محمدﷺ بحیثیت بہادر و دلیر

جرأت و بہادری مردوں کی عمدہ خوبی اور ہیروز کی بہترین خصوصیات میں سے ہے۔ انبیاء علیہم السلام سب سے بڑھ کر دلیر اور بہادر تھے۔ ان میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی۔ انبیاء ﷺ کے سردار اور خاتم النبیین محمد بن عبد الله ﷺجرأت و بہادری کے بے تاج بادشاہ تھے۔ آپ ﷺتمام لوگوں سے زیادہ دلیر اور ہمت و حوصلہ والے تھے۔ اس قدر مضبوط دل کے مالک کہ کوئی دھمکی، ڈراوا، خوف اور بحران آپ کے ارادوں کو متزلزل نہ کر سکا۔ بڑے بڑے حادثے گزر گئے۔ مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹے مگر آپ کے عزم و استقامت میں کمزوری نہیں آئی۔ آپ نے اپنا معاملہ اپنے رب کے سپرد کیا۔ اپنے مولا پر توکل کیا۔ اس کی طرف رجوع کیا۔ اس کے حکم پر راضی ہوئے۔ اس کی نصرت پر اکتفا کیا اور اس کے وعدوں پر یقین کیا۔

آپ ﷺ بچپن ہی سے دلیر و بہادر تھے یہاں تک کہ آپ کے رب نے آپ کو اپنا رسول بنا کر چن لیا۔ آپ (پندرہ سال کی عمر میں اپنے چچاں کے ساتھ حرب فجار میں شامل ہوئے۔ نبوت سے پہلے آپ غار حراء میں اکیلے راتیں گزارا کرتے تھے۔ رات کی تاریکی، غار کی وحشت اور پر خطر راستوں سے ذرا نہ ڈرتے۔

اس سے بڑی جرات و دلیری کیا ہوگی کہ ایک شخص اکیلا ہی پوری امت اور معاشرے کے سامنے کھڑا ہو جائے ؟! وہ پوری دنیا کا سامنا کرے۔ ان کے خلاف خوفناک جنگیں اور شدید لڑائیاں لڑے۔ اس کے ساتھ کوئی سپاہی ہو نہ لشکر اور نہ ہی محافظ۔ وہ نہایت کشادہ دلی اور شرح صدر کے ساتھ لوگوں کے مجمعوں میں جائے۔ بازاروں کا رخ کرے۔ بت خانوں میں جائے اور منبروں پر چڑھ کر نہایت جرأت و دلیری سے کھلے عام اپنی دعوت کا اعلان کرے۔ اس راہ میں آنے والی مشکلات اور خطرات کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کرے بلکہ انھیں خاطر میں لائے بغیر پیش قدمی ہی کرتا چلا جائے۔

آپ ﷺاکیلے ہی جاہلیت وکفر کے بڑے بڑے سرغنوں اور سرداروں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور تنہا ہی سرکش بت پرستوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ جب آپﷺ صفا پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور لوگوں سے کہا: ’’لا الہ الا اللہ کہہ دو فلاح پا جاؤ گئے‘‘ تو اس مجلس میں کینہ پرور دل، ننگی تلواریں اور لہراتے نیزے موجود تھے۔ آپ کسی چیز کو خاطر میں لائے بغیر مضبوط چٹان کی طرح پوری جرأت و بہادری کے ساتھ کھڑے رہے اور نہایت اعتماد سے اپنی دعوت پیش کی۔

آپ ﷺ خود معرکوں میں شریک ہوئے۔ بنفس نفیس قتال کیا۔ اپنی روح و جان کو موت کے میدان میں اتارا اور یہ سب کچھ بلا خوف و خطر کیا۔ کسی معرکے میں بھاگنا تو دور کی بات ہے، ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہے۔

جنگ کا بازار گرم ہے۔ تلواریں اور نیزے چل رہے ہیں۔ سرتن سے جدا ہو رہے ہیں۔ ہر طرف موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ان لمحات میں بھی آپ ﷺبے دھڑک سب سے زیادہ خطرناک جگہوں پر خود جاتے ہیں۔ دشمن کی کثرت تعداد کی پروا کرتے ہیں نہ ان کی قوت و طاقت کو خاطر میں لاتے ہیں بلکہ صفیں سیدھی کراتے ہیں۔ مجاہدین کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور فوجی دستوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ آپ ﷺبدر کے روز نکلے، خود لشکر کی قیادت کی اور بے مخطر موت کے میدان میں کود گئے۔ کہیں سے خطرے کی کوئی آواز آتی تو آپ سب سے پہلے اس کی طرف لپکتے۔

جنگ خندق میں ہر طرف سے اتحادی لشکر آپ پر حملہ آور ہوئے۔ صورت حال نہایت سنگین اور کٹھن تھی۔ کلیجے مونہوں کو آرہے تھے اور مومنوں پر شدید دباؤ تھا۔ ایسے عالم میں  آپ ﷺ کھڑے ہوئے۔ نماز پڑھی۔ اپنے مولا سے دعا کی اور مدد مانگی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالی کی مدد آئی۔ دشمن کی چال ناکام ہوئی اور آپ کے مخالف ذلیل و رسوا ہوئے۔ اللہ تعالی نے ان پر ہوا اور اپنے لشکر مسلط کیے اور وہ ذلیل و رسوا اور ناکام ہو کر لوٹ گئے۔ مستقل مزاجی اور پختہ دلی میں کوئی شخص آپ ﷺ تک نہیں پہنچ سکتا۔ آپ شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ بہادری کے تمام اوصاف، پیش قدمی کی تمام خوبیاں اور جنگی صلاحیتیں آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا تھا:

((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! وَدِدْتُ أَنِّي أَقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ فَأُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقتَلُ))

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔‘‘ (صحيح البخاري، التمني، حديث : 7227)

آپﷺ کی شجاعت و بہادری کا نمونہ اس وقت سامنے آیا جب حنین کے روز آپ کے بہت سے ساتھی دشمن کی سنگ باری کی وجہ سے میدان چھوڑ گئے اور آپ ﷺتھوڑے سے صحابہ کے ساتھ میدان میں باقی رہ گئے۔ اس صورت حال میں آپ اپنے خچر سے نیچے اتر آئے اور اکیلے ہی دشمن کی طرف آگے بڑھے۔ آپ نے ایک مٹھی میں مٹی اٹھائی اور دشمنوں کے چہروں پر چھینکتے ہوئے فرمایا: ((شاهَتِ الْوُجُوهُ)) ’’چہرے بگڑ گئے۔‘‘ (صحیح

مسلم، الجهاد والسير، حديث : 1777)

اس کے بعد آپ ﷺبار بار فرما رہے تھے: ((أنا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبَ))

’’میں نبی ہوں، کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔“ (صحيح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2864)

آپ ﷺ مسلسل دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور اپنے صحابہ کو آواز دے رہے تھے: ”اللہ کے بندو! میری طرف آجاؤ۔‘‘ یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ لوٹ آئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل کیا :

﴿ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۚ﴾

’’تو (اے نبی !) آپ اللہ کی راہ میں لڑیں۔ آپ کو آپ کی اپنی ذات کے سوا کسی کا ذمہ دار نہیں بنایا گیا۔ اور آپ مومنوں کو لڑائی پر ابھاریں۔‘‘ (النساء 84:4)

اللہ! اللہ! آپ نے ان حالات میں بھی شجاعت کا مظاہرہ کیا جن کے تصور ہی سے ہوش اڑ جاتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

يَخُوضُ بَحْرَ الْمَنَايَا وَهُوَ مُبْتَسِمٌ

وَيَصْدِمُ الْهَوْلَ إِعْصَارًا بِإِعْصَارِ

وبَيْرَقُ النَّصْرِ دَوْمًا فَوْقَ هَامَتِهِ

بيْنَ الْعَوَالِي بِأَتْبَاعٍ وَأَنْصَارِ

’’آپﷺ موتوں کے سمندر میں مسکراتے ہوئے کود جاتے ہیں اور آندھی کے مقابلے میں آندھی بن کر ہولناکی سے ٹکرا جاتے ہیں۔ آپ کے اتباع و انصار کی وجہ سے عوالی مدینہ میں فتح و نصرت کا جھنڈا آپ کے سر پر ہمیشہ لہراتا رہتا ہے۔“

احد کے دن آپ ﷺکا چہرہ مبارک زخمی کیا گیا۔ آپ کا رباعی دانت توڑا گیا۔ آپ کے بہت سے صحابہ شہید کیے گئے۔ آپ نے کمزوری دکھائی نہ بددل ہوئے۔ زخموں اور پریشانیوں کے باوجود ان مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔ چھکتی تلواروں، نیزوں کی چھاؤں اور برستے تیروں میں پیش قدمی جاری رکھی۔ اپنے صحابہ کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ انھیں تھپکی دے کر ان کے عزم و ارادہ کو مضبوط کرتے رہے جس سے شکست کی تلخی کم ہوئی اور تکلیف کی شدت بھی گھٹ گئی۔ سیدنا براء  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ کی اوٹ لیتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ کے، یعنی نبیﷺ کے ساتھ قدم ملا کر کھڑا ہوتا۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث: 1776)

امیر المومنین سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی اور گھمسان کا رن پڑتا تو ہم رسول اللہﷺ کی اوٹ لیتے تھے۔ جتنا آپ کی یہ دشمن کے قریب ہوتے، اتنا ہم میں سے کوئی نہ ہوتا تھا۔‘‘ (مسند أحمد، حديث: 1347)

سیدنا انس  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ہم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت بھی اور دلیر تھے۔ ایک رات مدینہ والے شہر کے باہر شور سن کر گھبرا گئے (کہ شاید دشمن نے حملہ کیا ہے۔) سب لوگ اس شور کی طرف بڑھے تو انھیں نبی اکرمﷺ واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ سب لوگوں سے پہلے ہی اس آواز کی طرف چلے گئے تھے۔ آپﷺ فرما رہے تھے: ”کوئی ڈر کی بات نہیں، کوئی ڈر کی بات نہیں۔‘‘ نبی کریمﷺ اس وقت سیدنا ابو طلحہ  رضی اللہ تعالی عنہ کے (مندوب نامی ) گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ اس پر کوئی زین نہیں تھی اور آپ نے گلے میں تلوار لٹکا رکھی تھی۔ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6033)

آپ ﷺ خندق کی کھدائی میں اپنے صحابہ کے ساتھ شریک ہوئے۔ ان سے زیادہ پھرتی ، قوت اور طاقت سے اس میں حصہ لیا۔ جب کھدائی کے دوران میں ایک چٹان ایسی آئی جسے توڑنا صحابہ کے لیے مشکل تھا تو آپﷺ نے آگے بڑھ کر کدال کے ساتھ اسے توڑ دیا۔ اس طرح آپﷺ مسجد نبوی کی تعمیر میں اپنے صحابہ کے ساتھ شریک ہوئے اور خود مٹی اٹھا کر لاتے تھے۔

جب آپ ﷺ نے حدیبیہ کے بعد عمرہ کیا اور بیت اللہ تشریف لائے تو صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کو دورانِ طواف میں رمل کا حکم دیا تا کہ قریش کے سامنے قوت کا اظہار ہو اور اسلام کی عظمت کا بول بالا ہو۔ آپ نے خود بھی پوری پھرتی اور قوت سے تین چکر لگائے ، پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور سعی بھی اس نشاط اور ولولے سے کی کہ آپ کی چادر گھٹنوں کو چھو رہی تھی۔

آپ ﷺ نہایت قوت کے ساتھ چلتے تھے۔ جب چلتے تو یوں محسوس ہوتا کہ بلندی سے اتر رہے ہیں۔ اور کبھی اس قوت، سرخوشی اور تیزی سے چلتے کہ صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم آپ سے پیچھے رہ جاتے۔ آپ ﷺکا جسم نہایت مضبوط اور صحت مند تھا۔ تمام اعضاء مکمل اور باہم پیوستہ تھے۔ آپ ہر وقت ہشاش بشاش رہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ تیں مردوں کے برابر قوت و طاقت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کی قوت و طاقت کے بارے میں آیا ہے کہ آپ نے دوڑ بھی لگائی اور کشتی بھی کی۔ اور یہ مختلف طرح کی ورزشیں بدن کی صحت قائم رکھتی ہیں اور قوت کے استعمال عبادت کے لیے قیام اور دعوت کو کامل طریقے سے پہنچانے میں معاون ہیں۔

آپ ﷺاللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کے معاملے میں بھی نہایت قوی تھے۔ جب اپنے صحابہ ﷺکو آسانی اور فراخی والا کوئی حکم دیتے اور وہ اللہ کے رسول کو اگلی پچھلی خطاؤں سے مبرا اور عظیم سمجھ کر آپ سے زیادہ عبادت کی کوشش کرتے تو آپ سے ان سے ناراض ہوتے اور فرماتے: «إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَ أَعْلَمَكُمْ بِاللهِ أَنَا » ’’بلاشبہ میں تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تمھاری نسبت زیادہ اس کے بارے میں جاننے والاہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث:20)

آپﷺ یہ فرماتے: ((مَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))

’’جس نے میری سنت سے بے رخی برتی، وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، النكاح، حديث (5063)

آپ ﷺکی قوت عدل پر مبنی اور آپ کی شجاعت میں حزم و احتیاط کا پہلو کار فرما تھا۔ اس میں ظلم اور لا پروائی نہیں تھی کیونکہ آپ اپنے رب کی مہربانی اور توفیق الہی سے ان امور سے محفوظ تھے۔ آپ کو اپنے ہر عمل اور کام میں عصمت نبوت حاصل تھی ، مثلا : جب آپ نے طائف کے قلعے کا محاصرہ کیا تو آپ کو علم ہو گیا کہ قلعے والوں کے پاس سال بھر کا راشن موجود ہے اور محاصرہ قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سال بھر کے لیے آپ ﷺ اور صحا بہ  رضی اللہ تعالی عنہم کا باقی  خاص و عام امور معطل کر دیں اور مدینہ منورہ جو اسلام کا مرکز ہے، بے یار و مددگار رہے، چنانچہ آپ نے پوری احتیاط اور شجاعت سے محاصرہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔ اس کے بعد آپ مدینہ لوٹ کر سلطنت کی تعمیر و ترقی اور امت کی رشد و ہدایت میں مصروف ہو گئے ، اور یہ نہایت موزوں اور درست فیصلہ تھا۔ آپﷺ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو کہ آپ پیش قدمی کرنے، پیچھے ہٹنے، جنگ و صلح اور خوف و امن میں کسی قدر دلیر و بہادر تھے!

آپﷺ نے اپنے پیغام رسالت سے قوت کی طرف بلایا ہے، کمزوری کی طرف نہیں۔ فتح کا درس دیا، شکست کا نہیں۔ چستی کو اختیار کیا، سستی کو نہیں۔ قیادت و کامیابی کا سبق دیا، عجز و نا کامی کا نہیں۔ اور پھر عملی طور پر ایسا کر کے دکھا یا حتی کہ قیادت و سیادت اور قوت و شجاعت میں آپﷺ کی سیرت پوری دنیا کے لیے نمونہ بن گئی۔ آپ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے ہاں بھی ان امور میں سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی گواہی بڑے بڑے غیر مسلم دانشوروں نے اپنی کتابوں میں دی ہے اور یہ بات تاریخ کے اوراق میں درج ہے۔

آپ ﷺ کی شجاعت میں رحمت بھی شامل تھی کیونکہ آپ کی بہادری اللہ تعالی کے لیے تھی اور اس کا مقصد اللہ کے کلمے کی بلندی تھا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہیں مارا جیسا کہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت کو، نہ کسی غلام کو مگر یہ کہ آپ اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہوں۔ اور جب بھی آپ کو نقصان پہنچایا گیا تو بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے اس سے انتقام لیا ہومگر یہ کہ کوئی اللہ تعالی کے محرمات میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اللہ عز وجل کی خاطر انتقام لے لیتے۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2328)

بالا شبہ آپ ﷺ کی شجاعت اعلیٰ اقدار، بلند اصولوں اور اخلاق عالیہ پر مبنی تھی۔ اس میں محض جبر و تسلط اور انتظام نہیں تھا کیونکہ آپﷺ ہر کام اور  ہر فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق کرتے تھے۔ نبوت و رسالت آپ کو لحاظ فیصلوں سے محفوظ رکھتی تھی۔آپ ﷺ نے اپنی امت کو شجاعت کا درس دیا اور عاجزی و بے بسی، سستی، کاہلی، بزدلی اور بخل سے پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ آپ اپنے رب سے دعا کیا کرتے تھے:

(( اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ))

’’اے اللہ ! میں عاجز ہو جانے ، سستی، بزدلی اور بخل سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث : 2722)

بخل اور بزدلی میں موافقت ہے۔ بخل مال کی بخیلی اور بزدلی جان کی بخیلی کا نام ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ بہادروں کی حوصلہ افزائی کی۔ سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا زبیر بن عوام، سید نا خالد بن ولید، سید نا ابوقتاده، سید نا ابوطلحہ اور سیدنا ابودجانہ  رضی اللہ تعالی عنہم جیسے دلیروں کی بہادری کو سراہا اور چر چا گیا۔ آپ ﷺتیر اندازی کرنے والوں کے حوصلے بڑھاتے۔

صحیح سند سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ((اِرمِ فَدَكَ أَبِيْ وَأُمِّيْ)) ’’تیر مارز، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2905)

سیدنا عقبہ بن عامر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ منبر پر فرما رہے تھے: ((وَ أَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ)) ’’تم ان کے مقابلے کے لیے جتنی کر سکو، قوت تیار کرو۔‘‘ (الأنفال 60:8 ) سن لو! قوت تیراندازی کا نام ہے۔ سن لوا قوت تیر اندازی کا نام ہے۔ سن لو! قوت تیر اندازی کا نام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة ، حديث (1917)

ام المومنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی اکرم ﷺکے ساتھ ایک سفر میں تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں جیت گئی۔ پھر جب میرا بدن بھاری ہو گیا تو میں نے آپ سے دوبارہ مقابلہ کیا تو آپ جیت گئے۔ اس پر  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ جیت اس جیت کے بدلے میں ہے۔ ‘‘ (سنن ابی داود، الجهاد، حدیث: 2578)

آپ ﷺ نے تیار شدہ اور غیر تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ کی خود نگرانی فرمائی۔ آپ ﷺ اپنی قوت و عزیمت اور کمال ہمت کی بنا پر صحت کا خیال رکھتے۔ مفید کھانا کھانے اور مفید ادویات استعمال کرنے کا مشورہ دیتے۔ آپ کی دعوت ربانی تھی۔ رہبانیت سے منع کرتے تھے۔

آپﷺ دنیا کی زندگی کے جمال و کمال اور آخرت کی فوز و فلاح کے لیے تشریف لائے ، اس لیے آپ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالی کے نزدیک طاقتور مومن کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حديث : 2664)

شجاعت اور قوت اسلام کی دو عظیم قدریں ہیں۔ یہ سیادت و قیادت کے ارکان کا درجہ رکھتی ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار ابھی پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يٰیَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ﴾

’’(اللہ نے فرمایا:)  اےیحییٰ! کتاب کو قوت سے پکڑ لو۔‘‘ (مریم 12:19)

اس کا مطلب نہایت احسن انداز میں پوری توجہ اور اہتمام سے لینا ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَاَعِدُّوْالَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾

’’تم ان کے مقابلے کے لیے جتنی کر سکو، قوت تیار کرو۔‘‘ (الأنفال 60:8)

بلا شبہ معتدل اور منصفانہ قوت قوم وملت کو محفوظ رکھتی ہے۔ انسان کی معاون ہے۔ حرمتوں کا بچاؤ کرتی ہے۔اموال کا دفاع کرتی ہے۔ حق کے لیے باعث نصرت اور باطل کا قلع قمع کرتی ہے۔

……………..