صبر ایک ضرورت
﴿ وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَۙ﴾ (البقرة:45)
صبر اور شکر زندگی کے لوازمات ہیں، جیسا کہ گذشتہ خطبہ جمعۃ المبارک میں ہم نے جاتا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے تمام تر معاملات انہی دو صفات کے گرد گھومتے ہیں۔ زندگی میں جو بھی معاملہ پیش آئے اس کے ردعمل کے طور پر انسان کو یا تو صبر اختیار کرنا ہوتا ہے، یا شکر ادا کرنا ہوتا ہے، تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ صبر اور شکر کی حقیقت کو سمجھا جائے، انسان کی پوری زندگی جین وو صفات کے گرد گھومتی ہے انہیں تفصیل کے ساتھ جانتا اور سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
گذشتہ خطبہ جمعہ میں صبر کے بارے میں چند باتیں جائیں، آج چند مزید باتیں جانتے کی کوشش کرتے ہیں:
صبر کا آسان لفظوں میں معنی ہے برداشت، اور برداشت کی اس دنیا کی زندگی میں کیا اہمیت ہے، کیا فضیلت ہے، کتنی ضروری ہے اور کتنے فوائد ہیں اور کیا معنی و مفہوم ہے، یہ تفصیلات جاننے کے لئے یقینًا ایک اضافی وقت درکار ہوگا، لہٰذا اختصار کے ساتھ چند باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
صبر کی ضرورت سے ہر انسان خوب آگاہ ہے، کیونکہ صبر کی ضرورت ہر انسان کو زندگی کے ہر معاملے، ہر شعبے، ہر مرحلے اور ہر قدم پر پڑتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اکثر لوگ صبر کو ایک مستقل خوبی اور صفت کے طور پر نہیں جانتے لیکن وہ اس سے ہر حال میں گزر رہے ہوتے ہیں، اور کچھ دوسرے ہیں جو صبر اور برداشت کو کنٹروری سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کرتے، حالانکہ صبر انتہائی ضروری ہے اور بہت سے معاملات میں اُس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا ۔
مثلاً: اگر کسی کا کوئی عزیز اپنی طبیعی موت فوت ہو جائے تو ایسی صورت میں آدمی صبر کے سوا کیا کر سکتا ہے، یقینًا ایسے موقعے پر صبر کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا، لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایسے مواقع پر بھی صبر سے کام نہیں لیتے۔ جھا ہاں! بہت سے لوگ اپنے کسی عزیز کی وفات پر صبر نہیں کرتے بلکہ بے بسی کا اظہار کرتے ہیں، وہ اپنے تئیں شاید اس کو صبر ہی سمجھ رہے ہوں، مگر حقیقت میں ان کا رویہ صبر کا نہیں بلکہ بے بسی کا ہوتا ہے، اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ صبر اور بے بسی کے فرق سے واقف نہیں۔
بے بسی کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ آدمی بے بس ہوتا ہے کچھ کرنے کی قوت، طاقت، قدرت ، استطاعت اور اختیار نہیں رکھتا مکمل طور پر Helpless ہوتا ہے۔
جب انسان مکمل طور پر اپنے آپ کو بے بس اور بے یارو مددگار پاتا ہے تو اس کے اندر غم و غصے کا ایک طوفان پر پا ہوتا ہے وہ انتقام کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے، بس چلنے پر کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا دل میں مصمم ارادہ رکھتا ہے، وہ اندر ہی اندر کڑھتا ہے دانت پیستا ہے، اور اس کا خون کھولتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس صبر اگر چہ بعض صورتوں میں بے بسی کا ہی دوسرا نام ہوتا ہے ان معنوں میں کہ آدمی کچھ کرنے کا اور مصیبت کو ٹالنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ہوتا، لیکن صبر چونکہ ایک عقیدہ ہے، اک مخصوص معنی و مفہوم رکھتا ہے، اور مخصوص آداب رکھتا ہے، اس لئے صبر کے وقت آدمی کی کیفیت، بے بسی کی کیفیت سے یکسر مختلف ہوتی ہے، صبر میں انسان نہایت پر سکون ہوتا ہے، جزع فزع نہیں کرتا، توجہ نہیں کرتا، کپڑے نہیں پھاڑتا، چیخ و پکار نہیں کرتا، بد کلامی نہیں کرتا، زبان سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکالتا جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو جس سے تقدیر کا انکار لازم آتا ہو، جس سے اللہ تعالی کا شکوہ ہوتا ہو، بلکہ وہ زبان سے ایسے الفاظ ادا کرتا ہے جس سے اللہ تعالی خوش اور راضی ہوتا ہو۔
آپﷺ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ جب فوت ہوئے، تو فرط جذبات سے آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا!
((وَانتَ يَا رَسُولَ اللهِ؟))
’’اے اللہ کے رسول ﷺآپ (ﷺ) بھی؟‘‘
((فقال: يابن عوف إنها رحمة))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا:اے ابن عوف ! یہ رحمت کے آنسو ہیں۔‘‘ یعنی کوئی شکوہ نہیں شکایت نہیں، ناراضی نہیں ہے، اور پھر فرمایا:
((إِنَّ الْعَيْنَ تَدمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى ربُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْرُونُونَ)) (صحیح البخاری:1303)
فرمایا: ’’آنکھ اشک بار ہے، دل غمگین ہے، اور ہم زبان سے صرف وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہوتا ہو اور اسے ابراہیم ہم تیری جدائی میں بڑے غمزدہ ہیں۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ صبر بے بسی سے کس قدر مختلف ہے، یہ صبر ہی کی حقیقت ہے کہ تکلیف پہنچے، آزمائش آئے، مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹیں تو آدمی اللہ کی حمد بیان کرتا ہے۔ جیسا کہ مشہور حدیث ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَامَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ، قَالَ اللهُ عَزَّ وجلَ لِمَلائِكَتِهِ قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي))
’’جب کسی شخص کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے۔‘‘
((قبضتم ولد عبدى ؟))
’’ تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کی ہے۔‘‘
((فَيَقُولُونَ: نَعَمْ))
’’وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔‘‘
((فَيَقُولُ: فَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِه))
’’اللہ فرماتا ہے۔ تم نے اس کے ثمر قلب اور لخت جگر کی روح قبض کر لی؟‘‘
((فَيَقُولُونَ: نعم .))
’’تو فرشتے عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔‘‘
((فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِي ؟))
’’ تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: میرے بندے نے پھر کیا کہا ؟‘‘
((فَيَقُولُونَ: حَمِدَكَ واسترجع .))
’’تو فرشتے کہتے ہیں کہ اُس نے تیری حمد بیان کی اور انا للہ وانا اليه راجعون کہا۔‘‘
((فَيَقُولُ اللهُ: ابْنُوا لِعَبْدِي بيتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمد)) (سنن ترمذی:1021)
’’تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: میرے بندے کے لیے جنت میں گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ اس حدیث میں اللہ تعالی نے بار بار فرشتوں سے استفسار فرمایا حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں اور اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے اور یہ گویا اس کی اہمیت بیان کرنا تھا کہ کسی انسان کو اولاد کے فوت ہونے پر کتنا غم ہوتا اور کتنی تکلیف پہنچتی ہے، اور اس شدت غم کے باوجود ایک مسلمان اس پر کوئی جزع و فزع اور شکوہ شکایت نہیں کرتا بلکہ اللہ کی حمد بیان کرتا ہے۔
اور یہ سب صبر ہی کی بدولت اسے حاصل ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالی اسے ایسے اجر و انعام سے نوازتا ہے کہ اس کا جنت میں گھر بناتا ہے اور پھر اپنی پسند کا اس کا نام رکھتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں کے اپنی اپنی پسند کے نام رکھتے ہیں، جو ایک خاص پسند کا اظہار ہوتا ہے، ایسے ہی لوگ اپنے کاروبار کے نام بھی اپنی پسندیدہ شخصیات کے نام پر رکھتے ہیں۔
تو بیت الحمد نام گویا ایک بہت بڑی خصوصیت کی علامت ہے جو بہت بڑی ایمانی کیفیت ، گہرے عقیدے ، تقدیر پر مضبوط ایمان ، اور ہر حال میں اللہ تعالی پر راضی رہنے کی نسبت کے اظہار اور اس کے صلے میں رکھا جاتا ہے ممکن ہے کچھ لوگ دن میں پانچ سو مرتبہ الحمد للہ کہتے ہوں مگر ان کے لئے جنت میں بیت الحمد کے نام سے گھر نہیں بنایا جاتا اور یہاں ایک بار الحمد للہ کہنے سے اتنے بڑے انعام سے نوازا جاتا ہے!
اس لئے کہ یہاں ایک بار الحمد للہ کہنا مصیبت پر صبر کے اظہار کے طور پر ہوتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر پر ایمان اور رضا کی علامت ہوتا ہے۔
دوسری طرف برداشت کی ایک اور شکل ہے یعنی بے بسی کی کیفیت میں برداشت کرنا اور برداشت صبر نہیں کہلائی کیونکہ اس برداشت میں جزع فزع ہوتا ہے، تقدیر پر اعتراض اور اللہ کا شکوہ ہوتا ہے، آپ نے بھی کئی بار لوگوں کو تکلیف میں کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ میرے ساتھ ہی ایسے کیوں ہوتا ہے۔ آخر میں نے کون سا گناہ کیا ہے، یا کہتے ہیں پی نہیں مجھ سے کون سا گناہ ہو گیا ہے جس کی مجھے سزا مل رہی ہے حالانکہ انسان سے غلطی اور گناہ تو دن میں شاید بیسیوں بار سرزد ہوتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ انسان انہیں گناہ ہی نہ سمجھے تو بہت سے لوگ شاید صبر کا صحیح مفہوم نہیں سمجھتے، وہ سجھتے ہیں کہ رونا پیٹا محض غم کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے، اور غم کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ہوتا ہے، مگر حقیقت میں یہ باتیں صبر کے منافی ہیں اور ان سے منع کیا گیا ہے اور یہ بے صبری کے ضمن میں آتی ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
((مرّ النَّبِيُّ بِاِمْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبرٍ))
’’آپﷺ کا ایک عورت کے پاس سے گزر ہوا جو ایک قبر کے پاس رو رہی تھی‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ اپنے بچے کی قبر کے پاس رورہی تھی۔
((فَقَالَ إِتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي))
’’ تو آپ ﷺنے اسے مخاطب کر کے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔‘‘
((فَقَالَتْ: إِلَيْكَ عَنِّي))
’’اس نے کہا پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘
((فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي .))
’’تم پر میرے والی مصیبت نہیں آئی۔‘‘
((قَالَ: وَلَمْ تَعْرِفُهُ))
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں وہ آپﷺ کو پہچانتی نہ تھی۔‘‘
((فَقِيلَ لَهَا إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ))
((آپ ﷺکے تشریف لے جانے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ آپ ﷺتھے۔‘‘
((فَأَخَذَهَا مِثْلُ الْمَوْتِ .))
’’یہ بات سن کر اسے تو ایسے لگا گویا اس پر موت طاری ہوگئی ہو۔‘‘
((فَأَتتْ بَابَ رَسُولِ الله فلم تجد عنده بوَّابِيْنَ))
’’اور آپ ﷺ کے دروازے پر حاضر ہوئی ، دیکھا کہ آپ کے پاس در بان اور سکیورٹی والے نہیں ہیں۔‘‘
((فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَعْرِفْكَ .))
’’کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ!میں نے آپ ﷺ کو پہچانا نہیں تھا۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأَوْلَى)) (صحیح مسلم:926)
’’تو رسولﷺ نے فرمایا: کہ صبر مصیبت کے آغاز پر ہوتا ہے۔‘‘
غور فرمائیے اس عورت نے حاضر ہو کر سب سے پہلے تو معذرت کی کہ میں نے آپﷺ کو پہچانا نہیں تھا، اور پھر کہا کہ میں صبر کروں گی، جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے۔
آپﷺ نے اس کی پہلی بات کا جواب نہیں دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺنے اپنے حق کی بات نہیں کی اور یہ آپ ﷺکے ہاں صبر کا عالم ہے کہ آپ سے ہم نے بھی اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا، جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت عائشہ بھی منہ بیان کرتی ہیں:
((وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللهِ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ عز وجل)) (صحيح البخاري:3560)
’’ اور آپﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لئے انتظام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال کیا جا رہا ہوں۔‘‘
تو اس عورت نے آپ ﷺکو کس لہجے میں مخاطب کیا، آپ ﷺ نے اس طرف توجہ نہیں دی، التفات نہیں فرمایا، البتہ دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جب مصیبت آتی ہے تو اس وقت فوری طور پر آدمی کا جو رد عمل ہوتا ہے اس سے صبر کا پتہ چلتا ہے۔ کچھ دیر بعد تو غم ہلکا ہو ہی جاتا ہے، اور آدمی کے ہوش ٹھکانے آہی جاتے ہیں، جب صبر دکھانے کا وقت تھا اس وقت بے صبری کا مظاہرہ کیا، اور جب غم ہلکا ہو جائے تو پھر کہے کہ میں صبر کرتا ہوں ، صبر نہیں کہلاتا۔
اور یہ اللہ کا نظام ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے سے بڑا صدمہ آدمی بھول جاتا ہے یا غم ہا کا ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کا جینا دشوار ہو جاتا۔
چنانچہ احادیث میں تعزیت کے تین دن ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((لَا يَحِلُّ لِإمْرَأَةِ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فوق ثلاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وعشرًا)) (صحيح البخاري:1280)
’’ کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے جو اللہ تعالی پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ تعزیت کرے، سوائے اپنے خاوند کے، کہ اس پر چار مہینے دس دن عدت پوری کرے۔‘‘
تو صبر وہ ہے کہ مصیبت کے نزول کے وقت جس کا اظہار ہو کچھ وقت گزرنے کے بعد صبر صبر نہیں کہلاتا اور صبر کا مفہوم یہ ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ اس میں جزع فزع نہ ہو، شکوہ و شکایت نہ ہو، اللہ کی رضا پر راضی ہو اور تقدیر پر ایمان ہو۔ بلکہ جو لوگ صبر کی لذت سے آشنا ہوتے ہیں مصیبت کے وقت ان کے انداز ہی نرالے ہوتے ہیں جیسا کہ کہتے ہیں کہ فتح الموصلي جو کہ اپنے دور کے ایک بہت بڑے عابد و زاہد گزرے ہیں ، ان کی اہلیہ بھی جو ایک بہت دیندار اور پرہیز گار خاتون تھیں ایک بار ان کا ناخن ٹوٹ گیا۔
((عَثَرَتْ إِمْرَأَةً فتح الموصلِي، فَانْقَطَعَ ظُفْرُهَا فَضَحِكَتْ .))
’’ کہ فتح الموصلی کی بیوی کو ٹھوکر لگی اور اس کا ایک ناخن ٹوٹ گیا تو وہ ہنس پڑی۔‘‘
( فَقِيلَ لَهَا: فَأَيْنَ مَا تَجِدِيهِ مِنْ حَرَارَةِ الْوَجَع)
’’تو اس سے کہا گیا کہ درد کی حرارت کہاں گئی؟‘‘
((فَقَالَتْ: إِنَّ لَذَّةَ ثَوَابِهِ أَزَالَتْ عَنْ قَلْبِي مَرَارَةَ وَجَعِهِ)) المجالسة وجواهر العلم (3061)
’’ تو اس نے کہا کہ اس کے ثواب کی لذت نے اس کے درد کی کڑواہٹ کو میرے دل سے زائل کر دیا ہے۔‘‘
تو جب آدمی صبر کی نعمت ، صبر کے اجر و ثواب اور اس کی فضیلت سے آگاہ ہو جاتا ہے تو پھر اس کے سوچنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ منقول ہے فرماتے ہیں کہ:
((مَا ابْتَليتُ بِبِلَاءٍ إِلَّا كَانَ لِلَّهِ تَعَالَى عَلَى فِيهِ أَرْبَعُ نِعْمٍ))
’’میں جب بھی کسی آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہوں تو اس میں بھی اللہ تعالی کے مجھ پر چار انعامات ہوتے ہیں۔‘‘
(إِذْ لَمْ يَكُن فِي دِينِي)
’’ ایک یہ کہ وہ مصیبت میرے دین کے معاملے میں نہیں ہوئی۔‘‘
((وَإِذْ لَمْ يَكُنْ أَعْظم مِنْهُ))
’’اور ایک یہ کہ جو مصیبت آئی ہے، اس سے بڑی نہیں آگئی۔‘‘
(وَإِذْ لَمْ أَحْرَمِ الرِّضَابِهِ)
’’اور ایک یہ کہ اس پر رضا سے محروم نہیں ہوا۔‘‘
((وَإِذْ أَرْجُو الثَّوَابَ عَلَيْهِ)) (مختصر منهاج القاصدين للمقدسي:292)
’’اور ایک یہ کہ اس پر ثواب کی امید رکھتا ہوں ۔‘‘ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………………