رد شرک

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

 ﴿ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَاۤ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا ۚ وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ ؕ وَ بِئْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ [آل عمران:15]

معاشرے میں جو بیماری سب سے زیادہ پائی جائے اور سب سے زیادہ مہلک ہو اس بیماری کا علاج اس قدر زیادہ اور اہم ہوتا ہے۔ روحانی بیماریوں میں شرک سب سے زیادہ پائی جانے والی بیماری ہے اور یہ سب بیماریوں سے زیادہ خطرناک اور مہلک بھی ہے۔ دنیا میں ہر دور میں موحدوں اور توحید پرستوں کے مقابلے میں مشرکوں کی اکثریت رہی ہے ایک طرف تو وہ قومیں ہیں جو اللہ پر ایمان ہی نہیں رکھتیں آسمانی کتابوں کی طرف نسبت نہیں کرتیں، پیغمبروں کو نہیں مانتیں۔ اور آخرت اور جنت دوزخ کی منکر ہیں۔ یہ ساری قو میں کافر اور مشرک ہیں۔

دوسری طرف وہ قومیں ہیں جو اللہ پر ایمان کا دعوی کرتی ہیں، نبیوں اور رسولوں کی تصدیق کرتی ہیں آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتی ہیں۔ جنت دوزخ اور آخرت کو سچا جانتی ہیں المیہ یہ ہے کہ ان قوموں کے اندر بھی شرک سرایت کر گیا اور توحید جاتی رہی۔

یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ تورات پر ایمان رکھتے ہیں جنت، دوزخ اور آخرت کو مانتے ہیں، لیکن مشرک ہیں: حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں:

﴿قَالَتِ الْيَهُودُ عَزَيْرُ ابْنُ اللهِ﴾ [التوبة:30]

نصرانی حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کا کلمہ پڑھتے ہیں انجیل کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔ جنت، دوزخ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن مشرک ہیں۔ ان کے تین بڑے بڑے فرقے ہیں اور تینوں شرک و کفر کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

1۔ فرقہ یعقوبیہ (آرتھوڈکس):

اس کے بارے سورۃ المائدہ آیت نمبر (72) میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ؕ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ ؕ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ﴾[المائدة: 72]

’’بے شک وہ لوگ کافر ہو گئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے حالانکہ خود مسیح نے خود ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہی  ہے اور گنہ گاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔‘‘

2۔فرقہ سلطانیہ (کیتھولک ):

﴿لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ۘ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۷۳﴾ [المائدة:73]

’’وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہو گئے جنہوں نے کہا اللہ تین میں کا تیسرا ہے دراصل سوائے اللہ تعالی کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ آئے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔‘‘

3۔ فرقہ نسطوریہ (پروٹسٹنٹ)

﴿وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ِ۟ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ۚ یُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ؗۚ اَنّٰی یُؤْفَكُوْنَ۝۳۰﴾ [التوبة: 30]

’’یہود کہتے تھے عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے یہ پہلے منکروں کی بات کی مشابہت کرنے لگے۔ اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔‘‘

ان آیات مبارکہ سے واضح ہو رہا ہے کہ اہل کتاب (یہود و نصاری) دعوائے ایمان کے باوجود شرک کی دلدل میں پھنس چکے اور توحید جیسی نعمت عظمی سے محروم ہو چکے ہیں قرآن مجید میں یہ مضمون بہت سارے مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور اہل کتاب کو شرک سے باز آنے اور توحید اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

اور یہ آخری اُمت اگرچہ اسے پہلی امتوں پر یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں قیامت تک حق والے توحید و سنت کے پابند لوگ ضرور رہیں گے۔[سنن ابن ماجه مقدمه رقم 10.]

لیکن اس میں بھی بہت بڑی تعد اد شرک جیسی بیماری میں مبتلا ہو چکی ہے۔ آج بہت سارے کلمہ گو توحید کا اعتراف و اقرار کرنے کے باوجود اللہ کی صفات حقوق اور اختیارات میں شرک کر رہے ہیں۔ اللہ کی صفات حاجت در مشکل کشاء گنج بخش، دستگیر، عالم الغیب اللہ کے بندوں میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور معجزات کا غلط مفہوم نکال کر غیر اللہ کو مختار کل اور کرنی والا ٹھہرا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسی ایسی باتیں پیروں، فقیروں کے حوالے سے کتابوں میں لکھ دیں کہ پیروں فقیروں کو اللہ تعالی سے بھی (معاذ اللہ) بڑھا دیا۔

غرضیکہ شرک جیسی بیماری دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ حتی کہ ایسے ادوار اور زمانے بھی گزرے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی جناب سارہ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا اس وقت دنیا بھر میں میرے اور تیرے سوا کوئی مؤمن اور موحد نہیں۔ [صحيح البخاري، كتاب الانبياء و تاريخ الطبري (126/1)]

اور آج بھی دنیا میں اکثریت شرک کرنے والوں کی ہے۔ لوگ یہ مانتے ہیں زمین اللہ نے بنائی آسمان اللہ نے بنائے۔ ہمیں اللہ نے پیدا کیا، لیکن اس کے باوجود اللہ کی مخلوق کو اور اس کے عاجز بندوں کو اللہ کے برابر کھڑا کرتے ہیں۔ اور یہ بیماری تمام روحانی بیماریوں سے خطرناک بھی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے تمام عمل ہی برباد ہو جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الانعام میں اٹھارہ انبیاء کرام کا نام لے کر فرمایا اگر وہ بھی شرک  کرتے، میں ان کے بھی سارے اعمال ضائع کر دیتا:

﴿وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ﴾ [الأنعام: 88]

اور سورۃ الزمر آیت نمبر 65 میں ہے:

﴿ وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ [الزمر:65]

’’یقینا آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلاشبہ آپ کے عمل بھی ضائع ہو جائیں گے اور بالیقین آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گئے۔‘‘

اور یہ اتنی بڑی بات صرف ہمیں سمجھانے کے لیے کی گئی ہے۔ ورنہ پیغمبروں کے بارے تو یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ شرک کریں۔ ہمیں خبردار کرنا مقصود ہے کہ شرک تمام نیکیوں کو بر باد کر کے رکھ دیتا ہے اور اس بیماری کی خطرناکی یہ ہے کہ مشرک دائمی جہنمی ہے کبھی نجات نہیں پائے گا۔

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤی اِثْمًا عَظِیْمًا﴾ [النساء:48]

’’یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالی کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا۔‘‘

اور سورۃ النساء آیت نمبر 116 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا﴾ [النساء: 116]

’’اسے اللہ تعالیٰ قطعا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔‘‘

اور کہیں فرمایا:

﴿ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲﴾ [المائدة:72]

 چونکہ یہ بیماری (شرک) سب سے زیادہ ہے۔ اور سب بیماریوں سے بڑھ کر مہلک ہے اس لیے قرآن کریم میں سب سے زیادہ یہی مضمون مذکور ہے۔ اگر شرک کی تردید اور توحید کے اثبات والی آیات اکٹھی کی جائیں تو دس پارے بنتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انداز بدل بدل کر لوگوں کو شرک سے باز کیا۔ کہیں مثالیں دے کر۔ سورۃ الحج آیت نمبر (73) میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ ؕ وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْـًٔا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ﴾ [الحج: 73]

’’لوگو! ایک مثال بیان کی جارہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے تو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے بڑا کمزور ہے (غیر اللہ سے) طلب کرنے والا اور بڑا کمزور ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔‘‘

 غور کیجئے! کس قدر واضح مثال دے کر اللہ تعالی نے شرک کی تردید کی ہے کہ غیر اللہ سے مانگنے والا بھی کمزور اور اللہ کے سوا جس سے مانگا جا رہا ہے وہ بھی کمزور ہے۔ اور سورۃ العنکبوت آیت نمبر 41 میں فرمایا:

﴿ مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ۚۖ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ؕ وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ﴾ [العنكبوت:41]

’’جن لوگوں نے اللہ تعالی کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ کمز ور گھر مکڑی کا گھر ہی ہے کاش! وہ جان لیتے۔‘‘

اللہ رب العزت نے کتنی واضح مثال دے کر ثابت کیا ہے کہ غیر اللہ کا سہارا مکڑی کے جالے کی طرح انتہائی کمزور اور ضعیف ہے جب کہ اللہ پر توکل اور ایمان انتہائی مضبوط اور پختہ چیز ہے۔

سورۃ الروم آیت نمبر 28 میں یوں فرمایا:

﴿ ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ؕ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَهُمْ كَخِیْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ﴾ [الروم:28]

’’اللہ تعالی نے تمہارے لیے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا، ہم عقل رکھنے والوں کے لیے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کر دیتے ہیں۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے جیسے انسان غلاموں کو اپنا شریک بنانا گوارا اور برداشت نہیں کرتے تو اللہ کے غلاموں کو (جو اللہ کے بندے اور اس کی کمزور مخلوق ہیں) اللہ کا شریک کیوں بناتے ہو؟ جو چیز اپنی شان کے لائق نہیں سمجھتے وہ اللہ کی شان کے لائق کیوں سمجھتے ہو؟

اور سورۃ الزمر آیت نمبر 29 میں ہے:

﴿ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۚ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۲۹﴾ [الزمر:29]

’’اللہ تعالی مثال بیان فرما رہا ہے ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی کا (غلام) ہے کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں اللہ تعالی کے لیے سب تعریف ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔‘‘

مطلب یہ ہے جس طرح ایک مالک کا غلام سکھ اور سکون میں ہوتا ہے اور زیادہ مالکوں کا غلام بے قراری و اضطراب میں ہوتا ہے اسی طرح ایک اللہ کی عبادت کرنے والا سکون اور اطمینان میں ہوتا ہے اور در در کی ٹھوکریں کھانے والا پریشانی و بے سکونی میں ہوتا ہے۔

سورۃ الج آیت نمبر 31 میں ہے:

﴿  وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ﴾ [الحج:31]

’’سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا۔ اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی۔‘‘

 یعنی جس طرح آسمان سے گرنے والا عقل و حواس کھو بیٹھتا ہے اور آخر کار ہلاک اور برباد ہو جاتا ہے اسی طرح مشرک بالکل بے عقل اور بے شعور ہے اور تباہی بربادی اس کا مقدر ہے اور اس سے بڑی بربادی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم  اور جہنم میں مدخول ہونے والا ہے۔

کہیں گزشتہ پیغمبروں کے واقعات سنا کر اللہ تعالیٰ نے توحید سمجھائی اور شرک کا رد کیا۔ حضرت یوسف علی السلام نے جیل کے ساتھیوں کو دعوت توحید دی:

﴿ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ [يوسف:39]

’’اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا مختلف قسم کے کئی پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقت ور؟‘‘

پھر فرمایا:

﴿ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ [یوسف:40]

’’اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور ہمارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دلیل نازل نہیں فرمائی، فرمانروائی صرف اللہ تعالی ہی کی ہے اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

غور فرمائیے! حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں موقع پاتے ہی کسی طرح کھلے لفظوں میں توحید سمجھائی اور معبودان باطل کا رد کیا اور واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ جنہیں تم معبود اللہ کرنی والا حاجت روا مشکل کشا اور بگڑی بنانے والا سمجھتے ہو وہ قطعاً اللہ اور معبود نہیں ہیں، پس تم نے اور تمہارے باپ دادا نے بغیر دلیل کے انہیں یہ نام دے رکھے ہیں۔

اور اللہ تعالی سورۃ البقرۃ آیت نمبر 258 میں فرماتا ہے:

﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [البقرة: 258]

’’کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو اس لیے ابراہیم (علی) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا کہ اللہ نے اسے بادشاہت دی تھی۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ کہنے لگا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ تو وہ کافر ہکا بکا رہ گیا اور اللہ تعالی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹے مدعی ربوبیت کو ایک ہی واضح اور بین دلیل کے ساتھ ایسا لا جواب کیا کہ وہ حیران و ششدر رہ گیا اور اس کی زبان گنگ ہو گئی اور اس کے منہ پر تالا لگ گیا۔

اور سورۃ الانبیاء میں ارشاد باری تعالی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو توحید سمجھانے کے لیے دل میں عزم کیا:

﴿ وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ﴾ [الانبیاء:57]

’’اور اللہ کی قسم میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم پشت پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا۔‘‘

یعنی بتوں کی ٹھکائی کر کے تمہیں یہ بات سمجھاؤں گا کہ جو اپنا دفاع نہیں کر سکتے وہ تمہاری مدد حاجت روائی اور مشکل کشائی کیسے کر سکتے ہیں؟

﴿ فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ﴾ [الأنبياء: 58]

’’پس اس نے ان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لیے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں۔‘‘

(لوگ واپس آئے تو )

﴿ قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [الأنبياء:59]
’’کہنے لگے کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟ ایسا شخص تو یقینًا ظالموں میں سے ہے۔‘‘

﴿ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُ﴾ [الأنبياء:60]

’’پھر بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا۔ جسے ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے۔‘‘

﴿ قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ﴾ [الأنبياء:61]

’’سب نے کہا اچھا اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاؤ تا کہ سب دیکھیں۔‘‘

﴿ قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُ﴾ [الأنبياء:62]
’’کہنے لگے اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تو نے ہی ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔‘‘

﴿ قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ۝۶۳﴾ [الأنبياء:63]

’’آپ نے جواب دیا بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے (پھر فوراً انداز بدلتے ہوئے) کہا: تم اپنے خداؤں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں۔‘‘

﴿ فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤی اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ [الأنبياء: 64]

’’پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہو گئے اور کہنے لگے واقعی ظالم تو تم ہی ہو۔‘‘(جوان کمزور بتوں کو پوجتے ہو)

﴿ ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰی رُءُوْسِهِمْ ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ﴾ [الأنبياء:65]

’’پھر اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے (اور کہنے لگئے کہ) یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے والے نہیں۔‘‘

﴿ قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْـًٔا وَّ لَا یَضُرُّكُمْ﴾ [الأنبياء:66]

’’(اللہ کے خلیل نے اس وقت) فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان دے سکیں۔‘‘

﴿ اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ [الأنبياء:67]

’’تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟‘‘

اور یہی مضمون اللہ تعالیٰ سورۃ الشعراء میں بیان فرماتے ہیں: (جناب ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ) میرا الہ تو وہ ہے:

﴿ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ۝۷۸

وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ۝۷۹

وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ۪ۙ۝۸۰

وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ۝۸۱

وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓـَٔتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ﴾ [الشعراء: 78 تا 82]

’’جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے۔ وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو وہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔ اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زندہ کر دے گا۔ اور جس سے میری امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا۔‘‘

 سبحان اللہ! خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کسی طرح رب ارض و سماء کا تعارف کروایا اور اس کی توحید و وحدانیت کے دلائل ذکر فرمائے؟ لیکن آج نبیوں کو ماننے والوں اور کلمہ پڑھنے والوں نے ان کو الہ اور معبود بنالیا جو کسی کو شفا تو دے نہیں سکتے بلکہ خود بیمار ہو جاتے ہیں، جو کسی کو رزق نہیں دے سکتے بلکہ خود رزق کے محتاج ہیں۔

 اور کہیں اپنی قدرت کے دلائل دے کر اللہ تعالی نے توحید سمجھائی ہے۔ اللہ تعالی سورة المؤمن آیت نمبر 61 – 62 میں فرماتے ہیں:

﴿ اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ۝۶۱

ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ ۘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚؗ فَاَنّٰی تُؤْفَكُوْنَ﴾ [المؤمن:61-62]

’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے رات بنا دی کہ تم اس میں آرام حاصل کرو اور دن کو دیکھنے والا بنا دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل و کرم والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے۔ یہی اللہ ہے تم سب کا رب ہر چیز کا خالق اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر کہاں تم بہکائے جاتے ہو۔‘‘

اور اس سورت کی 64 – 65 آیات مبارکہ میں خالق ارض و سماء فرماتے ہیں:

﴿ اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۖۚ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۶۴

هُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾  [المؤمن: 64- 165]

’’اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنا دیا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو عطا فرمائیں، یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے پس بہت ہی برکتوں والا اللہ ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا۔ وہ زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو تمام خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘

اور مسئلہ رد شرک اور اثبات توحید اس قدر اہم ہے کہ وہ سورہ جس میں صرف اور صرف مسئلہ توحید بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ الاخلاص وہ 10 پاروں کے برابر سورت ہے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’کیا تم میں کوئی شخص (ہر رات) قرآن پاک کا تیسرا حصہ تلاوت نہیں کر سکتا؟ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا قرآن پاک کا تیسرا حصہ کیسے پڑھا جا سکتا ہے؟

آپﷺ نے فرمایا:

﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ﴾ آخر تک پڑھنا قرآن پاک کے تیسرے حصے کے برابر ہے۔[صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين و قصرها، باب فضل فرقة قل هو الله أحمد (811) والدارمي (3431)]

اور بخاری و مسلم کی روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی  اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے ایک شخص کو ایک چھوٹے لشکر پر امیر مقرر فرمایا وہ شخص نماز میں (امامت کراتے ہوئے) اپنی تلاوت کو ﴿قل ھو اللہ﴾ احد سورت کے ساتھ ختم کرتا تھا جب (لشکر میں شریک) لوگ واپس آئے تو انہوں نے اس کا تذکرہ نبیﷺ سے کیا۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’اس سے دریافت کرو کہ وہ کس لیے کرتا ہے؟‘‘

انہوں نے اس سے دریافت کیا۔ اس نے جواب دیا اس سورت میں اللہ کی صفات (اور اسماء) کا ذکر ہے اس لیے میں اس سورت کی تلاوت کو محبوب جانتا ہوں۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

(اخْبِرُوهُ أَنَّ اللهَ يُحِبُّهُ) [صحيح البخاري، كتاب التوحيد، باب ما جاء في دعاء النبيﷺ لامتہ إلى توحيد الله۔ رقم 7375 و مسلم رقم 1890]

’’اسے اطلاع کر دو کہ اللہ بھی اس کو محبوب جانتا ہے۔‘‘

اور آپ ﷺ نے مسجد قباء کے امام سے کہا تھا (جو ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورة الاخلاص ضرور پڑھتا تھا اور وہ سورۃ الاخلاص سے محبت کی وجہ سے ایسا کرتا تھا)

کہ ’’تیری اس سورت سے محبت تجھے جنت میں لے جائے گی۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الاذان باب الجهر بقراءة صلاة الفجر (774) تعليقا والترمذي (2901) و ابن حبان (793)]

اور جس آیت میں صرف اور صرف مسئلہ توحید بیان کیا گیا ہے وہ قرآن کریم کی ساری آیتوں سے بڑھ کر عظمت والی آیت ہے۔

حضرت ابی بن کعب رضی  اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’اے ابوالمندر! تجھے معلوم ہے کہ اللہ کی کتاب میں سے کون سی آیت تیرے پاس زیادہ عظمت اور شان والی ہے؟‘‘

میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’اے ابوالمندر! اللہ کی کتاب سے کون سی آیت تیرے ہاں زیادہ عظمت اور شان والی ہے؟‘‘

میں نے عرض کیا:

﴿الله لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ [البقرة: 255]

ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا:

(لِيَهْنِكَ الْعِلْمُ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ!) [صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب فضل سورة الكهف و أية الكرسي (257) و ابوداود (1460)]

’’اے ابوالمندر! تجھے علم مبارک ہو”‘‘

اور صحیح البخاری میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے صدقہ کی حفاظت پر مقرر فرمایا چنانچہ میرے پاس ایک شخص آیا وہ (دونوں ہاتھوں کے ساتھ) کھجوریں اٹھانے لگ گیا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور میں نے کہا کہ میں تجھے رسول الله ﷺ کے ہاں پیش کروں گا۔ اس نے منت سماجت کرتے ہوئے) کہا میں ضرورت مند ہوں اور مجھ پر اہل و عیال (کے اخراجات) کی ذمہ داری ہے اور مجھے شدید ضرورت ہے۔

فرمایا:

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ گزشتہ رات کا تیرا قیدی کہاں ہے؟“

میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! اس نے اپنے حاجت مند ہونے اور کثرت عیال کا زور دار انداز میں شکوہ کیا چنانچہ میں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔

آپ ﷺ نے آگاہ کیا:

’’خبردار! اس نے تم سے جھوٹ کہا ہے اور وہ عنقریب پھر آئے گا۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ضرور آئے گا اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ عنقریب پھر آئے گا چنانچہ میں اس کی گھات میں بیٹھ گیا اور وہ آیا اور کھجوروں (کے ڈھیر) سے (دونوں ہاتھوں کے ساتھ) اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا میں تیرا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں ضرور لے جاؤں گا۔ اس نے (منت سماجت کرتے ہوئے) کہا مجھے چھوڑ دیں اس لیے کہ میں ضرورت مند ہوں اور مجھ پر اہل و عیال کا بوجھ ہے۔ اب میں دوبارہ نہیں آؤں گا چنانچہ میں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا:

میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے اپنی ضرورت مندی اور اہل وعیال کے بوجھ کا زور دار الفاظ میں ذکر کیا چنانچہ میں نے اس پر ترس کھایا اور اس کو چھوڑ دیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اس نے تیرے ساتھ جھوٹ کہا ہے وہ عنقریب پھر آئے گا۔‘‘

چنانچہ میں اس کی گھات میں بیٹھ گیا۔ وہ آیا اور کھجوروں (کے ڈھیر) سے (دونوں ہاتھوں کے ساتھ) اٹھانے لگا۔ میں نے اسے گرفتار کر لیا اور کہا میں ضرور تیرا معاملہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جاؤں گا۔ اب یہ تیسری بار اور آخری بار ہے تم کہتے رہے کہ میں واپس نہیں آؤں گا لیکن تم پھر آتے رہے۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دے میں تجھے ایسے کلمات بتاتا ہوں جن سے تجھے فائدہ ہوگا جب تو اپنے بستر پر لیٹے تو آیت الکرسی پڑھ یہاں تک کہ ختم کرلے اس کی تلاوت سے ہمیشہ تجھ پر اللہ کی جانب سے محافظ مقرر ہوگا اور صبح ہونے تک شیطان تیرے قریب نہیں آئے گا۔ اس پر میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا: ’’تیرے قیدی کا کیا بنا؟‘‘ میں نے عرض کیا اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھے چند کلمات سکھلاتا ہے جن کے پڑھنے سے مجھے اللہ فائدہ عطا کرے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے تجھے سچی بات بتائی ہے اگرچہ وہ جھوٹا ہے اور تجھے معلوم ہے کہ تین راتوں سے تیرے پاس کون آتا رہا ہے؟“ میں نے نفی میں جواب دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: (ذاكَ شَيْطَانٌ) وہ شیطان تھا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الوكالة، باب اذا وكل رجلاً فترك الوكيل شيئا فاجازه الموكل (2011)]

اور تیسری حدیث میں ہے جناب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ کی اللہ سے سنا آپ اس منبر پر فرما رہے تھے کہ جس شخص نے (فرض) نماز کے بعد آیت الکرسی کی تلاوت کی تو اس کو جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی روک سکتی ہے۔[نسائی (9928) والصحيحة (972) و طبراني في الكبير (134/8]

بہرحال قرآن کریم شرک کی تردید سے پر اور بھرا پڑا ہے۔ سارے پیغمبروں کی بنیادی دعوت ہی رد شرک اور اثبات توحید ہے لیکن آج المیہ یہ ہے کہ جو پیغمبر تو حید لے کر آئے۔ توحید کی خاطر ماریں کھائیں، گالیاں سنیں۔ آج لوگوں نے انہی کو اللہ کے برابر کھڑا کر کے شرک کا دروازہ کھول لیا ہے۔ اس لیے اللہ کی مدد منقطع ہو چکی ہے۔ کیونکہ وہ فرق جس کی بناء پر کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں پر مدد اترتی تھی اور مدد کا وعدہ تھا وہ فرق نہیں رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔