ایمان کے بڑھنے اور گھٹنے کا بیان

1050۔ سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ)) (أخرجه مسلم:49)

’’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے، اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے بدلے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان (کی

علامت )ہے۔‘‘

 توضیح وفوائد: یہ حدیث دلیل ہے کہ ایمان کے مختلف در ہے ہیں، اعلی درجہ یہ ہے کہ برائی کو ہاتھ سے رو کا جائے ، اس سے کم درجہ زبان سے روکنے کا ہے اور کم ترین درجہ برائی کو دل سے برا جانتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔

1051۔  سیدنا عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ ﷺ سےبیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ، وَأَكْثَرْنَ الْاسْتِغْفَارَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ)) (أخرجه مسلم:79،وهو عند البخاري:9، من حديث أبي سعيد الخدري.‎)

’’اے عورتوں کی جماعت !  تم صدقہ کیا کرو اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو کیونکہ میں نے دوزخیوں میں اکثریت تمھاری دیکھی ہے۔‘‘

ان میں سے ایک دلیر اورسمجھ دار عورت نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمیں کیا ہے، دوزخ میں جانے والوں کی اکثریت ہماری (کیوں) ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ))

’’تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تمہیں عقل و دین میں کم ہونے کے با وجود عقل مند شخص پر غالب آنے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘

اس نے پوچھا؟ اللہ کے رسول!عقل و دین میں کمی کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ: فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِيَ مَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ ))

’’عقل میں کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے، یہ تو ہوئی عقل کی کمی اور  وہ (حیض کے دوران میں) کئی راتیں (اور دن) گزارتی ہے کہ نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں بے روزہ رہتی ہے تو یہ دین میں کی ہے۔‘‘

1052۔ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَا مِنْ نَبِي بَعَثَهُ اللهُ في أُمَّةٍ قَبلي، إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يأخذونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ ، يَقُولُونَ مَا لَا يفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ)) (أخرجه مسلم:50)

’’اللہ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں جتنے بھی نبی بھیجے، ان کی امت میں سے ان کے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے جو ان کے طریقے پر چلتے اور ان کے حکم کی اتباع کرتے تھے، پھر ایسا ہوتا تھا کہ نالائق  لوگ ان کے جانشین بن جاتے تھے۔ وہ ایسی باتیں کہتے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور ایسے کام کرتے تھے جن کا انھیں حکم نہیں دیا گیا تھا، چنانچہ جس نے ان (جیسے لوگوں) کے خلاف اپنے دست و بازو سے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے (لیکن) اس سے پیچھے رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘

1053۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا َيزْني الزَّانِي حِينَ يَرْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ)) (أخرجه البخاري:2474، 5578، 6772، ومسلم:57)

’’ زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا، چور جس وقت چوری کرتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا جب شراب نوشی کرتا ہے اس وقت وہ ایماندار نہیں ہوتا۔‘‘

1054۔ سید نا انس  رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا:

((يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَن قَالَ: لا إله إلا الله، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ. وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلا الله، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنَ بُرَةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ)) (أخرجه البخاري:44، 4476، 6565، 7410، 7509، 7510، 7516، ومسلم: 193)

’’جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو، وہ دوزخ سے (ضرور) نکلے گا۔ اور جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا اور اس کے دل میں گیہوں (گندم) کے دانے کے برابر بھلائی (ایمان) ہو، وہ دوزخ سے ضرور نکلے گا۔ اور جس شخص نے لا إلہ إلا اللہ کیا اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو، وہ بھی دوزخ سے (ضرور) نکلے گا ۔‘‘

1055۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَا شِيَةٍ أَوْ ضَارِيًا نَقَصَ مِنْ عَيْنِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرًاطَانِ)) (أخرجه البخاري:5480، 5481، 5482 ومسلم:1574)

’’ جس شخص نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کم ہو جاتے ہیں ۔‘‘