ورثاء کے حقوق
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اس سے بخشش طلب کرتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جس کو اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جسے وہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر، ان کی آل اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین  پر کثرت سے درود و سلام بھیجے۔
حمد وثناء کے بعد:میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ تقویٰ دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ومَا الحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلهْوٌ ولَلدَّارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ﴾”اور دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔” الانعام: 32
اللہ کے بندو!انسان کی فطرت میں مال کی محبت رکھ دی گئی ہے، اور یہی مال اکثر جھگڑوں اور مصیبتوں کا بڑا سبب بنتا ہے، خاص طور پر جب لوگ مال میں شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ﴾”اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں، اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں۔” ص: 24
وراثت میں اشتراک جھگڑے، انصاف کی کمی اور ناانصافی کا ایک ممکنہ سبب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ اقدس سے وراثت کی تقسیم کو متعین کیا اور اسے نہایت تفصیل سے بیان کیا تاکہ جھگڑوں کے اسباب ختم ہوں اور مال ضائع ہونے سے محفوظ رہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: (إِنَّ اللهَ قَدْ أَعطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ)”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے۔” رواه أبو داود (2870)
اللہ تعالیٰ کی جانب سے وراثت کی تقسیم وارثوں کے جھگڑوں کا حتمی حل ہے۔ جو بھی اس تقسیم سے تجاوز کرے یا دھوکہ دے، اللہ اس کے لیے گھات میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیاتِ وراثت کے بعد فرمایا: -: ﴿ومَنْ يَعصِ اللهَ ورَسُولَهُ ويَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا﴾”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے، اسے اللہ آگ میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔” النساء: 14
وراثت اللہ کی اپنے بندوں کے لیے وصیت ہے۔ جو کسی وارث کو اس کے حق سے محروم کرے، وہ اللہ کی وصیت کی مخالفت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَصِيَّةً مِنَ اللهِ واللهُ عَلِيمٌ حَكِيْمٌ﴾”یہ اللہ کی طرف سے وصیت ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔” النساء: 12
بعض وارث اپنے شرعی حق پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ دوسرے وارثوں کے حق پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وتَأْكُلُونَ  التُّرَاثَ أَكْلًا لمًّا* وتُحِبُّونَ المَالَ حُبًّا جَمًّا﴾”اور تم وراثت کو جی بھر کے کھاتے ہو اور مال سے حد سے زیادہ محبت کرتے ہو۔” الفجر: 19-20
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اللَّمُّ: هُوَ الاِعتِدَاءُ في المِيرَاثِ: يَأْكُلُ مِيرَاثَهُ، ومِيرَاثَ غَيرِه!) "لمَّ” کا مطلب ہے وراثت میں زیادتی کرنا، یعنی اپنے اور دوسروں کا مال بھی ہڑپ کر لینا۔ تفسير الطبري (24/415)
کسی وارث کو مخصوص کرنے سے حسد اور جھگڑے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ جو اپنے بعض وارثوں کو وصیت کرے، اس کی وصیت تب تک نافذ نہیں ہوگی جب تک باقی وارث اس پر رضامند نہ ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: (لا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ)”کسی وارث کے لیے وصیت نہیں کی جاسکتی۔” رواه أبو داود (2870)
اور ترکہ کی تقسیم میں جلدی کرنا (قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کی تکمیل کے بعد) وارثوں کو جھگڑوں سے بچاتا ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں:(لا يَنْبَغِي تَأْخِير قِسمَةِ التَّرِكَةِ؛ لِمَا يَتَرَتَّبُ على ذَلِكَ مِنْ تَأْخِيرِ دَفْعِ الحُقُوقِ إلى أَصحَابِهَا )  "ترکہ کی تقسیم میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے حقوق کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے، جو کہ حق داروں کو پہنچانا ضروری ہے۔” فتاوى اللجنة الدائمة (16/441)
اگر جائیداد کی تقسیم ممکن نہ ہو، تو اسے فروخت کرکے حاصل شدہ قیمت کو تمام وارثوں میں ان کے حصے کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے، مجموعة الأحكام القضائية (6/41)، 1435هـ  لیکن یہ بھی قرضوں اور وصیت کی ادائیگی کے بعد ہونا چاہیے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (بَعضُ الظَّلَمَةِ مِنَ الوَرَثَةِ: يُؤَخِّرُونَ وَفَاءَ الدَّينِ عنِ المَيِّتِ لِمَصَالِحِهِم الخَاصَّةِ! فَتَجِدُ المَيَّتَ عَلَيهِ ديون، ووَرَاءَهُ عَقَارَات، فَيَقُولُونَ: "لَا نَبِيْعُهَا؛ بَلْ نُوَفِّيْهِ مِنَ الأُجْرَةِ ولو بَعدَ عَشْرِ سِنِيْن!”، أَوْ يَقُوْلُوْنَ: "إِنَّ الأَرَاضِيَ كَسَدَتْ؛ فَنَنْتَظِر حَتَّى تَرتَفِعَ قِيمَتُهَا!”: وهذا ظُلم؛ لِأَنَّ المَيِّتَ يَتَأَثَّرُ بِالدَّينِ الَّذِي عَلَيه)”کچھ ظالم وارث :اپنے ذاتی مفادات کی خاطر میت کے قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں۔ میت کے ذمے قرض ہوتا ہے، اور اس کے پیچھے جائیدادیں ہوتی ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں: ‘ہم انہیں فروخت نہیں کریں گے، بلکہ کرائے سے قرض ادا کریں گے، چاہے اس میں دس سال لگ جائیں!’ یا یہ کہتے ہیں: ‘زمینوں کی قیمت کم ہے، ہم انتظار کریں گے جب تک کہ ان کی قیمت بڑھ نہ جائے!’ یہ ظلم ہے، کیونکہ قرض میت کے لیے نقصان دہ ہے۔” الشرح الممتع (5/261)
نبی ﷺ نے فرمایا: (نَفْسُ المُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ)”مومن کی روح اس کے قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے، جب تک کہ وہ ادا نہ کردیا جائے۔” أخرجه الترمذي (1078)
وارثوں کے درمیان جھگڑے کو ختم کرنے والے عوامل میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ کی سزا اور ہلاکت کا خوف رکھا جائے، جو اس شخص کے لیے ہے جو ترکہ پر زیادتی کرے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَموَالَ اليَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ في بُطُونِهِم نَارًا وسَيَصلَونَ سَعِيرًا﴾ "جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلدی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔” النساء: 10
نبی ﷺ نے فرمایا: (اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّجُ حَقَّ الضَّعِيفَيْنِ: اليَتِيمِ، والمَرأَة)”اے اللہ! میں یتیم اور عورت کے حق کے بارے میں سخت خبردار کرتا ہوں۔” رواه أحمد (2/439) (أُحَرِّجُ): معنیٰ: "یعنی میں اس کام کے بارے نہایت شدید انداز میں خبردار کرتا ہوں اور اسے سختی سے منع کرتا ہوں۔” فيض القدير، المناوي (1/166) (3/20)
اور ان امور میں سے جو ورثاء کے درمیان تنازع کو ختم کرتے ہیں، وہ یہ ہیں:
1- مورث (اپنی زندگی میں) اپنے تمام حقوق و واجبات کو واضح طور پر تحریری شکل میں محفوظ کرے۔
2- اور یہ کہ وہ اپنے مال میں ایسی وصیت نہ کرے جو ورثاء کے لیے ناانصافی یا نقصان کا باعث بنے۔
3- اور یہ کہ وہ وصیت میں ایک تہائی سے زیادہ نہ بڑھائے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: (إنَّك أَنْ   تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغنِيَاءَ؛ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً  يَتَكَفَّفُونَ  النَّاسَ) "بے شک یہ کہ تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑو، اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑو جو لوگوں سے سوال کرتے پھریں”۔ رواه البخاري (2742)، ومسلم (1628)
مال و دولت کی محبت، بھائیوں اور بہنوں کی محبت پر مقدم نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ ترکے پر جھگڑا برکت کے زوال کا سبب بنتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: (إِنَّ أَعجَلَ الطَّاعَةِ ثَوَابًا: صِلَةُ الرَّحِمِ، حَتَّى إِنَّ أَهلَ البَيْتِ لِيَكُونُوا فَجَرَةً: فَتَنْمُو أَمْوَالُهُمْ، وَيَكْثُرُ عَدَدُهُمْ إِذَا تَوَاصَلُوا!)"سب سے جلدی اجر ملنے والی عبادت صلۂ رحمی ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک خاندان فاسق ہو، پھر بھی ان کا مال بڑھتا ہے اور ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اگر وہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔” رواه ابن حبان (440)،
اور ان امور میں سے جو ورثاء کے درمیان تنازع کو کم کرتے ہیں: سچائی اور امانت داری،جبکہ دھوکہ دہی اور خیانت سے بچناہے ، اور یہ کہ ہر وارث وہ تمام مال جو مورث کے ذمے ہو، اسے واضح طور پر ظاہر کرے اور اس میں کسی چیز کو کم نہ کرے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعضُكُمْ بَعضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ﴾"پھر اگر تم میں سے ایک دوسرے پر اعتماد کرے، تو جس پر اعتماد کیا گیا ہو، وہ اپنی امانت واپس کرے اور اللہ سے ڈرے، جو اس کا رب ہے۔”البقرة: 283
اور ان چیزوں میں سے جو ورثاء کے درمیان تنازع کو ختم کرتی ہیں: معاملات میں نرمی، لالچ اور جھگڑوں کو ترک کرنا؛ کیونکہ نرمی رحمتوں کے نزول اور برکتوں کے حصول کا سبب بنتی ہے، اور حقیقت اس پر گواہ ہے! نبی ﷺ نے فرمایا: (رَحِمَ اللهُ رَجُلًا سَمْحًا: إذا باعَ، وإذا اِشْتَرَى، وإذا اِقْتَضَى) "اللہ اس شخص پر رحم کرے جو نرمی برتتا ہے: جب وہ بیچتا ہے، جب خریدتا ہے، اور جب اپنے حق کا تقاضا کرتا ہے”۔ رواه البخاري (2076)
میں یہی بات کہتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور آپ سب کے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں۔ اس سے بخشش مانگو، بے شک وہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں! جو اپنے احسانات کے باعث لائقِ حمد ہے، اور شکراسی کے لیے ہے جو اپنی توفیق اور انعام و اکرم سے نوازتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ کے بندو! دنیا کی تمام تر وراثت بھی جہنم کی ایک لمحے کی تکلیف کے برابر نہیں ہو سکتی! پس ورثاء کے حقوق ادا کرو، اس سے پہلے کہ کوئی دینار باقی رہے نہ کوئی درہم! نبی ﷺ نے فرمایا: (إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ: أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ: أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ؛ فَحُمِلَ عَلَيْهِ)"اگر کسی کے پاس نیک عمل ہوگا تو اس کے مظالم کے بدلے میں ان نیکیوں سے لیا جائے گا، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی، اور وہ ان برائیوں کا بوجھ اٹھائے گا۔” رواه البخاري (2449)
ایک اور حدیث میں فرمایا: (فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيهِ: أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُم فَطُرِحَتْ عَلَيهِ، ثُمَّ طُرِحَ في النَّار!)”اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں اور اس کے ذمہ حقوق باقی رہیں، تو مظلوموں کی خطائیں اس پر ڈال دی جائیں گی، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا!” رواه مسلم (2581)
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور شرک اور مشرکین کو ذلت نصیب فرما۔
• اے اللہ! اپنے خلفاء راشدین، ہدایت یافتہ اماموں یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، اور باقی صحابہ کرام، تابعین اور ان کے نیک پیروی کرنے والوں سے بھی قیامت کے دن تک راضی ہو جا۔
• اے اللہ! غمزدوں کی غمخواری فرما، اور مصیبت زدوں کی مشکلات دور فرما۔
• اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن عطا فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکمرانوں کو درست راہ دکھا، اور (ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد) کو اپنی پسندیدہ اور رضا کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کی رہنمائی تقویٰ اور نیکی کی طرف فرما۔
• اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس لوگوں میں سے نہ بنا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے، تو ہم پر آسمان سے موسلادھار بارش نازل فرما۔
• اللہ کے بندو: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإِيتَآءِ ذِي القُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ وَالبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ  ﴿بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو﴾۔
• پس اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو﴾۔
• مترجم: محمد زبیر کلیم ( سابق مدرس جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد، پاکستان)
• داعی ومدرس جمعیت ھاد
• جالیات عنیزہ۔ سعودی عرب