وفات النبیﷺ
وفات النبیﷺ کے دلائل ❄الوداعی آثار❄
❄وفات النبیﷺ پر صحابہ کے تاثرات
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ [الزمر: 30]
ذی وقار سامعین!
یہ دنیا عارضی ہے ، فنا ہوجانے والی ہے ، جو شخص بھی اس دنیا میں آیا ہے ایک نہ ایک دن اس نے اس دنیا سے جانا ضرور ہے ، وہ چاہے کوئی نبی ہو ، کوئی ولی ہو یا عام آدمی ہو ، موت سے کسی کو بھی چھٹکارا نہیں ہے۔
نبیﷺکی وفات سے حوالے سے دو مؤقف پائے جاتے ہیں:
پہلا مؤقف یہ ہے کہ نبیﷺاپنی دنیاوی زندگی گزارنے کے بعد برزخی زندگی گزار رہے ہیں، ان کی برزخی زندگی کو بالکل دنیاوی زندگی قرار دینا سراسر گمراہی اور ضلالت ہے۔
دوسرا مؤقف یہ ہے کہ نبیﷺاپنی دنیاوی زندگی گزارنے کے بعد عالَمِ برزخ میں بھی دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں ، ان کی دنیاوی اور برزخی زندگی میں کوئی بھی فرق نہیں۔ قرآن و سنت اور منہج صحابہ و سلف صالحین کے مطابق پہلا مؤقف صحیح ہے کہ نبیﷺدنیاوی زندگی گزار چکے ہیں ، برزخ میں برزخی زندگی گزار رہے ہیں ، اس کا دنیاوی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام بھی عام انسانوں کی طرح انسان تھے، دنیاوی معاملات ان کے ساتھ بھی ویسے ہی پیش آتے تھے جیسے عام انسانوں کے ساتھ پیش آتے تھے ، فرق بس یہ تھا کہ وہ نبیوں کی صف میں شامل تھے ، ان پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ اس لئے یہ کہنا کہ "انبیاء اس دنیا سے وفات پاچکے ہیں۔” کوئی گستاخی یا بے ادبی نہیں ہے ، قرآن مجید کے کئی مقامات پر انبیاء کی وفات کا تذکرہ اور ان کے لئے موت کا لفظ موجود ہے؛
سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے؛
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ
"یا تم موجود تھے جب یعقوب کو موت پیش آئی۔” [البقرہ: 133]
سیدنا سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا؛
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
"پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔” [السبا: 14]
سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرمایا؛
تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
ترجمہ: "مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملادے۔” [یوسف: 101]
سیدنا ابراھیم علیہ السلام نے فرمایا؛
وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ
"اور وہ جو مجھے موت دے گا، پھر مجھے زندہ کرے گا۔” [الشعراء: 81]
سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا؛
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
"اور سلام اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جائے گا۔” [مریم: 15]
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا؛
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا
"اور خاص سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوں گا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جاؤں گا۔” [مریم: 33]
کتاب اللہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تما م انسانوں کی طرح انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی موت کا حکم ہےاور یہ کہ وہ قبروں میں زندہ نہیں بلکہ قیامت کے دن ہی زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔
اس لئے آج کے خطبہ جمعہ میں ہم نبیﷺکی وفات کے دلائل ، الوداعی اثار ، وفات النبیﷺکے أحوال اور و فات النبیﷺپر صحابہ کے تاثرات سمجھیں گے۔
وفات النبیﷺکے دلائل
جب یہ کہا جاتا ہے کہ نبیﷺفوت ہوگئے ہیں تو بعض لوگ اسے گستاخی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبیﷺفوت نہیں ہوئے ، حالانکہ یہ بات غلط ہے ، اس کے دلائل پیشِ خدمت ہیں:
پہلی دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ
"اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مرجائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔” [الانبیاء: 34]
اس آیت کے تحت تفسیر احسن البیان میں مولانا صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛
"یہ کفار کے جواب میں، نبی (ﷺ) کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقینا محمد رسول اللہ (ﷺ) بھی مستثنٰی نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہوگئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء واولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں۔”
دوسری دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
"اے نبی تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے۔” [الزمر: 30]
تیسری دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
"اور نہیں ہے محمد مگر ایک رسول، بے شک اس سے پہلے کئی رسول گزر چکے تو کیا اگر وہ فوت ہوجائے، یا قتل کردیا جائے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے اور جو اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔” [آل عمران: 144]
اس آیت کے تحت مونا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں؛
"جنگ احد میں بعض صحابہ نے تو مرتبۂ شہادت حاصل کر لیا اور بعض میدان چھوڑ کر فرار ہونے لگے، رسول اللہﷺبھی زخمی ہو گئے اور کسی شیطان نے آپ کی شہادت کی افواہ پھیلا دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل اس افواہ سے ٹوٹ گئے اور وہ ہمت ہار بیٹھے اور منافقین نے طعن و تشنیع کے نشتر چبھونے شروع کر دیے کہ اگر محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہوتے تو قتل کیوں ہوتے؟! اس پر یہ آیات اتریں : ﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ﴾ ’’نہیں ہے محمد مگر ایک رسول۔‘‘ اس میں قصرِ قلب ہے کہ محمدﷺکے متعلق تم نے جو سمجھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہیں، یا اللہ تعالیٰ کے اختیارات کے مالک ہیں، ایسا نہیں، وہ محض اللہ کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔ وہ قتل بھی ہو سکتے ہیں، فوت بھی ہو سکتے ہیں اور ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں۔ کیا محمد رسول اللہﷺکے قتل ہونے یا طبعی موت مر جانے سے تم اللہ کا دین چھوڑ بیٹھو گے؟ تمھیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہو۔ (ابن کثیر، قرطبی)”
چوتھی دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
"کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔” [الانعام: 162]
پانچویں دلیل:
جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں؛
أَتَتْ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ قَالَتْ أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ كَأَنَّهَا تَقُولُ الْمَوْتَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ
"ایک عورت نبی کریمﷺکی خدمت میں آئی تو آپﷺنے ان سے فرمایا کہ پھر آنا۔ اس نے کہا : اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کررہی تھی۔
آپﷺنے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پاسکو تو ابوبکر کے پاس چلی آنا ۔”
[صحیح بخاری: 3659]
چھٹی دلیل:
عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ شَمْسًا أَوْ قَمَرًا شَكَّ أَبُو جَعْفَرٍ فِي الْأَرْضِ تُرْفَعُ إِلَى السَّمَاءِ بِأَشْطَانٍ شِدَادٍ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "ذَاكَ وَفَاةُ ابْنِ أَخِيكَ يَعْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ”.
سیدنا عباس بن عبدالمطلب نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سورج یا چاند زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے جایا جا رہا ہے، انہوں نے یہ خواب نبی کریمﷺسے بیان کیا تو آپﷺنے تعبیر بتائی کہ اس سے آپ کے بھتیجے یعنی خود رسولﷺکی وفات مراد ہے۔ [سنن دارمی: 2194 صحیح]
الوداعی آثار
جب دینِ اسلام کی تکمیل ہو گئی تو کچھ ایسے آثار رونما ہوئے ، جن سے پتہ چلتا تھا کہ اب نبیﷺکا کام دنیا میں پورا ہو چکا ہے ، آپﷺاس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں ، ان الوداعی آثار میں سے چند ایک یہ ہیں:
شاید میں دوبارہ حج نہ کرسکوں:
❄ حضرت جابر بیان کرتے ہیں؛
رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ، وَيَقُولُ: «لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ»
"میں نے نبیﷺکو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر (سوار ہو کر) کنکریاں مار رہے تھے اور فرما رہے تھے : تمھیں چا ہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سیکھ لو ،میں نہیں جا نتا شاید اس حج کے بعد میں (دوبارہ ) حج نہ کر سکوں۔” [صحیح مسلم: 3137]
کیا میں نے اپنی ذمہ داری ادا کردی:
سیدنا جابر سے روایت ہے کہ نبیﷺنے 9 ذوالحجہ کو خطبہ دیا ، اس خطبے میں نبیﷺنے فرمایا؛
وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ، كِتَابُ اللهِ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟» قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ، فَقَالَ: بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ «اللهُمَّ، اشْهَدْ، اللهُمَّ، اشْهَدْ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
"اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے) اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اور تم سے (قیامت میں) میرے بارے میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے؟ ان سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیرخواہی کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت (شہادت کی انگلی) آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ تین بار (یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا)” [صحیح مسلم: 2950]
میرے پاس رب کا بلاوا آتا ہی ہوگا:
10 ہجری میں حجۃ الوداع سے واپسی پر نبیﷺ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان غدیرِ خُم کے مقام پر ایک خطبہ دیا ، سیدنا زید بن ارقم سے روایت ہے کہ اس خطبے میں نبیﷺنے فرمایا؛
أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ
"اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔” [صحیح مسلم: 6225]
نبیﷺکی وفات کی خبر:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ فَقَالَ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ فَقَالَ عُمَرُ إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ فَدَعَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا فَقَالَ لِي أَكَذَاكَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَا قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ قَالَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا فَقَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھا تے تھے ۔ بعض کو اس پر اعتراض ہوا ، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں ، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں؟ حضرت عمر نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے ۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا ( ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لئے بلایا ہے ، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ اذا جاءنصر اللہ الخ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ابن عباس رضی اللہ عنہما ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہﷺکی وفات کی طرف اشارہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺکو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی ” یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے “ اس لئے آپ اپنے پروردگار کی پاکی وتعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ حضرت عمرﷺنے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا۔ “ [صحیح بخاری: 4970 ]
تم میری مسجد اور میری قبر پر سے گزرو:
❄عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ , خَرَجَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ , وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ , فَلَمَّا فَرَغَ , قَالَ:” يَا مُعَاذُ , إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا , أَوْ لَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا , أَوْ قَبْرِي” , فَبَكَى مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةِ , فَقَالَ: ” إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ , مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا” .
ترجمہ: حضرت معاذ سے مروی ہے کہ جب نبی کریمﷺنے انہیں یمن روانہ فرمایا تو خود انہیں چھوڑنے کے لئے نکلے ، راستہ بھر انہیں وصیت فرماتے رہے ، حضرت معاذ سوار تھے اور نبی کریمﷺ ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے ، جب نبی کریمﷺانہیں وصیتیں کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا معاذ! ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم مجھ سے نہ مل سکو ، یا ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم میری مسجد اور میری قبر پر سے گذرو، نبی کریمﷺکے فراق کے غم میں حضرت معاذ رونے لگے ، پھر نبی کریمﷺنے اپنارخ پھیر کر مدینہ منورہ کی جانب کرلیا اور فرمایا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب متقی ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔ [مسند احمد: 22052 صحیح]
بیس دن اعتکاف:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺہر سال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپﷺکا انتقال ہوا، اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔ [صحیح بخاری: 2044]
دو مرتبہ قرآن کا دور:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ يَعْرِضُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ كُلَّ عَامٍ مَرَّةً فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ وَكَانَ يَعْتَكِفُ كُلَّ عَامٍ عَشْرًا فَاعْتَكَفَ عِشْرِينَ فِي الْعَام الَّذِي قُبِضَ فِيهِ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہﷺکے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال آنحضرتﷺکی وفات ہوئی اس میں انہوں نے آنحضرتﷺکے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا ۔ آنحضرتﷺہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ [صحیح بخاری: 4998]
جیسے آپﷺ زندوں اور مردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں:
سیدنا عقبہ بن عامر سے روایت ہے؛
صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ، فَقَالَ: «إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَإِنَّ عَرْضَهُ كَمَا بَيْنَ أَيْلَةَ إِلَى الْجُحْفَةِ، إِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا، وَتَقْتَتِلُوا، فَتَهْلِكُوا، كَمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ» قَالَ عُقْبَةُ: فَكَانَتْ آخِرَ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ
رسول اللہﷺنے اُحد میں شہید ہونے والوں کی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور اس طرح نصیحت فرمائی جیسے آپﷺ زندوں اور مردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ آپﷺنے فرمایا؛ ’’میں حوض پر تمھارا پیش رو ہوں گا اور اس حوض کا عَرض اتنا ہے جتنا (شام کے ساتھ واقع) اَیلہ سے لے کر (مدینہ اور مکہ کے درمیان واقع) جُحفہ کا فاصلہ ہے۔ مجھے تمھارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم (سب کے سب) میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے لیکن میں تمہارے بارے میں دنیا کے حوالے سے ڈرتا ہوں کہ تم اس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگو گے، آپس میں لڑو گے اور اسی طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس طرح تم سے پہلے والے لوگ ہلاک ہوئے۔‘‘
حضرت عقبہ نے کہا: یہ آخری بار تھی جب میں نے رسول اللہﷺکو منبر پر دیکھا۔[صحیح مسلم: 5977]
وفات النبیﷺ
بیماری کا آغاز:
29صفر 11 ہجری بروز سوموار رسول اللہﷺایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے ، واپسی پر راستے ہی میں دردسر شروع ہو گیا اور حرارت اتنی تیز ہو گئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی ، یہ آپ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت 13 یا 14 دن تھی۔ [الرحيق المختوم : 624]
عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہنے کی خواہش:
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں؛
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْأَلُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ يَقُولُ أَيْنَ أَنَا غَدًا أَيْنَ أَنَا غَدًا يُرِيدُ يَوْمَ عَائِشَةَ فَأَذِنَ لَهُ أَزْوَاجُهُ يَكُونُ حَيْثُ شَاءَ فَكَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ حَتَّى مَاتَ عِنْدَهَا
مرض الموت میں رسول اللہﷺپوچھتے رہتے تھے کہ کل میرا قیام کہا ں ہوگا ، کل میرا قیام کہاں ہوگا؟ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے منتظر تھے ، پھر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر قیام کی اجازت دے دی اور آپ کی وفات انہیں کے گھر میں ہوئی۔ [صحیح بخاری: 4450]
سیدہ عائشہ عنھا فرماتی ہیں؛
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى تَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوَلِّي فِيهِ، طَفِقْتُ أَنْفِث عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ، وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ
رسول اللہﷺجب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین ( سورۃ فلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے ، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کرکے نبی اکرمﷺکے جسم پر پھیرا کرتی تھی۔ [صحیح بخاري: 1439]
وفات سے چند دن قبل:
نبیﷺجمعرات کے دن مغرب تک نماز میں آتے رہے، مغرب کی جماعت آپ نے کرائی۔ ابن عباس اپنی والدہ ام الفضل سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں؛
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا ثُمَّ مَا صَلَّى لَنَا بَعْدَهَا حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ
"میں نے سنا رسول اللہﷺمغرب کی نماز میں والمرسلات عرفا کی قرات کررہے تھے ، اس کے بعد پھر آپ نے ہمیں کبھی نماز نہیں پڑھائی ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کرلی۔” [صحیح بخاري: 4429]
مغرب کی نماز پڑھانے کے بعد آپ گھرتشریف لے گئے آپ پر ایک غشی سی طاری ہوگئی تھوڑا ساہوش آیا تو پوچھا:
أَصَلَّى النَّاسُ؟
"کیا لوگوں نے عشاء کی نماز پڑھ لی؟”
بتایا گیا؛
لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ
"جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔” آپﷺنے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ ﷺ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپﷺنے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کی نہیں حضور! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ نے غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپﷺنے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریمﷺکا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپﷺنے حضرت ابوبکر کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا؛
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ
"رسول اللہﷺنے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔”
ابوبکر بڑے نرم دل انسان تھے۔ انھوں نے حضرت عمر سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن حضرت عمر نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر ( بیماری ) کے دنوں میں حضرت ابوبکر نماز پڑھاتے رہے۔ [صحیح بخاري: 687]
یہ جمعرات کا دن تھا اور پیر کےدن آپ کا انتقال ہوا ، یہ آپﷺکی وفات سے پانچ دن قبل کی بات ہے۔ اس دوران آپﷺصرف دو موقعوں پر مسجد تشریف لے گئے،خطبہ ارشاد فرمانے کیلئے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں؛
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ بَيْتِي وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ قَالَ هَرِيقُوا عَلَيَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِيَتُهُنَّ لَعَلِّي أَعْهَدُ إِلَى النَّاسِ فَأَجْلَسْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ طَفِقْنَا نَصُبُّ عَلَيْهِ مِنْ تِلْكَ الْقِرَبِ حَتَّى طَفِقَ يُشِيرُ إِلَيْنَا بِيَدِهِ أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ قَالَتْ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ فَصَلَّى بِهِمْ وَخَطَبَهُمْ
"حضور اکرمﷺجب میرے گھر میں آگئے اور تکلیف بہت پڑھ گئی تو آپﷺنے فرمایا کہ سات مشکیزے پانی کے بھر کر لاؤ اور مجھ پر ڈال دو ، ممکن ہے اس طرح میں لوگوں کو کچھ نصیحت کرنے کے قابل ہوجاؤں۔ چنانچہ ہم نے آپ کو آپ کی زوجہ مطہرہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ایک لگن میں بٹھا یا اور انہیں مشکیزوں سے آپ پرپانی دھارنے لگے۔ آخر حضورﷺنے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے روکا کہ بس ہوچکا ، بیا ن کیا کہ پھر آپ لوگوں کے مجمع میں گئے اور نماز پڑھا ئی اور لوگوں کو خطاب کیا۔” [صحیح بخاری: 4442]
اس خطبہ کامحور ایک ہی شخصیت تھی،ابوبکرصدیق ، سیدنا ابو سعید خدری نے بیان کرتے ہیں؛
خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْعَبْدَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، قَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ لَا تَبْكِ، إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ، إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ
ایک دفعہ رسول اللہﷺنے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے ، بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اللہ نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ ہی تھے اور ابوبکر ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ نبی کریمﷺنے ان سے فرمایا۔ ابوبکر آپ روئیے مت۔ اپنی صحبت اور اپنی دولت کے ذریعہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے آپ ہی ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن (جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتی) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔ [صحیح بخاری: 466]
دوسری نوبت خطبہ ارشاد فرمانے کی اس دن آئی، جس دن انصار صحابہ مسجد میں جمع ہیں ،جنہیں پیارامحبوب نظرنہیں آرہا اور مسجد میں بیٹھ کر رورہے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں؛
مَرَّ أَبُو بَكْرٍ وَالْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ وَهُمْ يَبْكُونَ فَقَالَ مَا يُبْكِيكُمْ قَالُوا ذَكَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَّا فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ قَالَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ عَصَبَ عَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ قَالَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوْا الَّذِي عَلَيْهِمْ وَبَقِيَ الَّذِي لَهُمْ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ
حضرت ابوبکر اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما انصار کی ایک مجلس سے گزرے ، دیکھا کہ تمام اہل مجلس رورہے ہیں ، پوچھا آپ لوگ کیوں رورہے ہیں؟ مجلس والوں نے کہا کہ ابھی ہم رسول اللہﷺکی مجلس کو یاد کررہے تھے جس میں ہم بیٹھا کرتے تھے (یہ آنحضرتﷺکے مرض الوفات کا واقعہ ہے) اس کے بعد یہ آنحضرتﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی ، بیان کیا کہ اس پر آنحضرتﷺباہر تشریف لائے ، سرمبارک پر کپڑے کی پٹی بندھی ہوئی تھی ، راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور اس کے بعد پھر کبھی منبر پر آپ تشریف نہ لاسکے ، آپ نے اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتاہوں کہ وہ میرے جسم وجان ہیں ، انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں لیکن اس کا بدلہ جو انہیں ملنا چاہیے تھا ، وہ ملنا ابھی باقی ہے ، اس لیے تم لوگ بھی ان کے نیک لوگوں کی نیکیوں کی قدر کرنا اور ان کے خطاکاروں سے درگزر کرتے رہنا۔ [صحیح بخاري: 3799]
وفات سے ایک دن یا دودن پہلے:
ہفتہ یا اتوار کو آپ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی ، چنانچہ دو آدمیوں عباس اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ چنانچہ عروہ فرماتے ہیں؛
فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّ النَّاسَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ اسْتَأْخَرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ: «أَنْ كَمَا أَنْتَ»، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ
"رسول اللہﷺنے ایک دن آپ کو کچھ ہلکا پایا اور باہر تشریف لائے ، اس وقت حضرت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے ، انھوں نے جب حضور اکرمﷺکو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن آنحضورﷺنے اشارے سے انھیں اپنی جگہ قائم رہنے کا حکم فرمایا ، پس رسول کریمﷺابوبکر صدیق کے بازو میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر نبی کریمﷺکی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر کی پیروی کرتے تھے۔” [صحیح بخاري: 683]
حیات مبارکہ کا آخری دن:
❄سیدنا انس فرماتے ہیں
أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلاَةِ، فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الحُجْرَةِ يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَكُ، فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ إِلَى الصَّلاَةِ فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ وَأَرْخَى السِّتْرَ فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ
"آنحضورﷺکے مرض الموت میں ابوبکر صدیق نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو آنحضورﷺحجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے ، آپﷺکا چہرہ مبارک ( حسن و جمال اور صفائی میں ) گویا مصحف کا ورق تھا ، آپ مسکرا کر ہنسنے لگے ، ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبیﷺ نماز کے لیے تشریف لارہے ہیں، لیکن آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا۔ پس آنحضرتﷺکی وفات اسی دن ہو گئی۔ [صحیح بخاري: 680]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں؛
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «دَعَا فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فَسَارَّهَا فَبَكَتْ، ثُمَّ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لِفَاطِمَةَ: مَا هَذَا الَّذِي سَارَّكِ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَيْتِ، ثُمَّ سَارَّكِ فَضَحِكْتِ؟ قَالَتْ: «سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي بِمَوْتِهِ، فَبَكَيْتُ، ثُمَّ سَارَّنِي، فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ مَنْ يَتْبَعُهُ مِنْ أَهْلِهِ فَضَحِكْتُ»
رسول اللہﷺنے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلا یا اور ان کو راز داری سے (سر گوشی کرتے ہو ئے) کو ئی بات کہی تو حضرت فاطمہ روپڑیں ،آپﷺنے پھر ان کو رازداری سے کو ئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: یہ کیا بات تھی جو رسول اللہﷺنے آپ کو راز داری سے کہی اور آپ روپڑیں ،پھر دوبارہ رازداری سے بات کی تو ہنس دیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: آپﷺنے میرے کا ن میں بات کی اور اپنی موت کی خبر دی تو میں روپڑی، پھر دوسری بار میرے کان میں بات کی اور مجھے بتا یا کہ ان کے گھر والوں میں سے پہلی میں ہو ں گی جو ان سے جا ملوں گی تو میں ہنس دی۔ [صحیح مسلم: 6312]
صحیح مسلم کی ہی روایت میں ہے کہ سیدہ فاطمہ کہتی ہیں کہ جب میں رو پڑی تو نبیﷺنے فرمایا؛
يَا فَاطِمَةُ أَمَا تَرْضِيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ» قَالَتْ: فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ
"فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو یا(فرمایا:) اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟”
کہا:تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا۔ [صحیح مسلم: 6313]
❄سیدنا انس کہتے ہیں؛
لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام وَا كَرْبَ أَبَاهُ فَقَالَ لَهَا لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ
"شدت مرض کے زمانے میں نبی کریمﷺکی بے چینی بہت بڑھ گئی تھی ۔ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کہا ، آہ اباجان کو کتنی بے چینی ہے ۔ حضورﷺنے اس پر فرمایا؛ آج کے بعد تمہارے اباجان کی یہ بے چینی نہیں رہے گی۔[صحیح بخاری: 4462]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں؛
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ يَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ "نبیﷺاپنی اس بیماری میں فرمایا کرتے تھے جس میں آپ کی وفات ہوئی: اے عائشہ! اس کھانے کا درد میں برابر محسوس کر رہا ہوں جو میں نے غزوہ خیبر کے وقت کھایا تھا۔ اس وقت میں اس زہر کے سبب اپنی شہ رگ کٹنی ہوئی محسوس کرتا ہوں۔” [صحیح بخاری: 4428]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ، نبی کریمﷺنے اپنے مرض وفات میں فرمایا؛
لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا
"یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہوکہ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔” [صحیح بخاری: 1330]
❄سیدنا علی کہتے ہیں؛
كَانَ آخِرُ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ
"رسول اللہ ﷺ کی آخری بات یہی تھی ” نماز ! نماز ! اور اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔” [ابوداؤد: 5156 صححہ الالبانی]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں؛
تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، وَفِي نَوْبَتِي، وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، وَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بِسِوَاكٍ «فَضَعُفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَأَخَذْتُهُ، فَمَضَغْتُهُ، ثُمَّ سَنَنْتُهُ بِهِ»
"رسو ل اللہﷺنے میرے گھر ‘ میری باری کے دن ‘ میرے حلق اور سینے کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے وفات پائی ‘ اللہ تعالیٰ نے (وفات کے وقت) میرے تھوک اور آنحضرتﷺکے تھوک کو ایک ساتھ جمع کر دیا تھا ‘ بیان کیا (وہ اس طرح کہ) عبدالرحمٰن (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی) مسواک لئے ہوئے اندر آئے۔ آپﷺاسے چبا نہ سکے ، اس لیے میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میں نے اسے چبانے کے بعد وہ مسواک آپ کے دانتوں پر ملی۔ [صحیح بخاری: 3100]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں؛
كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَا يَمُوتُ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ يَقُولُ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ الْآيَةَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ
"میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے ، پھر میں نے رسول اللہﷺسے بھی سنا ، آپ اپنے مرض الموت میں فرمارہے تھے ، آپ کی آواز بھاری ہوچکی تھی۔ آپ آیت
مع الذین انعم اللہ علیہم الخ
کی تلاوت فرمارہے تھے ( یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعا م کیا ہے ) مجھے یقین ہوگیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔ [صحیح بخاری: 4435]
جان جانِ آفریں کے سپرد:
❄علی رسول اللہﷺکی تیمار داری سے فارغ ہو کر باہر آئے ، صحابہ نے آپ سے پوچھا: ابوالحسن! نبی کریمﷺکی طبیعت کیسی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ الحمد للہ اب آپ کو افاقہ ہے۔ پھر نبی کریمﷺکے چچا عباس نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کے کہا؛
وَإِنِّي وَاللهِ لَأَرى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، إِنِّي الأعْرِفُ وُجُوهٌ بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ الْمَوْتِ
اللہ کی قسم، مجھے تو ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ نبی کریمﷺاس مرض سے صحت نہیں پاسکیں گے۔
موت کے وقت بنو عبد المطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔[صحیح بخاری: 4447]
❄ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں؛
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ – أَوْ عُلْبَةٌ فِيهَا مَاءٌ فَجَعَلَ يُدْخِلُ يَدَيْهِ فِي المَاءِ، فَيَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ، وَيَقُولُ: «لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ» ثُمَّ نَصَبَ يَدَهُ فَجَعَلَ يَقُولُ: «فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى» حَتَّى قُبِضَ وَمَالَتْ
رسول اللہﷺ(کی وفات کے وقت) آپ کے سامنے ایک بڑا پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا۔ آنحضرت ﷺاپنا ہاتھ اس برتن میں ڈالنے لگے اور پھر اس ہاتھ کو اپنے چہرہ پر ملتے اور فرماتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، بلا شبہ موت میں تکلیف ہوتی ہے “ پھر آپ اپنا ہاتھ اٹھاکر فرمانے لگے ” فی الرفیق الاعلی “ یہاں تک کہ آپ کی روح مبارک قبض ہوگئی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا۔ [صحیح بخاری: 6510]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں؛
تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِثَلَاثِينَ
جب نبی کریمﷺکی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے یہاں تیس صاع جو کے بدلے میں گروی رکھی ہوئی تھی۔ [صحیح بخاری: 4467]
❄سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں؛
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ
"جب رسول اللہﷺکی وفات ہوئی تو آپ کی عمر تریسٹھ سال کی تھی۔” [صحیح بخاری: 4466]
وفات النبیﷺپر صحابہ کے تأثرات
سیدنا أبو بکر صدیق :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں؛
أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ، حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ يُكَلِّمُ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَتَيَمَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُغَشًّى بِثَوْبِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ وَبَكَى، ثُمَّ قَالَ: «بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، وَاللَّهِ لاَ يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ، فَقَدْ مُتَّهَا
حضرت ابو بکر اپنی قیام گاہ ، سُنح سے گھوڑے پر آئے اور آ کر اترے ، پھر مسجد کے اندر گئے ، کسی سے آپ نے کوئی بات نہیں کی ، اس کے بعد آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آئے اور حضور اکرمﷺکی طرف گئے ، نعش مبارک ایک یمنی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی ، آپ نے چہرہ کھولا اور جھک کر چہرہ مبارک کو بوسہ دیا اور رونے لگے ، پھر کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں خدا کی قسم ، اللہ تعالیٰ آپ پر دومرتبہ موت طاری نہیں کرے گا ، جو ایک موت آپ کے مقدر میں تھی ، وہ آپ پر طاری ہو چکی ہے۔ [صحیح بخاری: 4453]
اور ابن ماجہ میں یہ الفاظ ہیں؛
فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَقَالَ: أَنْتَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَكَ مَرَّتَيْنِ قَدْ، وَاللَّهِ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
"آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا، اور کہا: آپ اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز و محترم ہیں کہ آپ کو دو بار موت دے ، قسم اللہ کی! رسول اللہﷺوفات پا چکے ہیں۔” [ابن ماجہ: 1627 صححہ الالبانی]
مسند احمد یہ الفاظ ہیں؛
أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَوَضَعَ فَمَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى صُدْغَيْهِ، وَقَالَ: ” وَا نَبِيَّاهْ، وَا خَلِيلَاهْ، وَا صَفِيَّاهْ” .
نبیﷺکے وصال کے بعد حضرت صدیق اکبر آئے اور اپنا منہ نبیﷺکی دونوں آنکھوں کے درمیان رکھ دیا اور اپنے ہاتھ نبیﷺکی کنپٹیوں پر رکھ دیئے اور کہنے لگے ہائے میرے نبی، ہائے میرے خلیل، ہائے میرے دوست۔ [مسند احمد: 24029 حسن]
سیدنا صدیق اکبر کو نبیﷺکی وفات کا کتنا شدید غم تھا ، اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ أوسط کہتے ہیں؛
قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَنَةٍ، فَأَلْفَيْتُ أَبَا بَكْرٍ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ، فَخَنَقَتْهُ الْعَبْرَةُ ثَلَاثَ مِرَارٍ
"نبیﷺکے وصال کے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ حاضر ہوا، تو میں نے سیدنا ابوبکر صدیق کو لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے پایا، انہوں نے فرمایا کہ اس جگہ گزشتہ سال نبیﷺہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، تین مرتبہ اسی طرح ہوا۔” [مسند احمد: 44 حسن]
سیدنا عمر فاروق :
نبیﷺکی وفات کا غم اتنا شدید تھا کہ سیدنا عمر فاروق جیسے بہادر اور جری شخص بھی اپنے حواس کھو بیٹھے اور کہنے لگے؛
وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أُنَاسٍ مِنَ الْمُنَافِقِينَ كَثِيرٍ، وَأَرْجُلَهُمْ
"اللہ کی قسم! رسول اللہﷺمرے نہیں ہیں اور نہ آپ مریں گے، یہاں تک کہ بہت سے منافقوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹیں گے۔” [ابن ماجہ: 1627 صححہ الالبانی]
جب سیدنا صدیق اکبر مسجد میں آئے تو سیدنا عمر کھڑے تھے تو صدیق اکبر نے کہا عمر ! بیٹھ جاؤ ، لیکن حضرت عمر نے بیٹھنے سے انکا ر کیا۔ سیدنا صدیق اکبر نے خطبہ دیا ، صحابہ کو دلاسہ دیا اور قرآنی آیت تلاوت کی تو سیدنا عمر کہتے ہیں؛
وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلاَهَا فَعَقِرْتُ، حَتَّى مَا تُقِلُّنِي رِجْلاَيَ، وَحَتَّى أَهْوَيْتُ إِلَى الأَرْضِ حِينَ سَمِعْتُهُ تَلاَهَا، عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ
خدا کی قسم ! مجھے اس وقت ہوش آیا ، جب میں نے حضرت ابو بکر کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا ، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ حضور اکرمﷺکی وفات ہوگئی ہے تومیں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہواکہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔ [صحیح بخاری: 4454]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا:
❄سیدنا انس کہتے ہیں؛
لَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ يَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ
پھر جب آنحضرتﷺکی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں ، ہائے اباجان ! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے ، ہائے اباجان ! آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔ ہم حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ کی وفات کی خبر سنا تے ہیں۔ پھر جب آنحضرتﷺدفن کردیئے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے انس سے کہا؛
”انس! تمہارے دل رسول اللہﷺکی نعش پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہوگئے تھے۔“ [صحیح بخاری: 4462]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما:
سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں؛
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ: «ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي»، فَتَنَازَعُوا وَمَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، وَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ، قَالَ: ” دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ، أُوصِيكُمْ بِثَلَاثٍ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ "، قَالَ: وَسَكَتَ، عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَهَا فَأُنْسِيتُهَا،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جمعرات کا دن، اور جمعرات کا دن کیسا تھا! پھر وہ رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں نے سنگریزوں کو تر کر دیا۔
میں نے کہا: ابن عباس! جمعرات کا دن کیا تھا؟ انہون نے کہا: رسول اللہﷺکا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے فرمایا: "میرے پاس (لکھنے کا سامان) لاؤ، میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔” تو لوگ جھگڑ پڑے، اور کسی بھی نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ نے بیماری کے زیر اثر گفتگو کی ہے؟ آپ ہی سے اس کا مفہوم پوچھو! آپ نے فرمایا: "مجھے چھوڑ دو، میں جس حالت میں ہوں وہ بہتر ہے۔ میں تمہیں تین چیزوں کی وصیت کرتا ہوں؛ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور آنے والے وفود کو اسی طرح عطیے دینا جس طرح میں انہیں دیا کرتا تھا۔” (سلیمان احول نے) کہا: وہ (سعید بن جبیر) تیسری بات کہنے سے خاموش ہو گئے یا انہوں نے کہی اور میں اسے بھول گیا۔ [صحیح مسلم: 4232]
سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا:
سیدنا انس کہتے ہیں؛
قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: ” انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا، كَمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَا لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: مَا أَبْكِي أَنْ لَا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ. فَجَعَلَا يَبْكِيَانِ مَعَهَا "
سیدنا ابوبکر نے رسول اللہﷺکی وفات کے بعد سیدنا عمر سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ، ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہﷺان سے ملنے کو جایا کرتے تھے ، جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں ، دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسولﷺکے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہﷺکے لئے بہتر ہے ، ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ ام ایمن کے یہ کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔ [صحیح مسلم: 6318]
اہلِ مدینہ:
سیدنا انس کہتے ہیں؛
لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ "جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ (پہلے پہل) مدینہ میں د اخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پر نور ہوگئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہرچیز تاریک ہوگئی۔” [ترمذی: 3618 صححہ الالبانی]
❄❄❄❄❄