غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے

636۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:  ((مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللهُ، لَا يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ إِلَّا اللهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتى يَأْتِي الْمَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللهُ، وَلَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِلَّا اللهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا الله)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيّ:1039، 4627، 4697، 4778، 7379)

’’غیب کی چابیاں پانچ ہیں، جنھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا:  رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں۔ اللہ کے سوا کسی کو پتا نہیں کہ کل کیا ہو گا؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی، اللہ کے سوا کسی شخص کو علم نہیں کہ وہ کس زمین میں فوت ہو گا؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔‘‘

637۔  سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ سیدنا محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾  (الأنعام 103: 6) ’’نظریں اسے نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘

اور جو تجھے یہ کہے کہ آپﷺ غیب جانتے تھے تو اس نے بھی غلط کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ﴾ ’’غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔‘‘ (أَخْرَجَهُ البُخَارِيُّ:  4612، 4855، 7380، 7531، ومسلم:177)

توضیح و فوائد:  نبی اکرمﷺ نے خواب میں اللہ تعالی کی زیارت کی لیکن جاگتی آنکھوں سے آپ سمیت کسی نے اللہ کی زیارت نہیں کی۔ اسی طرح عالم الغیب ہونا اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے۔ اللہ تعالی کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ جو شخص نبی ﷺ کے بارے میں عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھے وہ قرآن کا منکر ہے۔ یادر ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے اپنے رسول کو بتلا دے وہ غیب نہیں رہتا۔ آپ نے جن نہبی امور کے بارے میں بتایا ہے وہ امور آپ مکئی ایام کو وحی کے ذریعے سے معلوم ہوئے۔ آپ کا ذاتی وصف عالم الغیب ہوتا نہیں ہے۔

638۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي لَكُمْ فَرَطٌ عَلَى الْحَوْضِ، فَإِيَّايَ، لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ فَيُذَبُّ عَنِّي كَمَا يُذَبُّ الْبَعِيرُ الضَّالُ، فَأَقُولُ:  فِيمَ هٰذَا؟ فَيُقَالُ:  إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ:  سُحْقًا))  (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ :2295)

’’میں حوض  (کوثر) پر تمھارا پیش رو ہوں گا۔ میرے پاس تم میں سے کوئی اس طرح نہ آئے کہ اسے مجھ سے دور دھکیلا جا رہا ہو، جس طرح بھٹکے ہوئے اونٹ کو (ریوڑ سے) دور دھکیلا جاتا ہے۔ میں  (فرشتوں سے) پوچھوں گا:  یہ کس وجہ سے ہو رہا ہے؟ تو کہا جائے گا:  آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد  (دین میں) کیا نئے کام نکال لیے تھے۔ تو  (فرشتوں کا جواب سن کر ) میں کہوں گا:  دوری ہو!‘‘

639۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَىَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلٰى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذُهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةٌ مِّنَ النَّارِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:  2680، 6967،  7169، ومُسْلِمٌ:1713)

’’تم لوگ میرے پاس اپنے جھگڑے اور مقدمات وغیرہ لاتے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنا موقف بیان کرنے میں دوسرے شخص سے زیادہ ہوشیار ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کردوں، تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کر دیا لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ اس کا حق نہیں) تو وہ اسے نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘