وعدہ کی پاسداری: عظیم لوگوں کا شیوہ

❄وعدہ کی پاسداری کی اہمیت ❄وعدہ وفا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے
❄ وعدہ وفا کرنا انبیاء کی صفت ہے ❄ وعدہ وفائی اور صحابہ کرام
❄ وعدہ خلافی کی مذمت
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا  [بنی اسرائیل: 34]
ذی وقار سامعین!
اسلام ایک مکمل ، کامل اور اکمل دین ہے جو عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، معاشرتی انصاف، اور روزمرہ کے معاملات کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں انسان کے لئے ہدایت ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرے، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے، اور معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔
اسلام میں عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوة اور حج کی اہمیت تو ہے ہی، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی میں ایمانداری، سچائی، عدل اور رحم دلی کو اپنائے۔ اسلامی تعلیمات میں یہ بات واضح ہے کہ ایک مومن کی پہچان اس کے اعمال اور اخلاق سے ہوتی ہے۔
معاشرتی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری ایفائے عہد یعنی وعدہ کی پاسداری بھی ہے ، وعدے کی پاسداری انسان کی اخلاقی اور سماجی زندگی میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف فرد کی شناخت بلکہ اس کے کردار کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے۔ جب ہم کسی سے وعدہ کرتے ہیں، تو دراصل ہم اس کے ساتھ ایک عزم کرتے ہیں، جس کی بنیاد اعتماد اور وفاداری پر ہوتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بھی وعدے کی پاسداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن اور سنت میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مومن کی پہچان اس کی دیانتداری اور وعدوں کی تکمیل سے ہوتی ہے۔ وعدے کی خلاف ورزی نہ صرف ذاتی اعتبار کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ سماج میں عدم اعتماد کی فضا بھی پیدا کرتی ہے۔
وعدہ ایک ایسا عہد یا معاہدہ ہے جو کسی شخص کی طرف سے دوسرے شخص کے ساتھ کسی خاص کام یا فعل کو انجام دینے کا یقین دلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ وعدہ میں عام طور پر یہ شامل ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی مخصوص وقت میں یا کسی مخصوص حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے گا۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے وعدہ کی پاسداری کے حوالے سے بات کریں گے۔
وعدہ کی پاسداری کی اہمیت
وعدہ کی پاسداری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے کئی مقامات پر اہل ایمان کو خود(اللہ تعالیٰ)سے اور عام لوگوں سے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا ہےاور وعدہ پورا کرنے والوں کی تحسین فرمائی ہے:
❄اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا
”اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔“ [بنی اسرائیل: 34]
❄ارشاد ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو۔“ [المائدہ: 1]
❄قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
”اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔“ [المؤمنون: 8]
❄نیکی کے کاموں کی تفصیل بتاتے ہوئےاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا
”اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں۔“ [البقرہ: 177]
❄ اللہ تعالیٰ نےاولوالالباب(اہلِ دانش) لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ
”جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور پختہ عہد کو نہیں توڑتے۔“ [الرعد: 20]
❄ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
”اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمھیں دیا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ [الانعام: 152]
❄ارشاد ربانی ہے:
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
”اور اللہ کا عہد پورا کرو جب آپس میں عہد کرو اور قسموں کو ان کے پختہ کرنے کے بعد مت توڑو، حالانکہ یقیناً تم نے اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنایا ہے۔ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔“ [النحل: 91]
اسی طرح آقا نے احادیث مبارکہ میں وعدہ پورا کرنے کی ترغیب دلائی ہے:
❄حضرت عبادۃ  سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
اضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمْ الْجَنَّةَ: اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُمْ، وَأَدُّوا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ .
”مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو،میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں،جب تم بات کرو تو سچ بولو،جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو،جب امین بنایا جائے تو اسے ادا کرو،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو،آنکھیں نیچی رکھو اور ہاتھوں کو روکے رکھو،کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔“ [مسند احمد: 22757 حسن لغیرہ]
وعدہ وفا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے
وعدہ پورا کرنا اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ہے، قرآن مجید کے چند مقامات پیش خدمت ہیں:
❄ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
”بے شک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔“ [آل عمران: 9]
❄وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
”اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ [الروم: 6]
❄وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ
”اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟“ [التوبہ: 111]
❄رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ
”اے ہمارے رب! اور ہمیں عطا فرما جس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، بے شک تو وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔“
[آل عمران: 194]
وعدہ وفا کرنا انبیاء کی صفت ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ وعدہ کے سچے تھے:
1۔ سیدنا ابراہیم :
سیدنا ابراہیم اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
حضرت سیدنا ابراھیم  کے تذکرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
أَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِی صُحُفِ مُوْسٰی وَ اِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی
”کیا اسے ان باتوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جو موسی  اور ابراہیم  کے صحیفوں میں بیان ہوئی جس نے حق ادا کردیا۔“ [النجم: 37]
یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے احکام کی تبلیغ کی جو ذمہ داری ان پر ڈالی گئی تھی،اسے انہوں نے بکمال پورا کیا،اور اسی عہد ووفاکا نتیجہ تھا،کہ باپ کی تمام تر سختیوں کے باوصف جو اس سے فرمایا:
سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْ
”میں تیرے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا۔“ [مریم: 35]
اس بات کو اس کی زندگی بھر پورا کرتے ہیں۔
وَمَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِأَبِیْہٖ اِلاَّ عَن مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہٗ ج فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ أَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ
”اور جو ابراہیم  نے اپنے باپ کے لئے مغفرت کی دعا مانگی تھی تو یہ محض ایک وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا،پھر جب ابراہیم  پر واضح ہوگیا کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔“ [التوبہ: 114]
حضرت ابراہیم  نے حسب وعدہ باپ کے لئے دعا کی جیساکہ [الشعراء: ۸۶] میں بھی ذکر ہے مگر یہ اس وقت تک تھا جب انہیں امید تھی کہ ان کا باپ شرک سے توبہ کرکے مسلمان ہوجائے گا،مگر جب وہ اس سے مایوس ہوگئے اور وہ کفر کی حالت میں فوت ہوگیا تو اس سے براءت کا اعلان فرما دیا،زندگی میں تو امید رہتی ہے کہ شاید توفیق ہدایت ہوجائے اس لئے باپ کی ہدایت و مغفرت کی دعا کرتے رہے،لیکن موت کے بعد اس کی امید نہ رہی تو دعا بھی چھوڑ دی۔ [فلاح کی راہیں: ص165]
2۔ سیدنا اسماعیل :
سیدنا اسماعیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا
”اور کتاب میں اسماعیل کا ذکر کر، یقیناً وہ وعدے کا سچا تھا اور ایسا رسول جو نبی تھا۔“[مریم: 54]
دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ سیدنا اسماعیل کا ایک یہ وصف بھی تھا کہ وہ وعدے کے سچے تھے ، جو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میں صبر کروں گا ، وہ وعدہ انہوں نے پورا کر دکھایا ، فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں؛
گو تمام انبیاء وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر اسماعیل علیہ السلام میں یہ صفت خاص طور پر پائی جاتی تھی۔ سب سے پہلے تو ان میں یہ وصف تھا کہ وہ وعدے کے ساتھ ’’ان شاء اللہ‘‘ کہہ لیا کرتے تھے، جیسا کہ انھوں نے والد سے وعدہ کرتے وقت کہا تھا؛
سَتَجِدُنِيْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ
’’اگر اللہ نے چاہا تو تُو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔‘‘ [الصافات : 102]
پھر یہ وعدے کی سچائی ہی تھی کہ انھوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ ذبح ہوتے وقت صبر کروں گا، پھر بے دھڑک چھری کے نیچے لیٹ گئے اور اف تک نہ کیا۔ اس سے بڑھ کر وعدہ وفائی کیا ہو گی؟
3۔ نبی اکرمﷺ:
نبی اکرمﷺوعدہ وفا تھے ، وعدہ پورا کیا کرتے تھے ، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
❄ہرقل کے دربار میں سیدنا ابوسفیان اور ہرقل کا مکالمہ ہوا ، ہرقل نے پوچھا کہ وہ نبی محمدﷺکس چیز کی دعوت دیتے ہیں ، تو سیدنا ابوسفیان نے کہا:
يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لاَ نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ
”وہ اس کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں ، ہ میں ان بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ، نماز ، صدقہ ، پاک بازی و مروت ، وفاءعہد اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔“ [صحیح بخاری: 2941]
❄صلح حدیبیہ کی شرائط میں مشرکین مکہ کے سفیر سہیل بن عمرو  کی طرف سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ
لَا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا
”ہماری طرف سے جو شخص تمھاری طرف آئے، اگرچہ وہ تمھارے دین پر ہو، اس کو آپ نے ہماری طرف واپس کرنا ہوگا۔“
 مسلمانوں نے کہا: سبحان اللہ ! وہ کس لیے مشرکوں کے حوالے کیا جائے جبکہ وہ مسلمان ہو کر آیا ہے؟ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ابو جندل بن سہیل بن عمرو بیڑیاں پہنے ہوئے آہستہ آہستہ مکہ کی نشیبی طرف سے آتے ہوئے معلوم ہوئے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں پہنچ گئے۔ سہیل نے کہا: اے محمد!( ﷺ )سب سے پہلی بات جس پر ہم صلح کرتے ہیں کہ اس کو مجھے واپس کر دو۔ نبی ﷺ نےفرمایا: ’’ابھی تو صلح نامہ پورا لکھا بھی نہیں گیا۔‘‘ سہیل نے کہا: تو پھر اللہ کی قسم !میں تم سے کسی بات پر صلح نہیں کرتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا تم اس کی مجھے اجازت دے دو۔‘‘ سہیل نے کہا: میں تمھیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ نبی ﷺ نے مکرز سےفرمایا: ’’نہیں، تم مجھے اس کی اجازت دے دو۔‘‘ اس نے کہا: میں نہیں دوں گا۔ مکرز بولا: اچھا ہم آپ کی خاطر اس کی اجازت دیتے ہیں۔ (مگر اس کی بات نہیں مانی گئی۔ ) بالآخر حضرت ابو جندل  بول اٹھے۔ اے مسلمانو! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کر دیا جاؤں گا، حالانکہ میں مسلمان ہو کر آیا ہوں؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں نے کیا کیا مصیبتیں اٹھائی ہیں؟درحقیقت اسلام کی راہ میں اسے سخت تکلیف دی گئی تھی۔(پھر اس کو واپس بھیج دیا گیا) [صحیح بخاری: 2731]
❄رسول اللہﷺحدیبیہ سے مدینہ واپس تشریف لاکر مطمئن ہوچکے تو ایک مسلمان جسے مکہ میں اذیتیں دی جارہی تھیں چھوٹ کر بھاگ آیا۔ ان کا نام ابو بصیر تھا۔ وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ اور قریش کے حلیف تھے۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دوآدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد وپیمان ہے اس کی تعمیل کیجیے۔ نبیﷺ نے ابو بصیر کو ان دونوں کے حوالے کردیا۔ یہ دونوں انہیں ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ اور ذُو الحلیفہ پہنچ کر اترے ، اور کھجور کھانے لگے۔ ابو بصیر نے ایک شخص سے کہا : اے فلاں ! اللہ کی قسم! میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ تلوار بڑی عمدہ ہے۔ اس شخص نے اسے نیام سے نکال کر کہا : ہاں ہاں ! واللہ یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے۔ ابو بصیر نے کہا: ذرا مجھے دکھلاؤ ، میں بھی دیکھوں۔ اس شخص نے ابو بصیر کو تلوار دے دی۔ اور ابوبصیر نے تلوار لیتے ہی اسے مار کر ڈھیر کردیا۔
دوسر اشخص بھاگ کر مدینہ آیا اور دوڑتا ہو ا مسجد نبوی میں گھس گیا۔ رسول اللہﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا : اس نے خطرہ دیکھا ہے۔ وہ شخص نبیﷺ کے پاس پہنچ کر بولا : میرا ساتھی اللہ کی قسم قتل کردیا گیا۔ اور میں بھی قتل ہی کیا جانے والا ہوں۔ اتنے میں ابو بصیر آگئے۔ اور بولے : یا رسول اللہ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کردیا۔ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی۔ رسول اللہﷺنے فرمایا : اس کی ماں کی بربادی ہو۔ اسے کوئی ساتھی مل جائے تو یہ تو جنگ کی آگ بھڑکا دے گا۔ یہ بات سن کر ابو بصیر سمجھ گئے کہ اب انہیں پھر کافروں کے حوالے کیا جائے گا۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے۔ ادھر ابو جندل بن سہیل بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے۔ اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لاکر بھاگتا وہ ابو بصیر سے آملتا۔ یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی۔
اس کے بعد ان لوگوں کو ملک شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتاتو وہ اس سے ضرور چھیڑ چھاڑ کرتے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبیﷺکو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلالیں۔ اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا مامون رہے گا۔  اس کے بعد نبیﷺنے انھیں بلوالیا اور وہ مدینہ آگئے۔]  صحیح بخاری: 2731[
❄سیدنا ابورافع کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہﷺکے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہﷺنے فرمایا:
اِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنْ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ
”میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا۔“
ابورافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول اللہﷺکے پاس آ کر مسلمان ہو گیا۔ ]  ابوداؤد: 2758 صححہ الالبانی[
❄ حضرت حذیفہ بن یمان نے بیان کیا کہ جنگ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں اور میرے والد حُسَیل   (جو یمان کے لقب سے معروف تھے) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا: تم محمدﷺ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: ان کے پاس جانا نہیں چاہتے، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ ﷺ کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے، ہم نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی، آپﷺ نے فرمایا:
انْصَرِفَا، نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَنَسْتَعِينُ اللهَ عَلَيْهِمْ
”تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے۔“ ]  صحیح مسلم: 4639 [
❄آنحضرت ﷺ دشمن کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کی بھی پاسداری کرتے تھے۔ آپ عسکری مہمات کے لیے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو روانہ کرتے ہوئے انھیں بھی وعدے کی پاسداری کا حکم فرمایا کرتے تھے۔]  صحیح مسلم: 4522[
وعدہ وفائی اور صحابہ کرام
آقا  کے صحابہ بھی وعدہ پورا کیا کرتے تھے:
سیدنا أبو بکر صدیق :
سیدنا جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:
لَمَّا مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ أَبَا بَكْرٍ مَالٌ مِنْ قِبَلِ العَلاَءِ بْنِ الحَضْرَمِيِّ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: «مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ كَانَتْ لَهُ قِبَلَهُ عِدَةٌ، فَلْيَأْتِنَا»، قَالَ جَابِرٌ: فَقُلْتُ: وَعَدَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْطِيَنِي هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَبَسَطَ يَدَيْهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالَ جَابِرٌ: فَعَدَّ فِي يَدِي خَمْسَ مِائَةٍ، ثُمَّ خَمْسَ مِائَةٍ، ثُمَّ خَمْسَ مِائَةٍ
نبی کریمﷺکی وفات کے بعد حضرت ابوبکر  کے پاس ( بحرین کے عامل ) علاء بن حضرمی  کی طرف سے مال آیا۔ ابوبکر  نے اعلان کرادیا کہ جس کسی کا بھی نبی کریم ﷺ پر کوئی قرض ہو ، یا آنحضرت ﷺ کا اس سے وعدہ ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ ﷺ اتنا مال مجھے عطا فرمائیں گے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر  نے تین مرتبہ اپنے ہاتھ بڑھائے اور میرے ہاتھ پر پانچ سو پھر پانچ سو اور پھر پانچ سو گن دئیے۔ [صحیح بخاری: 2683]
سیدنا امیر معاویہ :
سیدنا سلیم بن عامر سے روایت ہے اور یہ قبیلہ حمیر سے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ ( صلح و امن ) ہو چکا تھا اور ( معاویہ ان ایام معاہدہ میں ) ان کے علاقوں کی طرف کوچ کر رہے تھے تاکہ جونہی معاہدے کی مدت ختم ہو ( اچانک ) ان پر چڑھائی کر دیں ‘ تو عربی گھوڑے یا ترکی گھوڑے پر سوار ایک شخص ان کی طرف آیا ۔ ” وہ «الله اكبر ، الله اكبر» وفاداری ہو ‘ غدر نہیں ‘ پکارتا آ رہا تھا ۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ صحابی رسول سیدنا عمرو بن عبسہ تھے ۔ معاویہ نہ انہیں بلوایا اور پوچھا ‘ تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَشُدُّ عُقْدَةً، وَلَا يَحُلُّهَا، حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ
 ” جس کا دوسری قوم سے کوئی معاہدہ ہو تو وہ اس وقت تک کوئی نیا معاہدہ نہ کرے اور نہ اسے ختم کرے جب تک کہ پہلے معاہدے کی مدت باقی ہو یا برابری کی سطح پر اسے توڑنے کا اعلان کر دے ۔ “
 فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ.چنانچہ معاویہ لوٹ آئے ۔ ]  ابوداؤد: 2759 صححہ الالبانی[
وعدہ خلافی کی مذمت
ہماری شریعت میں وعدہ خلافی کی بہت زیادہ مذمت بیان کی گئی ہے:
❄اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ،الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ ”بے شک سب جانوروں سے برے اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا، سو وہ ایمان نہیں لاتے۔ وہ جن سے تو نے عہد باندھا، پھر وہ اپنا عہد ہر بار توڑ دیتے ہیں اور وہ نہیں ڈرتے۔“ ]  الانفال: 56-55 [
❄سیدنا انس کہتے ہیں:
قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ:” لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ”.
”نبیﷺنے بہت کم ہمیں کوئی خطبہ ایسا دیا ہے جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو اور اس شخص کا دین نہیں جس کے پاس وعدہ کی پاسداری نہ ہو۔“ [مسند احمد: 12567 حسن]
❄سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
  آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
”منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔“ [صحیح بخاری: 33]
❄عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
ما نَقَضَ قومٌ العهدَ قطُّ إلا كان القتلُ بينهم، وما ظهرت فاحشةٌ في قومٍ قط إلا سلَّطَ اللهُ عزَّ وجلَّ عليهم الموتَ، ولا منع قومٌ الزكاةَ إلا حبسَ اللهُ عنهم القطرَ
”جو قوم عہد توڑتی ہے اس میں قتل عام ہو جاتا ہے، جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر موت مسلط کر دیتا ہے اور جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی اللہ تعالیٰ اس سے بارش روک لیتا ہے۔“ ]  سلسلہ صحیحہ: 1405[
❄عبداللہ بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْغَادِرَ يَنْصِبُ اللهُ لَهُ لِوَاءً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: أَلَا هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ
 ”بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن اللہ ایک جھنڈا نصب کرے گا اور کہا جائے گا: سنو! یہ فلاں کی عہد شکنی (کا نشان) ہے۔“  ]  صحیح مسلم: 4531 [
❄سیدنا عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يُنْصَبُ بِغَدْرَتِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ
”ہر دغاباز کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جو اس کی دغابازی کی علامت کے طور پر ( اس کے پیچھے ) گاڑ دیا جائے گا ۔“ [صحیح بخاری: 3188]
❄سیدنا أبو سعید کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ، أَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ
”عہد شکنی کرنے والے ہر شخص کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جو اس کی بدعہدی کے بقدر بلند کیا جائے گا، سنو! عہد شکنی میں کوئی عوام کے (عہد شکن) امیر سے بڑا نہیں ہو گا۔“ ]  صحیح مسلم: 4538 [
❄سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ
”تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔ “ [صحیح بخاری: 2227]
❄❄❄❄❄