ظلم

﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۝۴۲
مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ۝﴾ (ابراهيم:42، 43)
’’اور تو اللہ تعالی کو ہرگز غافل گمان نہ کر اس سے جو ظالم لوگ کر رہے ہے ہیں ، اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ انھیں اس دن کے لیے مہات دے رہا ہے کہ اس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ اس حال میں کہ اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے تیز دوڑنے والے ہوں گے ، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔‘‘
جب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے، تب سے لڑائی جھگڑا، کشت و خون جنگ و جدل ، خون خرابا، جبر و تشدده قتل و غارت ، فتنہ و فساد اور ظلم و ستم وجود میں آیا ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ بہت سی صفات ذمیمہ انسان کی فطرت اور اس کی سرشت میں پائی جاتی ہیں جو کہ امتحان اور آزمائش کی غرض سے رکھی گئی ہیں۔
جب کوئی انسان ایمان لے آتا ہے تو اس کے رویے میں یکسر تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اور جوں جوں ایمان اس کے دل میں اترتا جاتا ہے وہ صفات ذمیمہ ایک ایک کر کے چھٹتی چلی جاتی ہیں، اور یوں انسان کا تزکیہ ہو جاتا ہے، وہ بری صفات سے پاک صاف ہو جاتا ہے، اور پھر کوئی اختلاف ہوتا ہے، نہ لڑائی جھگڑا ہوتا ہے، نہ کہیں حق تلفی ہوتی ہے، نہ ظلم و نا انصافی ہوتی ہے، ہر شخص اپنی اپنی حد میں رہتا ہے، لانچ اور خود غرضی کی جگہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتا ہے، اپنا حق مانگنے پر دوسرے کے حق کی ادائیگی کو ترجیح دیتا ہے۔ اور یہ کوئی محض خیالی اور تصوراتی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ عملا ایک مثالی معاشرے میں واقع ہو چکا ہے۔
تو انسان اپنی ان فطری صفات پر جب ایمان باللہ والیوم الآخر کے ذریعے قابو پالیتا ہے تو معاشرے میں امن وامان، عدل وانصاف اخوت و محبت، ایثار و قربانی اور ہمدردی و خیر خواہی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے اور ظلم و نا انصافی اور جبر و تشدد کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک میں انسان کی متعدد فطری برای صفات کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿إنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ) (هود:9)
’’انسان بہت مایوس ہونے والا اور ناشکری کرنے والا ہے۔“
ایک جگہ فرمایا:
﴿خَصِيْمٌ مُبِيْنٌ﴾ (النحل:4)
’’وہ صریحا جھگڑالو ہے۔‘‘
ایک مقام پر فرمایا:
﴿و كَانَ الإنْسَانُ عَجُولًا﴾ (الاسراء:11)
’’انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘
ایک جگہ فرمایا:
﴿وَ كَانَ الْإنسَانُ قَتَورًا﴾ (الاسراء:100)
’’اور انسان بڑا بخیل اور تنگ دل ہے۔‘‘
ایک جگہ فرمایا:
﴿وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا﴾ (الكهف:54)
’’اور انسان بہت زیادہ بحث و تکرار کرنے والا ہے۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًاۙ۝۱۹﴾(المعارج:19)
’’انسان گھبراہٹ اور قلق و اضطراب والا اور تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے۔“
اسی طرح کئی ایک اور صفات بھی ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:
﴿وَإِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾ (الاحزاب:72)
’’بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں انسان کے ظالم اور جاہل ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس نے اتنی بڑی امانت کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری قبول کر لی جسے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور ڈر گئے اور وہ امانت احکام دین ہیں جو کہ قرآن و سنت کی صورت میں ہیں ۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، تو گویا انسان نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور جاہل بھی ہے کہ اسے اس کا اندازہ نہیں کہ یہ ذمہ داری کتنی بڑی ہے اور اسے پورا نہ کرنے کا انجام کتنا سخت ہوگا۔
تو جو انسان ایمان لے آتا ہے، اس سے ان معنوں میں ظالم اور جاہل ہونے کا وصف دور ہو جاتا ہے۔ مگر ظلم کی چونکہ کئی ایک قسمیں اور شکلیں اور صورتیں ہیں، لہٰذا مکمل طور پر صفت ظلم سے مبرا اور منزہ ہونا متقاضی ہے مکمل طور پر دین کے تابع ہونے کا۔
ظلم کا لغوی معنی ہے: (وَضعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ) کسی چیز کو اس جگہ سے جو اس کے لیے مخصوص ہے سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ پر رکھنا، کسی جگہ سے ہٹا کر کسی مقام سے ہٹا کر کسی وقت سے ہٹا کر۔
ظلم کا معنی اندھیرا اور تاریکی بھی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
((فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلْمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (بخاری: 2447)
’’یقینًا ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے ۔‘‘
قیامت کے دن ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا۔ کہیں کوئی نور اور روشنی نہیں ہوگی، صرف اللہ تعالی جس کو روشنی عطا فرمائیں گے اسے روشنی حاصل ہوگی، ورنہ سب اندھیروں میں ہوں گے۔
﴿وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ۠۝﴾ (النور:24)
’’ اور جسے اللہ تعالی روشنی نہ دیں اس کے لیے کوئی روشنی نہیں ہے۔‘‘
اور آدمی کو اس کے اسلام اور نیکی کے مطابق روشنی حاصل ہوگی اور اگر ظالم ہوگا تو روشنی اگر سے محروم ہو گا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((اتَّقُوا الظُّلْمَ ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَّوْمَ الْقِيَامَةِ)) مسلم: ۲۵۷۸
’’ظلم سے بچو! کہ قیامت کے دن ظلم کا نتیجہ اندھیروں کی صورت میں ہوگا ۔‘‘
اصطلاح میں ظلم کا معنی حد شرعی سے تجاوز کرنا، کسی غیر کی ملکیت میں تصرف کرنا کسی کے مقام و مرتبے میں کمی یا زیادتی وغیرہ معلم کہلاتا ہے۔ اور یوں اصطلاح میں ظلم ہر گناہ اور معصیت کو کہا جاتا ہے، جس کے سرفہرست اور سب سے بڑا اعلم شرک ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ (لقمان:13)
’’شرک یقیناً ظلم عظیم ہے۔‘‘
یعنی سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑی نافرمانی اور معصیت شرک ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے آپ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ شرک ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ ۚ﴾ (النساء:48)
’’يقينا اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔“
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر بھی شرک کو ظلم کہا گیا ہے، فرمایا:
﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠۝﴾ (الانعام:82)
’’جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہ کیا، تو انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت اور راہ راست پر ہیں ۔‘‘
حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو:
((شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ))
’’تو صحابہ کرام پر یہ بات بہت گراں گزری ۔‘‘
((قَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ؟))
عرض کیا: ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو، یعنی اس سے کوئی معصیت اور کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو؟
((فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ))
’’فرمایا: ایسا نہیں ہے جیسا تم خیال کر رہے ہو؟‘‘
((إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لَابْنِهِ، ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾)) (بخاری:6937 ، مسلم:124)
’’بلکہ یہ ویسے ہی ہے جیسے لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ یا بنی لا تشرك بالله، ان الشرك لظلم عظیم، بیٹا شرک نہ کرتا، شرک یقینًا ظلم عظیم ہے۔‘‘
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ظلم کو معصیت اور نافرمانی کے معنوں میں لے رہے تھے، اگر چہ نا فرمانی بھی ظلم ہے، مگر ظلم کی قسموں میں ایک قسم اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے، اور نافرمانی اس قسم میں سے ہے۔
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ (التوبة:36)
’’مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالی کے نوشتے میں بارہ ہی ہیں ۔‘‘
﴿ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ؕ﴾
’’اور ان میں سے چار حرمت والے ہیں ۔‘‘
﴿ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙ﴾
’’یہی دین قیم ہے۔‘‘
﴿ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ﴾
’’لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرنا ۔‘‘
(ذوالقعدہ، ذوالحجہ محرم اور رجب ) یعنی ان میں معصیت نہ کرو، اگر چہ گناہ اور معصیت دیگر مہینوں میں بھی منع ہے، مگر ان
مہینوں کی حرمت کے باعث تاکیدًا کہا گیا ہے۔
تو ظلم جو کہ انسان کی فطرت، اس کے خمیر اور اس کی سرشت میں ہے اس کی ذات کے لیے، اس کی دنیا اور اس کی آخرت کے لیے تباہی و بربادی کا ساماں ہے۔
ظلم کی تین بڑی قسمیں ہیں:
(1) ایک قسم اللہ تعالی کی ذات یا اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا ہے، یہ سب سے بڑا اور ناقابل معافی ظلم ہے۔
(2) دوسری قسم: لوگوں کے ساتھ ظلم کرنا ہے اور اس کی کئی ایک صورتیں اور شکلیں ہیں۔
(3) اور تیسری قسم: اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے، یعنی گناہوں میں مبتلا ہونا ہے، اور اس کی یقینًا ایک طویل فہرست ہے، کیونکہ ہر معصیت ظلم ہے اور معصیتوں کی فہرست بہت طویل ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں معصیتیں ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا۔ ظلم کی ان قسموں میں سے جس قسم سے متعلق آج گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ ہے ظلم بین العباد لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے پر علم کرنا۔
شرک سب سے بڑا اور ناقابل معافی ظلم ہے، اس سے متعلق بھی یقینًا جانکاری ہونی چاہیے، کیونکہ انجانے میں کیا گیا شرک بھی سنگین جرم ہے۔ اپنے آپ پر کیا جانے والا ظلم سب سے ہلکا علم ہے، ان معنوں میں کہ اس ظلم کی معافی کے بہت سے اسباب، ذرائع اور مواقع ہیں، وضو سے گناہ معاف ہوتے ہیں، تو بہ و استغفار سے اور اللہ تعالی کی خصوصی عنایت سے معاف ہوتے ہیں، یعنی نظر انداز کر دیا جاتا ہے، صدقات و خیرات سے معاف ہوتے ہیں، روزے سے معاف ہوتے ہیں، حج و عمرے سے معاف ہوتے ہیں۔
اور اللہ تعالی کی بے پایاں رحمت تو ہے ہی ، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، آپ ﷺنے فرمایا، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ لَقِيتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ، ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكْ بي شَيْئًا لَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً . .))
’’اے ابن آدم! اگر تو مجھے زمین کے لگ بھگ خطا ئیں لے کر ملاقات کرے پھر میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو میں تجھے اس کے بقدر بخشش کے ساتھ ملوں گا۔‘‘(ترمذی: 3540)
لوگوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا، حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے، اور حقوق العباد سے متعلق قرآن وحدیث میں بہت زیادہ خبردار کیا گیا ہے، اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے، اور اس ظلم کا دنیا و آخرت میں خوف ناک انجام بتلایا گیا ہے۔
حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
((يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا .)) (مسلم: 2577)
’’اے میرے بندو!یقینًا میں نے اپنے آپ پر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمھارے درمیان ظلم کرنا بھی حرام کر دیا ہے لہٰذا تم بھی ظلم نہ کرو‘‘
خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا :
فَإِنَّ دِمَاءَ كُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا))(بخاری:1739)
’’بے شک تمھارے خون، تمھارے اموال اور تمھاری عزتیں تم پر ایسے حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمھارے اس شہر مکہ کی حرمت اور تمھارے اس مہینے کی حرمت ہے۔‘‘
خطبہ حجة الوداع جو کہ دین کا خلاصہ ہے، اس میں ظلم سے کسی طرح تاکیدًا منع کیا گیا ہے۔ فرمایا:
((مَا مِنْ ذَنْبِ أَجْدَرُ أَنْ يُّعَجِلَ اللهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحْمِ)) (ترمذی:2511)
’’ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں کہ جس کے مرتکب کو دنیا میں بھی جلد سزا ملے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سزا آخرت کے لیے بھی رکھی جائے گی ۔‘‘
ظلم کے انجام کی شدت کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے، حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ، فَإِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ) (بخاری:4686)

’’یقینًا اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل دیتا ہے تو جب وہ اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے چھوٹنے نہیں دیتا۔‘‘
ایک حدیث میں ہے:
((اِتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ)) (بخاری:1496)

’’مظلوم کی بددعا سے بچو، کیوں کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔‘‘
اور ظلم کا معاملہ کتنا سنگین ہے، غور کیجیے، آپﷺ نے فرمایا:
((لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ))(مسلم:2582)
’’تم حق داروں کو ان کے قیامت کے دن حق دو گے یہاں تک کہ بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔‘‘
مزید ظلم کی سنگینی کا عالم ملاحظہ فرمائیے ۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((ثلاثة أنا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيامَةِ، وَمَنْ كُنتُ خَصْمُهُ خَصَمْتُهُ))
’’قیامت کے دن میں تین قسم کے لوگوں سے جھگڑا کروں گا اور ان کا مد مقابل ہوں گا اور جس کا مقابل میں ہوں گا اس پر غالب آجاؤں گا۔‘‘
((رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ))
’’ایک وہ شخص جس نے میرے نام سے لکھ دیا پھر دھوکہ دیا یعنی اللہ تعالی کے نام سے ڈیل کی ۔‘‘
((وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ))
’’اور ایک وہ آدمی جو آزاد مرد کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھا گیا ۔‘‘
((وَرَجُلٌ اِسْتَأْجَرَ أَجِيْرًا فَاسْتَوْفٰى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ)) (بخاري:2227)

’’اور وہ آدمی جس نے مزدور رکھا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری پوری ادا نہ کی ۔‘‘
اور حدیث میں ہے۔
((یَحْشُرُ اللهُ النَّاسَ عُرَاةً، غُرْلًا، بُهْمًا ، قُلْنَا: وَمَابُهْمًا قَالَ: لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ))
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو برہنہ جسم ، غیر مختون اور خالی ہاتھ اٹھائے گا ہم نے کہا: بھما کے کیا معنی ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جن کے پاس کچھ نہ ہو ۔‘‘
((ثُمَّ يُنَادِيْهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ))
’’پھر انہیں ایک ایسی آواز سے پکارے گا کہ جسے دور والا بھی ایسے سنے گا جیسے قریب والا سنے گا۔‘‘
أَنَا الْمَلِكُ أَنَا الدَّيَّانُ ، لَا يَنْبَغِي لَاحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةّ، وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةِ وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَدْخُلُ النَّارَ ، وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةٍ حَتَّى اللَّطْمَةَ))
’’میں بادشاہ ہوں اور حساب لینے والا ہوں، کوئی جنتی جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک کہ کوئی جہنمی اپنے ظلم کا اس سے بدلہ طلب کر رہا ہو اور نہ جہنمی جہنم میں داخل ہو گا جب تک کہ کوئی جنتی اپنے کسی ظلم کا بدلہ طلب کر رہا ہو حتی کہ ایک طمانچہ بھی۔‘‘
((قَالَ: قُلْنَا كَيْفَ هُوَ وَإِنَّمَا نَأْتِي الله تعالى عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا؟))
’’راوی کہتا ہے، ہم نے کہا: وہ کیسے ہوگا جب کہ ہم تو اللہ تعالی کے پاس ننگے بدن، ننگے پاؤں اور خالی ہاتھ آئیں گے؟‘‘
((قال: بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ ))(الادب المفرد للبخاري، رقم:970. (صحيح))
’’فرمایا: نیکیوں اور گناہوں سے لین دین ہوگا۔‘‘
آئندہ خطبہ جمعہ میں ظلم کی سنگینی اور اس کی چند صورتوں کے حوالے سے ان شاء اللہ بات ہوگی۔
……………