نظام زندگی میں صبر ایک ناگزیر ضرورت

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ ) (البقره:45)
صبر کے حوالے سے گفتگو جاری ہے، صبر ایک بہت طویل موضوع ہے اور اس کی طوالت بے معنی نہیں ہے، بلکہ اس لائق اور اس بات کی مستحق ہے کہ وہ طویل ہو، کیونکہ دنیا و آخرت میں انسان کی کامیابی کا انحصار صبر پر ہی ٹھہرتا ہے، رفع درجات کا باعث بھی صبر ہی قرار پاتا ہے، اور زندگی میں قدم قدم پر انسان کو صبر سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ صبر کی بحث طویل ہو، اور تفصیل کے ساتھ اس کی تمام جزئیات پر گفتگو ہو۔
صبر کے بارے میں یہ جانتا کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اس کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے نہایت ضروری ہے، صبر کے فوائد اور عدم صبر کے نقصانات سے آگاہی بھی ضروری ہے اور یہ معلوم کرنا بھی نہایت اہم ہے کہ انسان صبر کرنے میں ناکام کیوں ہوتا ہے، بے صبری کے اسباب کیا ہیں اور ان سے بچنے کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہے اور کون کون سی باتیں اور اسباب و وسائل صبر کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اب سب سے پہلے صبر کی اہمیت کا اندازہ کیجئے کہ دنیا کی کامیابی کے لحاظ سے صبر کی کیا اہمیت ہے، دنیا کی کامیابی کا انحصار کس طرح صبر پر ہے۔ دنیا کی کامیابی کے یوں تو مختلف پہلو ہیں اور ہر آدمی کے ہاں کامیابی کا اپنا ہی ایک معیار ہوتا ہے، مگر ایک جو بہت نمایاں کامیابی سمجھی جاتی ہے وہ ہے کسی قوم کا قائد، امام اور رہنما بن جانا اور یہ کسی شخص کے لئے بہت بڑا شرف اور اعزاز ہوتا ہے، اور پھر بالخصوص اگر دین کے حوالے سے ہو تو پھر تو یقینًا سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے، اور یہ اعزاز کیونکر حاصل ہوتا ہے۔
یہ اعزاز صبر کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿ وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ؕ۫ وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ۝﴾ (السجده:24)
’’ اور ہم نے ان میں سے لوگوں کو قائد، رہنما، لیڈر، امام اور پیشوا بنادیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے۔‘‘
تو صبر کے نتیجے میں ، صبر کے عوض ، صبر کی جزاء بدلے اور انعام کی صورت میں ہم نے انہیں امام اور پیشوا بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرنے والے بن گئے ۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کو بڑی بڑی اور صبر آزما آزمائشوں میں سرخرو ہونے کے بعد فرمایا:
﴿ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ﴾ (البقرة:124)
’’میں تمہیں امام الناس بنارہا ہوں۔‘‘
اور ان آزمائشوں میں سے ایک آزمائش کہ ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کے حکم کے مطابق بیٹے کو ذبح کرنے کی کوشش کے بارے میں فرمایا:
﴿ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۝﴾
’’یقینًا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔‘‘
تو قیادت اور پیشوائی ایک بہت بڑا انعام، بہت بڑا شرف اور اعزاز ہے، مگر صبر کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے، جس سے صبر کی فضیلت اور اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
یہاں ایک یہ بات سمجھتا بھی ضروری ہے کہ امامت اور پیشوائی دو طرح کی ہے: ایک خیر کی اور دوسری شرکی، لہذا خیر اور شر کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور اگر اس فرق کو سمجھا نہ گیا تو یہ انسان کو اس دنیا میں بھی ناکامی سے ہمکنار کر سکتا ہے اور اس کی آخرت بھی تباہ و بر باد کر سکتا ہے۔
خیر کی پیشوائی تو یہ ہے کہ:
﴿ وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا (السجده:24)
’’ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ہم نے ان کے صبر اور یقین کے نتیجے میں اُن میں سے لوگوں کو پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘
جبکہ دوسری طرف شر کے پیشوا وہ ہیں جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ۝۴۱﴾ (القصص:41)
’’ اور ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیشوا بنادیا۔‘‘
اب کوئی لیڈر، کوئی رہنما اور پیشوا یوں تو نہیں کہے گا کہ لوگو آؤ جہنم کی طرف۔ لہذا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے کاموں کی دعوت دیتا ہے، ان پر عمل کرتا یا اہتمام کرتا ہے جو انسان کو جہنم کا مستحق بنا دینے والے ہیں، تو ایسے لیڈر اور ایسے پیشوا سے خبردار رہنا اور بچنا بہت ضروری ہے۔ جہنم کی طرف لے جانے والے اعمال یقینًا بے شمار ہیں جو ان سے بچنا چاہتا ہے اُسے قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کی پہچان حاصل کرنی چاہیے، ویسے فطرتا بھی انسان ان کی قباحت کو خوب سمجھتا ہے، جیسا کہ ناچ گانا وغیرہ ہے، یقینًا کوئی مسلمان ایسا نہیں جو ان اعمال کو جنت میں لے جانے والے اعمال شمار کرتا ہو۔
تو بات ہو رہی تھی کہ دنیا میں کامیابی کا انحصار صبر پر ہے جس کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال کا ذکر کیا کہ صبر کی وجہ سے انسان بڑی بڑی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے اور بڑے بڑے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
اسی طرح آخرت کی کامیابی کا انحصار بھی صبر پر ہی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل جنت ، جب جنت میں داخل ہوں گے (تو فرشتے ان کا استقبال کرتے ہوئے ) ہر طرف سے امنڈ آئیں گے
﴿وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ۝۲۳﴾(الرعد:23)
’’ ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے چلتے ہوئے آئیں گے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے کہ:
﴿ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِؕ۝﴾ (الرعد:24)
’’تم پر سلامتی ہو ا تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو، پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھڑی ‘‘
تو صبر ایک ایسی خوبی، ایسی صفت اور ایسی نعمت ہے کہ اس پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے، مگر صبر کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ صبر کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں انسان کو دینی یا جسمانی اذیت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، اس تکلیف کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے کہ آدمی اس میں اپنی توہین ، محقت اور بے عزتی محسوس کرتا ہے، چنانچہ اس کا خون کھولنے لگتا ہے اور اس سے مشکل یہ ہوتا ہے کہ آدمی تکلیف پہنچانے والے کو اپنے حسن سلوک اور اخلاق حسنہ سے جواب دے اور برائی کا بدلہ نیکی سے دے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ ؕ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝﴾ (فصلت:34)
’’ اور نیکی اور بدی ایک نہیں ہیں، آپ بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، آپ دیکھیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ گویا جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘
﴿ وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ۚ وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۝﴾ (فصلت:35)
’’مگر یہ صفت اور یہ خوبی صرف صبر کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہے اور یہ مقام بڑے نصیب والوں کو حاصل ہوتا ہے۔‘‘
یعنی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے بڑا دل گردہ چاہیے! یہ یا ہمت، با حوصلہ اور مضبوط اعصاب والا انسان ہی کر سکتا ۔ ہے۔
﴿ وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۝﴾ (فصلت:35)
’’مگر یہ خوبی کسی بڑے نصیب والے انسان کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘
ور نہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جیسے ایک عام آدمی کے لئے کوئی تکلیف برداشت کرنا اور دنیا کی تلخ باتیں برداشت کرنا بہت مشکل ہے، اس دنیا کی چمک دمک دیکھ کر ایک عام آدمی کی والیں سکنے لگتی ہیں، اس حقیری دنیا کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے جس کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:
((لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا منها شربة ماء)) (جامع ترمذی:2320)
’’اگر دنیا کی حیثیت اللہ تعالی کے ہاں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ کرتا ۔‘‘
مگر اکثر لوگ اس کی چمک اور اس کی کشش برداشت نہیں کر سکتے، چنانچہ اس کے حصول کے لئے ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ہیں اور حلال اور حرام کی تمیز بھلا دیتے ہیں۔
صبر ایک انسانی صفت ہے، معنی یہ کہ فرشتے صبر کے مکلف نہیں قرار دیئے گئے، اس لئے کہ فرشتے مکمل طور پر اللہ تعالی کی طرف میلان اور رجحان رکھتے ہیں، وہ اس کے کامل مطبع و فرمانبردار ہیں:
﴿ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (التحريم:6)
’’ وہ کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔‘‘
ان کے اندر فرمانبرداری کے برعکس کوئی خواہش، کوئی جذبہ اور کوئی داعیہ سرے سے موجود ہی نہیں رہا جو انہیں معصیت اور نافرمانی پر اکسائے، انہیں عقل دی گئی ہے مگر ان میں خواہشات نہیں رکھی گئیں لہذا صبر کی انہیں ضرورت ہی نہیں اور نہ انہیں اس کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔
دوسری طرف حیوانات کو خواہشات دی گئی ہیں مگر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور حدود میں رکھنے اور نفس کی پاکیزگی اور طہارت کے احکامات جاری نہیں کئے گئے چنانچہ وہ بلا روک ٹوک اپنی من مانی کرتے ہیں، لہذا انہیں بھی صبر کی نہ ضرورت ہے اور نہ انہیں اس کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔
صرف انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے کہ جس میں ایک طرف مادی خواہشات رکھی گئی ہیں، جیسے کھانے پینے کی خواہش شہوت کی خواہش اور دیگر بے شمار ایسی خواہشات کہ جن کا اس دنیا کی زندگی سے تعلق ہے۔
دوسری طرف اس پر ایک بار امانت بھی ڈال دیا گیا ہے اور وہ بار امانت اتنا اہم اور اتنا عظیم ہے کہ فرمایا:
﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ۝﴾(الاحزاب: 72)
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ۔‘‘
انسان کو نفس کی پاکیزگی کا مکلف ٹھہرایا، اس کے لئے کائنات مسخر کردی، اسے عقل سے نوازا اور شریعت کا پابند کیا اور ماننے اور نہ ماننے کا اختیار بھی دے دیا، تو انسان بنیادی طور پر دو قوتوں کے درمیان کھینچا تانی اور کشاکش کا شکار ہے۔
ایک قوت اسے زمین کی طرف کھینچتی ہے، خواہشات کے حصول اور ان کی تکمیل کی طرف کھینچتی ہے، دنیا کی لذتوں سے محفوظ ہونے کی طرف راغب اور مائل کرتی ہے تو دوسری اسے اللہ کی طرف رغبت دلاتی ہے، اخلاق و کردار کی بلندیوں کی طرف آمادہ کرتی ہے، عقل اسے اللہ کی طرف بلاتی ہے اور خواہش اسے زمین کی طرف دباتی ہے، جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے (غالب)
اور اہل ایمان سے مطلوب یہ ہے کہ جذبہ دین خواہشات نفس پر غالب رہے، اس مطلوب کے حصول میں صبر کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ صبر میں انسان نا کام کیوں ہوتا ہے؟ تو اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ جب انسان کا عقیدہ اور ایمان کمزور ہو تو پہلے تو صبر کی توفیق ہی نہیں ہوتی اور اگر صبر کرنے کی کوشش کرے بھی تو اس میں بہت زیادہ مضبوطی اور قوت نہیں ہوتی ، اور اگر صبر ٹھوس اور مضبوط بومگر عقید ہ و ایمان مضبوط نہ ہو تو اس صبر سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ، لہذا صبر کے ساتھ ایمان مضبوط ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ؕ۫ وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾(السجدة:24)
’’ اور ہم نے ان میں سے لوگوں کو ہدایت کے پیشوا بنا دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں، جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے۔‘‘
تو کامیابی کے لئے صبر کے ساتھ ساتھ ایمان اور یقین کی پختگی بھی ضروری ہے، اور دوسری چیز یہ ہے کہ انسان میں بہت سی فطری کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے انسان صبر میں نا کام ہو جاتا ہے، ان میں سے چند ایک کا قرآن پاک نے ذکر کیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا۝﴾ (النساء:28)
’’اور انسان کمز ور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘
اور یہ کمزوری جسمانی طور پر بھی ہے اور عزم و ارادے کی کمزوری کے حوالے سے بھی ہے۔ اور ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ بہت جلد مایوسی ہو جاتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿ وَ لَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ ۚ اِنَّهٗ لَیَـُٔوْسٌ كَفُوْرٌ۝﴾ (هود:9)
’’اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرتا ہے۔‘‘
اور ایک یہ کہ انسان بے انصافی، ظالم اور ناشکرا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠۝﴾ (ابراهيم:34)
’’جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا ا ہو تو نہیں کر سکتے، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘
ایک فطری کمزوری جو کہ بے صبری کا ایک بہت بڑا سبب ہے وہ ہے جہالت، کہ انسان جاہل بھی ہے۔
﴿ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ۝﴾(الاحزاب:72)
’’بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
بنیادی طور پر تو ہر انسان جاہل ہے چاہے وہ کتنا ہی علم کیوں نہ رکھتا ہو، کیونکہ علم تو بحر بے کنار ہے، اس کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔
اپنی لاعلمی یا جہالت کا اندازہ کرنے کا ایک سیدھا سا معیار تو یہ ہے کہ انسان دیکھے کہ اسے اس دنیا کے سینکڑوں علوم میں سے کس کس علم میں سے کتنا کچھ علم حاصل ہے؟ مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک دوسرا انوکھا اور نرالا معیار متعارف کروایا ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ اسی معیار کو ایک دوسرے انداز سے متعارف کروایا ہے۔ فرماتے ہیں:
((وَإِذَا مَا ازْدَدْتُ عِلْمًا
زَادَنِي عِلْمًا بِجَهْلِي))
’’جب مجھے کسی نئی بات کا پتہ چلتا ہے تو ساتھ ہی میرے علم میں اس بات کا بھی اضافہ ہوتا ہے کہ میں تو جاہل تھا۔‘‘
یعنی جوں جوں علم میں اضافہ ہوتا ہے توں توں اپنی جہالت کی معرفت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں آیت ﴿ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ۝۷۲﴾ دنیا کے علوم میں جہالت مراد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی معرفت کے حوالے سے جہالت مراد ہے جیسا کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
((ظلوما لنفسه ، جهولا بربه))
’’ اپنے آپ پر ظلم کرنے والا اپنے رب سے متعلق جاہل رہنے والا۔‘‘
(النكت والعيون) (تفسير الماوردي ، الاحزاب:72)
اور یہ جہالت دنیاوی علوم کی جہالت سے زیادہ خطر ناک ہے۔ ای طرح ایک کمزوری یہ ہے کہ انسان قطر نا جھگڑالو ہے:
﴿ اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝﴾(یس:77)
’’کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا اور پھر صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا۔‘‘
اسی طرح ایک اس کی فطری کمزوری اس میں جلدی بازی ہے۔
﴿ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ﴾ (الأنبياء:37)
’’انسان جلد باز مخلوق ہے۔‘‘
اسی طرح چند اور فطری کمزوریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ صبر میں نا کامی کے اسباب میں عقیدہ و ایمان کی کمزوری کے ساتھ ساتھ انسان کی فطری کمزوریاں بھی اس کی ایک وجہ بنتی ہیں جن میں سے چند ایک کا ابھی ذکر ہوا، چنانچہ اس صفت اور خوبی کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہر ایک کے بس کی بات ہے کہ بدی کو نیکی کے ذریعے دور کرے جو کہ صبر کا سب سے بلند ترین درجہ ہے، اور یہ یقینًا صعب المنال ہے یعنی اس کا حصول نہایت ہی مشکل ہے جسے اللہ تعالی نے اس خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایا ہے کہ: ﴿وَمَا يُلَقّٰهَا إِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيمٍ﴾ (فصلت: 35)
’’ اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پاسکتا ۔‘‘
لہٰذا جو شخص اس کا متمنی ہو اسے اپنا عقیدہ و ایمان مضبوط کرنا ہوگا اور اپنی ان فطری خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانا ہوگا۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………….