سفر میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَجْمَعُ بَيْنَ صَلاةِ الظُّهْرِ والْعَصْرِ إِذَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ سَيْرٍ وَيَجْمَعُ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ . (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری: کتاب التقصير باب الجمع في السفر بين المغرب والعشاء)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيرُ فِي السَّفَرِ يُوَخِّرُ صَلاةَ المَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وبين العِشَاءِ وَيُقِيمُ المَغْرِبَ فَيُصَلِّيها ثلاثًا ثُمَّ يُسَلِّمْ ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَتُ حَتَّى يقيم العِشَاءَ فَيُصَلِّيها ركعتين ثُمَّ يُسَلِّمُ وَلَا يُسَبِّحُ بَيْنَهُمَا بِرَكْعَةٍ وَلَا بَعْدَ صَلاةِ العِشَاءِ بِسَجدَةٍ حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيلِ. (أخرجه البخاري).
(صحيح بخاري: كتاب التقصير، باب هل يؤذن أو يقيم إذا جمع بين المغرب والعشاء)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے۔ پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دورکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت و غیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ درمیان شب میں اٹھتے (اور تہجد ادا کرتے)۔
وَعَنْ مُعَادٍ بِي جَبْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ كَانَ فِي غَزوَةِ تَبُوكَ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبل أن يرتجل جمع بين الظهر والعصر وَإِن يَرْتَحِلَ قَبْلَ أن تزيعَ الشَّمْسُ أخْرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَنزِلَ لِلْعَصْرِ وَفِي المغرب مثل ذلك إن غَابَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَن يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَينَ المَغْرِبِ والعِشَاءِ وَإِنْ يَرْتَحِل قَبْلَ أَن تَغِيبَ الشَّمْسُ أَخَرَ المَغْرِبَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعِشَاءِ ثُمَّ جَمَعَ بينهما . (أخرجه أبوداود والترمذي)
(سنن ابو داود، كتاب صلاة المسافر، باب الجمع بين الصلاتين۔ سنن الترمذي، أبواب السفر، باب ما جاء في الجمع بين الصلاحين، وقال حسن غريب، وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داؤد: (1208)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ غزوہ تبوک میں جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھتے اور جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے حتی کہ عصر کے ساتھ جمع کر کے پڑھتے اسی طرح مغرب میں کرتے ، جب کوچ کرنے سے قبل سورج غروب ہو جاتا تو مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھ لیتے اور اگر غروب سے پہلے روانہ ہوتے تو مغرب کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ جب عشاء کے لئے پڑاؤ ڈالتے تو دونوں کو جمع کر لیتے۔
تشریح:
اللہ تعالیٰ نے مسافروں کو بہت ساری آسانیاں عطا فرمائی ہیں انہیں آسانیوں میں سے نمازوں کو جمع تقدیم یا جمع تاخیر کر کے پڑھنا بھی ہے کیونکہ ہر نماز کے لئے رکنا اور وضو کرنا پریشان کن عمل ہے اس پریشانی اور مصیبت سے بچنے کے لئے اللہ تعالی نے مسافروں کو ظہر کی نماز کو عصر کی نماز کے ساتھ اور مغرب کی نماز کو عشاء کی نماز کے ساتھ جمع تقدیم یا جمع تاخیر کے ساتھ ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ البتہ فجر کی نماز کو کسی اور نماز کے ساتھ ملانے سے منع کیا ہے اور نہ ہی اس میں قصر ہے۔
فوائد:
٭ سفر میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا مشروع ہے۔
٭ مسافر کے لئے جمع تقدیم یا جمع تاخیر جس میں آسانی ہو دونوں جائز ہے۔
٭ دو نمازوں کو جمع کرنے کے دوران کوئی نفل نماز مشروع نہیں ہے۔
٭٭٭٭