اللہ تعالی سے اچھا گمان رکھنا ضروری ہے

327۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((يَقُولُ اللهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ، ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ شِبْرًا إِلَىَّ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَىَّ ذِرَاعًا، تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.)) (أخرجه البخاري:7405 ، ومُسلِم:  2675)

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت آئے تو میں اس کی جانب ایک گز نزدیک ہوتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک گز مجھ سے قریب ہو تو میں دو گز اس سے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔‘‘

توضیح وفوائد: اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن (اچھے کمان) کا مطلب یہ ہے کہ بندہ دعا کرے تو یہ گمان رکھے کہ اللہ قبول کرے گا، توبہ کرے تو اس کے قبول ہونے، نیکی کرے تو اس کا صلہ پانے اور گناہ ہو جائے تو اس کی معافی کی امید رکھے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان گناہ پر جری اور جرأت مند جائے اور اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اسے شرم و حیا نہ آئے، اُسے نصیحت کی جائے تو رسمی طور پر کہہ دے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے لیکن گناہ سے باز نہ آئے۔ مذکورہ حدیث میں اللہ تعالی نے حسن ظن کو اعمال صالح سے جوڑا ہے۔ جس کا گمان اللہ کے بارے میں جیسا ہو گا وہ اسی کے مطابق عمل کرے گا۔

 اہل علم نے لکھا ہے کہ صحت کی حالت میں خوف اور امید برابر ہو یا خوف کا پہلو غالب ہو اور موت کے وقت امید کا پہلو غالب ہو کہ اللہ تعالی ضرور معاف فرمائے گا۔

328۔ سیدنا واثلہ بن اسقع رضی الہل تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:

((قَالَ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ)) (أخْرَجَهُ ابن حِبَّان:  633،634 )

’’اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: بندہ میرے متعلق جس طرح کا گمان رکھتا ہے میں اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں اب وہ جس طرح کا چاہے میرے بارے میں گمان رکھے۔‘‘

329۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ جَلَّ وَعَلَا يَقُولُ:  أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنْ ظَنَّ خَيْرًا فَلَهُ، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَهُ)) (أخرجه ابن حبان:339)

’’یقینا اللہ عز وجل فرماتا ہے: بندہ میرے متعلق جس طرح کا گمان رکھتا ہے میں اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔ اگر وہ خیر کا گمان رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے ہے اور اگر وہ شر کا گمان رکھتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے ہے۔“

توضیح و فوائد:  برے گمان کی مثال یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی سے مایوس ہو کر اس سے دعا مانگتا ہی چھوڑ دے کہ اللہ تعالی میری تو دعا قبول ہی نہیں کرتا۔ ایسے شخص کی دعا اللہ تعالی واقعی قبول نہیں کرتا۔ اللہ کی پکڑ سے ڈرنا اور اس کا خوف تو یقینًا مطلوب ہے، مگر اللہ کے عذاب سے ڈرنا برا گمان نہیں ہے۔

330۔سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت ہم غار میں تھے، میں نے اپنے سروں کی جانب (غار کے اوپر) مشرکین کے قدم دیکھے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھ لے تو ہم اسے ضرور نظر آجائیں گے۔ آپ نے فرمایا:

((يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 3653، وَمُسْلِمِ:2381)

ابوبکر! ان دو کے متعلق تیرا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے؟ (انھیں کوئی ضرر نہیں

توضیح و فوائد:  اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سارے وسائل ختم ہو جائیں اور بظاہر کام بننے کی کوئی صورت نظر نہ آئے، تب بھی اللہ تعالی سے پر امید ہی رہنا چاہیے۔ سیدنا  ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺسے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:

((فَاعْمَلْ مِنْ وَّرَاءِ الْبِحَارِ، فَإِنَّ اللهَ لَنْ يَّتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:  1452، 3923، 6165، ومسلم: 1865)

’’تو دریاؤں کے اس پار عمل کرتا رہ، بے شک اللہ تعالیٰ تیرے اعمال میں سے کسی چیز کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

توضیح و فوائد: رسول اللہ اللہ نے دیہاتی کو حکم دیاکہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے کہ وہ ضرور جزا دے گا اپنی جگہ ہی پر عمل کیے جاؤ۔ وہ ذات عالی ہجرت کے بغیر بھی نواز نے پر قادر ہے۔

332۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((يَخْرُجُ رَجُلَانِ، فَيُعْرَضَانِ عَلَى اللهِ، ثُمَّ يُؤْمَرُ بِهِمَا إِلَى النَّارِ، فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمَا فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا كَانَ هٰذَا رَجَائِي، قَالَ: وَمَا كَانَ رَجَاؤُكَ، قَالَ: كَانَ رَجَائِي إِذْ أَخْرَجْتَنِي مِنْهَا، أَنْ لَّا تُعِيدَنِي، فَيَرْحَمَهُ الله فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:  192، وابن حبان:632، واللفظ له)

’’دو آدمیوں کو دوزخ سے نکال کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، پھر ان کے بارے میں حکم دیا جائے گا کہ انھیں دوزخ کی آگ میں ڈال دو۔ ان میں سے ایک عرض کرے گا: اے رب العالمین! مجھے یہ امید نہیں تھی (کہ میرے ساتھ یہ سلوک ہوگا۔) اللہ تعالی فرمائے گا:  مجھے کیا امید تھی، وہ کہے گا: مجھے یہ امید تھی کہ جب تو نے مجھے آگ سے نکالا ہے تو دوبارہ آگ میں نہیں ڈالے گا، تو اللہ تعالی اس پر رحم کرتے ہوئے اسے جنت میں داخل فرما دے گا۔‘‘

…………………………