رسول اللہ ﷺکی شفاعت صرف اہل توحید کو نصیب ہوگی

46۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،  انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! قیامت کے دن آپ کی سفارش سے سب سے زیادہ کون حصہ پائے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ قَالَ:لَا إِلٰهَ إِلَّا الله خَالِصًا مِّنْ قَلْبِهِ)) (أَخْرَجَهُ البخاري:99، 6570)

 ’’قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ وہ شخص بہرہ ور ہو گا جس نے سچے دل اور خلوص نیت سے لا إِلهَ إِلَّا الله کہا ہوگا۔‘‘

47۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((شَفَاعَتِي لِمَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا الله مُخْلِصًا، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، يُصَدِّقُ لِسَانُهُ قَلْبَهُ وَقَلْبُهُ لِسَانَهُ)) ( أَخْرَجَهُ ابْنُ حِبَّان:6466)

’’میری شفاعت اس شخص کے لیے ہے جس نے اخلاص کے ساتھ اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اس کی زبان اس کے دل کی تصدیق کرے اور اس کا دل اس کی زبان کی تصدیق کرے۔ ‘‘

48۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، فَتَعَجَّلَ كُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَتَهُ، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِّأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَهِيَ نَائِلَةٌ، إِنْ شَاءَ الله مَنْ مَّاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا)) (أَخْرَجَهُ البخاري:6304، 7474، ومُسْلِمٌ:199)

’’ہر نبی کی ایک دعا ایسی ہے جو یقینی طور پر قبول کی جانے والی ہے۔ ہر نبی نے اپنی وہ دعا جلدی مانگ لی، جبکہ میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ کر لی ہے، چنانچہ یہ دعا ان شاء اللہ میری امت کے ہر اس فرد کو پہنچے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے فوت ہوا۔‘‘

توضیح و فوائد: روز قیامت گناہ گار مسلمانوں کے لیے اللہ کی رحمت کے بعد ایک بہت بڑا سہارا رسول اکرمﷺ کی شفاعت ہوگی۔ یہ شفاعت مختلف مواقع پر کئی اعتبار سے ہو گی۔ شفاعت کبری سے ساری انسانیت مستفید ہو گی اور یہ حساب کتاب شروع کرنے کی شفاعت ہو گی، پھر مسلمانوں کے لیے مخصوص شفاعت ہو گی، اس شفاعت پر بہت سے لوگ جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیے جائیں گے اور دوسرے بہت سے افراد جہنم سے نکال کر جنت میں بھیج دیے جائیں گے۔ لیکن یہ سعادت صرف انھی لوگوں کو حاصل ہوگی جو توحید پر کار بند رہے ہوں گے۔

49۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا ))(أخرجه الترمذي: 2441، و ابن ماجه:4317)

’’میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (فرشتہ) آیا، اس نے مجھے آدھی امت کے جنت میں داخلے اور سفارش میں سے کسی ایک چیز کو منتخب کرنے کا اختیار دیا۔ چنانچہ میں نے سفارش کو منتخب کیا۔ اور یہ (شفاعت) ہر اس شخص کے بارے میں ہوگی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے فوت ہوا۔‘‘

 توضیح و فوائد: رسول اللہﷺ کو پہلے امید تھی کہ آپ کی امت تمام اہل جنت کا نصف ہوگی جیسا کہ بعض احادیث میں صراحت ہے، پھر آپ کو شفاعت اور اس تعداد کے بارے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے شفاعت کو اختیار کیا۔ شفاعت نبوی کی بدولت یہ تعداد اہل جنت کے نصف سے بھی بڑھ جائے گی۔ (ان شاء اللہ)

………………