نیک کون۔۔۔؟
اہم عناصر :
❄ مُوَحِّد (توحید پرست) ہونا ❄ عبادت گزار ہونا
❄ مخلوقِ خدا سے حسنِ سلوک کرنا
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم (وَالۡعَصۡرِ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ)
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ ]الذاریات: 56[
” ہم نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.” پتا چلا کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادت اور نیک بننا ہے. اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیک کون ہے؟ اللہ کا ولی کسے کہتے ہیں؟ ہمارے ذہن میں ہوتا ہے کہ کوئی خاص قسم کا لباس پہننے والا اور خاص ہیئت والا شخص نیک اور ولی ہے. نہیں ایسی بات نہیں ہے. آج کے خطبہ جمعہ میں ہم یہ سمجھیں گے کہ نیک شخص کی کم از کم تین نشانیاں اور صفات ہوتی ہیں. جس شخص میں یہ تین نشانیاں اور صفات موجود ہیں ، وہ شخص نیک اور ولی ہے. اور جس میں ان میں سے ایک بھی کم ہے وہ نیک اور ولی نہیں ہے۔
1۔مُوَحِّد (توحید پرست) ہونا
توحید یہ ہے کہ اکیلے اللہ تعالیٰ کو کائنات کا خالق ومالک ماننا ، تمام عبادات صرف اسی کے لئے بجا لانا اور اس کے اسماء وصفات میں اسے یکتا تسلیم کرنا ۔ نیک بننے کے لئے سب سے پہلی نشانی اور صفت یہ ہے کہ بندہ توحید پرست ہو. اللہ تعالیٰ کو ذات اور صفات میں یکتا مانتا ہو. توحید اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور شرک سب سے بڑی لعنت ہے. توحید کا دل سے اقرار کرنے والے شخص کے لئے جنت ہے. حضرت عثمان سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ؛ مَنْ مَّاتَ وَهُوَ یَعْلَمُ أنَّهُ لَا إلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ دَخَلَ الْجَنَّة ]مسلم: 26[
’’ جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ اسے یقین تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔‘‘
حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک شخص رسولِ اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : دو واجب کرنے والی چیزیں کونسی ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ؛
مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰهِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنة، وَمَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللّٰهِ دَخَلَ النَّار ’’جس شخص کی موت اس میں حالت آئی کہ وہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔‘‘ ]مسلم: 93[
اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ؛
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَمَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدِ افۡتَـرٰۤى اِثۡمًا عَظِيۡمًا ]النساء: 48[
ترجمہ: بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔
کوئی بندہ جتنا بڑا بھی عبادت گزار ہے ، جتنی بڑی بھی اس کی گدّی اور مسند ہے ، جتنی بڑی بھی اس کی پگڑی ہے اگر وہ توحید پرست نہیں ہے تو اس کی کوئی نیکی قابلِ قبول نہیں ہے. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنةۃ وَ مَاْوٰیهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ [المائدۃ:۷۲]
’’یقین مانو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہ گاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ؛
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي، يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي، يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً ] ترمذی: 3540صححہ الالبانی[
ترجمہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہو گی۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے ( مغفرت طلب کرنے کے لیے ) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا ( اور تجھے بخش دوں گا ) “
توحید کی اہمیت
❄ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ] بخاری: 1356[
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ ﷺ اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔
❄ عَنِ البَرَاءِ ، يَقُولُ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالحَدِيدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ؟ قَالَ: «أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ»، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَاتَلَ، فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَمِلَ قَلِيلًا وَأُجِرَ كَثِيرًا» ]بخاری: 2808[
ترجمہ : براءبن عازب کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب زرہ پہنے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! میں پہلے جنگ میں شریک ہوجاؤں یا پہلے اسلام لاؤں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا پہلے اسلام لاؤ پھر جنگ میں شریک ہونا ۔ چنانچہ وہ پہلے اسلام لائے اور اس کے بعد جنگ میں شہید ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عمل کم کیا لیکن اجر بہت پایا۔
شرک کی نجاست :
عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:” لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ "] مسلم: 518[
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسولﷺ!ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپ نے فرمایا:’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے، (کیونکہ) اس نے کسی ایک دن (بھی) یہ نہیں کہا تھا: میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔‘‘
2۔ عبادت گزار ہونا
نیک بننے کی دوسری نشانی اور صفت یہ ہے کہ بندہ عبادت گزار ہو. صرف توحید پرست ہونا اور عمل نہ کرنے والا شخص نیک نہیں ہے. کیونکہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں جگہ جگہ فرماتے ہیں وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔
مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد نیک اعمال بہت زیادہ ضروری ہیں۔
اسکے علاوہ بھی عبادت کی بہت زیادہ اہمیت ہے. ہمارے خالق ومالک اور ہمارے رازق اللہ تعالی نے ہمارا مقصد ِتخلیق بیان کیا ہے؛
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ] الذاریات: 56[
’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
گویا تمام جِنُّوں اورانسانوں کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالی کے نزدیک اس کی عبادت کرناہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ’ عبادت ‘ کسے کہتے ہیں ؟
بعض اہل علم نے ’ عبادت ‘ کی تعریف یوں کی ہے: (طَاعة اللّٰهِ بِفِعْلِ أَوَامِرِہِ وَاجْتِنَابِ نَوَاہِیْہِ مَعَ مَحَبَّة اللّٰهِ وَخَوفِهِ وَرَجَائِهِ) ’’ اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے ان سے اجتناب کرتے ہوئے اُس کی اِس طرح فرمانبرداری کرنا کہ دل میں اس کی محبت ، اس کے عذاب کا خوف اور اس کی رحمت کی امید ہو۔‘‘
اور بعض اہل علم نے ’ عبادت ‘ کی تعریف یوں کی ہے؛ (اِسْمٌ لِکُلِّ مَا یُحِبُّهُ اللّٰهُ وَیَرْضَاہُ مِنَ الْأقْوَالِ وَالْأعْمَالِ الظَّاهرَة وَالْبَاطِنَة) ’’ عبادت ہر اُس ظاہری وباطنی قول وعمل کا نام ہے جس سے اللہ تعالی محبت کرتا اور اسے پسند کرتا ہو۔‘‘ ان دونوں تعریفوں سے یہ واضح ہو گیا کہ ’ عبادت ‘ اللہ تعالی کی محبت کے ساتھ اس کی فرمانبرداری کرنے کا نام ہے۔یعنی اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اس کے احکام پر عمل کرنا اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے نواہی ومحرمات(جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان)سے بچنا اور پرہیز کرنا۔اور اپنے تمام اقوال وافعال کو اللہ تعالی کی منشا کے مطابق بنانا ’ عبادت ‘ ہے۔ اِس جامع تعریف سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ عبادت صرف چند شعائر ہی کا نام نہیں ہے مثلا نماز ، روزہ اور حج وغیرہ۔بلکہ ہر وہ عمل جو اللہ کی منشا کے مطابق ہو ، اُس سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہو اور اس کا تقرب حاصل ہوتا ہو وہ ’ عبادت ‘ ہے.
عبادت کیسے کی جائے…؟
1۔ عبادت میں اخلاص لازم ہے۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَآ اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلاَة وَیُؤتُوْا الزَّكَاة وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمة ] البینہ: 5 [ ’’انہیں محض اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔‘‘
’اخلاص‘کا معنی ہے:پاک صاف کرنا۔یعنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا اور اسے شرک اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا۔عبادت میں کسی کو شریک کرنے یا دکھلاوے کی نیت کرنے سے عبادت ضائع ہو جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَنَا أَغْنَی الشُّرَكَائِ عَنِ الشِّرْکِ ،مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیْهِ مَعِیَ غَیْری تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ
’’میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں۔اور جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ ] مسلم:۲۹۸۵[
2۔ ‘عبادت’ وہ ہے جو کلام الٰہی یا حدیث ِ رسول ﷺ سے ثابت ہو۔کیونکہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے
; مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ] بخاری:۲۶۹۷ ، مسلم:۱۷۱۸[
’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے۔‘‘
ایک اورروایت میں ارشاد فرمایا؛
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ ] مسلم:۱۷۱۸[
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
لہذا کوئی ایسا کام جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجودنہ ہو تو وہ ’ عبادت ‘ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس سے اللہ کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے۔
3۔ ’ عبادت ‘کی مقدار اور کیفیت دونوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع لازم ہے۔یعنی ’عبادت‘ اُتنی ہی ہو جتنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو اور اس کا طریقہ بھی وہی ہو جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ان دونوں چیزوں میں اتباعِ سنت ِ رسول ضروری ہے۔
مقدار کا مطلب یہ ہے کہ جتنی عبادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اتنی ہی کی جائے اور اس میں کمی بیشی نہ کی جائے۔اس کی مثال نماز جنازہ ہے ، جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع وسجود نہیں کیا۔اگر کوئی شخص نماز جنازہ میں رکوع وسجود بھی کرے تو اس کی یہ نماز قابل قبول نہیں ہے۔ کیفیت سے مراد یہ ہے کہ ’عبادت‘ اُس طرح کی جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔اگر کوئی شخص کسی عبادت کا طریقہ اپنی طرف سے ایجاد کر لے تو اس کی وہ عبادت قبول نہیں کی جائے گی۔
4۔ ’عبادت‘ اللہ رب العزت کی محبت، خشیت اور تعظیم کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ کرنی چاہئے۔لہذا ایسی عبادت کہ جس میں نہ اللہ کی محبت ہو ، نہ اس کیلئے عاجزی وانکساری کے جذبات ہوں اور نہ اس کی طرف توجہ ہو تو وہ اُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔
اسی لئے جب حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ’احسان ‘ کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:
أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّکَ تَرَاہُ ، فَإِن لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّهُ یَرَاکَ ] بخاری: 50[
’’ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اِس طرح کرو کہ جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ، پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقینا تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
5۔ ’عبادت ‘انسان کا مقصد ِ تخلیق ہے ، لہذا اسے پوری زندگی اِس طرح گزارنی چاہئے کہ وہ عبادت بن جائے۔وہ ہر لمحہ اللہ تعالی کی رضا کا طلبگار ہو۔اور جہاں کہیں بھی ہو اور جو بھی کام کرے اس کی منشاء کے مطابق کرے۔ایسا نہ ہو کہ بعض مواقع پر تو وہ اللہ تعالی کی عبادت کرلے ، پھر دیگر اوقات میں وہ اس کی عبادت کو بھول جائے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے؛
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ٭ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ [الحجر: ۹۹]
’’ پس اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہئے۔اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔‘‘ جبکہ بعض لوگ اللہ تعالی کی عبادت اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر کرتے ہیں ، اگر انھیں وہ مفادات حاصل ہوتے رہیں تو عبادت کرتے رہتے ہیں۔اور اگر ایسا نہ ہو ، بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آزماشیں آنا شروع ہو جائیں تو پھر وہ عبادت کو ترک کردیتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِهٖ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنة نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِهٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرة ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ [الحج:۱۱]
’’ اور بعض لوگ اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں۔اگر انھیں دنیاوی بھلائی ملتی ہے تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش انھیں آ لیتی ہے تو(کفر کی طرف)پلٹ جاتے ہیں۔اپنی دنیا اور آخرت دونوں گنوا دیتے ہیں۔یہی واضح نقصان ہے۔‘‘
3۔ مخلوقِ خدا سے حسنِ سلوک کرنا
یہ تیسری نشانی اور صفت ہے اور یہ بھی بہت زیادہ ضروری ہے. اگر کوئی شخص توحید پرست بھی ہے اور عبادت گزار بھی ، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا ، ان کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ شخص نیک نہیں ہے. اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا ] الدھر: 8[
ترجمہ: اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔
اور قرآن مجید میں کئی مقامات پر مسکینوں کو کھانا نہ کھلانے کو جہنم میں جانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
❄ إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِينَ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ] المدثر 39 تا 44[
” مگر داہنے والے۔ باغوں میں ہوں گے، پوچھیں گے۔ گناہگاروں سے۔ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ ”
❄ وَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي لَمۡ أُوتَ كِتَٰبِيَهۡ وَلَمۡ أَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡ يَٰلَيۡتَهَا كَانَتِ ٱلۡقَاضِيَةَ مَآ أَغۡنَىٰ عَنِّي مَالِيَهۡۜ هَلَكَ عَنِّي سُلۡطَٰنِيَهۡ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ثُمَّ ٱلۡجَحِيمَ صَلُّوهُ ثُمَّ فِي سِلۡسِلَةٖ ذَرۡعُهَا سَبۡعُونَ ذِرَاعٗا فَٱسۡلُكُوهُ إِنَّهُۥ كَانَ لَا يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ ٱلۡعَظِيمِ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلۡمِسۡكِينِ ]الحاقہ:25 تا 34[
"اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا. اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے. اے کاش موت (ہمیشہ کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی. آج میرا مال میرے کچھ بھی کام بھی نہ آیا. (ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی. (حکم ہوگا کہ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو. پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو. پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے جکڑ دو. یہ نہ تو خدائے جل شانہ پر ایمان لاتا تھا. اور نہ فقیر کے کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا تھا.”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّار ]مسلم: 6579[
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟” صحابہ نے کہا؛ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی سازوسامان۔ آپ نے فرمایا: "میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہو گا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔”
❄عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا وَجَبَتْ قَالَ هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ ] بخاری: 1367[
ترجمہ : انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا کہ صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا اچھا آدمی تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہوگئی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُذِّبَتْ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا سَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ ]بخاری: 3482 [
ترجمہ : عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسو ل کریمﷺ نےفرمایا کہ (بنی اسرائیل کی ) ایک عورت کوایک بلی کووجہ سے عذاب دیا گیا تھا جسے اس نے قید کرکھا تھاجس سےوہ بلی مرگئی تھی اور اس کی سزا میں وہ عورت دوزخ میں گئی ۔جب وہ عورت بلی کوباندھے ہوئے تھے تواس نے اسے کھانے کےلیے کوئی چیز نہ دی، نہ پینے کےلیے اور نہ اس نے بلی کوچھوڑا ہی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھالیتی ۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ، مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، قَالَ: كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ، فَنَزَعَتْ خُفَّهَا، فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا، فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ المَاءِ، فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ ]بخاری: 3321 [
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزررہی تھی ، جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مرجائے گا ۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلادیا ، تو اس کی بخشش اسی ( نیکی ) کی وجہ سے ہوگئی ۔
❄ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نبی اکرم ﷺ سے عرض کی گئی:’’اے اللہ کے رسول! فلاں خاتون رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور نیکی کے دیگر کام کرتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر)فرمایا؛ لَا خَيْرَ فِيهَا، هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ
’’اس میں کوئی خیر نہیں، وہ دوزخی ہے۔‘‘
انہوں (صحابہ)نے کہا:اور فلاں عورت (صرف)فرض نماز ادا کرتی ہے اور پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے لیکن کسی کو ایذا نہیں پہنچاتی؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ’’یہ جنتی عورتوں میں سے ہے۔‘‘ ] الادب المفرد: 119 صححہ الالبانی[
اس حدیث سے حقوق العباد کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ ان کا اہتمام کس قدر اہم ہے۔ آپ ﷺ نے اچھائی کا معیار یہ بتایا کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کیے جائیں۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حقوق کا پابند ہے لیکن بندوں کو ایذا دیتا ہے، بالخصوص ہمسائے اس سے تنگ ہیں تو ایسے شخص کے نماز، روزوں اور صدقات سے دھوکا مت کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کوئی دین داری نہیں کہ ایک طرف ایسا کام جسے چھوڑنا مباح ہے اس کا التزام کیا جائے اور جسے چھوڑنا ضروری اور فرض ہو اس کا ارتکاب کیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ حرام کما کر صدقہ و خیرات کیا جائے۔ ایسا شخص بے شک بظاہر دین دار ہے لیکن خیر سے خالی ہے۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ ]مسلم: 172 [
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں ، وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ ‘‘
❄❄❄❄❄