قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل
اہم عناصر خطبہ :
01.قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل
02.قبر کا میت کو دبوچنا
03.قبر میں میت سے سوال وجواب
04.عذابِ قبر کا ثبوت قرآن وحدیث سے
05.عذابِ قبر کی مختلف شکلیں
06.قبر کیلئے تیاری
07.نیک عمل قبر کا ساتھی
08.عذابِ قبر سے نجات دینے والے بعض اعمال
برادران اسلام !
یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ ہر نفس کے چار دور ہوتے ہیں :
پہلا دور : ماں کے پیٹ میں ، جہاں نفس بند رہتا ہے اور وہاں تنگی اور تین اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔
دوسرا دور: دنیا ، جس میں نفس کی نشو ونما ہوتی ہے اور اسی میں وہ خیر وشر کماتا ہے ۔ یہ دوسرا دور پہلے دور کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوتا ہے ۔
تیسرا دور : قبر یا عالم برزخ ۔ اور یہ دور دوسرے دور کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوتا ہے ۔
چوتھا دور: آخری ٹھکانا، جنت یا جہنم ۔ ان دو ٹھکانوں کے سوا کوئی اور ٹھکانا نہیں ہو گا۔ اللہم أدخلنا الجنۃ وأجرنا من النار۔
آج کے خطبہ میں ہمارا موضوع تیسرا دور ( قبر یا عالمِ برزخ ) ہے ۔
قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے
انسان کے سفرِ آخرت کا آغاز اس کی موت سے ہوتا ہے اور ہم موت کے بارے میں ایک خطبہ گذشتہ جمعۃ المبارک کو عرض کر چکے ہیں ۔ پھر موت کے بعد اس سفر کی پہلی منزل قبر ہے جس کے تصور سے ہی مومن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام ’ہانی ‘کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب قبر پر کھڑے ہوتے تواتنا روتے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہو جاتی ۔ ان سے کہا گیا کہ جب جنت ودوزخ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو آپ اتنا نہیں روتے جتنا قبر پر کھڑے ہو کر روتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرماتے تھے :
(( إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ،فَإِنْ نَجَا مِنْہُ أَحَدٌ فَمَا بَعْدَہُ أَیْسَرُ مِنْہُ،وَإِنْ لَّمْ یَنْجُ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہُ أَشَدُّ مِنْہُ )) سنن الترمذی : 2308، وابن ماجہ :4267۔وصححہ الألبانی
’’ بے شک قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے ۔ اگر انسان اس میں نجات پا گیا تو بعد میں آنے والی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہو ں گی ۔ اور اگر وہ اس میں نجات نہ پا سکا تو بعد میں آنے والی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی۔ ‘‘
قبر کا میت کو دبوچنا اگرچہ میت نیک کیوں نہ ہو
تدفین کے بعد میت کو اس کی قبر دباتی ہے چاہے وہ نیک اور صالح کیوں نہ ہو ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا :
(( ہٰذَا الَّذِیْ تَحَرَّکَ لَہُ الْعَرْشُ،وَفُتِحَتْ لَہُ أَبْوَابُ السَّمَائِ، وَشَہِدَہُ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ ، لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْہُ )) سنن النسائی :2055۔ وصححہ الألبانی
’’ یہ جس کیلئے رحمن کا عرش حرکت میں آ گیا،جس کیلئے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے اور اس کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی اسے قبر میں دبوچا گیا ، پھر اسے چھوڑ دیا گیا ۔‘‘
اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ لِلْقَبْرِ ضَغْطَۃً لَوْ نَجَا مِنْہَا أَحَدٌ لَنَجَا مِنْہَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ )) أخرجہ البغوی واحمد ۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ : 1695
’’بے شک قبر (میت کو ) دبوچتی ہے ۔ اگر اس سے کوئی محفوظ رہتا توحضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ضرور محفوظ رہتے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو قبر کے دبوچنے کے سبب کے بارے میں الحکیم الترمذی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ وہ پیشاب سے بچنے میں کوتاہی کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے قبر نے انہیں دبوچا۔مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ نے التعلیقات السلفیۃ میں الحکیم الترمذی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد سنن بیہقی کا حوالہ دیا ہے اور انہوں نے ابو القاسم السعدی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ قبر ہر نیک وبد کو دبوچتی ہے ۔ لیکن مسلمان اور کافر میں فرق یہ ہے کہ کافر کو ہمیشہ اس سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور مومن کو جب قبر میں دفنایا جاتا ہے تو اسے قبر دبوچتی ہے ، پھر وہ اس کیلئے کھلی ہو جاتی ہے ۔ التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی :235-234
قبر میں میت سے فرشتوں کے سوالات
اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ قبرمیں میت سے سوالات کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ بے شک میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور نیک آدمی کو اس کی قبر میں بے خوف وخطر بٹھا کر اس سے پوچھا جاتا ہے : تم کس حالت میں تھے ؟ وہ کہتا ہے : میں اسلام کی حالت میں تھا ۔
اسے کہا جاتا ہے : یہ شخص کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ ہمارے پاس اللہ کی نشانیاں لے کرآئے تو ہم نے ان کی تصدیق کی ۔
اس سے کہا جاتا ہے : کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے ؟
وہ کہتا ہے : نہیں یہ تو کسی کے لائق ہی نہیں کہ وہ اللہ کو دیکھے ۔
پھر جہنم کی آگ کی طرف اس کیلئے ایک چھوٹا سا سوراخ کیا جاتا ہے تو وہ جہنم کی طرف دیکھتا ہے جس کے شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں ۔ اسے کہا جاتا ہے : دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے تمھیں کیسے بچا لیا ہے !
پھر جنت کی طرف اس کیلئے ایک چھوٹا سا سوراخ کیا جاتا ہے۔چنانچہ وہ جنت کی شادابی اور اس کی نعمتوں کو دیکھتا ہے ۔ پھر اسے کہا جاتا ہے : یہ تمھارا ٹھکانا ہے کیونکہ تم ایمان پر تھے ، اسی پر تمھاری موت آئی اور اسی پر تمھیں ان شاء اللہ تعالیٰ اٹھایا جائے گا ۔
اور برے آدمی کو اس کی قبر میں خوف اور رعب کی حالت میں بٹھایا جاتا ہے ۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے : تم کس حالت میں تھے ؟ وہ کہتا ہے : مجھے کچھ پتہ نہیں ۔
پھر اس سے پوچھا جاتا ہے : یہ شخص کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : میں نے لوگوں سے سنا ، جو وہ کہتے تھے میں نے بھی وہی کہا ۔
پھر اس کیلئے جنت کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ کیا جاتا ہے تو وہ جنت کی شادابی اور اس کی نعمتوں کو دیکھتا ہے ۔ پھراسے کہا جاتا ہے : دیکھو اللہ تعالیٰ نے کیسے اس کو تم سے پھیر دیا ہے ! اس کے بعد جہنم کی آگ کی طرف اس کیلئے ایک چھوٹا سا سوراخ کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ وہ جہنم کی طرف دیکھتا ہے جس کے شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں ۔ تو اسے کہا جاتا ہے :یہ تمھارا ٹھکانا ہے ، تم شک پر تھے اور اسی پر تمھاری موت آئی اور اسی پر تمھیں ان شاء اللہ تعالیٰ اٹھایا جائے گا ۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ،الزہد باب ذکر القبر والبلی:4268۔ وصححہ الألبانی
میت کو اس کا ٹھکانا صبح وشام دکھایا جاتا ہے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ أَحَدَکُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہُ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ،إِنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَمِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ،وَإِنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَمِنْ أَہْلِ النَّارِ،یُقَالُ: ہَذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) البخاری،الجنائز باب المیت یعرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی:1379،مسلم، کتاب الجنۃ باب عرض مقعد المیت من الجنۃ أو النار علیہ: 2866
’’ بے شک تم میں سے کوئی شخص جب مر جاتا ہے تو اس پر اس کا ٹھکانا صبح وشام پیش کیا جاتا ہے ۔ اگر وہ اہلِ جنت میں سے ہے تو اہلِ جنت کا ٹھکانا ۔ اور اگر وہ اہلِ جہنم میں سے ہے تو اہلِ جہنم کا ٹھکانا اسے پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے : یہی تمھار ٹھکانا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمھیں قیامت کے دن کھڑا کردے۔ ‘‘
قبر کے لیے تیاری کرو
حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ آپ قبر کے کنارے پر بیٹھے رو رہے تھے اور اتنے روئے کہ آنسوؤں سے آپ کے نیچے مٹی تر ہو گئی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَا إِخْوَانِیْ ! لِمِثْلِ ہٰذَا فَأَعِدُّوْا )) ابن ماجہ،الزہد باب الحزن والبکاء:4195 وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ:1751وصحیح ابن ماجہ
’’ میرے بھائیو ! اس طرح کے دن کیلئے تم بھی تیاری کر لو ۔ ‘‘
اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ تدفین ِ میت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب بیٹھے ہوئے رو رہے تھے اورآپ اس قدر شدید روئے کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قبر مقامِ عبرت ہے ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار قبرستان میں جایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ وہ قبرستان میں جایا کرے ، کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’ اس طرح کے دن کیلئے تم بھی تیاری کر لو ‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں قبر کی زندگی کیلئے تیاری کرنی چاہئے اور اس کیلئے تیاری ایمان اور عمل ِ صالح کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے کیونکہ قبر میں انسان کا واحد ساتھی اس کا عمل ہو گا اور اس کے عمل کے مطابق ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ ،فَیَرْجِعُ اثْنَانِ وَیَبْقٰی مَعَہُ وَاحِدٌ : یَتْبَعُہُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ ، فَیَرْجِعُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ ، وَیَبْقیٰ عَمَلُہُ )) البخاری : 6514 مسلم :296
’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں : پھر دو چیزیں واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ہی چیز اس کے ساتھ باقی رہتی ہے ۔ اس کے پیچھے اس کے گھر والے ، اس کا مال اور اس کا عمل جاتا ہے۔ پھر اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آجاتا ہے اور صرف اس کاعمل اس کے ساتھ رہتا ہے ۔‘‘
عذابِ قبر
سب سے پہلے یہ جان لیجئے کہ عذابِ قبر غیبی امور میں سے ہے اور اس کے متعلق ہم صرف وہی جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں ذکر کیا ہے،اس سے زیادہ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ عذابِ قبر آخر کیوں غیبی امور میں سے ہے ؟اور اس میں کیا حکمت ہے کہ قبر میں یا عالمِ برزخ میں کسی فوت شدہ کے ساتھ جو کچھ بیت رہا ہوتا ہے اسے زندہ لوگ محسوس نہیں کر سکتے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقینا اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
01.اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے اور اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ ہم زندہ لوگ فوت شدگان کے عذابِ قبر سے بے خبر ہوں ۔ ورنہ اگر کسی انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا باپ ، یا اس کا بھائی ، یا اس کا بیٹا ، یا اس کی بیوی، یا کوئی اور رشتہ دار ، یا کوئی عزیز دوست عذابِ قبر میں مبتلا ہے توکیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کی زندگی کس حالت میں گذرے گی ؟ کیا وہ ہر وقت پریشان اور غمگین نہیں رہے گا ؟
02.کسی میت کے بارے میں یہ معلوم ہو جانا کہ اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے اس میں اس کی ذلت ورسوائی ہے ، کیونکہ اس کی زندگی میں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پرپردہ ڈالے رکھا اور ہمیں ان کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ چلا ۔ اب اس کے مرنے کے بعد اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اسے تو عذاب دیا جا رہا ہے تو اس میں یقینا اس کی رسوائی ہو گی۔
03.قبروں میں مردوں کو دیئے جانے والے عذاب کے متعلق زندوں کو بے خبر رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر زندوں کو وہ عذاب دکھایا یا سنایا جاتا تو شاید وہ اپنے مردوں کو دفنانا چھوڑ دیتے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَوْ لَا أَنْ لَّا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ )) صحیح مسلم :2868
’’ اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفنانا چھوڑ دوگے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں عذابِ قبر میں سے تھوڑا سا سنادے ۔ ‘‘
گویا اس اندیشے کے پیشِ نظر کہ کہیں زندہ لوگ مردوں کو دفنانا چھوڑ نہ دیں عذابِ قبر کو مخفی اور غیبی امور میں رکھا گیا ہے ۔ واللہ اعلم
عذابِ قبر برحق ہے
اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ قبر میں صالح مومن کو جنت کی نعمتیں عطا کی جاتی ہیں اور فاسق وفاجر اور کافر ومنافق کو قبر میں عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ قرآن وحدیث میں اس کے متعدد دلائل موجود ہیں ۔ ان میں سے چند دلائل پیش خدمت ہیں:
01.ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ المؤمن40:46
’’ آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح وشام لائے جاتے ہیں ۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی (فرمان ہو گا کہ ) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں ڈال دو ۔‘‘
اس آیت میں دو عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ایک قیامت سے پہلے اور دوسرا قیامت کے روز ۔ تو قیامت سے پہلے جس عذاب میں انہیں مبتلا کیا جاتا ہے اس سے یقینی طور پر عذابِ برزخ ہی مراد ہے ۔ اس آیت کی تفسیر
میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:(وَہٰذِہِ الْآیَۃُ أَصْلٌ کَبِیْرٌ فِیْ اسْتِدْلَالِ أَہْلِ السُّنَّۃِ عَلیٰ عَذَابِ الْبَرْزَخِ فِیْ الْقُبُوْرِ ) تفسیر ابن کثیر:82/4 یعنی ’’ اس آیت میں قبرو ں میں عذابِ برزخ پر اہل السنۃ کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ ‘‘
02. حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿ یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ﴾ کے متعلق فرمایا : (( نَزَلَتْ فِیْ عَذَابِ الْقَبْرِ،فَیُقَالُ لَہُ:مَنْ رَّبُّکَ ؟ فَیَقُوْلُ:رَبِّیَ اللّٰہُ،وَنَبِیِّیْ مُحَمَّدٌ صلي الله عليه وسلم )) صحیح البخاری:1369،صحیح مسلم :2871
’’ یہ آیت عذابِ قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ میت سے کہا جاتا ہے : تمہارا ر ب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ‘‘
03.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ وَإِنَّہُ لَکَبِیْرٌ، أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ لَا یَسْتَنْزِہُ مِنْ بَوْلِہٖ )) صحیح البخاری،الجنائز باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول:1378،صحیح مسلم، الطہارۃ باب الدلیل علی نجاسۃ البول ووجوب الاستبراء منہ:292
’’ ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان کو یہ عذاب ( ان کے خیال کے مطابق ) کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں دیاجا رہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا گناہ بڑا ہے ۔ ان میں سے ایک تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا ۔ ‘‘
اس حدیث میں جہاں عذابِ قبر کا اثبات ہے وہاں اس کے دو اسباب بھی بتا دیئے گئے ہیں : چغل خوری کرنا یعنی دو بھائیوں کو لڑانے کیلئے ان میں سے ہر ایک کی بات کو دوسرے تک پہنچانا اور پیشاب سے نہ بچنا۔
اِس آخری سبب کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ
(( أَکْثَرُ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنَ الْبَوْلِ )) سنن ابن ماجہ:348وغیرہ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر:1202 والإرواء: 280
’’ اکثر عذابِ قبر پیشاپ (سے نہ بچنے کی وجہ )سے ہوتا ہے۔ ‘‘
04.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے :
(( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ )) صحیح البخاری،الجنائز باب التعوذ من عذاب القبر:1377
’’ اے اللہ ! میں عذابِ قبر سے ، عذابِ جہنم سے ، زندگی اور موت کے فتنہ سے اورمسیحِ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عذابِ قبر سے پناہ طلب کرنا اس کے ثبوت کی واضح دلیل ہے ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ عذابِ قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کیا کریں ۔
05.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ،اُس وقت میرے پاس ایک یہودی عورت بیٹھی ہوئی تھی اور وہ کہہ رہی تھی : کیا تمھیں معلوم ہے کہ قبروں میں تمھاری آزمائش ہوتی ہے ؟ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوفزدہ ہو گئے اور فرمانے لگے : وہ تویہودی ہیں جن کی قبروں میں آزمائش ہوتی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ راتیں گذر گئیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ میری طرف اس بات کی وحی کی گئی ہے کہ تمھیں قبروں میں آزمایا جائے گا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:(اس کے بعد ) میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ عذابِ قبر سے پناہ طلب کرتے ہیں ۔ صحیح مسلم،کتاب المساجد باب استحباب التعوذ من عذاب القبر:584
اور مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کی (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی) خدمت کرتی تھی اور جب بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے کسی قسم کا اچھا سلوک کرتیں تو وہ کہتی : اللہ تعالیٰ تمھیں عذابِ قبر سے محفوظ فرمائے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہودی جھوٹے ہیں ، قیامت کے دن سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچانک ایک دن دوپہر کے وقت نکلے اور پکار کر فرمانے لگے :
(( أَیُّہَا النَّاسُ!اِسْتَعِیْذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ )) قال الحافظ فی الفتح:رواہ أحمد بإسناد علی شرط البخاری،فتح الباری،کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر:302/3
’’ اے لوگو ! عذابِ قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ، کیونکہ عذابِ قبر برحق ہے ۔ ‘‘
06. حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنو نجار کے باغ میں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے کہ اچانک خچر بدکنے لگا اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچے گرا دیتا ۔ ہم نے دیکھا تو وہاں چند قبریں ( چھ یا پانچ یا چار) نظر آئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ان قبر والوں کو کون جانتا ہے ؟ تو ایک شخص نے کہا :میں جانتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو بتلاؤ یہ کب فوت ہوئے تھے ؟ اس نے کہا : یہ حالتِ شرک میں مر گئے تھے ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ ہٰذِہِ الْأمَّۃَ تُبْتَلیٰ فِیْ قُبُوْرِہَا،فَلَوْ لَا أَنْ لَّا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِیْ أَسْمَعُ مِنْہُ ))
’’بے شک اس امت کے لوگوں کو ان کی قبروں میں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ۔ اور اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں عذابِ قبر میں سے تھوڑا سا سنا دے جسے میں اب سن رہا ہوں۔‘‘
پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے : تم سب عذابِ جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ۔ تو لوگ کہنے لگے : ہم عذابِ جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سب عذابِ قبر سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ۔ تو لوگ کہنے لگے : ہم عذابِ قبر سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں… صحیح مسلم،کتاب الجنۃ باب عرض مقعد المیت من الجنۃ أو النار علیہ وإثبات عذاب القبر والتعوذ منہ :2867
07. حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ الْمَوْتیٰ لَیُعَذَّبُوْنَ فِیْ قُبُوْرِہِمْ ، حَتّٰی إِنَّ الْبَہَائِمَ لَتَسْمَعُ أَصْوَاتَہُمْ )) رواہ الطبرانی وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:3548
’’بے شک مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے حتی کہ چوپائے جانور بھی ان کی آوازیں سنتے ہیں۔ ‘‘
عذابِ قبر سے مراد عذابِ برزخ ہے
عذابِ قبر اسے دیا جاتا ہے جو اس کا مستحق ہو ۔ اور یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ عذابِ قبر سے مراد عذابِ برزخ ہے۔ لہذا جو شخص بھی اس کا مستحق ہوتا ہے اسے مرنے کے بعد اس کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے ، چاہے اسے قبر میں دفن کیا جائے یا نہ کیا جائے ۔ اور اگر کسی کو درندے کھا لیں یا اسے آگ میں جلا دیا جائے یہاں تک کہ وہ راکھ
ہو جائے اور وہ راکھ ہوا میں اڑا دی جائے ، یا کسی کو پھانسی پہ لٹکا دیا جائے ، یا کوئی پانی میں غرق ہو جائے اور وہ عذابِ قبر کا مستحق ہو تو یہ عذاب اس کے بدن اور روح تک ضرور پہنچے گا جیسا کہ کسی کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوراسے کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ۔
عذابِ قبر کی مختلف شکلیں
برادران اسلام! متعدداحادیث میں عذابِ قبر کی مختلف شکلیں بیان کی گئی ہیں ۔ ہم یہاں اِس دعا کے ساتھ ان احادیث کا تذکرہ کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے عذابِ قبر سے محفوظ فرمائے اور ہماری قبروں کو جنت کے باغیچے بنائے ۔ آمین
عذابِ قبر کی مختلف شکلیں یہ ہیں :
01.لوہے کے ہتھوڑے سے مارنا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَتَوَلیّٰ عَنْہُ أَصْحَابُہُ ۔ وَإِنَّہُ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ۔أَتَاہُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہٖ فَیَقُوْلاَنِ:مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ہٰذَا الرَّجُلِ، لِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُوْلُ : أَشْہَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ، فَیُقَالُ لَہُ : انْظُرْ إِلیٰ مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہٖ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ ،فَیَرَاہُمَا جَمِیْعًا ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَیُقَالُ لَہُ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ہٰذَا الرَّجُلِ ؟ فَیَقُوْلُ : لَا أَدْرِیْ کُنْتُ أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ ، فَیُقَالُ : لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ ، وَ یُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِیْدٍ بَیْنَ أُذُنَیْہِ ، فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُہَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ )) صحیح البخاری،الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر:1374
’’ بے شک بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اسے دفنانے والے اس سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں ، اور وہ اس وقت ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے تو دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں : اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کے متعلق تم کیا کہتے تھے ؟ مومن جواب دیتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔چنانچہ اسے کہا جاتا ہے : تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو ، اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس کے بدلے میں جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔ چنانچہ وہ ان دونوں ٹھکانوں کو دیکھتا ہے ۔
رہا منافق وکافر تو اس سے کہا جاتا ہے : تم اس شخصیت ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں کیا کہتے تھے ؟ وہ کہتا ہے : مجھے کچھ پتہ نہیں ، میں تو وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے ۔ چنانچہ اسے کہا جاتا ہے : نہ تم نے معلوم کیا اور نہ تم نے( قرآن کو ) پڑھا ۔ پھر اس کے کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑوں کے ساتھ اس قدر زور سے مارا جاتا ہے کہ اس سے اس کی چیخیں نکلتی ہیں جنھیں سوائے جن وانس کے باقی تمام مخلوقات سنتی ہیں ۔ ‘‘
صحیح مسلم کی روایت میں حضرت قتادۃ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ اس ( مومن ) کیلئے اس کی قبر کو سترہاتھ تک کشادہ کردیا جاتا ہے اور قیامت تک کیلئے اس میں نعمتوں اور شادابی کو بھر دیا جاتا ہے۔ صحیح مسلم،کتاب الجنۃ باب عرض مقعد المیت من الجنۃ أو النار علیہ:2870
02.قبر میں جہنم کی آگ کا بستر ، 03.جہنم کی آگ کا لباس ، 04.جہنم کی طرف دروازے کا کھولا جانا، 05.قبر کو تنگ کر دینا ، 06.لوہے کی سیخ سے مارنا 07. میت کو آخرت کے شدید عذاب کی دھمکی ۔۔۔
یہ چھ شکلیں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث میں ذکر کی گئی ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ ۔۔۔۔ پھر اس ( کافر ) کی روح کو آسمان سے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
﴿ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ﴾ الحج 22:31 ’’ اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گرپڑا ، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کہیں دور دراز پھینک دے گی ۔ ‘‘
چنانچہ اس کی روح کو اس کے جسم میں واپس لوٹا دیا جاتا ہے ۔ تو اس کے ساتھی جب اسے دفن کرنے کے بعد واپس پلٹ رہے ہوتے ہیں وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے جھڑک کر بٹھا دیتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں: تمھارا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے : ہائے مصیبت ، ہائے مصیبت میں نہیں جانتا ۔
پھر وہ پوچھتے ہیں : تمھارا دین کیا ہے ؟
وہ کہتا ہے : ہائے مصیبت ، ہائے مصیبت میں نہیں جانتا ۔
پھر وہ کہتے ہیں : وہ آدمی کون ہے جسے تم میں نبی بنا کر بھیجا گیا ؟
تواسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام یاد نہیں آتا ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ؟
وہ کہتا ہے : ہائے مصیبت ، ہائے مصیبت میں نہیں جانتا ۔ میں نے لوگوں سے سنا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے تھے ۔
تو کہا جاتا ہے : تم نے نہ معلوم کیا اور نہ قرآن پڑھا ۔ پھر آسمان سے ایک نداء آتی ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ۔ لہٰذا اس کیلئے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کیلئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چنانچہ اسے جہنم کی بد بو اور گرم ہوا آتی ہے اور اس کی قبر کو اتنا تنگ کردیا جاتا ہے کہ اس کی دونوں طرف کی پسلیاں باہم مل جاتی ہیں ۔ اس کے پاس ایک بدصورت شخص آتا ہے جس کا لباس انتہائی بد نما ہوتا ہے اور اس سے بہت گندی بد بو پھوٹ رہی ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے : تمھیں اس چیزکی خوشخبری ہو جو تمھارے لئے بری ہے ۔ یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ تو وہ کہتا ہے : اور تمھیں بھی اللہ تعالیٰ بدی ہی کی خوشبری دے ۔ تم کون ہو ؟ تمھارا چہرہ تووہ چہرہ ہے جو شر ہی کو لاتا ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے : میں تمھارا برا عمل ہوں اورا للہ کی قسم ہے میں نے تمھیں ہمیشہ اس حالت میں دیکھا کہ تم نیکی کے کام میں دیر کیا کرتے تھے اور اللہ کی نافرمانی بہت جلدی کرتے تھے ۔ سو اللہ تعالیٰ تمھیں برا بدلہ دے ۔ پھر اس پر ایک اندھے ، بہرے اور گونگے کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے جس کے ہاتھ میں ایک لوہے کی سلاخ ہوتی ہے ۔ اگر وہ اسے ایک پہاڑ پر مارے تو وہ مٹی ہو جائے ۔پھر وہ اس کے ساتھ اسے مارتا ہے یہاں تک کہ وہ مٹی ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے پہلی حالت میں کر دیتا ہے ۔ وہ پھر اسے اس کے ساتھ مارتا ہے جس سے وہ ایسی چیخ مارتا ہے کہ جسے جن وانس کے سوا کائنات کی ہر چیز سنتی ہے ۔ بعد ازاں اس کیلئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور جہنم ہی کا ایک بستر اس کیلئے بچھا دیا جاتا ہے ۔ تو وہ دعا کرتا ہے:اے میرے رب ! قیامت قائم نہ کر ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد:4753،أحمد:17803۔صححہ الألبانی فی أحکام الجنائز : ص 156
08.زمین میں دھنسنا
عذابِ قبر کی ایک شکل یہ ہے کہ میت کو زمین میں دھنسایا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ مِنَ الْخُیَلَائِ خُسِفَ بِہٖ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِیْ الْأرْضِ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) صحیح البخاری:5343، صحیح مسلم :3894
’’ ایک شخص تکبر سے اپنی چادر ( ٹخنوں سے نیچے ) گھسیٹ رہا تھا ، اسی دوران اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ تو وہ قیامت تک زمین ہی میں غوطے کھاتا رہے گا۔ ‘‘
09. باچھوں کو گدی تک چیرنا ،10. سر کو پتھر سے کچلنا ، 11.آگ کے تنور میں جلانا ، 12.خون کی نہر میں پتھر سے مارنا ۔۔۔ یہ چاروں شکلیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ۔
حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر پوچھتے : آج رات تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ اگر کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اسے بیان کردیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر کردیتے۔ پھر ایک دن آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ معمول یہی سوال کیا تو ہم نے جواب دیا: نہیں ہم نے کوئی خواب نہیں دیکھا ۔ تو آپ نے فرمایا :
’’ لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انھوں نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور مجھے ارضِ مقدسہ میں لے گئے ۔
وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور ایک آدمی اس کے پاس کھڑا ہوا ہے جس کے ہاتھ میں ایک مہمیز تھی ۔اسے وہ اس کی ایک باچھ میں داخل کرتا ( پھر اسے کھینچ کر ) اس کی گدی تک لے جاتا ۔ پھر دوسری باچھ کو بھی اسی طرح کھینچ کر پیچھے گدی تک لے جاتا اور یوں اس کی دونوں باچھیں اس کی گدی کے پاس مل جاتیں ۔ پھر اس کی باچھیں اپنی حالت میں واپس آجاتیں ۔ پھروہ اس کے ساتھ پہلے کی طرح کرتا ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو ان دونوں نے کہا : آگے چلو ۔
تو ہم آگے چلے گئے یہاں تک کہ ہم نے ایک اور آدمی کو دیکھا جو اپنی گدی کے بل سیدھا لیٹا ہوا تھا اور ایک آدمی اس کے قریب کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں ایک پتھر تھا اوروہ اس کے ساتھ اس کے سر کو کچل رہا تھا ۔ وہ جیسے ہی اسے اس کے سر پر مارتا پتھرلڑھک جاتا ۔ اور جب تک وہ اسے اٹھا کر واپس آتا اس کا سر پھر جڑ چکا ہوتا اور اپنی اصلی حالت میں واپس آ چکا ہوتا ۔ تو یہ پھر اس کے ساتھ پہلے کی طرح کرتا ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : آگے
چلو ۔
تو ہم آگے چلے گئے جہاں ہم نے تنور کی طرح ایک سوراخ دیکھا ، اس کا اوپر والا حصہ تنگ تھا اور نیچے والا وسیع ۔ اس میں آگ جلائی جا رہی تھی اور میں اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں ہیں ۔ آگ کے شعلے جب ان کے نیچے سے آتے ہیں تو وہ اوپر کو آجاتے ہیں حتی کہ نکلنے کے قریب ہو جاتے ہیں اور جب شعلے مدھم ہو جاتے ہیں تو وہ ایک بار پھر نیچے چلے جاتے ہیں ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : آگے چلو ۔
تو ہم آگے چلے گئے حتی کہ ہم خون کی ایک نہر پر پہنچ گئے ۔ ایک آدمی اس کے اندر کھڑا ہوا تھا اور دوسرا اس کے کنارے پر ۔ کنارے پر کھڑے ہوئے آدمی کے سامنے ایک پتھر پڑا ہوا تھا اور اندر کھڑا ہوا آدمی جب باہر نکلنے کی کوشش کرتا تو کنارے پر کھڑا ہوا آدمی وہ پتھر اس کے منہ پر دے مارتا اور اسے اس کی جگہ پر واپس لوٹا دیتا۔ وہ بار بار ایسا کر رہے تھے ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : آگے چلو ۔
تو ہم آگے چلے گئے حتی کہ ایک سرسبز باغ میں پہنچ گئے ۔اس میں ایک بہت بڑا درخت تھا جس کی جڑوں کے قریب ایک بزرگ بیٹھا ہوا تھا اور اس کے آس پاس بچے بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص درخت کے قریب کھڑا آگ جلا رہا تھا ۔ تو میرے دونوں ساتھی مجھے اس درخت پر چڑھا کر لے گئے اور ایک ایسے گھر میں داخل کردیا جو اتنا خوبصورت تھا کہ اس جیسا خوبصورت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس میں بوڑھے ، نوجوان ، عورتیں اور بچے سب موجود تھے۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے ساتھ لے کر درخت پر مزید اوپر چڑھنے لگے یہاں تک کہ انھوں نے مجھے ایک اور گھر میں داخل کر دیا ، جو پہلے گھر سے حسین تر تھا اوراس میں بھی بوڑھے اور جوان موجود تھے ۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا :
آج رات تم نے مجھے بہت گھمایا ہے ۔ ذرا بتاؤ تو سہی ، جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ کیا تھا ؟
وہ کہنے لگے : ہاں اب ہم آپ کو سب کچھ تفصیل سے بتاتے ہیں ۔
٭ وہ شخص جس کی باچھوں کو چیرا جا رہا تھا وہ جھوٹ بولنے والا انسان تھا جو ایک جھوٹ بولتا تھا تو لوگ اس کے جھوٹ کو دور دور تک پھیلا دیتے تھے ۔ اسے یہ عذاب قیامت تک دیا جاتا رہے گا ۔
٭ وہ شخص جس کا سر کچلا جا رہا تھا وہ ایسا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھلایا تھا لیکن وہ رات بھر سویا رہتا ( اور نفل نماز میں اس کی تلاوت نہ کرتا ۔) اور جب دن آتا تو وہ اس پر عمل نہ کرتا ۔ تو اسے بھی یہ عذاب قیامت تک دیا جاتا رہے گا ۔
٭ رہے وہ لوگ جنھیں آپ نے ایک تنورمیں دیکھا تھا تووہ بدکار لوگ تھے ۔
٭ جسے آپ نے نہر میں دیکھا تھا وہ سود خور تھا ۔
٭ وہ بوڑھا انسان جسے آپ نے ایک درخت کی جڑوں کے پاس دیکھا تھا وہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) تھے اور ان کے آس پاس لوگوں کی اولاد تھی ۔
٭ وہ شخص جو اس درخت کے قریب کھڑا آگ جلا رہا تھا وہ (مالک ) یعنی جہنم کا داروغہ تھا۔
٭ جو پہلا گھر آپ نے دیکھا تھا وہ عام مومنوں کا گھر تھا ۔
٭ اور یہ گھر (جس میں آپ کھڑے ہیں ) یہ شہداء کا گھر ہے ۔ میں جبریل ہوں اور یہ میکائیل ہیں ۔ اور آپ ذرا اپنا سر اوپر اٹھائیں ۔ میں نے اپناسر اوپر کو اٹھایا تو ایک محل بادلوں جیسا نظر آیا ۔ انھوں نے کہا : یہ آپ کا گھر ہے ۔ میں نے کہا : مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اس گھر کے اندر جا سکوں ۔ انھوں نے کہا : ابھی آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے مکمل نہیں کیا ۔ اگر آپ اسے مکمل کر چکے ہوتے تو یقینا اس میں داخل ہو جاتے۔ ‘‘ صحیح البخاری:کتاب الجنائز:1386،7047
یہ حدیث عذابِ قبر یا عذابِ برزخ کے متعلق واضح دلیل ہے ، کیونکہ انبیاء علیہم السلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کردیں تو انھوں نے حکم کی تعمیل کی ۔
13. تانبے کے ناخنوں سے چہروں اور سینوں کو نوچنا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَمَّا عُرِجَ بِیْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَہُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ،یَخْمِشُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَصُدُوْرَہُمْ،فَقُلْتُ:مَنْ ہٰؤُلَائِ یَا جِبْرِیْلُ؟ قَالَ:اَلَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ وَیَقَعُوْنَ فِیْ أَعْرَاضِہِمْ)) سنن أبی داؤد :4878۔ وصححہ الألبانی
’’ مجھے جب معراج کرایا گیا تو میں نے چند لوگ ایسے دیکھے جنھیں تانبے کے ناخن دیئے گئے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ۔ میں نے پوچھا : اے جبریل ! یہ کون ہیں؟ تو جبریل نے کہا : یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (ان کی غیبت کرتے ہیں ) اور ان کی عزت پر حملہ کرتے ہیں ۔ ‘‘
14.۔چوری کئے ہوئے مال کے ساتھ میت کو جلانا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح تو دی لیکن غنیمت کے طور پر ہمیں سونا چاندی نہیں ملا ۔ صرف ساز وسامان ، کھانا اور کپڑے ہاتھ لگے ۔ پھر ہم ایک وادی کی طرف گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا ایک نوکر بھی تھا جسے رفاعۃ بن زید کہا جاتا تھا ۔ ہم نے جب وادی میں پڑاؤ ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوکر کو ایک تیر لگا اور وہ مر گیا ۔ تو ہم نے کہا : اسے شہادت
مبارک ہو ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرگز نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! اس نے خیبر کے دن غنیمت کا مال تقسیم ہونے سے پہلے اس میں سے جو چادر چوری کی تھی وہی چادر اس پر آگ بھڑکا رہی ہے ۔۔۔ ‘‘ صحیح البخاری:4234، صحیح مسلم:115
برادران اسلام ! ہم نے عذابِ قبر کی چودہ اقسام وانواع ذکر کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے پھر دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
اورآئیے اب یہ بھی معلوم کرلیں کہ قبر میں مومن کو کونسی کونسی نعمتیں عطا کی جاتی ہیں :
عمل صالح ہی وحشت ناک اور اندھیری قبر میں مومن کیلئے نور اور اس کا ساتھی ہوتاہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ ۔۔۔۔۔۔ پھر مومن کی روح کو زمین کی طرف لوٹا کر اس کو اس کے جسم میں واپس کردیا جاتا ہے ۔ اور اس کے ساتھی جب اسے دفن کرنے کے بعد واپس پلٹ رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے جھڑک کر بٹھا دیتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں :
تمھارا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے : میرا رب اللہ ہے ۔
پھر وہ پوچھتے ہیں : تمھارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔
پھر وہ کہتے ہیں : وہ آدمی کون ہے جسے تم میں نبی بنا کر بھیجا گیا ؟ وہ کہتا ہے : وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں : تمھیں کیسے پتہ چلا ؟
وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا تو اس پر ایمان لے آیا اور اس کی تصدیق کی ۔
فرشتہ اس کو جھڑک کر پھر کہتا ہے : تمھارا رب کون ہے؟ تمھارا دین کیا ہے ؟ تمھارا نبی کون ہے ؟ اور یہ مومن کی آخری آزمائش ہوتی ہے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ﴾ إبراہیم14:27
’’ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی ۔‘‘
چنانچہ وہ کہتا ہے:میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
چنانچہ آسمان سے ایک نداء آتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا ہے ، لہذا اس کیلئے جنت کا ایک بستر بچھا دو
اسے جنت کا لباس پہنا دو اور اس کیلئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چنانچہ اس کے پاس جنت کی خوشبو اور اس کی نعمتیں آتی ہیں اور اس کی قبر کو حد نگاہ تک وسیع کر دیا جاتا ہے ۔ پھر اس کے پاس ایک خوبصورت شخص آتا ہے جس کا لباس انتہائی عمدہ ہوتا ہے اور اس سے بہت اچھی خوشبو پھوٹ رہی ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے : تمھیں اللہ کی رضا اور ان جنات کی خوشخبری ہو جن میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ۔ اوریہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ تو وہ کہتا ہے : اور تمھیں بھی اللہ خیرکی خوشبری دے ، تم کون ہو ؟ تمھارا چہرہ تووہ چہرہ ہے جو خیر ہی کو لاتا ہے ۔ وہ جواب دیتا ہے : میں تمھارا نیک عمل ہوں اورا للہ کی قسم ! تمھیں میں نے ہمیشہ اس حالت میں دیکھا کہ تم نیکی کے کام میں جلدی کیا کرتے تھے اور اللہ کی نافرمانی میں بہت دیر لگاتے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیر دے ۔ پھر اس کیلئے ایک دروازہ جنت کی طرف اور ایک دروازہ جہنم کی طرف کھولا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے :اگر تم اللہ کے نافرمان ہوتے تو یہ جہنم تمھار ا ٹھکانا ہوتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس کے بدلے میں جنت کا یہ ٹھکانا دے دیا ہے۔ تو وہ جنت کی نعمتوں کو دیکھ کر کہتا ہے : اے میرے رب ! قیامت جلدی قائم کر تاکہ میں اپنے گھر والوں اور مال میں لوٹ جاؤں ۔ تو اسے جواب دیا جاتا ہے : اب تم کو یہیں رہنا ہے ۔ ۔۔۔‘‘ سنن أبی داؤد :4753،احمد:17803۔ وصححہ الألبانی فی احکام الجنائز:ص156
اس حدیث میں دیگر باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ قبر میں مومن اورنیک انسان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے اور اس کیلئے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ پھر اسے جنت کا بستر اور جنت کا لباس مہیا کیا جاتا ہے اور اس کی قبر کو کھلا کر دیا جاتا ہے ۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ بے شک میت کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے ، بے شک وہ ان کے جوتوں کی آواز کو سن رہا ہوتا ہے جبکہ وہ اسے دفنانے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ اور اگر وہ مومن ہو تو نماز اس کے سر کے پاس آجاتی ہے ، روزے اس کی دائیں جانب ، زکاۃ اس کی بائیں جانب اور دوسری نیکیاں مثلا صدقات ، نفل نماز اورلوگوں پر احسان وغیرہ اس کے پاؤں کے پاس آجاتی ہیں ۔ تو اس کے چاروں اطراف سے اسے نیکیاں گھیر لیتی ہیں اور اس کے پاس کسی چیز کو آنے نہیں دیتیں ۔ پھر اسے کہا جاتا ہے : بیٹھ جاؤ ۔ تو وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے ۔ اُس کے سامنے سورج آتا ہے اور وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے سورج غروب ہی ہونے والا ہے۔ تو اس سے پوچھا جاتا ہے : جو شخص تمھاری طرف مبعوث کیا گیاتھا ، تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ اور اس کے
متعلق تم کیا گواہی دیتے ہو ؟ وہ کہتا ہے : مجھے چھوڑ دو ، میں نماز پڑھ لوں ۔وہ کہتے ہیں : تم نماز تو پڑھ ہی لو گے ، پہلے ہمارے سوال کا جواب دو ۔
وہ جواب دیتا ہے : میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور آپ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ۔
تو اسے کہا جاتا ہے : تم اسی بات پر زندہ رہے اور تمھاری موت بھی اسی پر آئی اور اسی پر تمہیں ان شاء اللہ اٹھایا جائے گا ۔ پھر اس کیلئے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتاہے : یہی تمھارا ٹھکانا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تیار کی ہیں وہ بھی تمھاری ہیں ۔ چنانچہ اس کی خوشی اور سرور میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔ پھر جہنم کا ایک دروازہ کھول کر اسے کہا جاتا ہے: یہ تمھارا ٹھکانا ہوتااگر تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ۔ اس پر اس کی خوشی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ۔ پھر اس کی قبر کو ستر ہاتھ تک وسیع کردیا جاتا ہے اور اسے اس کیلئے منور کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کے جسم کو اس چیز کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جس سے اس کو شروع کیا گیا ہوتا ہے ۔ پھر اس کی روح کو ان پاکیزہ پرندوں کے اندر پہنچا دیا جاتا ہے جو جنت کے درختوں سے کھاتے ہیں ۔۔۔۔۔‘‘ الطبرانی وابن حبان ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:3561
ایک اور حدیث میں ارشادنبوی ہے:(( إِنَّ الْمُؤْمِنَ فِیْ قَبْرِہٖ لَفِیْ رَوْضَۃٍ خَضْرَائَ، فَیُرَحَّبُ لَہُ فِیْ قَبْرِہٖ سَبْعِیْنَ ذِرَاعًا،وَیُنَوَّرُ لَہُ کَالْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ )) ابو یعلی وابن حبان ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:3552
’’ بے شک مومن اپنی قبر میں ایک سر سبز وشاداب باغیچے میں ہوتا ہے ۔ اس کی قبرکو اس کیلئے ستر ہاتھ تک کشادہ کر دیا جاتا ہے اور اس میں چودھویں رات کے چاند کے نور کی طرح روشنی کر دی جاتی ہے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ جب میت کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو کالے اور نیلے رنگ کے فرشتے آتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے ۔ وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : تم اِس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے ؟ تو وہ اُس کے بارے میں وہی جواب دیتا ہے جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ پھر وہ کہتا ہے :
( أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ )
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور سول ہیں۔‘‘
وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ’’ ہمیں معلوم تھا کہ تم یہی جواب دو گے ‘‘
پھر اس کی قبر کو ستر ہاتھ کھلا کردیا جاتا ہے ۔ پھر اسے روشن کردیا جاتا ہے ۔ پھر اسے کہا جاتا ہے :
( نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ الَّذِیْ لَا یُوْقِظُہُ إِلَّا أَحَبُّ أَہْلِہٖ إِلَیْہِ )
’’ تم سو جاؤ جیسا کہ وہ دولہا سوتا ہے جسے اس کے گھر والوں میں سے صرف وہی جگا سکتا ہے جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہو ۔ ‘‘ پھر وہ سو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز اٹھائے گا ۔۔۔ ‘‘ الترمذی :1071وحسنہ الألبانی
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کا خاتمہ ایمان اور عمل صالح پر فرمائے ، ہماری قبروں کو منور کردے او رہم سب کو عذابِ قبر سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین
دوسرا خطبہ
عذابِ قبراور اس کی آزمائش سے نجات دینے والے بعض اعمال
عزیزان گرامی ! جیسا کہ ہم پہلے خطبہ کے آخر میں عرض کر چکے ہیں کہ قبر میں مومن کو جنت کی نعمتیں عطا کی جاتی ہیں اور مومن کا عمل ہی اس کا بہترین ساتھی ہوتاہے جواس کی قبر کو منور کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض اعمال ایسے ہیں جو خاص طور پر مومن کو عذابِ قبر سے نجات دلانے والے ہیں اور وہ یہ ہیں :
01.دشمن کی سرحد پر پہرہ دینا
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ صِیَامِ شَہْرٍ وَقِیَامِہٖ،وَإِنْ مَّاتَ جَرٰی عَلَیْہِ عَمَلُہُ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُہُ ، وَأُجْرِیَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ، وَأُمِنََ الْفَتَّانَ )) صحیح مسلم :1913
’’ دشمن کی سرحد پر( اللہ کے راستے میں ) ایک دن اور ایک رات پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور اس کے قیام سے بہتر ہے ۔ اور اگر وہ اسی حالت میں مر جائے تو اس کا وہ عمل جاری رہتاہے جو وہ کیا کرتا تھا ۔ اور اسی پر اس کا رزق جاری کردیا جاتا ہے ۔ اور اسے آزمائش میں ڈالنے والے ( عذابِ قبر ) سے محفوظ کردیا جاتاہے ۔ ‘‘
02.شہادت پانا
حضرت مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لِلشَّہِیْدِ عِنْدَ اللّٰہِ سِتُّ خِصَالٍ : یُغْفَرُ لَہُ فِیْ أَوَّلِ دَفْعَۃٍ،وَیُرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ،وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَیَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ،وَیُوْضَعُ عَلٰی رَأْسِہٖ تَاجُ الْوَقَارِ،اَلْیَاقُوْتَۃُ مِنْہُ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا،وَیُزَوَّجُ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ زَوْجَۃً مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ، وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِیْنَ مِنْ أَقَارِبِہٖ )) سنن الترمذی : 1663۔ وصححہ الألبانی
’’ شہید کیلئے ( خصوصی طور ) پر اللہ کے ہاں چھ انعامات ہیں :پہلے قطرۂ خون پر اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیاجاتا ہے ۔ اور اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ اور وہ بڑی گھبراہٹ سے بھی محفوظ رہتا ہے ۔ اور اس کے سر پر تاجِ وقار رکھا جاتا ہے جس کا ایک موتی دنیا سے اور دنیا کے اندر جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے ۔ اور اس کی موٹی آنکھوں والی حوروں میں سے بہتر (۷۲) بیویوں سے شادی کی جائے گی ۔ اور اس کے ستر رشتہ داروں کے بارے میں اس کی سفارش کو قبول کیا جائے گا ۔ ‘‘
اس حدیث میں جس شہید کے فضائل ذکر کئے گئے ہیں یہ وہ شہید ہے جس میں شہدائے احد کی شرائط جمع ہوں اور وہ یہ ہیں :
01.وہ مسلمان سپہ سالار کے جھنڈے تلے جمع ہو کر لڑنے والی فوج میں کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کی خاطر کفار سے قتال کرتے ہوئے مار اجائے ۔
02.وہ میدانِ قتال میں زخمی ہو کر مرا ہو ۔
03.اس کے ورثاء نے اس کی شہادت کے بدلے میں کوئی مالی معاوضہ نہ لیا ہو ۔
03.ہر رات سورۃ الملک کی تلاوت کرنا اور اس پر عمل کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ سُوْرَۃً مِّنَ الْقُرْآنِ : ثَلَاثُوْنَ آیَۃً ، شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتّٰی غُفِرَ لَہُ ، وَہِیَ سُوْرَۃُ تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ)) سنن الترمذی :2891، ابو داؤد :1400، ابن ماجہ :3786۔و صححہ الألبانی
’’ بے شک قرآن میں ایک سورت نے ‘جس کی تیس آیات ہیں ‘ ایک آدمی کے حق میں سفارش کی یہاں تک کہ اس کی بخشش کردی گئی ۔ اور وہ ہے سورۃ الملک ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ جو شخص ہر رات سورۃ الملک کی تلاوت کرتا رہے اسے اللہ تعالیٰ عذابِ قبر سے محفوظ رکھے گا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسے (اَلْمَانِعَۃ) ’’بچانے والی سورت‘‘ کہا کرتے تھے۔ ‘‘ سنن النسائی ۔ حسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:1475
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رات کو سورۃ الم تنزیل ( السجدۃ ) اور سورۃ الملک پڑھ کر ہی سوتے تھے ۔ سنن الترمذی:2892۔ وصححہ الألبانی
04.پیٹ کی بیماری سے مرنا
حضر ت عبد اللہ بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن عرفطۃ رضی اللہ عنہ نے آپس میں یہ بات ذکر کی کہ ایک آدمی فوت ہو گیا ہے اور اس کی موت پیٹ کی بیماری کی وجہ سے آئی ہے ۔ ان دونوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش وہ بھی اس آدمی کے جنازے میں شریک ہوتے۔ اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ
(( مَنْ یَّقْتُلْہُ بَطْنُہُ فَلَنْ یُّعَذَّبَ فِیْ قَبْرِہٖ ))
’’ جسے اس کے پیٹ ( کی بیماری ) مار دے اسے قبر میں عذاب ہرگز نہیں دیا جائے گا ۔ ‘‘
تو ان میں سے دوسرے نے کہا : کیوں نہیں ، یہ واقعتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ سنن الترمذی:1064،والنسائی:2052۔ وصححہ الألبانی
05.جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرنا
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
(( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَّمُوْتُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ أَوْ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ إِلَّا وَقَاہُ اللّٰہُ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ )) سنن الترمذی:1074۔ وحسنہ الألبانی
’’ جس مسلمان شخص کی موت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو آئے اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنہ سے بچا لیتا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عذابِ قبر سے محفوظ فرمائے ۔ آمین