تین نعمتیں (آنکھ کا استعمال)

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا﴾ [بنی اسرائیل: 36]
گزشتہ خطبہ جمعہ میں اللہ رب العزت کی تین عظیم الشان نعمتوں (کان آنکھ اور دل) میں سے ایک نعمت کان کا درست اور غلط استعمال بیان کیا گیا تھا اور دونوں قسم کے استعمالات کا تقابلی جائزہ لیا گیا تھا۔ تاکہ ہم کانوں کا جائز، درست اور اچھا استعمال کر کے نعمتیں عطاء کرنے والے خالق و مالک کو خوش کریں اور کانوں کے ناجائز، غلط اور برے استعمال سے مکمل پرہیز کریں۔
اور آج کے خطبہ میں دوسری عظیم الشان نعمت آنکھ کا تذکرہ کیا جائے گا۔ اور اس کا درست اور غلط استعمال بیان کیا جائے گا۔
آنکھ
یہ دوسری بڑی نعمت ہے یہ اس قدر قیمتی نعمت ہے کہ اگر اللہ تعالی کسی کو آنکھوں سے محروم کر دے اور وہ اس محرومی پر صبر کرلے تو اس کے لیے اس کے بدلے میں جنت ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: جب میں اپنے بندے کی اس کی دو محبوب چیزوں میں آزمائش کروں اور وہ اس پر صبر کرے تو میں ان دونوں چیزوں کے بدلے اس کو جنت عطا کروں گا۔ (یرید عینیہ) دو محبوب نعمتوں سے مراد دونوں آنکھیں ہیں۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المرضى، باب فضل من ذهب بصره (5653)]
اندازہ کیجئے! آنکھ کس قدر عظیم نعمت ہے تو یہ جتنی بڑی نعمت ہے اس کے حوالے سے احکام الہیہ بھی انتہائی سخت ہیں کہ اسے درست استعمال کیا جائے اور اس کے غلط استعمال سے سخت پرہیز کیا جائے۔
آنکھ کا درست استعمال
1۔ قرآن پڑھنا:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے کتاب اللہ سے ایک حرف کی تلاوت کی اس کو اس کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے:
(لَا أَقُولُ الَم حَرْفٌ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ) [جامع الترمذي، كتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فيمن قرأ حرفا من القرآن مال من الأجر (2910) والصحيحة (660)]
’’میں نہیں کہتا ہوں۔ (الم) ایک حرف ہے بلکہ الف (ایک) حرف ہے لام ہے۔ (دوسرا) حرف ہے اور میم (تیسرا) حرف ہے۔‘‘
یہ صرف قرآن کریم کی رفعت، عظمت اور فضیلت ہے کہ اس کا ایک حرف پڑھنے پر خالق کائنات دس نیکیاں عطاء فرماتے ہیں یہ درجہ قرآن مجید کے سوا دنیا جہان کی کسی کتاب کو حاصل نہیں۔
اللہ رب العزت نے اس مضمون کو قرآن کی سورہ فاطر میں بیان فرمایا ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ﴾ (فاطر:29)
’’جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو بھی خسارہ میں نہ ہوگی۔‘‘
اسی طرح حدیث اور دینی کتب اور سیرت پڑھنا بھی آنکھوں کے درست اور اچھے استعمال میں شامل ہے کیونکہ ان کتابوں کے مطالعہ سے عقائد اخلاق اور عملی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے۔
2۔ نظریں پست رکھنا:
الله رب العزت سورہ نور میں فرماتے ہیں:
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰی لَهُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۝۳۰﴾
’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالی سب سے خبر دار ہے۔‘‘
﴿ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ ﴾ [النور: 31]
’’مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ یہ حکم مردوزن دونوں کے لیے ہے اسی لیے (قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ) کہا یعنی جنت کی عورتوں کا ظاہری حسن و جمال بیان کرنے سے پہلے ان کے حسن باطن اور حسن سیرت کا تذکرہ فرمایا کہ وہ ادھر اُدھر جھانکنے کی بجائے اپنی نگاہیں اپنے شوہروں تک محدود رکھیں گی۔ عورت کا یہ حسن باطنی حسن ظاہری سے بھی مقدم اور اعلی ہے۔
اس لیے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اکثر مقامات پر اسے پہلے بیان فرمایا ہے اور حسن ظاہری بعد میں ذکر کیا ہے۔
اچانک نظر پڑنے کی صورت میں فور انگاہ پھیرنا:
(صحیح مسلم میں ہے) حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے اچانک نظر کے بارے میں دریافت کیا:
(فَامَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي) [صحيح مسلم، كتاب الادب، باب نظرة الفجأه (2159) و ابوداود (2148) والترمذي (2776)]
’’تو آپ ﷺ نے مجھے نظر پھیر لینے کا حکم دیا۔‘‘
ذرا سوچئے! جب اچانک نظر پڑ جائے تو فورا نظر پھیرنے کا حکم ہے تو عمد او قصداً غیر محرم عورتوں کو دیکھنا اور ان کی نیم برہنہ تصویروں پر نظریں جمانا، کیونکر درست ہو سکتا ہے؟
اور ترمذی وغیرہ میں ہے: حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نےعلی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
(يَا عَلِيُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ) [جامع الترمذي، كتاب الادب، باب ماجاء في نظرة الفجاد (2777) و احمد (22974)]
’’اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ دوڑاؤ اس لیے کہ پہلی نظر تو تیرے لیے معاف ہے اور دوسری نظر معاف نہیں ہے۔‘‘
اور یہ بھی اس صورت میں ہے جب گذشتہ حدیث کے مطابق فوراً نظر پھیر لے اگر پہلی نظر کو ہی جمائے رکھے گا اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہے گا تو پھر پہلی نظر بھی معاف نہیں ہوگی بلکہ خطرناک گناہ بن جائے گی۔
3۔ عبرتناک منظر دیکھ کر عبرت پکڑنا:
مثلاً سورج اور چاند کا گرہن دیکھ کر عبرت پکڑنا اور نماز پڑھنا۔ (بخاری و مسلم میں ہے) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج کو گرہن ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے لمبے قیام اور دو دو رکوع اور سجدہ کے ساتھ منفرد نماز پڑھائی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج واضح ہو چکا تھا۔ آپﷺ
نے فرمایا:
(إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ ولَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللهَ) [صحیح البخاري، كتاب الجمعة باب الصلاة في كسوف الشمس (1043).]
’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں دونشانیاں ہیں کسی شخص کی موت اور کسی شخص کی ولادت پر ان کو گرہن نہیں ہوتا جب تم ان کو گرہن (کی حالت) میں دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔‘‘
اور دوسری روایت میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کی مانند روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوْا وَتَصَدَّقُوا) [صحيح البخاري، كتاب الكسوف، باب الصدقة في الكسوف (1044) ومسلم (901) و ابوداود (1177) والترمذي (558)]
’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی وفات اور کسی کی پیدائش پر ان کو گرہن نہیں ہوتا لیکن جب تم گرہن دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اللہ اکبر کہو نماز ادا کرو اور صدقہ دو۔‘‘
اور تیسری روایت میں ہے: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ سورج کو گرہن ہو گیا تو نبی ﷺ گھبرا گئے۔ آپ کو خطرہ لاحق ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی ہے چنانچہ آپﷺ مسجد نبوی میں آئے۔ وہاں آپﷺ نے لمبے قیام کے ساتھ رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھائی۔ میں نے آپ کو بھی ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی بھیجتا ہے۔ یہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالی ان نشانیوں کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو اللہ کا ذکر اور اس سے دعا کرنے اور اس سے استغفار کرنے کی جانب لپکو۔‘‘[1]
آج لوگ سورج گرہن سے عبرت پکڑنے کی بجائے اور گرہن کے وقت نماز پڑھنے ذکر کرنے اور توبہ واستغفار کی بجائے مخصوص رنگین شیشے کے ذریعے نظارہ کرتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ خشیت الہی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔
قرآن میں بھی ہے:
﴿فَاعْتَبِرُوْا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ﴾ [الحشر:2]
مزید سورہ سبا میں ہے:
﴿اَفَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ؕ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ﴾ [سبا:9]
’’کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرادیں یقین اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لیے جو (دل سے) متوجہ ہو۔‘‘
یہ اوپر نیچے اور دائیں بائیں اور آگے پیچھے نظر آنے والی بڑی بڑی مخلوقات (آسمان اور زمین وغیرہ) سے عبرت پکڑنے کی زبردست تاکید ہے۔
اور سورہ فاطر میں ہے:
﴿اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ﴾ (فاطر: 44)
’’اور کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں جس میں دیکھتے بھالتے کہ جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا انجام کیا ہوا؟ حالانکہ وہ قوت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے۔‘‘
یہ گزشتہ طاقتور قوموں کی تباہی کے آثار (ان کے اجڑے محلات، پرانے کھنڈرات اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں) دیکھ کر عبرت پکڑنے کا حکم ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کے سفر میں عادیوں ثمودیوں کی بستیوں سے روتے گڑگڑاتے ہوئے گزرنے کا حکم دیا تھا۔[صحيح البخاري، كتاب التفسير باب قوله ﴿ولقد كذب أصحاب الحجر المرسلين﴾ رقم: 4702]
اور سورہ غاشیہ میں فرمایا:
﴿اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْۥ۝۱۷ وَ اِلَی السَّمَآءِ كَیْفَ رُفِعَتْۥ۝۱۸ وَ اِلَی الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْۥ۝۱۹ وَ اِلَی الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ﴾ [الغاشية: 17 تا 20]
’’کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کسی طرح پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کو کسی طرح اونچا کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کسی طرح گاڑ دیئے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کسی طرح بچھائی گئی ہے۔‘‘
یعنی ان بڑی بڑی مخلوقات کو دیکھ کر ان کے خالق و مالک کی معرفت حاصل نہیں کرتے؟ اس کی شان اور قدرت کو نہیں پہچانتے اور اس کی کمزور عاجز مخلوق کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں۔
اور بخاری و مسلم کی روایت ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو (کھل کر) ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا بس آپ ﷺ مسکراتے تھے:
(فَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ فِي وَجْهِهِ) [صحیح البخاري، كتاب التفسير، باب قوله ﴿فلما رأوه غارضا مستقبل أودیتهم﴾ رقم: 4828]
’’اور آپ ﷺ جب بادل یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتا تھا، (یعنی آپ کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے آثار نمایاں ہو جاتے تھے اور آپ پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی تھی)۔‘‘
دوسری روایت میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں کہ جب تیز آندھی چلنے لگتی تو آپ ﷺ دعا فرماتے:
(اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْئَالُكَ خَيْرَھَا وَخَيْرَ مَا فِيْهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شِرِّھَا وَ شِرِّمَا فِیْھَا وَ شَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ) [صحيح مسلم، كتاب صلاة الاستسقاء، باب التعوذ عند رؤية الربح والقيم والفرح بالمطر (899) و ابوداود (5098) وأحمد (2441)]
’’اے اللہ! میں تجھے اس کی بھلائی اور اس میں جو بھلائی ہے اس کا اور جس بھلائی کے ساتھ اس کو چلایا گیا ہے اس کا سوال کرتا ہوں اور میں تیرے ساتھ اس کے نقصان اور اس میں جو نقصان ہے اور جس نقصان کے ساتھ اس کو چلایا گیا ہے اس سے پناہ طلب کرتا ہوں۔‘‘
اور جب آسمان پر بادل چھا جاتے تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا آپﷺ کبھی گھر کے اندر جاتے اور کبھی باہر نکلتے، کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے ہٹتے، (ہاں) جب بارش برسنے لگ جاتی تو آپ ﷺ سے اس کا اثر ختم ہو جاتا (یعنی گھبراہٹ زائل ہو جاتی اور آپ سکون محسوس کرتے)۔‘‘
غور فرمائیے! رسول اللہﷺ تو ان معمولی نشانیوں سے عبرت پکڑا کرتے تھے لیکن آج ہم لوگ تباہ کن زلزلوں اور خطرناک سمندری اور دریائی طوفانوں اور سیلابوں سے بھی عبرت نہیں پکڑتے، جن زلزلوں اور طوفانوں میں لاکھوں افراد آن واحد میں ابدی نیند سو جاتے ہیں۔
4 مسلمان بھائی کا عیب دیکھ کر پردہ ڈالنا اور اچھے طریقے سے اصلاح کرنا:
صحیحین میں ہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْمُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُ وَلا يُسْلِمُهُ)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرے اور نہ اس کی مدد چھوڑے اور جو شخص کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پریشانی کو دور کرتا ہے تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب چھپاتا ہے اللہ پاک قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم (1578) و ابوداود (4882) والترمذى (1927) واحمد (377/2)]
مسلمان بھائی کی غلطی پر پردہ ڈالنا کتنا عظیم عمل ہے کہ اس کے نتیجے میں پردہ ڈالنے والے کے گناہوں پر قیامت کے دن پردہ ڈال دیا جائے گا یعنی اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور وہ آخرت کی ذلت و رسوائی سے بچ جائے گا۔
اور سنن ابی داؤد کی حدیث ہے:
(الْمُؤْمِنُ مِرْاَةُ أَخِيْهِ الْمُؤْمِنِ) [سنن أبي داؤد، كتاب الأدب، باب في النصحية والحياطة (4918). والبخاري في الأدب المفرد (138)، البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ہے۔]
’’مومن اپنے مومن بھائی کا آئینہ ہے۔‘‘
سبحان اللہ کیسی تشبیہ ہے؟ آئینہ سامنے عیب بتلاتا ہے پشت پیچھے بے عزتی نہیں کرتا۔ اور آئینہ خاموشی کے ساتھ غلطی اور عیب کی نشاندھی کرتا ہے ڈھنڈورا نہیں پیٹتا۔ اور پھر آئینہ صرف اس کے ہی عیب ظاہر کرتا ہے جو اس کے سامنے جائے اور جب کوئی دوسرا شخص آئینہ دیکھے وہ دوسرے کو پہلے کے عیب نہیں بتلاتا بلکہ صرف دیکھنے والے کے ہی عیب عیاں کرتا ہے۔ اور مؤمن کا حق ہے کہ وہ بھی جب اپنے مؤمن بھائی کا کوئی عیب دیکھے تو اچھے طریقے سے اس کی اصلاح کرنے اور دوسرے لوگوں کے سامنے اس کے عیب بیان نہ کرے۔
5۔ مختلف چیزوں کو دیکھ کر پڑھی جانے والی دعائیں:
آئینہ دیکھنے کی دعا:
(اللَّٰهُمَّ كَمَا حَسَّنْتَ خَلْقِي فَحَسِنْ خُلُقِى) [ارواء الغليل (113/1) والطبقات ابن سعد (3771)]
مسلمان بھائی کو نئے کپڑوں میں ملبوس دیکھنے کی دعا:
(اِلْبَسْ جَدِيْدًا وَعِشْ حَمِيْدًا وَمُتْ شَهِيْدًا) [سنن ابن ماجه، کتاب اللباس، باب ما يقول الرجل اذا لبس ثوبا جديدا (3558).]
نیا چاند دیکھنے کی دعا:
(اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ الله) [طبراني في الكبير (1333) والدارمی (3/2) حدیث حسن]
اچھی چیز دیکھنے کی دعا:
﴿مَا شَاءَ اللهُ لَاحَولَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ﴾ [الكهف:39]
اچھا یا برا خواب دیکھے تو کیا کرے:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھے خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں اور برے خیالات شیطان کی جانب سے ہیں۔ جب تم میں سے کوئی شخص خواب میں پسندیدہ چیز دیکھے تو اس کو صرف اس شخص کے سامنے بیان کرئے جس کو وہ اچھا جانتا ہے۔ اور اگر کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اللہ تعالیٰ سے اس ناپسندیدہ خواب کے شر اور شیطان کے شرسے بار بائیں جانب تھوکے کسی کے سامنے اس کو بیان نہ کرے بلاشبہ برا خواب اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الرؤيا (2261) (2262)]
مسلمانوں کی پہرہ داری کرنا:
یہ آنکھ سے کیا جانے والا وہ عظیم عمل ہے جس کے بارے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تین آدمی ہیں ان کی آنکھیں نار جہنم کو نہیں دیکھیں گی۔ ان میں سے ایک وہ ہے۔
(عَيْنٌ حَرَسَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ) [جامع الترمذي، فضائل الجهاد، في فضل الحرس في سبيل الله (1939)، حديث صحيح. صحيح الترغيب والترهيب (3326)]
’’وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی ہے۔‘‘
لمحہ فکر! وہ آنکھ جسے مسلمانوں کی حفاظت اور پہرے کا حکم دیا گیا تھا آج وہ آنکھ مسلمان کا مال لوٹنے کے لیے گھات میں ہے مسلمانوں کو دشمن سے خبردار کرنے کی بجائے خود مسلمانوں کی دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے۔
7۔ خشیت الہی سے آنسو بہانا:
یہ آنکھ کا انتہائی عظیم عمل ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس سے طاقتوں والے رب کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت موجزن ہو جاتی ہے۔ اللہ کے خوف اور خشیت سے رونا وہ عمل ہے جس کی فضیلت قرآن و حدیث میں بکثرت مذکور ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا﴾ (بنی اسرائیل: 109)
’’وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑھتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے۔‘‘
اور اللہ رب العزت نے سورہ مریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کی یہ خصلت بیان فرمائی ہے:
﴿اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا﴾ [مريم: 58]
؛؛ان کے سامنے جب اللہ رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ سجدہ کرتے اور روتے گڑ گڑاتے گر پڑتے تھے۔‘‘
اور اللہ رب العزت نے سورہ مائدہ میں اعلان فرمایا:
﴿وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰۤی اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ﴾ [المائدة: 83]
’’اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
اللہ رب العزت نے یہاں ان لوگوں کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر خشیت الہی سے روتے اور گڑگڑاتے ہیں اور ان کی اس خوبی کو قرآن میں جگہ دے کر قیامت تک کے لیے نمونہ بنا دیا ہے۔
اور سورہ نجم میں فرمایا:
﴿اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ۝۵۹ وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَ﴾ [النجم:59،60]
’’پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟ اور ہنس رہے ہو ؟ روتے نہیں؟‘‘
ان آیات بینات میں رب ارض و سماوات نے ان لوگوں کو جھنجھوڑا اور ڈانٹا ہے جو قرآن سن کر رونے اور گڑ گڑانے کی بجائے ہنستے اور کھیلتے ہیں۔
1۔ اور ایک خطبے میں نبی ﷺ نے فرمایا:
(لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيْلًا وَ لَبَكَيْتُمْ كَثِيْرًا) [صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب قول النبي الايرة لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا (6485)]
’’اگر تم وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ۔‘‘
تو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آواز آنے لگی۔
2۔ جناب حضرت سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ خطبہ ارشاد فرمایا: اور اس میں عذاب قبر کا ذکر فرمایا: جس کا نتیجہ یہ نکلا:
(ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً)[صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر 1373]
’’مسلمان اس قدر روئے کہ ان کی ہچکیاں بندھ میں اور وہ چیخ چیخ کر رونے لگے۔‘‘
3۔ (أَمْلِكُ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ) [جامع الترمذي، أبواب الزهد، باب ما جاء في حفظ اللسان (2406) و مسند احمد (259/5) والصحيحة (890)]

’’اپنی زبان کی حفاظت کرو تمہارے لیے تمہارا گھر ہی وسیع اور کشادہ ہو (یعنی گھر سے باہر فضول بیٹھک کی بجائے اپنے گھر میں وقت گزارو) اور اپنی غلطیوں پر ندامت کے آنسو بہایا کرو۔‘‘
4۔ سات خوش قسمتوں (عرش کا سایہ پانے والوں) میں ایک وہ شخص:
(وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًّا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ) [صحيح البخاری، كتاب الاذان، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة (620) ومسلم (1712)]
’’جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔‘‘
5۔ (لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكٰى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُوْدَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ) [جامع الترمذي، أبواب الجهاد، باب ماجاء في فضل الغبار في سبيل الله (1633) والحاكم (26/4)]
’’وہ شخص آگ میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ کے ڈر سے رویا حتی کہ دودھ تھنوں میں لوٹ جائے (یعنی جس طرح دودھ کا تھنوں میں لوٹنا محال ہے اسی طرح اللہ کے ڈر سے رونے والے کا آگ میں داخل ہونا محال ہے)۔‘‘
6۔ دو قطروں سے بڑھ کر کوئی قطرہ اللہ کو پیارا اور محبوب نہیں:
ایک خون کا وہ قطرہ جو شہادت کے وقت مجاہد کے بدن سے لپکتا ہے اور ایک وہ قطرہ آب جو خوف الہی اور خشیت الہی سے مؤمن کی آنکھ سے ٹپکتا ہے۔[ترمذی، الجهاد، باب ماجاء في فضل الرابط (1669) حسن عند الباني]
7۔ دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوٹے گی ان میں سے ایک:
(عَيْنُ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ) [جامع الترمذي، أبواب فضائل الجهاد، باب في فضل الحرس في سبيل الله (1639) وصحيح الجامع الصغير (4113)]
’’وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے رو پڑے۔‘‘
8۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ قیام میں صبح تک یہی آیت پڑھتے رہے اور روتے رہے:
﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾ [المائدة: 118] [سنن ابن ماجۃ، الصلاة، باب ماجاء في القراءة في صلاة الليل (1350) و احمد (149/5)]
9۔ حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: ہم ایک جنازے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے آپ قبر کے کنارے پر بیٹھ کر رونے لگے حتی کہ مٹی آپ کے آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
(يَا إِخْوَانِي لِمِثْلِ هٰذَا فَاَعِدُّوا) [سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب الحزن والبكاء (1195) و صحیح ابن ماجه (3383)]
’’اے میرے ساتھیو! اس گڑھے کے لیے تیاری کر لو۔‘‘
10۔ خشیت الہی سے آنسو بہانا ایسا عظیم عمل ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں یہ آنسو نہ بہائے تو اسے جہنم میں بہت رونا پڑے گا حدیث میں ہے:
(إِنَّ أَهْلَ النَّارِ لَيَبْكُونَ حَتّٰى لَوْ أُجْرِيَتِ السُّفْنُ فِي دُمُوعِهِمْ فَجَرَتْ وَأَنَّهُمْ لَيَبْكُونَ الدَّمَ يَعْنِي مَكَانَ الدَّمْعِ) [سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني عن عبد الله بن قيس]
یہ خشیت الہی اور خوف الہی سے رونے کی دس فضیلتیں ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں، لیکن آج ہم دنیاوی دکھوں صدموں اور تکلیفوں پر تو مہینوں آنسو بہا لیتے ہیں اور اللہ کے ڈر سے ہماری آنکھوں سے ایک قطرہ بھی نہیں نکلتا۔
آنکھوں کا غلط اور برا استعمال
1۔غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا:
یہ اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے آنکھوں کا زنا قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(وَزِنَا الْعَيْنِ النَّظُرُ) [صحیح مسلم، كتاب القدر، باب قدر على ابن آدم خطه من الزنا وغيره (6753)]
’’اور آنکھ کا زنا (غیر محرم عورتوں کی طرف) دیکھنا ہے۔‘‘
نظر کی یہ آوارگی ہی بدکاری کا راستہ ہموار کرتی ہے تفسیر اضواء البیان میں لکھا ہے:
(فَالنَّظُرُ بَرِيْدُ الزِّنَا)
’’نظر بد کاری کی ڈاک اور مراسلہ ہے۔‘‘
ایک عرب شاعر اسی بات کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
نَظْرَةٌ، فَابْتِسَامَةٌ، فَسَلامٌ، فَكَلامٌ، فَوَعْدٌ، فَلِقَاءٌ۔
’’پہلے نظر بازی، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر کلام، پھر وعدہ اور پھر ملاقات۔‘‘
اور نظر کی آوارگی اس قدر خطرناک جرم ہے کہ وہ آنکھ جس کی دیت شریعت اسلامیہ میں پچاس اونٹ ہے۔[البيهقي (159/8)]
یہی آنکھ نظر کی آوارگی سے بالکل بے قیمت اور ذلیل ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
(مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ فَقَدْ حَلَّ لَهُمْ أَنْ يَفْقَؤُوْا عَيْنَهُ) [صحیح مسلم، کتاب الأدب، باب تحريم النظر في بيت غيره (5643) (5642) و مسند احمد (8636)]
’’جو کسی کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے تو ان گھر والوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اس شخص کی آنکھ پھوڑ دیں۔‘‘
لیکن آج یہ نظر کی آوارگی اور چھتوں پر چڑھ کر اور کھڑکیوں دروازوں کے ذریعے جھانک تانک کا سلسلہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور وہ آنکھ جسے آخرت میں دیدار الہی اور زیارت نبی مکرم ﷺ کے لیے تیار کرنا تھا وہ آنکھ شیطان کا زہریلا تیر بن چکی ہے۔
2۔ فلمیں اور ڈرامے دیکھنا:
فلمیں اور ڈرامے بے حیائی فحاشی و عریانی، جھوٹ، گندی محبت اور عیاشی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ عظیم اور قیمتی نعمت آنکھوں کو ان شیطانی چیزوں پر لگانا بدترین اور مہلک گناہ ہے فلموں اور ڈراموں میں صرف یہ خرابی ہی کافی ہے کہ یہ تصویروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور جہاں تصویر میں ہوں وہاں اللہ کی رحمت کا نزول نہیں ہوتا وہاں رحمت کے فرشتے نہیں اترتے۔[صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب التصاوير (5949) (3225)]
لیکن آج نظر کا یہ پلید شوق پورا کرنے کے لیے گھر گھر فلموں اور ڈراموں کا اہتمام کیا جا چکا ہے کیبل، ڈش، ٹی وی، وی سی آر اور انٹرنیٹ سمیت تمام شیطانی آلات گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور ہر گھر سینما گھر کا منظر پیش کر رہا ہے گھر میں نفلی نماز وغیرہ کے لیے مسجد البیت تو موجود نہیں لیکن اکٹھے ہو کر فلم دیکھنے کے لیے ٹی وی، لاؤنج موجود ہے۔
3۔ ناول اور افسانے پڑھنا:
ناول اور افسانے فحاشی و عریانی اور گندی محبت پر مبنی جھوٹی کہانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کے متعلق حدیث میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔ حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشیہ ایک شخص کلمہ خیر کہتا ہے حالانکہ وہ اس کی قدرو منزلت کو نہیں جانتا تو اللہ تعالی اس کے سبب اس کے نامہ اعمال میں قیامت کے دن اپنی رضامندی ثبت فرما دیتے ہیں اور بلا شبہ ایک آدمی بری بات زبان پر لاتا ہے جبکہ وہ اس کی حقیقت کو نہیں جانتا تو اللہ تعالی اس کے سبب اس کے نامہ اعمال میں قیامت کے دن تک اپنی ناراضگی ثبت فرما دیتے ہیں۔‘‘[بخاری، الرقاق، باب حفظ اللسان (6478)]
اب ناول اور افسانے اسی قسم کی باتیں ہیں جن میں اللہ تعالی کی سخت نارانگی
اور غیظ و غضب والی کہانیاں ہیں۔ یہ کہانیاں بدکاری ورنا کے راستے بتلاتی ہیں۔ بھائی، بیٹے، باپ اور شوہر کو دیوث اور بے غیرت بنانے کی تربیت دیتی ہیں۔ اس لیے یہ ناول اور افسانے بدترین قسم کا جھوٹ ہیں صحیح البخاری کی ایک حدیث میں اس جھوٹ کو انتہائی خطرناک جرم قرار دیا گیا ہے وہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے ایک لمبے خواب پر مشتمل ہے۔ جس میں مختلف جرائم کی سخت سزائیں دکھلائی گئیں۔ آپﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص لٹایا گیا ہے اور اس پر ایک شخص کو مسلط کیا گیا ہے اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار آلہ ہے۔ وہ اس آلے کو لیٹے ہوئے شخص کی دائیں باچھ میں داخل کرتا ہے اور چیرتا ہوا پیچھے گدی تک لے جاتا ہے۔ پھر دایں نتھنے میں آلہ داخل کرتا ہے اور چیرتا ہوا پیچھے گدی تک لے جاتا ہے پھر دائیں آنکھ میں داخل کرتا ہے اور چیرتا ہوا پیچھے گدی تک لے جاتا ہے۔ پھر بائیں جانب باچھے نتھنے اور آنکھ کو چیرتا ہے ایک جانب سے فارغ ہوتا ہے تو دوسری جانب ٹھیک ہو جاتی ہے تو وہ پھر دوسری جانب سے شروع ہو جاتا ہے اسی طرح چیر پھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے آپ جبریل و میکائیل علیہما السلام سے پوچھتے ہیں: یہ کون ہے؟ اسے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے اس کی باچھیں اس کے نتھنے اور اس کی آنکھیں کیوں چیری جا رہی ہیں؟ تو وہ دونوں فرشتے جواب دیتے ہیں یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ بولتا تھا اور اس کا جھوٹ دور دراز تک پہنچ جاتا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ لطیفوں، ناولوں اور ڈائجسٹوں والا جھوٹ ہی ہے جو دور دراز تک پہنچ جاتا ہے تو جس جھوٹ کی اس قدر خطرناک سزا رسول اللہﷺ کو خواب میں دکھلائی گئی اور ساتھ بتلایا گیا کہ ایسے شخص کو یہ سزا قبر میں قیامت تک ملتی رہے گی آج وہ جھوٹ ہم پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔
4۔ کسی کی شرمگاہ کو دیکھنا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا يَنظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ) [مسلم، كتاب الحيض، باب تحريم النظر إلى العورات (768) والترمذی (2793)]
’’کوئی شخص کسی مختص کے ستر کو نہ دیکھے اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر (شرمگاہ) کو نہ دیکھئے۔‘‘
لیکن آج کئی کھیلوں میں لوگ تقریباً ننگے ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو دیکھتے ہیں، مثلا: پہلوانی میں جو چھوٹی سی رومالی باندھی جاتی ہے وہ ایک قسم کا ننگا پن ہی ہے۔ اسی طرح موجودہ کلبوں میں اجتماعی غسل یا سوئمنگ پول وغیرہ۔ شریعت اسلامیہ میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے لباس کہا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ میاں بیوی بھی ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنے سے پرہیز کریں بلکہ ایک حدیث میں ہے جب رسول اللہ ﷺ نے ستر ڈھانپ کر رکھنے کی تلقین فرمائی تو ایک شخص نے عرض کی اگر کوئی شخص خلوت اور تنہائی میں ہو تو ستر کھول سکتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالی سب سے زیادہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس سے حیاء کی جائے‘‘[ترمذي، الأدب، باب ماجاء في حفظ الصورة (2794) و ابوداؤد (4017)]
معلوم ہوا بلا وجہ اپنا ستر دیکھنا بھی مکروہ اور نا پسندیدہ ہے۔
5۔ جھوٹا خواب بیان کرنا:
یہ ایک خطرناک گناہ ہے جو لوگوں میں بری طرح رائج ہے۔ لوگ اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لیے اپنی طرف سے جھوٹ والے خواب (جھوٹے خواب) گھڑتے ہیں۔ جو ان کی آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ شہرت پسند لوگوں اور نام نہاد مذہبی پیشواؤں میں یہ گناہ عام ہے۔ جبکہ حدیث میں ہے:
’’جس شخص نے جھوٹا خواب سنایا جو اس کی آنکھوں نے نہیں دیکھا اسے اس وقت تک عذاب دیا جائے گا جب تک وہ جو کہ دو دانوں نہ کر نہیں باندھ لیتا اور وہ کبھی بھی باندھ نہیں سکے گا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب تعبير الرؤيا، باب من كذب في حلمه (42-7) (7043)]
آج جھوٹے خوابوں کا سلسلہ اس قدر زیادہ ہو گیا ہے کہ ایک مکتب فکر کے دو بڑے بڑے عالم دین ہیں دونوں ایک دوسرے کی شدید مخالفت کرتے ہیں ایک دوسرے کو کافر تک کہتے ہیں اور دونوں ہی اپنا ہر کام رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خواب میں یہ وہ کرنے کا حکم دیا ہے کیا ان کا تضاد اس بات کی دلیل نہیں کہ دونوں جھوٹے خواب بیان کرتے ہیں۔
6۔ نماز میں ادھر اُدھر یا آسمان کی طرف دیکھنا:
آج بہت سارے نمازی اس گناہ میں ملوث ہیں کہ ان کی نگاہیں نماز میں سجدہ والی جگہ پر ٹکنے کی بجائے ادھر اُدھر گھومتی اور آسمان کی طرف اٹھتی ہیں۔ جبکہ یہ انتہائی خطرناک گناہ ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے نماز میں التفات کے بارے میں دریافت کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ شیطان کی چھینا جھپٹی ہے جو وہ بندے کی نماز سے چھین لیتا ہے۔‘‘[صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الالتفات في الصلاة (751) و ابوداود (910) و احمد (70/6)]
دوسری حدیث میں فرمایا:
حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگ نماز میں دعا کے وقت اپنی آنکھوں کو آسمان کی جانب اٹھانے سے رک جائیں گے یا ان کی آنکھیں اچک لی جائیں گی۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب النهي عن رفع البصر إلى السماء في الصلاة (429). والنسائي (39/3)]
حالانکہ جب بندہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اور عرش والے سے سرگوشیاں اور ہمکلامی کر رہا ہوتا ہے اس حالت میں سرجھکا کے نظریں پست کر کے عاجزانہ انداز میں کھڑے ہونے کا حکم ہے ادھر اُدھر جھانکنا مڑ مڑ کر دیکھنا یا آسمان کی طرف نگاہیں اٹھانا سوء ادب ہے۔ اور خشوع خضوع کے منافی ہے اس لیے دوران نماز ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
7۔ کسی کے عیبوں کی ٹوہ لگانا:
آنکھوں کا ایک خطرناک گناہ کسی کے عیب معلوم کرنے کے لیے اس پر نظریں جماتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی خطرناک سزا بیان فرمائی ہے۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ مِنْ أَرْبَي الرِّبَا الْاسْتِطَالَةُ فِي عِرْضِ المُسلِم بِغَيْرِ حَقٍّ) [سنن أبي داود رقم: 1880 الترمذي، كتاب البر والصلة باب ماجاء في تعظيم المؤمن. رقم: 2032]
’’بے شک بہت بڑا سود مسلمان کی عزت کو نا جائز طور پر پامال کرنا ہے۔‘‘
یعنی مسلمان بھائی کی بے عزتی کرنا سود جیسے گناہ سے بھی خطرناک ہے۔
بہرحال یہ تمام گناہ آنکھوں کے ناجائز استعمال کے ضمن میں آتے ہیں اور آنکھوں کا ناجائز استعمال کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ آنکھیں وہ نعمت ہے جن سے کل قیامت کے دن اللہ کا دیدار اور پیغمبر ﷺ کی زیارت نصیب ہوگئی ایسا نہ ہو کہ آنکھ کے غلط استعمال سے قیامت کے دن انسان اللہ کے دیدار اور پیغمبرﷺ کی زیارت سے محروم ہو جائے اور یہ محرومی دنیا جہان کی تمام نعمتوں کی محرومی سے بڑھ کر حسرت ناک اور پریشان کن ہے۔
قرآن وسنت سے اعراض کرنا:
آخر میں آنکھوں کا سب سے بڑا گناہ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ قرآن و سنت سے اعراض کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا سب سے زیادہ بری اور سخت ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن نا بینا کر کے اٹھایا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی۝۱۲۴
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰی وَ قَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا۝۱۲۵
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَا ۚ وَ كَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰی﴾ (طه: 124،126)
’’اور جس نے میرے ذکر (قرآن وسنت) سے اعراض کیا (اپنی آنکھوں سے قرآن و سنت کو نہ پڑھا نہ سیکھا،) پس یقینًا اس کے لیے (دنیا قبر حشر اور آخرت میں) تنگ زندگی ہوگی (اسے سکون نصیب نہیں ہوگا) اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ (جب اس نے دنیا میں اللہ کی دی ہوئی ان آنکھوں سے اللہ کا دین نہ سیکھا تو اسے آخرت میں نابینا اور اندھا کر کے اٹھایا جائے گا) وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا ہے جب کہ میں اچھا بھلا دیکھنے والا تھا؟ اللہ تعالی جواب دیں گئے اسی طرح تیرے پاس میری آیتیں آئی تھیں، لیکن تو نے میری آیتوں کو نظر انداز کر دیا تھا (تیرے پاس دنیا کے تمام سیکھنوں کے لیے وقت موجود تھا لیکن میری آیتوں کے لیے تیرے پاس فرصت نہ تھی تو دنیا کی بری چیزوں پر اپنی نگاہیں جماتا رہا لیکن میری آیتوں کو تو نے پس پشت ڈالے رکھا میری آیتوں پر تو نے نظریں نہ جمائیں) اس لیے آج تجھے (نابینا اٹھا کر نظر) انداز کر دیا جائے گا آج تیری فریاد نہیں سنی جائے گی۔‘‘
دوستو! بزرگو! عزیزو! آنکھیں اللہ نے عطاء فرمائی ہیں لہذا حق یہی ہے کہ ان آنکھوں کا قرآن وسنت کے مطابق درست جائز اور اچھا استعمال کیا جائے تا کہ یہ قیمتی نعمت عطاء کرنے والا رب ہم پر راضی ہو اور ہمیں آخرت میں عرش والے کا دیدار اور امام الانبیاء کی زیارت و رفاقت نصیب ہو۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔