توحید کلمہ طیبہ کی روشنی میں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿فَاعْلَمُ اللَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ﴾ (سورة محمد:19)
(اما بعد! میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے اور اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ )
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (یہ بات یقینی طور پر جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ۔ )
اللہ کی یکتائی کو توحید کہتے ہیں، عالم ارواح میں سب سے پہلے اللہ تعالی نے اپنی توحید ربو بیت اور توحید الوہیت کا اقرار لیا تھا، توحید ربوبیت کا یہ مطلب ہے، کہ صرف اللہ تعالی پالنے پوسنے والا ہے، روزی دینے اور پرورش کا سامان مہیا کرنے والا ہے اور وہی سب کو کھلاتا پلاتا ہے، اور سب کی نگرانی اور حفاظت کرنے والا، اور ضرورت پر کام آنے والا ہے، اور ہر دکھ درد، رنج وغم میں کام آنے والا ہے وہ اس میں یکتا ہے نہ وہ کسی کی امداد لیتا ہے اور نہ اس کو اس کی حاجت ہے، اور توحید الوہیت کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے، اور ہر قسم کی عبودیت اور عظمت و تقدس کا مستحق ہے، قرآن مجید میں فرمایا
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰى شَهِدْنَا﴾ (سورة اعراف: 172)
’’اور جب کہ آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسلوں کو نکالا، اور ان سے خود ان ہی کی ذاتوں پر اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، سب نے کہا، ہاں ہم اس کے گواہ ہیں۔‘‘
اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، تو قیامت تک پیدا ہونے والی روحیں نکل آئیں، تو ان کی الگ الگ جماعتیں مقرر فرما دیں، نبیوں کی الگ، ولیوں کی الگ، مسلمانوں کی الگ، کافروں کی الگ، نیکوں کی الگ اور بدوں کی الگ جماعتیں مقرر کر کے ہر ایک کی ویسی ہی صورتیں بنائیں جیسی کہ دنیا میں بنانی منظور تھیں، پھر ہر ایک کو بولنے کی قوت اور طاقت دی جب اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں‘‘ سب نے کہا، ہاں آپ ہمارے رب و مالک و مختار ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ساتوں آسمانوں، زمینوں اور تمہارے باپ آدم کو تم پر گواہ بناتا ہوں، کہ تم نے میری ربوبیت کا اقرار کر لیا ہے، ایسا نہ ہو کہ تم کہنے لگو ہمیں خبر نہیں تھی، کہ ہم اس سے ناواقف تھے، اِعْلَمُوْا أَنَّهُ لَا اِلٰهَ غَيْرِي يقينًا تم جان لو کہ میرے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں، اور نہ میرے علاوہ کوئی رب ہے، میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرنا، اس قول و قرار کے یاد دلانے کے لیے نبیوں اور رسولوں کو بھیجوں گا اور کتابیں بھی اتاروں گا، سب نے اس کا اقرار کیا، اور کہا، (لَا إِلٰهَ لَنَا غَيْرُكَ) آپ کے سوا ہماری عبادت کا مستحق کوئی معبود نہیں ہے۔(زوائد مسند احمد: 135/5، مجمع الزوائد: 28/7)
اسی کلمہ طیبہ کی یاد دہانی کے لیے اللہ نے تمام نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا۔
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِيْ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (سورة انبياء:25)
’’اور آپ سے پہلے کسی رسول کو نہیں بھیجا، مگر اس کے پاس (لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا) کی وحی بھیجتے رہے، کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس لیے میری ہی عبادت کرو۔‘‘
ہر ایک نبی اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کو اللہ کی عبادت کے لیے بلاتا رہا، حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجتے وقت فرمایا کہ تم دنیا میں جاؤ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (البقرة: 37)
’’اور اگر ہماری طرف سے کوئی رسول ہدایت کرنے والا تمہارے پاس پہنچے تو تم اس کی پیروی کرنا، جو ہماری راہ پر چلے گا، تو ان پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا، اور نہ وہ غم اٹھائیں گے۔‘‘
حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَالَكُمْ مِّنْ إِلَهِ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾ (سورۃ اعراف: 59)
’’بے شک ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس رسول بنا کر بھیجا، تو اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، (اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو) یقینًا میں تم پر ایک بڑے مصیبت والے دن کے آ جانے کا خوف کرتا ہوں۔‘‘
حضرت ہود علیہ السلام کی نسبت ارشاد فرمایا:
﴿وإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِّنْ إِلهِ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ﴾ (سورة اعراف: 65)
’’قوم عاد کے پاس ان کے بھائی ہود کو رسول بنا کر بھیجا۔ انہوں نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور یقین کر لو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے تو کیا تم (شرک سے) نہ بچو گے۔‘‘
حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَالَكُمْ مِّنْ إِلَهِ غَيْرُهُ﴾ (سورة اعراف:73)
’’اور قوم ثمود کے پاس ان کے بھائی صالح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘
حضرت شعیب علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَإِلٰى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِّنْ إِلَهِ غَيْرُهُ﴾ (سورة اعراف:75)
’’اور اہل مدین میں ان کے بھائی شعیب کو نبی بنا کر بھیجا تو انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘
حضرت ابراهیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوْهُ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (سورة عنكبوت: 16)
’’اور ابراہیم کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: تم اللہ ہی کی عمارت کرو، اسی سے ڈرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿يَا صَاحِبَي السِّجْنِ أَ أَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا اَنْتُمْ وَاٰبَاءُكُم مَّا اَنْزَل اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانِ. إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (سورة يوسف:39،40)
’’اے جیل کے ساتھیو! کیا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا ایک زبردست معبود اچھا ہے اور اس کے علاوہ جن کو تم پوچھتے ہو، وہ مرے نام ہی نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے تو ان کے پوجا کرنے کی کوئی دلیل نہیں اتاری ہے صرف اللہ کا حکم واجب العمل ہے، اس نے تو صرف یہی حکم دے رکھا ہے، کہ اس کے سوا کسی کو نہ پو جو، یہی سیدھا راستہ ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَقَالَ الْمَسِيحُ یٰبَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَ رَبَّكُمْ﴾ (المائدة:72)
’’اور عیسی مسیح نے کہا، کہ اے بنی اسرائیل! تم صرف اللہ کی عبادت کرو، جو میرا اور تمہارا رب ہے۔‘‘
’’ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کے متعلق ارشاد فرمایا:
(1) ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحٰى إِلَىَّ أَنَّمَا إِلٰهُكُمْ إِلَهُ وَّاحِدٌ﴾ (سورة كهف:110)
’’اے نبی! آپ فرما دیجئے کہ میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں (صرف اتنا فرق ہے) کہ میرے اوپر خدا کا حکم اترتا ہے، کہ تمہارا ایک معبود ہے۔‘‘
(2) (قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ﴾ (سورة االانعام: 19)
’’کہہ دیجیے کہ نہیں، وہ اکیلا ہی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں تمہارے شریکوں سے بیزار ہوں‘‘
ان تمام قرآنی آیتوں میں غور و فکر کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمدﷺ تک سب نبیوں اور رسولوں کو ’’لا إلهَ إِلَّا الله‘‘ کا حکم تھا، صرف رسالت کا فرق ان کے زمانے کے اعتبار سے ضرور تھا۔
کلمہ طیبہ کے پہلے جزء ’’لا إله إلا الله‘‘ میں سے نبیوں اور رسولوں کا اتفاق ہے اور وہ اسی کلمہ کی تبلیغ کرتے رہے، جس نے اس کلمہ کو مان لیا وہ مسلمان ہو گیا، اور جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہو گیا، اور جس نے نہیں مانا وہ نافرمان اور دوزخی ہے، اس لیے کلمہ کا مطلب سمجھنا اور اس پر عمل کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔
(لَا إِلٰهَ إِلَّا الله) اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے، صرف اللہ ہی اللہ ہے، اللہ کے معنی معبود کے ہیں، یعنی اللہ تعالی سچا معبود ہے، اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ عبادت کے معنی اطاعت و فرمانبرداری اور بندگی کے ہیں، یعنی اللہ تعالی کے ہر حکم و قانون کو مان کر اس کے مطابق عمل کرنے کا نام عبادت ہے، اور اللہ ہی معبود ہے، ہر قسم کی عبادت اس کے لیے کی جائے، وہ معبود حقیقی صرف اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں نہ صفات میں شرک کی کئی قسمیں ہیں۔
(1) شرک فی العبادت۔ (2) شرک فی العلم – (3) شرک فی التصرف ۔ (4) شرک فی العادت
مذکورہ عنوانات کی تفصیل خطبہ شرک میں آئے گی۔
اگر اس کلمہ طیبہ پر یقین کامل اور اس کے مطابق عمل نہیں ہے تو یہ کہ فلاح دارین کا ذریعہ نہیں بن سکتا؟ صرف زبانی پانی پانی کی رٹ لگانے سے پیاس دور نہیں ہو سکتی ہے اور نہ روٹی روٹی کہنے سے بھوک مٹ سکتی ہے اسی طرح کلمہ طیبہ کا معاملہ ہے کہ زبانی اقرار سے نہ مومن مسلمان بن سکتا ہے اور نہ دونوں جہاں کی سرخروئی حاصل کر سکتا ہے جب تک کہ اس پر پورا یقین و اعتقاد نہ ہو اور اس کے موافق عمل نہ ہو کلمہ طیبہ کی جو فضیلتیں بیان کی گئی ہیں وہ اسی وقت حاصل ہو سکتی ہیں جب کہ اس پر پورا ایمان و عمل صالح ہو ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا پورا اقرار پختہ ایمان اور خالص عمل ہو اسی پر خاتمہ ہو تو وہ ان شاء اللہ نجات ابدی اور سعادت دارین کا مستحق ہوگا۔
کلمہ طیبہ کی فضیلت :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ)
’’جو بندہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے، پھراس پر مر جائے، تو جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
(صحیح بخاری: 876/2، كتاب اللباس، باب الثياب البيض، رقم الحديث 5827، صحيح مسلم: 66/1، كتاب الإيمان، باب الدليل على من مات لا يشرك بالله….)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، کہ اس دین میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ قَبِلَ مِنِّي الْكَلِمَةَ الَّتِي عَرَضْتُهَا عَلَى عَمِّى فَرَدَّهَا فَهِيَ لَهُ نَجَاةٌ)
(مسند احمد: 1/1 و ابو يعلى 39/1، رقم الحديث:110، مجمع الزوائد : 19/1)
’’جو میرا لایا ہوا کلمہ (لا الہ الا اللہ) قبول کرلے جس کو میں نے اپنے چچا ابو طالب پر پیش کیا تھا، اور اس نے رد کر دیا تھا تو وہ کلمہ ماننے والے کے لیے نجات ہے۔‘‘
یہی کلمہ دنیاوی مصیبتوں کے لیے بھی باعث نجات بن جاتا ہے، اس کے پڑھنے سے جان و مال کی حفاظت ہو جاتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(أمِرْتُ أَنْ أَقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَ نَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَ حِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ) (صحیح بخاری: 8/1، کتاب الإيمان، باب فان تابوا و اقاموا ……. رقم الحديث: 25، صحيح مسلم: 37/1، كتاب الإيمان باب الامر بقتال الناس حتي يقولوا …رقم الحديث: 129)
(مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک کہ وہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے قائل نہ ہو جائیں، اور جب وہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے قائل ہو جائیں، تو وہ مجھ سے اپنی جان و مال کو بچالیں گے، بشرطیکہ کہ قتل کے مرتکب نہ ہوں، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ جس طرح کلمہ طیبہ اخروی سزاؤں سے بچانے والا ہے، اسی طرح دنیاوی سزاؤں سے بھی بچانے والا ہے۔
یہ کلمہ طیبہ جڑ ہے، اور باقی اعمال اس کی شاخیں ہیں:
ایمان کی تازگی سے دیگر بدنی اور مالی عبادتیں بھی ترو تازہ رہیں گی، اس لیے کہ جڑ تازہ رہے گی، تو شاخیں بھی سرسبز ہری بھری رہیں گی، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(الإِيمَانُ بِصْعٌ وَ سَبْعُونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْإِيْمَانِ) (صحیح بخاری: 6/1، کتاب الایمان باب امور الايمان رقم الحديث:9، صحيح مسلم:47/1، كتاب الإيمان باب بيان عدد شعب الايمان …. رقم الحديث 152)
’’ ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے بہتر کلمہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ہے اور سب سے چھوٹی شاخ تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کر دینا ہے، اور شرم ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔‘‘
ان شاخوں کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ انشاء اللہ
کلمہ طیبہ پاکیزہ درخت کی طرح ہے
قرآن مجید میں اس کلمہ طیبہ کو شجرہ طیبہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿ اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ۲۴
تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۲۵
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ِ۟اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ۲۶
یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ ۚ وَ یُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ ۙ۫ وَ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠۲ ﴾ (سورة ابراهيم: 24تا 27)
’’(اے محمد ﷺ) کیا آپ نے نہیں دیکھا، کہ اللہ نے کیسی مثال بیان کی ہے، کہ پاکیزہ کلمہ اس پاکیزہ درخت کی طرح ہے کہ جس کی جڑیں مضبوط ہوں، اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں، بحکم خدا ہر وقت پھل دیتا ہو اور اللہ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ یاد رکھیں، اور نا پاک بات کی مثال اس گندے درخت کی طرح ہے، کہ جس کو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہو، اور اس کو ٹھہراؤ نہ ہو، ایمانداروں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالی کی بات پر قائم رکھتا ہے، اور ظالموں کو گمر او چھوڑ دیتا ہے، اور وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے، (وہ مالک و مختار ہے۔)‘‘
کلمہ طیبہ سے مراد بحکم حدیث (لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ) ہے، حاصل تمثیل یہ ہے کہ کلمہ طیبہ اس درخت کی مانند ہے، جس میں یہ چار اوصاف ہوں ۔
(1) شکل و صورت، لذت و خوشبو، نفع سایہ، اور پھل پھول کے لحاظ سے عمدہ ہو۔
(2) اس کی جڑیں زمین کے اندر خوب جمی ہوئی ہوں، کہ آندھیوں کا بھی مقابلہ کر سکے۔
(3) اس کی شاخیں اور پتیاں خوب بلند در پھیلی ہوئی ہوں۔
(4) اس میں پھل ہمیشہ آتے ہوں، اور ہر وقت رہتے ہوں، کسی وقت خالی نہ رہتا ہو، ایسا درخت بہترین درخت ہوتا ہے، ایسے ہی درخت کی طرح کلمہ طیبہ بھی ہے اس کے اندر بھی یہ چاروں اوصاف موجود ہیں:
(1) اس کے اندر جو لذت وکیف ہے، وہ اصحاب ذوق سے پوچھو، دنیا کی بہترین مادی غذاؤں میں وہ کیف نہیں ہو سکتا، جو اس میں ہے۔
(2) کلمہ طیبہ کلمہ حق ہے، اور حق کی جڑیں مضبوط ہیں، یہ کلمہ صداقت ہے، اور صداقت ناقابل زوال ہے، یہ کلمہ نور ہے، اور نور کی بنیاد نفوس قدسیہ میں ثبت ہوتی ہے، جس کو ہوا و ہوس کا کوئی جھونکا اور شیطانی وسوسوں کی کوئی آندھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔) کلمہ طیبہ کی شاخیں بہت بلند ہیں، عالم قدس تک اس کی رسائی ہے، اعمال صالحہ، اقوال صادقہ اس کی شاخیں ہیں، اور ان شاخوں کو روزانہ صبح و شام آسمانوں کے فرشتے اٹھا کر دربار الہی تک لے جاتے ہیں، ایمان ویقین تک پہنچنا اس کی شاخیں ہیں جو فضاء الہی میں پھیلی ہوئی ہیں، الغرض کل جهان اسی پاک کلمہ کی شاخوں کے زیر سایہ ہے۔
(4) اس میں ہر وقت پھل آتے رہتے ہیں، کلمہ طیبہ کا پھل ہر وقت دنیا میں بھی اچھا ملتا ہے اور آخرت میں بھی اچھا ملے گا، رزق میں برکت، دولت، عزت، حکومت و عروج، ترقی اس کے مادی پھل ہیں، آخرت میں جنت میں داخل ہونا، وہاں کی لذتیں حاصل ہوتا اور دیدار باری تعالی کی روشنی میں گم ہو جانا، یہ اس کے اخروی پھل ہیں، یہ درخت نہ دنیا میں ثمر آوری سے خالی رہتا ہے، اور نہ آخرت میں، کبھی اس کے پھلی ختم ہوں گے۔
یہ تو کلمہ طیبہ کی مثال تھی، اب کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ شرک، تو اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی بد شکل درخت ہو، جس میں نہ زیادہ سرسبزی، نہ اچھے پھل ہوں، نہ خوشبو ہو، نہ اچھا مزہ ہو، نہ اس کا سایہ ہو، اور نہ کوئی اور فائدہ، پھر اس کی جڑ بھی اوپر ہی رکھی ہو، جمی ہوئی نہ ہو، اور ہوا کے معمولی جھونکے سے ہی، جڑ سمیت گر پڑے، یہی حالت کلمہ شرک کی ہے، نہ اس سے دنیا میں کوئی فائدہ ہے، نہ دین میں، نہ اس کے پھلوں میں کوئی لذت نہ اس کے پتوں میں کوئی سایہ کمزور اتنا کہ جب ذرا کافر پر مصیبت پڑی، بس اس نے اپنے ہر باطل معبود کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رخ کیا، اور شرک کا پورا درخت زمین پر آرہا، اور چونکہ اس کی جڑ ہی کو ثبات نہیں، تو شاخیں کہاں سے آئیں گی، اس کی شاخوں کی کوئی حقیقت نہیں، نہ مشرک کے اعمال کی بارگارالہی تک پہنچ ہے، کیونکہ اعمال (شاخیں) بغیر اصل (جڑ) یعنی ایمان کے کیسے پائے جا سکتے ہیں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ! اس امت کا امتحان قبروں میں ہوگا، میں ضعیف عورت ہوں، میرا کیا حال ہوگا ؟ حضورﷺ نے آیت قرآنی: ﴿یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ ۚ وَ یُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ ۙ۫ وَ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠۲﴾ (ابراهیم: 27) تلاوت فرمائی۔
(مسند بزار بحواله مجمع الزوائد:56/3، باب السؤال في القبر)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے، تو وہاں ٹھہر جاتے، اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو، اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو، کیونکہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا۔
(سنن ابی داود: 209/3، كتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الانصراف رقم الحديث:3215، و مستدرك:3701، كتاب الجنائز، باب الاستغفار و سؤال التثبيت للميت عند القبر….)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے، حضور اقدسﷺ نے فرمایا، جب مؤمن سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ یہی مضمون ہے يُثَبّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا الخ.
(صحیح بخاری: 183/1، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر رقم الحديث: 1369)
صحیح مسلم: 386/2 كتاب الجنة ونعيمها، باب عرض مقعد الميت من الجنة:، رقم الحديث 7219)
آپﷺ نے فرمایا کہ تمام ذکروں میں بہترین ذکر ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ہے اور الحمد لله تمام دعاؤں میں بہترین دعا ہے۔
(جامع الترمذي: 227/4، كتاب الدعوات، باب ما جاء ان دعوة المسلم مستجابة، رقم الحديث:
3382، و ابن ماجه: كتاب الادب باب فضل الحامدين رقم الحديث: 3800، و مستدرك 498/1
كتاب الدعاء باب افضل الذكر لا اله الا الله….)
کلمہ طیبہ پر آپ کی شفاعت:
جو اس کلمہ کو سچے دل سے پڑھے گا تو رسول اللہﷺ التیام قیامت کے دن اس کی سفارش فرمائیں گے۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
(أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيمَةِ مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ وَ نَفْسِهِ)
(صحیح بخاری:20/1، كتاب العلم، باب الحرص على الحديث رقم الحديث:99)
’’میری شفاعت کا مستحق قیامت کے دن سب سے زیادہ وہ سعادت مند ہو گا، جس نے سچے دل سے اس کلمہ توحید کو پڑھا ہوگا۔‘‘
کلمہ طیبہ کا پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا دوزخ میں نہیں جائے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم کثرت سے کلمہ طیبہ (لا إله إلا اللہ) کہتے رہو، اس سے پہلے کہ ہمارے اور اس کلمہ طیبہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو جائے، یعنی موت آنے سے پہلے اس کو کثرت سے پڑھتے رہو۔
(التمهيد : ٥٣/٦ و ابو يعلى بحواله مجمع الزوائد ١٠ / ٨٤ والترغيب: ٢/ ٤١٦).
جو موت کے وقت اس کلمہ کو پڑھتا ہوا مر جائے، انشاء اللہ وہ جنتی ہوگا۔‘‘ (ابو یعلی، حسن)
چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں، جو اس کو سچے دل سے پڑھتا ہوا مر جائے، تو دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی، وہ کلمہ (لا إِلهَ إِلَّا اللهَ) ہے۔
(مسند احمد: 53؍6 و مستدرك: 351،72/1 ،و ابن حبان (موارد) رقم الحدیث 1،2)
کلمہ طیبہ پڑھنے پر آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور یہ کلمہ عرش تک
پہنچ جاتا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ جو بندہ سچے دل سے کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھتا ہے تو اس کے واسطے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور وہ کلمہ عرش الہی تک پہنچ جاتا ہے، مگر شرط یہ ہے، کہ وہ بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہا ہو۔
(جامع الترمذي: 286/4، كتاب الدعوات، باب في نسخة دعاء ام سلمة رقم الحديث:3590 و
صحیح سنن ترمذی: 2739)
مرنے والے کے پاس کلمہ طیبہ پڑھنا چاہئے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم مرنے والے کے سامنے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھو تاکہ وہ اس کلمہ طیبہ کو سن کر خود بھی پڑھنے لگے، اگر یہ موت کے وقت پڑھتا ہوا مر گیا، تو جنتی ہو گا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ لیا اگر کوئی تندرستی کی حالت میں اس کو پڑھتار ہے، تو کیسا ہے، آپﷺ نے فرمایا، پھر تو سب سے اچھا ہے۔ .
(طبرانی کبیر: 197/12،رقم الحديث: 13024، عن ابن عباس رضی الله عنهما،
هيثميی فرماتے ہیں کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن علی بن طلحہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہا سے ملاقات و سماع ثابت نہیں ہے۔
حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جو خدا کی رضا مندی کے لیے کلمہ طیبہ ((لا إله إلا الله)) پڑھے قیامت کے دن روزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی۔
(صحيح بخاری: 158/1 كتاب الصلوة باب المساجد في البيوت رقم الحديث: 425، و مسلم:
233/1، كتاب المساجد باب الرخصة في التخلف عن الجماعة العذر، رقم الحديث:1496)
کلمہ طیبہ کا پڑھنے والا جہنم سے نکال لیا جائے گا
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
(أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ ذَرَّةٌ مِنَ الْإِيْمَانِ، أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ أَوْ ذَكَرَنِي أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ).
(مستدرك 70/1، كتاب الإيمان باب شفاعتي لمن شهد ان لا اله الا الله…. و بخاري 1102/2) كتاب التوحيد، باب قول الله لما خلقت بيدي، و مسلم 109/1، كتاب الايمان باب اثبات الشفاعة)
’’ہر اس شخص کو دوزخ سے نکال لو، جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو، اس حال میں کہ اس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر ایمان ہو، اور اس کو بھی جہنم سے نکال لو جس نے لا الہ الا اللہ کیا ہو یا مجھے یاد کیا ہو ، یا مجھ سے ڈرا ہو۔‘‘
نیز رسول اللہ علی الظالم نے فرمایا: جو شخص لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ) دس مرتبہ پڑھے گا، تو اسے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔‘‘
(صحيح بخاري: 6404، كتاب الدعوات، باب فضل التهليل)
اسی کلمہ طیبہ میں اسم اعظم ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا، جو اسم اعظم کے ساتھ دعا کرے گا، اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرمائے گا، حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، کہ خدا کا اسم اعظم یعنی بڑا نام ان دونوں آیتوں میں ہے-
(مسند احمد:461/6، و ابو داود: 555/1، كتاب الصلوة، باب الدعاء، رقم الحديث: 1492)
ایک آیت یہ ہے:
﴿وَالٰهُكُمْ إِنَّهُ وَاحِدٌ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ﴾ (البقرة:163)
’’ تمہارا اللہ صرف ایک اللہ ہے، اسکے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اور دوسری آیت سورۃ آل عمران کے شروع میں ہے۔
﴿المّ۔ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ (آل عمران: 1،2)
’’الم۔ نہیں ہے کوئی معبود مگر ایک اللہ جو ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور تمام مخلوق کی ہستی کو قائم رکھنے والا ہے ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تو فرمایا، کہ اس نے اللہ کا وہ نام لے کر پکارا، کہ جب اس نام کے ذریعے سوال کیا جاتا ہے، تو ضرور دیتا ہے، اور اسکے خلیل دعا کی جائے تو ضرور قبول فرماتا ہے، دعا یہ ہے:
(اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ)
(سنن ابی داود: 554/1 كتاب الصلوة – باب الدعاء رقم الحديث:1489،٩ و جامع الترمذي:252/4، كتاب الدعوات باب ما جاء في جامع الدعوات عن رسول الله ﷺ/ رقم الحديث 3457، ومسنداحمد: 349/5)
’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ذریعے سے کہ میں گواہی دیتا ہوں، کہ تو ہی اللہ – تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو ہی ایک یکتا ہے اور بے نیاز ہے، نہ کسی کا باپ ہے، اور نہ کسی کا بیٹا، اور نہ کوئی تیرا جوڑ و ہمسر ہے۔
کلمہ طیبہ مشکل کشا اور قاضی الحاجات ہے
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حضرت ذوالنون یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کو یوں پکارا تھا:
﴿لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ﴾
’’اے اللہ! تو ہی معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تیری ذات پاک ہے، میں بیشک ظلم کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں، کہ جو مسلمان اس آیت کریمہ کو پڑھ کر دعا کرے گا، اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرمائے گا۔
(مسند احمد: 170/1، و ترمذی: 260/4، كتاب الدعوات، باب دعوة ذي النون رقم الحديث 3505/ و مستدرك للحاكم:505/1، كتاب الدعاء باب من دعاء بدعوة ذي النون….)
حدیثوں اور تفسیروں میں اس کی بڑی تعریف آئی ہے، اس دعا میں بڑے بڑے فوائد ہیں۔
کلمہ طیبہ پر اسلام کی بنیاد قائم ہے
اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر قائم ہے ان میں سے سب سے پہلی چیز ہی کلمہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
بَنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَهُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَ إقَامِ الصَّلُوةِ وَإيْتَاءِ الزَّكُوةِ وَ حَجِّ الْبَيْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ وَ الْجِهَادُ وَالصَّدَقَةُ مِنَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ)
(صاحب کنز نے اس کو طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ (کنز العمال، رقم الحدیث (29) لیکن طبرانی میں نہیں ہے البتہ مسلم میں جہاد صدقہ عمل صالح کے بغیر موجود ہے۔ صحیح مسلم: کتاب الايمان، باب بيان اركان الاسلام، رقم الحديث 111-114″ صحيح بخاری کتاب الایمان باب دعاؤكم ايمانكم … رقم الحديث8، فتح الباري:43/1)
’’اسلام کی بنیاد ان پانچ ستونوں پر قائم ہے (1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں (2) نماز جاری رکھنا، (3) زکوۃ دینا (4) بیت اللہ شریف کا حج کرنا (5) رمضان شریف کے روزے رکھنا۔
اس حدیث میں کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کو اسلام کا پہلا رکن اعظم قرار دیا ہے، اور اسلام کے سارے ارکان پر اسی لیے مقدم کیا ہے، کہ اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
کلمہ طیبہ کا وزن بہت بھاری ہے :
حضرت موسیٰ علیہ السلام لے نے اللہ تعالی سے عرض کیا تھا کہ
(يَارَبِّ عَلِمُنِي شَيْئًا أَذْكُرُكَ بِهِ وَادْعُوكَ بِهِ قَالَ قُلْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ يَارَبِّ كُلُّ عِبَادِكَ يَقُولُ هَذَا قَالَ قُلْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ قَالَ إِنَّمَا أُرِيدُ شَيْئًا تَخُصُّنِي بِهِ قَالَ يَامُوسى لَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِينَ السَّبْعَ فِي كِفَّةٍ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ فِي كِفَةٍ مَالَتْ بِهِمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ)
(صحیح ابن حبان: رقم الحديث:6185، و ابو يعلى: رقم الحديث 1389، و مستدرك للحاكم: 528/1، كتاب الدعاء باب فضل لا اله الا الله و امر الله به موسى عليه السلام و التمهيد:53/3، كتاب السماء و الصفات للبيهقي: 175/1)
’’اے میرے پروردگار ! آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے، کہ اس کو پڑھ کر آپ کو یاد کرتا رہوں، اور اس کے ساتھ دعا مانگا کروں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہا کرو، حضرت موسیٰ علیہ سلام نے عرض کیا، یہ تو تیرے سارے بندے کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہی کلمہ پڑھا کر، حضرت موسیٰ علیاس نے کہا، کوئی مخصوص چیز بتائیے، اللہ رب العزت نے فرمایا، اے موسیٰ ! تم اس کلمہ کو معمولی مت سمجھو، اگر اس کلمہ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ساری زمینوں اور آسمانوں کو دوسرے میں رکھ کر تولا جائے تو ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا پلڑا بھاری ہوگا ۔ چودہ طبق یعنی ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور کلمہ طیبہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے، اور پھر تو لا جائے تو چودہ طبق والا پلڑا ہلکا ہوگا، اور ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا پلڑا بھاری ہوگا، قیامت کے دن جبکہ سب عملوں کا وزن کیا جائے گا، تو یہ کلمہ بڑ اور ثابت ہوگا، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(إِنَّ اللهَ سَيُخَلِصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيمَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تسْعَةً وَ تِسْعِينَ سَجِلًا كُلُّ سَجِلٌ مِثْلَ مَد الـبصر يَقُولُ أَتَنكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا أَظْلَمَكَ كَتبتیيَ الْحَافِظُونَ فَيَقُولُ لَا يَارَبِّ فَيَقُولُ أَهْلَكَ عُذْرٌ قَالَ لَا يَارَبِّ فَيَقُولُ بَلَى إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةٌ وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ فَتَخْرَجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ احْضُرُ وَزُنَكَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السجلاتِ فَيَقُولُ إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ قَالَ فَتُوضَعُ السَّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَةٍ فَطَاشَتِ السَّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ فَلَا يَثقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ).
(مسند احمد: 213؍2 و ترمذی:367؍3 كتاب صفة جهنم باب فيمن يموت وهو يشهد ان لا اله الا الله. رقم الحديث:2639، و ابن حبان:225)
’’قیامت کے دن اللہ تعالی میری امت کے ایک شخص کو سب کے سامنے لائے گا، اور اس کے اعمال کے بڑے بڑے دفتروں کو کھولے گا، ہر ہر دفتر اتنا بڑا ہو گا، کہ جہاں تک اس کی نگاہ کام کر سکے گی، پھر اللہ سبحانہ و تعالی اس سے فرمائے گا، کیا تو ان دفتروں میں سے کسی دفتر کا انکار کرتا ہے، اور لکھنے والے مگر ان فرشتوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے ؟ بندہ کہے گا نہیں، میرے پروردگارا پھر اللہ تعالی فرمائے گا، کیا تجھے کوئی عذر ہے؟ وہ شخص کہے گا، مجھے کوئی عذر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ہاں میرے پاس تیری ایک نیکی ہے (جو تیرے عذر کے قائم مقام ہے، جو تیرے تمام گناہوں کو مٹا دے گی) اور قیامت کے دن تیرے اوپر کوئی ظلم نہ ہو گا (کہ تیری نیکیوں میں سے کچھ کم کر دیا جائے اور گناہوں کو زیادہ کر دیا جائے) پھر ایک پر چہ نکالا جائے گا، جس میں کلمہ طیبہ (اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده و رسوله) لکھا ہوا ہوگا، پھر اللہ جل شان فرمائے گا، جس جگہ تیری نیکی تو لی جاتی ہے، اس جگہ تو حاضر ہو، وہ شخص کہے گا، خدایا! یہ پرچہ ان نانوے دفتروں کے مقابلے میں کیا ہے، یعنی ظاہر کچھ نہیں ہے، اللہ تعالی فرمائے گا، آج تیرے ثوابوں میں کمی نہیں ہوگی، (بلکہ دو گنا سے گنا کر کے ثواب دیا جائے گا) چنانچہ کلمہ طیبہ والا پرچہ ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا، اور نامہ اعمال کے ننانوے دفتر دوسرے پلڑے میں رکھ کر تو لے جائیں گے، تو دفتروں والا پلڑا ہلکا اور کلمہ طیبہ والا پلڑا بھاری ہوگا، اللہ تعالیٰ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی۔‘‘
اسکی وجہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے سوا کوئی چیز نہیں ہے، اور اللہ کے سوا کسی کی ہستی نہیں ہے، اور اس کے سامنے سب نیچ اور نیست و نابود ہیں، کیونکہ یہ وجودی ہے، اور باقی سب کی اصل عدم ہے، اور وجود عدم پر غالب ہے۔ اس کلمہ طیبہ میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے اور وہی عبادت اور بندگی کے لائق ہے، اسکی عبادت اور خدائی میں کوئی اس کا شریک اور سا بھی نہیں ہے، وہی تمام کائنات کا خالق و مالک اور احکم الحاکمین ہے، یہی مطلب ہے کلمہ طیبہ کا، وحدانیت انہی کا اقرار ہی اسلام ہے، اور یہی ایمان کی روح ہے۔
(مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ).(مسند احمد:233؍5 و247 و ابو داود: 159؍3 کتاب الجنائز باب في التلقين رقم الحديث: 3110)
’’جس کا آخری کلام ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ہو گا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: (لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ).
’’مرنے والے کے پاس لا الہ الا اللہ کہو ۔‘‘
تاکہ سن کر وہ خود بھی یہی کلمہ کہے اور اسی پر اس کا انتقال ہو۔
(صحيح مسلم: 300؍1، كتاب الجنائز باب تلقين الموتي لا اله الا الله. رقم الحديث 2123)
حافظ ابن ابی حاتم نے لکھا ہے کہ جب محدث ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کا وقت آیا تو لوگوں نے کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی تلقین شروع کی تو حضرت ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث مذکور سند سمیت پڑھنی شروع کی، جب لا الہ الا اللہ پر پہنچے، اور اس کلمہ کو زبان سے نکال چکے، تو اسی وقت ان کی روح پرواز کر گئی ’’سبحان اللہ‘‘ کیا ہی اچھی موت ہوئی!
اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کا اچھا خاتمہ کرے، اور اچھی موت دے (آمین)
اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا حُسْنَ الْخَائِمَةِ وَاجْعَلْ اٰخِرَ كَلَامِنَا أَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ۔ اٰمِينَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ)
(بَارَكَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ)