استاد صحیح عقیدے والا ہونا چاہئے
سوشل میڈیا کا دور ہے فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ پر طرح طرح کے لوگ دین کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو شریعت کے داعی اور مبلغ بنا کر پیش کر رہے ہیں علم اور عقیدے کی پختگی سے خالی نوجوانوں کی کثیر تعداد انہیں دیکھتی اور سنتی ہے اور چونکہ پیچھے مضبوط علمی دلائل اور رسوخ نہیں ہوتا تو بہت جلد ایسے گمراہوں کی باتوں میں پھنس جاتے ہیں
انجینیئر محمد علی مرزا
بابا اسحاق جھالوی
ساحل عدیم
جاوید احمد غامدی
اور اس طرح کے دیگر فتنہ پرور اور گمراہ لوگ جو درحقیقت دین و شریعت کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں اپنے جادو سے لوگوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور لوگ ان کی باتوں میں آکر مسلمہ اسلامی عقائد و نظریات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں
ذیل کے مضمون میں ہم یہ واضح کریں گے کہ گمراہ شخص سے دینی علوم سیکھنا اور انہیں اپنا مقتدَی اور استاد بنانا کس قدر خطرناک بات ہے
گمراہ لوگوں کو استاد مت بنائیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ
اور اس قوم کی خواہشوں کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہو چکے اور انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔
المائدة : 77
علمِ شرعی ایک امانت ہے، یہ اُنہی لوگوں سے لیا جائے گا جو کتاب و سنت پر امین ہوں گے، اور جن کے عقائد سلف صالحین کے موافق ہوں گے۔
مرشد پھڑئے چُن کے
پنجابی زبان میں ایک کہاوت ہے
پانی پئے پُن کے
تے مرشد پھڑئے چُن کے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
التوبة : 119
دیکھنا کہیں سیدھی راہ مل جانے کے بعد کوئی گمراہ اسپیکر تمہیں ورغلا نہ جائے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچائو لازم ہے، تمھیں وہ شخص نقصان نہ پہنچائے جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے، اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
المائدة : 105
نیم حکیم خطرہ جان، نیم استاد خطرہ ایمان
آج صورتحال یہ ہے کہ ایسے لوگ بھی (دینی رہنمائی) کر رہے ہیں جو عربی زبان سے ہی کورے ہیں ، علوم شریعت کی جنہیں ہوا بھی نہیں لگی ، نہ اصول حدیث کا پتہ نہ اصول فقہ کی خبر ، نہ کوئی استاد نہ کوئی کوالیفیکیشن اور اس پر اس قدر جراءت اور بے باک ہیں کہ وراثت جیسے فن پر غلط سلط فتوے جاری کرنے سے بھی نہیں ڈرتے ، صحابہ پر اعتراضات کرنے سے شرم نہیں کھاتے ، کبھی ابن تیمیہ کو چیلنج کرتے کبھی ابن کثیر کی غلطیوں پر پانچ گھنٹے لیکچر دینے کی بھڑکیں مارتے ، اور لوگ اس جیسے لوگوں سے بھی (دین) لیتے ہیں . انا للہ و انا الیہ راجعون . ایسے لوگوں سے دین لینے والے ، عطائی ڈاکٹر سے دوا لینے یا آپریشن کروانے والا ، یا جعلی انجینئر سے مکان بنوانے والے سے زیادہ خطرے میں ہیں
شاھد رفیق حفظہ اللہ تعالیٰ
ایسے گمراہ اور فتنہ پرور واعظین اور دعاۃ کی طرف جھانکیں بھی نہ
ہوتا یہ ہے کہ سوشل میڈیا فیس بک یوٹیوب وغیرہ استعمال کرتے ہوئے ایسے اسپیکرز کی گفتگو جب سامنے آتی ہے تو شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ دیکھیں تو سہی یہ کہتا کیا ہے؟ بس تھوڑا سا سن لیتے ہیں، زیادہ نہیں سنتے
لیکن
یہ تھوڑا سا سننا اور ہلکا سا جھانکنا ہی تباہی کی بنیاد ہوتا ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سَتَكُونُ فِتَنٌ……. مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ فَمَنْ وَجَدَ مِنْهَا مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ
بخاری 7081
عنقریب ایسے فتنے برپا ہوں گے……… جو دور سے ان کی طرف جھانک کر بھی دیکھے گا تو وہ ان کو بھی سمیٹ لیں گے ۔ اس وقت جس کسی کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یا بچاؤ کامقام مل سکے وہ اس میں چلا جائے
کانوں میں انگلیاں لے لیں
مَعْمَر بیان کرتے ہیں کہ
طاؤس رحمہ اللہ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران ایک معتزلی آیا
اور اس نے کچھ کہنا چاہا تو طاؤس رحمہ اللہ نے کانوں میں انگلیاں لے لیں اور اپنے بیٹے سے بھی کہا کہ انگلیاں کانوں میں اچھی طرح لے لے تاکہ تو اس کی کوئی بات سن نہ سکے کیونکہ انسان کا دل کمزور ہے
یہاں تک کہ وہ اٹھ کر چلا گیا
التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة السفر الثالث :(١١٨٥) الإبانة الكبرى لابن بطة:(٤٠٠)حلية الأولياء:٩/ ٢١٨ سنده صحيح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ کن لوگوں سے تھا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةُ الْمُضِلُّونَ .
سنن أبي داود: (4252) ،السلسلة الصحيحة : 1723
"مجھے اپنی امت كے بارے میں سب سے زیادہ خوف گمراہ كرنے والے آئمہ كا ہے”
جہنم کی طرف دعوت دینے والے مبلغین
اسی طرح کے فتنہ پرور لوگوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا ".
بہت سے مبلغین لوگوں کو جہنم کے دروازے کی طرف بلانے والے ہوں گے
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا اللہ کے رسول ان کے بارے کچھ بتا دیں
تو آپ نے فرمایا :
"هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا ، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا”
صحيح البخاري | 3606
وہ لوگ ہماری ہی قوم کے ہوں گے ہماری ہی زبان بولیں گے
گمراہ لوگوں سے علم حاصل کرنا گمراہی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا”
صحيح البخاري | 100
اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے
آج کتنے سلفی نوجوان ایسے ہیں
کہ جنہوں نے مولانا مودودی صاحب کو ایک بڑے مفکر سمجھتے ہوئے اور ان کی تحریک سے متاثر ہوتے ہوئے پڑھنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق دل میلے ہو گئے
کتنے ایسے ہیں کہ جنہوں نے ڈاکٹر اسرار صاحب کو ایک عظیم سپیکر اور واعظ کے طور پر سننا شروع کیا تو بالآخر اہل سنہ کے متعلق ان کے دل کھٹکنا شروع ہو گئے اور روافض کے متعلق دلوں میں نرمی آ گئی اور مسلم حکام سے متعلق اہل سنہ کے عقائد سے دور جا بھٹکے
مرزا جہلمی، اسحاق جھالوی، جاوید غامدی اور ساحل عدیم جیسے گمراہ اور بدعقیدہ لوگوں کو سننے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمہ اسلامی شعائر کے متعلق ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے
لھذا خوب سوچ سمجھ کر استاد کا انتخاب کرنا چاہیے۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ اَلرَّجُلُ عَلٰی دِيْنِ خَلِيْلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُّخَالِلُ ]
[ أبوداوٗد : 4833 ، حسنہ الألباني ]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے دلی دوست بنا رہا ہے۔‘‘
بد عقیدہ آدمی سے تو قرآن و حدیث بھی نہیں سننا چاہیے
سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَسْمَاءَ بْنِ عُبَيْدٍ سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اہل بدعہ کے دو آدمی ابن سیرین رحمہ اللہ کے پاس آئے
اور کہنے لگے :
أَبَا بَكْرٍ نُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ
اے ابو بکر ہم آپ کو حدیث سناتے ہیں تو آپ نے انکار کر دیا
پھر وہ کہنے لگے :
فَنَقْرَأُ عَلَيْكَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ
ہم آپ کو قرآن کی کوئی آیت سناتے ہیں
آپ نے پھر انکار کر دیا
اور انتہائی سختی سے کہا کہ یا تو تم دونوں یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ یا پھر میں چلا جاتا ہوں
تو وہ دونوں وہاں سے نکل گئے
تو حاضرین میں سے کسی شخص نے کہا :
اے ابوبکر اگر آپ کو قرآن کی آیات سنا دی جاتیں تو آپ کا کیا نقصان تھا
تو آپ فرمانے لگے :
إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْرَأَا عَلَيَّ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَيُحَرِّفَانِهَا فَيَقِرُّ ذَلِكَ فِي قَلْبِي
سنن دارمی۔399
مجھے یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ میرے سامنے کوئی آیت پڑھیں گے (اور غیر محسوس طریقے سے) اس کی کوئی غلط تفسیر بیان کرکے میرے دل میں شک پیدا کریں گے
ایک بہت ہی عبادت گزار عالم لیکن سلف نے اسے استاد پکڑنے سے منع کر دیا
حسن بن صالح الهمداني 169هـ میں فوت ہوئے ہیں
امام ذہبی رحمہ اللہ کی سیر اعلام النبلاء میں ان کے حالات لکھے ہیں تفصیلات کے لیے دیکھیے سیر اعلام النبلاء جلد 7 صفحہ 362
ان کے متعلق چیدہ چیدہ معلومات ملاحظہ فرمائیں
ان کا شمار راویانِ حدیث میں ہوتا تھا
ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جوکہ جرح و تعديل میں متشدد سمجھے جاتے ہیں، نے بھی ان کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ”ثقة حافظ متقن”.ہیں
خشیتِ الہی کا یہ عالم تھا کہ بہت جلد رو پڑتے تھے
يحيى بن أبي بكير کہتے ہیں :
ایک دفعہ میں نے انہیں کہا کہ میت کو غسل دینے کا طریقہ بیان کردیں تو وہ طریقہ بیان نہ کر پائے اور رو پڑے
ان کے چہرے سے ہی خشوع و خضوع نظر آتا تھا
أبو سليمان الداراني فرماتے ہیں :
میں نے حسن بن صالح سے بڑھ کر کسی کے چہرے پر خشوع و خضوع کے اثرات نہیں دیکھے
دنیا سے بے رغبتی اور قناعت کا یہ حال تھا کہ خود فرماتے ہیں :
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میرے پاس کوئی درہم نہ ہوتا مگر پھر بھی مجھے لگتا کہ ساری دنیا سمٹ کر میرے پاس آگئی ہے
ان کے تقوی کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس ایک لونڈی تھی جس نے ایک دفعہ خون کی الٹی کی تھی
ایک وقت بعد جب اسے بیچنے لگے تو خریدنے والے کو بتا دیا کہ ایک دفعہ اس نے ہمارے ہاں خون کی الٹی کی تھی یہ اس ڈر سے بتایا کہ کہیں اسے الٹی کا مرض نہ ہو اور خریدار کے ساتھ دھوکہ نہ ہو جائے
اللہ کے عذاب سے اس قدر شدید ڈرتے تھے کہ ایک دفعہ یہ آیت
"لا يحزنهم الفزع الأكبر”
پڑھی تو اس کا اتنا اثر لیا کہ دیکھنے والوں کو لگا جیسے ان کا چہرہ کبھی سبز اور کبھی زرد ہورہا ہے
ایک رات سورہ النبأ "عم يتساءلون” کی تلاوت کررہے تھے کہ غشی طاری ہو گئی
الإمام ابو زرعہ الرازي ان کے متعلق فرماتے ہیں :
ان میں علم، فقہ، عبادت اور زھد سب کچھ جمع ہے
ان سب کے باوجود ائمہ سلف نے ان سے اعراض کیا ہے ان پر بدعتی کا حکم لگایا ہے اور ان سے بچنے کا کہا ہے اور بعض نے تو ان سے روایت لینا چھوڑ دیا تھا
حتی کہ ان کے بارے أحمد بن يونس نے کہا:
"لو لم يُوْلَد الحسنُ بن صالح؛ لكان خيراً له”.
حسن بن صالح اگر پیدا ہی نہ ہوتا تو اچھا تھا
سوچیے کہ اتنے زھد ورع اور تقویٰ کے باوجود وہ کون سی غلطی ہے جس کی وجہ سے ائمہ سلف نے ان سے رویہ اختیار کیا؟ کہ اس کی نیکیوں اور مثبت کاموں کے باوجود اس سے میل جول سے منع کرتے رہے
اس کا گناہ یہ تھا کہ اس نے حاکم وقت کے خلاف اس کے ظلم کی وجہ سے خروج کو جائز قراد دیا تھا
حاکم کے پیچھے جمعہ نہیں پڑھتے تھے اور اس کے ساتھ مل کر جہاد نہیں کرتے تھے یعنی گویا کہ وہ حاکم وقت ظالم بادشاہ کو کافر سمجھتے تھے
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ محض اس کا اپنا رجحان تھا اس نے کسی کو خروج پر ابھارا نہیں تھا
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وہ خروج کو جائز سمجھتے تھے لیکن کبھی انہوں نے حکمرانوں کے خلاف قتال نہیں کیا تھا
اور فرماتے ہیں :
اگر اس میں یہ خرابی نہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کے اماموں میں سے ہوتے
ہمارے لیے یہاں پر یہ سبق ہے کہ اس کے زھد اور تقویٰ اور خشیت اور خوف خدا سے رونے اور آنسو بہانے سے ائمہ محدثین نے دھوکہ نہیں کھایا
بلکہ اس کی بد عقیدگی سے ہونے والے بڑے نقصان پر نظر رکھی
ابو سعید اشج کہتے ہیں میں نے ابن ادریس کو کہتے ہوئے سنا :
تبسّم سفيان الثوري؛ أحب إلينا من صَعْق الحسن بن صالح” !
سفیان ثوری (صحیح العقیدہ اور متبع سنہ) کا ہنسنا ہمارے نزدیک حسن بن صالح کی خوف خدا سے نکلنے والی چیخوں سے بہتر ہے
اور یہ بھی کہ ایسے بدعتی شخص کے ساتھ کوئی معاملہ نہ رکھا جائے اس کا علم و فضل چاہے جتنا بھی ہو
اور یہ کہ ہمارے اسلاف بندے کو اتباع سنت کے ترازو میں تولتے تھے نہ کہ اس کی وسعت علمی یا لمبی لمبی عبادت یا بہت زیادہ رونے میں
اور یہ بھی کہ بندہ کبھی بڑا عالم تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی بدعت پائی جاتی ہے جو اہل سنت کے کسی اصولی عقیدہ کے خلاف ہوتی ہے تو وہ اس بدعت کی وجہ سے اہل سنہ سے نکل جاتا ہے
یہ زندیق ہے اس سے علم حاصل نہ کرو
امام شافعی رحمہ اللہ (٢٠٤ھ) فرماتے ہیں : ”میں بغداد گیا تو بشر المریسی (امام الجہمیۃ والمعتزلۃ) کے گھر ٹھہرا۔ اس کی ماں نے مجھ سے پوچھا : بشر کے پاس کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا : علم لینے۔ کہنے لگیں : ”یہ زندیق ہے!“
(الإبانة الكبرى لابن بطة : ٣٤٥)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین میں قرابت داریاں نہیں دیکھی جاتیں، کوئی کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، اگر وہ گمراہ ہے تو اس سے بچنا اور لوگوں کو اس کی حقیقت بتلانا واجب ہے۔
بشر مریسی زاہد و عابد اور فقیہ تھا، اور قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے خاص اصحاب میں سے تھا۔ مگر اس کا علم اور عبادت اس کی گمراہیوں کیلیے ڈھال نہیں بن سکے۔
گمراہ استاد کی تباہ کاریاں
فرمایا
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
اور جس دن ظالم اپنے دونوں ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، کہے گا اے کاش! میں رسول کے ساتھ کچھ راستہ اختیار کرتا۔
الفرقان : 27
يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا
ہائے میری بربادی! کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔
الفرقان : 28
لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا
بے شک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والا ہے۔
الفرقان : 29
ایک بچے کے دو استاد اور دونوں کی الگ الگ تربیت
صحيح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک بچے کا لمبا واقعہ بیان کیا ہے جس میں ہمارے موضوع کے متعلق مختصر بات یہ ہے کہ وہ بچہ ایک جادوگر کا شاگرد بنا وہ جادو گر اسے شرکیہ جادوائی جنتر منتر اور بدعقیدہ اور بے ہودہ یاواگوئیاں سکھاتا تھا اسی دوران راستے میں ایک توحید پرست استاد سے بھی ملاقات ہو گئی اس استاد کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ بچے نے توحید اور درست عقیدہ سیکھنا شروع کر دیا
پھر آگے چل کر اس اچھے استاد کی اچھی تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس بچے کی دعوت پر ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا
ہر ایک سے دین نہ سیکھیں اور لوگوں کے ظاہری دستار و جبہ سے دھوکہ نہ کھائیں
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
دعوت و تبلیغ سے منسلک لوگوں سے متعلق ضروری ہے کہ ان کے بارے میں یہ معلوم کیا جائے
أين درسوا؟
وہ کہاں پڑھے ہیں
ومَن أين أخذوا العلم؟
انہوں نے علم کہاں سے سیکھا ہے
وأين نشأوا؟
وہ کس ماحول میں پروان چڑھے ہیں
وما هي عقيدتهم؟
ان کا عقیدہ کیا ہے
لہذا گمراہ داعیان اور مبلغین کے ظاہری اقوال اور وضع قطع سے دھوکہ کھانے کی بجائے ان کے احوال سے آگہی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے بالخصوص اس زمانے میں کہ جب گمراہی پھیلانے والے واعظین اور اسپیکرز کی بہتات ہے
«الإجابات المهمة» (٤٧-٤٨).
اگر آپ ہر ایک سے دین لینے لگو گے تو دین کو ضائع کر بیٹھو گے
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے کسی سائل نے داڑھی کے مسئلے میں سوال کیا کہ
"بعض اخوان(بھائی) کہتے ہیں”
تو شیخ رحمہ اللہ نے جواب کے آغاز میں بہت قیمتی کلمات کہے :
العلم لا يؤخذ من الإخوان ، بل يؤخذ من أهله ، وإذا أردت أن تجعل دينك عرضة لكل متكلم ضاع عليك دينك
یعنی یہ دین اخوان(بھائیوں) سے نہیں لیا جاتا اہل علم سے لیا جاتا ہے، اگر آپ ہر ہر متکلم سے دین لینے لگو گے تو دین کو ضایع کر بیٹھو گے
*پوچھئے کہ آپ کے اساتذہ کون ہیں؟ *
آج کل بڑے جبہ پوش اور اصحابِ دستار سوشل میڈیا میں اپنے آپ کو اسلامی اسکالر کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور عجیب و غریب باتیں کر کے علم سے ناواقف نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا رہے ہیں ایسا کوئی بھی دستار پوش آپ کے سامنے آ کر بیان کرنے کی کوشش کرے تو اس سے پوچھیے:
جناب پہلے یہ بتاؤ، آپ کے اساتذہ کون ہیں، آپ نے کن اساتذہ سے پڑھا اور علم شرعی سیکھا ہے؟
یہی وہ اصول ہے جو امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے:
کہ پہلے سلسلہ اساتذہ کے متعلق نہیں پوچھا جاتا تھا، مگر جب فتنہ پھیل گیا تو پوچھا جانے لگا:
سمُّوا لنا رجالكم، فيُنْظَر إلى حديث أهل السنة فيُؤْخَذ حديثهم، ويُنْظَرُ إلى أهل البدع فلا يُؤْخَذ حديثهم.
بتاو! تم نے علم کن سے لیا ہے؟ اگر وہ اہل سنت نکلتے تو ان سے دین لیا جاتا لیکن اگر کوئی بدعتی نکلتا تو اس سے دین نہیں لیا جاتا تھا۔
بقول شاعر
دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا
علم مشہور لوگوں سے حاصل کرو۔
امير المؤمنين في الحديث شعبۃ بن الحجاج رحمہ اللہ (١٦٠ھ) فرماتے ہیں :
"خُذُوا العِلْمَ مِنَ المَشْهُورِين”
الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 28/2
”علم مشہور لوگوں سے حاصل کرو۔“
اس شُہرت میں کئی امور شامل ہیں :
1 طلبِ علم میں مشہور ہونا۔
2 عقیدہ و منہج میں مشہور ہونا۔
3 قرآن و حدیث کے مشہور اساتذہ کا شاگرد ہو
مثال کے طور آج کے دور میں انجینئر محمد علی مرزا کا طالب علمی دور کون جانتا ہے؟
اس کے کوئی معروف کلاس فیلوز ہیں؟
کتاب و سنت کے ساتھ تمسک رکھنے والے مشہور شیوخ میں سے اس کا استاد کون ہے؟
بدعقیدہ مصنفین کی کتب کا مطالعہ نہ کریں
الشيخ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے ہیں :
أخطأ من ينصح الشباب بقراءة كتب سيد قطب وحسن البنا
[ رسائل وفتاوى ٩٩/٣ ]
وہ شخص غلطی کرتا ہے جو نوجوانوں کو سید قطب اور حسن البنا کی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے
امام احمد رحمه الله
حارث محاسبي جیسے زاہد كى اچھی اچھی خشوع وزهد والى کتابیں پڑھنے سے سختى سے منع کیا کرتے تھے
إمام ابوزرعة الرازي رحمه الله بیان کرتے ہیں
جس کیلئے كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم اور سلف كى كتب میں ہدایت نہیں اسکو ان بدعتيوں کی کتابوں سے کہاں ہدایت مل سکتی
فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں
یہ میرا فتویٰ سمجھ لیجیے۔۔۔۔
کہ جس انسان کے منہج کا آپ کو علم نہ ہو اسے سننا جائز نہیں ہے_
محدثین غلط لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے سے منع کیا کرتے تھے
محدث إسماعيل بن علية کہتے ہیں مجھے سعيد بن جبير رحمه الله نے کہا :
لا تجالسوا طلقا لأنه مرجئ
الإبانة
طلق کیساتھ نہ بیٹھا کرو کیونکہ وہ مرجی ہے
هشام بن حسان کہتے ہیں حسن بصری اور محمد بن سیرین رحمھما اللہ کہا کرتے تھے :
لا تجالسوا اصحاب الأهواء ولا تجادلوهم ولا تسمعوا منهم
سنن دارمى وغيره
حدیث کو چھوڑ کر اپنی یا کسی کی رائے پر عمل پیرا لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھو نہ ان سے بحث و تکرار کرو نہ ان کی باتیں سنو
ثابت بن عجلان تابعی کہتے ہیں :
میں نے
أنس بن مالك رضي الله عنه سعيد بن مسيب، حسن بصري، سعيد بن جبير، شعبي، ابراهيم نخعي، عطاء بن أبي رباح، طاوس، مجاهد، زهري، مكحول، قاسم ،عطاء خراساني ،ثابت بناني، حكم بن عتيبة، ايوب سختياني، حماد، محمد بن سيرين، ابوعامر، يزيد الرقاشي اور سليمان بن موسى
رحمھم اللہ جمیعا سے ملاقات کی
کہتے ہیں :
كلهم يامرونني بالجماعة وينهوني عن مجالسة أصحاب الأهواء
سب کے سب نے اہل سنت سے چمٹے رہنے اور اہلِ رائے (حدیث کو چھوڑ کر اپنی یا کسی کی رائے پر عمل پیرا لوگوں) کی مجلسوں سے دور رہنے کا حکم دیا
حضرت ابن عباس رضي الله عنه ابو صالح ذكوان السمان رحمه الله سے کہتے ہیں:
"لا تجالس أهل الأهواء فإن مجالستهم ممرضة للقلوب”
[رواه أبو بكر الآجري في الشريعة(ص٦٥) بإسناد حسن].
خواہشات کے پجاریوں کے پاس نہ بیٹھا کریں کیونکہ ان کی مجالس دلوں کو بیمار کر دیتی ہے
بدعتیوں کے ساتھ بیٹھے تو انہی جیسے بن گئے
امام ابن بطة رحمه الله فرماتے ہیں :
عرفنا أناساً كانوا يسبون ويلعنون أهل البدع فجالسوهم وعاشروهم فأصبحوا منهم
الإبانة الكبرى (2/ 470)
ہم ایسے لوگوں کو جانتے تھے جو اہل بدعت پر طعن و تشنیع کرتے تھے، بس جب وہ ان کے ساتھ بیٹھنے لگے اور ان کے ساتھ رہنے لگے، تو لیے وہ ان ہی میں سے ہو گئے۔
امام ذھبی رحمہ اللہ نے ابن الریوندی زندیق کے بارے میں نقل کیا کہ : وَكَانَ يُلاَزِمُ الرَّافِضَةَ وَالمَلاَحِدَةَ، فَإِذَا عُوتِبَ، قَالَ: إِنَّمَا أُرِيْدُ أَنْ أَعْرِفَ أَقوَالَهُم ثُمَّ إِنَّهُ كَاشَفَ، وَنَاظَرَ، وَأَبْرَزَ الشُّبَهَ وَالشُّكُوكَ .
سیر اعلام النبلاء : 59/14
وہ روافض اور ملحد حضرات سے بہت میل جول رکھتا تھا اور جب اسے روکا جاتا تو کہتا کہ میں تو صرف ان کے اقوال جاننا چاہتا ہوں لیکن پھر کیا ہوا کہ بالآخر وہ خود بھی ملحد و زندیق ہوگیا اور دین اور اہل دین سے دور ہوگیا۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
میں اس سے بہت کچھ سنا کرتا تھا یہاں تک کہ جب میں نے اس سے ایسی چیزیں دیکھیں جو مجھے کھٹکتی تھیں تو میں نے اسے چھوڑ دیا
یہی وجہ ہے کہ علماء ان لوگوں کو جو حق اور باطل میں فرق نہیں کر سکتے روکتے ان اہل بدعت کے دروس سننے اور کتابیں پڑھنے سے ۔ اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے گمراہی کی دلدل میں گر گئے کہ جو کہتے تھے ہم ان اہل بدعت و روافض کی صحیح باتیں لے گے اور غلط باتیں چھوڑ دیں گے ، وہ اچھی باتوں کے چکر میں خود کو شرک و کفر سے گندا کر بیٹھے۔ حق اور باطل میں فرق صرف اہل علم ہی کر سکتے ہیں اس لیے عوام الناس کو اجازت نہیں گمراہ لوگوں کو سننے یا پڑھنے کی۔
بدعتی عورت سے شادی بھی خطرناک ہو سکتی ہے
فقد تزوج عمران بن حطان امرأة جميلة من الخوراج، وقال: إنه سيردها لأهل_السُنة فصار هو من زعماء الخوارج !! .
[سير أعلام النبلاء ص 214]
عمران بن حطان نے خوارج کی ایک خوبصورت عورت کے ساتھ شادی کی اور کہتا تھا کہ وہ اسے اہل السنہ کی طرف لوٹائے گا لیکن پھر اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک وقت کے بعد وہ خود خوارج کا لیڈر بن گیا
کتنی مثالیں ملتی ہیں کہ
اہل سنہ کے گھر اہل بدعہ یا روافض و خوارج کی کوئی عورت بہو بن کر آئی تو چند سالوں بعد سارا گھرانہ کلی یا جزوی طور پر اسی رنگ میں رنگا گیا
شیعہ استاد سے ٹیوشن پڑھنے کا نقصان
ملک محمد سبحان(صوفی محمد عبداللہ کے دادا) اور ان کے بیٹے قادر بخش فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ ملک قادر بخش کے ایک لڑکے ملک محمد رمضان اور داماد منشی محمد دین نے شیعہ مذہب اختیار کر لیا تھا۔ وہ اس طرح کہ ایک شخص ماسٹر برکت علی سے جو شیعہ تھے، یہ ٹیوشن پڑھا کرتے تھے؛ ان سے متاثر ہو کر یہ بھی شیعہ ہو گئے۔ ملک قادر بخش نے ان کو بہت سمجھایا، سختی بھی کی، لیکن یی شیعہ ہی رہے۔ ان دونوں کی اولاد میں سے بھی زیادہ افراد شیعہ ہی۔
صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ
حیات، خدمات، آثار : 78
مامون الرشید کو خلق قرآن پر قائل کرنے والا اس کا بدعقیدہ استاد
یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابوداؤد تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل اور فصیح و بلیغ آدمی تھا معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اپنی قابلیت کی وجہ سے مامون کے دماغ پر چھا گیا اور اسکو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کی ترویج و اشاعت پر آمادہ کیا اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے۔ اس عقیدے کی اشاعت کی جانی چاہیے
مامون نے روم و ایران اور ہندوستان وغیرہ سے منطق و فلسفہ کی کتابیں جمع کیں اور ان کے ترجمے کراۓ ان کی اشاعت ہوئی جس کی وجہ سے طرح طرح کے شکوک وشبہات عوام میں پیدا ہونے لگے
بدعقیدہ اساتذہ کی وجہ سے معتزلی بن گیا
علامہ ابو الوفا ابن عقیل رحمہ اللہ علماے حنابلہ کے بہت بڑے امام تھے۔
علمائے حنابلہ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عقیدے کے باب میں بہت ٹھوس ہوتے ہیں، سوائے چند حضرات کے جو راہ راست سے بھٹک گئے۔ ان میں سے ایک یہ ابو الوفا ابن عقیل بھی ہیں۔
معلوم ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أخذ علم الكلام عن أبي علي بن الوليد، وأبي القاسم بن التبان، صاحبي أبي الحسين البصري شيخ المعتزلة، ومن ثم حصل فيه شائبة تجهم واعتزال، وانحراف عن السنة”
(معرفة القراء الكبار على الطبقات والأعصار (ص: 261)
انہوں نے ایک معتزلی شیخ ابوالحسین بصری کے شاگردوں ابو علی بن ولید اور ابوالقاسم بن تبان سے علم الکلام سیکھا یہیں سے ان میں جہمیہ اور معتزلہ کے شبہات پیدا ہو گئے اور اہل سنہ سے منحرف ہو گئے
ایک شبہ
شیطان کے آیۃ الکرسی سکھانے والے واقعہ سے استدلال
جب ہم اپنے بھائیوں کو مرزا جہلمی، اسحاق جھالوی یا اس طرح کے گمراہ داعیان اور مبلغین سے روکتے ہیں تو آگے سے اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ خوامخواہ سختی کرتے ہیں اس میں کیا حرج ہے
"اچھی بات تو شیطان سے بھی لے لینی چاہیے”
"شیطان نے ہی مال کی حفاظت کے لیے آیت الکرسی پڑھنے کا سبق دیا تھا”
یہ استدلال کئی طرح سے غلط ہے
شیطان سے آیت الکرسی سیکھنے اور گمراہ واعظین کی تقریریں سننے میں بہت فرق ہے
1 یہ ایک ہنگامی اور اتفاقی ملاقات تھی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ شیطان کے سامنے زانوئے تلمذ نہیں رکھے یا شیطان کے چینل کو اہتمام سے آن نہیں کیا تھا
جبکہ لوگ گمراہ واعظین کو پورے اہتمام، منصوبے اور پروگرام سے سنتے ہیں
2 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ قصد کرکے حصولِ علم کی خاطر شیطان کی طرف رخت سفر نہیں باندھا تھا
جبکہ لوگ گمراہ اسپیکرز کی محفلوں، جلسوں اور اکیڈمیوں کی طرف پورے اہتمام سے جاتے ہیں
3 اس وقت شیطان کی پوزیشن کمزور اور پھنسے ہوئے شخص کی طرح تھی اسے اپنی جان بچانے کی جلدی تھی ایمرجنسی حالت میں وہ اپنا وار نہیں کرسکتا تھا بس کوئی اچھی بات بتا کر جلدی سے نکلنا چاہتا تھا
جبکہ گمراہ مبلغین کا معاملہ اس کے الٹ ہے
4 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صرف شیطان کی بات کو کافی نہیں سمجھا بلکہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصدیق کروائی اور پھر اس پر عمل کیا، یوں ابوہریرہ کے استاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنے نہ کہ شیطان
جبکہ جو لوگ ان گمراہوں کو سنتے ہیں وہ پھر آہستہ آہستہ ان کی باتوں کو ہی حرف آخر سمجھ لیتے ہیں اور انہیں قرآن و حدیث کی کسوٹی میں پرکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے
5 اس کے بعد یا اس سے پہلے دوبارہ کبھی بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے شیطان سے سیکھنے کی کوئی خواہش یا کوشش نہیں کی
جبکہ لوگ ان گمراہوں کو بار بار سنتے ہیں
6 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دل میں شیطان کے لیے کوئی محبت، عقیدت یا احترام نہ تھا
جبکہ لوگوں کے دلوں میں ان گمراہوں کی محبت، عقیدت احترام اور رعب و دبدبہ بیٹھا ہوتا ہے
ایک اور شبہ
بدر کے کافر قیدیوں سے سیکھا جا سکتا ہے تو کلمہ گو واعظین سے کیوں نہیں
یہ استدلال بھی درست نہیں ہے
ایک تو یہ کہ وہ کوئی دینی شرعی یا عقیدے کا علم نہیں تھا بس پڑھنے اور لکھنے کی حد تک ایک فن کے طور پر تھا
نیز
وہ بطورِ استاد نہیں بلکہ جان بچانے کی خاطر بطورِ تاوان یا بطورِ فدیہ اپنے مالکوں کے سامنے مزدوری کر رہے تھے
نیز
انہیں اپنی جان بچانے کی فکر دامن گیر تھی اور وہ زہنی طور پر اتنے پریشان تھے کہ اپنے کفریہ عقائد و نظریات مسلمانوں میں منتقل کر ہی نہیں سکتے تھے
لھذا
وہ اندر ہی اندر بہت ڈرے اور سہمے ہوئے تھے انہوں نے سن رکھا تھا کہ ان کی گردنیں اتارنے کا منصوبہ بھی زیر غور رہا ہے اور وہ یہ بات خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ہم نے ان کے عقائد و نظریات سے ہلکی سی بھی چھیڑ چھاڑ کی تو گردن اتر سکتی ہے
یہاں
سیکھنے والوں کے دلوں میں ان کی کوئی عزت و تکریم یا رعب و جلال نہیں تھا بلکہ سکھانے والے سیکھنے والوں کے ممنون تھے
الغرض اس واقعہ کو گمراہ لوگوں کو استاد بنانے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا
گمراہ لوگوں کو استاد مت بنائیں*
مرشد پھڑئے چُن کے
دیکھنا کہیں سیدھی راہ مل جانے کے بعد کوئی گمراہ اسپیکر تمہیں ورغلا نہ جائے
نیم حکیم خطرہ جان، نیم استاد خطرہ ایمان
ایسے گمراہ اور فتنہ پرور واعظین اور دعاۃ کی طرف جھانکیں بھی نہ
کانوں میں انگلیاں لے لیں
امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ کن لوگوں سے تھا
جہنم کی طرف دعوت دینے والے مبلغین
گمراہ لوگوں سے علم حاصل کرنا گمراہی ہے
آج کتنے سلفی نوجوان ایسے ہیں
بد عقیدہ آدمی سے تو قرآن و حدیث بھی نہیں سننا چاہیے
ایک بہت ہی عبادت گزار عالم لیکن سلف نے اسے استاد پکڑنے سے منع کر دیا
یہ زندیق ہے اس سے علم حاصل نہ کرو
گمراہ استاد کی تباہ کاریاں
ایک بچے کے دو استاد اور دونوں کی الگ الگ تربیت
ہر ایک سے دین نہ سیکھیں اور لوگوں کے ظاہری دستار و جبہ سے دھوکہ نہ کھائیں
اگر آپ ہر ایک سے دین لینے لگو گے تو دین کو ضائع کر بیٹھو گے
پوچھئے کہ آپ کے اساتذہ کون ہیں؟
علم مشہور لوگوں سے حاصل کرو۔
بدعقیدہ مصنفین کی کتب کا مطالعہ نہ کریں
امام احمد رحمه الله
إمام ابوزرعة الرازي رحمه الله بیان کرتے ہیں
فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں
محدثین غلط لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے سے منع کیا کرتے تھے
بدعتیوں کے ساتھ بیٹھے تو انہی جیسے بن گئے
بدعتی عورت سے شادی بھی خطرناک ہو سکتی ہے
کتنی مثالیں ملتی ہیں کہ
شیعہ استاد سے ٹیوشن پڑھنے کا نقصان
مامون الرشید کو خلق قرآن پر قائل کرنے والا اس کا بدعقیدہ استاد
بدعقیدہ اساتذہ کی وجہ سے معتزلی بن گیا