آپ ﷺپر نازل ہونے والی مقدس وحی کو بار بار پڑھنے سے بھی اکتاہٹ نہیں ہوتی۔
آپ جتنی بار بھی قرآن و احادیث پڑھیں اور ان پر غور وفکر کریں، آپ اکتائیں گے نہ آپ کا دل بھرے گا بلکہ ہر بار نئے نکات اور مفید اسرار آپ کے سامنے آئیں گے جو اس سے پہلے آپ کے علم میں نہیں تھے۔ ہر بار علم و عرفان کا ایک نیا خزانہ آپ اپنے سامنے پائیں گے۔ میں یہ بات چیلنج سے کہہ سکتا ہوں کہ تاریخ میں دوسرا کوئی انسان ایسا نہیں جس کی وراثت میں ایسی خاصیت پائی جاتی ہو، خواہ اس کا علم، فلسفہ، فقاہت و ذہانت یا شعر و ادب میں درجہ کتنا ہی بلند ہو۔ کسی دوسرے انسان کا ورثہ کتنا بھی زیادہ ہو، محدود ہی ہوگا اور اسے تھوڑے عرصے میں جانا اور سمجھا جاسکتا ہے، پھر اس کے مطالعے اور جانگاری سے انسان اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور کوئی نئی چیز نہ ہونے کی وجہ سے اکتا جاتا ہے۔ یہ اعزاز صرف ہمارے رسول ملا ہی کو حاصل ہے کہ قرآن وسنت کے بار بار مطالعے سے بھی اکتاہٹ نہیں ہوتی کیونکہ آپ کا مبارک ترکہ اور مقدس میراث اللہ کی طرف سے ہے۔
سورہ فاتحہ ہی کو لے لیں، ہم کتنی بار اس کی تلاوت کرتے اور اسے سنتے ہیں۔ فرائض، نوافل اور محافل وغیرہ میں ہر روز بیسیوں دفعہ اس کی تلاوت ہوتی ہے مگر ہر بار یہی محسوس ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ پڑھ اور سن رہے ہیں
پورے قرآن مجید کی تاثیر ایسی ہی ہے۔ کتنی ہی بار بنی نوع انسان نے اس کی سماعت کی۔ کتنی ہی بار اس کی آواز کانوں میں پڑی اور کتنی ہی بار قلوب و اذہان کو اس نے مخاطب کیا مگر ہر بار ہر شخص کو اس میں نیا سرور اور نئی تازگی ملی۔ اور یہی اس وحی کے اعجاز کا راز ہے جو نبی اکرم ﷺ کی طرف کی گئی۔
درجہ ذیل آیات کو غور و فکر کرتے ہوئے دل سے پڑھیے۔ اپنی روح سے ان کا مطالعہ کیجیے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ دلکش کلام اور دائمی معجزہ اللہ ہی کا کلام ہے، تو یقیناً آپ کے دل سے آواز نکلے گی: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ الله ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بلا شبہ محمد صل للہ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰیۙمَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰیۚوَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙعَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰیۙ ذُوْ مِرَّةٍ ؕ فَاسْتَوٰیۙ وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰیؕ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیۙ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰیۚ فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰیؕمَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰی مَا یَرٰیوَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰیۙ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰیعِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰیؕاِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰیۙ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰیلَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰی﴾
’’قسم ہے ستارے کی جب وہ گرتا ہے !تمھارا ساتھی نہیں بہکا اور نہ وہ بھٹکا ہے۔ اور وہ (اپنی) خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو ہے جو (اس کی طرف) بھیجی جاتی ہے۔ اسے مضبوط قوتوں والے (جبریل) نے سکھایا۔ جو نہایت طاقتور ہے، سو وہ (اپنی اصلی صورت میں) سیدھا کھڑا ہو گیا۔ جبکہ وہ (آسمان کے ) بلند کنارے پر تھا۔ پھر وہ قریب ہوا، اور اتر آیا۔ تو وہ دو کمانوں جتنا بلکہ اس سے بھی قریب ہو گیا۔ پھر اس نے اللہ کے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی۔ اس (رسول) نے جو کچھ دیکھا، اس کے دل نے (اس کے متعلق) جھوٹ نہیں بولا ۔ کیا پھر تم اس چیز پر اس (نبی) سے جھگڑتے ہو جو وہ دیکھتا ہے؟ اور بلاشبہ یقینا اس (رسول) نے اس (جبریل) کو ایک بار اور بھی اترتے دیکھا۔ سدرۃ المنتہی (آخری حد کی بیری) کے پاس۔ اس کے نزدیک ہی جنت الماوی ہے۔ اس وقت بیری پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا۔ نگاہ نہ تو بہکی اور نہ حد سے بڑھی ۔ بلاشبہ یقیناً اس (رسول) نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔‘‘ (النجم 53: 1۔18)
19۔آپ ﷺکا نبوت سے پہلے اور بعد میں اُمی ہونا
میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اپنے ضمیر و دل سے پوچھ کر اور تاریخ پر غور وفکر کر کے اس سوال کا جواب دیں جو پوری طاقت سے کائنات میں گونج رہا ہے۔ چشم تصور میں لائیں کہ ایک بچہ جزیرہ نمائے عرب کی ایک بستی میں پتھر کے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولتا ہے جہاں تعلیم و تدریس کا کوئی بندو بست نہیں۔ وہ یتیم بھی ہے اور مالی طور پر بھی آسودہ حال نہیں۔ اس نے کسی شیخ، استاد اور معلم کو دیکھا بھی نہیں۔ اس نے بورڈ دیکھا نہ چاک اور نہ قلم و قرطاس سے آشنا ہوا۔ وہ کسی کالج، مدرسہ، یو نیورسٹی اور اکیڈی بھی نہیں گیا۔ اس نے کبھی ایک حرف لکھ کر دیکھا نہ ایک صفحہ پڑھا۔ پھر اس کی عمر کے چالیس سال پورے ہوتے ہیں تو وہ اسی طرح آتی ہے کہ نہ ایک حرف پڑھ سکتا ہے نہ کوئی سطر لکھ سکتا ہے، پھر اچانک وہ جہان والوں کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور کو ہِ صفا پر چڑھ کر یہ اعلان کرتا ہے: لوگو ’’لا إله إلا الله‘‘ کا اقرار کرو۔
پھر وہ وحی الہی کو یاد کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے سب سے بڑا معلم، عظیم مربی، جلیل القدر لیڈر اور سب سے زیادہ عدل کرنے والا حاکم بن جاتا ہے۔ وہ منبر ومحراب میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں لوگوں کو عقائد و عبادات، اخلاق و آداب، دستور حیات اور دنیا و آخرت کے متعلق فتوے دیتا ہے۔ وہ سیاسی و مالی امور کا عالم بھی ہے، انسانی حقوق کا علمبردار اور محافظ بھی ہے۔ وہ عورتوں اور زچہ و بچہ کے مسائل کے بارے میں بھی جانتا ہے۔ حدود و معاملات کی باریکیاں بھی سمجھتا ہے۔ لوگوں کو جنت و جہنم کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔ وہ ستاروں اور سیّاروں کا عالم بھی ہے۔ جن وانس کو بھی سمجھتا ہے۔ وہ لوگوں کے سامنے ایک عظیم الشان معجزانہ کتاب کی تلاوت کرتا ہے اور انھیں علانیہ چیلنج دیتا ہے کہ اس جیسی کتاب لا کر دکھاؤ یا اس جیسی دس سورتیں ہی لے آؤ یا اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھاؤ مگر لوگ عاجز اور بےبس ہو جاتے ہیں۔ یہ بے بس ہونے والے بڑے بڑے فصیح و بلیغ زبان و بیان کے ماہر، شعر و ادب کے بادشاہ، عالمی شہرت یافتہ اور عکاظ بازار کے ادبی میلے لوٹنے والے ہیں مگر اس چینج کے سامنے شکست خوردہ ہاتھ باندھے کھڑے اپنی شکست کا اعتراف کر رہے ہیں اور آپ ﷺآج بھی اس غلبے اور فتح کی قیادت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کواُمی کے وصف سے موسوم کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ﴾
’’ وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا۔ وہ اس کی آیات ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور بلاشبہ اس سے پہلے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (الجمعة 2:62)
اس سے معلوم ہوا کہ نبیﷺ کا اُمی ہوتا، یعنی لکھ پڑھ نہ سکتا آپ کی نبوت کی صداقت کا سب سے بڑا معجزہ ہے اور اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر آپ ﷺپہلے لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو آپ پر الزام لگتا کہ آپ نے خود ہی قرآن لکھ لیا ہے اور مشرکین کی جانب سے ایسا الزام لگا یا بھی گیا کہ آپ نے سابقہ کتابوں سے نقل کیا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
﴿ وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰی عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا﴾
’’اور انھوں نے کہا: یہ اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے اپنے لیے لکھوائے ہیں، اور وہ صبح و شام اس پر پڑھے جاتے ہیں۔‘‘ (الفرقان 5:25)
مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے بارے میں اس شبہ کا ازالہ فرمایا اور اپنے رسول کو اس تہمت سے بری قرار دیا، اس طرح کہ آپ کو ایسا نبی بنا کر مبعوث کیا جو پڑھنا لکھنا ہی نہیں جانتے تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَبَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ۴۹﴾
’’اور آپ اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لکھتے تھے، اگر آپ پڑھتے لکھتے ہوتے) تب تو باطل پرست یقیناً شک کر سکتے تھے۔ لیکن یہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں، ان لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم دیا گیا، اور ظالم لوگ ہی ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں) (العنكبوت48،49:29)
آپ ﷺ نے قلم و قرطاس کو بھی ہاتھ نہیں لگایا حتی کہ صلح حدیبیہ میں جب مشرکین کے نمائندے سہیل بن عمرو نے لفظ ’’رسول اللہ‘‘ اس صلح نامے سے مٹانے کا اصرار کیا تو رسول اکرمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ لفظ ’’رسول الله‘‘کو اس تحریر سے مٹا دیں۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹانے سے معذرت کی تو آپ ﷺنے یہ جاننے کے بعد کہ یہ کلمہ کہاں لکھا ہوا ہے، اسے مٹا دیا۔ آپ یہ کلمہ اچھی طرح لکھ نہیں سکتے تھے۔ بعض شارحین نے کہا ہے کہ آپ کو پہلے بتایا گیا تو آپ نے مٹایا اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھا گیا۔ اس لیے اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ﴾
’’(یعنی) وہ لوگ جو اس رسول امی نبی (محمد ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تو رات اور انجیل میں لکھا پاتے ہیں۔‘‘ (الأعراف 157:7)
چنانچہ آپﷺ کااُمی ہونا آپ کی طاقت کا سرچشمہ، آپ کی نبوت و رسالت کی دلیل و برہان اور آپ کےاعجاز کا واضح ثبوت ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے نبی کو ایسا اُمی بنایا کہ اس کے علم کے دریا سے علماء بھی سیراب ہوتے ہیں۔ ہر عالم شریعت، مفسر، فقیہ، قاضی، کاتب، داعی اور خطیب بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ ﷺکا شاگرد ہے اور آپ کی معرفت کے سمندر میں غوطہ زن اور آپ کے بحر العلوم کا فیض یافتہ ہے۔
فَكُلُّهُمْ مِّنْ رَّسُولِ اللَّهِ مُلْتَمِسٌ
غَرْفًا مِّنَ الْبَحْرِ أَوْ رَشْفًا مِّنَ الدِّيَمِ
وہ سب کے سب آپ ﷺ کے بحر ز خار سے چلو بھر پانی یا برسات کے چند قطروں کے طالب ہیں۔‘‘
آپ نے زندگی بھر لکھا نہ پڑھا اور اُمّی ہونے کا یہ معجزہ آپ کی وفات تک قائم رہا۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ((إنَّا أُمَّةٌ أُمْيَةٌ، لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ))
’’بلاشبہ ہم اُمی لوگ ہیں، ہم لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث (1913)
اس لیے میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کتاب وسنت کی صورت میں موجود نصوص وحی کا مطالعہ کریں گے اور اس میں موجود دنیا کے تمام اسرار و رموز سے متعلقہ معلومات پر غور و فکر کریں گے۔ موت و حیات، جنت و دوزخ اور دنیا و آخرت کی ہر راہنمائی آپ کو اس نبی معصوم سے ملے گی۔
ذرا چشم تصور میں وہ منظر لائیں کہ لوگ اپنے مسائل دریافت کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے مسائل پیش کر رہے ہیں۔ کسی کا سوال طہارت سے متعلق ہے۔ کوئی نماز، زکاة، روزوں، حج، حدود یا دیگر عبادات و آداب کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ کوئی دنیاوی امور و معاملات کے بارے میں سوال کر رہا ہے۔ عورتیں اپنے مخصوص مسائل دریافت کرنے کے لیے حاضر ہو رہی ہیں۔ کوئی حیض کے بارے میں پوچھتی ہے تو کوئی مہر کے مسائل دریافت کرتی ہے۔ کوئی نان و نفقہ کے متعلق سوال کرتی ہے۔ کوئی اپنے رب سے تعلق کے بارے میں استفسار کرتی ہے تو کوئی اپنے شوہر، اہل خانہ کے حقوق و فرائض کے بارے میں پوچھتی ہے اور آپ مل ہم سب کو بغیر توقف و تردد فوراً جواب دیے جا رہے ہیں۔ نہ کسی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہیں، نہ کسی تصنیف میں تلاش کرتے ہیں اور نہ مشورہ کرنے کے لیے علماء سے رجوع کرتے ہیں بلکہ آپ کا جواب حاضر ہے اور مسئلے کا حل تیار ہے۔ پھر جواب ایسا کہ اس میں کسی خطا کا امکان ہے نہ لغزش کا ڈر۔ نہایت کافی وشافی قطعی اور واضح دلیل کے ساتھ جواب دے رہے ہیں۔ اللہ کی طرف سے دانگی در رود و سلام ہو آپﷺ پر۔
میں نبی اکرمﷺ کےاُمی ہونے کے متعلق ایک بات کہنے لگا ہوں جو میں نے اس سے پہلے نہیں کہی اور وہ یہ کہ جب یہ بھی اُمی ﷺ کلام کرتے ہیں تو آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ زبان و ادب کی اصل اور بنیاد کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں جنھیں دنیا کے نابغہ روزگار اور ذہین وفطین لوگ اپنے اپنے فن اور مہارت کے مطابق پڑھتے ہیں۔ لغت کے ماہرین آپ کی احادیث کا مطالعہ لغوی پہلو سے زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت جاننے کے لیے کرتے ہیں۔ اصول فقہ کے ماہرین شریعت کے قواعد وضوابط اخذ کرنے کے لیے آپﷺ کے بحرِعلم کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کرتے ہیں۔ شارحین حدیث و آثار آپ کی سنت کے جاری چشمے سے سیراب ہوتے اور اس سے ہیرے اور جواہرات چنتے ہیں۔ قاضی، مفتی اور فقہاء آپ ﷺکی قابل قدر میراث کے خزانوں کے منہ کھولتے ہیں تاکہ آپ کے قیمتی اور پختہ علم کے فیض سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکیں اور ان کے فتووں، فیصلوں اور امت کو اخلاق و آداب، دستور حیات اور احکام کی تعلیم دینے کی اساس آپ علم کے فرامین عالی شان ہوں۔
میں نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا اور وہاں حنفیوں، مالکیوں، شافعیوں حنبلیوں اور اہل حدیث کے نامور علماء اور سنت کے محافظوں سے ملا۔ میں خطیبوں، داعیوں، قاضیوں، اصولیوں اور مفسرین کے ساتھ بھی بیٹا، پھر میں نے اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہا: سبحان اللہ ان تمام لوگوں نے مسلکی اور علاقائی اختلافات کے باوجود یہ سارا علم معلم انسانیت اور نبی رحمتﷺ سے حاصل کیا۔ ان سب امور پر غور کرنے سے میرا تعجب بڑھتا ہی رہا اور میرے دل و زبان پر بے اختیار جاری ہو گیا: اللّٰهُمَّ صَلَّ وَسَلَّمْ عَلَيْهِ، اللّٰهُمَّ صَلَّ وَسَلَّمْ عَلَيْهِ اللّٰهُمَّ صَلَّ وَسَلَّمْ عَلَيْهِ
20۔ نبی اکرم ﷺ کا یہود و نصاری کے ساتھ مکالمہ
نبی اکرمﷺ نے یہودی علماء کے ساتھ قطعی اور دو لوگ دلائل و براہین کے ساتھ مکالمہ کیا تو ان میں سے سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ مسلمان ہو گئے۔ عیسائی علماء سے مباحث کیا اور انھیں مباہلے کا چیلنج کیا تو وہ جان گئے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں، لہٰذا انھوں نے آپ سے مباہلہ نہ کیا۔ آپ نے یہود و نصاری کو ان کے دین کے حقائق بتائے تو انھوں نے آپ کی باتوں کی تصدیق کی۔ نبی اکرمﷺ کے پاس یہ تمام دلائل و براہین اور خبریں بذریعہ وحی آئیں اور اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل کر کے یہ سب کچھ آپ کو بتایا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ آپ کسی کام کے پاس نہیں تھا۔
21۔ صاحب حیثیت لوگوں سے پہلے فقراء نے آپﷺ کی پیروی کی
صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ رومیوں کے بادشاہ ہرقل نے سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے نبی اکرمﷺ کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا: معاشرے کے صاحب حیثیت لوگ آپ کی بات قبول کر رہے ہیں یا کمزور لوگ؟ تو انھوں نے کہا: ان کے کمزور لوگ۔ اس پر ہر قل نے کہا: رسولوں کے پیروکار کمزور ہی ہوتے ہیں۔ اور یہ دلیل صحیح ہے کیونکہ آپ ﷺ کے پاس دنیا کے امور اور بادشاہت نہیں تھی جس کے ساتھ آپ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے۔
لوگ اس حق کی خاطر آپ کی طرف مائل ہوئے جو آپ لائے تھے، اس لیے کمزور لوگ آپ کے دلائل و براہین اور اس نور ہدایت کے باعث آپ کے قریب ہوئے جو لے کر آپ آئے تھے۔ اور یہ آپ ﷺکی نبوت کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
22۔ نبیﷺ کی دعوت فرد واحد سے شروع ہو کر اربوں تک پہنچ چکی ہے
رومیوں کے بادشاہ ہرقل کا سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے جو مکالمہ ہوا، اس میں اس نے سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے نبی اکرمﷺ کے پیرو کاروں کے بارے میں پوچھا: کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔
اس سے ہر قل نے نبی اکرمﷺ کی نبوت کی صداقت پر استدلال کیا۔ آپ ﷺ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے اولین مرد سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تھے جبکہ قریش مکہ اور جزیرہ نمائے عرب کے باقی تمام قبائل آپ کے مخالف تھے، پھر آپ کے پیروکار بڑھتے گئے اور آپ کا دائرہ کار مکہ سے باہر پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ آپ کی دعوت دنیا کے اطراف و اکناف میں تمام براعظموں تک پہنچ گئی اور زبانوں، لہجوں، رنگ ونسل اور زمان و مکان کے اختلافات کے باوجود پوری دنیا میں آپ کا چرچا ہو گیا۔
بعض ناکامیوں کے باوجود آپﷺ مسلسل فتح یاب ہوتے رہے دنیا کے دانشوروں اور علماء نے اس بات سے بھی نبیﷺ کی نبوت کی صداقت پر استدلال کیا ہے کہ بعض ناکامیوں کے باوجود آپ سی ام پے در پے فتوحات حاصل کرتے رہے۔ ہر قل نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے جو مکالمہ کیا، اس میں اس نے سیدنا ابو سفیان مال سے یہ بھی پوچھا: تمھارے اس کے ساتھ قتال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: جنگ ہمارے اور اس کے درمیان ایک ڈول ہے، کبھی وہ ہم سے لے لیتا ہے اور کبھی ہم اس سے لے لیتے ہیں، یعنی کبھی وہ غالب آجاتا ہے اور کبھی ہم اس پر فتح یاب ہو جاتے ہیں۔ اس میں آپ ﷺکی نبوت کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ دنیا دار ہوتے یا بادشاہت اور مال و دولت کے لیے لڑ رہے ہوتے تو آپ کی دعوت محدود ہوتی اور ختم ہو جاتی مگر طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرنے کے باوجود آپ کا ڈٹ کر کھڑے رہنا اور اجر وثواب کے حصول کے لیے اپنی دعوت کو جاری رکھتا یہاں تک کہ اللہ تعالی کی بھر پور مدد آ گئی، آپ کی نبوت کی صداقت کی واضح دلیل ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺنے اپنا مشہور کلمہ ارشاد فرمایا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ضمیروں کو جھنجوڑا اور وقت کے دھارے کو روک دیا:
((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصْرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ))
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے ہی نے تمام لشکروں کو شکست دی۔‘‘ (سنن النسائي، القسامة، حدیث 4799)
24۔ بشری کمال آپﷺ کی نبوت کی عظیم دلیل ہے
دنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر سربراہ نابغہ روزگار یا ایجاد کار کی زندگی مثبت اور منفی دونوں پہلو رکھتی ہے۔
ایک اعتبار سے وہ کامل ہوتا ہے تو دوسرے اعتبار سے ناقص۔ طبعی طور پر ہر انسان ایسا ہی ہے۔ کوئی شخص عالم ہوگا مگر وہ سخی نہیں ہوگا، یا سخی ہوگا تو اس میں حلم و بردباری نہیں ہوگی، یا بردبار ہوگا تو دلیر نہیں ہوگا، یا عادل ہوگا تو اس میں تواضع نہیں ہوگی۔ اسی طرح کوئی بھی انسان کامل صفات کا حامل نہیں ہوگا جیسا کہ ضرب المثل ہے: ’’ الكمال عزیز ‘‘ کمال نایاب ہے۔ اسی طرح ایک شاعر نے بھی کہا ہے:
وَ مَنْ ذَا الَّذِي تُرْضٰى سَجَايَاهُ كُلُّهَا
كَفَى الْمَرْءَ نُبْلًا أَنْ تُعَدَّ مَعَايِبُهُ
سِوَى المُصْطَفٰى فَهُوَ الْمُشّرِّفُ قَدَرُهُ
عَظِيْمٌ تَنَاهَتْ فِي الْكَمَالِ مَنَاقِبُهُ
’’محمد مصطفیﷺ کے سوا وہ کون ہے جس کی جملہ عادات پسندیدہ ہوں؟ آدمی کی عظمت کے لیے تو یہی کافی ہے کہ اس کے عیوب انگلیوں پر گنے جائیں۔ آپ ﷺکو قدر و منزلت سے نوازا گیا۔ آپ عظیم ہیں اور آپ کے فضائل و مناقب کمال کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔‘‘
ہمارے رسول ﷺمیں تو اللہ تعالی نے تمام محاسن اور خوبیاں بدرجہ اتم رکھی ہیں اور تمام فضائل بہترین انداز میں آپ میں پائے جاتے ہیں۔ آپ صرف صادق نہیں بلکہ تمام سچوں سے بڑھ کر سچے ہیں، صرف دلیر و بہادر نہیں بلکہ سب دلیروں سے بڑے دلیر ہیں، صرف حلیم و برد بار نہیں بلکہ حلم آپ پر ختم ہو جاتا ہے، صرف سخی نہیں بلکہ سخیوں کے سرتاج ہیں، صرف فصیح و بلیغ نہیں بلکہ فصاحت و بلاغت آپ ﷺ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ آپ ہر عمدہ اخلاق، اعلی صفت اور شرف و مسجد میں اول نمبر پر ہیں اور بشر کو جو انتہائی کمال حاصل ہو سکتا ہے۔ آپﷺ اس کمال کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں اور یہ شرف کسی دوسرے انسان کو حاصل نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اپنی خاص نگرانی میں پروان چڑھایا۔ آپ کو چن لیا، تہذیب و آداب سے آراستہ کیا اور سب سے خوبصورت عادات، عمد ہ صفات اور افضل خوبیوں سے مزین کیا تاکہ آپ ﷺلوگوں کے رہبر اور انسانیت کے لیے اسو ہ و نمونہ بنیں۔
25۔ عبادات الٰہیہ تغیر و اختلاف کے بغیر جاری ہیں
اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ پر مختلف عبادات فرض کیں جن میں کچھ مشقت بھی ہے۔ ان عبادات میں سے دن رات میں مخصوص اوقات میں پانچ نمازوں کی ادائیگی ہے۔ یہ نمازیں حضر و سفر، صحت و بیماری اور تنگی و آسانی میں ادا کی جائیں گی۔ اسی طرح روزے ہیں۔ ہر سال گرمی، سردی، فقر، بھوک پیاس میں ایک ماہ کے روزے رکھنے ضروری ہیں۔ حج کے لیے روئے زمین کے اطراف و اکناف سے لوگوں کو بلایا جاتا ہے۔ اس میں سفر، زاد راہ اور سواریوں کی صعوبتیں اور مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں۔ اگر آپﷺ صرف نبوت کے مدعی ہوتے اور یہ عبادتیں آپ کے اختیار سے ہوتیں، اللہ کی مقرر کی ہوئی نہ ہوتیں تو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے آپ ضرور ان میں آسانی کر دیتے اور ان کے بجائے کوئی آسان راستہ نکال لیتے، جیسے نماز ایک کر دیتے، حج ختم کر دیتے اور روزے سال میں ایک دن کر دیتے وغیرہ لیکن یہ آپ کے اختیار میں نہیں تھا کیونکہ یہ سب عبادات رب العالمین کی طرف سے فرض اور متعین تھیں۔ نبی اکرمﷺ نے زندگی بھر ان شعائر کا التزام کیا۔ اسی طرح صحابہ کرام جنائی ہو تابعین عظام رضی اللہ تعالی عنہم اور چودہ سو سال سے کائنات کے تمام مسلمان بڑے ذوق و شوق اور محبت سے ان کا التزام کرتے چلے آرہے ہیں اور آج تک ان میں کوئی تبدیلی، تحریف اور تغیر واقع نہیں ہوا۔ یہ آپ ﷺ کی نبوت کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
26۔ نبیﷺ بشر ہیں جن کی طرف وحی آتی تھی
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو انسان بنایا مگر تمام انسانوں سے افضل و اکرم بنایا اور بشر بنایا مگر عالم بشریت میں آپ کو سب پر شرف حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺکے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح زندگی گزاریں۔ ان کی طرح درد محسوس کریں۔ ان کی طرح خوشی غمی کی کیفیات سے گزریں۔ لوگوں کی طرح سیر ہوں اور اسی طرح بھوک محسوس کریں۔ ان کی طرح ہنسیں بھی اور روئیں بھی۔ ان کے جذبات محسوس کریں اور ان کے ساتھ رہیں ہیں۔ ان کی خوشی غمی، صحت و بیماری، غنا و فقر اور فتح و شکست میں ان کے شریک ہوں تاکہ ان کے لیے اسوۂ و نمونہ بن سکیں۔
رسول اکرمﷺ انسانیت کی بہترین تصویر اور خوبصورت مشاہدہ بن کر سامنے آئے۔ آپ نے زندگی کے تمام ادوار گزارے۔ آپ کا بچپن نہایت پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے۔ جوانی صدق و وفا کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ آپ نے بکریاں چرائیں۔ اپنا گھر صاف کیا اور اپنے جوتے اور کپڑے میں پیوند لگائے۔ اپنے گھر والوں کی ان کے کاموں میں مدد کی۔ مہمانوں کی خدمت کی۔ خوشیوں کے لمحات میں مسکرائے تو زندگی کو خوشیوں اور رونقوں سے بھر دیا۔ غم کی گھٹڑیوں میں روئے تو آنسو بہائے اور دوسروں کو بھی غم زدہ کر دیا۔ اپنے آنسوؤں سے زندگی کی قدر و قیمت بیان کی۔ بات کی تو فیصلہ کن – فیصلہ کیا تو عدل پر مبنی۔ خطاب کیا تو بڑا واضح۔ وعظ ونصیحت کی تو نہایت نرمی ہے۔
مختصر بات کی تو لاجواب کر دیا۔ تفصیل سے بولے تو کمال کر دیا اور مشہور ہوئے تو دنیا کو حیران کر ڈالا۔ قیادت کی تو نہایت عمدہ اور مفید۔ کھانا کھایا اور بازار بھی گئے۔ ایسے کھایا پیا جیسے لوگ کھاتے اور پیتے ہیں۔ عورتوں سے شادیاں بھی کیں۔ خوشی غمی، بھوک، پیاس اور بیماری و علاج سے بھی واسطہ رہا۔ آپﷺ انسانیت کے مظاہر کے دلائل میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو بھی اسی طرح وفات دی جیسے دیگر انسان فوت ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَائِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَلِدُونَ﴾
’’اور (اے نبی !) ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی، پھر اگر آپ وفات پا جائیں تو کیا وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ (الأنبياء 34:21)
آپﷺ بھی بشر تھے مگر رسول تھے۔ انسان تھے لیکن نبی تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو وحی کے ذریعے سے شرف بخشا جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿وقُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحٰى إِلَىَّ أَنَّمَا اِلهُٰكُمْ إِلَهٌ وَّاحِدٌ﴾
’’(اے نبی !) کہہ دیجیے: میں تو بس تمھاری طرح بشر ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔‘‘ (الکھف 110:18)
یہ قرآن مجید کی بلاغت ہے کہ اس نے نبی اکرمﷺ کی بشریت کی حد مقرر کر دی کہ آپ ہماری مثل ہیں۔ فرمایا: ﴿ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾صرف بشر نہیں کہا تاکہ کوئی یہ دعوی یا خیال نہ کرے کہ آپ ﷺ کی بشریت خاص ہے اور آپ دوسروں کی طرح بشر نہیں ہیں۔
جس طرح نبی اکرمﷺ بشر ہیں، اسی طرح تمام انبیاء بھی بشر ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَهُمْ جَسَدًالَّا يَأْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خَلِدِيْنَ﴾
’’اور ہم نے ان (نبیوں) کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔‘‘ (الأنبياء 8:21)
مخلوق پر اللہ تعالی کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمام انبیاء علیہم السلام کو بشر بنا کر مبعوث کیا تاکہ لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنا اور سمجھنا سمجھانا آسان اور واضح ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ﴾
’’اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان بولنے والا بھیجا، تاکہ ان کے لیے (آیات) کھول کر بیان کرے۔‘‘ (ابراهیم4:14)
آپﷺ نے ان تمام غیبی طاقتوں اور خرق عادت (خلاف معمول) امور کے مالک ہونے کا انکار کیا جس کا عام طور پر دجّال اور جھوٹے لوگ عوی کرتے ہیں۔ آپ ﷺاپنی بشریت کا اعلان کرتے ہیں اور بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ آپ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ نہ موت وحیات آپ کے ہاتھ میں ہے نہ دوبارہ اٹھانا۔ بس آپ پر وحی نازل ہوتی ہے:
﴿وقُلْ مَا كُنتُ بِدْعَا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحٰى إِلَىَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ﴾
’’کہہ دیجیے: میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ اور تمھارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ میں تو بس اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اور میں تو فقط صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔‘‘ (الأحقاف 9:46)
آپﷺ صرف اتنا غیب جانتے ہیں جتنا اللہ تعالی نے آپ کو سکھایا: ﴿وَاِنْ اَدْرِيْ أَقْرِيْبٌ أَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ﴾
’’اور میں نہیں جانتا کہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے، وہ قریب ہے یا دور ‘‘ (الأنبیاء 109:21)
آپ ﷺ نہیں جانتے تھے کہ قیامت کب آئے گی اور نہ یہ جانتے تھے کہ رحم مادر میں کیا ہے۔ اس قدر کھلی سچائی اور لوگوں کے سامنے کھلے عام اس کا اظہار آپ کی نبوت کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر آپ کے علاوہ کوئی جھوٹا ہوتا تو اپنی جعلی پارسائی اور خود ساختہ مزین کلام پیش کرتا۔ شعبدہ بازی سے کام لیتا اور ذاتی کرامات کا دعوی کر کے لوگوں کو الجھانے اور پھنسانے کی کوشش کرتا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان ساری برائیوں سے محفوظ و مامون رکھا۔
آپﷺ کی انسانیت و بشریت کا حصہ ہے کہ آپ نے عورتوں سے شادی کی اور اولاد بھی ہوئی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّةً﴾
’’اور بے شک یقیناً ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے، اور ہم نے انھیں بیوی بچوں والے بنایا۔‘‘ (الرعد 38:13)
نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے:
((لٰكِنِّي أُصَلِّي وَأَنَامُ، وَأَصُومُ وَأَفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))
’’لیکن میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میں نے عورتوں سے شادی بھی کر رکھی۔ ہے۔ اب جس نے میری سنت سے منہ موڑا، وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، النكاح، حدیث: 1401 )
چنانچہ نبی ﷺ ہر حال میں زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی امت کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں۔ آپ ﷺ بشر ہیں۔ فرشتے نہیں کہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور بازاروں میں نہ چلتے ہوں اور انسانوں کے دکھ درد محسوس نہ کرتے ہوں۔ آپ عام انسان بھی نہ تھے کہ غیر معصوم ہوں اور خواہشات نفس میں بہک جاتے ہوں بلکہ آپ کی طرف وحی آتی تھی اور آپ معصوم ہی تھے جن کی مقدس وحی سے تائید و نصرت کی گئی۔ آپ ﷺمیں نبوت و انسانیت دونوں چیز میں ایک ساتھ جمع ہو گئیں۔
27۔ آپ ﷺ کی زندگی دستور اخلاق اور تربیت و آداب کا مجموعہ ہے
پوری انسانی تاریخ میں کوئی لیڈر، شاعر، دانشور، ادیب، مالدار یا تاجر وغیرہ ایسا نہیں گزرا جس نے نبی اکرمﷺ کی طرح مثالی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ اور منہج دنیا کو دیا ہو۔ آپ ﷺ ایسی عمدہ خصال و عادات، عظیم اخلاق اور اعلیٰ فضائل و مناقب کے ساتھ تشریف لائے بلکہ ایسی دقیق تفصیلات و جزئیات لے کر آئے جنھوں نے انسانی زندگی کو خوبصورت ترین اور افضل و اعلیٰ بنا دیا اور انھیں ان کے خالق و مولا کے نہایت قریب کر دیا۔ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں سے ممتاز تھا۔ پاکیزگی و شرف اور امانت و نیکی سے لبریز اور ہر قسم کی انتہا پسندی، منکرات و فواحش، گھٹیا امور، بے ہودہ اخلاق اورقبیح اور برے افعال سے پاک تھا، یوں جیسے اندھیری رات میں چودھویں کا چاند چمک رہا ہو۔ آپﷺ کو یہ خوبصورت طرز زندگی کس نے سکھایا جبکہ آپ نہ تو کسی سکول، کالج، یونیورسٹی یا اکیڈمی سے فیض یاب ہوئے نہ کسی استاد، شیخ، مربی، قلفی اور دانشور سے کچھ سیکھا؟ یقیناً آپ نے صرف وحی سے سیکھا۔ تعلیم کا یہ طریقہ و منہج صرف ایک شخص کے لیے تھا اور وہ ہیں محمد بن عبداللہ۔ اور آپ ﷺکی نبوت کی صداقت پر یہ گواہی کافی ہے اور یہ بات ہم بے شمار دلائل و براہین کی روشنی میں پورے چیلنج سے کہتے ہیں۔ یہ آپﷺ کی شریعت کا اعجاز ہے کہ آپ نے وضو، طہارت ،غسل اور تمیم کے بارے میں سو سے زیادہ احادیث بیان فرمائیں۔ لباس، خوشبو اور کھانے پینے سے متعلق سو سے زیادہ احادیث مروی ہیں۔ چلنے پھرنے، بیٹھنے، کلام کرنے، گھر میں داخل ہونے، نکلنے اور راستے کے آداب کے حوالے سے سو سے زیادہ ہدایات جاری فرمائیں۔ یہ سب نہایت منظم، مرتب اور متفقہ ہیں جن میں کسی قسم کا کوئی تضاد و اختلاف نہیں۔ یہ سب صحیح سند سے ثابت ہیں جنھیں آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ سے نقل کیا اور اپنی زندگیوں میں عملی طور پر لاگو کیا، چنانچہ آپ ﷺ کی زندگی اخلاق کے لیے دستور اور تربیت و آداب کے لیے جامع نمونہ ہے۔
28۔ زنا، سود، شراب اور بے حیائی کی حرمت
نبی اکرم ﷺکے زمانے میں کوئی شخص یہ بات مانے کو تیار نہ تھا کہ شراب، زنا، یا بے راہ روی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے یا ان کے باعث انسانی جسم کو موذی امراض لاحق ہوتے ہیں بلکہ اہل عرب ان بری عادات پر باہم فخر کرتے تھے۔ اگر محمد ﷺ اللہ کے عظیم رسول نہ ہوتے تو اپنے معاشرے کو ان کی خواہشات اور من پسند چیزوں سے منع کرنے کی جرات نہ کرتے جیسا کہ ریاست و سرداری اور دنیاوی مال و متاع کے طلب گار اکثر دنیا دار کرتے ہیں کہ وہ معاشرتی ترجیحات کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ لوگوں کی محبت و ہمدردی سمیٹنے کے لیے خواہشات کی پیروی اور محرمات کی پامالی میں ان کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺنے اس کے برعکس نہایت ٹھوس موقف، مقدس وحی اور ایسا امر الٰہی پیش کیا جس کی بنیاد پر آپ نے مخالفین کے جھگڑے اور اختلاف کا اثر لیا نہ ان بے حیائی کے کاموں اور منکرات کی حرمت میں کسی کمزوری یا دستبرداری کا مظاہرہ کیا۔ کوئی راضی ہو یا ناراض، قبول کرے یا انکار کر کے ٹھکرا دے، آپ ﷺ نے کسی کی پروا کی نہ کوئی عوامی دباؤ قبول کیا۔ یہ آپ ﷺ کی نبوت کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے اور اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ آپ اپنی مرضی سے نہیں بولتے تھے، نہ لوگوں کی خواہشات خاطر میں لاتے تھے اور نہ کسی دنیاوی عہدے، جاہ و حشمت یا بادشاہت کے خواہش مند تھے۔ آپ نے ان فواحش و منکرات کو اس لیے حرام کیا کیونکہ آپﷺ اللہ کی رضا چاہتے تھے اور آپ کا مقصد اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا اور بندوں کو ان کے رب سے جوڑنا تھا تاکہ وہ انھیں ہر تکلیف اور نقصان سے محفوظ رکھے۔ آپ کا ہدف با عزت اور صحیح زندگی گزارنے میں انسانوں کی راہنمائی کرنا تھا۔ آپ نے انھیں دنیا میں ان کی بھلائیوں کے بارے میں بتایا تاکہ وہ ان کو اختیار کریں اور دنیا کے نقصانات سے آگاہ کیا تاکہ دو ان سے بچ جائیں کیونکہ آپ کا جہان والوں پر رحمت بن کر تشریف لائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَلَمِينَ﴾
’’اور (اے نبی (۱) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔‘‘ (الأنبياء 107:21)
جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان برے کاموں کے انسانی زندگی پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اکثر ان کی وجہ سے انسان کی وفات بھی ہو جاتی ہے بلکہ ان کے برے اثرات آس پاس کے لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ غصہ جس پر اہل عرب فخر کرتے تھے، اسے طاقت و جوانی کی دلیل سمجھتے تھے اور سردار ان قوم کا یہ خاص وصف سمجھا جاتا تھا، اس سے بھی آپ ﷺ نے منع کر دیا۔ جب ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے وصیت فرمائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا فَقَالَ: «لَا تَغْضَبْ))
’’غصہ نہ کرو۔ ‘‘اس نے بار بار کوئی اور وصیت کرنے کی درخواست کی تو بھی آپ ﷺنے فرمایا: ”غصہ نہ کرو‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6116)
آپ ﷺکی بعثت کے چودہ سو سال بعد اطباء اور سائنس دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ غصے کے بہت زیادہ جسمانی نقصانات ہیں۔ جو انسان اپنے غصے پر قابونہیں پاسکتا، اسے غصہ بہت سی مجرمانہ کارروائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے انسان کی صحت اور عقل بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سو پاک ہے وہ ذات جس نے آپ ﷺ کو صحیح منہج اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا نبی بنا کر مبعوث کیا۔
29۔ اسراء و معراج کا معجزہ
اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺکے زخمی، سوگوار اور پریشان و شکستہ دل کی دوا کے لیے اسراء و معراج کا سفر ترتیب دیا۔ یہ معجزہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے نبی اور رسول کی تائید و نصرت، خوشی و تسلی اور دلداری کے لیے تھا۔ آپ میں ہم نے مشرکین کے ظالمانہ بائیکاٹ کی وجہ سے تین سال بھوک، مشقت اور شدید غم و پریشانی میں محصور ہو کر گزارے، پھر اس کے بعد آپ کے پر جوش حمایتی اور دفاع کرنے والے چا سردار ابوطالب فوت ہو گئے۔ اس سے متصل بعد آپ کی غم خوار اور تسلی دینے والی محبت دوفا کی پیکر بیوی سیدہ خدیجہ بھی وفات پاگئیں، پھر آپ کے اصحاب و احباب کو بھی ان دنوں سخت اذیتیں دی گئیں اور دور و قریب کے ہر چھوٹے بڑے دشمن نے آپ اور آپ کے صحابہ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔
اس پریشان کن صورت حال میں کون اس نبی ﷺ کا دفاع کرتا اور کون آپ کو تسلی دیتا؟ کون نصرت و حمایت کرتا ؟ کون آپ کا ہمنوا بنتا اور کون آپ کے آنسو پونچھتا؟ کون زخموں پر مرہم رکھتا اور کون تائید کرتا؟ بلاشبہ وہ اللہ تھا جو آپ کا خالق و مالک اور آپ کو رسول بنا کر بھیجنے والا ہے۔ حکم ربانی آیا کہ آپ ﷺ کلام کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جائے اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان اور اس سے آگے عالم ملکوتی میں سدرۃ المنتہی تک معراج کرائی جائے تاکہ آپ کو یہ اعزاز بخشا جائے کہ آئیں، آپ کے لیے قربت، تائید اور خوشخبری ہے۔ بہت جلد آپ کو فتح نصیب ہوگی۔ آپ پورے عالم پر غالب آئیں گے کیونکہ اللہ کی عنایت، نگہانی اور حفاظت آپ کے ساتھ ہے۔
اس طرح آپ ﷺ کا آسمانی سفر ہوا تاکہ آپ بڑے بڑے معجزات اور عظیم نشانیاں دیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿لَقَدْرَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى﴾
’’یقیناً اس (رسول) نے اپنے رب کی بعض بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘ (النجم 18:53)
اور تاکہ آپ آنے والی سختیاں اور تکالیف برداشت کر سکیں کیونکہ آپ نے اپنی آنکھوں سے جو مناظر دیکھے اور سنے، ان سے اللہ تعالی نے آپ کا دل ایمان ویقین سے مزید بھر دیا۔
قرآن مجید نے اسراء و معراج کا ذکر کیا ہے اور باطل آگے پیچھے کہیں سے بھی قرآن مجید کے قریب نہیں آسکتا۔ ثقہ راویوں نے اسے نقل کیا ہے اور یہ واقعہ سورج کی طرح روشن اسناد کے ساتھ احادیث کی معتبر کتابوں میں بیان ہوا ہے، نیز اس عظیم معجزے کی صحت پر علمائے اسلام کا اجماع و اتفاق ہے۔
واقعہ اسراء و معراج میں ایک معجزہ یہ ہے کہ ہمارے رسولﷺ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو دیکھا اور سب نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ کی رسالت کی گواہی دی اور آپ کی نبوت کا اقرار کیا۔ آپﷺ نے ایک ایک کے بارے میں بتایا اور ان کے وہ اوصاف پوری طرح مکمل تفصیل سے بیان کیے جو ان کی کتابوں میں درج تھے۔ آپ ﷺ اللہ تعالی کی بڑی بڑی نشانیاں آنکھوں سے دیکھ کر مکہ لوٹے تو آپ کا یقین، عین الیقین میں بدل کر پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکا تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿سُبْحٰنَ الَّذِيْ أَسْرٰى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾
’’پاک ہے وہ (اللہ) جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے ارد گرد کو ہم نے بہت برکت دی تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھا ئیں۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ (بنی اسراءیل 1:17)
اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ کی ابتدا سبحان سے کی تاکہ اپنی ذات کو نقص سے پاک قرار دے اور اس کے لیے کمال اور قدرت کو ثابت کرے کیونکہ اللہ تعالی نے خلاف عادت اپنے رسولﷺ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر ساتویں آسمان سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر کرایا جو تاریخ کا سب سے طویل سفر تھا۔ آپ نے رات کے اس تھوڑے سے وقت میں لاکھوں نوری سال کا فاصلہ طے کیا اور ساتویں آسمان سے اوپر اتنی بلندیوں پر گئے کہ قلموں کے چلنے کی آوازیں بھی سنیں۔ اگر زمانہ جاہلیت میں یا آپ کی بعثت کے وقت عربوں سے کہا جاتا کہ ایک انسان نے انتہائی محدود وقت میں سمندروں، پہاڑوں اور صحراؤں کو عبور کرتے ہوئے مشرقی چین یا مغربی یورپ اور امریکہ تک کا سفر کیا ہے تو وہ نہ اس کو تسلیم کرتے نہ بیچ مانتے، مگر اب دیکھیں کہ لوگ ہوائی جہازوں، گاڑیوں اور بحری جہازوں کے ذریعے سے چند گھنٹوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جاتے ہیں۔ ذرا سوچیں اس سفر کا عالم کیا ہوگا جو آسمانوں اور زمین کے رب نے اپنے نبی و مصطفیﷺ کو طے کرایا ؟ اس سے اللہ تعالی کی قدرت، وقار و عظمت اور نشانی ظاہر ہوتی ہے اور رسول اکرم ﷺ کا مقام ومرتبہ عیاں ہوتا ہے۔
﴿بِعَبْدِ ه﴾اپنے بندے کو یہاں عبدیت کے ذکر کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ ہے نبی اکرمﷺ کو عبودیت کا تاج پہنانا کیونکہ سب سے خوبصورت عزت افزائی اور اعلیٰ مقام اللہ رب العالمین کی عبودیت میں ہے، اس لیے اللہ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو اس وصف سے موسوم کیا ہے۔ فرمایا: ﴿إِنَّهُ كَانَ عَبْدًاشَكُوْرًا﴾
’’بے شک وہ (نوح) بہت شکر گزار بندہ تھا۔‘‘ (بنی اسرآئیل 3:17)
اور فرمایا: ﴿نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾
’’بلاشبہ وہ (ایوب) بہت رجوع کرنے والا تھا۔‘‘ (ص 30:38)
اور ایک مقام پر فرمایا: ﴿الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي انْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ﴾
’’ساری حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی۔‘‘ (الکھف 1:18)
﴿لَیْلًا﴾: ’’رات کو‘‘ اس لیے کہ اس میں راز چھپے رہیں۔ آپﷺ عزیز و غفار رب سے سرگوشیاں کریں اور دشمنوں سے محفوظ رہیں، جیسا کہ مثل مشہور ہے:
اَللَّيْلُ أَخْفٰى لِلوَيْلِ ’’ رات غموں کو بہت زیادہ چھپانے والی ہے۔‘‘
اور اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا:
﴿فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلاً﴾ ’’ اب تو میرے بندوں کو راتوں رات لے چل۔‘‘ (الدخان 23:44)
یہ اتنا بڑا معجزہ رات کو وقوع پذیر ہوا۔ اسراء و معراج کے معجزے میں رسول اکرم ﷺکے لیے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کی راہ ہموار ہوئی۔ معراج کے ذریعے سے آپﷺ پر نماز فرض کی گئی۔ آفات اور بحرانوں کے وقت ہماری معراج، یعنی نماز کے ذریعے ہی سے ہماری روحیں اور دعا میں آسمانوں اور زمین کے رب کی طرف او پر جاتی ہیں اور اس معراج کے ذریعے ہی سے ہم اپنے رنج وغم اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ وہ بلند شان والا انھیں دور کردے۔
نماز اکلوتی عبادت ہے جو اسراء و معراج کی رات فرض ہوئی کیونکہ اس میں عبودیت کی تمام صورتیں، جیسے تلاوت، تسبیح، رکوع و سجود، تشہد، دعا و مناجات اور رب العالمین کے لیے عجز و انکسار بدرجہ کمال موجود ہیں۔ اس لیے نماز نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہر غم، دکھ، درد اور مصیبت کاحل بن گئی۔ آپ کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی، آپ فرماتے: ((يَا بِلالُ أَرِحْنَا بِالصَّلاةِ))
’’بلال ہمیں نماز کے ساتھ سکون پہنچاؤ ‘‘ (مسند احمد، حدیث: 23088)
اور آپﷺ فرماتے: ((وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ))
’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔‘‘ (سنن النسائي، عشرة النساء، حديث: 3940)
﴿مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا﴾: اس سفر کا آغاز مسجد سے ہوا اور اختتام بھی مسجد پر ہوا۔ پہلا سفر مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک تھا اور دوسرا مسجد اقصیٰ سے بیت المعمور تک تھا جو آسمان میں ہے۔ چونکہ یہ سفر مقدس اور ربانی سفر تھا، اس لیے اس کی پاکیزگی، شرف اور تقدس کا تقاضا یہی تھا کہ اس کا آغاز مسجد سے ہو۔ نزول وحی کے مقام مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کا سفر اس لیے کرایا تاکہ زمین میں بھی دلیل اور گواہی ہو کیونکہ اگر سفر مکہ سے سیدھا آسمان کی طرف ہوتا تو قریش مکہ نے جب اس کا انکار کیا تو انھیں قائل کرنے کے لیے آپﷺ کے پاس کوئی زمینی دلیل نہ ہوتی، چنانچہ ان کے انکار پر آپ نے انھیں بیت المقدس کا ایک ایک ایک دروازہ اور راستہ بتایا تو وہ حیران و ششدر رہ گئے اور ان میں سے بعض نے اسلام قبول کر لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ((لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْسٌ، قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلَا اللهُ لِيْ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ))
’’جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر انھیں اس کی نشانیاں بتانے لگا۔‘‘ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث: 3886)
30۔آپ ﷺکا سابقہ غیبی امور کی خبر دینا
نبی اکرمﷺ اُمی تھے، یعنی لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے اور نہ آپ نے ان (پچھلے لوگوں ) کے شہروں کا سفر کیا تھا مگر اس کے باوجود آپ نے سابقہ قوموں کے واقعات کی باریک بینی سے خبریں دیں اور ان کے متعلق تمام تفصیلات اس طرح بتائیں گویا یہ واقعہ آپ ﷺنے آنکھوں سے دیکھا ہے اور آپ ان کے پاس بذات خود موجود تھے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ذٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقَوْنَ أَقَلَا مَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُوْنَ﴾
(اے نبی!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں اور آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کا سر پرست ہو اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ (اٰل عمران 44:3)
نبیﷺ نے مقدس وحی کے ذریعے سے انسانی تاریخ کا سب سے خوبصورت واقعہ بیان کیا ہے اور وہ ہے اللہ کے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام کا واقعہ۔ بھائیوں کی فریب کاری کی ابتدا سے ان کی یوسف علیہ السلام کے ساتھ دوسری ملاقات تک پوری تفصیل سے یہ قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں تمام کرداروں، شخصیات اور زمان و مکان کا تذکرہ اس دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے کہ آپ اسے پڑھتے ہوئے اس میں اس طرح گم ہو جاتے ہیں گویا آپ جسمانی طور پر ان واقعات میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔ قرآن مجید نے اس محیر العقول اور شاندار معجزے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالی نے سورہ یوسف میں فرمایا:
﴿ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ ۚ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْۤا اَمْرَهُمْ وَ هُمْ یَمْكُرُوْنَ﴾
’’یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وہی کرتے ہیں۔ اور آپ ان (برادران یوسف) کے پاس نہیں تھے جب انھوں نے اپنی ایک بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ مکر کر رہے تھے۔‘‘ (یوسف 102:12)
اللہ کے نبی سیدنا موسی علیہ السلام کا قصہ دیکھ لیں کہ رسول اکرم ﷺنے اسے کیسے نقل کیا ہے۔ فرعون سے آمنا سامنا اور جادو گروں کو دیکھ کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دلی کیفیت کو کس خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿فَأَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهِ خِيْفَةً مُّوْسٰى﴾
’’تو موسی نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔‘‘ (طہٰ 67:20)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْقَضَيْنَا إِلٰى مُوْسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِينَ ﴾
’’اور (اے نبی !) جب ہم نے موسٰی پر خاص معاملے کی وحی کی تو آپ (طور کی ) مغربی جانب نہیں تھے، اور نہ آپ اس واقعے کے حاضرین میں تھے۔‘‘ (القصص 44:28)
دیکھیں، وحی کہہ رہی ہے کہ اے محمد ﷺ!آپ اس قصے میں حاضر نہیں تھے اور نہ آپ نے اس کا مشاہدہ کیا لیکن ہم نے آپ کو اس طرح خبر دی گویا آپ انھیں دیکھ اور سن رہے ہوں اور ان کے ساتھ رہے ہوں۔ اس سے بڑا اعجاز کیا ہو سکتا ہے ؟!
ان دقیق نکات کی تفصیلات نہ رسول اکرمﷺ جان سکتے تھے اور نہ ہم جان سکتے تھے۔ اللہ تعالی نے رسول اکرمﷺ کو بتائیں اور آپ سے ہمیں معلوم ہو ئیں۔ ان قصوں اور سابقہ قوموں کے بیان کردہ دیگر واقعات جیسے ملکہ بلقیس اور اپنی قوم کے ساتھ اس کی گفتگو، ہاروت و ماروت کے جادو کا نتیجہ، طالوت و جالوت کی جنگ، فرعون اور قوم فرعون کی خبریں، نمرود کا واقعہ، کنواری سیدہ مریم بتول کا قصہ، ذوالقرنین کا واقعہ اور اس کے علاوہ سابقہ قوموں کے دیگر اخبار و واقعات میں آپ ﷺ کی صداقت کی کتنی بڑی دلیل ہے ؟؟ جس شخص کے پاس ذرہ بھر عقل و شعور ہو اور وہ عادل و منصف بھی ہو، پھر قرآن یا صحیح احادیث میں بیان کیا ہوا سابقہ امتوں کا کوئی قصہ پڑھے تو وہ یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
آپﷺ کے ذکر کیے ہوئے واقعات کی تاریخ دانوں، مؤرخوں اور سوانح نگاروں نے بھی تائید کی، جبکہ آپ نے نہ تو کوئی کتاب پڑھی تھی نہ کوئی خط لکھا تھا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
’’نبی اکرم ا ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہمیں مخلوق کی ابتدا سے انتہا تک ساری تفصیل بتا دی حتی کہ اہل جنت کا جنت میں جانا اور دوزخیوں کا اپنے ٹھکانوں میں چلے جانا تک بتایا۔ جس نے اسے یادرکھا سو یا د رکھا اور جس نے بھلا یا سو بھلا دیا۔‘‘ (صحیح البخاري معلقاً )
31۔نبی ﷺکا مستقبل میں پیش آنے والے امور کی خبر دینا
نبیﷺ کی صداقت پر دلالت کرنے والے بڑے بڑے معجزات جن سے عقل دنگ رہ جاتی ہے اور روح کو آپ کی نبوت کا یقین ہو جاتا ہے، وہ مستقبل کے بارے میں آپ ﷺ کی پیش گوئیاں ہیں۔ ان میں سے کچھ تو آپ کی زندگی میں پوری ہوئیں اور کچھ آپ کی وفات کے بعد ظہور پذیر ہوئیں اور کچھ ایسی ہیں جو قیامت قائم ہونے سے پہلے رونما ہوں گی اور یہ قرآن و سنت میں سورج کی طرح واضح اور روشن ہیں۔ اگر اللہ کی طرف سے وحی اور اطلاع نہ ہوتی تو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے بارے میں بتانا اور غیبی امور کے متعلق خبر دینا جنون اور دجل کی ایک صورت ہوتی۔ ایک اُمی انسان باری تعالی کی وحی کے بغیر ان دسیوں امور کی پوری تفصیل کے ساتھ خبر کیسے دے سکتا تھا جو اس کی وفات سے دسیوں اور سیکڑوں سال بعد وقوع پذیر ہونے تھے؟! اور پھر وہ اسی طرح وقوع پذیر بھی ہوئے جیسے آپ ﷺنے بتائے تھے۔
جن اخبار و واقعات کے بارے میں آپ ﷺ نے بتایا ہے، ان میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ عصر حاضر کی اختراعات و انکشافات اور سائنس بھی ان کو نہیں جھٹلا سکی بلکہ سائنس نے ان کی صداقت کو مزید تقویت دی ہے اور جدید انکشافات نے ان کی مزید تاکید و تائید کی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ؕ اَوَ لَمْ یَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ﴾
’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق (دنیا جہان) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی دکھائیں گے، حتی کہ ان کے لیے خوب واضح ہو جائے گا کہ بے شک یہ (قرآن) حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ بے شک آپ کا رب ہر چیز پر پوری طرح گواہ ہے؟‘‘ (حٰم السجدة 53:41)
اگر آپ ﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے سچے نبی نہ ہوتے تو آپ اتنے وثوق سے غیبی امور کے بارے میں نہ بتاتے کیونکہ تب یہ خدشہ رہتا کہ اگر ایسے نہ ہوا تو آپ کا راز فاش ہو جائے گا، لیکن آپ نے مستقبل کے بعض غیبی امور کی اس طرح وثوق سے خبر دی گویا آپ اس کی ساری باریکیاں اور تفصیلات آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(ا) آپﷺ کا سیدنا عمر و عثمان رضی اللہ تعالی عنہما کی شہادت کی خبر دینا
صحیح حدیث نبوی ہے کہ جب رسول اکرمﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ سید نا ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہما بھی تھے تو پہاڑ ہلنے لگا۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((أُسْكُنْ أُحُدُ: فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَّ صِدِّيقٌ وَّشَهِيْدَانِ))
’’اے احد ٹھہر جاؤ، تجھ پر نبی، صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، فضائل أصحاب النبي، حديث: 3699)
اس ارشاد نبوی میں صدیق سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور دو شہید سیدنا عمر و عثمان رضی اللہ تعالی عنہما ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے اپنے صحابہ کو بتایا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں خیبر فتح ہوگا۔ یہ خبر بھی دی کہ آپ کے نواسے سید نا حسن ابن فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما وہ سردار ہیں جن کے ہاتھوں اللہ تعالی مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا اور پھر ایسے ہی ہوا۔ آپ ﷺنے بتایا کہ آپ کے بعد خلافت (راشدہ) تیس سال رہے گی تو جیسے آپ ﷺنے بتایا ویسے ہی ہوا۔ اور یہ تمام احادیث صحیح ہیں۔
(ب) فتح مکہ اور اسلام کا پھیلنا
حالات کی سنگینی وسختی عروج پر ہے اور نبیﷺ کے ساتھ مکہ میں مٹھی بھر بے بس اور کمزور لوگ موجود ہیں، ایسے میں اللہ تعالی کے رسول سے خبر دیتے ہیں کہ عنقریب اللہ تعالی تمھیں مکہ کی فتح عطا کرے گا، آپ کی مدد کرے گا اور آپ کا دین زمین میں پھیلے گا۔ پھر جب سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ تعالی عنہ مشرکینِ مکہ سے پہنچنے والی ایذاؤں کا ذکر رسول اکرمﷺ سے کرتے ہیں تو آپ ﷺ کعبے کے سائے میں اپنی چادر کا تکیہ بنائے بیٹھے بڑے اطمینان اور وثوق و اعتماد سے فرماتے ہیں:
((وَاللهِ! لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتّٰى يَسِيْرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلٰى حَضْرَ مَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللهَ أَوِ الذِّئْبَ عَلٰى غَنَمِهِ وَلٰكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُوْنَ))
’’اللہ کی قسم! یہ دین ضرور مکمل ہوگا، اس حد تک کہ اگر کوئی مسافر صنعاء سے حضر موت کا سفر کرے گا تو اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور نہ کوئی اپنی بکریوں کے لیے بھیڑیے کا خوف کرے گا مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ (صحیح البخاري، المناقب، حديث: 3612)
مجھ سمیت لاکھوں لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ جیسے آپ سیہ نے فرمایا، ویسے ہی ہوا، چنانچہ شدید مشکلات اور مشرکوں کی مخالفت کو آپ نے دعوت کے پھیلنے کا قرینہ قرار دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ تَعَالَى زَوٰى لِيَ الْأَرْضَ، حَتَّى رَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَ مَغَارِبَهَا، وَأَعْطَانِي الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضُ
”بے شک اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا حتی کہ میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا اور اس نے مجھے سرخ اور سفید دو خزانے عطا فرمائے‘‘ (صحيح مسلم، الفتن وأشراط الساعة، حديث: 2889)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے مشرق و مغرب کے سفر کیے، چین کے مشرق اور یورپ کے مغرب تک گیا، ہر جگہ آپ کے لاکھوں کروڑوں پیروکار دیکھے۔ یقیناً آپ ﷺ کا دین پورے کرۂ ارض پر پھیل چکا ہے۔
(ج) جزیرہ نمائے عرب، فارس اور سلطنت روم کی فتح
نبی اکرمﷺ نے اپنے صحابہ کو اس امر کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:
’’تم لوگ جزیرہ نمائے عرب میں کفر کے خلاف جنگ کرو گے تو اللہ اسے تمھارے لیے فتح کرا دے گا۔ پھر فارس سے جنگ کرو گے تو اللہ اسے فتح کرا دے گا۔ پھر تم سلطنت روم سے جنگ کرو گے تو اللہ اسے فتح کرا دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن وأشراط الساعة، حديث: 2900)
آپ ﷺکی یہ بات پوری ہوئی۔ یہ تمام شہر و مما لک فتح ہوئے۔ ان میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور بعد کے مسلمان فاتحانہ داخل ہوئے اور وہاں اسلامی تہذیب قائم ہوئی جس کا پورا عالم گواہ ہے۔
(د) کسری و قیصر کی ہلاکت اور اس کے بعد کسی کسرٰی و قیصر کے وجود کی نفی
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا هَلَكَ كِسْرٰى فَلَا كِسْرٰى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُنْفِقُنَّ كُنُوزَنَهُمَا فِي سَبِيلِ اللهِ))
’’جب کسری مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسری پیدا نہیں ہوگا اور جب قیصر مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر پیدا نہیں ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً تم ان دونوں حکومتوں کے خزانے اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کرو گے۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حديث: 3120)
مستقبل کے امور کی خبر دیتے ہوئے رسول اکرم ﷺدوٹوک اور قلعی انداز پر غور کریں اور دیکھیں کہ عملاً ایسے ہی ہوا، چنانچہ اس کے بعد آج تک کوئی دوسرا کرئی آیا نہ قیصر اور نہ بھی آئے گا۔
(ھ) مصر کی فتح
رسول اکرم ﷺپورے یقین اور دوق سے خبر دیتے ہیں کہ عنقریب مصر بھی فتح ہوگا اور عملاً ایسا ہوا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:
’’تم جلد ہی مصرفتح کر لو گے۔ وہ ایسی سرزمین ہے جہاں قیراط کا نام کثرت سے لیا جاتا ہوگا۔ جب تم اس سرزمین کو فتح کر لو تو وہاں کے لوگوں سے اچھا سلوک کرنا، کیونکہ ان کا حق بھی ہے اور رشتہ بھی۔ ‘‘یا فرمایا: ’’ان کا حق ہے اور سسرالی رشتہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2543)
میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ بتائیے، اگر رسول اکرمﷺ کو یہ سب کچھ بذریعہ دحی نہیں بتایا گیا تو وہ کون سا ذریعہ ہے جس کے بل بوتے پر آپﷺ نے مستقبل کے غیبی امور کے بارے میں خبر دی ؟!
نوٹ: قیراط (carat) جواہرات اور سونے چاندی کے وزن کی اکائی ہے۔ یونان میں ایک درخت کا پھل Keration کہلاتا تھا جس کا بیچ وزن کی اکائی مانا گیا۔ اس سے ’’قیراط‘‘ یا ’’ کیرٹ‘‘ ماخوذ ہے۔
(و) قزمان کے بارے میں آپﷺ کا فرمان کہ وہ جہنمی ہے۔
بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں ہے کہ قزمان نامی ایک آدمی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ساتھ مل کر بڑی دلیری اور جانبازی سے لڑ رہا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اس کی بہادری پر تعجب کرتے ہوئے حیران ہو کر نبی اکرمﷺ کو بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ)) ’’وہ جہنمی ہے۔ ‘‘صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اس کا پیچھا کیا تو اسے اس حال میں پایا یا کہ اس نے شدید زخمی ہونے کے بعد بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو تلوار سے قتل کر دیا تھا۔ رسول اکرمﷺ نے خبر دی اور اسی روز وہ پوری ہوئی اور سیکڑوں صحابہ اس کے گواہ ہیں۔ بلکہ رسول اکرم ﷺاپنے صحابہ کو مشرکین کی موت سے پہلے بتاتے کہ فلاں مشرک یہاں گر کر مرے گا جیسا کہ صیح مسلم میں ہے: ’’یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے۔ ‘‘اور آپﷺ نے زمین پر اس جگہ ہاتھ رکھا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے۔ ‘‘اور آپﷺ نے اس جگہ ہاتھ رکھا اور ایک ایک کے گرنے کی جگہ کی طرف اشارہ کیا، پھر وہ آپﷺ کی بتائی ہوئی جگہ ہی گرے اور نبیٔ اکرمﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ایک قدم بھی آگے پیچھے نہیں ہوئے۔
(ز) رومیوں کی اہل فارس پر فتح
نبیٔ اکرم ا نے مستقبل کے جن غیبی امور کی دو ٹوک خبر دی ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رومی عنقریب اہل فارس پر غالب آئیں گے جیسا کہ آپﷺ پر نازل ہونے والی مقدس وحی میں آیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ غُلِبَتِ الرُّوْمُۙ۲
فِیْۤ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُوْنَۙ۳
فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ﴾
’’روی مغلوب ہو گئے۔ قریب ترین سرزمین میں، اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوں گے، چند برسوں میں۔ ‘‘(الروم 2:30-4)
اور فرمایا:
﴿ وَعْدَ اللّٰهِ ؕ لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾
’’اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ (الروم 6:30)
تاریخ نے اس حقیقت کو قلمبند کیا ہے اور تمام لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ ایسے ہی ہوا۔
نوٹ: شاہِ فارس خسرو پرویز کے ہاتھوں قیصر روم ہرقل کی افواج نے سرزمین شام و فلسطین میں 14-613ء میں شکست کھائی۔ اس کے بعد سورہ روم کی پیشگوئی وحی ہوئی (619ء) حتیٰ کہ 624ء سے ہر قل کی ایرانیوں پر فتوحات کا آغاز ہوا جو کہ فتح بدر کا سال ہے اور پھر نینوٰی کے قریب جنگ (627ء) میں ملعون خسرو پرویز شکست کھا کر بھاگا اور اپنے سوتیلے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ (محسن فارانی)
(م) آپ ﷺکا یہ خبر دینا کہ میری وفات کے بعد میرے اہل و عیال میں سے بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے پہلے فوت ہوں گی
رسول اکرم ﷺنے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:
((وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لُحُوقًا بِيْ، وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ))
’’اور بلا شبہ تم میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے مجھ سے آملو گی اور میں تمھارا بہت اچھا پیش رو ہوں۔ ‘‘(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث (2450)
آپ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا وفات پا گئیں اور آپ ﷺکے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے انھی نے وفات پائی۔ یہ آپﷺ کی نبوت کی صداقت کی کھلی اور روشن دلیل ہے۔
(ط) محمدﷺ ہی خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں
آپ ﷺکی نبوت کی صداقت کے روشن دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے خبر دی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ﴾
’’محمد (ﷺ) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، اور لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘
(الأحزاب 40:33)
اور آپ ﷺنے فرمایا: ((وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ))
’’میں خاتم النبیین (آخری نبی ) ہوں۔ ‘‘ (صحيح البخاري، المناقب، حديث: 3535)
چودو سو برس گزر گئے مگر آج تک کوئی نبی نہیں آیا۔ صرف جھوٹے کذاب اور دجال آئے جنھوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے تو اللہ نے ان کے راز فاش کر دیے اور انھیں ایسا رسوا کیا کہوہ اپنی موت آپ مر گئے جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰى يُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ كَذَّابُوْنَ قَرِيْبًا مِّنْ ثَلَاثِيْنَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ
الله))
’’اور قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ تیس کے قریب بہت جھوٹ بولنے والے دجال پیدا ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک دعوی کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، المناقب، حديث (3009)
یہاں مستقبل کی سیکڑوں لیبی خبریں ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺنے بتایا اور وہ سپیدۂ سحر کی طرح رونما ہوئیں اور پوری دنیا نے ان کا مشاہدہ کیا، نیز وہ ہم تک ایسی صحیح استاد کے ذریعے سے پہنچیں جن میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسا صرف اس لیے ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى، وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى﴾
’’تمھارا ساتھی نہیں بہکا اور نہ وہ بھٹکا ہے۔ اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ (النجم 2:53-4)
ہمارے رسولﷺ یتیم پیدا ہوئے لیکن اربوں لوگ آپ کے تعلق دار اور پیروکار ہے۔ آپﷺ اُمّی تھے لیکن نہ تو کوئی کتاب آپ کے علم کے بغیر مکمل ہوتی ہے نہ کوئی محراب آپ کے ذکر سے خالی ہے۔
آپ ﷺکو جلا وطن کیا گیا لیکن آپ کے لشکروں نے پوری زمین کو بھر دیا اور آپ کی سلطنت سندھ سے ہسپانیہ (اندلس) تک پھیل گئی۔
آپ زاہد و فقیر تھے لیکن آپ کی بعثت کی برکت سے دولت کے خزانے کھل گئے۔ آپﷺ مٹی کے گھر میں رہتے تھے اور بڑے بڑے بادشاہ اور سلاطین آپ کے تابع فرمان تھے۔
سیدنا نوح ﷺ نے اپنے پیروکاروں کو سفینہ نجات میں سوار کیا اور ہمارے رسول ﷺنے اپنے پیروکاروں کو سفینہ حیات میں سوار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل علیہ السلام کے لیے ان کی دعا ﴿حَسبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ﴾ کے ساتھ آگ کو ٹھنڈا کیا تو آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بت پرستی کی آگ بجھا دی اور جاہلیت کی بھڑکتی آگ ٹھنڈی کر دی۔
سیدنا موسی علیہ السلام کو وہ عصا دے کر مبعوث کیا گیا جو اژدہا بن کر جادوگروں کے سب جھوٹ نکل گیا تو بلاشبہ اللہ تعالی نے ہمارے رسول ﷺکو ایسی وحی دے کر بھیجا جس نے ان کفار و مشرکین کی افترا پردازیوں کا خاتمہ کر دیا۔ جب سیدنا عیسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا تو ہمارے رسول ﷺنے گمراہ کن افکار میں بھٹکتی امت کو ہدایت کی زندگی بخشی اور نسلوں کو ناکامی و نامرادی سے بچایا۔۔۔