خصائص وفضائل شوال
(1.عید الفطر، 2. شوال کے چھ روزے، 3. اَشہر الحج میں سے ایک، 4. استحباب الزّواج، 5. اعتکاف)
(صفر کی نحوست)
تمہید: سال کے بارہ مہینے ہيں اور ہر مہینہ کی کچھ خصوصیات ہیں، جن کی بنا پر اللہ نے انہيں دوسرے مہینوں سے ممتاز کيا ہے ، يہ مہینہ شوال کا ہے ، شوال ہجری سال کا دسواں مہینہ ہے ، اس ماہ کی بہت سی خصوصيات اور فضائل ہيں۔
1. صحابی سے مراد، فضائل قرآن سے، احادیث مبارکہ سے، فضائل انصار، اہل بدر، اہل اُحد، اصحاب بیعت رضوان، اہل السنۃ کا عقیدہ
عید الفطر: شوال کی پہلی تاریخ کو اسلام کی دو شرعی عیدوں میں سے ایک عید: أنس: قَدِمَ رسول الله ﷺ المدينة، ولهم يومان يلعبون فيهما، فقال: « ما هذان اليومان؟» قالوا: كنا نلعب فيهما في الجاهلية، فقال رسول الله ﷺ : « إن الله قد أبدلكم بهما خيرا منهما يوم الأضحى ويوم الفطر » … صحيح أبي داؤد
اس دن سب لوگ غسل کرکے اچھے کپڑے پہن کر اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرتے ہیں: ﴿ ولتكملوا العدة ولتكبروا الله على ما هداكم ولعلكم تشكرون ﴾ … البقرة عید کی نماز ادا کرتے، امام سے خطبہ سنتے، ایک دوسرے کو عید کی مبارک دیتے ، عمل قبول کی دعائیں دیتے تقبل الله منا ومنكم ، دعوتیں کھاتے، کھلاتے اور شریعت کے دائرے میں رہ کر خوشیاں مناتے ہیں ۔
انعام اور بخشش كا دن: یہ دن دراصل درحقیقت روزے دار کے انعام اور بخشش کا دن ہے، رمضان المبارک کا مہینہ ٹریننگ ، تربیت اور امتحان کا مہینہ تھا، طلبہ کو عموماً زیادہ خوشی اگرچہ امتحان میں نہیں بلکہ امتحان پاس کرنے کی ہوتی ہے، حالانکہ اگر گہرائی میں جاکر غور کیا جائے تو درحقیقت اصل اہمیت تو ٹریننگ کی ہے، جس سے آئندہ ہم نے استفادہ کرنا ہوتا ہے، اسی لئے ٹریننگ پورے ایک مہینہ کی ہے اور خوشی اور جشن کا دن ایک رکھا گیا ہے۔ یہ ٹریننگ جس قدر محنت اور خلوص کے ساتھ ہوگی، اس کے اثرات اتنے ہی دیرپا ہونگے اور اسکے ثمرات سے وہ ہمیشہ محظوظ ہوتا رہے گا۔
اصل شے عمل نہیں بلکہ قبولِ عمل: اصل شے صرف عمل نہیں، بلکہ قبولِ عمل ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کا کوئی عمل قبول کرتے ہیں تو اسے آئندہ ویسے اعمال کی توفیق دیتے ہیں اسی لئے سلف صالحین سے منقول ہے: ثواب الحسنة حسنة بعدها، ﴿ ومن يقترف حسنة نزد له .. ﴾
ہم نے عید کی خوشیاں منالیں اور مضان کے روزے مکمل کرکے سوچا کہ ہم امتحان میں کامیاب ہوگئے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس ایک ماہ کی ٹریننگ میں ہمیں ایمان واخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے (بعض جائز چیزوں سے بھی پرہیز کرکے صبر سکھلایا گیا) کا حکم دیا گیا، جھوٹ، غیبت، گالم گلوچ اورجنگ وجدل وغیرہ برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی تھی۔ تراویح، صدقہ خیرات اور اعتکاف وغیرہ عبادتوں کے ذریعے ہمارے تقویٰ پرہیزگاری، ہر وقت اللہ کا مرقبہ مد نظر رکھنے کی تربیت کی گئی کہ اس ٹریننگ سے ہم پورا سال فائدہ اٹھائیں اور ان اعمال کو رمضان کے علاوہ بھی بجا لانے کی کوشش کریں۔ اور یہی در اصل روزہ کا مقصد تھا: ﴿ يأيها الذين ءامنوا كتب عليكم الصيام .. .لعلكم تتقون ﴾
تقویٰ کا معنیٰ: الخوف من الجليل، والعمل بالتنزيل، والقناعة بالقليل، والاستعداد ليوم الرحيل.
قبولِ عمل کی علامت مقصد کا حصول اور اس پر دوام: کسی کورس کی تکمیل بر جشن منالینا ہی اصل کامیابی نہیں بلکہ اصل کامیابی اس مقصد کا حصول ہے، جس کیلئے وہ کورس منعقد کیا گیا۔ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم نے اس ٹریننگ سے اصل مقصد تقویٰ، مراقبۃ اللہ حاصل کیا یا نہیں۔ کیا نمازوں میں، تلاوتِ قرآن، نوافل کے اہتمام اور صدقہ خیرات کے حوالے سے وہی جذبہ ہمارے اندر موجود ہے جو رمضان میں تھا، تو سمجھیے الحمد للہ اس ٹریننگ کا مقصد پورا ہوگیا، اور اگر نہیں۔ رمضان کے ساتھ ہی ان تمام چیزوں کو بھی ہم نے خیر آباد کہہ دیا، بڑے شیطانوں کے ساتھ ہمارے خواہشات بھی آزاد ہوگئیں تو پھر ہم اس عظیم مہینے کی برکات وفیوض سے محروم رہ گئے۔ پھر ہمیں، والعیاذ باللہ، رمضان سے بھوک، پیاس، تھکاوٹ اور شپ بیداری کی زحمت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
رمضان کے علاوہ بھی نفلی روزوں (شوال، عشرہ ذی الحجہ، محرم، پیر وجمعرات، ہر مہینے کے تین روزے اور شعبان کے روزے)، تلاوت قرآن، صدقہ وخیرات کا تسلسل جاری رہنا چاہئے۔
2. شوال کے چھ روزے: أبو أيوب الأنصاري: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ … مسلم
﴿ من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها ﴾ … الأنعام
یہ روزے اکٹھے بھی رکھے جا سکتے ہیں اور الگ الگ بھی، شروع شوال میں بھی رکھے جا سکتے ہیں اور آخر شوال میں بھی۔ البتہ عید کے دن کا روزہ رکھنا حرام ہے کیونکہ یہ کھانے اور کھلانے کا دن ہے: أبو سعيد الخدري: نهى النبي ﷺ عن صوم يوم الفطر والنحر … صحيحين
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان روزوں کے رکھنے سے صیام الدہر کا ثواب ملتا ہے اور صوم الدہر جائز نہیں ہے، لیکن یہ روزے نہیں رکھنے چاہئیں۔
1. : یہ نبی کریمﷺ کے حکم کی خلاف وزری ہے۔ 2. ان روزوں کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر ہے نہ کہ بعینہٖ سال بھر روزہ رکھنا۔
3. اگر یہ منطق مان لی جائے تو دیگر بعض صحیح فضائل کا بھی انکار کرنا پڑے گا، مثلاً ہر مہینے کے تین روزے رکھنا … صحیح مسلم قول امام مالک
3. اشہر الحج میں سے ایک: الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
قَالَ البُخَارِي: قَالَ اِبْن عُمَر: هِيَ شَوال، وذو القعدة، وعشر من ذي الحجة
جو شوال سے پہلے حج یا عمرے (حج تمتع) کا احرام باندھے تو حج افراد یا حج تمتع کا شمار نہیں ہوگا، جیسے وقت سے پہلے نماز ادا کرنے سے نماز نہیں ہوتی۔ عید الاضحیٰ سے پہلے قربانی کرنے سے وہ عید الاضحیٰ کی قربانی شمار نہیں ہوتی۔
4. شوال میں شادی اور رخصتی: بہت سے علماء کے نزدیک مستحب ہے، اسے شادی وغیرہ کیلئے منحوس سمجھنا اُمور جاہلیت میں سے ہے۔
تَزَوَّجَنِى رَسُولُ الله ﷺ فِى شَوَّالٍ وَبَنى بِى فِى شَوَّالٍ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِى شَوَّالٍ … مسلم
امام نووی فرماتے ہيں: فِيهِ اِسْتِحْبَاب التَّزْوِيج وَالتَّزَوُّج وَالدُّخُول فِي شَوَّال، وَقَدْ نَصَّ أَصْحَابنَا عَلَى اِسْتِحْبَابه، وَاسْتَدَلُّوا بِهَذَا الْحَدِيث، وَقَصَدَتْ عَائِشَة بِهَذَا الْكَلَام رَدّ مَا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّة عَلَيْهِ، وَمَا يَتَخَيَّلهُ بَعْض الْعَوَامّ الْيَوْم مِنْ كَرَاهَة التَّزَوُّج وَالتَّزْوِيج وَالدُّخُول فِي شَوَّال، وَهَذَا بَاطِل لَا أَصْل لَهُ، وَهُوَ مِنْ آثَار الْجَاهِلِيَّة، كَانُوا يَتَطَيَّرُونَ بِذَلِكَ لِمَا فِي اِسْم شَوَّال مِنْ الْإِشَالَة وَالرَّفْع (دور کرنا اور اٹھانا)
5. اعتکاف: عائشة: أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أرادَ أن يعتكِفَ، فلما انصرفَ إلى المكانِ الذي أراد أن يعتكفَ، إذا أخْبيَةٌ :خِباءُ عائشَةَ، وخِباءُ حَفصَةَ، وخِباءُ زَينبَ، فقال : (آلبرَّ تَقولونَ بهِنَّ ) . ثم انصـرف فلم يعتكف، حتى اعتكف عشرًا من شوالٍ … البخاري