نعمتوں کی شکر گزاری
الحمد لله قديم الإحسان، ذي العطاء الواسع والامتنان، أحمده سبحانه وأشكره على ما أولاه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه:
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو ہمیشہ سے احسان کرنے والا اور بہت زیادہ دینے والا ہے میں اس کی حمد بیان کرتا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ و سلم – اما بعد!
اللہ کے بندو! ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ رب العالمین سے ڈرو اور یہ جان رکھو کہ وہی تمہارا منعم اور محسن حقیقی ہے اس نے اس لئے تمہیں تخلیق بخشی کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھر او فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذريات: 56)
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں طرح طرح کی ان گنت نعمتوں سے نوازا تاکہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی شکر گذاری کرو:
﴿وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠۳۴﴾ (ابراہیم: 34)
’’اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو’ بیشک انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘
اس نے تمہیں عقل و خرد کی نعمت سے نوازا دیکھنے اور سننے کی صلاحیت دی اور فہم و ادراک کا مادہ عطا فرمایا ارشاد ہے:
﴿وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۷۸﴾ (النحل: 78)
’’اللہ ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا اس وقت تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل جیسے اعضاء بخشے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے ذریعہ انسان اپنے نفع و نقصان کی چیزوں کو سمجھتا دنیاو آخرت کی بھلائی ڈھونڈھتا اور اپنے جملہ احوال و کوائف کی تدبیر کرتا ہے اور میں وہ ذریعہ ہیں جن سے وہ اپنے لئے راحت و سکون کے اسباب کا پتہ لگا تا اور اللہ کے رزق کو تلاش کرتا ہے۔ ان نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے انسان کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ بھی اللہ کا ذکر کرے اور اس کی تعظیم و تکریم، محبت اور شکر گزاری سے اپنے دل کو معمور رکھے فرمایا:
﴿فَاذْكُرُوْنِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنَ﴾ (البقره: 152)
’’تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا اور میرا احسان مانتے رہو اور ناشکری نہ کرو۔‘‘
ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کر کے جب اپنی زبان و دل اور اعمال و ارکان کے ذریعہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو شکر گذاری کے ساتھ ہی وہ ان نعمتوں کی بتا نیز اللہ کی مزید بخشش و انعام کا مستحق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف جب بندہ نعمتوں پر اللہ کی شکر گذاری نہیں کرتا تو جلد ہی نعمتیں بھی اس سے چھین لی جاتی ہیں اور وہ اللہ کے غلیظ و غضب اور عذاب شدید کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔
بندگان الٰهی! ضروری ہے کہ ہم ان تمام نعمتوں کو یاد کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں ان نعمتوں میں اسلام کی شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی صحت و عافیت کی اور امن و سلامتی کی نعمتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ آج ہماری جان و مال محفوظ ہیں اہل وعیال مامون ہیں۔ عزت و آبرو کا کوئی خطرہ نہیں اور ایسا امن و امان میسر ہے کہ گذشتہ زمانوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
بھائیو! اپنے اس ملک میں اللہ تعالی کے ان احسانات کو بھی یاد کرو جو اس نے رزق کی فراوانی خوش عیشی اور وافر ذرائع معاش کی صورت میں ہمارے لئے مہیا فرما دیا ہے۔ ان تمام نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کی اطاعت میں انہیں لگاؤ اس کی فرماں برداری کرو اور منہایت سے بچو، شکر گذاری کے لئے صرف زبان سے کہہ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دل سے اس کا اعتراف کیا جائے اور بے جا اسراف و تبذیر، معصیت نیز رضائے الہی کے خلاف کاموں میں ان نعمتوں کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے مزید برآن ان نعمتوں کے ذریعہ مصیبت زدہ کی مصیبت اور پریشان حال کی پریشانی دور کی جائے شکستہ دل یتیم کی دلجوئی اور غریب و محتاج کا تعاون کیا جائے مانگنے والے کے حقوق اور نہ مانگنے والے افلاس زدہ کے چہرہ کا خیال رکھا جائے اور اس کے ساتھ ہی تحدیث نعمت کے طور پر اللہ کے انعام و احسانات کو بیان کرو اور ہزار بار اس کی شکر گذاری کرتے رہو اس کا فرمان ہے:
﴿فَأَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحى: 119)
’’یتیم پرستم نہ کرو۔ اور مانگنے والے کو جھٹرکی نہ دو۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو بیان کرتے رہو۔‘‘
برادران اسلام! آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کی شکر گذاری کرتے ہیں نہ ان کی قدر و قیمت پہنچانتے ہیں بلکہ انہیں بے جا خرچ کرتے اور اللہ کی معصیت اور اس کے غیظ و غضب کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں، جو ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں جگہ خسارہ اور نقصان کا باعث ہے کیا ان لوگوں کو اللہ کے عذاب و عقاب کا ڈر نہیں ؟ کیا انہیں اللہ کا یہ اعلان یاد نہیں:
﴿قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَ اَبْصَارَكُمْ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖ ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ۴۶﴾ (الانعام: 46)
’’ان سے کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو اگر اللہ تمہارے کان اور آنکھیں چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگادے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں یہ نعمتیں پھر بخشے ؟ دیکھو ہم کس کس طرح اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں پھر بھی یہ لوگ روگردانی کرتے ہیں۔‘‘
اور کیا اللہ تعالی کی یہ وعید ان کے سامنے نہیں:
﴿ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُۙ۱۶ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ۱۷﴾ (الملك: 16،17)
’’کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بے خوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے۔ کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پر کنکر بھری ہوا چھوڑ دے سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! لہذا اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس کے سطوت و غلبہ اور عذاب و عقاب سے ڈرو نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپناؤ اور آپ کے احکام کی تابعداری کرو کہ آپ ہی انسانیت کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: ﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ ؕ كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌ ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۲۰﴾ (الحديد:20)
’’جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت و آرائش اور تمہارے آپس میں فخر و ستائش اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ کسانوں کو اس کی کھیتی بھلی لگتی ہے، پھر وہ خوب زور پر آتی ہے، پھر تو اس کو دیکھتا ہے کہ زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لئے ) عذاب شدید اور (مومنوں کے لئے اللہ کی طرف سے بخشش و خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب۔ فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم۔