حقیقی کامیابی
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ [آل عمران: 185]
ذی وقار سامعین!
دنیا میں آنے والا ہر انسان دل میں ایک خواب لے کر آتا ہے، کامیابی کا خواب۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں ایک ایسا مقام حاصل کرے جس پر لوگ فخر کریں۔ لیکن کامیابی کوئی آسان سفر نہیں، یہ قربانیوں، محنت، اور لگن کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو صرف انہی کے لیے روشن ہوتا ہے جو اندھیروں میں جلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ بعض اوقات راستے میں ناکامیوں کے کانٹے چبھتے ہیں، مگر یہ وہی کانٹے ہیں جو منزل کی خوشبو کو مزید قیمتی بنا دیتے ہیں۔ کامیابی وہ سکون ہے جو محض دنیاوی عیش و آرام سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ دل کی گہرائیوں سے اللہ کی رضا میں پنہاں ہے۔ یہ وہ احساس ہے جو انسان کو انسانیت کی خدمت کے ذریعے ملتا ہے۔ اصل کامیاب وہی ہے جو اپنے مقصد میں اللہ کو شامل کر لے۔ دنیا کے قدم چومنے کا خواب اسی وقت حقیقت بنتا ہے جب ہم اپنی زندگی کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق ڈھال لیں۔ حقیقی کامیابی ہمیشہ وہی ہے جو دنیا کے ساتھ آخرت کو بھی سنوار دے۔ اکیلی دنیا کی کامیابی حقیقی کامیابی نہیں ہے ، بلکہ حقیقی کامیابی دینداری میں ہے ، سیدنا سہل بن سعد ساعدی کہتے ہیں :
ایک شخص رسول کریم ﷺ کے سامنے سے گزرا تو آنحضرت ﷺ نے ایک دوسرے شخص ابوذرغفاری سے جو آپ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے، پوچھا کہ اس شخص ( گزرے والے ) کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا:
رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِ النَّاسِ، هَذَا وَاللَّهِ حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ
”یہ معزز لوگوں میں سے ہے اور اللہ کی قسم یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ پیغام نکاح بھیجے تو اس سے نکاح کردیا جائے ۔ اگر یہ سفارش کرے تو ان کی سفارش قبول کرلی جائے۔“
نبی ﷺ یہ سن کر خاموش ہوگئے ۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گزرے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے ان کے متعلق بھی پوچھا کہ ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا:
هَذَا رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ المُسْلِمِينَ، هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ لاَ يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ لاَ يُشَفَّعَ، وَإِنْ قَالَ أَنْ لاَ يُسْمَعَ لِقَوْلِهِ
”یا رسول اللہ ! یہ صاحب مسلمانوں کے غریب طبقہ سے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ اگریہ نکاح کاپیغام بھیجیں تو ان کا نکاح نہ کیا جائے ، اگر یہ کسی کی سفارش کریں تو ان کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگرکچھ کہیں تو ان کی بات نہ سنی جائے۔“
آنحضرت ﷺ نے اس کے بعد فرمایا:
هَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الأَرْضِ مِثْلَ هَذَا
”اللہ کے نزدیک یہ پچھلا محتاج شخص اگلے مالدار شخص سے (اگرچہ ایسے آدمی زمین بھر کر ہوں) بہتر ہے۔“ [صحیح بخاری: 6447]
سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ
”بہت سے غبار میں اٹے ہوئے (غریب الوطن، مسافر) بکھرے ہوئے بالوں والے، دروازوں سے دھتکار دیے جانے والے لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ پر (اعتماد کر کے) قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم پوری کر دیتا ہے۔“ [صحیح مسلم: 6682]
ان دونوں احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی کامیابی یہ نہیں ہے کہ دنیا آپ کے قدموں میں پڑی ہو ، آپ مالدار ہوں ، آپ کا بینک بیلنس ہو ، بلکہ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ دنیا داری کے ساتھ ساتھ آپ پکے اور سچے مسلمان ہوں ، حقیقی کامیابی یہ ہے کہ کل قیامت والے دن آپ جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہو جائیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
”ہر جان موت کو چکھنے والی ہے اور تمھیں تمھارے اجر قیامت کے دن ہی پورے دیے جائیں گے، پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔“ [آل عمران: 185]
اس لئے آج کے خطبہ جمعہ میں ہم وہ چیزیں بیان کریں گے جو دنیا اور آخرت میں حقیقی کامیابی کی ضمانت ہیں:
1۔ ایمان لانا:
ایمان اور ایسا بنیادی وصف ہے جو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے،اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
وَالۡعَصۡرِ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ”زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔“ [العصر: 3-1]
دوسرے مقام پر فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
”یقیناً کامیاب ہوگئے مومن۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔“ [المؤمنون: 2-1]
تیسرے مقام پر فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا
”بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فردوس کے باغ مہمانی ہوں گے۔ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، وہ اس سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔“[الکھف: 108-107]
اسی طرح آقا نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ
”جنت میں مومن کے سواکوئی داخل نہیں ہوگا۔“ [صحیح مسلم: 2679]
اسی طرح سیدنا براءبن عازب کہتے ہیں:
أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالحَدِيدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ؟ قَالَ: «أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ»، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَاتَلَ، فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَمِلَ قَلِيلًا وَأُجِرَ كَثِيرًا»
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب زرہ پہنے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! میں پہلے جنگ میں شریک ہوجاؤں یا پہلے اسلام لاؤں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پہلے اسلام لاؤ پھر جنگ میں شریک ہونا۔“ چنانچہ وہ پہلے اسلام لائے اور اس کے بعد جنگ میں شہید ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عمل کم کیا لیکن اجر بہت پایا۔“ ]صحیح بخاری: 2808[
اور جو شخص ایمان نہیں لاتا ، اسلام والی دولت حاصل نہیں کرتا ، وہ شخص ناکام و مراد ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
”بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے مال انھیں اللہ سے (بچانے میں) ہرگز کچھ بھی کام نہ آئیں گے اور نہ ان کی اولاد اور یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“ [آل عمران: 116]
جو شخص ایمان نہیں لاتا ، ایسا شخص دنیا میں تو شاید کامیاب ہو جائے ، لیکن آخرت میں ایسے شخص کو کامیابی ملنا ناممکن ہے ، سیدہ عائشہ کہتی ہیں:
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ:” لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ "
میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسولﷺ!ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپﷺ نے فرمایا:’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے، (کیونکہ) اس نے کسی ایک دن (بھی) یہ نہیں کہا تھا: میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔‘‘ ] صحیح مسلم: 518[
2۔ تقوٰی اختیار کرنا:
تقویٰ اللہ تعالی کے اُس خوف کا نام ہے جو انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچنے پر آمادہ کرے۔ چاہے وہ لوگوں کے سامنے ہو یا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔بلکہ حقیقی تقوی یہ ہے کہ جب ایک آدمی خلوت میں ہو، اسے کوئی شخص دیکھنے والا نہ ہو۔ شیطان اس کیلئے برائی کو مزین کرے اور اسے اس کے ارتکاب پر آمادہ کرے۔ اوراس کیلئے ایسا ماحول بنائے کہ اسے کسی قسم کا خوف وخطر لاحق نہ ہو اور وہ اطمینان سے برائی کا ارتکاب کر سکتا ہو، ایسے میں اگر وہ اللہ تعالی سے ڈر کر برائی کا ارتکاب نہ کرے تو وہ آدمی حقیقت میں تقویٰ والا ہوگا ، جو شخص متقی ہوگا ، ایسا شخص دنیا میں بھی کامیاب ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہے ، دنیا میں کامیاب کیسے ہے؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
”اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔“ [الحجرات: 13]
دوسری جگہ فرمایا:
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا،وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
”اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے، بے شک اللہ اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے، یقیناً اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔“ [الطلاق: 3-2]
سیدنا أبو ہریرہ کہتے ہیں:
قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَتْقَاهُمْ
عرض کیاگیا اے اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو ان میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ [صحیح بخاری: 3353]
حضرت عبداللہ بن عمر کے غلام حضرت نافع کابیان ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن عمر کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے باہر تھے،ساتھیوں نے کھانا تیار کیادسترخوان پر لگایا،ہم کھانے لگے تو وہاں ایک چرواہا گزرا،اس نے سلام کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی،مگر اس نے کہا :کہ میرا روزہ ہے،حضرت ابن عمر متعجب ہوئے کہ سخت گرمی میں روزہ اور ساتھ بکریاں بھی چرا رہے ہو،تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں اپنے فراغت کے ایام کو غنیمت جانتا ہوں،حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کا امتحان لینا چاہا،اس سے فرمایا اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں فروخت کردو،ہم اس کا گوشت بھی تمہیں دیں گے،اس سے تم اپنا روزہ افطار کرلینا۔اس نے کہا اِنّھا لَیسَت لِی غنم اِنّھا غنم سیدییہ بکریاں میری نہیں بلکہ میرے سردار کی ہیں،حضرت ابن عمر نے فرمایا: امید ہے کہ ایک بکری کے گم ہوجانے کی تمہارا سردار کوئی پرواہ نہیں کرے گا،تو کہہ دینا :بکری بھیڑیالے گیا تھا،اس نے کہا فَأَیْنَ اللّٰہ پھر اللہ کہاں ہے ؟ وہ بلند آواز سے یہ کہتا اور آسمان کی طرف اشارہ کرتا،حضرت ابن عمر جب واپس مدینہ طیبہ آئے،اس چرواہے کے مالک کو ملے،اس سے اسے مع بکریوں کے خرید کر آزاد کردیا اور بکریاں اس کو ہبہ کردیں۔ [شعب الایمان للبیھقی: 5291]
تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے آزادی جیسی نعمت مل گئی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے لیے ایک خلیفہ مقرر کیا، ایک دن وہ چاندنی رات کو بیت المقدس کے اوپر نماز پڑھنے لگ گیا اور وہ امور یاد کئے جو اس نے سر انجام دیے تھے۔ پھر وہ وہاں سے نکلا اور رسّی کے ساتھ لٹکا۔ مسجد میں رسی لٹکی رہی اور وہ وہاں سے چلا گیا اور سمندر کے کنارے پر ایسے لوگوں کے پاس پہنچ گیا جو کچی اینٹیں بنا رہے تھے۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ یہ اینٹیں بنانے کی کتنی اجرت لیتے ہو؟ انہوں نے (ساری صورتحال) بتائی۔ نتیجتاً اس نے بھی اینٹیں بنانا شروع کر دیں اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے گزر بسر کرنے لگ گیا۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو وہ نماز پڑھتا تھا۔ عُمال نے یہ بات اپنے سردار تک پہنچا دی کہ ایک آدمی ایسے ایسے کرتا ہے۔ اس نے اس کو بلایا، لیکن اس نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا، ایسے تین دفعہ ہوا، بالآخر وہ سواری پر سوار ہو کر آیا، جب اس نے اس کو آتے ہوئے دیکھا تو بھاگنا شروع کر دیا۔ اس نے اس کا تعاقب کیا اور اس سے سبقت لے گیا اور کہا: مجھے اتنی مہلت دو کہ میں تمہارے ساتھ بات کر سکوں۔ چنانچہ وہ ٹھہر گیا، اس نے اس سے بات کی، اس نے ساری صورتحال واضح کی اور کہا کہ میں بھی ایک بادشاہ تھا، لیکن اپنے رب کے ڈر کی وجہ سے بھاگ آیا ہوں۔ اس نے یہ سن کر کہا: مجھے گمان ہے کہ میں بھی تمہارے ساتھ مل جاؤں گا، پھر وہ اس کے پیچھے چلا گیا اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگے، حتیٰ کہ مصر کے رمیلہ مقام پر فوت ہو گئے۔“ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں وہاں ہوتا تو ان کی قبروں کو ان صفات کی بناء پر پہچان لیتا جو رسول اللہ ﷺ نے بیان کی تھیں۔ [سلسلہ صحیحہ: 3112]
یہ دنیاوی لحاظ سے کتنی بڑی کامیابی ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد نبی مکرمﷺان کا ذکرِ خیر کررہے ہیں۔
یہ تو ہے دنیا کی کامیابی ، آخرت میں بھی متقی اور تقوٰی والے لوگ کامیاب ہوں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا
”یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے بناتے ہیں جو متقی ہو۔“ [مریم: 63]
دوسری جگہ ارشاد ہوا:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
”اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر) ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“ [آل عمران: 133]
3۔ نیک اعمال کرنا:
نیک اعمال سر انجام دینا ، نیکی کرنا ، دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
”جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔“ [النحل: 97]
سیدنا أبو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیں جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔ [صحیح بخاری: 6502]
یہ نیک اعمال کی وجہ سے دنیا میں کامیابی ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی محبت کرتے ہیں ، فرشتے بھی محبت کرتے ہیں اور لوگ بھی محبت کرتے ہیں۔ آخرت کی کامیابی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
”اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بے شک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“ [البقرہ: 25]
دوسری جگہ فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا
”اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔“ [النساء: 57]
تیسری جگہ ارشاد ہوا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے نعمت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔“[یونس: 9]
4۔ صبر اور شکر:
صبر و شکر انسانی زندگی کے وہ لازوال اصول ہیں جو دنیاوی مشکلات کو آسان اور آخرت کو روشن کر دیتے ہیں۔ صبر مشکلات کے وقت دل کو سکون عطا کرتا ہے، جبکہ شکر نعمتوں کی قدردانی کے ذریعے انسان کو مزید انعامات کا مستحق بناتا ہے۔ یہ دونوں صفات نہ صرف انسان کے اخلاقی حسن کو نکھارتی ہیں بلکہ اللہ کی قربت کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ صبر و شکر کی روشنی میں کامیابی کا راستہ آسان اور پائیدار بن جاتا ہے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو انسان کو دنیا و آخرت میں حقیقی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
عربی زبان میں ’’ صبر ‘‘ کا معنی ہے: روکنا اور بند کرنا۔
’’صبر ‘‘ کے اسی لغوی معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض اہل علم نے اس کی تعریف یوں کی ہے :
حَبْسُ النَّفْسِ عَنِ الْجَزَعِ وَالتَّسَخُّطِ،وَحَبْسُ اللِّسَانِ عَنِ الشَّکْوَی،وَحَبْسُ الْجَوَارِحِ عَنِ التَّشْوِیْشِ
یعنی ’’ اپنے آپ کو گھبراہٹ اور ناگواری سے روکنا ، زبان پر حرفِ شکایت نہ لانا اور باقی اعضائے جسم کو الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہونے سے بچانا ۔‘‘
گویا ’’ صبر ‘‘ سے مراد ہے ؛ برداشت کرنا ، زبان پر حرفِ شکایت نہ لانااورگھبراہٹ ، بے چینی اور مایوسی کا اظہار نہ کرنا۔
صبر و شکر دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
”اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔“[السجدہ: 24]
دوسری جگہ فرمایا:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ. الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ. أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.
” اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔“[البقرۃ: 155]
تیسری جگہ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰه لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ [آل عمران: 200]
چوتھی جگہ ارشاد ہوا:
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
”یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی؟ سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔“ [البقرۃ: 214]
سیدنا خبّاب بن ارتّ کہتے ہیں:
شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ قُلْنَا لَهُ أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا قَالَ كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوْ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ
ہم نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ آپ اس وقت اپنی ایک چادر پر ٹیک دیئے کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے مدد کیوں نہیں طلب فرماتے۔ ہمارے لیے اللہ سے دعاکیوں نہیں مانگتے ( ہم کافروں کی ایذا دہی سے تنگ آچکے ہیں ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ( ایمان لانے کی سزا میں ) تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور انہیں اس میں ڈال دیا جاتا ۔ پھر ان کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دوٹکڑے کردیئے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ لوہے کے کنگھے ان کے گوشت میں دھنسا کر ان کی ہڈیوں اورپٹھوں پر پھیرے جاتے پھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتے ۔ اللہ کی قسم یہ امر ( اسلام ) بھی کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاءسے حضرموت تک سفر کرے گا ( لیکن راستوں کے پرامن ہونے کی وجہ سے اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔ یا صرف بھیڑئےے کا خوف ہوگا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ [صحیح بخاری: 3612]
سیدنا صہیب کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ
”مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ(ابھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔“[صحیح مسلم: 7500]
سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں:
اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ قَالَ فَمَاتَ وَأَبُو طَلْحَةَ خَارِجٌ فَلَمَّا رَأَتْ امْرَأَتُهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ هَيَّأَتْ شَيْئًا وَنَحَّتْهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ كَيْفَ الْغُلَامُ قَالَتْ قَدْ هَدَأَتْ نَفْسُهُ وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ اسْتَرَاحَ وَظَنَّ أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهَا صَادِقَةٌ قَالَ فَبَاتَ فَلَمَّا أَصْبَحَ اغْتَسَلَ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَعْلَمَتْهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا كَانَ مِنْهُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُبَارِكَ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا قَالَ سُفْيَانُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَرَأَيْتُ لَهُمَا تِسْعَةَ أَوْلَادٍ كُلُّهُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ
ابوطلحہ کا ایک بچہ بیمار ہوگیا ، اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ اس وقت ابو طلحہ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی ( ام سلیم ) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابو طلحہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کررہا ہوگا۔ ابو طلحہ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ ( اب بچہ اچھا ہے ) پھر ابو طلحہ نے ام سلیم کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی ( ام سلیم ) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ کی اسی بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔ [صحیح بخاری: 1301]
عطاءبن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:
أَلاَ أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ المَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قَالَ: «إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ» فَقَالَتْ: أَصْبِرُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ لاَ أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا
تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں ؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں ، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کردوں۔“ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کردیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحیح بخاری: 5652]
شکر کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
’’اگر تم شکرگزاری کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔“ [ابراہیم: 7]
سیدنا ابراہیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا للّٰهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
’’بیشک ابراہیم علیہ السلام یکسو ہو کر اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے مقتدیٰ تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کے شکرگزار تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں منتخب فرما لیا اور سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی فرما دی۔“ [النحل: 121-120]