رمضان المبارک تقویٰ و تطہیر اور تزکیہ و تعمیر

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقرة:183)
رمضان المبارک کے روزوں کا مقصد جیسا کہ آپ جانتے ہیں، قرآن پاک میں واضح طور پر تنقومی بیان کیا گیا ہے، اور تقویٰ ایک ایسی خوبی اور صفت ہے جو اپنے اندر مزید بہت کی صفات کو سموئے ہوئے ہے۔
تو جب ہم روزوں کے مقصد اور غرض و غایت کی بات کرتے ہیں تو اس میں تقوی کے ساتھ ساتھ اس کی ذیلی صفات از خود شامل ہو جاتی ہیں کہ جس میں صبر ہے، تزکیہ نفس ہے، خشیت الہی ہے، مراقبہ اللہ یعنی اللہ تعالی کی نگرانی کا تصور ہے اور اسی طرح اور کتنی ہی صفات ہیں جو کہ آپس میں باہم ربط و تعلق رکھتی ہیں، وہ کہیں تقوی کی ذیلی صفات کے لحاظ سے ظاہر ہوتی ہیں، کہیں اس کے فوائد و ثمرات کے اعتبار سے اور کہیں اسباب کے طور پر۔
تا ہم یوں تو تمام ہی اسلامی عبادات بنیادی طور پر تطہیر القلوب کا کام کرتی ہیں مگر عبادت صوم طہارت قلبی میں اک خاص ہی انداز، طریقہ اور اثر رکھتی ہے۔
روزہ دل کو تمام قسم کی آلائشوں سے پاک صاف کرتا ہے، پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی ابتداء کرتے ہوئے ، اعضاء و جوارح کی تطہیر و اصلاح سے گزرتے ہوئے ، تزکیہ نفس پر اس کا انتقام ہوتا ہے۔
اسلام میں طہارت و پاکیزگی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی عموماً کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں طہارت و نجاست کے فرق کو اور پاکیزگی حاصل کرنے کے طریقوں کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس کے برعکس زمانہ جاہلیت کے لوگ تو در کنار آج کی مہذب ترین قو میں بھی طہارت کے اسلامی تصور کے قریب تک نہیں پہنچ سکیں۔ اسلامی شرعی اصطلاح میں لفظ ’’طہارت‘‘ ایک ایسا جامع لفظ ہے کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کا کوئی ہم معنی لفظ نہیں پایا جاتا۔
اسلام مسلمان کو ہر قسم کی غلاظت اور گندگی سے پاک دیکھنا چاہتا ہے وہ گندگی عقائد و خیالات کی ہو، اخلاق و اعمال کی ہو، یا جسم، لباس اور رہن سہن کی ہو، وہ گندگی حسی ہو یا معنوی ہو، البتہ عبادات کے ذریعے جس طہارت کی بات ہوتی ہے اس کے دو مفہوم ہیں، ایک صغیرہ گناہوں کی معافی، جو کہ آدمی کے نامہ اعمال سے حذف کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ آیات و احادیث سے ظاہر ہے، جن میں سے ایک وہ حدیث بھی ہے کہ جس میں آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)) (بخاري:1901)
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، ایمان کے ساتھ اور اجر و ثواب کی نیت سے، اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔‘‘
اور اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جیسا کہ دوسری احادیث سے پتا چلتا ہے،
((الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بينَهُنَّ إِذا اجْتَنَبَ الكبائرَ)) (مسلم:233)
’’پانچوں نمازیں ، اور جمعہ ، جمعے تک ، اور رمضان ، رمضان تک اپنے درمیانی عرصے کے دوران کیے گئے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ کبیرہ گنا ہوں سے اجتناب کرے۔‘‘
اور عبادات کے ذریعے طہارت حاصل ہونے کا دوسرا مفہوم ہے: گناہوں کی گندگی سے زنگ آلود ہونے والے دلوں کو پاک صاف کرنا، اس سے بری خصلتوں اور اخلاق ذمیمہ کو دور کرنا اور ان کی جگہ اچھی صفات پیدا کرنا ، اور رمضان المبارک کے روزوں کےمقصد میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔
اور ہم آج کی گفتگو میں طہارت کے اس دوسرے مفہوم پر ہی بات کریں گے۔ ان شاء اللہ ۔ طہارت کے اس دوسرے مفہوم کا نام ہے تزکیۃ النفس اور تزکیۃ النفس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اپنی مخلوقات کی ہر لمحہ نگرانی کرتے رہنے کا تصور دل میں پختہ ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((ثَلَاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعَمَ طَعْمَ الإيْمَان))
’’تین کام جس نے کر لیے اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا ، لذت پالی۔‘‘
1۔ ((مَنْ عَبَدَ اللهَ وَحْدَهُ وَأَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ))
’’جس نے ایک اللہ کی عبادت کی اور اس عقیدے اور ایمان کے ساتھ کی کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘
1۔ ((وَاعْطَى زَكَاةَ مَا لِه طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ، رَافِدَةً عَلَيْهِ كُلَّ عَامٍ، ولا يُعطِي الهَرِمَةَ، وَلَا الدَّرَنَةَ وَلَا الْمَرِيْضَةَ وَلَا الشَرَطَ اللَّئِیْمَةَ ، وَلٰكِنْ مِنْ أَوْسَطِ أَمْوَالِكُمْ، فَإِنَّ اللهَ لَمْ يَسْأَلُكُمْ خَيْرَهُ ولا يَأْمُرُكُمْ بِشَرِّهِ))
’’اور دوسرا کام یہ کہ وہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے، خوش دلی سے، اس کا نفس اسے ہر سال زکاة کی ادائیگی کے لیے اس کا مددگار ہو ، وہ زکاة میں جو جانور دے وہ بوڑھا نہ ہو، خارش زدہ نہ ہو، بیمار نہ ہو، گھٹیا اور کمینہ نہ ہو، بلکہ درمیانہ ہو، کہ اللہ تعالی تم سے اچھا مال نہیں مانگتے اور نہ بر امال نکالنے کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
3۔ ((زَکّٰی نَفْسَهُ))
’’اور تیسرا کام یہ کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔‘‘
((فَقَالَ رَجُلٌ وَمَا تَزْكِيَةُ النَّفْسِ))
’’ایک شخص نے دریافت کیا کہ تزکیہ نفس کیا ہے؟‘‘
((فَقَالَ: أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ)) (رواه الطبراني وصححه الألباني في الصحيحة ، برقم:1046)
’’ تو آپ ﷺنے فرمایا کہ تزکیہ النفس یہ ہے کہ آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ جہاں بھی ہوتا ہے اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
تو تزکیۃ النفس کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے کہ دل میں اللہ تعالی کی معیت کا احساس اور شعور جاگزیں ہو، اور تزکیۃ النفس صیام رمضان کے مقاصد میں سے ایک ہے، کہ یہ تقویٰ کے اولین فوائد و ثمرات اور نتائج میں سے ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو سب سے زیادہ نمایاں اور سب سے بنیادی چیز ہے، وہ صبح سے شام تک کھانا پینا ترک کیے رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ اور تزکیہ نفس کا کھانے پینے کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ کھانے پینے کا تزکیہ نفس کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور وہ یوں کہ تقوی اور تزکیہ کا مقام دل ہے اور دل کو خراب کرنے والی چیزوں میں سے ایک کھانا پینا بھی ہے، کھانا پینا دل پر دو طرح سے اثر انداز ہوتا ہے، ایک معنوی لحاظ سے اور ایک حسی لحاظ سے۔
معنوی لحاظ کا مطلب ہے کہ بعض قسم کا کھانا ایسا ہوتا ہے کہ اس سے انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور پھر اس گناہ کی نحوست اور اس کی سزا کے آثار ظاہر ہوتے ہیں، جیسے حرام رزق کھانا، یعنی ایسے مال سے کھانا جو حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو، حرام کا روبار کے
ذریعے، یا چوری، ڈکیتی اور فراڈ کے ذریعے، رشوت کے ذریعے یا حرام جانوروں کا گوشت کھانا اور حرام چیزیں پینا وغیرہ۔ تو کھانے کی اس قسم سے دل پر معنوی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ انسان گناہ کا رسیا ہو جاتا ہے، دین سے دور ہوتا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غصے کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اس کی دعاء قبول نہیں ہوتی۔ دوسری چیز کہ کھانا پینا حسی اعتبار سے انسان پر اثر انداز ہوتا ہے اور وہ ہے کھانے کی مقدار کے ذریعے۔ یعنی ضرورت سے زیادہ کھانا۔ جب انسان ضرورت سے زیادہ کھانا کھاتا ہے، اگر چہ حلال ہی کھاتا ہے مگر اس کا ایک طبعی اور فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے، آدمی کا جسم بو جھل ہو جاتا ہے، سستی پیدا ہو جاتی ہے، جو زیادہ کھاتا ہے، وہ زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ کھوتا ہے، یعنی اجر و ثواب سے محروم رہتا ہے۔
مگر زیادہ کھانے کا جو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، وہ اس شکل میں ہوتا ہے کہ زیادہ کھانے سے آدمی کی انتڑیاں زیادہ کھل جاتی ہیں اور شیطان جو انسان کے خون کی رگوں میں گردش کرتا ہے اس کے لیے گزرنا آسان ہو جاتا ہے اور پھر وہ خوب انسان پر اپنے کرتب آزماتا اور اسے تختہ مشق بناتا ہے۔ تو یوں زیادہ کھانا پینا تقویٰ اور تزکیہ نفس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، جبکہ بھوک تزکیہ نفس کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مَلَا آدَمِيٌّ وَعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ)) (ترمذي:2380)
’’کسی آدمی نے پیٹ سے زیاد برا برتن کبھی نہیں بھرا۔‘‘
پیٹ کو برتن سے تشبیہ دی کہ ایک تو اس سے پیٹ کی کم اہمیتی ظاہر ہوتی ہے کہ جس طرح برتن آدمی کی ضروریات زندگی میں سے ایک ہے کہ اس کی اہمیت بس اتنی ہے کہ ضرورت پڑنے پر اس میں کچھ چیز ڈال لی جاتی ہے۔
اسی طرح پیٹ کی بھی بس اتنی کی اہمیت ہے کہ کمر سیدھی کرنے کے لیے کچھ کھانا پینا پڑتا ہے چنانچہ فرمایا:
((بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ))
’’ابن آدم کو چند نوالے ہی کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی کر دیں ۔‘‘
یعنی اگر اس برتن میں کچھ ڈالنا ہی ہے تو بس اتنا سا کہ چند نوالے ہوں کہ جن سے کمر سیدھی ہو جائے۔
((فَإِنْ كَانَ لَا مَحالَة))
’’اور اگر ضرور ہی اس سے زیادہ کھانا ہو تو پھر‘‘
(فَثُلُتٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفْسِهِ)) (ترمذي:2380)
’’ تو پھر پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی حصہ سانس کے لیے۔‘‘
اب لوگ کس طرح کھاتے پیتے ہیں، آپ جانتے ہی ہیں، ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی دیکھے ہوں گے کہ جب کھانے لیے بیٹھے ہیں تو ازار بند اور پیلٹ ڈھیلی کر لیتے اور آستین چڑھا لیتے ہیں اور خوب جم کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر ایسا کھاتے ہیں کہ پانی اور سانس کے لیے جگہ نہیں چھوڑتے ، آپ نے کبھی دیکھا ہوگا کہ بسا اوقات لوگ اتنا کھا لیتے ہیں کہ انہیں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
تو انسان میں تقومی پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالی نے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا ہے کہ جس میں بڑے بڑے شیطانوں کو قید کر کے اور روزے فرض کرتے ہوئے معینہ اوقات میں کھانے پینے پر پابندی لگا کر شیطان کے تسلط سے بچنے کے لیے ماحول فراہم کیا اور قیام اللیل اور دیگر نیک اعمال کی ترغیب دی تا کہ تقویٰ کا حصول ممکن ہو سکے۔
روزے کے بنیادی اور اساسی مقصد تقوی کے ساتھ ساتھ اس کی ذیلی صفات میں سے ایک ضبط نفس کی صفت بھی ہے، روزہ انسان میں ضبط نفس پیدا کرتا ہے، دوسرے الفاظ میں انسان کی خواہشات منضبط کرتا ہے انہیں قابو میں کرتا ہے اور اگر نفس کی سرکشیاں سمجھ میں آجائیں تو پھر ضبط نفس سے زیادہ موزوں الفاظ: خواہشات نفس کو نکیل ڈالتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس پرکشش دنیا میں نفس انسانی کو جب کوئی چیز پسند آتی ہے، کوئی کار، کوئی کوٹھی ، کوئی بزنس، تو اس کے منہ سے رالیس سیکنے لگتی ہیں۔ وہ اس کی طرف لپکتا ہے، اس کے لیے تڑپتا ہے، اس کے لیے بے چین و بے قرار ہو جاتا ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے بچوں کی طرح ضد کرتا ہے اور سرکش جانوروں کی طرح رسیاں تڑواتا ہے، جائز اور نا جائز ، حلال اور حرام کی تمیز بھول جاتا ہے، تو ایسے میں ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور ضبط نفس پیدا کرنے کی، اور روزہ ایسی کیفیت کا بہترین علاج ہے۔ اس ہیجانی کیفیت سے نکلنے کے لیے اسے ضرورت ہوتی ہے تفریح نفس کی اور تفریح نفس سے مراد آیات و احادیث سے نصیحت حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ دو شخص سروں پر بوجھ اٹھائے ایک دوسرے کے ساتھ شعروں میں باتیں کرتے ہوئے جا رہے ہیں کہ ایک آدمی ایک شعر پڑھتا، دوسرا اس کو سنتا اور پھر اس جیسا جواب اس کو دیتا۔
فرماتے ہیں کہ میں نے غور کیا تو سمجھ یہ آئی کہ وہ بوجھ کی مشقت کم کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک اپنی سوچ اور فکر اور اپنی توجہ دوسرے کے شعر سننے میں لگا دیتا ہے اور پھر اس کا جواب دینے میں مشغول ہو جاتا ہے تو یوں سفر بغیر مشقت کےاحساس سے کٹ جاتا ہے۔ (صيد الخاطر: 99)
ہم بھی بہت بڑی مشقتوں سے دوچار ہیں، ہم پر بھی بہت سی چیزوں کا بوجھ ہے، فجر کی نماز کا بوجھ ہے، صدقہ و خیرات اور زکاۃ ادا کرنے کا بوجھ ہے، روزوں کی مشقت اور حج کی صعوبتیں ہیں، حلال پر قائم رہنے اور حرام سے بچنے کی مشقت ہے۔ تو زندگی کے اس سفر میں ان مشقتوں اور صعوبتوں کے احساس کو کم کرنے کے لیے ہمیں شتربان کے نغمے کی طرح اک حادی کی ضرورت ہے۔
عربوں میں یہ رواج تھا کہ دوران سفر اونٹ جب تھک جاتے ، چل چل کر اکتا جاتے اور آہستہ ہو جاتے، تو شتربان یعنی اونٹوں کو چلانے والا شخص اک خاص ترنم سے شعر پڑھتا تو اس ترنم کا اونٹوں پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ چاق و چوبند ہو جاتے اور تیز رفتار ہو جاتے۔ اور جیسا کہ حدیث میں بھی ہے، آپﷺ جب حج کے لیے تشریف لے گئے تو امہات المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہ بہی ساتھ تھیں، ان کے اونٹوں کو چلا کر لے جانے والا آپ ﷺ کا ایک خادم تھا، جس کا نام انجشہ تھا، خوبصورت آواز تھی ، انجشہ نے جب شعر پڑھنے شروع کیے تو اونٹ تیز رفتار ہو گئے، اب خواتین مردوں کی نسبت بہت کمزور ہوتی ہیں اور تیز رفتار اونٹ پر سفرکرنے کے لیے ہمت اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، وگرنہ گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے یہ کیفیت دیکھ کر ایک خوبصورت تشبیہ کے ساتھ فرمایا:
((رُوَيْدَكَ يَا أَنْجَشَة! لَا تَكْسِرِ القَوَارِيْرَ)) (بخاري:6211)
’’اے انجشہ! ذرا ٹھہر ٹھہر کر، آبگینے نہ توڑ (کہیں یہ شیشے ٹوٹ نہ جائیں)۔‘‘
یعنی عورتیں کمزور اور نازک ہوتی ہیں، اس لیے ذرا دھیان رہے۔ تو جس طرح اونٹ حادی کی آواز سن کر اپنی تھکن بھول جاتے ہیں، ان میں نشاط اور چستی آجاتی ہے، پھر سے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کے اس پر مشقت اور پرفتن سفر اور دور میں ہمیں بھی تفریح نفس مہیا کرنے والا چاہیے، جو ہماری تمام مشقتیں بھلا دے اور ہم سفر آخرت کے لیے پھر سے تازہ دم ہو جائیں۔ اور احادیث مبارکہ شتربان کے نغموں کی طرح تو نہیں ہیں، اور نہ ہم اونٹوں کی طرح ہیں۔ اونٹ تو صرف آواز سے متاثر ہوتے ہیں ، وہ کوئی سمجھتے بوجھتے تھوڑی ہیں ۔ وہ تو:
﴿كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ؕ﴾ (البقره:171)
جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہا تک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ جب کہ ہمارا معاملہ ان سے مختلف ہے ، ہم ایک طے شدہ مقصد کے ساتھ ، ایک متعین منزل کی طرف رواں دواں ہیں:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰی رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ۝۶﴾ (الانشقاق:6)
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اس سےملنے والا ہے ۔‘‘
تو ہم اپنے رب سے ملاقات کا مقصد لیے اپنی منزل کی طرف چلے جا رہے ہیں اور اس سفر میں ہمیں تفریح نفس کی ضرورت ہے، یعنی آیات و احادیث سننے اور پڑھنے کی ضرورت ہے جن میں اجر وثواب بتلایا گیا ہے اور وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
……………………….