ظلم کی مذمت

اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ (اعراف: 33)
’’اے نبیﷺ! آپ فرما دیجئے کہ میرے رب نے شرک کے کاموں کو جو کھلے ہوں یا چھپے ہوں اور گناہ کو اور ناحق کسی پر زیادتی اور سرکشی کو حرام کر دیا ہے۔‘‘
ظالم کے ظلم اور زیادتی کو درگزر کر دینا بڑی بہت کی بات ہے۔ لیکن بقدر ظلم وسرکشی انتقام اور بدلہ لینا چاہے تو لیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الْبَغْیُ هُمْ یَنْتَصِرُوْنَ۝۳۹ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَی اللّٰهِ ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ۝۴۰ وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍؕ۝۴۱ اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۴۲ وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠۝۴۳﴾ (الشورى: 34 – 43)
’’اور وہ لوگ اچھے ہیں کہ جن پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے تو بدلہ لیتے ہیں کیونکہ برائی کا بدلہ برائی ہے اور جس نے معاف کر دیا اور صلح کر لی تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے یقینًا اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے برابر کا بدلہ لے تو ایسے لوگوں پر الزام نہیں۔ الزام تو صرف انہی لوگوں پر ہے جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اور زمین میں ناحق زیادتی و فساد کرتے پھرتے ہیں ان ہی لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے اور جس نے میر کیا اور معاف کر دیا تو یقینًا بڑی ہمت کے کاموں میں سے ایک بڑا کام ہے۔‘‘
ظلم و بغاوت ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓءَ اِلٰۤی اَمْرِ اللّٰهِ ۚ﴾ (الحجرات: 9)
’’اگر ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی ظلم کرے تو باغی اور ظالم جماعت سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر آجائے۔‘‘
ظلم کرو، نہ ظلم کے کاموں میں دوسروں کی امداد کرو۔ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۲﴾ (المائدة: (2)
’’جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم حد سے گزر جاؤ نیکی اور پر ہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقینًا وہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
حدیثوں میں بھی عدوان اور ظلم و زیادتی کی سخت مذمت آئی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(انْصُراَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُةَ قَالَ تَمْنَعُهُ عَنِ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ)[1]
’’تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہﷺ اگر وہ مظلوم ہو تو اس کی مدد کروں۔ لیکن اگر وہ ظالم ہے تو اس کی مدد کیسے کروں آپﷺ نے فرمایا: تم اس کو ظلم کرنے سے روکو یہی اس کی امداد ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغی اور ظلم سے روکنا چاہئے اگر دست درازی اور زیادتی سے نہ روکا جائے تو دنیا کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا اور پوری قوم ملک میں امن و امان اور عدل و انصاف نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو جائے گی دنیا میں امن اس وقت ہو سکتا ہے کہ ظلم و ستم نہ ہو اور اگر اتفاقا کسی سے یہ سرزد ہو جائے تو اس کو اس سے روکا جائے بھائی کی ہر حالت میں مدد کرنی ضروری ہے ظالم ہے تو اسے ظلم سے روکا جائے مظلوم ہے تو اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الاكراه باب يمين الرجل لصباحبه-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی مدد کی جائے۔ رسول اللہﷺ نے یہ حدیث قدسی بڑے موثر انداز میں سنائی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
﴿يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ حَرَامًا وَلَا تَظَالَمُوا)[1]
’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور تمہارے درمیان میں بھی اس ظلم کو حرام کیا ہے لہذا تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘
ایک اور روایت میں آپﷺ نے فرمایا:
﴿اتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)[2]
’’ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن ظلمات بن جائے گا۔
ظلمات ظلمتہ کی جمع ہے اور ظلمہ عربی میں اندھیرے کو کہتے ہیں ظلم اور ظلمات کا مادہ عربی میں ایک ہی ہے۔ ہماری زبان میں اس لفظی رعایت کے ساتھ اس کا ترجمہ یوں ہو سکتا ہے کہ اندھیر نہ کر و قیامت کے دن یہ اندھیرا ہو جائے گا۔ یہ ایک مثالی سزا ہو گی انسان اپنی غرض یا غصہ سے اندھا ہو کر دوسروں پر ظلم کر بیٹھتا ہے۔ یہ اندھا پن قیامت کے ہولناک دن میں اندھیر بن کر نمودار ہوگا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے چاہئے کہ وہ اس پر ظلم نہ کرے اور نہ اس کو بے یارو مددگار چھوڑے۔‘‘[3]
براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بھی نہ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ہم کو سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے روکا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مظلوم کی مدد کی جائے۔[4]
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر بنا کر جب آپﷺ نے یمن بھیجا تو ان کو نصیحت فرمائی کہ مظلوم کی بدعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کے اور خدا کے بیچ میں کوئی پردہ نہیں۔[5]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی کی آبروریزی کی یا کسی پر طظلم کیا تو اس کو چاہئے کہ آج ہی اس سے پاک ہولے اس دن سے پہلے کہ اس کے پاس دینے کو نہ دینار ہو گا نہ درہم۔ ظلم کا بدلہ ظلم کے برابر مظلوم کو ظالم کی نیکیوں سے دلوایا جائے گا اور نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی بدیاں ظالم پر لاد دی جائیں گی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ خدا ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب البر والصلة والأدب باب تحريم الظلم۔
[2] مسلم كتاب البر والصلة والأدب باب تحريم الظلم۔
[3] بخاري: کتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه۔ [4] بخاري: کتاب الجنائز باب الأمر باتباع الجنائز [5] بخاري: کتاب المظالم باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑتا نہیں۔[1]
بہرحال کتاب وسنت سے بغی اور ظلم و زیادتی کی سخت ممانعت ہے اور اس کا مرتکب دونوں جہانوں میں سخت سزاؤں کا مستحق ہے اس لئے اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے۔
﴿وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدة: 2)
’’اور ظلم پر معاونت مت کرو ظالم کی مدد کرنا ظلم ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں جاہلوں کی امارت (حکومت) سے تجھ کو خدا کی پناہ میں دیتا ہوں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ حکومت کیسی ہوگی؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد ایسے امیر (حاکم) آئیں گے کہ لوگ ان کے پاس جا کر ان کے جھوٹ کی تصدیق کریں گے اور ان کے ظلم کے کاموں پر ان کی مدد کریں گے وہ مجھ سے نہ ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں گا۔ یعنی میرا ان سے کوئی تعلق و واسطہ نہ ہوگا، اور نہ ہی میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔‘‘[2]
بترس از آہِ مظلومان که هنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید
’’یعنی مظلوم کی آوہ زاری سے ڈرتے رہو کیونکہ دعا کے وقت اس کی دعا اللہ تعالی کے سامنے قبول ہوتی ہے اس کی آہ و بکا کی وجہ سے زمین و آسمان بھی تھرا اٹھتے ہیں۔‘‘ قیامت کے روز ظالم کی سب نیکیاں چھن جائیں گی اور مظلوم کو دلا دی جائیں گی۔
رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ دریافت فرمایا کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نقد و جنس کچھ نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میری امت میں در حقیقت مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے روز (اعمال) نماز، روزہ اور زکوۃ کی (ادائیگی کر کے) آئے گا اور ایسی حالت میں حاضر ہوگا کہ کسی کو دنیا میں گالی دی ہوگی۔ کسی کو تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال ہضم کر لیا ہو گا۔ کسی کی خونریزی کی ہوگی یا کسی کو ناحق مارا پیٹا ہوگا تو ایک شخص کو (مثلا جس کو اس نے گالی دی تھی،) اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور دوسرے کو (مثلًا جس کو اس نے مارا تھا ) باقی تمام نیکیاں دے دی جائیں گی۔ پھر اگر ان پر مظالم کے تمام ہونے سے پہلے (جو اس کی گردن پر ہیں) اس کی نیکیاں ختم ہو چکیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔ آخر کار یہ دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو ہر قسم کی بری عادات سے بچائے اور بُرے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
(وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري كتاب المظالم باب من كانت له مظلمة عند الرجل فحللها له.
[2] الترمذي أبواب السفر باب ما ذكر في فضل الصلوة۔ (416/1)
[3] مسلم كتاب البر والصلة والادب باب تحريم الظلم۔
۔۔۔۔۔۔۔