عقیدے کے مسائل میں جہالت کی شرعی حیثیت

149۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((يُدْرسُ الْإِسْلَامُ كَمَا يَدْرْسُ وَشَىُ الثَّوْبِ، حَتّٰى لَا يُدْرٰى مَا صِيَامٌ وَلَا صَلَاةٌ وَلَا نُسُكٌ وَلَا صَدَقَةٌ، وَلَيُسْرَى عَلٰى كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ، فَلَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ مِنْهُ آيةٌ وَ تبْقٰى طَوَائِفُ مِنَ النَّاسِ، الشَّيْخ الكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ، يَقُولُونَ أَدْرَكْنَا آبَاءَنَا عَلٰى هٰذِهِ الْكَلِمَةِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ فَنَحْنُ نَقُولُهَا))

’’اسلام اس طرح محو ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقوش مٹ جاتے ہیں حتی کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں رہے گا کہ روزے کیا ہوتے ہیں یا نماز یا قربانی یا صدقہ کیا ہوتا ہے۔ اللہ کی کتاب کو ایک ہی رات میں اٹھا لیا جائے گا اور زمین میں اس کی ایک آیت بھی نہیں رہے گی۔ لوگوں میں کچھ بوڑھے مرد اور عورتیں رہ جائیں گی جو کہیں گی: ہم نے اپنے بزرگوں کو لا إلهَ إِلَّا الله کہتے دیکھا تھا، ہم بھی کہتے ہیں۔ “

(سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک شاگرد) سیدنا صلہ بن زفر رحمۃ اللہ نے کہا: انہیں لا إلهَ إِلَّا الله سے کیا فائدہ ہوگا جب انھیں نماز،  روزے، قربانی اور صدقے کا بھی علم نہیں ہو گا ؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سےمنہ پھیر لیا۔ انھوں نے تین بار یہ سوال کیا اور ہر دفعہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ ان سے منہ پھیرتے رہے۔ تیسری بار ان کی طرف متوجہ ہو کر تین بار فرمایا: اے صلہ! (اس دور میں)  یہی انھیں جہنم سے بچالے گا۔(أَخْرَجَهُ ابن ماجه:4049)

توضیح و فوائد: اس حدیث میں قرب قیامت کی نشانی بیان کی گئی ہے۔ اس وقت جب لوگ اسلام پر عمل کرنا اور قرآن پڑھنا چھوڑ دیں گے تب انھیں قرآن کے الفاظ سے بھی محروم کر دیا جائے گا اور جہالت عام ہو جائے گی صرف کلمہ توحید کا اقرار ہی لوگوں کی نجات کے لیے کافی ہوگا۔ گویا ان کی جہالت کا عذر قابل قبول ہوگا۔

150۔سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے مکہ فتح کیا تو ہمیں اپنے ساتھ لے کر بنو ہوازن کی طرف نکلے۔ راستے میں ہم کافروں کے ایک (متبرک) درخت کے پاس سے گزرے جس پر وہ اپنا اسلحہ وغیرہ لڑکاتے تھے۔ جسے وہ ذات انواط (لڑکانے والا) کہتے تھے۔ ہم نے عرض کی:اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ذات انواط مقرر فرمائیے جس طرح ان لوگوں کا ذات انواط ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:

((اللهُ أَكْبَرُ. إِنَّهَا السُّنَنُ، هٰذَا كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوسَى: اجْعَلْ لَنَا إِلٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةً، قَالَ: ﴿إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾

’’الله اکبر! (حیرت کی بات ہے) یہ تو پہلے لوگوں کا طریقہ ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ہمارے لیے بھی اللہ (معبود) مقرر کیجیے جیسا کہ ان کے معبود ہیں۔ انھوں نے فرمایا:تم تو جاہل لوگ ہو۔‘‘

پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّكُمْ لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ)

’’تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کا طرز عمل اختیار کرو گے۔“(أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 21897، 21900، والترمذي:2180، وابن حبان:6702، والحميدي في مسنده( وابن أبي شيبة:101/15، وابن أبي عاصم في السنة:76، وأبو يعلى:1441، والنسائي في الكبرى:11185،وعبد الرزاق:20763، والطبراني في الكبير:3290، 3292)

151۔گزشتہ حدیث میں جن صحابہ کرام نے ذات انواط مقرر کرنے کا تقاضا کیا تھا وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں:

((وَنَحْنُ حُدَثَاءُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ.)) (أخرجه الطبراني في الكبير:3291)

’’ہمارا کفر کا دور قریب ہی گزرا تھا، یعنی ہم ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔“

152۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((كَانَ رَجُلٌ يُسْرِفُ عَلَى نَفْسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ، قَالَ لِبَنِيهِ:إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اطْحَنُونِي، ثُمَّ ذَرُونِي فِي الرِّيحِ، فَوَاللهِ لَئِنْ قَدَرَ الله عَلَىَّ لَيُعَذِّ بَنِي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِهِ ذٰلِكَ فَأَمَرَ اللهُ تَعَالَى الْأَرْضَ فَقَالَ: اجْمَعِي مَا فِيكِ مِنْهُ، فَفَعَلَتْ، فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ:مَا حَمَلَكَ عَلٰى مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ:يَا رَبِّ خَشْيَتُكَ. حَمْلَتْنِي فَغَفَرَ لَهُ)) (أخرجه البخاري:3481،7506، ومسلم:2756)

’’(زمانہ فترت میں) ایک شخص بہت گناہ گار تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا:جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر مجھے باریک پیس کر ذرات کو ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہو گیا تو مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیا ہوگا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے تمام اجزا جمع کر دے تو زمین نے ان ذرات کو جمع کر دیا، پھر اچانک وہ شخص کھڑا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ تو نے کیا اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا ؟ اس نے کہا:اے پروردگارا تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اللہ تعالی نے اسے معاف کر دیا۔ ‘‘

توضیح و فوائد: اگر کوئی شخص جہالت کی وجہ سے ایسا کلمہ کہے یا عمل کرے جو کفر ہو یا کوشش کے باوجود وہ اسلام کی صحیح تعلیمات سے محروم ہو تو اس کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ ایسے آدمی کی جہالت کا عذر قبول ہو گا اور ہم دنیاوی اعتبار سے اسے مسلمان ہی تصور کریں گے، البتہ باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اگر کوئی شخص صحیح بات معلوم ہونے کے بعد بھی تقلید وغیرہ کی وجہ سے باطل پر ڈٹا رہا تو اس کا عذر قبول نہ ہوگا۔ جاہل اگر کافر ہے تو اس کا حکم کا فر والا ہی ہو گا اور آخرت میں اس کا امتحان ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

……………