توحید

بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَلْ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللهُ فَلَامُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتَهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ. أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿ قُلْ هُوَ اللهُ أحَدٌ٭ اللَّهُ الصَّمَدُ٭ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ٭ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (اخلاص)
’’الله تعالی فرماتا ہے (کہہ دیجیے کہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی اس کا ہم جنس ہے۔ ‘‘
اس آیت کریمہ کے شان نزول کے متعلق مسند احمد میں ہے کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ آپ اپنے رب کے اوصاف بیان کیجئے تو اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی کہ اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے نہ وه والد ہے نہ مولود ہے نہ اس کا کوئی شریک وہم جنس ہے۔
(ترمذی: 221/4 کتاب التفسير باب تفسير سورة الاخلاص رقم الحديث 3364)
اس آیت سے خدا کی وحدانیت اور یکتائی ثابت ہوتی ہے یعنی اللہ تعالٰی اپنی ذات وصفات میں اکیلا ہے ان باتوں میں اس کا کوئی ساتھی نہیں ہے نہ اس کے برابر کوئی ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں بلکہ سب اس کے محتاج ہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے کوئی چیز اس کو عاجز نہیں کر سکتی۔ وہی غیب جانتا ہے وہ کسی کے مشابہ نہیں۔ اس کی ذات وصفات کے ساتھ کوئی حادث قائم نہیں ہے اور نہ اس کی ذات وصفات میں حدوث ہی ہے وہ اپنی ذات وصفات و افعال میں یکتا ہے وہ عالم سے جدا ہے وہ سب کا خالق ہے اس لیے وہ ہر قسم کی عبادتوں کا مستحق ہے اس توحید کی تعلیم کے لیے اللہ تعالی نے تمام رسولوں اور نبیوں کو بھیجا اور ہر ایک نبی اور رسول نے یہی تعلیم دی۔
چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ) (الأنبياء:25)
(اے ہمارے نبی ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے سب کو یہی حکم دیا تھا کہ میں ایک اکیلا ہی عبادت کے لائق ہوں تم صرف میری عبادت کرتے رہنا۔)
﴿وَاِلٰهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ﴾ (البقرة:163)
(لوگو! تمہارا صرف ایک ہی خدا ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ بہت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے۔)
﴿وَقَالَ اللهُ لَا تَتَّخِذُوا اِلٰهَيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَّاحِدٌ فَإِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ﴾ (النحل:51)
(اور اللہ نے فرمایا دو معبود (خدا) نہ بناؤ بس وہ ایک ہی خدا عبادت کا حق دار ہے تم مجھ ہی سے ڈرو)
﴿قُلْ إِنَّمَا يُوحٰى إِلَّى أَنَّمَا إِلٰهُكُمْ إِلَهٌ وَّاحِدٌ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ (الانبياء:108)
(کہہ دو بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا صرف ایک ہی خدا عبادت کے لائق ہے تو اب مسلمان بن جاؤ۔)
﴿وَمَا مِنْ إِلٰهٍ إِلَّا اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ (سورة ص: 65)
(اور وہ ایک خدا عبادت کے لائق ہے جو سب پر قابو پانے والا ہے۔)
﴿سُبْحَانَهُ هُوَ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ (زمر: 4)
(پاک ہے وہ تو اکیلا ہے اور سب پر دباؤ رکھنے والا ہے۔)
اس قسم کی اور بہت سی آیتیں قرآن مجید میں ہیں جن سے اللہ کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کو اس کی ذات وصفات کاملہ میں یکتا اور بے مثل ماننے کا نام توحید ہے ایسی توحید صرف مذہب اسلام ہی میں پائی جاتی ہے چنانچہ دنیا میں اسلام کے سوا جتنے مذاہب ہیں یا تو ان میں سرے سے توحید ہی نہیں ہے یا ہے تو ناقص۔ مثلاً مجوسی یزدان اور اہرمن دو خداؤں کو مانتے ہیں اور اپنے اس عقیدے کی بنا پر کہتے ہیں کہ یزدان خیر کا مالک ہے اور اہر من شرکا ۔ یہودی لوگ حضرت عزیر علیہ السلام کی ابنیت کے قائل ہیں یعنی یہ کہ نعوذ باللہ یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ عیسائی حضرات میں کئی خدا ہیں کچھ لوگ عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں یعنی یہ کہ خدا مسیح اور روح القدس تینوں مل کر خدا میں ایک تین ہے اور تین ایک ہے اور کچھ حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے قائل ہیں یعنی یہ کہ نعوذ باللہ حضرت خود خدا تھے۔ آریہ صاحبان پرمیشور کے ساتھ ساتھ روح اور مادہ کے قائل ہیں جو خدائی شان کے خلاف ہے سناتن دھرمی لوگ سینکڑوں دیوتاؤں کی پرستش کے قائل اور پرہمابشن مہادیو کو ایشور کا نائب بلکہ مالک اور مختار کل سمجھتے ہیں بخلاف اس کے مذہب اسلام میں عقیدہ توحید کی بہت اہمیت اور تاکید ہے۔
توحید کی قسمیں
رسول اللہﷺ کے زمانہ رسالت میں یہی تین قسم کے بڑے گروہ موجود تھے جو اپنی اختیار کردہ غلط راہ توحید کو اپنا دین وایمان سمجھ رہے تھے اس لیے رب العزت نے ان سب غلط اعتقادوں کی جو مسئلہ توحید کے متعلق پیدا ہو سکتے تھے اور ہو چکے تھے کافی طور پر تردید کی اور لوگوں کو تو حید فی الذات اور توحید فی الصفات اور توحید فی العبادات کی ایسی تعلیم دی جس سے اس کی خالص اور مکمل تو حید کا مبارک اعتقاد ذہن نشین ہوا۔
توحيد في الذات
اللہ تعالی کی ذات کو سب عیوب ونقائص سے خالی اور بے مثل ماننے کا نام تو حید ذاتی ہے اور اس توحید کی تکمیل دو امور پر موقوف ہے ایک امر یہ کہ اللہ جل شانہ کی ذات کو مختلف اور متعدد اجزاء سے مرکب اور مجسم تسلیم نہ کیا جائے یعنی اللہ تعالی ایک ہے اس لحاظ سے وہ مرکبات کی طرح اجزا سے مرکب نہیں ہے قرآن پاک نے خدا تعالیٰ کی ذات مرکب مجسم نہ ہونے کی تعلیم دی ہے اور جو لوگ خدا کی نسبت مجسم اور مرکب ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے مختلف پیرایوں میں ان کی تردید کی اور تمام دنیا کو آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو مجسم اور مرکب ماننے کا اعتقاد را بھی صحیح نہیں ہے۔
توحید فی الصفات
وہ تمام کمال کی صفتوں سے موصوف ہے کوئی شے اس سے پوشیدہ نہیں ہے بلکہ وہ دیکھتا ہے سنتا ہے کلام کرتا ہے وہ زندہ ہے تمام ممکنات اور مخلوقات پر اس کو پوری قدرت حاصل ہے اس نے ہی تمام چیزوں کو اپنے ارادے سے پیدا کیا ہے وہی زندہ کرتا ہے وہی مارتا ہے وہی قابل پرستش ہے وہی لائق عبادت ہے وہی روزی دیتا ہے وہی دعا قبول کرتا ہے وہی عزت دیتا ہے وہی ذلت دیتا ہے وہی مریضوں کو شفا دیتا ہے وہی مصیبتوں کو ٹالتا ہے وہ گناہ گاروں کو بخشنے والا ہے برائی بھلائی دونوں کا پیدا کر نیوالا ہے لیکن نیکی سے راضی اور بدی سے نا خوش ہوتا ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں دو عالم کی حفاظت سے تھکتا نہیں نہ وہ سوتا ہے نہ وہ اونگھتا ہے اس نے سب کو پیدا کیا ہے وہی جب چاہے گا سب کو فنا کر دے گا پھر سب کو قیامت کے دن پیدا کرے گا اورحساب کتاب لے گا۔ نیک بندوں کو جنت میں اور بدوںکو دورخ میں داخل کرے گا۔
توحید فی العبادت
باری تعالی کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا غیر اللہ میں کسی کو عبادت کے لائق نہ جانا اور اس کے سوا کسی کے آگے نہ جھکنا اور سجدہ کرنا اور نہ کسی کی تسبیح و تحمید پڑھنا یہ توحید فی العبادت ہے اسکے خلاف کرنا شرک فی العبادت ہے شرک کی پوری تفصیل وتر دید آئندہ انشاء اللہ بیان کی جائے گی۔
اسلام نے ابتداء آفرینش سے انتہا تک یہی کوشش کی ہے کہ شروع سے آخر تک توحید ہی پر قائم رکھا جائے اور ازل میں اس کا اقرار کیا تھا پھر دنیا میں آنے کے بعد اس کی پابندی کا حکم دیا چنانچہ حکم ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان اور اقامت کہو۔
(سنن ابی داود:488/ 4 كتاب الادب باب في المولود يؤذن في اذنه و ترمذی 362/2- رقم الحديث:517 )
اور جب بولنے لگے تو پہلے تو یا اللہ سکھا اور کچھ ہوشیار ہو تو کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنا سکھاؤ جس کے معنی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسولﷺ ہیں۔( لم اجد)
پھر حکم ہوتا ہے کہ جب لڑکا لڑکی سات برس کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز پڑھاؤ۔
(ابو داؤد: 185/1 كتاب الصلاو. باب ما يؤمر الغلام بالصلاة رقم الحديث 494، 495)
اور جب دس برس کے ہو جائیں تو تاکید سے پڑھاؤ جس میں شروع سے آخر تک دیگر امور کے علاوہ خصوصیت سے توحید پائی جاتی ہے۔ مولانا حالی مرحوم نے کیا ہی خوب نقشہ کھنچا ہے۔
ہے اک ذات واحد عبادت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق
اس کی ہے سرکار خدمت کے لائق اس کے ہیں فرمان اطاعت کے لائق
لگاؤ تو لو اپنی اس سے لگاؤ جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
اسی پر پر ہمیشہ بھروسہ کروتم اس کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈروگر ڈرو تم اس کی طلب میں مرو گر مرو تم
مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی نہیں اس کے آگے کسی کی بڑائی
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچی توحید پر قائم رکھے۔ آمین۔
(وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)