شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے

الحمد لله الذي وفق من شاء من عباده، وأبان لهم طريق الحسنى والزيادة، وسلك بهم سبيل الفلاح والسعادة، أحمده سبحانه وأشكره على ما أولاہ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، الداعي إلى رضوانه، أرسله رحمة للمؤمنين. يأمرهم بالمعروف، وينهاهم عن المنكر، ويحل لهم الطيبات، ويحرم عليهم الخبائث، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے۔ توفیق سے نوازتا اور کامیابی اور سعادت کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ میں اس ذات باری سبحانہ کی تعریف کرتا اور اس کی نعمتوں پر شکر گذاری کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو اللہ کی خوشنودی کے کاموں کی طرف بلانے والے ہیں۔ اللہ نے آپ کو مؤمنین کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا آپ انہیں بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتے اور ناپاک چیزیں حرام ٹھراتے ہیں۔ مولا! تو اپنے بندے اور رسول محمد پر اور ان کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس کی اطاعت کرو اس کے احکام بجالاؤ۔ منہیات و محرمات سے بچو اور اس کی کتاب قرآن مجید کے اندر فکر و تدبر سے کام لو کیونکہ اس نے قرآن مجید میں وہ بهترین راه واضح فرما دی ہے۔ جو دنیا و آخرت کی سعادت و فلاح کی ضامن ہے۔ اور شقاوت و بد بختی اور شر و فساد کے ان تمام راستوں سے متنبہ کر دیا ہے۔ جو دنیا اور آخرت میں خسارے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی کتاب عزیز کے اندر اہل ایمان کے نام سے مخاطب کیا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ حقیقی مومن وہ ہے۔ جو اپنے رب کے احکام ومامورات کو انشراح صدر کے ساتھ قبول کرتے ہوئے ان کی تعمیل کرے چنانچہ فرمایا:
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (الذاريات:55)
’’نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت اہل ایمان کو نفع دیتی ہے۔‘‘
اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں کو جن چیزوں سے روکا اور ان کے انجام بد سے آگاہ فرمایا ہے ان میں ایک چیز شراب بھی ہے۔ فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝۹۱﴾ (المائدة:90،91)
’’اے ایمان والو! شراب اور جو ا اور بہت اور قال گیری کے تیر یہ سب ناپاک اور شیطان کے کام ہیں، سو ان سے بچتے رہو تاکہ نجات پاؤ شیطان تو یہ چاہتا ہے۔ کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے درمیان دشمنی اور رنجش ڈلوادے اور اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم ان کاموں سے باز آ رہے ہو؟‘‘
ان آیات کے اندر اللہ تعالی نے خمر (شراب) کو حرام فرمایا ہے۔ ’’خمر‘‘ ہر وہ چیز ہے۔ جو عقل کو ڈھانک لے خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو اور کسی بھی قسم کا مشروب ہوا اگر وہ نشہ آور اور ہوش و حواس ختم کر دینے والا ہے۔ تو حرام ہے، قرآن مجید کی مذکورہ آیات سے بھی اس کی حرمت ثابت ہے۔ نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(كُل مسكر حرام) [صحیح مسلم: کتاب الاشربة، باب بيان أن كل مسكر خمر (2002) و صحیح بخاری: کتاب الاحکام، باب أمر الولي إذا وجه أميرين… (7172)]
’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے شراب کے قریب جانے سے بھی سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اور اسے شیطان کا عمل قرار دیا ہے، ظاہر ہے۔ کہ شیطان کے جتنے بھی اعمال ہیں۔ وہ سراپا شقاوت و بدبختی اور خسارے کا باعث ہیں، ساتھ ہی اللہ نے ان آیات کے اندر یہ بھی واضح فرمادیا ہے۔ کہ شراب اور جوا کے ذریعہ شیطان یہ چاہتا ہے۔ کہ ہمارے درمیان باہم عداوت و دشمنی اور رنجش پیدا کر دے ذکر الہی جو کہ مومن دلوں کی زندگی ہے۔ اس سے روک دے اور نماز سے غافل کر دے جو کہ دین کا ستون اور اس کا ایک بنیادی اور اہم رکن ہے۔
شراب تمام برائیوں کی جڑ اور شر و فساد کا بہت بڑا سبب ہے۔ کیونکہ جو شخص اپنی عقل کھو بیٹھے اور جس کا احساس و شعور ختم ہو جائے بسا اوقات وہ لوگوں پر غالب آکر ان کی جان و مال کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اور کبھی اس کی اذیت رسانی قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ گو یا شراب ایک شرابی کے لئے ہی نہیں بلکہ اس سے ملنے جلنے والے کے لئے بھی ہر طرح کے شر و فساد کا سبب ہے۔ ایسے کتنے واقعات ہیں۔ کہ شراب خور نے ناحق کسی کو قتل کر دیا کوئی نہایت ہی شرمناک گناہ کر بیٹھا اور نعوذ باللہ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے۔ کہ شراب کے نشہ میں وہ کفریہ کلمات بھی کہہ جاتا ہے۔
شریعت نے شراب خور کے لئے جو تادیبی اصول پیش کیا ہے۔ وہ اسے شراب سے روک سکتا ہے۔ وہ اصول یہ ہے۔ کہ شراب پینے والے کو چالیس یا بعض خلفائے راشدین کی سنت کے مطابق اسی کوڑے لگائے جائیں، مزید برآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب خور کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔ فرمایا:
(من شرب الخمر في الدنيا لم يشربها في الآخرة، إلا أن يتوب) [صحیح مسلم: کتاب الاشربة باب عقوبة من شرب الخمر (2003) و صیح بخاری: کتاب الاشربة، باب و قول الله: إنما الخمر والميسر…. (5575)]
’’جو شخص دنیا کے اندر شراب پینے کا آخرت میں اسے شراب نصیب نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ مرنے سے پہلے شراب سے توبہ کرلے۔‘‘
اللہ اکبر! یہ کتنا بھاری عذاب اور کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔
مسلمانو! غور کرو کہ ایک انسان جسے اللہ نے عقل و شعور کی نعمت سے نوازا ہے۔ یہ کیسے گوارہ کر لیتا ہے۔ کہ خود کو پاگلوں دیوانوں اور جانوروں کے درجہ میں رکھے؟
بہت سے اہل عرب نے شراب کی حرمت سے پیشتر زمانہ جاہلیت ہی میں اپنے اوپر شراب حرام قرار دے رکھی تھی، محض اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شراب پینے کے بعد کوئی ایسی حرکت سر زد ہو جائے جو ان کے لئے باعث عیب یا خلاف مروت یا قدر و منزلت اور عزت و شرافت پر دھبہ لگانے والی ہو تو پھر آج جبکہ شریعت اسے حرام قرار دے چکی ہے، عقل و شعور کو بھی اس سے اختلاف اور آداب و مروت کو بھی نفرت ہے۔ تو ایک عاقل اور صاحب مروت مسلمان شراب کے قریب جانے کی جرات کیسے کر سکتا ہے؟ اور ایک بابصیرت اور عقل و شعور رکھنے والا انسان پاگل اور مجنون بننے کی کوشش کیوں کر سکتا ہے؟
دینی بھائیو! شراب کے ساتھ ہی جوا جسے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام قرار دیا ہے۔ یہ بھی عداوت و دشمنی پیدا کرنے، بغض و حسد کی آگ بھڑکانے اور نماز اور ذکر الہی سے روکنے کا ایک بہت بڑا اور نہایت ہی خطر ناک سبب ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝۹۱﴾ (المائدة: 91)
’’شیطان تو یہ چاہتا ہے۔ کہ شراب اور جوئے کے سبب تم میں آپس میں دشمنی اور ربخش ڈلوا دے اور اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔‘‘
قرآن مجید اور سنت رسول میں جوا کی حرمت موجود ہے۔ کیونکہ جوا بغض و حسد اور رنجش و عداوت کا سبب اور باطل طریقہ سے مال کھانے کا ذریعہ ہے۔ جوا کھیلنے والا بسا اوقات ہار جاتا ہے۔ تو اس کا سار امال جبرا لے لیا جاتا ہے۔ اور اس کے پاس کچھ باقی نہیں بچتا جس کی وجہ سے مال لینے والے کے خلاف اس کے دل میں شدید رنجش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جوا کی ایک برائی یہ بھی ہے۔ کہ وہ نماز اور ذکر الہی سے غافل کر دینے والی شئے ہے۔ کیونکہ جوا باز اپنے مصالح اور تمام اہم امور سے بے خبر ہو کر پوری توجہ جوا بازی پر مرکوز کئے ہوتا ہے۔ اور اس میں اس قدر منہمک ہوتا ہے۔ کہ ذکر الہی کی نوبت ہی نہیں آتی، راتوں رات جاگ کر اپنے جسم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اور دن میں اپنے کام انجام دینے میں ست اور کسب معاش سے عاجز ہوتا ہے۔ یسا اوقات نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ یا کم از کم جماعت کی فضیلت اس سے فوت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ میں وجہ ہے۔ کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جب ایک ایسی جماعت سے گذر ہوا جو شطرنج کھیل رہی تھی تو قرآن مجید کی زبان میں سوال کیا:
﴿مَاهٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُوْنَ﴾ (الانبياء: 52)
’’یہ کیا مور تیں ہیں۔ جن پر تم معکتف ہو۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے۔ کہ آپ نے انہیں شطرنج کھیلتا دیکھ کر یہ بھی فرمایا تھا کہ اللہ نے تم کو اس کام کے لئے نہیں پیدا کیا ہے۔
بہر حال جوا بازی خواہ عوض کے ساتھ ہو یا بغیر عوض کے ہر صورت میں حرام ہے۔ کیونکہ اس سے بغض و حسد عداوت و دشمنی اور نماز اور ذکر الہی سے غفلت جیسے برے نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔
لہٰذا اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس نے جن کاموں سے منع فرما دیا ہے۔ ان سے باز رہو اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھو کہ نفس کہیں گھراہ نہ کر دے اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿إنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ﴾ )يوسف: 53(
’’انسان کا نفس (امارہ) سے برائی ہی سکھاتا ہے۔‘‘
ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھو کہ شیطان اپنے مکر و فریب کے ذریعہ تمہیں دھوکہ میں ڈال کر گمراہ نہ کر دے ارشاد ربانی ہے:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۝۹۱ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا ۚ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۝۹۲﴾ (المائدہ:91،92)
’’شیطان تو یہ چاہتا ہے۔ کہ شراب اور جوئے کے سبب تم میں آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں ذکر الھی سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم ان کاموں سے باز آ رہے ہو؟ اور اللہ کی فرمانبرداری اور رسول کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبہ ثانیہ
الحمد لله الكبير المتعال، ذي العظمة والجلال وغافر الذنب وقابل التَّوْب شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطول لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ، أحمده سبحانه وأشكره، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له. وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه وسلم تسليماً كثيراً.

تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو بہت بڑا اور بلند ہے، عظمت و بزرگی والا ہے۔ گناہ معاف کرنے والا توبہ قبول فرمانے والا سخت عذاب دینے والا اور انعام و قدرت والا ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کی طرف واپس لوٹتا ہے۔ میں اس اللہ کی تعریف و شکر گذاری کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد – صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ان کے آل و اصحاب پر بے شمار درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(لا يزني الزاني حين يزني وهو مومن، ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مومن، ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مومن) [صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی (57) و صحیح بخاری: کتاب الاشربة، باب و قول الله: إنما الخمر والميسر… (5578)]
’’زناکار جس وقت زنا کر رہا ہو مومن نہیں رہتا چور جس وقت چوری کر رہا ہو مومن نہیں رہتا اور شراب خور جس وقت شراب پیا رہا ہو مومن نہیں رہتا۔‘‘
ایک دوسری حدیث کے اندر آپ نے فرمایا:
(لَعَنَ الله الخمر وشاربها وساقيها ومبتاعها وبائعها وعاصرها ومعتصرها وحاملها والمحمولة إليه) [سیوطی نے اس حدیث پر صحت کا نشان لگایا ہے۔ ملاحظہ ہو: فیض القدیر (267/5)]
’’اللہ تعالی نے لعنت فرمائی ہے۔ شراب پر شراب پینے والے پر شراب پلانے والے پر شراب خرید نے والے پر شراب بیچنے والے پر، شراب نچوڑنے والے پر، شراب بنانے والے پر، شراب ڈھونے والے پر اور اس شخص پر جس کے پاس ڈھو کر لے جائی جائے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔