نبی اکرمﷺ کو برا بھلا کہنے والا کافر ہے

932۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک نابینا تھا، اس کی ایک ام ولد (ایسی لونڈی

جس سے اس کی اولاد) تھی اور وہ نبی ﷺ کو گالیاں بکتی اور برا بھلا کہتی تھی، وہ اسے منع کرتا تھا مگر دو مانتی نہ تھی، وہ اسے ڈانتا تھا مگر وہ سمجھتی نہ تھی۔

ایک رات وہ نبی ﷺکی بدگوئی کرنے اور آپ کو گالیاں دینے لگی تو اس ناببینے نے ایک برچھا لیا اسے اس لونڈی کے پیٹ پر رکھ کر اس پر اپنا بوجھ ڈال دیا اور اس طرح اسے قتل کر ڈالا، اس لونڈی کے پاؤں میں ایک چھوٹا بچہ آ گیا، عورت نے بچے اور اس جگہ کو خون سے لت پت کر دیا، جب صبح ہوئی تو نبی ﷺ سے اس قتل کا ذکر کیا گیا اور لوگ اکٹھے ہو گئے تو آپﷺ نے فرمایا:

((أَنْشُدُ اللهَ رُجُلًافَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقَّ، إِلَّا قَامَ))

’’میں اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، جس نے یہ کارروائی کی ہے اور میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے۔‘‘

تو وہ نابینا آدمی کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، اس کے قدم لرز رہے تھے حتی کہ نبی ﷺ کے سامنے آ بیٹھا اور بولا: اللہ کے رسول! میں اس کا قاتل ہوں، یہ آپ کو گالیاں بکتی اور برا بھلا کہتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا مگر باز نہیں آتی تھی، میں اسے ڈاننا تھا مگر وہ سمجھتی نہ تھی، میرے ان سے موتیوں جیسے دو بچے بھی ہیں اور وہ میرا بڑا اچھا ساتھ دینے والی تھی، گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیاں دینے لگی اور برا بھلا کہنے لگی تو میں نے چھر لیا اسے اس کے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا بوجھ ڈال دیا دیاحتی کہ اسے قتل کر ڈالا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

((أَلَا اِشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ)) (أخرجه أبو داود:4361، والنسائي في المجتبى:4078، وفي الكبرى:3519)

’’ لوگو! گواہ ہو جاؤ اس لونڈی کا خون ضائع ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: نبی ﷺ کو گالی دینے والا کافر ہے اور اس کی سزا قتل ہے، تاہم یہ سزا دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ ہر آدمی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس طرح انار کی پھیلتی ہے۔

933۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عیسائی شخص نے مسلمان ہو کر سورہ بقرہ اور سورۂ آل عمران بھی پڑھ لی، پھر نبیﷺ کے لیے وحی کی کتابت کرنے لگا، اس کے بعد وہ نصرانی ہو گیا اور کہنے لگا:

((مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا كَتَبْتُ لَهُ)) .

’’محمد (ﷺ) تو صرف وہ کچھ جانتے ہیں جو میں نے ان کے لیے لکھ دیا ہے۔‘‘

چنانچہ اللہ نے اسے موت دے دی تو لوگوں نے اسے دفن کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ زمین نے اس کی لاش باہر پھینک دی ہے۔

لوگوں نے کہا کہ یہ تو محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے کیونکہ یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا تھا، اس لیے ہمارے ساتھی کی قبر انھوں نے کھود ڈالی ہے۔

انھوں نے اسے دوبارہ قبر میں رکھ کر بہت گہرائی میں دفن کر دیا مگر صبح کو زمین نے اس کی لاش پھر باہر پھینک دی۔

اس پر لوگوں نے یہی کہا کہ یہ تو محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کا فعل ہے، انھوں نے ہمارے ساتھی کی قبر اکھاڑی ہے کیونکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ آیا تھا۔

انھوں نے اس کی قبر پھر اور زیادہ گہری کھودی جتنا کہ ان کے بس میں تھا لیکن صبح کے وقت اس کی لاش پھر زمین نے باہر پھینک دی، جب لوگوں نے یقین کیا کہ یہ آدمیوں کی طرف سے نہیں (بلکہ اللہ کی طرف سے ہے،) لہٰذا انھوں نے اسے اسی طرح پھینک دیا۔

(أخرجة البخاري:3617، ومسلم:2781)