گناہوں کے نقصانات

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا ۙ قُلْتُمْ اَنّٰی هٰذَا ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۶۵﴾ (آل عمران: 165)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کیا جب کوئی تکلیف پہنچے حالانکہ تم اس سے دوگنا مصیبت پہنچا چکے ہو تو کہتے ہو کہ یہ کہاں سے آ گئی۔ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
یہاں پر جس مصیبت کا بیان ہو رہا ہے یہ احد کی مصیبت ہے جس میں ستر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم شہید ہوئے تھے اور اس سے دوگنی مصیبت مسلمانوں نے کافروں کو پہنچائی تھی۔ یعنی بدر والے دن ستر کافرقتل کئے گئے تھے اور ستر قید کئے گئے تھے تو مسلمان کہنے لگے کہ یہ مصیبت کیسے آ گئی۔ خدا فرماتا ہے یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے۔ ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ بدر کے دن مسلمانوں نے فدیہ لے کر جن کفار کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کی سزا میں اگلے سال ان میں سے ستر مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں بھگدڑ مچ گئی۔ حضور ﷺ کے سامنے کے چار دانت اگلے ٹوٹ گئے۔ آپ ﷺ کے سر مبارک پر خود تھا وہ بھی ٹوٹا اور چہرہ مبارک لہولہان ہو گیا۔ اس کا بیان اس آیت مبارکہ میں ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم نے رسول اللہﷺ کی نافرمانی کی تھی اس کے باعث تمہیں یہ نقصان پہنچا۔ تیر اندازوں کو رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں لیکن وہ ہٹ گئے۔ چنانچہ اسی صورت میں اس آیت کریمہ کی چند آیتیوں سے پہلے جنگ احد کی شکست کے بارے میں یہ فرمایا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (3؍1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۵۲﴾ (آل عمران: 152)
’’اللہ تعالی نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ تم اس کے حکم سے انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹنے لگے۔ یہاں تک کہ تم بزدل ہو گئے اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کرنے لگے۔ اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھا پھر تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمانے اور یقینًا اس نے تمہاری لغزشوں سے درگزر فرمائی، ایمان والوں پر اللہ تعالی بڑے فضل والا ہے۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوئی کہ بظاہر مصیبتوں کا سبب معصیت الہی اور خدا کی نافرمانی ہے۔ یعنی جب انسان قانون شکنی کرتا ہے اور خدائی حکم کی حکم عدولی کرتا ہے تو سزاؤں کا مستحق ہو جاتا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ شیطان نافرمانی سے پہلے خدا کا بہت بڑا مقرب تھا اور تمام فرشتوں کا قائد اعظم تھا لیکن خدائی حکم نہ بجالانے کی وجہ سے مردود بارگاہ الہی ہوا۔ اور جنت کے عیش و آرام سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گیا۔
اسی طرح سے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے طوفان آیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد مشہور اور بڑے نبیوں میں سے حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ آپ کو ایک ہزار برس کے قریب عمر ملی تھی۔ اُن کو اللہ تعالی نے ان کی قوم کے لئے رسول بنایا تھا۔ یہ ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو نصیحت کرتے رہے مگر جس قدر وہ اللہ کی طرف بلاتے اتنے ہی وہ لوگ دور بھاگتے۔ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تاکہ نوح علیہ السلام کی بات بلکہ آواز بھی کان میں نہ پڑے۔ آخر اللہ تعالی نے طوفان کے ذریعے تمام نافرمان قوم کو غرق کر دیا۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ مِمَّا خَطِیْٓـٰٔتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا۝۲۵﴾ (نوح: 25)
’’یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیے گئے ہیں اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مدد گا ر انہوں نے نہ پایا۔‘‘
یہ غرق آبی محض عصیان اور طغیان کی وجہ سے ہوئی۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے مصیبت آتی ہے۔ جس سے بچنا ضروری ہے۔ قوم ہود یعنی عاد پر بھی عذاب الہی بوجہ ان کی نافرمانی کے آیا یہ قوم بڑی طاقت ور اور شہ زور تھی۔ ہود علیہ السلام نے بہتیر سمجھایا مگر وہ نافرمانی سے باز نہیں آئے اور یہ کہنے لگے۔
﴿فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا﴾ ’’جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اسے لے آؤ۔‘‘
چنانچہ ان پر خدا کی طرف سے اچانک بجلی کی ایک خوفناک گرج پیدا ہوئی۔ اور ہوا نے اس قدر زور کیا کہ پہلے ان کے مکانات و محلات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اور وہ بستی سب برباد ہوگئی۔ اس کے بعد ہوا نے ان کے پاؤں کے نیچے آ کر سر کے بل زمین پر پٹخ دیا جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ؕ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰی وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ۝۱۶﴾ (حم السجدة:16)
’’پھر بھیجی ان پر ہم نے ہوا۔ بڑے زور کی کئی دن جو مصیبت کے تھے تاکہ ہم چکھائیں ان کو رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگانی میں اور آخرت کے عذاب میں تو پوری رسوائی ہے اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ فِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ۝۴۱
مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِؕ۝۴﴾ (الذريات:42)
’’اور قوم عاد کے ہلاک ہونے میں بھی قدرت الہی کی بہتیری نشانیاں ہیں۔ جب ہم نے ان پر ایک منحوس آندھی چلائی جس چیز سے ہو کر وہ گذرتی اس کو بوسیدہ ہڈی کی طرح (چورا) کئے بغیر نہ چھوڑتی۔‘‘
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ۝۱۸ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّۙ۝۱۹ تَنْزِعُ النَّاسَ ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ۝۲۰ فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ۝۲۱﴾ (القمر: 21)
’’جھٹلایا عاد نے پھر کیسا ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔ ہم نے بھیجی اُن پر ہوا تند ایک نحوست کے دن۔ جو ٹلنے والی نہ تھی۔ اکھاڑ پھینکا لوگوں کو گویا وہ جڑیں ہیں کھجور کی اکھڑی پڑی، پھر کیسا رہا میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔‘‘
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ۝۶ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوْمًا ۙ فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰی ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍۚ۝۷ فَهَلْ تَرٰی لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۝۸﴾ (الحاقة: (8)
’’اور وہ عاد جو تھے سو برباد ہوئے ٹھنڈی سنّاٹے کی ہوا سے۔ کہ جو حد سے زیادہ تند تھی۔ مقرر کر دیا اس کو ان پر سات رات اور آٹھ دن لگا تار۔ پھر تو دیکھے گا کہ وہ لوگ اس میں گرے پڑے ہیں گو یا وہ جڑیں ہیں کھجور کی پھر تو دیکھتا ہے کہ کیا کوئی ان میں سے بچا؟‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۪ۙ۝۶ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۪ۙ۝۷ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ۪ۙ۝۸﴾ (الفجر: ۱۱)
’’تو نے دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے عاد ارم کے ساتھ، جو تھے بڑے ستونوں والے کہ ان جیسے سارے شہروں میں نہیں پیدا کیے گئے۔‘‘
ان آیات میں جس عذاب کے بارے میں کہا گیا ہے وہ ترجمے سے واضح ہو گیا ہے۔ زیادہ بیان تفسیر میں ہے۔ حاصل یہ کہ قوم عاد اپنی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے برباد ہوگئی۔
قوم ثمود جو عاد ثانیہ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے نبی صالح علیہ السلام کی تکذیب اور خدا کی نافرمانی کی باوجود وعظ ونصیحت اور تہدید کے۔ جو کسی صورت میں حرکات ناشائستہ سے باز نہیں آئے تو ان پر بھی عذاب الھی آیا۔
بیضاوی وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے کافروں سے کہا کہ اب تین روز کی مہلت ہے۔
تین روز تک اپنے گھروں میں رہو کل تمہارے چہرے زرد، پرسوں سرخ اور چوتھے روز سیاہ ہو جائیں گے۔ اس کے بعد پانچویں روز عذاب آ جائےگا۔ دوسرے روز علامتِ ع ذاب ظاہر ہوئی تو لوگوں کو فکر پیدا ہوئی اور حضرت صالح علیہ السلام سے دفعیہ کی صورت دریافت کرنے لگے۔ اونٹنی کے بچے کو ڈھونڈا گیا مگر وہ نہ ملا۔
بیضاوی کا قول ہے کہ علاماتِ عذاب دیکھ کر کچھ لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو شہید کر ڈالنا چاہا۔ مگر آپ ارض فلسطین کی طرف چلے گئے تھے۔
ابن کثیر نے بروایت ابن جریج بیان کیا ہے کہ جن لوگوں نے دھوکہ سے رات کو اونٹنی کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اُن پر یوم عذاب سے پہلے ہی آسمان سے پتھر پرسے اور وہ برباد ہو گئے۔
غرض یہ کہ روز مقرر آنے سے پہلے ہی لوگوں کو عذاب کا یقین ہو چکا تھا۔ جب یوم موعود کا آفتاب طلوع ہوا، ادھر فورًا زمین میں زلزلہ آیا اور آسمان سے ایک ہیبت ناک چیخ سنائی دی، جس سے سب مر گئے۔ کفار میں سے کوئی نہ بچا۔ البتہ ابورغال نامی ایک جوان جو اس زمانہ میں مکہ کو گیا تھا بچ گیا۔ مگر جب وہ سر زمین حرم سے باہر آیا تو اس پر بھی آسمان سے ایک پتھر گرا اور وہ بھی مر گیا۔ اللہ تعالی نے قوم ثمود کے بارے میں ان آیتوں کو نازل فرمایا تاکہ دوسرے لوگ بھی عبرت پکڑیں۔
﴿ وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۷۳ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا ۚ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۝۷۴ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ؕ قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۷۵ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ۝۷۶ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۷۷ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۷۸ فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ۝۷۹ ﴾ (اعراف: 73 تا79)
’’اور ثمود کے پاس ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ صالح نے کہا: اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے بے شک تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیل آ چکی ہے۔ یہ خدا داد اونٹنی تمہارے لئے نشان قدرت ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پیتی رہنے دو۔ کوئی دکھ نہ پہنچاؤ ورنہ تم کو درد ناک عذاب پکڑے گا۔ اور یاد کرو جب عاد کے بعد اللہ نے تم کو جانشین بنایا اور زمین میں تم کو ٹھکانا دیا کہ نرم زمینوں میں محلات بناتے رہو۔ اور پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے رہو۔ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور ملک میں تباہی نہ پھیلاتے پھروں۔ ہود کی قوم کے ان لوگوں نے جو بڑے بن گئے تھے ان کمزور لوگوں سے کہا جو ایمان لے آئے تھے کیا تم کو یقین ہے کہ صالح اپنے رب کے پیغمبر ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو اس حکم کا یقین رکھتے ہیں جو صالح علیہ السللم کو دے کر بھیجا گیا ہے۔ سرکش لوگ کہنے لگے جس پر تم ایمان لائے ہو ہم یقینًا اس کے منکر ہیں۔ غرض انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے اور اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی اور کہنے لگے اگر تو واقعی پیغمبر ہے تو جس چیز کا ہم سے وعدہ کرتا ہے وہ ہم پر لے آ۔ بالآخر زالزالہ نے ان کو آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں زانوں کے بل اوندھے گرے رہ گئے۔ صالح علیہ السلام نے اُن سے کنارہ کشی کی اور کہا: اے قوم! میں نے تم کو اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم خیر خواہوں کو دوست نہیں رکھتے۔‘‘
اسی واقعہ کو سورہ ہود میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اور قرآن مجید کی بعض آیتوں میں کسی جگہ ہلاکت نیز آفریں آواز کو لفظ ’’صاعقہ‘‘ کڑک دار بھی اور کسی مقام پر لفظ ”رجعہ‘‘ زلزلہ ڈالنے والی آواز اور کسی جگہ ’’طاغية‘‘ دہشت ناک اور بعض جگہ ’’صیحہ‘‘ چیخ فرمایا۔ اسلئے کہ یہ تمام تعبیرات ایک ہی حقیقت کی مختلف اوصاف کے اعتبار سے کی گئی ہیں۔ تاکہ یہ کہ خدا تعالی کے اس عذاب کی ہولناکیاں کیسی گونا گوں تھیں تم ایک ایسی کوندنے والی بجلی کا تصور کرو۔ جو بار بار اضطراب کے ساتھ چمکتی کڑکتی اور گرجتی ہو اور اس طرح کوند رہی ہو کہ کبھی مشرق میں ہے تو کبھی مغرب میں۔ اور جب ان تمام صفات کے ساتھ چمکتی کوندتی لرزتی گرجتی ہوئی کسی مقام پر ایک ہولناک چیخ کے ساتھ گرے تو اس مقام اور اس کے نواح کا کیا حال ہو گا۔ یہ ایک معمولی اندازہ ہے۔ اس عذاب کا جو ثمود پر نازل ہوا۔ اور اُن کو اور ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کر کے سرکشوں کی سرکشی اور مغروروں کے غرور کا انجام ظاہر کرنے کے لئے آنے والی نسلوں کے سامنے عبرت کے لئے پیش کرنے گا۔
اہل مدین پر اس وقت عذاب نازل ہوا جب پوری قوم خائن اور بدمعاملہ اور بے ایمان ہوگئی۔ کم تولنا، اور زیادہ لینا کوئی عیب نہ رہا۔ اور قوم کا اخلاقی احساس یہاں تک فنا ہو گیا کہ جب ان کو اس عیب پر ملامت کی جاتی تو شرم سے سر جھکا لینے کے بجائے وہ الٹا اس ملامت کرنے والے کو ملامت کرتے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ان میں کوئی ایسا عیب بھی ہے جو ملامت کے قابل ہو، وہ اپنی بدکاریوں کو بُرا نہ سمجھتے۔ بلکہ جو ان حرکات کو برا کہتا انہیں کو بر سر غلط اور لائق سرزنش خیال کرتے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ۝۸۵ وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا ۚ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ ۪ وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۝۸۶ وَ اِنْ كَانَ طَآىِٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىِٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ۝۸۷ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫۝۸۸ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَا ؕ وَ مَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ؕ عَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا ؕ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ۝۸۹ وَ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَىِٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ۝۹۰ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ۝۹۱ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا ۛۚ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ۝۹۲ فَتَوَلّٰی عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ ۚ فَكَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠۝۹۳﴾ (الاعراف: 85 تا 93)
’’اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا انہوں نے فرمایا: کہ اے میری قوم! تم اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہار معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے تو تم ناپ تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کا ان چیزوں میں نقصان نہ کیا کرو۔ اور روئے زمین پر بعد اس کے کہ اس کی درستگی کر دی گئی۔ فساد مت پھلاؤ۔ یہ تمہارے لئے نافع ہے۔ اگر تم تصدیق کرو۔ اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راہ سے روکو۔ اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو۔ اور اس حالت کو یاد کرو جبکہ تم کم تھے پھر اللہ تعالی نے تم کو زیادہ کر دیا۔ اور دیکھو کہ کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں گا۔ اور اگر تم میں سے بعض اس حکم پر جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا ہے ایمان لے آئے ہیں اور بعض ایمان نہیں لائے ہیں۔ تو ذرا ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ تعالی فیصلہ کر دے اور اللہ تعالی فیصلہ کرنیوالوں سے بہتر ہیں۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اسے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراہ ایمان والے ہیں۔ ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ یا یہ ہو کہ تم ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ شعیب نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آ جا ئیں۔ گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں۔ ہم تو اللہ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہو جائیں گے۔ اگر ہم تمہارے مذہب میں آ جائیں بعد اس کے کہ اللہ نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آ جائیں۔ لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ کر دیجئے۔ حق کے موافق۔ اور آپ سب کا اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ اگر تم شعیب کی راہ پر چلنے لگو گے تو بیشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے۔ پس ان کو زلزلے نے آ پڑا۔ سو اپنے گھر میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔ اس وقت شعیب ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دیئے تھے۔ اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں۔‘‘
اور اسی طرح کا بیان سورہ حجر اور سورۂ شعراء میں بھی آیا ہے۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ نافرمانی اور سرکشی کی پاداش میں قوم شعیب کو دو قسم کے عذاب نے آ گھیرا۔ ایک زلزلہ کا عذاب، دوسرا آگ کی بارش کا عذاب یعنی وہ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے تو ایک بیک ایک ہولناک زلزلہ آیا۔ اور ابھی یہ ہولناکی ختم نہ ہوئی تھی کہ اوپر سے آگ برسنے لگی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ صبح دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کل کے کُل سرکش اور مغرور آج گھٹنوں کے بل اوندھے جھلسے ہوئے پڑے ہیں۔
﴿فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ﴾ (العنكبوت: 37)
’’پھر آ پکڑا ان کو زلزلے نے پس صبح کو رہ گئے اپنے اپنے گھروں کے اندر اوندھے پڑے۔‘‘
﴿فَكَذَّبُوْهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلًّةِ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ﴾ (الشعراء: 189)
’’پھر انہوں نے شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا، پس آ پکڑا ان کو بادل والے عذاب نے (جس میں آگ تھی) بیشک وہ بڑے ہولناک دن کا عذاب تھا۔‘‘
بہر حال اس قوم پر اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ معصیت اور گناہ عذاب الہی کا سبب ہے۔ اسی طرح سے اصحاب الرس اور اصحاب القریہ پر بھی رسولوں کی تکذیب اور خدا کی نافرمانی کی وجہ سے مصیبتیں آئیں۔
حضرت یونس علیہ السلام با وجود نبی صادق ہونے کے معمولی لغزش کی وجہ سے سمندر کی تاریکی اور مچھلی کے پیٹ کے جیل خانے میں گرفتار ہوئے۔ اگر وہ ﴿لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحٰنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ (الانبياء: 8۷) کا ذکر نہ کرتے تو کبھی بھی نجات نہ پاتے۔
فرعون بڑا سرکش تھا۔ باوجود ربوبیت کے دعوٰی کے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرتا تھا۔ اور بنی اسرائیل پر حد سے زیادہ ظلم کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے سمجھانے کے لئے حضرت موسی علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ لیکن اس نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اور باقاعدہ اُس نے مقابلہ کیا۔ مناظرہ کرایا۔ اُس نے معجزات طلب گئے۔ اتمام حجت کے لئے فرعون اور اس کی قوم کو ید بیضا اور عصا کے علاوہ اور بھی نشانیاں دکھائی گئیں اور وہ یہ نشانیاں تھیں (1) قحط سالیاں (2) پیداوار میں کمی (3) سیلاب (4) ٹڈی (5) جوئیں (6) مینڈک (7) خون۔
تفسیر معالم التنزیل اور تاریخ ابن الاثیر میں ہے کہ جب قوم فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت سے انکار کیا اور سارے معجزات کو جادو بتایا۔ قسم قسم کے ظلم و ستم بنی اسرائیل پر کرنے لگے تو حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کی قوم کے لئے جناب باری میں دعا کی۔ حق تعالی نے قوم فرعون پر پانی کا عذاب نازل کیا۔
کالا ابر آیا اور سات دن تک برابر مینہ برستا رہا۔ قبطیوں کے گھروں میں پانی جمع ہوا، قوم فرعون کے گھر پانی کے چشمے ہے۔ ہر مرد عورت کے گلے گلے تک گھروں میں پانی کھڑا ہو گیا۔ جو شخص ذرا جھکا فورًا ڈوب گیا۔ جو سیدھا کھڑا رہا وہ زندہ رہا۔ سارے کھیت اور باغ غرق ہو گئے۔ ایک ہفتہ تک برابر یہی عذاب ہوتا رہا۔
قبطیوں کے عذر و معذرت کرنے کے بعد یہ عذاب دفع ہو گیا۔ مگر فرعونی پھر سرکشی کرنے لگے۔
ایک مہینے کے بعد دوسرا عذاب ٹڈیوں کا نازل ہوا۔ ٹڈیوں نے قبطیوں کے باغات کھیت ہر قسم کی ہری چیز چاٹ لی۔ سات دن اور رات تک یہ عذاب رہا۔ جب قبطی بہت روئے اقرار کیا کہ اب ہم ضرور مسلمان ہو جا ئیں گے۔ اے موسیٰ علیہ السلام دعا کرو کہ خدا تعالی اس عذاب کو دفع کردے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے دعا فرمائی۔ وہ ٹڈیاں فورًا غائب ہو گئیں۔
مگر پھر انہوں نے وہی کفر و سرکشی شروع کر دی۔ اب پھر حضرت موسی علیہ السلام نے بد دعا کی تو چیچڑیاں نازل ہو ئیں، جو تمام قبطیوں کے خون کو چوس گئیں۔
اس کے بعد مینڈک نازل ہوئے جو قبطیوں کے گھروں میں گھس گئے۔ ہر طرح کی کھانے پینے کی چیزوں میں گر جاتے اور خراب کر دیتے۔
پھر اس کے بعد قبطیوں میں خون کا عذاب نازل ہوا۔
آخر تنگ آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ دُعا کیجئے اگر یہ عذاب ہٹ گیا تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے وہ عذاب دور ہو گیا اور خوشحالی پیدا ہو گئی مگر وہ ایمان نہیں لائے اور کفر پر جمے رہے۔ جب اللہ تعالی نے قحط سالی مسلط کر دی اور پیداوار میں کمی ہوگئی اور غلوں میں گھن لگنے لگے۔
غرض یہ کہ ہر طرح سے ان کو متنبہ کیا گیا مگر وہ اپنی شرارت سے باز نہیں آئے اور انہیں مختلف قسم کے عذابوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر خدائے قادر پر ایمان لانا نصیب نہ ہوا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کا حال بیان فرمایا ہے:
﴿وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ۝۱۳۴ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤی اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ۝۱﴾ (سورة الاعراف: 134 – 135)
’’اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے: اے موسی! ہمارے لئے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے جس کا اُس نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم ضرور ضرور آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کر دیں گے۔ اور آپ کے ہمراہ بھیج دیں گے۔ پھر جب ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک ہٹا دیا گیا تو فوراً ہی عہد شکنی کرنے لگتے۔‘‘
جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو خدائے تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے تم بنی اسرائیل کو نکال کے فلسطین کی سرزمین کی طرف لے جاؤ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر تشریف لے چلے۔ جب دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سے پانی پر مار دو۔ پانی پھٹ کر بیچ میں راستہ نکل آئے گا۔ موسی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ ادھر فرعون نے مع لشکر کے ان کا تعاقب کیا۔ جب سمندر کے کنارے پہنچا۔ تو اس وقت موسی علیہ السلام مع بنی اسرائیل کے اس پار نکل چکے تھے۔ فرعون مع لشکر کے دریائی راستے میں بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لئے چل پڑا۔ جب پورا لشکر اور فرعون دریا کے درمیان پہنچ گئے۔ کوئی فرعونی باہر نہیں رہا۔ تب اللہ تعالی نے دریا کے پانی کو بدستور سابق بہنے کا حکم دیا۔ سارے فرعونی دریا میں ڈوبنے لگے۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور عذاب کے فرشتے سامنے نظر آنے لگے تو کہا: میں اس ایک وحدہ لاشریک لہ ہستی پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں مگر یہ ایمان چونکہ حقیقی ایمان نہ تھا بلکہ گذشتہ فریب کاریوں کی طرح عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ایک مضطربانہ بات تھی اسلئے خدا کی طرف سے جواب ملا:
﴿آٰلْـٰٔنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۹۱﴾ (يونس: 91)
’’اب یہ کہہ رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے جو اقرار کا وقت تھا اُس میں انکار اور خلاف ہی کرتا رہا۔ اور در حقیقت تو مفسدوں میں سے تھا۔‘‘
فرعونیوں کی یہ تباہی محض اللہ کی نافرمانی سے ہوئی۔ تو جو بھی قانون الہی کی خلاف ورزی کرے گا۔ اس پر دنیاوی مصیبتیں بھی اور اخروی سزا میں بھی ہوں گی۔ فرعون کی طرح قارون بھی خدائی عذاب میں گرفتار ہوا، اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو گئیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ۙ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۝۳۶
فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَؗ۝۳۷ وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ ۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ۝۳۸ وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ ۫ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَۚۖ۝۳۹ فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۴۰﴾ (عنكبوت: 36 تا 40)
’’مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو۔ قیامت کے دن کی توقع رکھو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ پھر بھی انہوں نے انہیں جھٹلایا۔ آخر انہیں زلزلے نے پکڑ لیا۔ اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے مردہ ہو کر رہ گئے۔ ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا۔ جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں۔ شیطان نے انہیں ان کی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا۔ باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے۔ اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی۔ اُن کے پاس حضرت موسی علیہ السلام کھلے کھلے معجزات لے کر آئے تھے۔ پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے۔ پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا۔ ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا۔ اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا۔ اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔‘‘
بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے دشمن سے نجات بخشی۔ اور فرعون وغیرہ دشمنوں کے ملک پر تمکنت اور سلطنت عطا فرمائی تخت اور تاج کا مالک بنایا۔ دنیا کی زندگی اُن کے لئے جنت کی سی ہوگئی اور ان کو ﴿وَاِنِّی فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ﴾ کے لقب سے ملقب فرمایا۔ جب تک خدا کے حکموں پر عمل کرتے اور گناہوں سے بچتے اور بچاتے رہے اور نیکیوں کا حکم کرتے اور کراتے رہے تب تک اُن کی بڑی عزت اور وقعت رہی۔ اور سارے جہان سے افضل ترین رہے۔ لیکن جب بنی اسرائیل نے خدائی حکم کو ٹھکرا دیا۔ ظلم اور حرام خوری اور رشوت خوری کو اپنا پیشہ ہی بنا لیا۔ تب اللہ تعالی نے ان کو مسکنت و ذلت اور لعنت و غضب الہی میں مبتلا کر دیا۔ اور بجائے ﴿فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ﴾ کے ﴿كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَ﴾ کے نام سے یاد کئے گئے۔ جب انہوں نے صحیح اعتقاد اور صحیح عمل سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی صورت مسخ کر دی۔ سچ فرمایا اللہ تعالی نے:
﴿وَ تَرٰی كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۶۲ لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۝۶۳﴾ (مائدة: 62 – 63)
’’تو ان میں سے اکثر کو دیکھتا ہے کہ گناہ اور حدود الہی سے تجاوز اور حرام خوری کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ کیسی بری حرکتیں تھیں جو وہ کرتے تھے۔ کیوں نہ ان کے مشائخ اور علماء نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام کے مال کھانے سے منع کیا یہ بہت برا تھا جو وہ کرتے تھے۔‘‘
﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۝۷۸ كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ؕ﴾ (مائده:78)
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے لعنت کرائی گئی اسلئے کہ انہوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو برے افعال سے نہ روکتے تھے۔‘‘
مچھلی والوں اور اصحاب السبت کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿وَ سْـَٔلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ ۛۚ كَذٰلِكَ ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۱۶۳ وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا ۙ ِ۟اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۝۱۶۴ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىِٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۱۶۵ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىِٕیْنَ۝۱۶۶﴾ (سورة اعراف: 163 – 166)
’’اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو دریا کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھتے جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو اُن کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آئی تھیں۔ اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو اُن کے سامنے نہ آتی تھیں۔ ہم اُن کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے۔ اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔ اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کئے جاتے ہو جن کو اللہ تعالی بالکل ہلاک کر نیوالے ہیں یا ان کو سخت سزا دینے والے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہ تمھارے رب کے رو برو عذر کرنے کے لئے اور اسلئے کہ شاید یہ ڈر جائیں۔ سو جب وہ اس امر کے تارک ہی رہے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بُری بات سے منع کیا کرتے تھے۔ اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کیا کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ بوجہ اس کے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔ یعنی جب وہ جس کام سے منع کیا گیا تھا۔ اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے اُن کو کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ۔‘‘
یہ عذاب اللہ کی نافرمانی سے ہوا اور جو بھی ایسی حرکت کرے گا قادر مطلق جبار و قہار خدا اسی قسم کی سزا دیتا رہے گا۔ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾ (انفال: 25)
’’بچو اس فتنہ سے جو صرف انہیں لوگوں کو مبتلائے مصیبت نہ کرے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے۔‘‘
بلکہ بعض دفعہ ظالم اور غیر ظالم عاصی اور طاغی مطیع اور فرمانبردار بھی اس عذاب کے لپیٹ میں آ جاتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اصحاب السفینہ کے بارے میں فرمایا تھا:
(مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوْا عَلٰى سَفِينَةٍ فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَبَعْضُهُم أَسْفَلَهَا فَكَانَ الَّذِيْنَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلٰى مَنْ فَوْقَهُمْ فَقَالُوا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيْبِنَا خَرَقًا وَلَمْ نُوْذِ عَلٰى مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ يّتْرُكُوْهُمْ مَّا أَرَادُوا هَلَكُوْا جَمِيْعًا وَإِنْ أَخَذُوا عَلٰى أَيْدِيْهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْجَمِيْعًا)[1]
’’جو شخص اللہ کی باندھی ہوئی حدوں پر قائم رہا۔ اور جو ان میں گھس گیا گناہ میں پڑ گیا۔ دونوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جنہوں نے جہاز میں قرعہ ڈال کر جگہ بانٹ لی۔ کسی نے اوپر کا درجہ لیا۔ کسی نے نیچے کا۔ اب جو لوگ نیچے کے درجے میں رہے۔ وہ پانی کے لئے اوپر کے درجے والوں پر سے گزرے۔ پھر کہنے لگے اگر ہم نیچے ہی اپنے درجے میں سوراخ کر لیں تو بار بار آنے سے اوپر والوں کو تکلیف نہ دیں گے۔ اگر اوپر والے ان کو چھوڑ دیں ایسا کرنے دیں تو سب ڈوب کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاری كتاب الشهادات باب القرعة في المشكلات (2686)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیار ہوں گے۔ اور اگر ان کو روکیں تو آپ بھی بچیں گے اور دوسرے بھی بچ جائیں گے۔‘‘
حدیث کا مطلب بالکل صاف ہے کہ اگر نافرمانوں کو نافرمانی سے روکا جائے تو سب ڈوبنے سے اور آفتوں سے بچ جائیں گے۔ ورنہ سب پر آفت آئے گی۔ پہلے زمانے میں بہت سے لوگوں کو صرف اس وجہ سے ملعون قرار دیا گیا کہ دو نہ برائیوں سے روکتے تھے اور نہ بھلائیوں کا حکم دیتے تھے۔ ہم نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے خطبے میں نہایت تفصیل سے اس کو بیان کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ معصیت الہی متعدی امراض اور وبائی بیماری کی سی ہے کہ شروع شروع میں کمزور افراد پر اس کا حملہ ہوتا ہے۔ اگر احتیاطی تدبیریں بوقت ضرورت اختیار کر لی جائیں تو عوام پر اس کا حملہ نہیں ہو گا۔ نہیں تو سبھی پر حملہ ہو جائے گا اور سب لپیٹ میں آ جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:
(إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلٍ خَاصَّةٍ حَتَّى يَرَوُ الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانِيْهِمْ وَهُمُ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُّنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ)[1]
’’اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں تو اللہ خاص اور عام سب کو مبتلائے عذاب کر دیتا ہے۔‘‘
بہر حال معصیت الہی میں دین و دنیا دونوں کا نقصان ہے۔ جو قومیں برسر اقتدار ہو جاتی ہیں خدا کی نافرمانی کی وجہ سے بہت جلد کچل دی جاتی ہیں۔ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کے صحیح اعمال اور اعتقاد ہونے کی وجہ سے ہر جگہ غلبہ اور تسلط حاصل کرتے جاتے تھے۔ بڑی بڑی جابر اور ظالم سلطنتیں ان سے لرزہ بر اندام ہوتی تھیں۔ قیصر و کسری کی سلطنت کے تختے اُلٹ دیئے۔ جہاں جہاں جاتے فتح اور نصرت ان کی قدم بوسی کرتی تھی۔ گویا اصلاح و عمل کا یہ سیا اب کہیں تھمتا نہیں تھا۔ علامہ اقبال مرحوم نے کیا ہی خوب کہا ہے:
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا!
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا! ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشان ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذان ہماری تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (192/4) طبراني كبير (138/17) (343)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب سے مسلمانوں نے صحیح عمل اور صحیح اعتقاد اور صحیح جوش اور صحیح اہمیت اور صحیح اسلامی غیرت باقی نہیں رہی تب سے محکومیت اور غلامیت، ذلت اور مسکنت کے زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے۔ تقریباً دنیا کے مسلمانوں کا عمومًا اور ہندوستانی مسلمانوں کا خصوصًا یہی حال ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں جب شہر قبرص فتح ہوا اور اسلامی فوج شہر میں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہو گئی۔ اور اسلامی جھنڈا ان کے قلعوں پر لہرانے لگا۔ اور ہر مسلمان سپاہی فتح اور نصرت کی خبر میں مخمور نظر آرہا تھا تو اس خوشی و مسرت کی حالت میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک جگہ تنہائی میں بیٹھے ہوئے روتا ہوا دیکھ کر کسی نے دریافت کیا کہ اس خوشی کے وقت آپ کیوں ماتم اور آہ و بکا کر رہے ہیں۔ تو ٹھنڈی سانس بھر کر فرمایا کہ آج جس قوم پر ہم فتح یاب ہوئے ہیں۔ کل ہی یہ قوم بر سر اقتدار تھی۔ اور دنیاوی جاہ وحشمت کی مالک تھی۔ لیکن آج اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کیسی ذلیل و خوار ہوگئی۔ ان کا ملک چھن گیا۔ دولت لٹ گئی۔ بجائے آقا کے غلام بن گئے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ہم مسلمانوں میں بھی یہی کیفیت پیدا ہوگئی تو آئندہ چل کر ہمارہ بھی حشر ہو سکتا ہے۔ حضرت احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد محترم نے بیان کیا
(لَمَّا فُتِحَتْ قَبْرَصٌ فَرِّقَ بَيْنَ أَهْلِهَا فَبَكٰى بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَرَأَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ جَالِسًا وَحْدَهُ يَبْكِي فَقُلْتُ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ مَا يُبْكِيكَ فِي يَوْمٍ أَعَزَّ اللَّهُ فِيهِ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ- فَقَالَ وَيْحَكَ يَا جُبَيْرُ مَا أَهْوَنُ الْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَضَاعُوا أَمْرَهُ بَيْنَمَا هيَ اُمَّةٌ قَاهِرَةٌ ظَاهِرَةٌ لَهُمُ الْمُلْكُ تَرَكُوْا أَمْرَ اللَّهِ فَصَارُوا إِلَى مَا تَرَى) (الداء والدواء المعروف عن الجواب الكافي لمن سئال عن دواء الشافي لابن قيم)
’’جب قبرص فتح ہوا اور وہاں کے باشندوں میں جدائی کر دی گئی۔ سب لوگ تر بتر ہو گئے۔ شکست کی وجہ سے رونے دھونے لگے۔ میں نے (یعنی جبیر بن نفیر نے) ابوالدرداء صحابی کو اکیلے بیٹھے روتے ہوئے دیکھا تو میں نے عرض کیا: اے ابوالدرداء! ایسے خوشی کے دن میں جس میں اللہ تعالی نے اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخشی ہے۔ آپ کس وجہ سے رو رہے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تم پر افسوس ہے کہ تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ہو کہ یہ لوگ اللہ کے حکم کو ضائع کرنے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ذلیل ہو گئے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ قوم برسر اقتدار تھی اور زبر دست غالب تھی۔ ان کے لئے ان کا ملک تھا۔ اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا۔ ان کی ذلت اور رسوائی کی جو حالت ہے اس کو تم دیکھ رہے ہو ۔‘‘
سچ ہے:
﴿إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ﴾ (سورة رعد:11)
’’واقعی اللہ تعالی کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت کو بدل نہیں دیتے۔‘‘
مولانا حالی مرحوم نے اس آیت کریمہ کا کیا ہی اچھا ترجمہ کیا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا!
گناہ ایک ایسی بری بلا ہے جس کی وجہ سے آدمی رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الرَّجُلَ لَيَحْرُمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيْبُهُ)[1]
’’آدمی گناہ کرنے کی وجہ سے روزی سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
زکوۃ نہ دینے اور ناپ تول میں کمی کرنے کی وجہ سے قحط سالی مسلط کر دی جاتی ہے۔ اور لوگ بھو کے مرنے لگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَمْ يَنقُصْ قَوْمٌ الْمِكْيَالَ وَ الْمِيْزَانَ إِلَّا أُخِذُوا بِالسَّنِيْنَ وَ شِدَّةِ الْمَؤُنَةِ وَجَوْرِالسُّلْطٰنِ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يَمْنَعُو زَكوة أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطَرَ مِنَ السَّمَاءِ وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوْا)[2]
’’جو قوم تاپ تول میں کمی کرتی ہے ان کو قحط سالیوں کی سخت مصیبتوں اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اور جو لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ نہیں دیتے ان سے بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوتے تو بارش ہی نہ ہوتی۔‘‘
معلوم ہوا کہ یہ گناہ اور خدا کی نافرمانی باعث عذاب ہے۔ اسی طرح سے ضرورت کے وقت میں غلہ روکے رکھنا اور حاجت مندوں کے ہاتھ نہ فروخت کرنا بھی عذاب الہی کا ذریعہ بنتا ہے۔ آج کل ہر جگہ میں فساد اور جنگ و جدال ہی ہو رہا ہے۔ اس کا سبب بھی معصیت الہی ہی ہے۔ اللہ تعالی نے سچ فرمایا کہ:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾ (الروم:41)
’’لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے خشکی اور تری، جنگل وبستی میں بگاڑ ہی بگاڑ ظاہر ہو گیا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (277، 280، 282/5)
[2] ابن ماجة: كتاب الفتن باب العقوبات (4019)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیکی کرنے میں سدھار ہے اور گناہ کرنے میں بگاڑ ہے۔ اس سے دنیا بھی بگڑتی ہے اور آخرت بھی۔ اس سے ایمانی اور علمی روشنی ختم ہو جاتی ہے۔ گویا گناہ تہ بتہ تاریکی ہے۔ جو اس کے ساتھ متصف ہوا۔ وہ تاریکیوں میں پھنس گیا اور جو اس سے نکل گیا وہ نور اور روشنی میں آ گیا۔ گناہ کی وجہ سے علم کا نور نکل جاتا ہے اور قوت حافظہ بھی خراب ہو جاتا ہے۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علہی نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو وصیت و نصیحت کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا۔
(إِنِّي أَرَى الله قَدْ الْقٰى عَلَى قَلْبِكَ نُورًا فَلَا تُطْفِئُهُ بِظُلْمَةِ الْمَعْصِيَةِ)
’’میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالی نے تمہارے دل میں روشنی ڈال دی ہے تم گناہ کی تاریکی سے اسے بجھا نہ دینا۔‘‘
امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ باز آ گیا توبہ کر لی اور رک گیا تو نقطہ ہٹ جاتا ہے۔ اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ گناہ میں بڑھ گیا تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے۔ اور یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے:
﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ﴾ (المطففين: 14) [1] ترمذی: کتاب تفسير القرآن باب من سورة ويل للمطفيين (210/4)
’’یعنی یقینًا ان کے دل پر ران یعنی رنگ ہے ان کی بداعمالی کی وجہ سے۔‘‘
تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر خداوندی ہو جاتی ہے۔ جسے ختم اور طبع کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت ختم اللہ الخ میں ہے۔ یہ نظیر ہے ہماری آنکھوں دیکھی چیزوں کی کہ کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دیں تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے گی۔ نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس میں سے کوئی چیز نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر خداوندی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے نہ کفر جائے۔ (تفسیر ابن کثیر )
علامه ابن قيم الداء والدواء معروف به الجواب الكافي لمن سأل عن دواء الشافي ميں گناہوں کے نقصانات کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
(وَمِنْهَا ظُلْمَةٌ يَجِدُهَا فِي قَلْبِهِ حَقِيقَةً یَّحُسُّ بِهَا كَمَا يَحُسُّ بِظُلْمَةِ اللَّيْلِ الْبَهِيمِ فتَصِيرُ ظُلْمَةُ الْمَعْصِيَةِ لِقَلْبِهِ كَالظُّلْمَةِ الْحِسِّيَّةِ لِبَصْرِهِ فَإِنَّ الطَّاعَةَ نُورٌ وَالْمُعْصِيَّةَ ظُلْمَةٌ وَكُلَّمَا قَوِيَتِ الظُّلْمَةُ ازْدَادَتْ حَيْرَتُهُ حَتَّى يَقَعَ فِي الْبِدَعِ وَالضَّلَالَاتِ وَالْأُمُورِ الْمُهْلِكَةِ وَهُوَ لَا يَشْعُرُ كَاعْمٰى خَرَجَ فِي ظُلْمَةِ اللَّيْلِ يَمْشِي وَحْدَہُ وَتَقْوٰى هَذِهِ الظُّلْمَةُ حَتّٰى تَظْهُرَ فِي العَيْنِ ثُمَّ تَقْوٰى حَتَّى تَعْلُوا الْوَجْهَ وَتَصِيرُ سَوَادًا فِيهِ يَرَاهُ كُلُّ أَحَدٍ قَالَ عَبْدُاللَّهِ ابْنُ عَبَّاسٍ وَإِنَّ لِلْحَسَنَةِ ضِيَاءٌ فِي الْوَجْهِ وَنُوْرًا فِي الْقَلْبِ وَسَعَةً فِي الرِّزْقِ وَ قُوَّةً فِي الْبَدَنِ وَمَحَبَّةً فِي قُلُوْبِ الْخَلْقِ وَإِنَّ لِلسَّيِّئَةِ سَوَادًا فِي الْوَجْهِ وَظُلْمَةً فِي الْقَلْبِ وَوَهْنًا فِي الْبَدْنِ وَنَقْصًا فِي الرِّزْقِ وَبُغْضَةً فِي قُلُوبِ الْخَلْقِ)
’’یعنی گناہ کے نقصانات بہت ہیں ان میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ دل میں تاریکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کو اس طرح محسوس کرتا ہے جس طرح اندھیری رات میں تاریکی کو۔ تو دل کے لئے گناہ کی تاریکی ایسی ہے کہ جیسے آنکھ کے لئے حسی اور ظاہری تاریکی، کیونکہ نیکی نور اور روشنی ہے۔ اور گناہ ظلمت اور تاریکی ہے۔ جتنی زیادہ تاریکی قوی ہوگی اتنی ہی زیادہ حیرت اور پریشانی قوی ہوگی۔ یہانتک کہ بدعتوں میں اور گمراہیوں میں اور مہلک کاموں میں پھنس جائے گا۔ اس کی مثال اس اندھے کی طرح ہے جو اندھیری رات میں تنہا چلے۔ اور یہ گناہوں کی تاریکی اس قدر ز بر دست اور طاقتور ہوتی ہے کہ اس کا اثر آنکھوں میں ظاہر ہوتا ہے پھر جب گناہ کی تاریکی پہلے سے زیادہ قوی ہو جاتی ہے تو چہرے پر وہ تاریکی مسلط ہو جاتی ہے جس سے چہرہ کالا ہو جاتا ہے جس کو ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے یعنی گناہ کی وجہ سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے اور چہرے پر بھی بے رونقی پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نیکی کے اثر سے چہرہ منور اور بارونق ہو جاتا ہے اور دل میں نور اور روشنی جگمگا اٹھتی ہے اور روزی میں کشادگی ہوتی ہے اور بدن میں قوت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور گناہ کرنے سے چہرہ سیاہ اور بے رونق ہو جاتا ہے اور دل میں تاریکی آجاتی ہے۔ بدن میں کمزوری اور روزی میں کمی اور لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو گناہ کا اثر جس طرح باطنی اعضاء پر پڑتا ہے اسی طرح سے ظاہری اعضاء پر بھی ظاہر ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا
﴿اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ؕ۬ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـُٔهُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠۝۲۵۷﴾ (بقرة:257)
’’اللہ مددگار ہے ایمان والوں کا، نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف۔ اور جو لوگ کافر ہوئے ان کے رفیق ہیں شیطان۔ نکالتے ہیں اُن کو روشنی سے اندھیروں کی طرف۔ یہی لوگ ہیں دوزخ میں رہنے والے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
تو اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری نور ہی نور ہے۔ اور گناہ کی جتنی باتیں ہیں وہ سب کے سب شیطانی باتیں ہیں وہ ظلمات اور تاریکی ہی تاریکی ہیں۔ جو فرق تاریکی اور روشنی میں ہے۔ وہی فرق نیکی اور گناہ میں ہے۔ اب اس سے زیادہ اور کیا نقصان دہ بات ہو سکتی ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی ہمیشہ تاریکیوں میں پھنس کر ٹامک ٹوئیاں کھاتا رہے۔ اور ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا رہے۔ اگر گنہگار نافرمان کوئی اپنے خیال کے مطابق اچھا کام بھی کر لیتا ہے۔ تو صحیح ایمان اور صیح اعتقاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی تاریکیوں میں چھپ جاتا ہے اور دب جاتا ہے جس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا
﴿ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْـًٔا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِۙ۝۳۹ اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ؕ اِذَاۤ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ۠۝۴۰﴾ (سورة النور: 39 – 40)
’’اور جو لوگ کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ اس کا پیاسا اس کو پانی خیال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ کے پاس آیا تو اس کو کچھ بھی نہ پایا۔ اور وہاں قضا الہی کو پایا۔ سو اللہ تعالی نے اس کا حساب اس کو برابر چکا دیا۔ اور اللہ تعالی دم بھر میں حساب کر دیتا ہے۔ یا وہ ایسے ہیں جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے کہ اس کو ایک بڑی لہر نے ڈھانک لیا ہو۔ اس کے اوپر دوسری لہر اس کے اوپر بادل اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہیں کہ اگر اپنا ہاتھ نکالے تو دیکھنے کا احتمال بھی نہیں اور جس کو اللہ ہی نور نہ دے اس کو نور نہیں۔‘‘
بخاری شریف میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہر صبح کی نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے یہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی نے خواب دیکھا ہے اگر کوئی دیکھے ہوتا تو آپ ﷺ سے کہتا آپ ﷺ اس کی تعبیر فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے اپنے خواب کے بارے میں فرمایا کہ آج میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ دو شخص (فرشتے) میرے پاس آئے۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر بیت المقدس کی طرف لے گئے۔ وہاں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہے اور دوسرا شخص ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا لئے کھڑا ہے۔ وہ بیٹھے ہوئے شخص کے ایک رخسار میں یہ آنکڑا گھسیڑتا ہے کہ اس کی گدی تک جا پہنچتا ہے۔ پھر دوسرے رخسار میں بھی اسی طرح گھسیڑتا ہے۔ اتنے میں پہلا رخسار جڑ جاتا ہے۔ پھر دوبارہ اس میں گھسیڑتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھ والوں سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آگے چلئے پھر ہم ایک شخص کے پاس پہنچے جو چت پڑا ہوا ہے۔ ایک دوسرا شخص اس کے سر پر پتھر لئے کھڑا ہے اور اس سے اس کا سر پھوڑ رہا ہے۔ پتھر مارتے ہی سرتوڑ کر پھر لڑھک جاتا ہے۔ مارنے والا اس کے لینے کو جاتا ہے۔ ابھی لے کر واپس نہیں لوٹتا کہ اس کا سر پہلے جیسا صحیح سالم ہو جاتا ہے پھر وہ لوٹ کر مارتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ ہے کون؟ انہوں نے کہا کہ آگے چلئے۔ پھر ہم تنور کی طرح ایک گڑھے پر پہنچے۔ اوپر سے اس کا منہ تنگ اور نیچے سے کشادہ تھا۔ اس کے تلے آگ سلگ رہی تھی۔ جب آگ کی لپٹ اوپر تنور کے کنارے تک آتی تو اس کے اندر جو لوگ تھے وہ بھی اوپر اٹھ آتے اور نکلنے کے قریب ہو جاتے پھر جب دھیمی ہو جاتی تو لوگ بھی اندر لوٹ جاتے ان لوگوں میں ننگی عورتیں اور ننگے مرد شامل تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا آگے چلئے۔ پھر ہم ایک خون کی ندی پر پہنچے۔ اس ندی میں ایک شخص کھڑا ہے اور ندی کے کنارے ایک عمدہ مقام پر ایک دوسرا شخص ہے جس کے سامنے پتھر رکھے ہیں۔ وہ شخص جو ندی کے اندر تھا بڑھ آیا اور نکلنے لگا۔ اس وقت دوسرے شخص نے ایک پتھر اس کے منہ پر مارا اور جہاں پر تھا وہیں پر اس کو لوٹا دیا۔ پھر ایسا ہی کیا جب اس نے نکلنا چاہا اس کے منہ پر ایک پتھر مار دیا وہ لوٹ کر اپنی جگہ جا رہا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا آگے چلئے۔ پھر ہم چلتے چلتے ایک ہرے بھرے باغیچہ پر پہنچے۔ وہاں ایک بڑا درخت تھا اس کی جڑ میں ایک بوڑھا بیٹھا تھا۔ اور کئی بچے۔ اور اس درخت کے پاس ایک اور شخص تھا جو اپنے سامنے آگ سلگا رہا تھا۔ میرے دونوں ساتھی مجھ کو لے کر اس درخت پر چڑھے اور مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ میں نے اس سے اچھا اور عمدہ مکان دیکھا ہی نہیں تھا اس میں بوڑھے جوان اور عورتیں اور بچے سب طرح کے لوگ تھے پھر وہاں سے نکال کر درخت پر چڑھا لے گئے۔ اور ایک دوسرے گھر میں لے گئے۔ وہ پہلے گھر سے بھی اچھا اور عمدہ گھر تھا۔ وہاں بوڑھے جوان دو طرح کے لوگ تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم نے تو مجھ کو آج رات خوب گھمایا۔ اب جو میں نے دیکھا اس کی کیفیت تو ہلاؤ۔ انہوں نے کہا اچھا جس کو آپ نے دیکھا کے اس کی باچھیں چیری جا رہی تھیں، وہ دنیا کا ایک بڑا جھوٹا شخص ہے جو جھوٹی بات بیان کرتا ہے۔ اور لوگ اُس سے سُن کر سب طرف مشہور کر دیتے ہیں۔ قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی اور جس کا سر آپ ﷺ نے دیکھا پھوڑا جا رہا تھا وہ شخص ہے جس کو دنیا میں اللہ تعالی نے قرآن کا علم دیا تھا۔ لیکن رات کو تو وہ سوتا رہا اور دن کو اس پر عمل نہیں کیا۔ قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی۔ اور تنور میں جن لوگوں کو آپ ﷺ نے دیکھا وہ زانی بدکار لوگ ہیں۔ اور نہر میں جن لوگوں کو دیکھا وہ سود خور ہیں۔ اور درخت کی جڑ میں جو بوڑھا دیکھا وہ ابراہیم علیہ السلام پیغمبر ہیں۔ اُن کے گرد جو بچے دیکھے وہ لوگوں کے بچے ہیں اور جو شخص آگ سلگا رہا تھا مالک فرشتہ ہے دوزخ کا داروغہ اور پہلے جس گھر میں آپ ﷺ گئے تھے وہ عام مسلمانوں کے رہنے کا گھر ہے۔ اور یہ دوسرا شہیدوں کے رہنے کا گھر ہے۔ اور میں جبریل ہوں اور یہ میرا ساتھی میکائیل۔ اب آپ اپنا سر اٹھائیں میں نے سر اٹھایا دیکھا تو ابر کی طرح ایک چیز میرے اوپر ہے۔ انہوں نے کہا یہ آپ کا مقام ہے۔ میں نے کہا مجھ کو چھوڑو میں اپنے مقام میں جاؤں۔ انہوں نے کہا: ابھی دنیا میں رہنے کی آپ ﷺ کی کچھ عمر باقی ہے۔ جس کو آپ ﷺ نے طے نہیں کیا۔ اگر طے کر چکے ہوتے تو آپ ﷺ اپنے مقام میں آ جاتے۔[1]
بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے سورج گرہن کی نماز کے بعد فرمایا کہ جہنم مجھ سے اتنی قریب ہو گئی کہ میں کہنے لگا اے میرے رب! میں دوزخ والوں میں کہاں آ گیا۔ اتنے میں ایک عورت کو دیکھا
(تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ قَالَ مَا شَأْنُ هَذِهِ قَالُوا حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَت جُوعًا ..)[1]
کہ ایک بلی اس کو نوچ رہی تھی۔ میں نے دریافت کیا یہ کیا ماجرا ہے؟ کہا گیا اس عورت نے اس بلی کو باندھ رکھا تھا نہ کھانا ہی کھلایا، نہ پانی ہی پلایا۔ نہ اس کو چھوڑا کہ کیڑے مکوڑے کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی بلکہ بھوکی پیاسی یہ بلی مرگئی۔ جس کی وجہ سے اس عورت کو اس کی سزا میں عذاب دیا جارہا ہے۔ یہ بھی عذاب الہی ہے جو اس شکل میں آپ کو دکھائی جا رہی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس قسم کا گناہ آدمی کرے گا اس قسم کی سزا اس کو دی جائے گی۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ﴿جزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ آیا ہے یہ تمہارے کاموں کا بدلہ ہے۔ یہ سزا اور عذاب عالم برزخ کا بتایا گیا ہے لیکن عالم آخرت میں جب قبروں سے نکل کر خدا کے سامنے حاضر ہوں گے تو وہی گناہوں کا انبار اور بوجھ لادے ہوئے پہنچیں گے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، كتاب التعبير باب تعبير الرؤيا بعد صلاة الصبح (7047)
[2] بخاري: کتاب الاذان، باب 90، حدیث (745)
[3] كتاب المساقاة، باب فضل سقى الماء (2364)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا ۙ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰی ظُهُوْرِهِمْ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ۝۳۱﴾ (الانعام:31)
’’بیشک خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی۔ یہاں تک کہ جب وہ معین وقت اُن پر دفعۃً آ پہنچے گا تو کہنے لگیں گے ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بوجھ اپنے کمر پر لادے ہوں گے۔ خوب سن لو کہ بُری چیز ہو گی جس کو وہ لادیں گے۔‘‘
یعنی جب اچانک قیامت آپہنچے گی تو اپنے بُرے اعمال پر انہیں بڑی ندامت ہوگی۔ تو پھر افسوس ظاہر کریں گے۔ اور اپنی پیٹھ پر اپنے گناہوں کے بوجھ لادے ہوں گے اور وہ بہت ہی برا بوجھ ہوگا۔ ابو مرزوق بیان کرتے ہیں کہ جب کا فر فاجر قبر سے اٹھیں گے تو نہایت بد شکل مجسمہ اُن کا استقبال کرے گا۔ اس سے سخت بد بو آئے گی۔ وہ کافر نافرمان کہے گا تو کون ہے؟ وہ شکل کہے گی کہ تم مجھے نہیں پہچانتے، میں تمہارے اعمال خبیثہ کا مجسمہ ہوں جو تو دنیا میں کیا کرتا تھا۔ دنیا میں بہت دنوں تک تو مجھ پر سوار تھا اب میں تجھ پر سوار ہوں گا۔ یہی مطلب ﴿هُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُورِهِمْ﴾ کا ہے۔
اس آیت کریمہ سے بھی اعمال سیہ کا مجسم ہونا نص قرآنی ثابت ہو رہا ہے۔ اور غلول والی آیت سے بھی بی ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۱۶۱﴾ (آل عمران: 161)
’’جو شخص خیانت کرے گا وہ خیانت کردہ چیز قیامت کے دن لے کر آئے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ذرا برابر حق تلفی نہ کی جائے گی۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ نے ایک وعظ میں غلول و خیانت کا ذکر خصوصیت سے فرمایا اور اس کا گناہ اور اس کی بہت بڑی اہمیت بیان فرمائی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ میں تم کو قیامت کے دن اس حال میں ہرگز پاؤں کہ تم میں سے کوئی اپنی گردن میں اونٹ لادے ہوئے آرہا ہو اور وہ بلبلاتا ہو۔ یعنی غنیمت وغیرہ کے مال میں سے اُونٹ کی خیانت کی ہوگی اور چرالیا ہو گا تو اس اونٹ کو میرے سامنے لادے ہوئے سفارش کے لئے آئے گا اور کہے گا یارسول اللہ میری امداد فرمائیے گا۔ تو اس وقت اس کو صاف جواب دے دوں گا کہ میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا نہ تیری امداد کر سکتا ہوں۔ دنیا میں یہ بات میں نے پہنچا دی تھی کہ جو چوری کرے گا وہ اس چیز کو لے کر خدا کے سامنے حاضر ہو گا میں اس کی حمایت نہیں کروں گا۔ اور ہرگز نہ پاؤں تم میں سے کسی کو کہ وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر گھوڑا لادے ہوئے آ رہا ہو اور گھوڑا ہنہنا کر آواز کرتا ہو تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ چوری کا گھوڑا ہے وہ میرے پاس آکر کہے گا یارسول اللہ میری امداد کیجئے تو میں اس سے کہوں گا کہ میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ میں دنیا میں تجھ کو یہ حکم پہنچا چکا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کو ہرگز نہ پاؤں کہ قیامت کے دن اپنی گردن پر بکری لادے ہوئے آرہا ہو۔ اس بکری کے لئے آواز ہوگئی وہ میرے پاس آئے گا یارسول اللہ ﷺ آپ میری امداد فرمائیں۔ میں کہوں گا کہ تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ میں یہ حکم تجھ کو پہنچا چکا تھا۔
پھر فرمایا ہرگز تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن کسی انسان غلام وغیرہ کو لادے ہوئے ہوگا وہ چیختا ہوا میرے پاس آ کر کہے گا یارسول اللہ ﷺ میری امداد کیجئے۔ میں کہوں گا تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ میں یہ حکم دنیا میں پہنچا چکا تھا۔ پھر فرمایا کہ ہرگز نہ پاؤں تم کو اس حالت میں کہ قیامت کے دن اپنی گردن پر کپڑا لادے ہوئے آئے گا۔ یعنی دنیا میں اس نے غنیمت کے مال میں سے کپڑے کی خیانت کر لی تھی یا کسی کا کپڑا چرا لیا تھا۔ یا بغیر حق کے غیروں کے کپڑے پہنتا ہو گا تو وہ کپڑے ہلتے یا حرکت کرتے ہوں گے۔ وہ کہے گا یارسول اللہ ﷺ میری امداد کیجئے تو میں کہوں گا کہ میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ میں یہ حکم دنیا میں پہنچا چکا تھا۔ پھر فرمایا میں تم کو قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اپنی گردن پر بے زبان چیز میں مثلاً سونا چاندی وغیرہ لادے ہوئے آئے گا وہ کہے گا یارسول اللہﷺ میری مدد کیجئے تو میں کہوں گا کہ تیری کچھ امداد نہیں کر سکتا۔ میں نے یہ حکم تجھ کو پہنچادیا تھا۔[1]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ جب جہاد میں غنیمت کا مال حاصل ہوتا تھا تو آپ ﷺ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرماتے لشکر میں اعلان کر دو کہ جس کے پاس قیمت کے مال میں کچھ بھی ہے وہ لا کر جمع کردے۔ چنانچہ سب لا کر جمع کر دیتے۔ آپ پانچواں حصہ نکال کر باقی کو سب میں تقسیم فرما دیتے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ آپ کے تقسیم کرنے کے بعد ایک صاحب بال کی لگام لئے ہوئے حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ غنیمت میں سے لے لیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(أَسْمِعْتَ بِلَالًا نَادٰى ثَلَاثًا الخ)
’’کیا تم نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی تین دفعہ منادی سنی تھی؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الجهاد و السيرں باب الغلول (3073)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ سنی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت لانے سے کس نے منع کیا تھا ؟ اس نے معذرت بیان کی جو قابل قبول نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(كُنْ أَنْتَ تَجئِي بِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ لَمْ أَقْبَلَهُ عَنْكَ)[1]
’’یعنی تم اس کو اپنے پاس رکھو قیامت کے دن اس کو لاؤ گئے آج میں اسے قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ سب مال تقسیم ہو چکا اب یہ کس کس کو دیا جائے گا۔‘‘
اسی طرح سے ایک مرتبہ آپ ﷺ کے خادم نے غنیمت سے ایک چادر چرا لی تھی۔ جہاد میں تیر لگنے سے شہید ہو گیا۔ لوگوں نے اس کی شہادت پر مبارکباد دی کہ جنت مبارک ہو یعنی شہید ہو گیا جنت میں جائے گا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(كَلَّا وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا)[2]
’’ہرگز نہیں خدا کی قسم جس چادر کو خیبر کی جنگ میں اس نے چرایا تھا اور وہ تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ وہ چادر اس غلام پر دوزخ کی آگ بھڑکا رہی ہے۔‘‘
یعنی ایک چادر کی خیانت کی وجہ سے وہ دوزخ میں گیا۔ جب لوگوں نے اس کو سنا تو ایک صاحب اٹھے چمڑے کا ایک یا دو تسمے لا کر آپ ﷺ کے سامنے پیش کئے۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ ایک یا دو آگ کے تسمے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: (مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِّنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مِنْ سَبْعِ أَرْضِينَ)[3]
’’جس نے کسی کی ایک بالشت زمین ناحق دبائی ہے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق (گلے کا ہار) ڈالے ہوئے ہو گا۔‘‘
(مَنْ أَخَذَ أَرْضًا بِغَيْرِ حَقِّهَا كُلِّفَ أَنْ تَحْمِلَ تُرَابَهَا إِلَى الْحَشْرِ)[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الجهاد، باب في الغلول (2703)
[2] بخاري: کتاب المغازي، باب غزوة خيبر (4234)
[3] بخاري: کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في سبع ارضين (3198)
[4] مسند احمد: (172/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جس نے ظلمًا کسی کی زمین چھین لی ہے تو اسے اس بات کی تکلیف دی جائے گی کہ اس کی مٹی کھود کر میدان حشر میں لائے۔‘‘
اور فرمایا:
(أَيُّمَا رَجُلٍ ظَلَمَ شِبْرًا مِّنَ الْأَرْضِ كَلَّفَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَّحْفِرَهُ حَتَّى يَبْلُغَ آخِرَ سَبْعِ أَرْضِيْنَ ثُمَّ يُطَوِّقُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ حَتّٰى يُقْضٰی بَيْنَ النَّاسِ﴾
’’جس نے ظلمًا کسی کی ایک بالشت زمین لے لی ہے تو اللہ تعالی اسے اس بات کی تکلیف دے گا کہ ساتوں زمینوں تک کھودے۔ پھر ان کا ہار بنا کر قیامت کے دن اٹھائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘
اسی طرح جس نے اپنے مال کی زکوۃ نہیں نکالی ہے تو و مال سانپ کی شکل بن کر اس کے گلے کا ہار ہو گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْ ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ (آل عمران: 180)
’’اور ہرگز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات ان کے لئے کچھ اچھی ہوگی بلکہ یہ بات ان کے لئے بہت ہی بری ہے۔ وہ لوگ قیامت کے دن طوق پہنا دیئے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔‘‘
اسی طرح اگر کوئی اپنے جانور کی زکوۃ نہ دے تو قیامت کے دن وہ جانور بہت موٹے تازے ہو کر بڑے بڑے تیز سینگوں سے اُسے ماریں گے اور روندتے اور کچلتے رہیں گے۔ پچاس ہزار برس تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔[2]
اور فرمایا: وہی مال گنجا سانپ بن کر مالک کا پیچھا کرے گا۔ اور یہ مالک اس سے بھاگے گا۔ یہاں تک کہ وہ سانپ اس کو پکڑ کر اس کا ہاتھ چبا جائے گا۔ اور اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ اور اس کی باچھیں چیرتا ہوا کہے گا: ’’انا کنزک‘‘ میں تیرا مال و خزانہ ہوں جس کو تو جمع کرتا تھا۔[3]
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (173/4)
[2] بخاري: کتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة (1402)
[3] بخاري: كتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة (1403)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ۝۳۴ یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳﴾ (التوبة: 34 – 35)
’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے راستے میں نہیں خرچ کرتے۔ انہیں درد ناک عذاب کی خبر دے دیجئے۔ جس دن اس کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے ان کی پیشانیوں اور پیٹھوں اور پہلوؤں کو داغ دیئے جائیں گے۔ اور اُن سے یہ کہا جائے گا کہ یہ وہی خزانہ ہے جس کو تم نے جمع کیا تھا۔ اب تم اس خزانہ کے عذاب چکھوں۔‘‘
مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيْدَةِ فَحَدِيْدَتُهُ فِي يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُّخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا- وَمَنْ كَانَ شَرِبَ سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا- وَمَنْ تَرَدّٰى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَرَدّٰى فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا)[1]
’’جس نے اپنے آپ کو کسی لوہے کے ہتھیار سے مار ڈالا وہ ہتھیار قیامت کے دن اس کے ہاتھ میں ہوگا اور اسی ہتھیار سے جہنم کی آگ میں ہمیشہ بھونکتار ہے گا۔ اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کر دیا ہے۔ وہ قیامت کے دن جہنم میں وہی زہر پیتا رہے گا۔ اور جس نے پہاڑ سے گر کر اپنے آپ کو مار ڈالا ہے تو قیامت کے دن اسی قسم کے پہاڑ سے آگ میں گرتا رہے گا جلتا رہے گا۔‘‘[2]
سچ ہے (كَمَا تُدِيْنُ تُدَانُ) ’’جیسا کرو گے ویسا ہی پاؤ گے۔‘‘[2]
عذر اور عہد شکنی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا۔ قیامت کے دن اس کی غداری کا جھنڈا دم کی طرح اس کی پیٹھ پر ہوگا جس سے پہچانا جائے گا کہ یہ دنیا میں غدار تھا۔ بہر حال ہر گناہ کی صورت نوعیّہ جداگانہ ہے۔ اور اس کا بدلہ بھی اسی کے مناسب ہے۔
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ وَعَلَى اٰلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الانسان نفسه۔
[2] بخاري: كتاب الجزية والموادعة، باب اثم الغادر للبر و الفاجر حديث