تخلیق انسان کا مقصد اور حکمت

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ﴾ (الذاريات:56)
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے اپنی مشیئت کاملہ اور حکمت بالغہ کے تحت بے شمار اور لا تعداد مخلوقات پیدا فرمائیں، ایسی کثیر تعداد میں کہ جس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
﴿وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ﴾(المدتر:31)
’’اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
اللہ تعالی کی ہر مخلوق اپنے اپنے انداز میں جو کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے مقرر فرما رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے، اس کی عبادت کرتی ہے۔
﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ ؕ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴﴾(الاسراء:44)
’’اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی برد بار اور درگزر کرنے والا ہے ۔‘‘
تو اللہ تعالی کی تمام مخلوقات، زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے، سب کی سب اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں، اور جیسا کہ حدیث میں ہے:
((أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَيْلَةَ أُسْرِي بِهِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى كَانَ بَيْنَ الْمَقَامِ وَزَمْزَمَ))
’’ جس رات آپ ﷺ کو مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا آپ ﷺ مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان تھے۔‘‘
((جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِيْنِهِ، وَمِيْكَائِيْلُ عَنْ يَسَارِهِ.))
’’آپﷺ کے دائیں طرف جبریل اور بائیں طرف میکائیل علیہما السلام تھے ۔‘‘
((فَطَارَا بِهِ حَتّٰى بَلَغَ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ))
’’وہ آپﷺ کو ساتوں آسمان تک لے اڑے۔))
فَلَمَّا رَجَعَ ، قَالَ: ((سَمِعْتُ تَسْبِيحًا فِي السَّمَاوَاتِ الْعُلٰى مَعَ تَسْبِيْحٍ كَثِيْرٍ))
’’جب وہاں سے آپ لوٹے، تو آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحوں کے ساتھ یہ تسبیح بھی سنی۔‘‘
((سَبَّحَتِ السَّمَاوَاتُ الْعُلٰى، مِنْ ذِي المَهَابَةِ، مُشْفِقَاتٍ لِذِي العُلُوِّبِمَا عَلا، سُبْحَانَ العَلِيِّ الْأَعْلٰى، سُبحانه وتعالى . .))( المعجم الأوسط للطبراني ۔ ج:1 ، ص:111 ، رقم:3742)
اسی طرح ایک حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ ..))(بخاری:3579)
’’کہ کھانا کھاتے ہوئے ہم کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ
((فَتَنَاوَلَ النَّبِي سَبْعَ حَصَيَاتِ أَوْ تِسْعَ حَصَيَاتٍ، فَسَبِّحْنَ فِي يَدِهِ حَتّٰى سُمِعَتْ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحل..)) (مسند البزار، رقم:4040)
’’ آپﷺ نے سات یا نو سنگریزے ہاتھ میں لیے تو ان سے مگس کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح کی آواز سنائی دی۔‘‘
تو کائنات کی ہر چیز چاہے نباتات ہوں، جمادات ہوں، حجر ہوں، شجر ہوں، چاند اور ستارے ہوں زمین اور آسمان ہوں سب کے سب اپنے اپنے انداز سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور بعض سلف صالحین کہتے ہیں کہ
((إِنَّ صَرِيْرَ الْبَابِ تَسْبِيْحُهُ، وَخَرِيْرُ الْمَاءِ تَسْبِيْحُهُ))
’’ کہ دروازے کی چرچراہٹ اور پانی کی سرسراہٹ ان کی تسبیح ہے، یہ کوئی بے معنی آوازیں نہیں ہیں ۔‘‘
اوریقینًا ہر مخلوق اپنی تسبیح سے خوب آگاہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ ﴾(النور:41)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں۔‘‘
اور فرمایا
﴿ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ ﴾ (النور:41)
’’ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ خوب جانتا ہے۔‘‘
تو غور کریں کہ ایک طرف اللہ تعالی کی بے شمار اور لا تعداد حقوقات ہمہ وقت اس کی مدح سرائی میں مگن اور تسبیح و تحمید میں مصروف اور عبادت گزاری میں مشغول و مستغرق نظر آتی ہیں مگر دوسری طرف اس کے باوجود بھی اللہ تعالی نے دو مخلوقات کو خصوصی طور پر اپنی عبادت کےلیے پیدا فرمایا ہے اور وہ ہیں جن وانس ۔
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنَ) (الذاريات:56)
’’اور میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
تو اس میں آخر کیا حکمت ہے کہ ایک طرف ان گنت اور لا تعداد مخلوقات اس کی پہلے سے عبادت کر رہی ہیں، پھر ثقلین کو خصوصی طور پر اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالی کی حکمتوں کویقینًا خود اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں، مگر جو ظاہری دلائل وقرائن سے بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ دیگر مخلوقات کا عبادت کرنا اختیاری نہیں بلکہ اجباری اور اضطراری ہے، جبکہ جن وانس کوعقل و تمیز عطا کر کے اور خالص ایک اللہ کی عبادت کا حکم دے کر عبادت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیا ہے کہ
﴿وَفَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِن وََّ مَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ (الكهف:29)
’’ جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔‘‘
﴿ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ؕ وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ ؕ بِئْسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا۝۲۹﴾(الكهف:29)
’’ لیکن ہم نے انکار کرنے والے ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے۔ جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں، وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا، اور ان کا منہ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گا ہے ۔‘‘
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ۝﴾(الكهف:30)
’’بے شک وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں تویقینًا ہم نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے ۔‘‘
تو ان دونوں عبادتوں میں ایک اجباری کہ جس میں عبادت سے انکار کا اختیار نہیں دیا گیا اور اختیاری کہ جس میں حق کو دلائل و براہین سے واضح کر کے حق اور باطل میں صحیح اور لغلط میں فرق و تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کر کے، عبادت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیاہے، بہت فرق ہے۔
کیونکہ آزادی اور اختیار کوئی عام سی بات نہیں بلکہ یہ اک بہت بڑا امتحان اور بہت بڑی آزمائش ہے کہ اختیار دے کر دنیا کی لذتوں کو اور ممنوعات و محرمات کو پرکشش بنا دیا ہے اور دین کے تقاضوں کو نفس انسانی کے لیے گراں اور ناپسندیدہ بنا دیا ہے، اور جیسا کہ حدیث میں ہے۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:
((لَمَّا خَلَقَ الله عز وجل الْجَنَّةَ وَالنَّارَ أَرْسَلَ إِلَى الْجَنَّةِ جِبْرِيلَ))
’’جب اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کو پیدا کیا تو جبریل کو جنت کی طرف بھیجا۔‘‘
((فَقَالَ: أُنْظُرْ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا أَعْدَدْتُ لأَهْلِهَا فِيهَا))
’اللہ تعالی نے فرمایا: جنت اور اس میں جو کچھ جنتیوں کے لیے تیار کیا ہےاسے جا کر دیکھو۔‘‘
((فَجَاءَهَا جِبْرِيلُ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ رَجَعَ))
’’پھر جبریل علیہ السلام وہاں آئے اور اسے دیکھا پھر واپس لوٹے۔‘‘
((فَقَالَ: وَعِزَّتِكَ لا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلاَّ دَخَلَهَا))
’’اور فرمایا: تیری عزت کی قسم ! جو بھی اس کے بارے میں سن لے گا اس میں ضرور داخل ہوگا۔‘‘
((فَاَمَرَ بِهَا فَحُفَّتْ بِالمَكَارِه))
’’ پھر اللہ نے علم دیا تو اسے نا پسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا۔‘‘
((فَقَالَ: عُدْاِلَيْهَا ، فَانْظُرْ إِلَيْهَا))
’’پھر فرمایا: اب دوبارہ اسے جا کر دیکھو ‘‘
((فَرَجَعَ ، فَإِذَا هِيَ قَدْ حُفَّتْ بِالْمَكَارِهِ.))
’’وہ لوٹا تو وہ ناپسندیدہ چیزوں سے گھیر دی گئی تھی۔‘‘
((فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَدْخُلَهَا أَحَدٌ))
’’واپس لوٹے اور کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی داخل ہی نہیں ہوگا ۔‘‘
((ثُمَّ أَرْسَلَهُ إِلَى النَّارِ))
’’پھر اسے جہنم کی طرف بھیجا۔‘‘
((فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهَا ، فَانْظُرْ إِلَى مَا أَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِيهَا))
’’فرمایا: اب جنم میں جہنمیوں کے لیے جو کچھ تیار کیا گیا ہے اسے دیکھو‘‘
((فَذَهَبَ فَإِذَا هِيَ يَرْكَبُ بَعْضُهَا بَعْضًا))
’’وہ گئے تو اس کا بعض حصہ دوسرے پر چڑھ رہا ہے۔‘‘
((فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: وَعِزَّتِكَ لا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَيَدْخُلَهَا))
’’ واپس پلٹے تو فرمایا: تیری عزت کی قسم ! جو بھی اس کے متعلق سنے گا تو وہ اس میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
((فَأَمَرَ بِهَا فَحُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ))
’’حکم دیا تو وہ شہوات سے گھیر دی گئی۔‘‘
((فَرَجَعَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ: وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَّا يَنْجُو مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخلَهَا))(ترمذی:2560)
’’واپس پلٹے اور کہنے لگے کہ تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اس سے کوئی نہیں بچ پائے گا مگر وہ اس میں داخل ہوگا۔‘‘
یعنی جنت کو جانے کے جتنے راستے ہیں وہ نفس انسانی پر گراں گزرتے ہیں، اسے ناپسند ہیں، مثال دن بھر کی مشقت سے تھکا ہارا، سردی کے موسم میں نرم و گداز بستر پر لیٹے ، گہری نیند میں مستغرق شخص کو جب فجر کی نماز کے لیے بیدار کیا جائے تو کیا وہ اٹھنا پسند کرے گا؟ اور نماز تو فجر کی ہو یا کوئی اور ویسے ہی اکثر لوگوں پر مشکل ہوتی ہے
﴿ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَۙ۝۴۵
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠۝﴾ (البقرة:45۔ 46)
’’ اور بلاشبہ وہ یقینًا بہت بڑی بات ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر ۔ وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور بے شک وہ اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
مگریقینًا ایسے خوش نصیب لوگ بھی موجود ہیں جو خوف اور امید کے ملے جلے جذبات میں فورًا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن ایسے لوگ کتنے ہیں؟ فجر کی نماز میں ہی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔
اور وہ کتنے ہیں جن پر فجر کی نماز گراں گزرتی ہے؟ جمعہ اور عیدین کی حاضری مائنس فجرکی حاضری۔
یعنی نماز جمعہ کے لیے اگر پانچ سو کے قریب حاضری ہوتی ہے اور فجر میں تقریبا بیس پچیس لوگ ہوتے ہیں، تو پانچ سو میں سے پچیس نکال لیجیے تو حدیث کا مفہوم سمجھ میں آجائے گا کہ ((حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ)) ’’جنت کو نا پسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔‘‘
اسی طرح (حُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ) ’’جہنم کو خواہشات سے ڈھانپ دیا گیا ہے‘‘
انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ خواہشات نفس کی طرف لپکتا ہے، اور خواہشات یعنی نا جائز خواہشات، جہنم کے کنارے پڑی ہیں، ناجائز خواہشات کا شوق اور ان کے حصول کی خواہش انسان کو وہاں لے جاتی ہے کہ وہ وہیں ملتی ہیں۔
اور خواہشات نفس کی فہرست بہت طویل ہے اور اس میں سے ہر ایک کی پسند دوسرے سے کہیں مختلف ہے، کہیں ایک جیسی ہے۔
تو جب انسان ان تمام آزمائشوں ، فتنوں اور امتحانوں سے گزر کر اللہ تعالی کی بندگی اور عبادت کے راستے کو اختیار کرتا ہے تو پھر اس عبادت میں اور دیگر مخلوقات کی عبادت میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔
جس پر دین کے احکام و او امر اور دین کے تقاضے گراں گزرتے ہیں اگر اسے اپنے نام کی حقیقت سمجھ میں آجائے، تو پھر دنیا کی ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے اور دین کی راہ میں ہر رکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔
انسان کے نام کی حقیقت کیا ہے؟ انسان کا نام ہے عبد، اللہ تعالی معبود ہے اور انسان عبد ہے۔
اور عبد کا معنی آپ جانتے ہیں، غلام ۔ اور غلام کے پاس اپنے آقا سے حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، انکار کا کوئی جواز نہیں ہوتا ۔ ہر انسان اللہ تعالی کا عبد اور غلام ہے، اور جو شخص جس قدر عبودیت اور بندگی میں بڑھ کر ہوگا ، اسی قدر اللہ تعالی کا مقرب اور محبوب ہوگا۔ اور انسانوں میں انبیاء و رسل علیہم السلام سے بڑھ کر بندگی میں کوئی آگے نہیں ہے۔ اس لیے وہ سب سے بڑھ کر اللہ تعالی کے مقرب و محبوب ہوتے ہیں۔
انسان کا سب سے بڑا شرف اور اعزاز اس کا عبد ہوتا ہے، انسان اس شرف کے حصول کے لیے جتنی بھی کوشش کرے کم ہے، اور اگر یہ اعزاز اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہو تو اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں، اس سے بڑی کوئی سعادت نہیں۔اور اللہ تعالی اس نسبت سے یوں تو عمومی طور تمام بندوں کو ہی مخاطب کرتے ہیں مگر خصوصی طور پر یہ اعزاز، یہ شرف اور یہ نسبت صرف انبیاء علیہم السلام کو ہی حاصل ہے۔ اور یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت کے اقرار اور ایمان سے پہلے آپ سے کام کی عبدیت کا اقرار و اعتراف اور ایمان ضروری ٹھہرایا گیا۔ اور (أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عبده ورسوله) اور اسی طرح اللہ تعالی نے واقعہ اسراء اور معراج کا ذکر کرتے ہوئے بھی اس شرف کے ساتھ تذکرہ فرمایا﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۝﴾(الاسراء:1)
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے عبد کو (اپنے بندے کو ) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد اور ماحول کو اس نے برکت دے دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے، حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ۔‘‘
تو عبد ہونا انسان کا سب سے بڑا شرف ہے۔ اور اللہ تعالیٰ عام انسانوں کو جب عبد کی نسبت کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں تو وہ اللہ کی نہایت رحمت و مغفرت کا اشارہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝﴾ (الزمر:53)
’’اے نبی! کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤیقینًا اللہ تعالی سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور رحیم ہے۔‘‘
قرآن پاک میں جو چند آیات اللہ تعالی کی رحمت کے حوالے سے سب سے زیادہ امید والی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔
کسی نے ایک عالم سے دوران وعظ اس آیت کریمہ کے سب سے امید افزا آیت ہونے کا راز پوچھا، تو انہوں نے اس کے جواب میں دو شعر سنا دیئے ، جس کا مطلب یہ تھا کہ
یہ آیت امید افزا ترین آیات میں سے اس لیے ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو عبدیت کی نسبت کے ساتھ مخاطب کیا ہے اور نسبت و تعلق کے حوالے سے لفظ عبد سب سے بلند ترین مرتبے پر فائز ہے، جیسا کہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب روضة المحبين میں محبت کے ساٹھ درجے بیان کیے ہیں، اور ان میں سے سب سے بلند ترین درجہ عبودیت بتلایا ہے۔
((اور دو شعر یہ تھے۔
وهانَ عَلَىَّ اللَّوْم فِي جَنْبِ حُبِّهَا
وَقَوْلُ الْأَعَادِي إِنَّهُ الخَلِيعُ
’’ اس کی محبت پر ملامت اب میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی، اور لوگوں کا ملامت کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس نے تو شرم و حیا اتار پھینکی ہے، میرے لیے بے حیثیت ہے۔‘‘
اَصّمَّ إِذَا نُودِيتُ بِاسْمِي وَإِنَّنِي
إِذَا قِيْلَ لِي يَا عَبْدَهَا لَسَمِيعُ
’’اب میری حالت تو یہ ہے کہ جب کوئی میرا نام لے کر مجھے پکارتا ہے تو میں بہرا ہو جاتا ہوں، اور جب کوئی مجھے یا عبدھا (اے فلاں کے غلام ) کہہ کر پکارتا ہے تو میں خوب سنتا ہوں ۔‘‘))
دنیا کی محبت جو ایک ناقص، ادھوری اور مصنوعی محبت ہوتی ہے اس میں جب انسان درجہ عبودیت پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اسے کسی ملامت کی پروانہیں رہتی ۔
ہمیں اگر اللہ سے محبت کا دعوی ہے اور ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایمان کی علامت اور اس کا تقاضا ہے بلکہ تمام محبتوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے کہ
﴿وَ الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ﴾
’’ایمان والے اللہ تعالی کی محبت میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔‘‘
ہمیں اللہ تعالی سے کتنی محبت ہے؟ کیا ہم اللہ تعالی کی محبت میں کسی کے طعنے اور ملامت کی پرواہ کرتے ہیں کہ کوئی ہمارا نام سن کر ہمارا لباس دیکھ کر ہماری وضع قطع دیکھ کر ہمیں کیا کہے گا۔ اور یہ کیسے پتا چلے گا کہ ہمیں اللہ تعالی سے محبت ہے یا نہیں؟ یوں تو ہر شخص اپنے بارے میں خوب جانتا ہے۔
﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙ۝ وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ۝﴾(القیامہ:14۔15)
’’بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب دیکھنے والا ہے۔ اگر چہ وہ اپنے بھانے پیش کرے۔‘‘
مگر پھر بھی یاد دہانی کے لیے جاننے میں کیا حرج ہے؟
اللہ تعالی نے اس کا معیار مقرر فرما رکھا ہے۔
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝﴾ (آل عمران:31)
’’کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اللہ تعالی سے محبت کا یہ قاعدہ اور اصول یاد رکھیے اور یہ اصول بھی یاد رکھیے کہ جو جتنا زیادہ اپنے محبوب کے سامنے حقیر بن کر پیش ہوگا۔ انتا ہی محبت میں سچا ہوگا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سب سے نیچا انسان جو کسی کے سامنے ہوتا ہے تو وہ یوں کہ اس کے پاؤں میں گر پڑتا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالی کی بارگاہ میں تذلیل کی انتہاء بھی سجدے کی صورت میں ہوتی ہے۔
چنانچہ اس حالت کو اللہ کے قرب کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ ’’اور سجدہ کر اور قریب ہو جا۔‘‘
………………….